یہ منہ مسور کی دال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

😏 یہ منہ اور مسور کی دال 😏

ازقلم: محمد زکی حیدری


اسی نا روندیں گَل مُک ویندی!!!
(ہم نہ روتے تو بات یعنی حسین ع ختم ہو جاتے)

یہ بات ایک ذاکر و نوحہ خوان جو بیچارہ ان پڑھ ہے، نے کہہ دی تو کہہ دی لیکن یقین مانیئے درحقیقت ہم سب کا یہ ہی عقیدہ ہے کہ اگر ہم عزاداری نہ کرتے تو حسین (ع) کا نام و نشان باقی نہ رہتا. (نعوذباللہ)

عجب!!! 💡

او بھائی ساڑھے تین سو سال قبل مسیح یعنی حضرت عیسیٰ (ع) سے بھی تین، ساڑھے تین سو سال قبل یونان میں تین افراد سقراط، افلاطون و ارسطو منظر عام پر آتے ہیں، یہ لوگ نہ پیغمبر تھے نہ کتاب لائے، نہ گدی نشین تھے نہ مرید رکھتے تھے، یہ تینوں فلسفہ لائے وہ بھی ایسا کہ اس وقت کے مُلا بھی ان کے خلاف ہوگئے، حکومت بھی خلاف، عوام بھی خلاف، شرفاء بھی ان کے خلاف، پورا معاشرہ مل کر ان کے نام کو مٹانا چاہتا تھا مگر پھر بھی آج تک ان کا نام و کام و فلسفہ زندہ ہے.

کیا ارسطو کا نام اور اس کا فلسفہ اس لیئے زندہ ہے کہ اس کیلئے ھر سال ماہ محرم کی طرح جلوس نکلتا تھا؟ کیا ارسطو کی قبر اس کے مداحوں کی آماجگاہ تھی؟ کیا ارسطو کیلئے عشرۂ مجالس ہوا کرتا تھا؟
یا پھر یا ارسطو! یا ارسطو! کر کے اس کے چاہنے والے اپنی پیٹھ زنجیر و چھریوں سے لال کر دیتے تھے اس وجہ سے ارسطو کا نام و فلسفہ زندہ رہا... ؟؟؟

*اگر ارسطو کے نام و فلسفہ کو زندہ و جاوید رہنے کیلئے عزاداروں و پرسہ دینے و رونے والوں و جلوس و عماری و پیدل اس کی قبر پہ جانے کی ضرورت نہیں تو کیا حسین (ع) ارسطو سے بھی گئے گذرے ہیں کہ ہم نہ روتے تو چودہ سو سال کے اندر حسین (ع) جیسا معلمِ و محسن انسانیت لوگوں کے اذھان سے گم ہوجاتا!!!*

حسین (ع) کی شخصیت ہمارے جلوسوں کی محتاج نہیں، آپ بند کر دیں عزاداری پھر بھی حسین (ع) زندہ رہے گا. حسین (ع) دنیا کے کسی بھی زمان، کسی بھی مکان، کسی بھی ازم کے امام ہوتے زندہ و جاویدان رہتے. *ہم حسین (ع) کے محتاج ہیں حسین (ع) ہمارے محتاج نہیں*
عزاداری بیشک کریں اہانت مت کریں، ایک لمحے کیلئے بھی اگر دل میں یہ خیال آیا کہ میری عزاداری سے حسین (ع) کا نام مٹنے سے بچ رہا ہے تو یہ آپ نے شرک کیا. جی! کیونکہ حسین (ع) کو اللہ(ج) نے زندہ رکھا ہوا ہے. "مصباح الھدیٰ" ہیں حسین (ع)، ھدایت کا چراغ جسے اللہ (ج) نے عصمت و تقوا و شجاعت و رضی بقضا و ایثار و مقاومت و... کا تیل ڈال کر اسے ہمیشہ ھدایت انسانیت کیلئے روشن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس چراغ میں تیل ڈالنے والے ہم ہیں، کیا یہ شرک و اہانت نہیں؟

ہماری عزاداری کی وجہ سے حسین(ع) زندہ ہیں!!! ہماری و ہماری عزاداری کی اوقات ہی کیا ہے بھائی، اس سے حسین (ع) کو زندہ رکھنے چلے ہو! جاؤ صاحب یہ منہ اور مسور کی دال😏

جوانو! کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جوانو! کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟


از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

میرا ایک دوست اچھا خاصہ یونیورسٹی کا پڑھا لکھا جوان، ملنگوں کی صحبت میں آکر ذاکر و خطیبوں کو ہی دین سمجھنے لگ گیا. اس کا موبائل مشہور خطیب ناصر ملتانی کی تقریروں سے بھرا ہوتا، کڑے وڑے پہنا بھی شروع کر دیئے تھے، پیروں میں بھاری بیڑی وغیرہ. جب ملتا ناصر ملتانی کی تعریفوں کے بند باندھ دیتا، اس کے بعد دوسرے ذاکروں کی تعریف! ایک دن برابر والے امام بارگاہ میں "بڑے پمفلیٹ والی" مجلس تھی. سارے مشہور خطیب و ذاکر آئے ہوئے تھے میرے اس دوست نے کہا "چل آج چل کر سن کہ فضائل کہتے کسے ہیں." میں نے سوچا چلو فارغ ہیں ہو ہی آتے ہیں.
بانی مجلس کا بیٹا میرے دوست کے ساتھ پڑھتا تھا سو ہمیں اس ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا جہاں سارے خطیب اور چھوٹے چھوٹے ذاکر اپنی مجلس کی باری آنے کے منتظر تھے.
میں نے سوچا میرے دوست کی عقل ٹھکانے لگانے کا آج اچھا موقع ہے. میں نے سامنے بیٹھے سب سے بڑے خطیب سے پوچھا: "علامہ صاحب ہم بچپن سے ایک حدیث سنتے ارہے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا "اِختِلافُ اُمَّتی رَحمَةٌ" میری امت کا اختلاف رحمت ہے.
یا بقول کچھ لوگوں کے علماء کا اختلاف رحمت ہے.
اس کا کیا مطلب ہے، رسول (ص) اختلاف کو رحمت کیوں کہہ رہے ہیں، کیا جس عالم دین کو رحمت چاہیئے وہ دوسرے عالم سے اختلاف کرے تب ہی مورد رحمت قرار پائے گا؟
سب میری طرف متوجہ ہوئے.
خطیب صاحب نے فرمایا: بھئی یہ اہلسنت کی حدیث ہے اھل تشیع اسے مستند نہیں مانتے. میں نے کہا میرے پاس سند ہے پیش کروں؟
خطیب نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا، اتنے میں دوسرا جناح ٹوپی اور سیاہ مفلر والا خطیب بولا دیکھیئے پہلی بات تو اس میں لفظ علماء سے مراد ہر وہ انسان ہے جو اھلبیت (ع) کے بارے میں علم رکھتا ہو لازم نہیں کہ وہ عمامے والا مولوی ہو.
میں نے کہا ٹھیک!
پھر انہوں نے فرمایا: اگر آپ غور کریں تو یہ حدیث تو اھلبیت (ع) کا علم رکھنے والوں یعنی علماء کی فضیلت بیان کر رہی ہے *کہ ذکر اھلبیت (ع) کرنے والے سرکار محمد (ص) کو اتنے پیارے ییں کہ ان کے اختلاف کو بھی رحمت کہا گیا ہے* یہ اختلاف تو افتخار ہے!!!

یہ سن کر وہاں بیٹھے باقی لوگ اور اس خطیب کے چیلے واہ واہ جیو جیو شاہ جی کرنے لگے.
میں نے مسکرا کر کہا: حدیث کی یہ تشریح جس امام (ع) نے کی ہے اس کا نام بتا سکتے ہیں آپ، کیونکہ عجیب بات ہے قرآن اتحاد کی بات کرتا ہے نبی (ص) اختلاف کو رحمت کہہ رہے ہیں...!!!
یہ کیسے ممکن ہے؟

اس پر ایک چیلا کہنے لگا "پاجی آپ شک کر رہے ہیں، شاہ جی نے اتنا اچھا جواب دیا ہے. اھلبیت (ع) کے فضائل پر شک کرنے والا معاویہ کی اولاد ہوتا ہے شک نہ کریں"
سارے ھنسنے لگے اتنے میں ایک بندہ آیا بڑے خطیب کو باعزت و احترام جلسے میں لے گیا، سارے اس کے پیچھے چل دیئے.

میرا دوست بھی مجھ پہ تحقیر آمیز لہجے میں ھنستا رہا. جب جلسہ ختم ہوا اور میں اور میرا دوست گھر لوٹنے لگے تو میں نے *جیب سے موبائل نکالا اس حدیث کی تشریح کے بارے میں سوال ایک مرجع تقلید کی ویب سائیٹ پر ڈال دیا*. شام کو جواب آیا دیکھا تو کچھ اس طرح کی تشریح آئی.

عربی زبان میں لفظ "اختلاف" کے معانی بہت ہیں جیسے: جانشین، کسی کے بعد آنا، کسی کو پشت سے پکڑنا وغیرہ ان میں سے ایک ہے *آمد و رفت* یا آنا جانا.
جیسے قرآن سورہ آل عمران کی آیت ۱۹۰ میں فرمایا ہے :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ *وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ* لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ:
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں.

اب اس حدیث پیغمبر (ص) میں اختلاف کی معنی آمد ورفت کی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا میری امت کا ایک دوسرے کے ساتھ آمد و رفت رکھنا رحمت ہے.
اس کے علاوہ پرانے دور میں لوگ رسول (ص) کے پاس علمی سوالات پوچھنے آیا کرتے تھے اور بعد میں اپنے علائقے میں جاکر یہ دین کی باتیں عوام کو بتاتے تھے. اس علماء اور امت کے حصول علم کیلئے رسول (ص) کی بارگاہ میں *آمد و رفت* کو اختلاف کہا گیا ہے. امام جعفر صادق (ع) نے بھی اس حدیث میں موجود لفظ اختلاف کی ایسی ہی تفسیر کی ہے (۱)

میں نے وہ جواب اپنے دوست کو واٹس ایپ کردیا
کہ دیکھو جب علم نہ ہو تو یہ ہوتا ہے یعنی تفرقۂ امت کو رحمت سمجھ لیا جاتا ہے اور اسے رسول (ص) سے منسوب کیا جاتا ہے. (نعوذ باللہ)
سو آپ جوانوں سے بھی دست بستہ گذارش ہے کہ جنہیں نہ عربی آتی ہے نہ انہوں نے عربی پڑھی ہے، صرف سنے سنائے فضائل یاد کر کے واہ واہ والی مجلس پڑھتے ہیں، ان کے جھانسے میں نہ آئیں. ایک بانی مجلس جو ایک خطیب کو لاکھوں روپے دے اور وہ اتحاد کے داعی رسول (ص) کو ایک منٹ میں تفرقے کا داعی بنا دے، (نعوذباللہ) تو اس اہانت کو پھیلانے میں بانی مجلس بھی شامل ہے اور ہم جو سن کر واہ واہ کرتے ہیں وہ بھی شامل ہیں. یہ لوگ منبر رسول(ص) پر بیٹھ کر رسول (ص) کی اہانت کرتے ہیں اور بانی مجلس کی جیب بھی خالی کر جاتے ہیں نہ دینی فائدہ نہ دنیاوی. لہٰذا اب سوچیں، فکر کریں. فضائل کے نام پہ اھانت قبول کر کے آپ کون سی جنت کما رہے ہیں. سوچیں! *دماغ کی بتی جلائیں قبل اس کے کہ ہماری قبر پہ اگربتی جلے*. انٹرنیٹ کا دور ہے تقریبا ھر مرجع تقلید کی ویب سائیٹ پر اردو میں سوال جواب کی سہولت موجود ہے تو ہم کیوں نہ اس سے استفادہ کریں، کیا ہم دین حاصل کرنے کیلئے اتنا بھی نہیں کرسکتے؟


حوالہ: (۱) وسائل الشیعة 18/101

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

 

معشوق حسین (ع) کو پہچان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

💡 معشوقِ حسین (ع) کو پہچان 💡


ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری


امام حسین (ع) نے *اســــــلام* بچانے کیلئے اپنے آپ کو قربان کر دیا کہ اسلام زندہ رہے. ہم حسین (ع) کو زندہ رکھنے کیلئے *اســـــــلام* کو قربان کر دیتے ہیں.

یہ کہاں کا انصاف ہے عزادار!!!

کیا وہ حسین (ع) ہم سے خوش ہوں گے کہ جس نے اپنی اولاد کو گھوڑوں کی سموں کے نیچے ڈال دیا کہ اسلام زندہ رہے اور ہم آج *اســــــــلام* کو گھوڑوں کی سموں کے نیچے ڈال کر دعوا کرتے ہیں کہ ہم حسین (ع) کو زندہ کر رہے ہیں...!!!

امام خمینی (رض) نے فرمایا: *اســـــــــلام* اتنــــا اہـــــم ہـــے کـــہ جـــــس پـــــہ حســــــــین (ع) جیســــے قـــــربان کیئے جا سکـــــتے ہیــــں.

اور ہم ہیں کہ کہتے ہیں حسین (ع) اتنا اہم ہے کہ اس پہ *اســـــــلام* قربان!!!

پہلے تو ہم تھوڑی بہت نماز ادا کرتے ہیں لیکن جوں ہی محرم یا جشن و میلاد کے دن آئے ہم نے نماز چھوڑ دی. عزاداری کرنی ہے، حسین (ع) حسین (ع) کرنا ہے!!! جشن کرنا ہے، علی علی (ع) کرنا ہے، نماز کیلئے وقت نہیں تیاری میں مصروف ہوں....

💡بتی جلا عزادار!!!
💡دماغ کی بتی جلا!!!
حسین (ع) کو سب سے پیارا ہے *اســــــــلام* .... ہم یہ دعوا نہ کریں کہ زینب (س) کی چادر کا غم ہمیں زیادہ ہے، نہیں نہیں نہیں!!! حسین (ع) سے زیادہ زینب (ع) کی چادر ہمیں پیاری نہیں، تو جب حسین (ع) نے اس چادر کو ہی اسلام پہ قربان کر دیا تو میں اور آپ اس چادر کی یاد کو *اســــــلام* پر قربان نہیں کر سکتے. ؟

علی اکبر (ع) سے مجھے و آپکو زیادہ عشق ہے یا حسین (ع) کو؟ حسین (ع) نے *اســـــــلام* پر علی اکبر (ع) کو قربان کر دیا تو کیا ہم یادِ علی اکبر (ع) کو اسلام کیلئے قربان نہیں کر سکتے؟

حسین (ع) نے بتایا *اســــــلام* اہم ہے...
*اســـــــــلام* پر جب خود حسین (ع) و حسین (ع) کا کنبہ قربان تو پھر بتا ہماری عـزاداری اگر اسلام کے مقابلے میں آجائے تو کیا حسین (ع) اسلام کو ایک طرف رکھ کر ہماری عزاداری کو قبول کریں گے؟؟؟

ہمارے جشن غدیر، ہمارے جشن مولود کعبہ، ہماری عیدیں، ہماری اولاد، ہماری شادیوں کی تقاریب، ہمارے کمانے کے طریقے، ہماری نوکری، ہماری تنخواہ... اگر *اســــــلام* کے مقابلے میں آجائیں تو کیا حسین (ع) ہم سے خوش ہوں گے؟.

اے عزادار! میرے بھائی عزادار!
تو اسلام کو کم مت سمجھ...

👇🏽👇🏽👇🏽👇🏽
*حســـــــــــــین (ع) اســــلام کے عــاشــــــق ہیں، اســــــــلام حســــین (ع) کــا معشــــوق ہے.... معـــــشوق کو کــــم اہمیت دے کــــر ہم کبــــھی بھی عاشــــــق کو راضـــــی نہیں کرسکـــــتے میـــــرے بھائی!*

👆🏽👆🏽👆🏽👆🏽👆🏽👆🏽👆🏽

سوچ میرے بھائی سوچ.... حسین (ع) کے معشوق کو پہچان، اسے اہمیت دے تب ہی حسین (ع) خوش ہوں گے.

_arezuyeaab.blogfa.com_
💡💡💡💡💡💡💡💡

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


بچپن سے سنتے آ رہے ہیں

ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

*رسول (ص)* نے فرمایا بھائی بات سنو بت وت خدا نہیں، اللہ (ج) ایک ہے بس بت پرست چھوڑ دو!
*بولے* یہ کیا بات ہوئی ہم بچپن سے باپ دادا سے سنتے آ رہے ہیں بت خدا ہیں!

*علی (ع)* نے فرمایا دیکھو نبی (ص) نے اپنا جانشین مجھے بنایا تھا تو تم نے کیوں چنا؟
*بولے* یہ کیسے بھلا ہم تو بچپن سے سن و دیکھ رہے ہیں کہ بزرگ بابا ہی قبیلے کا قائد بنتا ہے. جیئے ابوبکر!

*زہراء (س)* نے کہا فدک میری وراثت ہے
*بولے* ھھ! یہ کیسے، ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ عورت کا ملکیت میں حصہ وصہ نہیں ہوتا!

*حسن (ع)* نے فرمایا معاویہ صلح کرنا چاہتا ہے
*بولے* ہم بچپن سے بنی ھاشم و بنی امیہ کی دشمنی سنتے آ رہے ہیں صلح کیسی

*حسین (ع)* نے فرمایا میں یزید کی بعیت نہیں کرونگا
بولے یہ بھلا کیسے ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ جس کی سارے بعیت کریں اس کی ہمیں بھی کرنی چاہیئے.

*امام مہدی (عج)* نے کہا میرے بعد دینی مسائل کا حل علماء سے لینا
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ *صرف* امام معصوم کی پیروی!

*ارے بھائی* بیبی صغری (س) کربلا میں تھی مدینہ میں بیمار نہیں.
*بولے* یہ بھلا کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ وہ مدینہ میں تھی.

*بھائی* جناب قاسم (ع) کی شادی بھلا جنگ کے دوران کیسے ہو سکتی ہے
*بولے* ہم بچپن سے مہندی نکال رہے ہیں.

*ارے میاں* خلیفوں پہ سرعام لعنت مت کرو نفرت پھیلتی ہے میڈیا کا دور ہے. دشمن شیعہ سنی فساد کراتا ہے.
بولے ہم بچپن سے کرتے آ رہے ہیں

ارے بھائی *کل یوم عاشورا کل عرض کربلا* ایک شاعر کا قول ہے. معصوم (ع) نے تو فرمایا لا یوم کیومک یا ابا عبداللہ.
تیرے دن (عاشورا) جیسا *کوئی بھی* دن نہیں اے حسین!
تو ہر دن کیسے عاشورا ہوگیا
*بولے* ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں.

برادر اویس قرنی (رض) کے دانت شہید کرنے والا واقعہ شیعہ کتب میں نہیں ملتا
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ دانت توڑے!

پیارے بھیا اس دور میں زنجیر زنی و آگ کا ماتم مت کرو میڈیا اسے تمہارے خلاف استعمال کرتا ہے
شیعیت بدنام ہوتی ہے
*بولے* ہم بچپن سے کرتے آ رہے ہیں.


بھیا سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہو سکتا ہے.
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ سیدزادی کا نکاح غیرسید سے حرام ہے.

میاں نماز اور عزاداری ساتھ ساتھ چلاؤ.
*بولے* ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں عزادار حسین (ع) جہنم میں جائے گا ہی نہیں.

*موت....*
قبر میں منکر نکیر آ گئے سوال ہوگا من ربک، من دینک، من کتابک، من رسولک...
*بولیں گے* ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ ہمارے استقبال کیلئے 14 معصوم گفٹس لے کر کھڑے ہوں گے کہ ہم عزادار تھے.... یہاں تو حساب کتاب بھی ہے...
کاش ہم واپس جا سکتے اور سنی سنائی پہ یقین نہ کرتے.


وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے *اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں* اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں
*(سورہ انعام آیت 27)*

 

💡💡 *بتی مشورہ*💡💡

 

*ابھی بھی وقت ہے حقیقی دیندار بن جائیں، جس طرح ولایت علی (ع) کا انکاری قبر میں علی (ع) کو نہ پائے گا اسی طرح بے عمل انسان بھی امام علی (ع) کو قبر میں نہ پائے گا.*

*arezuyeaab.blogfa.com*

عابس شاکری پر قمعہ زنی کا الزام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

🔪🔪🔪 قمعہ زنی کرنے والے برادران کا ایک اور جھوٹ🔪🔪🔪

تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

 

بندہ حقیر برادران سے عرض کر چکا کہ آپ بیشک زنجیر زنی کریں، قمعہ زنی کریں، مہندی نکالیں، جو آپ کے مرجع تقلید نے اجازت دی ہے وہ کرنا ہے تو کریں. میں روکنے کا حق نہ رکھتا ہوں، نہ میں نے کبھی کسی کو روکا ہے، نہ روکوں گا (ان شاء اللہ)

لیکن 🙏🏽 خدا کا واسطہ غلط روایات و آیات پیش مت کیا کریں کہ ہم یہ کام اس لیئے کرتے ہیں کہ فلاں آیت یا روایت میں لکھا ہے. یہاں میں آپ کا راستہ روکوں گا.

