
پلوشه سے سکینه تک!
تحریر: محمد زکی حیدری
میں پلوشه هوں, آج بڑی هوگئی هوں لیکن مجھے یاد هے میں نے بچپن کسمپرسی کی حالت میں گذارا, همارا خاندان افغانستان سے کراچی آیا. میں, عائشه, عمرگل, گلزیب کزنس تھے. هم سارا دن کراچی کی گلیوں میں کاغذ جمع کرتے تھے جس سے همیں گذارے لائق پیسه مل جاتا. بچپن میں اس کام کے علاوه ھرروز کا دوسرا کام یه هوتا که مدرسے میں قرآن پڑھنے جاتے جهاں تعلیم سے زیاده مولوی کی مار زیاده کھانے کو ملتی.
اس مولوی نے همیں سختی سے منع کیا تھا که جب هم شھر میں کاغذ چننے جائیں تو کهیں سے بھی کچھ لے کر کھا لیں مگر جس عمارت کے اوپر کالا پرچم لگا هو اس کا دیا هوا کھانا نه کھائیں, کیونکه وه لوگ چھوٹی بچیوں کو پکڑ کر, انهیں ذبح کر کے دیگ میں ڈال دیتے هیں. هم نے مولوی صاحب کی بات اپنے دل پے لکھ لی, اس بات کے بعد میں اور عائشه تو کالے پرچم والے گھر کو دیکھ کر هی کانپ جاتے تھے. همیں, یعنی صرف مجھے اور عائشه کو هوٹل والے ایک انکل روز بچه هوا کھانا دے دیا کرتے, جسے هم ھوٹل کے کونے یا فوٹ پاتھ پر هی بیٹھ کے کھالیا کرتے اور سیر هو جایا کرتے.
ایک دن سخت ھڑتال تھی, پورے کراچی میں ایک بھی دکان کھلی هوئی نهیں تھی. یه محرم کا مھینه تھا , مجھے اچھی طرح یاد هے دن کے تین بجے کا وقت تھا همیں سخت بھوک لگی هوئی تھی, کیونکه ھڑتال تھی اس لئے عمر گل اور گلزیب کو بھی کهیں سے کھانا نصیب نهیں هوا تھا لھذا وه بھی خالی شکم لے کر همارے ساتھ هوگئے. هم بھوک سے مارے مارے پھر رهے تھے, گلزیب هم سب میں سے بڑا بھی تھا اور تیز بھی, وه ایک لحاظ سے همارا رهنماء تھا جو وه کهتا همیں قبول کرنا هوتا. گلزیب نے همیں کها که اگر هم لوگ گھر جاکر کسی کو یه بات نه بتائیں تو وه همارے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا هے. هم نے شدت بھوک کی وجه سے اسے یقین دلایا که وه کهیں سے بھی کھانا لا دے وه جو کهے گا هم کریں گے. پهلے تو همیں شک هوا که شاید گلزیب کهیں سے کھانے کی کوئی چیز چرانے کی سوچ رها هے, اس لئے همیں منه بند رکھنے کی تاکید کر رها هے. مگر اس نے همیں اپنے ساتھ آنے کو کها.
هم ایک بڑی عمارت کے سامنے پهنچے, جس کے اوپر بھت سارے چھوٹے چھوٹے اور ایک بھت بڑا سیاه پرچم نصب تھا اس بڑے پرچم پے لوھے کا, پانچ انگلیوں والا هاتھ... مجھے عائشه نے ڈری سهمی و پریشان نگاهوں سے دیکھا شاید اسے مدرسے کے مولوی کی بات یاد آئی تھی, بات تو مجھے بھی یاد تھی سیاه پرچم .... اور اس پر اتنا بڑا هاتھ مجھے ڈر لگا. میں نے دل هی دل میں سوچا گلزیب کیوں همیں اس طرف لے جارها هے, کیا وه چاهتا هے که همیں ان کالے کپڑے والوں کے حوالے کر کے اپنے لیئے اور عمر کیلئے کھانا لے لے. نهیں گلزیب ایسا نهیں! سوچوں کے سلسلوں سے هماری ٹانگوں کی حرکت میں قدرے کمی آگئی تھی.
"زر راشه... زر راشه!!!" پشتو میں گلزیب نے هم ڈانٹتے انداز میں کها که جلدی آؤ . هم تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے جانے لگے. عمارت کے بڑے سے دروازے پر پهنچے تو گلزیب وهاں کھڑے هوئے ایک کالے لباس میں ملبوس بندے کے پاس گیا اور اسے هاتھ جوڑ کر کچھ کها. اس نے گلزیب کو رکنے کو کها خود اندر گیا. اتنے میں عمارت کے بڑے دروازے سے ایک لاٹھی کے سهارے چلنے والے ,عمررسیده بزرگ نکلے اور انهوں نے گلزیب کو اندر آنے کو کها, شاید گلزیب انهیں جانتا تھا. گلزیب کا چهره خوشی سے دمک اٹھا اور اس نے خوشی خوشی همیں بھی اندر آنے کو کها. هم سب اس بزرگ کے پیچھے پیچھے چل دیئے. عمارت عجیب تھی, باھر کی شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ سے جب همارے قدم اس عمارت کے ٹھنڈے ماربل والے فرش پر پڑے تو پورے جسم میں ٹھنڈک و سکون کی ایک لهر سی دوڑ گئی. سامنے ایک ھال تھا اس میں کالے کپڑوں والے بھت سے لوگ تھے اور سب ایک شخص کی تقریر سن رهے تھے. یه سب لوگ اچانک شور بھی مچانے لگتے , واه واه بھی کرتے اور نعرے بھی لگاتے... عمارت کے ایک کونے میں جاکر اس بزرگ نے همیں فرش پر بٹھا دیا اور خود پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گئے .
پوری عمارت سے گلاب و اگر بتیوں کی خوشبوء آرهی تھی, وه بزرگ گل زیب سے بڑے پیار سے بات کر رهے تھے اور همیں بھی شفقت بھری نگاهوں سے دیکھ رهے تھے.اتنے میں کالے کپڑوں میں ملبوس ایک جوان نے گرم بریانی سے بھرا هوا بڑا سا تسله لا کر همارے سامنے رکھ دیا. "کھاؤ میرے بچو میرے مظلوم مولا کی نیاز" اس بزرگ نے کها. هم نے کھانا دیکھا تو بھوک کی وجه سے ان کی نه سنی اور کھانا کھانے میں جت گئے. ابھی هم کھانا کھا هی رهے تھے که سامنے ھال, جس میں بھت سارے لوگ تھے, سب رونا شروع هو گئے ادھر اس بزرگ کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے. هم ڈر گئے. بزرگ نے همارے ڈر کو بھانپ لیا اور تسلی آمیز انداز میں مسکرائے ,حالانکه اشک ان کی آنکھ سے اسی طرح جاری تھے.
جب هم کھانا کھا چکے تو وه بزرگ همیں باھر لے آئے اور جو بات انهوں نے باھر آکر هم سے کهی وه مجھے آج تک یاد هے. اس نے میرے اور عائشه کے سر پر پیار سے هاتھ پھیرا, اشکبار آنکھوں سے کها "میری بچیو! یه سب لوگ جو ھال میں رو رهے هیں یه اس لئے که آج سے بھت سال قبل ایک رحمدل انسان تھا جس کا نام حسین تھا اس کے دشمن نے اسے مار ڈالا, اس کی ایک تمهاری هی عمر کی بیٹی تھی, دشمن نے اسے طمانچے مارے جب که وه تین دن کی پیاسی تھی, پهر چادر چھین کر رسیوں سے جکڑ کر بازاروں میں لے گئے. اس کا نام سکینه تھا.... یه جو بریانی تم نے کھائی اسے اس ننھی سکینه (س) کی طرف سے تحفه سمجھنا.!!!
هم نے وه عمارت چھوڑی, میں اور عائشه جب بھی تنهائی میں بیٹھتیں تو اس بزرگ کو دعائیں دیتیں اور سکینه کو یاد کرتیں که جب هم ایک وقت کی بھوک برداشت نهیں کر پارهی تھیں تو اس بیچاری نے کیسے پیاس برداشت کی هوگی. آج میں بڑی هوں مجھے یه سیاه پرچم اس مھربان بزرگ کا کالا لباس اور پرچم پے لگا هوا لوهے هاتھ اس بزرگ چاچا کا وه شفقت بھرا هاتھ یاد دلاتا هے, جو اس نے میرے اور عائشه کے سر پے پهیرا. اب یه سیاه پرچم اور پنجه مجھے اپنے لگتے هیں... آج میں صاحبائے اولاد هوں, مجھے الله (ج) نے بیٹی دی هے اس کا نام میں نے سکینه رکھا هے.
www.fb.com/arezuyeaab