اب ایک اور خیانت کی ہے آپ نے، *اس مندرجہ ذیل روایت کو بدل کر اس میں جھوٹ ڈال کر آپ نے سوشل میڈیا پر چلایا ہے.... کیا آپ کا سر اس تحریر کو پڑھ کر شرم سے جھک نہ جائے گا جب میں دو منٹ میں ثابت کردونگا کہ اصل روایت کیا ہے اور آپ نے کیا کیا "مرچ مصالحہ" ڈالا ہے*

یہ روایت ہے جو آپ نے "نمک مرچ"ڈال کر عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے سوشل میڈیا پر چلائی ہے
👇🏽👇🏽👇🏽

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺑﺲ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺷﺒﯿﺐ ﺷﺎﮐﺮﯼ ﺟﺐ کربلا میں ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ کی سمت ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮئے ﺗﻮ ﯾﺰﯾﺪﯼ ﻟﺸﮑﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ہر ﺳﻤﺖ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﻮﺍ - ﺗﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺑﺲ شبیب شاکری ﻧﮯ ﺍپنی ﺗﻠﻮﺍﺭ کو ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﻟﮩﻮ ﻟﮩﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
" ﺣﺐ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﺍﺟﻨﻨﯽ "
میں حسین کی محبت میں دیوانہ ہو گیا ہوں.
حوالہ جات:
لھوف، ابن طاووس صفحہ ۳۲۰ ، مقتل الحسین عبدالرزاق، المقرم صفحہ ۲۵۱، نفس المھموم ، شیخ عباس قمی انتشارات دار محجۃ البیضا صفحہ ۲۵۵، مقتل ابی مخنف صفحہ ۲۸۳


اور یہ ہے اصل روایت👇🏽👇🏽👇🏽

ثم قال عابس بن أبي شبيب : يا أبا عبد الله أما والله ما أمسى على ظهر الأرض قريب ولا بعيد أعز علي ولا أحب إلي منك ، ولو قدرت على أن أدفع عنك الضيم والقتل بشئ أعز علي من نفسي ودمي لفعلته ، السلام عليك يا أبا عبد الله ، أشهد الله أني علي هديك وهدي أبيك ثم مشى بالسيف مصلتا نحوهم وبه ضربة على جبينه .

ترجمہ:
اس کے بعد عابس بن ابی شبیب خدمت سید الشهداء میں پیش ہوئے اور فرمایا: یا ابا عبد اللہ! خدا کی قسم روئے زمین پر دور دور تک یا قریب میں آپ سے زیادہ عزیز یا محبوب مجھے کوئی بھی نہیں ہے. اگر ممکن ہوتا تو اپنی جان اور اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز چیز آپ پر قربان کر دیتا کہ آپ اس مشکل و شہادت سے بچ سکتے. سلام ہو آپ پر اے ابا عبداللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں آپ کی اور آپ کے والد کی راہ ہر ہوں. پھر وہ *برھنہ شمشیر* کے ساتھ ان کی (دشمنوں) کی طرف بڑھا *اس حال میں کہ ان کی 'پیشانی پر زخم کا نشان تھا* (۱)

اصل جملہ ہے کہ ان کی پیشانی پر نشان تھا بعض نے لکھا ہے کیونکہ عابس (ع) نے نماز کے وقت امام حسین (ع) کی حفاظت کی تھی اس دوران ان کی پیشانی پر چوٹ لگی تھی اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ صفین کا زخم تھا. کیونکہ عابس (ع) خود اپنی زبان سے ☝🏾اوپر فرما چکے وہ علی (ع) کے ساتھ تھے.
*بات تھی پیشانی پر زخم کی اور اسے بدل کر قمعہ زنی کہہ دیا*

یا اللہ (ج) ان برادران کو عقل دے!

تو "میں امام حسین (ع) کے عشق میں پاگل ہوگیا ہوں" کا کیا چکر ہے؟؟؟🤔

بھئی بات یہ ہے کہ ابی مخنف کی مقتل تو ہوگئی گم، بندہ حقیر اپنی بتی جلاؤ سلسلے میں یہ عرض کر چکا. اب اس کی روایات ہم طبری وغیرہ سے لیتے ہیں. طبری نے جو لکھا ہے وہ یہ ہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا.

اب اس سے آگے بحار میں علامہ مجلسی نے اس میں اضافہ کیا ہے فرماتے ہیں:
عابس نے رجز پڑھا اور دشمن کو للکارا کہ میں ہوں عابس شیروں کا شیر... تم میں سے کوئی مرد ہے تو آئے، عابس نے ۲۰۰ یزیدیوں کو دھول چٹا دی تو سارے لشکر والے ان پر پتھراؤ کرنے لگے.
عابس (ع) نے جوش میں آکر زرہ اتار دی اور سر سے آہنی ٹوپی بھی اتار دی اور دشمن سے جوشیلے انداز میں لڑنے لگے.
ربیع کہتا ہے جب میں نے یہ حال دیکھا تو اس سے کہا : عابس تمہیں ڈر نہیں لگتا اتنی گرم جنگ ہو رہی ہے اور تم نے زرہ بھی پھینک دی اور...الخ
*عابس (ع) نے کہا: جو چیز (تکلیف) دوست کی طرف سے دوست پر پڑے وہ آسان ہے*.(۲)


اچھا! اب یہاں ایرانی ذاکروں نے بھی غلط روایت پڑھی ہے اور پڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ عابس (ع) کا یہ حال دیکھ کر ربیع نے کہا : عابس تم پاگل تو نہیں ہوگئے تو اس نے ربیع کے جواب میں کہا:
حب الحسین اجننی
حسین کے عشق نے مجھے پاگل کردیا ہے!!!
یہ جملہ ایرانی ذاکروں میں بہت مشہور ہے لیکن اس کی کوئی سند نہیں ملی مجھے. بھر حال جیسا کہ آپ نے دیکھا ابی مخنف کی روایت جو تاریخ طبری میں لکھی ہے وہ مختصر ہے اس میں پیشانی پر نشان کی بات ہے کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ نشان عابس (ع) نے خود مارا.
اس کے بعد علامہ مجلسی کی روایت بھی ملتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں.

*ثابت ہوا کہ اس روایت سے دور دور تک یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جناب عابس شاکری (ع) نے اپنے سر پر قمعہ ماری.*


💡💡 بتی مفت مشورہ💡💡

قمعہ زنی و زنجیر زن برادران اگر آپ کسی مرجع کی تقلید کر لیتے اور ان روایات کے چکروں میں نہ پڑتے تو نہ میں تمہاری بات کو رد کر پاتا نہ آپ کو روایتیں تبدیل کرنی پڑتی. لیکن عقل ہو تو!
آپس کی بات ہے تقلید کر لیں، جو پوچھے کیوں قمعہ زنی کرتے ہو بولو میرے مرجع تقلید نے کہا ہے جا کر اس سے پوچھو کیوں اجازت دی، مجھ سے بحث مت کرو ختم بات!

حوالہ:

(۱) ابوجعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک-تاریخ الطبری، ج ۵، ص: ۴۴۴ ؛ لوط بن یحیی ابومخنف، ص۱۵۵

(۲) بحار الانوار ج 45 ص 29

 

رسمی عزادار و رزمی عزادار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

رسمی عزادار و رزمی عزادار


جو لوگ سڑکوں پر حسین (ع) حسین (ع) کرنے والوں کو رسمی عزادار کہتے ہیں اور رزمی عزادار صرف انہیں کہتے ہیں جو سر پر لبیک یا حسین (ع) کی پٹی باندھ کر انقلابی ترانے سنتے ہیں، یہ ایک اور مثال ہے ان کے سامنے کہ یہ قادیانی کربلا کے خلاف کیا کیا کہہ رہا ہے.!!!
ذاکر نائیک، وہابی، سلفی، قادیانی سب مل کر حسین (ع) کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں مگر عزادار و عزاداری نے ان سب کی کوششوں کو ناکام بنا دیا...

💡صرف مدرسے میں کربلا کی بحث کو رکھا جاتا تو غدیر و مباہلہ و سقیفہ کی طرح آج حسین (ع) کو بھی بھلا دیا جاتا یا پھر انہیں نعوذباللہ اسلام کو نقصان دینے والا کہا جاتا اور ان پر لعنت کی جاتی، اور یزید کو اسلام بچانے والا کہا جاتا...💡

جنہیں آپ رسمی عزادار کہتے ہیں سب سے بڑے رزمی عزادار ہیں ہی وہ... ہتھیار الگ ہیں بس، اگر کسی گاؤں دیہات میں ڈھول پر بھی یا حسین (ع) یا حسین (ع) کیا جاتا ہے تو بھی وہ یہ بتاتے جا رہے ہیں دنیا کو کہ حسین (ع) مظلوم تھے یزید ظالم....

آج اگر کسی سنی کا باپ بھی اپنے بیٹے کا نام یزید نہیں رکھتا تو وہ اس وجہ سے کہ عزاداروں نے یزید کو عزاداری کر کر کے بلکل بدنام کر دیا ہے.... *اس عزادار کو اپنا سپاہی بنا لیں* سارے شیعہ انقلابوں میں عزاداری و عزادار کا بہت بڑا کردار ہے.... امام خمینی (رض) نے فرمایا "ہمارے پاس جو کچھ ہے محرم و صفر کی عنایت کردہ ہے"
💡💡 *بتی افسوس*💡💡

*ہم نے اپنے پاکستان میں شیعہ انقلاب کی شروعات ہی عزادار و عزاداری پر تنقید سے کی ہے کہ فلاں رسمی عزادار ہے اصل عزاداری تو رزمی عزادار ہیں..*
اب اللہ (ج) خیر کرے!!!
الاحقر محمد زکی حیدری

نوجوان دماغ کی بتی جلاؤ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡 نوجوان دماغ کی بتی جلاؤ💡


ہر پاکستانی عالم بزرگ چاہتا ہے کہ اتحاد ہو مگر اس چاہت میں ایک چاہت یہ بھی ہے کہ سارے میرے پاس چل کر آئیں. اتحاد مطلب سب میرے پلیٹ فارم پر آجائیں کیونکہ میں صحیح ہوں. جو نہیں آرہا وہی اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ ہے....

چھوڑیئے یارو!😏
بہت لکھ چکا, اب میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں جوانوں سے، میرے دوستوں سے جو بوکھلائے ہیں، جو اپنی عامیانہ اصطلاح میں *مولویوں کے اختلافات سے تنگ آگئے ہیں*.

میں آپ سے مخاطب ہوں میرے دوستو!
آپ جوان جو زیارت عاشورا کا جملہ *يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَكُمْ فَأَفُوز*َ  پڑھ کر کہتے ہو کاش میں کربلا میں ہوتا تو....
کربلا کیا ہوتی ہے؟ وہی نا جس میں کثیر تعداد میں وردی والے ہوں اور مظلوم پر یلغار ہو؟
وہی نا کہ جس میں چادر محفوظ نہ ہو؟ جوان و بوڑھے قتل ہوں؟
تو کراچی کو دیکھ لو آپ کی خواتین پہ گولیاں چل رہی ہیں، کربلا میں شریفوں کو ہتھکڑیاں لگی کراچی میں دیکھ لیں کیا ہوا، کربلا میں بوڑھوں پہ تیر برسائے گئے کراچی میں گولیاں، کربلا میں جوانوں کو بے رحمی سے شہید کیا گیا کراچی میں بھی!
اچھا کربلا میں چھ ماہ کے ننھے پر تیر چلا تو کراچی کی ننھی شیر خوار بھی پچھلے سال اسی طرح شہید ہوئی... آپ آج خاموش ہو تو ۱۴۰۰ پہلے والی کربلا تو اس سے بھی مشکل تھی تو یہ کہنا کہ اس وقت میں ہوتا تو...
ہوتے تو ....؟؟؟


*اب آپ کہیں گے کہ ہم کیا کریں کس لیڈر کا ساتھ دیں یہاں تو بہت سے قائد ہیں!*

یہ بات درست ہے مگر معقول عذر نہیں،

*میں سمپل ٹوٹکہ بتاتا ہوں* ہمارے پاس چار بزرگ ہیں آپ ان سب کو خوش کر سکتے ہیں، دو بزرگ آپ سے کوئی بڑی جدوجہد نہیں چاہتے، سستے میں کام ہو جائے گا. جی ہاں ان میں سے *ایک بزرگ* یوم انہدام جنت البقیع پر ہی نظر آتے ہیں آپ ان سے کہہ دیں کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جنت البقیع از سر نو تعمیر ہونا چاہیئے ختم بات!
باقی رہ گئے *دوسرے بزرگ* تو وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کو ملت کا قائد مانا جائے آپ کہہ دیں قائد آپ ہیں تو وہ آپ کو مزید زحمت نہیں دیں گے.
*ختم بات!*

باقی رہ گئے دو جو بہت زیادہ فعال ہیں لیکن ایک میں ایک چیز مسنگ ہے دوسرے میں دوسری!
*اور ہمارا جوان ان دو بزرگوں کی طرف دیکھ رہا ہے مگر اسے سمجھ نہیں آرہی کس طرف جائے*🤔

کیسے بھلا؟
دیکھئے بھائی! ایک وہ بزرگوار ہیں جنہوں نے بہت بڑا حوزہ کھول رکھا ہے نوجوانوں کی فکری تربیت، ولایت فقیہ کا تعارف، کربلا کا حقیقی تعارف بہت زبردست طریقے سے پیش کرتے ہیں. علمی میدان میں بہت اچھی کاوشیں ہیں. ان کے پاس مسائل کے حل کیلئے *لانگ ٹرم پلان* ہے یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی تربیت ہو، باشعور ہو اور پھر یہ نظام جمہوریت ختم ہو اور نظام ولایت فقیہ نافذ کیا جائے. یہ مسائل کا حل ہے. لیکن ان کے پاس فی الوقت عوام کے مسائل کا حل نہیں *شارٹ ٹرم پلان* نہیں!
بھیا صرف لانگ ٹرم پلان سے کام نہیں چلتا. آپ صرف تربیت کرتے رہیں اور باہر عوام مرتی رہے آپ ان کے ساتھ کھڑے نظر نہ آئیں تو یہ ھر گز انقلاب کی راہ ہموار نہیں کرسکتا. بھر حال کہنے کا مقصد کہ یہ بزرگ تھیوری تو بڑی اچھی دے رہے ہیں مگر عملی میدان میں عوام کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے.
💡 *تھیوری ہے پریکٹیکل نہیں*
💡 *لانگ ٹرم پلان ہے شارٹ ٹرم پلان نہیں.*

دوسرے فعال بزرگ ہیں وہ ماشاء اللہ بہت فعال ہیں جلسے، جلوس، دھرنے، بھوک ہڑتال کرتے نظر آتے ہیں، میدان عمل میں نظر آتے ہیں لیکن ان کی تنظیم نوجوان کو مستقل طور اپنے آغوش میں سنبھالے رکھنے میں ناکام رہی ہے. شاید اس طرف نوجوان کو معارف اسلامی، علمی سرگرمیاں، فکری رشد و ترقی کے اسباب نہیں نظر آئے. دوسری بات ان بزرگ کی تنظیم میں *شارٹ ٹرم پلان* تو باقائدہ نظر آتا ہے مگر *لانگ ٹرم پلان* کاغذ پر تو نظر آتا ہے مگر تنظیم منظم طور اس کا تعاقب کرتی نظر نہیں آتی.
💡 *یعنی عمل ہے علمی شعبے کا فقدان*
*شارٹ ٹرم پلان ہے لانگ ٹرم منظم طور نہیں*.

ان دو بزرگوں کی فعالیت میں اس فرق نے ملت کے جوان کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے وہ عملی میدان بھی چاہتا ہے علمی بھی! کبھی سوچتا ہے اِدھر جاؤں، کبھی ادھر

*مگر جوان دوستو!!!*

کیا اس کو بہانا بنا کر جوان اپنے کندھوں پر پڑی ملت کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا؟
ھر گز نہیں!
برادران آپ کی بات حق ہے کہ بیشک ان دو بزرگوں کو مل بیٹھ کر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہیئے جس میں علم و عمل کا ایک مناسب امتزاج ہو؟ لیکن
*اگر بزرگ یہ کام نہیں کر سکتے تو آپ جوان تو کرسکتے ہیں نا؟ کیوں ایسا نہیں ہو سکتا کہ چار اچھی چیزیں ایک بزرگ سے لیں اور چار دوسرے بزرگ سے اور اس طرح علم و عمل کا میدان دونوں آباد رہیں؟*

اس کی شروعات سوشل میڈیا سے کریں ایک گروپ بنائیں جس میں دونوں نظریئے کے قائل جوان آئیں، نیت ہو باہمی اتفاق و اتحاد سے مسائل کا حل سوچنا. اس گروپ میں کسی کی کردار کشی کرنے کی بجائے دونوں بزرگوں کے نظریئے کو ملا کر خود اپنی کردار سازی کی جائے اور عوام کے ساتھ مظاہروں اور احتجاج میں بھی شرکت کی جائے اور علمی معارف سے بھی آشنائی حاصل کی جائے. آپ کے لیڈر وہ ہی رہیں آپ کو حوزے والے بزگ منع نہیں کریں گے احتجاجی مظاہرے یا دھرنے میں جانے سے اور نہ ہی مظاہرا کرنے والے بزرگ درس سننے سے. *شخصیت پرستی کو ایک طرف رکھ کر اپنی شخصیت بنائیں*

*حزب اللہی جوان صرف وہ نہیں جو عوام مشکل میں ہو اور وہ کتابیں پڑھنے اور درس سننے میں مصروف ہو*
*حزب اللہی جوان وہ بھی نہیں جو صرف سڑک پر چلاتا نظر آئے اور فکری لحاظ سے صفر ہو*

حزب اللہی مظاہرے بھی کرتا ہے، الیکشن بھی لڑتا ہے، نماز شب بھی پڑھتا ہے، فکری لحاظ سے بھی بابصیرت ہوتا ہے ولی فقیہ کا عاشق بھی ہوتا ہے. بندوق بھی اٹھاتا ہے کتاب بھی!

جوانوں! اگر آپ اپنی انا ختم کر کے متحد نہیں ہو سکتے تو حق نہیں رکھتے کہ علماء پر تنقید کریں. علماء مل نہیں بیٹھتے تو آپ کیوں نہیں! اگر نہیں تو یہ مت کہو کہ اے کاش میں بھی ہوتامیدان کربلا میں!

arezuyeaab.blogfa.com

میں جذباتی ہی صحیح!

میں جذباتی ہی صحیح!

 

تحریر: سیدہ عفت زہراء کاظمی 

(28 Muharam 2016. One day after Nazimabad (Khi) majlis firing)

امی کہتی ہیں کچھ خاص پہر ہوتے ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے اور کالی زبان والا شخص کبھی کسی کیلئے دعا کرے تو وہ دعا الٹی ہوکر قبول ہوتی ہے. میری امی کی باتوں پہ میں ھنستی ہوں لیکن جب پاکستان کے حالت دیکھتی ہوں تو لگتا ہے امی کی باتیں سچ ہیں. لمبی داڑھی والے کچھ حضرات نے نعرہ لگایا "کشمیر بنے گا پاکستان" شاید ان کی زبان کالی تھی کہ کشمیر پاکستان تو نہ بنا پاکستان کشمیر بن گیا. ھر طرف خون اور لاشے... اب تو یہ دھشتگرد اتنے بے حیا ہوگئے ہیں کہ عورتوں پر گولیاں چلاتے ہیں. ان کی نا مردی ثابت کرنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ بچوں اور عورتوں پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے. کراچی میں شیعہ مسلک کے لوگوں کو تو بڑی آسانی سے مارتے ہیں اس طرح جیسے مرغیاں ہوں، ویسے شیعہ علماء و قائدین نے بھی ہمیشہ شیعہ کو مرغی ہی بناکر پیش کیا ہے، تقاریر میں یہ جملہ بڑے جوش و جذبے سے سنائی دیتا ہے کہ ہمیں مارنے والو یاد رکھو ہم حلال جانور ہیں جتنا بھی مارو ہم ختم نہ ہوں گے تم حرام جانور ہو تم ھر روز کم ہوتے جاؤ گے ہم کم نہیں ہوں گے. یہ مجمعے سے نعرے سننے کیلئے بہت اچھا نکتہ ہے، عوام نعرے میں مصروف ہوجاتی ہے یہ بھی نہیں سوچتی کہ یہ نعرہ لگوا کر علماء بہت ساری ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں سے اٹھا کر دور پھینک دیتے ہیں. یعنی ذاکری نکتے بتا کر واہ واہ کروا کر، یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ مرتے رہو. کوئی "شہادت ہماری میراث ہے" کہہ کر شیعوں کو مرتے رہنے پر اکتفاء کی تلقین کر کے چلا جاتا ہے تو کچھ یہ کہتے ہیں کہ دیکھو صاحب ٹارگٹ کلنگ تو آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی شیعہ تو تب سے مر رہے ہیں! مطلب یہ کوئی اتنی بڑی اور نئی بات نہیں یعنی ہم نے آئمہ (ع) کی زندگی کی اتنی ورق گردانی کی ہے کہ اپنے پڑوسی شیعہ کے مرنے کی اور اس کی موت پر ہمارے چپ رہنے کی دلیل
بھی آئمہ (ع) کی زندگی سے نکال لائے!

چلیں علمائے کرام و اہل قلم ہمیں یہ نہ ہی بتائیں کہ یہ خونریزی کب و کیسے بند ہوگی لیکن اتنا تو بتانا ان کا فرض ہے کہ یہ جو سارا نزلہ ہم پر گرا ہے یہ بھارت کے شیعوں پر کیوں نہیں گرتا؟ وہاں روز شیعوں کی مسجد و امام بارگاہ میں دھماکے کیوں نہیں ہوتے. آپ کہیں گے وہاں طالبان نہیں ہیں، یعنی ہمیں طالبان و اس قسم کے دہشتگرد مار رہے ہیں، ٹھیک ہے قبول! اب یہ بتائیے یہ طالبان سب سے زیادہ پاکستان میں ہی کیوں دھماکے اور خونریزی کرتے ہیں؟ کیا ان کے آبا و اجداد کو ہم پاکستانیوں نے مارا تھا اس لیئے؟ آپ کہیں گے نہیں. تو کیوں؟ *یہ کون سوچے گا کہ ہم کیوں مر رہے ہیں*. *اس کیوں کا جواب نہ میڈیا دیتا ہے نہ اہل قلم*... کیونکہ جس کی غلطی کا خمیازہ یہ قوم بھگت رہی ہے وہ بہت طاقتور ہے کوئی اس کے خلاف چوں بھی نہیں بول سکتا. سب کو جاب اور جان پیاری ہے. کون پوچھے کہ صاحب طالبان کس نے بنائے؟ پاکستان کے کس پاکیزہ ادارے نے اسے دلیہ کھلا کر بڑا کیا. آپ شاید یہ کہیں کہ وہ دور الگ تھا. چلیں ہم یہ پوچھتے ہیں کہ افغانستان سے پہلے کتنے دھشتگرد پاکستان میں آ کر کاروائیاں کرتے تھے؟ 9\11 سے پہلے پاکستان میں کیوں دھماکے نہیں ہوتے تھے؟ آپ کہیں گے کہ آمریکا نے افغانستان میں آپریشن کیا اس لیئے. صاحب آپریشن آمریکا نے کیا بدلہ ہم سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ آپ کہیں گے کہ ہم نے آمریکا کا بھرپور ساتھ دیا. اچھا تو یہ بات ہے یعنی آپ نے اپنے اڈے و فوج آمریکا کو دیئے کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے؟
آپ کہیں گے جی ہاں! مجبوری تھی آمریکا کی پارلیامنٹ میں ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کر رکھا تھا جس سے ہمیں آمریکا فنڈ (خیرات) دیتا تھا ہم اس کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے، اسی پریسلر امیڈمنٹ میں لکھا ہے کہ آمریکا جس جس ملک کو خیرات دے رہا ہے یا جو جو آمریکا کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں کل اگر آمریکا جیسے "شریف" ملک پر کوئی آنچ آئی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے. نہیں تو خیرات کو قرض کا نام دے کر واپسی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے. سو ہم مجبور تھے. ہمیں آمریکا کی مدد کرنی تھی. ہم نے کی، آمریکا تو افغانستان سے دور تھا سو نزلہ اس تک تو نہیں پہنچ سکتا تھا پاکستان قریب تھا سو نزلہ پاک افغان بارڈر سے رینگتا ہوا پورے ملک میں پھیل گیا اور اسی نزلے نے ہمارا خون بہایا. ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کی اس کی سادہ سی اردو تشریح کچھ یوں کی جائے تو غلط نہ ہوگا:
*پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ! اس پاک وطن کے حکمران ہونے کے ناطے میں پریسلر امیڈمنٹ پر دستخط کرتا ہوں اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آمریکا جہاں بھی مظلوموں کا خون بہائے گا میرا ملک اس کا ساتھ دیگا، اور آمریکا کا اس ظلم میں ساتھ نبھانے کیلئے مجھے اپنے ملک کی گلیاں خون آلود دیکھنی پڑیں تو بھی مجھے فرق نہیں پڑے گا. مجھے آمریکا کے مفاد کیلئے لڑی جانے والی افغان جنگ کا نزلہ قبول ہے، کل جتنے بھی افغان دھشتگرد افغان جنگ کے انتقام کے طور پر کراچی سے کوئٹہ تک بم دھماکے کریں اور اس کے نتیجے کتنے بھی لوگ مریں لیکن مجھے اپنے کیئے ہوئے وعدے سے ہٹا نہیں سکتے*

ہم ان کے فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں جنہیں معلوم تھا کہ آمریکا کے مفادات کی جنگ میں حصہ لیکر دھشتگردوں کو آمریکا کیلئے مارنے کا سارا نزلہ ہم پر گرے گا، اور ہمارے معصوم بچے مارے جائیں گے پھر بھی انہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا. مجھے یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ وہ لوگ ہمارے محافظ تھے اور ہیں. شاید آپ مجھے جذباتی کہیں، اگر حقیقت لکھنا جذباتی ہونے کے مترادف ہے تو میں جذباتی ہی صحیح!

کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے!

*کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے!*

از قلم: محمد زکی حیدری

(21 Muharam 1437)

 

ظفر صاحب چہلم پر شہر کے مرکزی چوک پہ سب سے سخت و شدید خونی پرسہ دیتے ہیں. ھر سال کی طرح اس سال بھی لاہور سے زنجیر کا نیا دستہ منگوایا ہے، اور کچھ ہی دیر بعد چوک پر جلوس پہنچے گا سو وہ دستے کو تیار کر رہے ہیں. ان کا بارہ سالہ بیٹا مہدی و پچیس سالہ بھتیجا مرتضی کھڑے دیکھ رہے ہیں.

*مرتضی*: چاچو! اس بار تو یہ زنجیر کا دستہ دیکھ کر ہی ڈر لگتا ہے، پچھلی بار والا اتنا خطرناک نہیں تھا یہ تو جسم چیر کر رکھ دے گا.
*ظفر*: زنجیر مجھے مارنی ہے تکلیف تجھے کیوں ہو رہی ہے. پرسہ دینا ہے جتنا تم لوگ عزاداری کی مخالفت کروگے ہم اور زور شور سے کریں گے.
*مہدی*: ابو کیا دین یہ ہے کہ ہماری مرضی ہم جو کریں؟
*ظفر*: تم چپ رہو! اس مرتضی کے ساتھ رہ کر تمہاری عادتیں بھی بگڑتی جا رہی ہیں، کل ہی تمہیں بتایا تھا کہ یہ سنت شہزادی زینب (س) ہے انہوں نے محمل سے سر ٹکرا کر خونی ماتم کیا.
*مرتضی* : اچھا چاچو! مطلب بیبی نے بادشاہ زادیوں کی طرح محمل میں سفر کیا. یعنی یزید کو اھلبیت (ع) کا اتنا احترام تھا. پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ بیبی بغیر پالان والے اونٹ پر رسن میں بندھی شام لائی گئیں؟
*ظفر*: تم ابھی چھوٹے ہو بیٹا، قرآن پڑھو سورہ یوسف (ع) کی آیت نمبر ۳۱ جب مصر کی عورتوں نے یوسف (ع) کے حسن کو دیکھا تو اپنے ہاتھ چھری سے کاٹ ڈالے. نبی کے عشق میں چھری چلانا جائز امام سرکار مولا حسین (ع) کے عشق میں نا جائز؟ حد ہے مقصری کی!
*مرتضی* : چاچو ایک منٹ!
مرتضی نے موبائل میں اردو قرآن کا ترجمہ کھولا، کچھ سرچ کیا اور اپنے چچا کو موبائل دکھاتے ہوئے بولا: یہ دیکھیں چاچو! آیت نمبر ۳۱ کے بعد والی دو تین آیات پڑھیں خود حضرت یوسف (ع) ان عورتوں کو مکار کہہ رہے ہیں اور ان سے پناہ مانگ رہے ہیں. چاچو مکار عورت کی سنت کو زینب (س) کی سنت کہتے ہیں، کیا یہ زینب (س) کی اہانت نہیں چاچو؟
*ظفر*: بیٹا! خامنہ ای کے مرید! تو جو بھی بول عزاداری نہ تیری چِک چِک سے رکے گی نہ تیرے رھبر خامنہ ای کے فتوے سے. اچھا چلو مجھے یہ بتاؤ یا خامنہ ای سے پوچھ کر بتاؤ، قرآن کی کس آیت میں لکھا ہے کہ خونی پرسہ حرام ہے؟
*مرتضی* : چاچو! سید علی خامنہ ای تو مرجع ہیں، مجھے ان کا نہیں پتہ لیکن میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ تمہاری ایک اچھی بات کا بھی دشمن غلط مطلب لے تو اسے ترک کردو یا بدل دو!
*ظفر*: ھاھاھا! یہ قرآن سے آج تک کسی نے حرام ثابت نہیں کیا تم بڑے مجتھد بن گئے ہو، آیت اللہ سید مرتضی رضوی. ھاھا!
مرتضی کے چچا قہقہے لگانے میں مصروف تھے کہ اتنے میں پھر موبائل میں قرآن کی آیت دکھاتے ہوئے مرتضی نے کہا: چاچو یہ پڑھیں *سورہ بقرہ آیت ۱۰۴، اس میں ہے کہ کفار لفظ راعنا (ہمیں مہلت دو) کو رعونہ (ہمیں بے وقوف بناؤ) سمجھ کر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اللہ (ج) نے آیت نازل کی کہ راعنا مت کہو انظرنا کہو! تاکہ مشرکوں کو دین کی اہانت و تمسخر کا موقع نہ ملے. چاچو آج آپ کی یہ خونی ماتم کی وڈیوز دنیا بھر میں جاتی ہیں، اسلام و تشیع کے دشمن مذاق اڑاتے ہیں، اہانت کرتے ہیں، کیا یہ وہی صورتحال نہیں جو قرآن کی سورہ بقرہ آیت ۱۰۴ میں بیان کی گئی ہے؟ کیا بدنامی کا سبب بننے والی اس رسم کو ترک نہیں کیا جاسکتا؟*
*ظفر*: کس بات کو کس سے ملا دیا ھنھ...
*مہدی*: ابو ایران و باقی ممالک میں تو شیعہ لوگ خون ہسپتال میں جمع کرواتے ہیں تاکہ خون کسی کے کام آئے.
*ظفر*: بیٹا تم سے کہا ہے نہ کہ بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے اور تمہاری ماں کو خون کی کمی والا مرض ہے ھر ماہ ایک بوتل خون لگتا ہے، سرکار مولا عباس (ع) کے کرم سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خون نہ ملے. *کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے* سب مقصروں کی باتیں ہیں!
اچھا اب میں جا رہا ہوں، مرتضی تم مہدی کو ساتھ لے کر اس کی امی کی دوائیاں اسے دے آنا اور کال مت کرنا میرا موبائل گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں پرسہ دینے!
یہ کہہ کر تینوں باہر نکلے ظفر صاحب اپنے دوست کے ساتھ چوک کی طرف گئے. مہدی اور مرتضی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر میڈیکل اسٹور جانے لگے.

میڈیکل اسٹور سے واپس ہی آرہے تھے کہ مہدی کو موٹر سائیکل چلانے کا شوق ہوا بولا: مرتضی بھائی مجھے بائیک چلانے دیں. مرتضی پیچھے بیٹھ گیا اور بولا: احتیاط سے چلانا! مستی مت کرنا. لیکن مہدی بچہ تھا اسے مستی سوجھی، گلی خالی دیکھی تو اچانک سے موٹرسائیکل کی رفتار بڑھا دی، ایک گلی سے اچانک تیز رفتار کار نکلی اور زور سے موٹر سائیکل سے ٹکرائی. مہدی کیونکہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا تو فٹ پاتھ پر دور جا کر گرا. مرتضی کو اتنی زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن مہدی کے سر پر گہری چوٹ آئی اور تیزی سے خون بہنے لگا اور وہ اسی وقت بے ھوش ہوگیا. لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈالا. مرتضی کو ھوش تھا اس نے دوستوں و رشتہ داروں کو فون گھمایا کہ فلاں ھسپتال پہنچو جلدی!
مہدی کو انتہائی نگھداشت میں رکھا گیا تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز نے کہا خون بہت بہہ چکا ہے بچہ کمزور ہے لہٰذا جلد از جلد خون کا انتظام کریں. ایک بوتل بلڈ بینک سے لی لیکن خون زیادہ درکار تھا اور مہدی کا بلڈ گروپ بھی او نیگیٹو تھا جو کہ نایاب تھا. مرتضی کے دوست اور کزن آئے کسی کا گروپ او نیگیٹو نہیں تھا، خاندان والے مہدی کی امی کیلئے خون دے دے کر اتنے تنگ آچکے تھے کہ اب ان سے خون مانگنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا. مرتضی کو یاد آیا کہ اس کے چچا ظفر کا بلڈ گروپ او نیگیٹو ہے سو اس نے اپنے کزن علی و اسد کو چاچو کی طرف بھیجا. وہ دونوں تیزی سے موٹر سائیکل پر سوار ہوئے اور چوک کی طرف چل دیئے. چوک پر جم غفیر موجود تھا، جلوس کیلئے سخت حفاظتی انتطامات کی وجہ سے پولیس موٹر سائیکل سواروں کو چوک سے پہلے ہی روک رہی تھی. علی و اسد نے موٹر سائیکل دور کھڑی کی اور تیزی سے چوک کی طرف بھاگنے لگے. وہ ھجوم کو چیرتے ہوئے، لوگوں کو دھکے دیتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے. چھریوں کی چھن چھن... عرق گلاب کی خوشبو اور یا حسین یا حسین کی مخصوص صدائیں بتا رہی تھیں کہ زنجیر زنی شروع ہو چکی ہے. علی حلقۂ ماتم کے بہت قریب پہنچ چکا تھا، اس نے اپنے چاچو ظفر کو ماتمیوں کے بیچ کھڑے ہو کر خوب زنجیر زنی کرتے دیکھا. اس نے حلقے میں جانا چاہا کہ ایک موٹے شخص نے اسے روک دیا. وہ اس سے چھڑا کر اندر گیا. چھریوں کی چھن چھن اور یا حسین یا حسین کی صدائیں، زمین پر دور دور تک خون کے چھینٹے ... علی گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اپنی ہتھیلیوں کے سہارے کسی چوپائے جانور کی طرح خود کو چھریوں سے بچاتا ہوا اپنے چاچو کے پاس پہنچا.
اس کا چہرا بھی خون کے قطروں سے لال ہوگیا.
آخرکار وہ اپنے چچا کے پیروں تک پہنچ گیا. اس نے بہت چلا چلا کر کہا چاچو! چاچو! لیکن چھریوں کی چھن چھن اور شور یا حسین یا حسین میں اس کی صدا گم ہوگئی. اس نے ظفر کی شلوار زور سے کھینچی. لیکن ظفر سمجھا شاید وہ اس سے دستہ چھیننے آیا ہے کہ بس کردو بہت ہوا پرسہ. سو اس نے علی کی طرف دھیان نہ دیا اور جوش میں یا حسین!!! ... یا عباس!!!...یا حسین!!! یا عباس!!! کی فلک شگاف صدائیں بلند کرتا ہوا اپنے پیٹھ کو تیز دھار چھریوں سے چھلنی کر رہا تھا. اس کی پیٹھ اور شلوار لال ہو چکی تھی. علی اب رونے لگا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا چاچو مہدی! چاچو مہدی کو بچالو! لیکن ظفر ہائے سکینہ ہائے پیاس...!!! ہائے سکینہ ہائے پیاس...!!! کہتے ہوئے اپنی پیٹھ پر زنجیر کے وار کر رہا تھا... چھریوں نے اس کے پیٹھ پر بڑے بڑے شگاف ڈال دیئے جن سے خون فواروں کی مانند بہہ رہا تھا. اچانک علی نے محسوس کیا اس کے چچا کے ماتم کی رفتار دھیمی پڑ گئی اس نے دیکھا کہ چچا کو چکر آ رہے ہیں. تھوڑی دیر بعد ظفر میاں زمین پر گر گئے امدادی جوان آئے اور انہیں اٹھا کر چوک پر لگے طبی امدادی کیمپ تک لے گئے. خون بہت بہہ رہا تھا کیمپ پر موجود ڈاکٹر نے مشورہ دیا ھسپتال لے جاؤ اسٹچز لگیں گے. ظفر کو ایمبولینس میں ڈالا گیا
علی بھی ایمبیولینس میں بیٹھا. ظفر کو انتہائی نگہداشت میں لے جایا گیا.
تھوڑی دیر بعد جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھاکہ ھسپتال اس کے دوست و احباب سے بھرا ہے اور سب رو رہے ہیں. اس نے تعجب سے رونے کی وجہ پوچھی تو کسی نے برابر میں رکھے بیڈ پر اس کے بیٹے مہدی کے جنازے کی طرف اشارہ کیا.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

کربلا حرم امام حسین (ع) میں شیر کے بارے میں

سلام زکی بھائی یہ جو کربلا میں شیر کی شبیہ بناتے ہیں یہ کیا چکر ہے شیر کا کربلا سے کیا لینا؟ اکثر روضہ امام حسین (ع) کی تصاویر میں ایک شیر بھی دکھائی دیتا ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

جواب: وعلیکم سلام برادر کہا جاتا ہے کہ *مہران* نامی ایک شخص ایک جنگ میں قید ہو کر آیا ام سلمہ (س) نے اسے خریدا اور رسول (ص) نے اسے آزاد کردیا. وہ اپنے ملک رامھرمز جانے کیلئے کشتی میں سوار ہوا. رات کو تیز طوفانی بارش ہوئی کشتی ڈوبنے لگی *مہران* نے ایک لکڑی کے تختے کو پکڑ لیا جس کے سہارے وہ کنارے پر پہنچا اور پیدل اپنے وطن کی طرف چلنا شروع کیا.
بیابان میں وہ راستہ کھو بیٹھا. خشکی و تھکن سے ریگستان میں مرنے ہی والا تھا کہ اسے سامنے سے ایک قوی و بلند قامت شیر آتا دکھائی دیا. مہران نے اسے بتایاکہ وہ رسول (ص) کا آزاد کردہ غلام ہے. شیر نے *مہران* کا طواف کیا. پھر شیر نیچے بیٹھ گیا اور مہران کو پیٹھ کی طرف اشارہ کیا. مہران سمجھ گیا کہ شیر سوار ہونے کو کہہ رہا ہے سو وہ شیر پر بیٹھ گیا. اور شیر بھاگنے لگا.
(چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو
ہم ہیں تیار چلو ھوو ھووووو)
بھرحال ظہر کے بعد شیر نے مہران کو اپنے گاؤں پہنچا دیا. ایک نگاہ مہران پر ڈالی اور نظروں سے اوجھل ہوگیا.

(ارے بھائی تو اس ساری اسٹوری کا کربلا سے کیا لینا)
سن تو لو بھائی!
عاشورہ کے دن عصر کے وقت فضہ کو پتہ چلا کہ عمر بن سعد نے فیصلہ کیا ہے کہ لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جائیں. تو اس نے یہ بات آکر زینب (س) کو بتائی زینب (س) پریشان ہو گئیں اور فضہ کو حکم دیا کہ جاؤ فرات کے کنارے نخلستان میں اس شیر کو بلا لاؤ جس نے نبی (ص) کے صحابی مہران کو نجات دی تھی.
فضہ گئیں، چلچلاتی دھوپ اور نخلستان میں اکیلی عورت تھک گئی اور زور سے چیخ کر صدا دی یا ابوالحارث! اے شیروں کے باپ کہاں ہو، ایک بہت طاقتور شیر نمودار ہوا. فضہ نے کہا زینب (س) نے تمہیں اپنی مدد کو بلایا ہے. شیر بھاگتا ہوا قتلگاہ کی جانب روانہ ہوا. شیر رات کے وقت پہنچا اپنے چہرے کو امام حسین (ع) کے خون سے آلودہ کیا اور بہت رویا اتنا چیخ چیخ کر رویا کہ اس کی آواز دور دور تک سنائی دی اس کی اواز بھی انسانوں جیسی تھی.
صبح جب عمر سعد لشکر کے ساتھ لاشے پامال کرنے آیا تو شیر کو دیکھا شیر نے انہیں آنکھیں دکھائیں. عمر سعد نے لشکر کو روک دیا. شیر نے اپنے ہاتھوں سے امام حسین (ع) کے جسم سے تیر نکالنا شروع کیئے. عمر نے اپنی فوج سے واپس جانے کو کہا. بیبی زینب (س) اور فضہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر دیکھ رہی تھیں کہ شیر گم ہوگیا.

💡💡💡💡💡💡💡💡💡
اس داستان کی حقیقت
💡💡💡💡💡💡💡💡💡

یہ کہانی مقتل کی کتاب *تظلم الزھراء من اھراق دماء آل عبا* کے صفحہ نمبر ۲۷۳ پر آئی ہے. اس کتاب کے مولف ملا رضی قزوینی کی اور کوئی کتاب نہیں ہے یہ ہی ایک کتاب ہے اور رجال میں اسے ذاکر کہا گیا ہے. اس کتاب میں بہت سی من گھڑت روایات ہیں بزرگوں نے اس پر بہت تنقید کی ہے جس کی تفصیل *دماغ می بتی جلاؤ* کی قسط نمبر ۱۴ و ۱۵ میں پیش کی جاوے گی. ان شاء اللہ.

 


💎💎💎💎💎💎💎💎💎
تحقیق و ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

*_arezuyeaab.blogfa.com_*
💎💎💎💎💎💎💎💎💎

جی عاشورہ کیسا گذرا؟

جی عاشورہ کیسا گذرا؟

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

(11 Muharam 1437)

 

چلو اس سال کے عاشورہ کا خاتمہ بھی بخیر ہوا... ہم نے کیا لیا اس عاشورہ سے اس کا اندازہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی باتوں سے لگائیے....

شام غریباں کے وقت فون.... "ھیلو کمیل! ابے واٹس ایپ کھول ذرا، دیکھ چاند پہ حسین (ع) لکھا ہوا آ رہا ہے! ابے معجزہ! سارے واٹس ایپ گروپس میں بات ہو رہی ہے!"
کمیل: "ہیں! اچھا دیکھتا ہوں، لیکن واٹس ایپ کیوں چھت پہ نہ جاؤں چاند تو چھت سے دکھے گا، تجھے نظر آیا لائیو ؟"
میثم: "نہیں مجھے آسمان پہ صاف نہیں دکھا، واٹس ایپ پہ صاف دکھائی دے رہا ہے، بلکل صاف استاد!"
کمیل: "اچھا تو رک! ابھی دیکھتا ہوں."
یار میثم میرے گھر میں ایرانی ڈش ہے اس پہ تو ایسی بات نہیں بتا رہے وہ تو عزاداری میں مصروف ہیں، نہ ہی مجھے لائیو دکھائی دیا چھت سے."
میثم: "بھاڑ میں جا!"

گیارہویں محرم کی صبح فون پر.... بھئی یاسر! پکوان والے سے کہو خالی دیگیں لے جائے. اور ڈیکوریشن والے سے کہو اس کا جو سامان ہے لے جائے. اور ایک کام کر، نیاز کا بچا ہوا سامان بھی چنگچی میں ڈال کر منظور بھائی کی دکان پہ دے آ، اس سے کہنا شبر بھائی دوپہر میں آکے حساب کردیں گے. بہت تھکا ہوا ہوں ابھی!

فون.... بتول کی بچی کب سے فون کرے جا رہی ہوں جلوس کی پِکس بھیجو، مجھے "کسی کو" فارورڈ کرنی ہیں اور تم ہو کہ گھوڑے بیچ کر سو رہی ہو! ھنھ!
بتول: ھمممم!!! ہاں بھیجتی ہوں مرضیہ مرو مت ابھی اٹھی ہوں! آ آھ ھ ھ تھکن!!! پورا جسم دُکھ رہا ہے. ویسے تصویریں دیکھیں رات میں، اچھی آئی ہیں، *تم بلیک میں بہت پیاری لگ رہی ہو*.
مرضیہ: الاااا...! وائو! تو پھر جلدی بھیجو نا پلیز، الا بتول پلیز جلدی!!!

فون.... ھیلو! ھاں سجاد کہاں تھے بھئی رات مجلس میں نظر نہیں آئے.؟
سجاد: ہاں عباس بھائی بس نیاز چلانے بیٹھ گیا، بچے ہیں ان کے سر پہ جب تک کوئی بڑا کھڑا نہ ہو تو کام صحیح نہیں کرتے. اور یار حلیم کا ستیہ ناس کردیا اس بار باورچی نے، اگلی بار اس سے نہیں بنوانا. تم سناؤ، شام غریباں کی مجلس سنی؟
عباس: ہاں یار لیکن مزا نہیں کر رہے اب مولانا صاحب، بوڑھے ہوگئے لگتا ہے، اس بار ان کا عشرہ لگا نہیں. مجمعہ بھی کم تھا پچھلے سال کی نسبت؟ مولانا شمشیر کی مجلس میں بڑا رش تھا اس بار ان کا عشرہ ٹاپ پہ گیا...
اپنی بارگاہ کا مولانا اگلی بار تبدیل کریں گے.
سجاد: میں نے تو پہلے ہی ٹرسٹ کی میٹنگ میں کہا تھا یہ مولانا بلاؤ گے پبلک نہیں آئے گی، چالیس پچاس اوپر دے کر مولانا شمشیر سے ڈن کرلو، لیکن ہماری سنتا کون ہے!

فون...ھیلو ناھیدا بہن کیا حال ہیں سناؤ تمہارے ہاں عاشور کیسا گذرا؟
جی زینب بہن بس اچھا گذرا شہزادی سکینہ (س) کے تابوت پر منت مانی کہ بس جلد از جلد کنول کا رشتہ ہو جائے اب تو عمر بیتی جا رہی ہے اس کی، علی کے این. ای. ڈی یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے تابوت میں دھاگہ باندھا. مہندی سے کلاوا تبرک طور پر لیا. آپ سنائیں.
زینب: بس بہن میرے تو جوڑوں کا درد ہے، سو بارگاہ کم ہی جاتی، گھر پہ عشرہ ہوتا ہے سو وہیں بیٹھ کے سنتی اور یہ آج کل کی خطیبائیں عجیب چِلا چِلا کر مجلس پڑھتی ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا بس گلا پھاڑنے پر زور... اوپر سے تین تین بہوئیں ہیں ہماری لیکن نیاز بنانے کا سلیقہ نہیں، میں نے پچھلے سال منت مانی تھی نیاز کی، وہ اس بار ادا کی لیکن قسم پنجتن پاک کی چکھنے کا دل ہی نہ کیا، نیاز کی شکل دیکھ کر پیٹ بھر گیا. یہ ہیں بہوئیں ہماری، اب میری عمر تو رہی نہیں کہ ہر کام خود اپنے ہاتھ سے کروں، سو ناک کٹنا نصیب سمجھ کر بیٹھ گئی...

فون... ھیلو قبلہ مولانا قاسم صاحب! صاحب کیسے مزاج ہیں، اس سال کتنے عشرے پڑھے اور نیاز اچھی ملی یا پچھلے سال کی طرح...؟
قبلہ قاسم: جی قبلہ عابد صاحب دو عشروں کی نیاز (فیس) تو جو بکنگ ہوئی تھی اس کے مطابق ملی، مگر دو عشروں کے بانیان نے ہمیشہ کی طرح اس بار پھر گند کیا کہ مولانا اس بار بہت تنگی ہے بجٹ نہیں. ایک نے ۳۰ ھزار کم دیئے دوسرے نے چالیس!
میں نے کہا اگلی بار مجھ سے رابطہ مت کیجئے گا اگر نہیں دے سکتے تو ہم سے مجلس کیوں پڑھواتےہیں، کسی قم یا نجف کے طالبعلم سے پڑھوا لیا کریں. میں اتنا مجمعہ کٹھا کر کے دیتا ہوں پھر بھی آپ ہیں کہ.... فلاں امام بارگاہ والے مجھے اس سے کہیں زیادہ دے رہے تھے لیکن ہم نے سوچا پچھلے سال سے آپ کے ہاں پڑھ رہے ہیں تو اس لیئے لحاظ کیا لیکن آپ ہمارا لحاظ نہیں کرتے!
عابد: ارے بھئی یہ صرف پاکستان ہی نہیں ہمارے ھندوستان کا بھی یہی حال ہے، ہمارے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تین عشرے بوک کیئے لیکن طے شدہ رقم سے سے تقریبا ایک لاکھ کم ملا. بولے بعد میں آپ کی امانت پہنچا دیں گے *یہ لوگ بڑے بے ایمان ہیں قبلہ، نیاز کی دیگوں کی قطار لگا دیتے ہیں لیکن مولوی بیچارے کی چند لاکھ فیس بھی نہیں دے سکتے*. مجھے لندن والوں نے بلایا تھا، لیکن وہ ذرا غالی و ولایتی قسم کے تھے سو دامن داغدار ہوجاتا اس لیئے نہ گیا وگرنہ وہ لوگ نیاز (فیس) کے معاملے میں زبان کے پکے ہیں. بس آئندہ آپ بھی آئیے گا لندن ہی چلیں گے، *کراچی اور لکھنؤ کی مارکیٹ اب مدرسے کے طلاب سنبھالیں*. مقصدِ کربلا سکھائیں دنیا کو...
(یہ کہہ کر مولانا نے قہقہہ لگایا اور دوسرے والے مولانا نے بھی قہقہہ لگایا).


*_arezuyeaab.blogfa.com_*

ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 


میں نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر اس سے کہا: "دیکھو بھیا یہ جو سونے کی انگوٹھی میرے ھاتھ میں رکھی ہے، یہ اصلی سونے کی بنی ہے." بولا "وہ کیسے؟" میں نے کہا "میں نے شہر کے سب سے پرانے و تجربیکار ترین سونار کہ جس کی داڑھی اس کام میں سفید ہوئی ہے، سے معلوم کیا ہے، اس نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کہ ہے."
اس نے جو کہا وہ سننے کے بعد میں حواس باختہ ہوکر خاموش ہوگیا، اس نے کہا"جاؤ میاں! وہ کیا جانے سونے کے بارے میں، میرے پڑوس کے لوہار نے کہا ہے کہ یہ سونا نہیں، سو یہ انگوٹھی نقلی ہے."

ہمارے پاکستانی و ھندوستانی عزاداروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، ہمارے کچھ محترم دوست ایک مجتہد جس کی داڑھی قول و قال کرتے کرتے سفید ہوئی، کی بات یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ ہمارے ذاکر صاحب کہتے ہیں یہ بات غلط ہے!
آج کل کئی منبر نشین، جو کسی مستند علمی درسگاہ کے سند یافتہ نہیں ہیں، عوام کو اپنی اس قسم کی باتوں سے عقائدی جھانسا دے رہے ہیں. میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ذاکر و خطیب برے ہیں، بلکل نہیں! بہت سے ذاکر جب ہم سنتے ہیں تو ان کے پڑھنے سے لگ رہا ہوتا ہے کہ بیشک بیچارے کم علم رکھتے ہیں مگر مولا (ع) کی محبت سے سرشار ہوکر ڈیوٹی دے رہے ہیں. میں ھر گز ان ذاکروں و خطیبوں کی بات نہیں کر رہا بیشک مدرسے کے پڑھے نہیں مگر ذکر اھلبیت (ع) کرتے ہیں یہ لوگ محترم ہیں، لیکن کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو منبر پر بیٹھنے لگی ہیں ایسے منبر نشینوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مراجع عظام حوزہ علمیہ قم و نجف سے تو ناراض رہتے ہی ہیں، لیکن ایک اصطلاح بھی بڑے زور و شور سے استعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ "ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے."

مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی، کیونکہ میں نے جب اپنے ملک و ھندوستان میں عزادری دیکھی تو مجھے تقریباً ھر چیز ایران سے لی ہوئی نظر آئی. جب میں نے ذاکر کو کھڑے ہوکر یا منبر پر بیٹھ کر مصائب امام حسین (ع) بیان کرتے دیکھا تو مجھے گیارھویں ھجری صدی کا ایرانی صفوی دور یاد آیا، جی ہاں! یہ ایران کے صفوی سلطان ہی تھے جنہوں نے "روضہ خوانی" یعنی مجلس کے اس طریقے کو منظم طور رائج کیا. آپ دعبل خزائی وغیرہ کی مثال بیشک دیں مگر آج کے طرز پر منظم طور مجلس پڑھنے کی جڑیں صفوی دور میں ہی پیوستہ نظر آتی ہیں. بقول شہید مطہری (رض) کے کہ روضہ خوانی اصل میں روضۃ الشھداء خوانی ہے. روضۃ الشھداء دسویں صدی میں لکھی گئی مصائب امام حسین (ع) پر مشتمل ایک کتاب کا نام ہے جسے ہاتھ میں لے کر ایک ذاکر پڑھا کرتا تھا اور عوام گریہ کرتی تھی. بعد میں یہ کتاب و طریقۂ مجلس ایران سے ھندوستان منتقل ہوا.
اسی طرح جب میں نے تعزیہ برداری دیکھی تو مجھے پھر صفویوں کا دور یاد آیا، مجھے صفوی سلطان شاہ اسماعیل و شاہ زمان کے عالیشان تعزیے یاد آئے جن کا مغربی مورخین نے بھی اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے. "تعزیہ یا شبیہ خوانی" یعنی باقائدہ تھئیٹر پر ڈرامے کی صورت میں واقعۂ کربلا کو عوام کے سامنے پیش کرنا صفوی دور کی دین ہے، جو ایرانی قاجاریوں کے دور حکومت میں زور پکڑ کر اب تک ایران میں رائج ہے، مگر جب یہ تعزیہ خوانی ھندوستان پہنچی تو تھئیٹر ڈرامہ کی صورت تبدیل ہوگئی، اس میں سے اداکار نکل گئے باقی ذوالجناح، علم، عماریاں، تابوت وغیرہ رہ گئے.
جب میں جلوس و نیاز کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسی صفوی دور میں ایران کا شہر اردبیل یاد آتا ہے، جس کی پانچ سڑکیں تھیں اور ھر سڑک سے مختلف قسم کے جلوس نکل کر ایک بڑے سے میدان میں آتے جہاں ان عزاداروں کیلئے حاکم شاہ زمان کی طرف سے خوشبودار شربتوں اور کھانے کا انتظام کیا ہوا ہوتا تھا. بقول مغربی مورخین کے شاہ خود بھی اس بڑے سے میدان میں موجود ہوتے جہاں یہ لنگر کا دسترخوان لگایا جاتا.
آگ پر ماتم کی جڑیں ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو وہ بھی مجھے ایران کے ترک نژاد و بقول بعض مورخین کے، ایرانی آتش پرستوں کے شیعہ ہونے سے متعلق افسانوں میں ہی نظر آتی ہیں. مختصراً یہ کہ ہمارے برادران نے عزاداری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تمام مادی و معنوی اشیاء ایران سے لے رکھی ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی رہتا ہے کہ ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے! ایسا کیوں ہے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں *صفوی سلطانوں* کی تخلیق کردہ رسمی عزاداری چاہیئے، اگر کوئی رسم ایران سے ملے تو ہم لے لیں گے، ذوالجناح ملے تو ایران سے لے لیں گے، تعزیہ ملے تو صحیح، قمعہ زنی، زنجیر زنی، آگ کا ماتم، مجلس....
ٹھیک ہے ہمیں قبول! ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ چیزیں بے ارزش و فضول ہیں، ھر گز نہیں! یہ شعائر حسینی ہیں ہمیں ہماری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں مگر! ہمارا عرض صرف اتنا سا ہے کہ جہاں آپ نے کل کے *صفوی ایران* سے عزاداری لی اسی طرح آج کے *خمینوی ایران* سے انقلاب بھی لیں، اس خمینوی ایران نے اس وقت دنیا کے ظالموں و طاغوتی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے، ساری دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ مکتب اہلبیت (ع) میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ مدرسے میں پڑھنے والے مولوی پورا ملک چلا رہے ہیں، نہ صرف چلا رہے ہیں بلکہ دنیا کے سارے ظالموں سے نبرد آزما بھی ہیں اور مطلوموں کی حمایت بھی کر رہے ہیں. ہم نے *صفوی ایران* سے بہت کچھ لے رکھا ہے لیکن شیخ ابراہیم زکزاکی (حفظہ اللہ) نے *خمینوی ایران* سے ایسی عزاداری لی کہ اپنے ملک میں ڈیڑھ کروڑ سنیوں و وہابیوں کو شیعہ کر دیا، لبنان والوں نے *خمینوی ایران* سے عزت و وقار و مقاومت سے جینے کا درس لیا، یمن کے زیدیوں نے *خمینوی ایران* سے تاثیر لی اور سالوں پرانی سعودی بادشاہت کے خلاف ڈٹ کر اسے چنے چبوا دیئے ، شام و عراق والوں نے جب *خمینوی ایران* کی بات پر لبیک کہا تو داعش کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مار کر ان کا صفایہ کردیا، عمان میں سالوں بعد سرکاری ٹی.وی پر علی ولی اللہ کی اذان سنائی دی، قطیف میں سعودی بکتر بند گاڑیوں کو جلتا دیکھا گیا، ساری دنیا کے سنی شیعہ *خمینوی ایران* سے عزاداری لے کر جینا سیکھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک *صفوی ایران* کی تقلید کر رہے ہیں اور کوئی کہے کہ *خمینوی ایران* سے بھی کچھ لے لو تو ہم کہتے ہیں "ہمیں ایرانی شیعیت نہیں چاہیئے.

arezuyeaab.blogfa.com

हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


*हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए!*

लेखन: मोहम्मद ज़की हैदरी

 
मैंने उसकी ओर अपना हाथ बढ़ाकर उससे कहा: "देखो भैया ये जो सोने की अंगूठी मेरे हाथ में रखी है, यह असली सोने की बनी है।" बोला "वो कैसे?" मैंने कहा, "मैंने शहर के सबसे पुराने और तजूरबेकार सूनार के जिस की दाढ़ी इस काम में सफेद हुई है, से मालूम किया है, उसने उसके असली होने की तसदिक़ की है।
उसने जो कहा वह सुनने के बाद मैं हवास बाखतह होकर चुप हो गया, उसने कहा, "जाओ मियां! वो क्या जाने सोने के बारे में, मेरे पड़ोस के लोहार ने कहा है कि यह सोना नहीं, सो यह अंगूठी नक़ली है।

हमारे पाकिस्तानी और भारती अज़ादारों का भी कुछ ऐसा ही हाल है, हमारे कुछ प्रिय दोस्त एक मुजतहिद जिसकी दाढ़ी "क़ोल" और "क़ाल" करते करते सफेद हुई उसकी बात यह कह कर रद कर देते हैं कि हमारे जाकिर साहब कहते हैं यह बात गलत है!

 आजकल कई मिम्बर नशीन, जो कीसी मुसतनद ईलमी दरसगाह के सनद याफ़ता नहीं हैं, अवाम को अपनी इस तरह की बातों से अक़ाऐदी झांसा दे रहे हैं। मैं यह नहीं कहता कि सारे जाकिर और खतीब बुरे हैं, बिल्कुल नहीं! कई जाकिर जब हम सुनते हैं तो उनके पढ़ने से लगता है कि बेचारे कम ज्ञान रखते हैं मगर मौला (अ) की मोहब्बत मे सरशार होकर ड्यूटी दे रहे हैं। में हरगिज़ इन ज़ाकरों और खतीबों की बात नहीं कर रहा, यह बेशक मदरसे के पढ़े नहीं मगर ज़ीकरे अहलेबेयत (अ) करते हैं यह लोग मौहतरम हैं, लेकिन कुछ काली भेड़ें हैं जो मिम्बर पर बैठने लगी हैं ऐसे मिम्बर नशीनों की खास बात यह है कि यह मराजे ऊज़्ज़ामे क़ुम व नजफ़ से तो नाराज रहते ही हैं, लेकिन एक शब्द भी बड़े जोर-शोर से उपयोग करते हुऐ पाये जाते हैं की "हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए।"

मुझे यह बात बड़ी अजीब लगी, क्योंकि मैंने जब अपने मूल्क और भारत में अज़ादरी देखी तो मुझे लगभग हर बात ईरान से ली हुई दिखी। जब मैंने ज़ाकिर को खड़े होकर या मिम्बर पर बैठकर मसाईबे इमाम हुसैन (अ) बयान करते देखा तो मुझे ग्यारहवी हिजरी सदी का ईरानी सफ़वी दौर याद आया, हाँ! यह ईरान के सफ़वी सुल्तान ही थे जिन्होंने "रोज़ाख़ानी" यानी मजलिस के इस तरीके को मूनज़्जम तौर पर राईज किया। आप देबले खज़ाई आदि की मीसाल बेशक दें मगर आज की तर्ज पर मुनज़्ज़जम तौर पर मजलिस पढ़ने की जड़ें सफ़वी दौर से ही जूड़ी दिखती हैं। बकौल शहीद मुताहरी (रज़) कि रोज़ाख़ानी वास्तव में रौज़ा-तुल- शौहदा को पढ़ना है। रौज़ा-तुल- शौहदा दसवीं सदी में लिखी गई मसाईबे इमाम हुसैन (अ) पर मुशतमील एक किताब का नाम है जिसे हाथ में लेकर एक जाकिर पढ़ा करता था और लोग गिरया करते थे। बाद में यह किताब व तरीका ऐ मजलिस ईरान से भारत मुनतक़ील हुआ।
इसी तरह जब मैंने ताजिया बरदारी देखी तो मुझे फिर सफ़यों का दौर याद आया, मुझे सफ़वी सुल्तान शाह इस्माईल व शाह ज़मान के आलीशान ताज़िये याद आए जिनका पश्चिमी इतिहासकारों ने भी अपने सफरनामों में तज़केरा किया है। "ताजिया या शबीह ख़ानी" यानी बाकायदा थईटर (theatre) पर नाटकों की सुरत मे वक़ऐ कर्बला को अवाम के सामने पेश करना सफ़वी दौर की देन है, जो ईरानी क़ाचारयों के शासनकाल में जोर पकड़ कर अब तक ईरान में राईज है, लेकिन जब यह शबीहख़ानी(شبیہ خوانی) भारत पहुंची तो थईटर नाटक की सूरत बदल गई, उसमें से अदाकार निकल गए बाकी ज़ूलजनाह, अलम, अमारयाँ, ताबूत आदि रह गए।
जब जुलूस व नियाज़ को देखता हूँ तो मुझे इसी सफ़वी दौर में ईरान का शहर अरदबील याद आता है, जीसकी पांच सड़कें थीं और हर सड़क से विभिन्न प्रकार के जुलूस निकल कर एक बड़े से मैदान में आते जहां अज़ादारों के लिए हाकीम शाह ज़मान द्वारा ख़ूशबुदार शरबत और खाने की व्यवसथा होती थी। बकौल पश्चिमी इतिहासकारों के राजा खुद भी बड़े से मैदान में मौजूद होते जहां यह लंगर लगाया जाता।
आग पर मातम की जड़ें ढूंढने निकलता हूँ तो वह भी मुझे ईरान के तुर्की मूल और बकौल कुछ इतिहासकारों के, ईरानी आतीश परसतों के शिया होने से मुताल्लीक़ अफ़सानो में ही नजर आती हैं। मुख़तसर यह की हमारे भाइयों ने अज़ादारी में रीढ़ की हैसियत रखने वाली सभी माद्दी व मानवी चीज़ें ईरान से ले रखी हैं लेकिन फिर भी उनकी ज़बान पर यही रहता है कि हमें ईरानी तशय्यो नहीं चाहिए! ऐसा क्यों है?

वास्तव में बात यह है कि हमें *सफ़वी सुल्तानों* की तख़लीक़ की हुई रसमी अज़ादारी चाहिए, अगर कोई रस्म ईरान से मिले तो हम ले लेंगे, ज़ूलजनाह मिले तो ईरान से ले लेंगे, ताजिया मिले तो सही, क़माज़नी, ज़ंजीर ज़नी, आग का मातम, मजलिस ....

ठीक है हमें स्वीकार है! हम यह नहीं कहते कि ये चीजें बे अरजी़श और फूज़ूल हैं, हरगीज़ नहीं! यह शआईरे हुसैनी हैं हमें हमारी जान से भी ज़ीयादा अज़ीज़ हैं मगर! हमारा निवेदन सिर्फ इतना सा है कि जहाँ आपने कल के *सफ़वी ईरान* से अज़ादारी ली उसी तरह आज के *खुमेनवी ईरान* से क्रांति भी लें, इस खुमेनवी ईरान ने इस समय दुनिया के अन्याय और ताग़ूती सरकारों को परेशान कर रखा है, सारी दुनिया यह सोचने पर मजबूर है कि मकतब अहले बैत (अ) में ऐसी कौन सी शक्ति है कि मदरसे में पढ़ने वाले मौलवी पूरा देश चला रहे हैं, न केवल चला रहे हैं बल्कि दुनिया के सारे ज़ालीमो से भी टक्कर ले रहे हैं और मज़लूमो का समर्थन भी कर रहे हैं। हमने *सफ़वी ईरान* से बहुत कुछ ले रखा है लेकिन शेख इब्राहिम ज़कज़ाकी (हफाज़ा हुलअल्लाह) ने *खुमेनवी ईरान* से ऐसी अज़ादारी ली कि अपने देश में डेढ़ करोड़ सुन्नियों और वहाबियों को शिया कर दिया, लेबनान वालों ने *खुमेनवी ईरान* से ईज़्ज़त, वीक़ार और मुकावेमत से जीने का दरस लिया, यमन के ज़ेदीयों ने *खुमेनवी ईरान* से प्रभावशीलता ली और वर्षों पुरानी सऊदी राज्य के खिलाफ डट कर उसे चुने चबवा दिए, सीरिया और इराक वालों ने जब *खुमेनवी ईरान*की बात पर लब्बेक कहा तो दाईश को कीड़े मकोड़ों की तरह मार कर उनका सफ़ाया कर दिया, ओमान में वर्षों बाद सरकारी टी.वी पर अलीयून वलीउल्लाह की अज़ान सुनाई दी, क़तीफ में सऊदी बक्तरबंद वाहनों को जलता देखा गया। सारी दुनिया के सुन्नी शिया *खुमेनवी ईरान* से अज़ादारी लेकर जीना सीख रहे हैं लेकिन हम अभी तक *सफ़वी ईरान* की तक़लीद कर रहे हैं और कोई कहे कि *खुमेनवी ईरान* से भी कुछ ले लो तो हम कहते हैं "हमें ईरानी शीयत नहीं चाहिए।

arezuyeaab.blogfa.com

خطیب اور محرم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

خطیب اور محرم

ازقلم: محمدزکی حیدری 

میرے برادر بزرگ جو ایک مذھبی تنظیم سے وابستہ ہیں نے مجھے حکم دیا کہ محرم کی آمد آمد ہے سو میں مبلغین کی ذمہ داریوں کے متعلق آراء لکھ بھیجوں. میرے محسن برادر بزرگ کے حکم کی تعمیل جس طرح کی وہ پیش خدمت ہے) 

 

 

فضائل، فرمان اور ارمان

ایک اچھے سخنران کی نشانی یہ ہے کہ اس کی گفتار مندرجہ ذیل تین اجزاء کے مناسب امتزاج پر مبنی ہوتی ہے.
فضائل
فرمان
ارمان
یعنی اس کی مجلس کے تین حصے ہوتے ہیں، وہ اہل بیت (ع) کے *فضائل* سنا کر مستمع کا دل خوش کرتا ہے، پھر اہلبیت (ع) کے *فرمان* سنا کر امر بہ معروف و نھی از منکر کا فریضہ انجام دیتا ہے اور آخر میں حسب روایت *ارمان* یعنی مصائب آل محمد (ع) بیان کرتا ہے.
یہ امتزاج جتنا مناسب ہوگا اتنی سخنرانی معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوگی.

 

خطیب زندہ مچھلی کی مانند ہو:

مردہ مچھلی اور زندہ مچھلی کی پہچان ماہی گیر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اس مچھلی کی جسمانی حرکت کو دیکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مردہ مچھلی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہی چلی جاتی ہے، اور زندہ مچھلی پانی سے مقابلہ کر کے اپنا راستہ بناتی ہے. اسی طرح یہ معاشرہ کم علمی، کم عقلی، کم فہم و کم فراست کا ایک دریا ہے اس میں خطیب معاشرے کے ساتھ بہتا چلا گیا تو سمجھیئے مردہ ہے، جس طرف معاشرہ جائے گا اس کے ساتھ بہتا چلا جائے گا جب کہ عالم کی ذمہ داری ہے معاشرے کو تبدیل کرنا کہ اس کے ساتھ بہے چلے جانا.

 

معاشرے سے منقطع ہونا ھلاکت ہے:

اس ضمن میں بھی مچھلی کی مثال دونگا. اگر مچھلی خود کو دریا سے نکال کر خشکی پر لے آئے تو ہلاک ہوجائے گی، اسی طرح عالم دین جب معاشرے سے کٹ جاتا ہے تو اس کی موت ہوجاتی ہے.
ہمارے معاشرے میں علماء پر یہ ہی اعتراض ہوتا ہے کہ وہ مجلس کے بعد نظر نہیں آتے. جو مجلس پڑھنی ہو اس میں نظر آتے ہیں باقی مجالس و جلوس وغیرہ میں عوام ہی ہوتی ہے، اس حال میں اگر عالم دین خود عوام کے ساتھ رہے تو یہ عمل عالم کے سخن میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور وہ عالم دین عوام کے اذھان کے ساتھ ساتھ عوام کے قلوب میں بھی جگہ بنا لیتا ہے.

زہر کا خاتمہ کرنا:

زہر کے خاتمے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ آپ بوتل کا ڈھکن کھول کر اسے زمین پر انڈیل دیں، نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری، اس سے زہر کا نام نشان مٹ جائے گا. دوسرا طریقہ یہ کہ آپ اس میں قطرہ قطرہ میٹھا پانی ملاتے جائیں، اس سے یہ ہوگا کہ زہر شربت میں تبدیل ہو جائے گا. عاقل عالم دین معاشرے کے جاہل افراد کو دین سے دور کرکے ان کا خاتمہ نہیں کرتا بلکہ علم کا قطرہ قطرہ ان کے اذہان میں ڈالتا جاتا ہے، ایک دن ایسا آتا ہے کہ ان کی جہالت اپنا اثر کھو دیتی ہے اور علم میں تبدیل ہوجاتی ہے.

*سیاسی رھنمائی و ذھن سازی:

اچھا خطیب سیاسی حالات پر گفتگو کرتا ہے دین و سیاست کو الگ سمجھنے والے نظریئے کی بھرپو مخالفت کرتا ہے اور مراجع کرام و ولایت فقیہ سے تمسک کی اہمیت و افادیت بیان کرتا ہے

حسین (ع) کا حج فارسی زبان کے شاعر کی زبانی

حسین (ع) کا حج فارسی زبان کے شاعر شھریار کی زبانی

 

حاجيان جمعند دور هم همه
*حاجی ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہیں

 

پس کجا رفته حسين فاطمه
لیکن کہاں ہے فاطمہ (س) کا حسین (ع)

 

او به جاي موي سر ، سر مي دهد
وہ سر کے بالوں کی بجائے سر دے گا

 

قاسم و عباس و اکبر مي دهد
قاسم و عباس و اکبر دے گا

 

حجّ او داغ جوانان ديدن است
اس کا حج ہے جوانوں (کے بچھڑنے) کا غم دیکھنا

 

دور نعش اکبرش گرديدن است
اکبر کی لاش کے گرد طواف کرنا

 

مسلخ او خاک گرم کربلاست
اس کا مسلخ کربلا کی خاک ہے

 

موقف او زير سمّ اسبهاست
اس کا موقف گھوڑوں کی نعلوں تلے ہے

 

سعي حجّ او صفا با خنجر است
سعی حج اور صفا اس کا خنجر سے ہے

 

مروه اش قبر علي اصغر است
مروہ اس کا علی اصغر کی قبر ہے

 

او رود حجي که قربانش کنند
وہ چلا اس حج پہ جو اسے قربان کردیگا

 

در يم خون سنگبارانش کنند
اس کے خون آلود جسم پر پتھر بسائے گا


مترجم و ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

ابراہیم (ع) شیعہ تھے

 بسم اللّه الرحمن الرحيم

 

ابراہیم (ع) شیعہ تھے

تحریر: محمد زکی حیدری

 

 

قدیم مصر کے شہر قاہرہ میں ابراہیم (ع) کی آمد کا سن کر سڑکوں پر بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں ہوگئے، ھورڈنگز، پمفلیٹس، دیواروں پر مجالس عشرہ اور خمسہ کے اعلانات کہ کس وقت ابراہیم (ع) کہاں خطاب فرمائیں گے، بعض لوگوں نے چاہا کہ ابراہیم (ع) ان کے یہاں آکر مجلس پڑھیں مگر ابراہیم (ع) کے سیکریٹری نے کہا کہ ابراھیم (ع) فارغ نہیں ہیں، سارے دن "بوک" ہو چکے ہیں، ایک دن میں متعدد تقاریر کرنی ہیں. ابراھیم (ع) کی پہلی تقریر ایک بڑے سے میدان میں ہے. بہت بڑا منبر سجایا گیا ہے. ابراہیم (ع) حاکم وقت فرعون کی طرف سے بھیجے گئے پولیس والوں کے اسکارٹ میں آئے، گرمجوشی سے استقبال ہوا، نعرے لگے. جب ابراھیم (ع) منبر نشین ہوچکے تو سب چپ ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب ابراھیم (ع) کچھ بولتے ہیں. اب ابراہیم (ع) نے ایک ایسی زبان میں اللہ (ج) کے بارے میں چند جملے تلاوت کیئے جو مجمعے کی زبان نہیں تھی، سو انہیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ ابراہیم (ع) کیا کہہ گئے. اس کے بعد ابراھیم (ع) نے مصریوں کی زبان میں گفتگو کرنا شروع کی. پہلے انہوں نے آدم (ع) کے فضائل پڑھے لوگوں نے بہت نعرے لگائے، واہ واہ کی؛ پھر حضرت ادریس (ع) کے فضائل بیان کیئے اور جب دیکھا مجمعہ "گرم" ہے تو چیخ چیخ کر نوح (ع) کے فضائل بیان کرنا شروع کیئے، مجمعہ واہ واہ کیئے نہ تھکتا تھا. لیکن یہ مجمعہ اس وقت فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا جب ابراہیم (ع) نے آستینیں اوپر چڑھا لیں، ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے قابیل کے نقائص بیان کرنا شروع کیئے. لوگ اٹھ اٹھ کر نعرے لگانے لگے. قابیل پر تبرا شروع ہو گیا، کسی کونے سے زور زور سے آوازیں آنے لگیں "نوح کے دشمن پر لعنت" سب نے جواب دیا "بے شمار".... ایک بیچ مجمعے سے کھڑا ہوگیا چیخ چیخ کر بولنے لگا
"نوح حق ہے یہی سچ ہے،
جو نعرہ نا مارے اس کی پیدائش میں شک ہے،
حلال زادہ ہاتھ اوپر کر کے جواب دے،
حرام زادہ اپنی ماں سے پوچھے...
پنج نعرا پنتجتنی سوا لکھ نعاااااااااارے نوح" سب نے جواب دیا "یا نوح".... پھر ابراھیم (ع) نے ھابیل کی مظلومانہ شہادت پڑھنا شروع کی، سب رونے لگے. مجلس ختم ہوئی. ابراہیم (ع) کو اپنے ذاتی محافظوں اور فرعون کے پولیس والوں نے گھیر لیا اور وہ حفاظتی دستوں کے زیر سایہ کسی دوسری جگہ "تبلیغ" کرنے چلے گئے. وہاں سے مسجد کے اسپیکر سے اذان شروع ہوئی مجمعہ ماتم شروع کرنے لگا، ۳۰۰۰ تنخواہ لینے والا مولوی مسجد کے اسپیکر سے پکارتا رہا "حی علی صلاۃ" ..... "حی علی صلاۃ".... لیکن مجمعہ ماتم میں مگن ہوگیا.

آپ شاید کہیں کہ یہ تو ابراہیم (ع) کی توہیں ہے، لیکن آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے! کیوں کہ ابراہیم (ع) نبی تھے اور علماء انبیاء کے وارث کہلواتے ہیں. آج خود وارثین ابراہیم (ع) جس طرز سے تبلیغ کرتے ہیں میں نے صرف اس ماحول کو ابراہیم (ع) کے دور سے ملا کر ایک منظرنگاری کی ہے. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری محافل وارثین ابراھیم (ع) کی توھین کرتی ہیں تو میں بھی مان جاؤنگا کہ میں نے ابراہیم (ع) کی توہیں کی ہے.
آپ کو ماننا پڑے گا کہ ہمارے حالات بہت برے ہیں. ہمیں کیا دیا وارثین ابراھیم (ع) نے!!! ہمیں سوچنا چاہیئے. اگر آج کے شیعہ سے سوال کیا جائے کہ لفظ شیعہ تاریخ سے ثابت کرو تو وہ قرآن میں لفظ شیعہ سے لیکر احادیث و روایات کے ڈھیر لگا دے گا کہ جناب دیکھئے لفظ "شیعہ" بہت سے مقامات پر ملتا ہے اور اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ اسی قرآن و روایات کے ذریعے سے خود کو شیعہ ثابت کرو تو وہ خاموش ہو جائے گا. ہمارا بچہ بچہ مناظرہ جانتا ہے، فیسبوک، واٹس ایپ پر ایک مناظرے کا موضوع چھیڑیئے، نیچے سینکڑوں مناظری اپنے علم کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں. لیکن خود کو اللہ (ج) و توحید کے یگانے عاشق ابراھیم (ع) جیسا شیعہ کہنے والوں سے توحید کی تعریف یا صفات سلبیہ و صفات ثبوتیہ کی تشریح پوچھ لو تو جواب نہیں آتا.
کیونکہ وارثین ابراہیم (ع)نے منبر سے جو جو ہمیں بتایا ہے ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں. ہمیں عزاداری دی گئی ہم نے لے لی، تبرا، مناظرہ جو چیز وارثین ابراھیم (ع) نے منبر سے دی ہم نے لے لی. *میں یہ ھرگز نہیں کہتا کہ یہ چیزیں نہ ہوں، بیشک ہوں* لیکن یہ دین کا جسم ہیں، دین کی روح توحید ہے وہ ہمیں نہیں دی گئی. اتنی تعداد میں مجالس ہوتی ہیں توحید پر کتنی بات ہوتی ہے؟ آئمہ (ع) کی تبلیغات میں توحید کا تناسب اور ہماری دینی مجالس و محافل میں توحید و اللہ (ج) کے ذکر کا تناسب دیکھئے کبھی، زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا. ہماری محافل میں اللہ (ج) کی صفات بیان نہیں ہوتیں، توکل کیا، دعا کیا، گناہ کیا، توبہ کیا، عبادت کیا، اطاعت کیا، کچھ نہیں. اس لیئے خستہ حال ہیں. توحید کے بغیر دین کا ہر رکن ادھورا ہے. کامیابی توحید میں ہے، عزت، امن، سکون و سلامتی ھر چیز توحید میں ہے.

ہم نے مانا کہ ابراہیم (ع) شیعہ تھے لیکن کیوں انہیں شیعہ کہا گیا یہ قرآن سے پوچھیئے. اور براہ کرم قرآن کی ایک آیت نہ لیا کریں اس سے آگے پیچھے والی ایات بھی پڑھا کریں، منبر نشین صرف ایک آیت بتا کر چلا جاتا ہے. ہمیں اس آیت کی قبلی و بعدی آیات کو پڑھنا چاہیئے تاکہ بات پوری سمجھ میں آئے. دیکھیئے سورہ صافات کی ۸۳ ویں آیت، وہ آیت جس میں ابراہیم (ع) کو نوح (ع) کا شیعہ کہا گیا ہے
وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ

اور نوحؑ ہی کے شیعوں میں سے ابراہیمؑ تھا

کیوں کہا ابراھیم (ع) کو شیعہ؟ یہ سوال پوچھیں مولانا سے یا خود موبائل میں قرآن کا ترجمہ دیکھیں، اس کی اگلی آیت بتاتی ہے کہ کیوں ابراہیم (ع) کو شیعہ کہا کیونکہ:

إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا.

ابراھیم قلب سلیم لے کر آیا. لیکن یہاں سوال کہ ٹھیک ہے پیارے اللہ (ج) وہ تو قلب سلیم لے آیا ہم کیا کریں. ایک آیت چھوڑ کر اگلی آیت پڑھیں

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ

آخر اللہ ربّ العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے؟"

جی ہاں قلب سلیم اسی کو ملتا ہے جو اللہ (ج) کا بندہ بن جائے، جو عمل کرے. نوح (ع) کی طرح، بلکل اس کی طرح جب ابراھیم (ع) نے عمل کیا تب جا کر اللہ (جَ) نے ابراہیم (ع) کو شیعہ کا لقب دیا. ثابت ہوا کہ شیعہ اسی کو کہتے ہیں جو ہو بہو اپنے آپ سے قبل آنے والے موحد کی طرح *عمل* کرے، اسی لیئے جب سلمان (رض)، ابوذر (رض)، عمار (رض) وغیرہ کو ہوبہو علی (ع) کے نقش قدم پر چلتے دیکھا تو رسول (ص) نے فرمایا: "اے علی (ع)! تم اور تمہارے شیعہ کامیاب ہیں." اللہ (ج) نے ابراہیم (ع) کو جس لحاظ سے نوح (ع) کا شیعہ کہا عین انہی معیارات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (ع) کے پیروکاروں کو شیعہ کہا.
سو مجھے اور آپ کو سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم پر شیعہ ہونا صدق کرتا ہے یا نہیں. کہیں ہم صرف یہ کہہ کر خوش تو نہیں ہو رہے کہ ہم جنت میں جائیں گے کیونکہ "ابراہیم بھی شیعہ تھے."


*_arezuyeaab.blogfa.com_*

حسنین (ع) میں واقعی خوشبو تھی

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم


حسنین (ع) میں واقعی خوشبو تھی

 

شہید آیت اللہ دستغیب فرماتے ہیں:
سورہ رحمٰن میں لفظ ریحان استعمال ہوا ہے اس کے بارے میں میں کہوں گا کہ امام حسن و حسین (ع) کا ایک لقب "ریحان" بھی ہے اور علی (ع) کی کنیت بھی. اس ضمن میں رسول اللہ (ص) سے حدیث ملتی ہے.
ایک دن حضرت علی (ع) نے رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا رسول اللہ (ص) نے جواب میں فرمایا "سلام ہو تم پر اے دو *ریحانوں* کے والد!"

رسول اللہ (ص) نے بلاوجہ یہ الفاظ نہیں کہے، ماننا پڑے گا کہ آنحضرت (ص) حسنین (ع) کو سونگھا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی کے آخری لمحات میں جب حسنین (ع) آپ (ص) کے سینے سے چپکے تھے اور علی (ع) نے انہیں جدا کرنا چاہا تو آپ (ص) نے فرمایا:" انہیں رہنے دو، میں چاہتا ہوں ان کی خوشبو سونگھتا رہوں اور لذت حاصل کرتا رہوں"
جی ہاں! حسینیوں پر فرض ہے کہ کل روز قیامت حوران بہشت پر حسین (ع) کو ترجیح دیں. بھلے نصیب ان کے جنہیں قیامت کے دن حسین (ع) کی خوشبو سونگھنے کو ملے!

حوالہ:
روضہ ھای شہید دستغیب ص ۱۴۷
حوالہ روایت: بحار ج ۲ اور ۶ ، تفسیر سورہ مبارکہ رحمٰن ص ۱۰۱


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

رسم نبھانے والے امام؟

رسم نبھانے والے امام؟
.
تحریر: محمد زکی حیدری
.
جاپان کی بات ہے کہ صابن بنانے والی ایک بہت بڑی کمپنی کو ایک مسئلہ پیش آیا، اس کے گراہکوں نے اس کمپنی پر دھوکے کا الزام لگا دیا کہ اس کمپنی کا جو صابن آتا ہے اس کے متعدد ڈبوں میں صابن نہیں ہوتا، پیکٹ خالی ہوتا ہے. کمپنی کے مینجرز سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس کیا حل نکالا جائے, ایک انجینیئر نے تجویز دی کہ آمریکا سے فلاں ڈٹیکٹر منگایا جائے جو پیک شدہ صابن کے *موونگ کنویئر پر رکھ دیا جائے جو صابن کا ڈبا خالی ہوگا ڈٹیکٹر گھنٹی بجائے گا اور مزدور اسے جدا کردیگا. سب نے اس تجویز کو بہت سراہا، میٹنگ کا اختتام ہوا، وہ جاپانی انجنیئر میٹنگ روم سے باھر آیا تو اس کا پاکستانی فورمین چھٹی کی درخواست لے کر کھڑا تھا. انجینیئر نے اسے کہا کہ ابھی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مجھے آمریکا جانا ہے، کمپنی کو صابن سے خالی پیکٹس کی بہت شکایت ہے لہذا وہ کیونکہ سب سے تجربہ کار فورمین ہے تو پیچھے سارا کام اس نے ہی سنبھالنا ہے اس لئے اسے اگلے مہینے چھٹی ملے گی اس ماہ نہیں. پاکستانی فورمین نے سوچا یہ تو مسئلہ ہوگیا. وہ بھی آگے سے پاکستانی تھا بولا: سر وہ ڈٹیکٹر کتنے کا ہوگا؟ اور آپ کا آمریکا جانا آنا سب لگا کر ھزاروں ڈالر کا خرچہ ہوگا نا؟" انجینئر نے کہا: وہ تو ہے. پاکستانی کو چھٹی لینی تھی، سو بولا آپ مجھے چھٹی دیں تو میں سستے میں اس کا حل بتا سکتا ہوں. انجینئر نے حامی بھر لی. پاکستانی بولا ایک پنکھا منگوا لیں اور جس کنویئر لائین سے صابن قطار میں گزرتے ہیں اس کے سامنے وہ پنکھا رکھ دیں جو صابن کا ڈبہ خالی ہوگا وہ ھلکا ہی ہوگا سو ھوا سے اڑ جائے گا اور از خود کنویئر لائین سے نیچے گر جائے گا. جاپانی بہت خوش ہوا بولا پہلے کیوں نہ بتایا؟ شاید پاکستانی نے جوابا کہا ہوگا سوچنے کی ضروت ہی اب پڑی جب چھٹی درکار تھی!

ہمارا دماغ بہت چلتا ہے، جب ہمیں اپنی غرض ہو، ہماری سوچ اتنی تیزی سے کام کرتی ہے کہ مجال ہے دنیا کا کوئی بڑا مفکر بھی ہم سے مقابلہ کر سکے. مثال کے طور پر ہمارے مذھبی-سیاسی بزرگ اتحاد بین المسلمین کی آڑ میں جب کسی قبیح سیاسی تنظیم سے اتحاد کرتے ہیں تو صلح حدیبیہ، صلح امام حسن (ع) کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور ہم چپ ہو جاتے ہیں، لیکن یہ جب ایک دوسرے سے اختلافات کی وجہ سے اپنی الگ تنظیم بناتے ہیں تب انہیں اتحاد بین المومنین یاد نہیں ہوتا کہ علی (ع) نے ایک نامناسب شخص کو منصب قیادت پر دیکھا لیکن اس کی خلافت کے مقابلے میں نہ کوئی پارٹی بنائی نہ متوازی خلافت کا اعلان کیا کیونکہ اتحاد اہم تھا سو ان کو کمزور کرنے کی بجائے ان کو اپنی تجاویز سے مدد دی.

اسی طرح جب ہمیں شیعت کے مسائل پر خاموش رہنا ہو تو ہمارا تیز دماغ آئمہ (ع) کی زندگی سے تقیہ کی بڑی بڑی مثالیں پیش کر دیتا ہے، علی ابن یقتین و فلاں و فلاں... اسی کوشش میں ہمارا "چیتا دماغ" ایک اور کام بھی کرتا ہے وہ یہ کہ ہم آئمہ (ع) کو ایسا بناکر پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ (نعوذباللہ) رھبانیت میں زندگی گذار رہے تھےکہ بس ایک کونے میں بیٹھ کر نماز و روزہ و عبادت و حسین (ع) پر گریہ ہی کیا کرتے تھے، رسومات و عبادات اور بس... ہمارا دماغ یہاں نہیں چلتا کہ سوچیں کہ اگر وہ مدنی مولویوں کی طرح کونے میں بیٹھے غیبت کے خلاف جنگ کی تقاریر کرتے اور صرف رسم عبادت ہی نبھایا کرتے تھے تو ظالم حکمرانوں کو کیا ضرورت تھی کہ انہیں شہید کر کے اپنا دامن داغدار کریں!!!

دشمن سمجھدار ہے بھائی ایسے ہی نہیں مار دیتا. ہر امام مقاومت کا ایک ناقابل تسخیر قلعہ تھا، ھر امام شیعوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا، یہ تو مرد تھے، اگر ہم زھرا (س) و زینب (س) کی مقاومت دیکھ لیں تو بھی سمجھ جائیں کہ آئمہ (ع) کی مقاومت کس نہج پر ہوگی، یہ میدان میں فعال رھنے والے ھادی تھے. دیکھئے امام ھادی (ع) کو کہ غربت ہے، بھیس بدل کر چھپ چھپ کر کہیں سے خمس و زکوات ملے تو لینے جاتے،.پھر بھیس بدل بدل کر ان ھاشمی و غیر ھاشمی خاندانوں کی کفالت کرتے، اپنے شیعوں سے مسلسل رابطے میں رہتے، شیعوں کے فائدے کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے، امام موسی کاظم (ع) سے کسی شیعہ کو ھدایات لینی تھی امام (ع) اس سے بھیس بدل کر بازار میں ملے، اسے ھدایات دیں کہ ظالم حاکم سے کیسے نبرد آزمائی کی جائے. یہی وجہ تھی ظالم اموی و عباسی حکمران اکثر آئمہ (ع) کو ایک مجرم کی مانند صفائی پیش کرنے کیلئے اپنی درباروں میں بلایا کرتے. حکمرانوں کو ہمیشہ ان مقاومتی آئمۂ تشیع سے خوف رہتا تھا.

کیوں امام موسی کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادیاں نہ ہوسکیں؟ کیوں نہیں سوچتے ہم؟ وہ امام (ع) کی باتقوی، باعفت، ھاشمی، عالمہ، فاضلہ بیٹیاں... ان کا رشتہ لینے کو کوئی تیار نہ تھا. کیوں...؟ یہاں بھی ہم نے امام موسی کاظم (ع) کی مظلومیت پر پردہ ڈالا اور کہنا شروع کردیا بھئی وہ تو سیدانیاں تھیں اور اس وقت کوئی سید لڑکا نہ ملا. گویا سید سب ناپید تھے. عجب! ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ امام کاظم (ع) جو خود قید میں، گھر پہ سخت پہرا، آنے جانے والے کی سخت جاسوسی، ایسے میں کون تھا کہ موسی کاظم (ع) جیسے ہارون رشید کے سخت ترین دشمن کا داماد بنتا. امام موسی کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادیاں نہ ہونا امام (ع) کی ھارون جیسے وقت یزید سے دشمنی کا عظیم ثبوت ہے، مقاومت کی دلیل ہے. لیکن ہم نے اس عظیم ثبوت کو سید لڑکے کی عدم موجودگی کہہ دیا اور اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ذاکروں کو حرمت نکاح سیدہ با غیرسید کا جواز مل گیا اور امام (ع) کی مقاومت پر بھی پردہ پڑ گیا. یہ ہے ہمارا تیز دماغ!

اس طرح کی ھزاروں مثالیں، ایک امام کبھی سنیوں سے شیعت کو بچاتا نظر آتا ہے، کبھی معتزلہ سے نبرد آزما، کبھی غالیوں سے کبھی اسماعیلیوں سے، کبھی صوفیوں سے... آئمہ (ع) کا جرم دفاع تشیع تھا جس کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کو شہید کیا گیا، ہمارے آئمہ (ع) ظلم پہ خاموش رہتے اور صرف رسومات و عبادات میں مگن رہتے تو شہید نہ ہوتے.

آئمہ (عَ) کو ہم چاہے جو بھی نام دیں، لقب دیں، چاہے لاکھ کہیں کہ ہمارا ایک امام پچیس سال خاموش تھا، دوسرا معاویہ سے صلح کرنے والا تھا، تیسرا بس گلے کٹانے والا تھا، چوتھا بیمار تھا، ساجد تھا، روتا تھا، صرف دعائیں اچھی کرتا تھا؛ پانچواں عالم؛ چھٹا ایک فقیہ و استاد؛ ساتواں غصہ پینے والا؛ آٹھواں رضا پہ راضی؛ نواں تقی؛ دسواں ھادی؛ گیارہواں زکی، اور آخری غائب... بیشک ہم اپنی محافل مجالس میں ان القابات کو جتنا بھی زور و شور سے پیش کریں اور ان کی شہادت ولادت کو صرف رسم بنا دیں، اور ان کے اسباب شہادت کی طرف دھیان نہ دیں، ان کی مقاومت کے اوراق پر دھول پڑی رہنے دیں، لیکن ہمیں یاد رہے کہ ان میں سے کسی نے شیعہ پہ ظلم ہوتا دیکھ کر کونا نہیں پکڑا، ان سادات کا پاک لہو گواہ ان میں سے ایک بھی رسومات میں غرق رہ کر ظلم پر چپ رھنے والا امام نہ تھا.

*(وہ گھومتا ہوا پٹا عرف بیلٹ جس پر تیار شدہ صابن قطار میں بڑے بڑے کارٹنز میں جمع ہونے جاتے ہیں)

www.fb.com/arezuyeaab.com

زینب (س) یعنی...

زینب (س) یعنی...

تحریر: محمد زکی حیدری

میرے ایک دوست نے پوچھا زینب (س) نے اتنی قربانی دی کیوں اسے چار برگزیدہ عورتوں میں شامل نہیں کیا جاتا؟ میں نے کہا مجھے اس مصلحت خداوندی کا علم نہیں. وہ کہنے لگا تم زینب (س) کو ان سے کم سمجھتے ہو شاید؟ میں چپ ہوگیا اس وقت اسے جواب نہ دیا لیکن اب جواب دے رہا ہوں کہ دوست سنو!

حوا (س) یعنی ممنوعہ درخت سے میوہ کھانے والی, زینب (س) یعنی علی (ع) کے گھر میں مسلسل سوکھی روٹیاں کھانے والی، ازواج نوح (ع) و لوط (ع) یعنی شوہر کا گھر چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والیں، زینب (س) یعنی شوہر کا گھر چھوڑ کر حق کیلئے کربلا کا رخ کرنے والی، آسیہ یعنی دنیا کی تمام تر آسائشوں سے آراستہ فرعون کے محل میں رہ کر اسلام کا دفاع کرنے والی زینب (س) یعنی تپتے صحراء و بیابان میں اسلام کا دفاع کرنے والی؛ ھاجرہ یعنی ایک اسماعیل (ع) پر چھری برداشت نہ کر پانے والی، زینب (س) یعنی عون و محمد (ع) کے جنازے بڑے صبر سے حاصل کرنے والی؛ مریم یعنی جس کا ایک بیٹا اسلام پہ قربان ہو زینب (س) یعنی وہ جس کے دو بیٹے، بھائی، بھتیجے.. اسلام کی راہ پہ قربان؛ خدیجہ (س) یعنی اپنا مال محمد (ص) کے دین پہ لٹانے والی زینب (س) یعنی اپنی چادر اسلام پر لٹانے والی، عائشہ یعنی وہ عورت جو علی (ع) کے خلاف نکلی ہو اور اس کے ساتھی مرد اس کی اونٹنی کو گھیرے ہوں، زینب (س) یعنی وہ جو یزید کے خلاف نکلی ہو اور دشمن مرد اس کے خیمے کو گھیرے ہوئے ہوں...

زھرا (س) یعنی وہ عورت جو صرف اپنے بابا (ص) کی موت دیکھے زینب (س) یعنی وہ جو حسن (ع) خون کی الٹیاں کرتے دیکھے؛ زھرا (س) یعنی وہ جو رسول (ص) کا جنازہ کاندھوں پہ دیکھے، زینب (س) وہ جو بھائی کا جنازہ تیروں پہ دیکھے؛ زھرا (س) یعنی وہ خاتون جو ایک دربار میں چادر کے ساتھ جائے زینب (س) یعنی وہ جو درباروں میں بے چادر...
زھرا (س) یعنی وہ خاتوں جو اپنے شوہر کے گھر میں یا اس کے بنائے ہوئے بیت الاحزان میں عزاداری کرے زینب (س) یعنی وہ خاتون جو شرابی کی دربار میں روئے؛ زھرا (س) یعنی وہ جو دنیا میں نہ آنے والا اپنا محسن شہید ہوتا دیکھے، زینب (س) یعنی جو چھ ماہ کے پیاسے کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہوتا دیکھے، زھرا (س) یعنی جس کو عباس (ع) کی ضرورت نہ ہو، زینب (س) یعنی جسے عباس (ع) کی ضرورت ہو اور وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پہ خون میں غلطاں ہو، زھرا (س) یعنی وہ جس کا اکبر (ع)... یعنی جس کی زندگی میں اکبر (ع) جیسا لعل سلامت ہو، زینب (س) یعنی وہ جو اکبر (ع) کی آخری صدا سنے اور واہ حبیبا! یابن اخی! کی صدا دیتی ہوئی مقتل کی جانب دوڑے اور خود کو علی اکبر (س) کے جنازے پہ گرا دے، زھرا (س) یعنی وہ بیبی جو علی (ع) کے پہرے میں ہو، زینب (س) یعنی جس کے پہرے میں بیبیاں ہوں، زھرا (س) یعنی جسے امام (ع) سنبھالے زینب (س) یعنی وہ خاتون جو امام (ع) کو سنبھالے... زینب (س) یعنی اونٹ پر تھجد، زینب (س) یعنی کاخ امراء کے در دیوار ھلانے والی علی (ع) کی مظلوم بیٹی، زینب (س) یعنی مقاومت، زینب (س) یعنی ظالم مرد کی آنکھ میں اس طرح آنکھیں ڈال کر دیکھنے والی کہ اسے اندھا کر دے...
مجھ میں اب طاقت نہیں مجھے کی پیڈ دھندلا نظر آرہا ہے اس سے قبل کے گستاخ آنسو ٹپکیں... زھرا(س) یعنی وہ جو حسین (ع) کے سینے پر رسول (ص) کو بوسے دیتے ہوئے دیکھے اور زینب (س) یعنی وہ جو حسین (ع) کے سینے پہ شمر کو خنجر...

www.fb.com/arezuyeaab

میرے مولا حسین (ع) مجھے بتائیں!

 

میرے مولا حسین (ع) مجھے بتائیں!

تحریر: محمد زکی حیدری


مولا! میرے مظلوم مولا! آپ پر ، آپ کی آل و انصار پر میرا سلام! مولا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کا پاکستانی عزادار ہوں۔ جیسے ایک بچہ صورتخطی لکھنا سیکھتا ہے تو بار بار اپنے استاد کو دکھا کر تصدیق کرتا ہے کہ وہ صحیح لکھ رہا ہے یا نہیں اسی طرح میں بھی آپ کی عزاداری کر کے آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ میں صحیح سمت جا رہا ہوں یا نہیں۔ میں آپ کو اپنی عزاداری کی ساری تفصیل بتا دیتا ہوں پھر آپ پر ہے کہ مجھ ایسے گنہگار کو اپنا جواب کس طرح عطا فرماتے ہیں۔

مولا! میں نے جب آنکھ کھولی تو مجھے بتایا گیا که هم شیعه هیں, محرم میں میرے سارے رشته دار, عزیز و اقارب سیاه لباس زیب تن کرت,ے ماتم کرت,ے مجھے بتایا گیا که یه سب اس امام (ع) کے غم میں کیا جاتا هے جنهیں کربلا نامی جگه پر شھید کیا گیا. مجھے نه امام کے معانی پته تھی, نا شھید کی.

پھر میں کچھ بڑا ہوا اسی طرح عزاداری کرتے رہے، جلوس، مجالس ، مصائب میں... میں سمجھ گیا کہ مخصوص دنوں میں مخصوص سرگرمیاں ہی انجام دی جاتی ہیں جیسے رمضان والی عید پہ نئے کپڑے پہنتے ہیں سوویاں پکتی ہیں ، اور قربانی والی پہ نئے کپڑے پہن کر گوشت کھاتے ہیں اسی طرح محرم میں کالے کپڑے پہن کر جلوس میں جاتے ہیں۔

قریبی شہر کے ہائےاسکول میں گئے تو سنیوں نے کہا تم شیعوں نے ہی امام حسین (ع) کو مارا اور تم ہی ماتم کرتے ہو اس سوال نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا میں سوچتا تھا یہ کیوں ایسا کہتے ہیں۔ اب جب تھوڑی بھت عقل آ چکی تھی تو میرے ابو جو خود بھی ایک خطیب ہیں، سے میں نے پوچھا کہ ابو کیا امام حسین (ع) کو ہم ہی نے مارا؟ بولے نہیں! کوفہ شہر کے لوگوں نے خطوط لکھے کہ امام آپ آجائیں ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ پھر ؟ پھر کیا ہوا ابو؟ تو بیٹا وہ "بے وفا" نکلے اور امام (ع) کو اکیلا چھوڑ دیا۔ میں نے پوچھا ابو یعنی کوفے والے بھی امام (ع) کے چاہنے والے تھے؟ بولے ہاں لیکن بعد میں مکر گئے، اور جب مکر گئے تو مرتد ہوگئے۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ سنی ایساکیوں کہتے ہیں۔ کوفہ والے امام (ع) کے چاہنے والے ہی تھے، جنہوں نے امام (ع) کو بلایا تھا اور نہتا چھوڑ دیا۔

مولا! ان کوفیوں کا سن کر میں نے سوچ لیا کہ آپ سے وفا کرنی ہے، بے وفا نہیں بننا، میں نے نوحہ خوانی سیکھی، میں نے مجالس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، راتوں کے رات جلوس میں چلا، حتیٰ نماز تک چھوڑ دی، کہ نمازتو کوفی بھی پڑھتے تھے، ان تکھ عزاداری، عزاداری اور بس عزاداری! صرف اس لیئے کہ میں اپنی وفا ثابت کر سکوں۔ اب میں بڑا ہوں عاقل ہوں ہر سال عزاداری کرتا ہوں مگر مجھ سے میرے کچھ دوست بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں کہتے ہیں اصل عزاداری یہ نہیں! امام (ع) سے وفا کا مطلب ہے کل کے یزید کی نہیں بلکہ آج کے موجودہ یزید کے خلاف قیام کرنا، امام حسین (ع) سے وفا یہ نہیں کہ ہم ان کے نام پر رونے کی ایک رسم چلا دیں اور بس رونے کو ہی اپنا شعار بنا لیں جب کہ ایوان انبساط پر اسی یزید نما ظالم کا قبضہ ہو اور وہ امام (ع) کے چاہنے والوں کو چن چن کر مارتا رہے، ماؤں کی گود اجڑتی رہے، پڑوس میں کسی جوان شہید کے سوئم کی مجلس میں اس کی ماں رو رہی ہو اور تم اپنے گھر میں مجلس کروا کر صدیوں پرانے یزید پر لعنت کر رہے ہو۔۔۔

مولا ! یہ میرے عجیب و غریب قسم کے دوست کہتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے دور میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ نہیں کی تھی یزید نے، یزید نے کسی امام بارگاہ پر بم نہیں پھینکوایا تھا، یزید نے کسی کو بسوں سے اتار اتار کر مارا نہیں تھا، یزید نے بازاروں میں ، مسجدوں میں، دکانوں میں امام حسین (ع) کے چاہنے والوں کو مارا بھی نہیں تھا ۔۔۔ کچھ نہیں کیا تھا یزید نے صرف امام حسین (ع) سے کہا تھا مجھے ووٹ دو، میری بعیت کرو، صرف زبانی ہی مان لو کہ میں تیرا حکمران! مگر امام (ع) نے لٹ جانا، مٹ جانا، قتل ہوجانا، گھر لٹا دینا تو گوارا کر لیا مگر ووٹ نہیں دیا، ظالم کی حکمرانی کا انکار کربلا کی شروعات تھی۔ تم لوگ ایک طرف خود کو حسین (ع)کا کہتے ہو دوسری طرف ان لوگوں جو تمہیں چن چن کر مارتے ہیں کے نعرے لگاتے ہو، انہین ووٹ دیتے ہو، انہیں انکار نہیں کرتے ۔۔۔ حسین (ع) کا انکار کربلا کی شروعات تھی، تم انکار کیوں بھول گئے؟ تم نے کتنے انکار کیئے ہیں آج تک؟ کیا امام (س) سے وفا یہ ہے کہ تم ایک رسم بنا لو رونے کی اور ہر سال رسم نبھاؤ۔ رونے کی رسم تو بنا رکھی ہے حسین (ع) کے انکار کی رسم کہاں ہے؟؟؟ تمہاری رسم اور حسین (ع) کی رسم میں فرق کیوں؟ اور دیکھو تمہاری اس رسم کا کیا اثر ہو رہا دیکھ لو، ہو رہا ہے کچھ اثر؟ نہیں کوئی نہیں ، کچھ نہیں رسم تو رسم ہوتی ہے۔۔۔

مولا! انہوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ تم نے اپنی اس رسم سے کتنے ظالموں کے دانت کھٹے کئے ہیں آج تک؟ یزیدیت کتنی کمزور ہوئی؟َ

مولا! یہ میرے دوست کہتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں حسینت ہو وہاں یزیدیت کو اس سے خوف نہ ہو، جہاں حسینیت ہو وہاں ممکن ہی نہیں کہ یزید طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا جائے ، جہاں یزیدیت طاقتور ہوتی چلی جائے سمجھ جاؤ وہاں حسینیت کمزور ہوتی جا رہی ہے، وہ کہتے ہیں دیکھو پاکستان میں یزیدیت کمزور ہو رہی ہے یا طاقتور؟ وہ پھر ادھر اھر جیسے ایران، لبنان، یمن، شام وغیرہ کے حسینوں اور حسینیت کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ وہاں دیکھو یزیدیت مسلسل پریشان ہے کیوں کہ اسے وہاں کی حسینیت کے علاوہ کسی سے خوف نہیں۔

لیکن مولا میرے ماموں کہتے ہیں کہ عزاداری رسم ہی سہی لیکن ہونی چاہیئے کہ امام حسین (ع) کا نام زندہ رہے، اب ہم اتنا حسین (ع) حسین (ع) کرتے ہیں پھر بھی ذاکر نائک جیسے کہتے ہیں یزید اچھا تھا، تو اب ہمیں اس عزاداری کو جاری رکھنا چاہیے، مولا یہ بات جب میں نے اپنے ان عجیب و غریب باتیں کرنے والے دوستوں کو بتائی تو انہوں نے کہا چلو مان لیتے ہیں کہ تمہاری اس رسمی عزاداری سے ایسے لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہیئں، تو ذرا دیکھو بھلا, ذاکرنائک جیسوں کی تعداد ہی کو دیکھ لو, کیا کم ہوئی ہے یا بڑھ رہی ہے؟ مولا میرے پاس ان کی اس بات کا بھی جواب نہیں کہ واقعی ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
مولا! یہ کہتے ہیں کہ امام سے محبت تو کوفیوں کو بھی تھی مگر انہوں نے ابن زیاد کے ڈر سے ووٹ کا انکار نہیں کیا، حیسنیت کا تقاضہ تھا کہ انکار ہو لیکن انہوں نے ان کار نہیں کیا، اپنے اوپر ظالم کو ہی مسلط رہنے دیا، وہ ڈرپوک تھے، وہ توجہیات پیش کرنے والے تھے ، رسمِ محبت ان کے پاس بھی تھی اس لئے خطوط لکھے رسمِ محبت تمہارے پاس بھی ہے تم میں اور کوفیوں میں اگر فرق ہے تو بتاؤ!!! انہوں نے اپنی کھوکھلی رسم سے ایک امام شہید کروا دیا تم اپنی رسم سے امام کے چاہنے والے مروا رہے ہو فرق کیا ہے؟

مولا ! مجھے بتائیں آپ سے وفا یہ والی عزاداری جو میں کر رہا ہوں ہے یا وہ عزاداری جو میرے یہ عجیب و غریب دوست کہہ رہے ہیں وہ؟ مولا مجھے جواب دیں۔ میں نے فیصلہ آپ پر چھوڑا۔

www.facebook.com/arezuyeaab

یعقوب (ع) کی عزاداری اور ہم

 
 
یعقوب (ع) اور ہم
 
یوسف (ع) کے غم میں یعقوب (ع) نابینا هوگئے ... هم حسین (ع) کے غم میں نابینا هوجاتے اگر غم هوتا... کاش اتنا غم هوتا که سجاد (ع) کی طرح خون کے آنسو بھا سکتے.... تب بات تھی... تب خون کا پرسه هوتا... نور کا پرسه ... آنکھوں کا نور گنوا دو تو کهیں که عشق هے...
یعقوب (ع) کی پهنچ میں چھریاں تھیں... تیز دھار والے آلے سجاد (ع) کی دسترس میں تھے مگر عشق و عزا کے طریقے نرالے تھے ان کے... واه...


محمد زکی حیدری

گھن چکر

 

گھن چکر

 

از قلم: محمد زکی حیدری

 

سرکیولر ڈیبٹ! پی ایس او عرف پاکستان اسٹیٹ آئل خسارے میں هے کیونکه واپڈا اسے فرنس آئل عرف تیل لیتی هے پیسے نھیں دیتی, واپڈا خسارے میں هے که جو بڑے فیکٹریوں کے مالکان هیں وه بجلی کے بلز ادا  نھیں کرتے, فیکٹریاں خسارے میں هیں که بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ان کی پراڈکشن متاثر هوتی هے. بجلی اس لئے بند هوتی هے که فرنیس آئل کی فراھمی پی ایس او نھیں کرتا.

یه سمجھ آیا ؟؟؟

یهی چکر هے پاکستانی عزاداری کے ساتھ  منبر والے جو عاشوره دیتے هیں وه تحریف شده هے, بانی مجلس کهتا هے منبر والے سچ نھیں بتاتے,  منبر والے کھتے هیں هم سچ بتاتے هیں تو اگلی مجلس کی دعوت نھیں ملتی, بانی مجلس کهتا هے دعوت اس لئے نھیں دیتا که لوگ اس کو سننے نھیں آئیں گے. لوگ کهتے هیں که سب مولوی و خطیب ایک هی بات کر رهے هوں بیچ مین کوئی نیا خطیب آکے الگ بات بولنے لگ جائے تو هم اس کی مجلس پے شک هوتا هے که بھیا یه باتیں تو تو نه کبھی هم نے سنی نه دیکھیں....

اب مسئله تب حل هوگا جب خطیب عوام کو یقین دلائیں گے که حقیقی عاشوره کیا هے. لیکن  خطیب یه تب کریں گے جب انھیں بانی مجلس ایسی مجلس پڑھنے کی دعوت دیگا, دعوت کوئی بانی کیوں دیگا, جب که سچ سننے کوئی مومن آئے گا نھیں.

 یه چکر چلتا رھے گا...  میرے خیال میں اس چکر کو صرف کالج, یونیورسٹی, و مدرسے کا نوجوان توڑ سکتا هے لیکن اس کے پاس دین کیلئے وقت نھیں هے. ان کی اکثریت کی لائف میں تین میم هیں مطالعه ( صرف نصابی کتب کا) , موبائل, محبوبه...

جوان یه مسئله حل کر سکتا هے... اور انشاء الله پاکستان کا جوان اس طرف سوچے گا که قوم کو اس گھن چکر سے کیسے نکالا جائے...

 

www.fb.com/arezuyeaab

قمعہ زنی اور قرآن

 

قمعہ زنی اور قرآن

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

سوره : البقرة آیه : 104

 

"ابن عباس" مفسر معروف اسلام نقل کرتے ہیں:صدر اسلام میں جب رسول اللہ (ص) تقریر فرماتے اور آیات و احکام الٰہی بیان فرماتے تو مسلمان کبھی کبار ان سے مطالبہ کرتے کہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر مطالب بیان فرمائیں تاکہ انہیں خوب سمجھ آئے اور اسی دؤران جو بات سمجھ نہ آ رہی ہوتی تو اس کے متعلق سوال بھی پوچھ لیا کرتے اور اس طرح تقریر کو روکنے کیلئے یہ لوگ لفظ "راعنا" جو کہ "رعی" کے مادہ سے ہے اور جس کا مطلب ہے "مہلت دینا" کو استعمال کیا کرتے۔۔۔ لیکن یہود اس لفظ کو "رعونہ" کا مادہ سمجھا کرتے کہ جس کا مطلب ہے "بیوقوف بنانا" یا "مسخری کرنا"۔ (یعنی اصل مطلب بنتا تھا "ذرا سی مہلت دو!" لیکن یہود جو اس کی معنی لیتے تھے وہ  تھی "ہمیں بیوقوف بنا!" اس طرح ایک بہانہ یا (ویک پوائنٹ ) مل گیا تھا کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ مسلمانوں اور اسلام کا مذاق اڑا سکتے تھے۔  

اس لیئے یہ آیت نازل ہوئی کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

  اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) انظرنا کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

 ثابت ہوا کہ ایسا فعل فعل کا مطلب و مقصد بیشک اچھا ہو اور نیت بھی اچھی ہو مگر  دشمن اگر سوء استفادہ کرے ، یا اس کو بہانہ مل جائے کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑائے وہاں اللہ چاہتا ہے کہ اس بہانے کو ہی ختم کردے نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!
اب میرے عزیر دوستو آپ بیشک زنجیرزنی اور قمہ زنی عشق حسین (ع) میں کرتے ہیں مگر آپ کو علم نہیں کہ آپ کی وڈیوز اور تصاویر پوری دنیا میں جاتی ہیں کہ دیکھو شیعہ کتنے وحشی ہیں کہ  خود کو خون میں لت پت کردیتے ہیں اگرچہ آپ کا یہ فعل شرعاً کوئی حر ج نہیں رکھتا جس طرح آیت میں لفظ  "راعنا" میں کوئی اشکال نہ تھا مگر چونکہ اس کو بہانہ بنا کر دشمن تشیع ہمیں بدنام کرتا ہےاس لیئے اس کام کو ترک کرنا بہتر ہوگا ۔

جو دوست اس بات کا نکار کتے ہیں کہ ہم قمہ زنی کی وجہ سے بدنام ہو رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ آج کل جس چیز کی بھی معلومات چاہیئے ہوتی ہے تو ہم گوگل کی ویب سائیٹ سے اسفادہ کرتے ہیں اب آپ دو منٹ کیلیئے خود کو ایک غیر مسلم سمجھ کر گوگل امیجز پر جائیے اور سرچ بار میں ٹائپ کیجئے "Shia Islam "  آپ کو خون آلود تصاویر ملیں گی اب آپ اس بار میں "Sunni Islam " لکھ کر سرچ کیجیئے آپ کو سنی باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ ایک غیر مسلم بن کر فیصلہ کیجیئے گا کہ کس فرقے کی تصاویر سے آپ کو وحشت محسوس ہوئی؟؟؟

والسلام و یا علی مدد

 

(یہ الفاظ میرے ہیں فکر آقای محسن قرائتی صاحب کی ہے )

 

 

حق اور واہ واہ!

حق اور واہ واہ!

تحریر: محمد زکی حیدری

آج سے صدیوں پہلے جب یونان کے دانا بنام سقراط نے اپنی عوام کو عقل و دانائی کی باتیں بتائیں تو ان باتوں پر واہ واہ ہونے کی بجائے اسے زندان میں ڈال دیا گیا اور آخر اسی زندان میں اسے زھر کا پیالا پلا کر مار دیا گیا اس کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! اس کے بعد کاپرنیکس نامی ایک سائنسدان آیا اس نے اپنی عوام کو بتایا کہ دیکھو میاں یہ جو تمہیں پادری بتاتے ہیں کہ سورج زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سورج ساکن ہے زمیں اس کے گرد گھومتی ہے۔ اس بات پر بھی واہ واہ ہونے کی بجائے پادریوں نے اسے دین کا دشمن اور ملحد قرار دے کر اس کا گھر جلا دیا۔۔۔ حق تھا لیکن واہ واہ نظر نہیں آئی! اس کے بعد اس کا جزباتی شاگرد برونو اٹھا اس نے گلی گلی، کوچے کوچے میں جاکرلوگوں سے کہا کہ یہ پادری جھوٹے ہیں زمین گھومتی ہے سورج ساکن ہے۔ اسے بھی صعوبتیں برداشت کرنی پڑٰیں۔ حق تھا لیکن واہ واہ نظر نہیں آئی! یہی حال تمام پیغمبروں کا رہا عیسیٰ (ع) آئے وحدانیت کی بات کہی، حق تھا لیکن واہ واہ نہ ہوئی، عرب کی اندھیر نگری میں محمد (ص) نامی یتیم ھدایت کی مشعل لے کر آیا بات حق تھی لیکن واہ واہ کی بجائے معاشرتی بائکاٹ کیا گیا اور اسے شعب ابی طالب میں پتے کھانے پڑے، ھجرت کرنی پڑی، طائف کے بچوں سے پتھر کھانے پڑے، ساحر، مجنوں وغیرہ کے القاب برداشت کرنے پڑے۔۔۔ حق تھا مگر واہ واہ نظر نہیں آئی! محمد (ص) کے بعد جب اقتدار "جمہوریت دوست" افراد کے ہاتھ لگا تو عامر یاسر (ع) جیسے صحابیوں کو خلیفائے وقت کی غلطیوں کی نشاندہی پر زد و کوب کیا گیا، عمار (ع) کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! خلیفہ ثالث کے دور میں محمد (ص) کا سچا اور عادل سپاہی ابوذر(ع) آیا چلا چلا کر کہنے لگا یہ عیش و عشرت و اقربا پروری و خویش پروری امارت و بددیانتی پر مبنی اسلام خلفا کا ہے محمد (ص) کا نہیں اور ابوذر(ع) ربضہ کے ریگستان میں احتجاج کرتے ہوئے انتقال فرما گئے،  ابوذر(ع)  کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! علی (ع) کا دور خلافت آیا عدل کے دریا بہائے گئے ، بیت المال میں شام سے آئی ہوئی ایک روٹی تک کے بھی ٹکڑے کر کے تقسیم کرکہ بیت المال کے خالی فرش پر جھاڑو لگوا کر نماز پڑھنے والے علی (ع) کی حق بات پر واہ واہ نہیں کی گئی بلکہ تیر و تبر سے اسکا استقبال کیا گیا ۔۔ یہاں بھی بات حق تھی لیکن واہ واہ نہیں ہوئی! آتے آتے تمام آئمہ (ع) ان کے اصحاب ان کے بعد آنے والے حق گو علماء و فقہاء سب کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہیں ہوئی کسی کو سر میں کیلیں پیوست کرکے ، کسی کو تختہ دار پر لٹکا کر، کسی کا گھر جلا کر، کسی کو تلوار سے، کسوی کو زھر سے، کسی کو بندوق سے، کسی کو بم سے اڑایا گیا۔۔۔ ان سب نے حق کہا مگر واہ واہ نہیں ہوئی!

آپ انسانی تاریخ کے اوراق چھاں ماریں حق کہنے والا چاہے کسی بھی مذھب کا ہو، کسی بھی ازم کا ہو، کسی بھی نظریے کا پیروکار ہو عوام نے اس کی حق بات کی ہمیشہ مخالفت کی کبھی واہ واہ نہیں کی۔ آپکو حق اور واہ واہ ایک ساتھ مشکل سے ہی نظر آئیں گے سوائے ایک جگہ کے!  اور وہ ہے پاک و ہند میں ہونے والی مجالس عزا! اگر آپ نے "حق" اور "واہ واہ" کو بانہیں بانہوں میں ڈالے دیکھنا ہے تو آپ نہا دھو کر پاک و ہند کے کسی بھی امام بارگاہ میں چلے جائیں منبر پر ایک شخص مخصوص انداز میں گلا پھاڑ پھاڑ کر "حق" بات کہہ رہا ہوگا اور سامنے بیٹھے لوگ اسی جوش سے گلا پھاڑ پھاڑ کر "حق" بات پر واہ واہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اللہ کا ہم پاکستانی اور ہندوستانی علماء ، زاکریں اور خطباء کرام پر اتنا فضل و کرم ہے کہ شاید یہ رسول اللہ (ص) سے بھی اچھے انداز میں "حق" بیان کرتے ہیں کہ لوگ جھوم اٹھتے ہیں کیونکہ ہم نے آج تک کسی ضعیف یا مستند  روایت میں یہ تو ضرور سنا ہے کہ جب نبی (ص) بولا کرتے تھے تو لوگ اس طرح سنتے کہ جیسے ان کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو (کہ ذرا سا بھی ہلے تو پرندہ اڑ جائے گا) لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ نبی (ص) تقریر فرما رہے ہوں اور لوگ "واہ واہ بھئی کیا کہنے ہیں رسول آپ کے" یا پھر اگر نبی (ص) علی (ع)کے فضائل بیان کر رہے ہوں تو مجمعے سے کوئی عمار یاسر (ع)، سلمان (ع) یا ابوذر (ع) وغیرہ جیسا اٹھ کھڑا ہو اورگلا پھاڑ پھاڑ کر حیدر حیدر حیدر حیدر کہنا شروع کردیا ہو، یا پھر جذبات میں آکے کہہ دیا ہو "علی حق ہے یہی سچ ہے جو نعرہ نا مارے اس کی پیدائش میں شک ہے" یا پھر کبھی کسی صحابی نے جوش میں آکر یہ کہہ دیا ہو "جو حلالی ہے ہاتھ بلند کرکے نعرےےےےےےے رسالت" نہیں! تاریخ میں ہر گز ایسا نہ سنا نہ پڑھا ہم نے۔ "حق"کو سن کر جتنا پاک و ہند کی عوام کو خوشی ہوتی ہے اتنی شاید ہی کسی کو ہوتی ہو۔

مجھے علم ہے کہ میری یہ باتیں پڑھ کر میرے کچھ "حق پرست" دوست یہ تحلیل پیش کریں گے کہ میاں آپ تو ہر بات پہ شروع ہی ہوجاتے ہیں، آخر اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ اور بزرگ علماء نے فرمایا ہے کہ عزاداری ہر علائقے کی مروجہ رسومات کے لحاظ سے ہی منائی جائے لھٰذا محافل میں داد و دہش و صاحب منبر کی حوصلہ افزائی کیلئے نعرے وغیرہ لگانا تو پاک و ہند کی رسم رہی ہے۔ تو میرے ان دوستوں کا جواب میں نہیں دونگا صرف سیرت امام علی (ع) سے ایک قصہ نقل کروں گا جس سے ان کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی یہ دلیل کتنی قوی ہے۔

نہج البلاغہ میں موجود اس قصے کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے امام علی (ع) کو غیر مہذبانہ داد و دہش سے کتنی "محبت" تھی۔ امام علی (ع) جب شام جارہے تھے اور ان کا گذر انبار نامی علائقے سے ہوا اور انبار کے زمینداروں نے آپ سے ملاقات کی تو وہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر آئے اور آپ کے آگے آگے دوڑنے لگے (یہ دیکھ کر)  آپ (ع) نے فرمایا: "یہ کیا حرکت ہے جو تم نے کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ ہماری ایک "رسم" ہے جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم! اس (حرکت) سے تمہارے حکمرانوں  کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ تم دنیا میں اپنی جان کو "مشقت" میں ڈالتے ہو اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبخت ہو کر رہ جاؤ گے۔ اور یہ کتنے گھاٹے کی مشقت ہوگی کہ جس کے بعد سزا بھی بھگتنا پڑے۔ اور وہ "آرام" کتنا نفع بخش ہے جس سے دوزخ سے امان مل جائے۔[1]

لفظ "مشقت" اور "آرام" کو اپنے مجالس عزا میں موجود مجمعے پر صادر فرما کر اندازہ لگائیے کہ علی (ع) ہوتے تو ان کا آپ کے بارے میں کیا خیال ہوتا۔ منبر عظیم وسیلہء علم ہے کاش ہم اس سے مہذب طریقے سے علم لینا سیکھ لیں، جب علم اس کے کما حقہ طریقے سے لیں گے تو ہماری زندگیوں میں اس علم کی وجہ سے نکھار آئے گا خاص طور پر جب وہ علم ذکر اہل بیت (ع)،کہ جو مخزن علم ہیں ، سے مزین ہو۔ ہم کتنی مجالس سنتے ہیں اور ان سے ہمارے اخلاقی اقدار میں کتنی ترقی و تقویت  آئی یہ سوچنا آپ کا فرض ہے اور اگر ترقی و تقویت نہیں آئی تو اس کی وجہ تلاش کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔

تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے فطرت انسانی اس نوعیت کی نہیں کہ جب اس کے سامنے حق کہا جائے تو اسے اتنا میٹھا لگے کہ وہ جھومنا اور خوشی سے مست ہو کر چیخنا اور چلانا شروع ہوجائے۔ لھٰذا اب دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ جو سنتے ہیں وہ "حق" نہیں ہوتا یا پھر واقعی یہ فوق العادہ عوام اتنی حق پسند ہے کہ جب ان کے سامنے حق بیان کیا جائے تو جھومنے لگ جائے۔ ان دونوں باتوں میں سے کون سی سچ ہے یہ فیصلا میں نے ایسا "حق" سن کر "واہ واہ" کرنے والوں پر چھوڑا!

 

 



[1] نہج البلاغہ، مترجم الحاج ملک صادق علی عرفانی صاحب مطبوعہ لاہور ارشاد 37 ، ص: 824-825

اور اس مثال کو شخصیات کے مہذب طریقہ استقبال کی نفی کے طور پر اس لیئے استعمال نہیں کیا جاسکتا کہ مدینہ والوں نے نبی (ص) کا پرتکاب استقبال کیا تھا اور نبی (ص) چپ رہے، معصوم جس چیز کو دیکھ کر چپ رہے وہ سنت ہے لہٰذا علی (ع) سنت محمدی کے خلاف بات نہیں کرسکتے۔ بات مہذبانا طرزعمل کی ہے غور فرمایئے گا۔

 

  حسینیت یعنی...

 

حسینیت یعنی...

تحریر: محمد زکی حیدری

 

صاحب نے بچے کو لیا اپنے ساتھ, که چلو بیٹا مجلس میں.

"کیوں بابا؟"

 "بیٹا مجلس میں نھیں جائیں گے تو حسینیت کیسے سمجھ آئے گی"

 گھر سے نکلے امام بارگاه آئے. مجلس شروع هوئی تو صاحب پوری مجلس میں بھئی واه!!! آئے هائے ھائے!!!  کیییییا کهنے مولانا صاحب!!! کیا بات هے!!!  واه واه واه...

بچه غور سے دیکھ رها هے.

مجلس ختم هوئی بارگاه کے باهر کھڑے هوئے دوست ملے تو ان سے بھی کهنے لگے "ارے عباس بھئی ماشاء الله کیا کھنے! مولانا صاحب کے!  سنا آپ نے؟؟؟  بھئی واه واه دل خوش هوگیا... "

بچه غور سے دیکھ رها هے۔

گھر واپس جا رهے هیں, راستے میں گلی کے نکڑ والی کیبن پے رکے سگرٹ لینے کیلئے, کیبن والا بھی شیعه, اس نے مجلس کا پوچھا تو اسے بھی جواب میں "بھئی پوچھو هی مت!!! واه بھئی واه کیا بات هے مولانا صاحب کی..."

بچه دیکھ رها هے.

گھر پهنچے بیوی نے دروازه کھولا "ارے آگئے آپ کیسی رهی مجلس...?"

"ارے طاهره بس پوچھو مت, واه واه بھئی کیا بات هے مولانا صاحب کی, اس دفعه بڑے زبردست مولانا آئے هوئے هیں."

بچه دیکھ رها هے.

بیڈ پر لیٹ گئے اچانک سے فون کی گھنٹی بجی "سلام علیکم شبیه بھیا! کیسے مزاج! بھئی  کهاں ره گئے مجلس میں نهیں نظر آئے آپ"

"ھاں یار بس آج آفس میں کام هی کچھ اتنا تھا که... اچھا تم سناؤ کیسی رهی مجلس"

"ارے شبیه بھائی دل خوش هو گیا... بھئی ان مولانا صاحب کی تو بات هی کچھ الگ هے . واه واه بھئی ... شبیه بھائی کل آپ ضرور آئیے گا"

رات میں بچه بستر پر جاکر لیٹا تو چھت میں آنکھیں ڈال کے ننھے سے دماغ میں حسینیت کی ایک تعریف بنانے لگتا هے, آخر اسے سمجھ آیا که حسینیت یعنی:

" مولانا صاحب کی تعریف کرنا"

 

www.fb.com/arezuyeaab

حسین (ع) اور ھندو

حسین (ع) اور ھندو

تحریر: محمد زکی حیدری

حضور بات یہ ہے کہ ھندوستان سے جو سادات آزادی کے بعد پاکستان آئے, ان میں کیسے کیسے ہیرے ہمارے حصے آئے, اس پر تو متعدد جلدی کتاب بھی ناکافی ہوگی لیکن ان سادات میں حسین (ع) سے عشق اور عزاداری کا شوق دیکھ کر انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ اس سے قبل کہ میں کچھ اور لکھوں, یہ واضح کرتا چلوں کہ میرا مقصد مہاجروں کی تعریف ہر گز نہیں هے, سو میرے "قوم پرست" قارئیں دھیرج رکھیں میں انھیں کسی اور سفر پر لے جانا چاہتا ہوں۔

 اچھا! تو ان سادات کا عشق حسین (ع) دیکھ کر انسان کے اندر جستجو سی پیدا ہوتی ہے کہ آخر اس کے اسباب کیا تھے. میں بھی اسی سوال کے جواب کی کھوج میں نکلا ہوا ہوں اور اس سفر میں کراچی کی حدود پار کرتا لاہور اور لاہور سے پاکستان کی حدود پار کرتا ہندوستان پہنچا تو مجھے ہندوستان اور حسین (ع) کا ایک عجیب رشته نظر آیا حالانکہ میری کھوج کا سفر ابھی جاری ہے لیکن اب تک جتنا تاریخ کی ورق گردانی سے مجھے ملا ہے وہ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ھندوستان کا تو رشتہ حسین (ع) سے ہے ہی لیکن ھندو کا رشتہ حسین (ع) سے ہے کی بات آئے تو انسان چونک جاتا ہے۔ بھئی آخر یہ بھی کوئی بات ہوئی بت شکن رسول (ص) کے نواسے سے بت پرستوں کا کیا لینا ؟ نہیں حضور! ھندوستان و پاکستان میں محبت کے نرالے انداز دیکھنے کو ملتے ہیں, یہاں کئی اہل سنت برادران ہیں جو نماز تو ہاتھ باندھ کر پڑھتے ہیں لیکن عزاداری(ع) حسین دل کھول کر کرتے ہیں, اسی طرح یہاں ایسے ھندو بھی ہیں جو سال کے گیارہ مھینے بیس دن اپنے ہاتھ مورتی کے سامنے باندھ کر کھڑے هوتے ہیں لیکن محرم میں وہی ہاتھ اپنے سینے پہ مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یہ بات صرف عوام ہی تک محدود مت سمجھئے گا ہندو راجہ ، نواب و شرفاء  بھی اس کام میں پیش پیش نظر آئیں گے۔

 ھندوستان کے شہر لکھنو هی کی مثال لے لیجئے, ھندو معاشرے کے شرفاء راجہ تکیت رائے، راجہ بلاس رائے وہ نام ہیں جنہوں امام بارگاہیں تعمیر کروائیں اور علم نسب کئے۔ آندھرا پردیش آیئے تو بنجارا ذات کے لوگ تیلگو زبان میں نوحہ خوانی کرتے ہیں، راجستھان میں تو ٹھیئیٹر پر کربلا کا واقعہ بناکر امام (ع) اور ان کے انصار کی یاد منائی جاتی ہے, اس تھیٹر کے اختتام پر عورتیں جلوس کی صورت مین نکتلی ہیں، نوحہ خوانی کرتی ہیں اور یزید کو لعن طعن کرتی ہیں۔ ھندوستان کے بہت سے ہندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ بانجھ عورت کو اگر محرم میں علم کے نیچے سے گذر کر اپنی اولاد مانگے تو اسے اولاد عطا ہوتی ہے.

لیکن ان تمام حقائق سے زیاده عجیب و حیران کننده حقیقت هے ھندوؤں کی ایک انوکھی ذات جنھیں "حسینی براھمن" کها جاتا هے. یه براھمن اور حسینی کا سنگم کیسے هوا اس کیلئے تاریخ میں دو الگ روایات ملتی هیں, حالانکه صحت کے لحاظ سے یه روایات حقیقت کم افسانے سے زیاده معلوم هوتے هیں لیکن بھرحال... سو بھیا کها یه جاتا هے که ایک براھمن طبقے کے دت ذات کا راھب نامی شخص پنجاب سے کربلا گیا اور حسین (ع) کی مریدی اختیار کی,  جب کربلا کا واقعه پیش آیا تو راھب اور اس کے بیٹے خوب لڑے. اور ان میں سے جو بچ گئے وه ھندوستان لوٹ آئے اور خود کو براھمن کھلوانے لگے. حالیه پنجاب کا شھر شیخوپوره حسینی براھمن کی آماج گاه رها.

ایک اور روایت هے که امام حسین (ع) کی زوجه بیبی شھربانو (س) جو که ایرانی بادشاه کی بیٹی تھی, کی ایک بھن ھندوستانی بادشاه چندرگپتا کی زوجیت میں تھی اس عورت کا ھندوستانی نام چندرلیکھا اور فارسی نام مھربانو تھا. جب کربلا کا واقعه پیش آیا تو امام سجاد (ع) نے اپنے بابا (ع) کی مدد کیلئے مھربانو کے شوھر بادشاه چندر گپتا کو مدد کیلئے بلایا. لیکن جب تک چندرگپتا اپنے لشکر سمیت کربلا پهنچتا اس سے قبل فوج یزید اپنا کام تمام کر چکی تھی. بالقصه یه لوگ مختار ثقفی سے ملے , جس نے انھیں کوفه کے ایک علائقه میں قیام کروایا جسے آج بھی "دائره الھندیه" کها جاتا هے. یه تھے دت عرف "حسینی براھمن" جن کے عقائد میں پوجا بھی تھی اور حسین (ع) سے پیار بھی. یهی وجه هے که ان کے بارے میں مشھور هے:

واه دت سلطان!

ھندو کا دھرم مسلمان کا ایمان

آدھا ھندو آدھا مسلمان.

یه هے ھندوستان اور عشق حسین (ع) کی کهانی کے سمندر سے ایک قطره. خدا نے توفیق دی تو مزید لکھتا رهوں گا. عرض یه هے که میں ھرگز غیر مسلمان عزاداران حسین (ع) و محبان اھل بیت (ع) کی بے حرمتی کا قائل نھیں هوں. لیکن جب بات ثواب و اجر آخرت ملنے کی آتی هے تو یه موضوع بلکل الگ بن جاتا هے. کچھ دوستوں نے ان دو موضوعات کو باھم مخلوط کر کے مجھ غریب پر بڑی تنقید فرمائی. اب شاید ان کے دل میں اتر جائے میری بات.

(با تشکر خاص: مسٹر یوگندر سنگھ)

 

www.fb.com/arezuyeaab

پلوشه سے سکینه تک!   

 

پلوشه سے سکینه تک!

 

تحریر: محمد زکی حیدری

 

میں پلوشه هوں, آج بڑی هوگئی هوں لیکن مجھے یاد هے میں نے بچپن کسمپرسی کی حالت میں گذارا, همارا خاندان افغانستان سے کراچی آیا. میں, عائشه, عمرگل, گلزیب کزنس تھے. هم سارا دن کراچی کی گلیوں میں کاغذ جمع کرتے تھے جس سے همیں گذارے لائق پیسه مل جاتا. بچپن میں اس کام کے علاوه ھرروز کا دوسرا کام یه هوتا که مدرسے میں قرآن پڑھنے جاتے جهاں تعلیم سے زیاده  مولوی کی مار زیاده کھانے کو ملتی.

اس مولوی نے همیں سختی سے منع کیا تھا که جب هم شھر میں کاغذ چننے جائیں تو کهیں سے بھی کچھ لے کر کھا لیں مگر جس عمارت کے اوپر کالا پرچم لگا هو اس کا دیا هوا کھانا نه کھائیں, کیونکه وه لوگ چھوٹی بچیوں کو پکڑ کر, انهیں ذبح کر کے دیگ میں ڈال دیتے هیں. هم نے مولوی صاحب کی بات اپنے دل پے لکھ لی, اس بات کے بعد میں اور عائشه تو کالے پرچم والے گھر کو دیکھ کر هی کانپ جاتے تھے. همیں, یعنی صرف مجھے اور عائشه کو هوٹل والے ایک انکل روز بچه هوا کھانا دے دیا کرتے, جسے هم ھوٹل کے کونے یا فوٹ پاتھ پر هی بیٹھ کے کھالیا کرتے اور سیر هو جایا کرتے.

 ایک دن سخت ھڑتال تھی, پورے کراچی میں ایک بھی دکان کھلی هوئی نهیں تھی. یه محرم کا مھینه تھا , مجھے اچھی طرح یاد هے دن کے تین بجے کا وقت تھا همیں سخت بھوک لگی هوئی تھی, کیونکه ھڑتال تھی اس لئے عمر گل اور گلزیب کو بھی کهیں سے کھانا نصیب نهیں هوا تھا لھذا وه بھی خالی شکم لے کر همارے ساتھ هوگئے. هم بھوک سے مارے مارے پھر رهے تھے, گلزیب هم سب میں سے بڑا بھی تھا اور تیز بھی, وه ایک لحاظ سے همارا رهنماء تھا جو وه کهتا همیں قبول کرنا هوتا. گلزیب نے همیں کها که اگر هم لوگ گھر جاکر کسی کو یه بات نه بتائیں تو وه همارے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا هے. هم نے شدت بھوک کی وجه سے اسے یقین دلایا که وه کهیں سے بھی کھانا لا دے وه جو کهے گا هم کریں گے. پهلے تو همیں شک هوا که شاید گلزیب کهیں سے کھانے کی کوئی چیز چرانے کی سوچ رها هے, اس لئے همیں منه بند رکھنے کی تاکید کر رها هے. مگر اس نے همیں اپنے ساتھ آنے کو کها.

 هم ایک بڑی عمارت کے سامنے پهنچے, جس کے اوپر بھت سارے چھوٹے چھوٹے اور ایک بھت بڑا سیاه پرچم نصب تھا اس بڑے پرچم پے لوھے کا, پانچ انگلیوں والا هاتھ... مجھے عائشه نے ڈری سهمی و پریشان نگاهوں سے دیکھا شاید اسے مدرسے کے  مولوی کی بات یاد آئی تھی, بات تو مجھے بھی یاد تھی سیاه پرچم .... اور اس پر اتنا بڑا هاتھ مجھے ڈر لگا. میں نے دل هی دل میں سوچا گلزیب کیوں همیں اس طرف لے جارها هے, کیا وه چاهتا هے که همیں ان کالے کپڑے والوں کے حوالے کر کے اپنے لیئے اور عمر کیلئے کھانا لے لے. نهیں گلزیب ایسا نهیں! سوچوں کے سلسلوں سے هماری ٹانگوں کی حرکت میں قدرے کمی آگئی تھی.

 "زر راشه... زر راشه!!!" پشتو میں گلزیب نے هم ڈانٹتے انداز میں کها که جلدی آؤ . هم تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے جانے لگے. عمارت کے بڑے سے دروازے پر پهنچے تو گلزیب وهاں کھڑے هوئے ایک کالے لباس میں ملبوس بندے کے پاس گیا اور اسے هاتھ جوڑ کر کچھ کها. اس نے گلزیب کو رکنے کو کها خود اندر گیا. اتنے میں عمارت کے بڑے دروازے سے ایک لاٹھی کے سهارے چلنے والے ,عمررسیده بزرگ نکلے اور انهوں نے گلزیب کو اندر آنے کو کها, شاید گلزیب انهیں جانتا تھا. گلزیب کا چهره خوشی سے دمک اٹھا اور اس نے خوشی خوشی همیں بھی اندر آنے کو کها. هم سب اس بزرگ کے پیچھے پیچھے چل دیئے. عمارت عجیب تھی, باھر کی شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ سے جب همارے قدم اس عمارت کے ٹھنڈے ماربل والے فرش پر پڑے تو پورے جسم میں ٹھنڈک و سکون کی ایک لهر سی دوڑ گئی. سامنے ایک ھال تھا اس میں کالے کپڑوں والے بھت سے لوگ تھے اور سب ایک شخص کی تقریر سن رهے تھے. یه سب لوگ اچانک شور بھی مچانے لگتے , واه واه بھی کرتے اور نعرے بھی لگاتے...  عمارت کے ایک کونے میں جاکر اس بزرگ نے همیں فرش پر بٹھا دیا اور خود پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گئے .

پوری عمارت سے گلاب و اگر بتیوں کی خوشبوء آرهی تھی, وه بزرگ گل زیب سے بڑے پیار سے بات کر رهے تھے اور همیں بھی شفقت بھری نگاهوں سے دیکھ رهے تھے.اتنے میں کالے کپڑوں میں ملبوس ایک جوان نے  گرم بریانی سے بھرا هوا بڑا سا تسله لا کر همارے سامنے رکھ دیا. "کھاؤ میرے بچو میرے مظلوم مولا کی نیاز" اس بزرگ نے کها. هم نے کھانا دیکھا تو بھوک کی وجه سے ان کی نه سنی اور کھانا کھانے میں جت گئے. ابھی هم کھانا کھا هی رهے تھے که سامنے ھال, جس میں بھت سارے لوگ تھے, سب رونا شروع هو گئے ادھر اس بزرگ کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے. هم ڈر گئے. بزرگ نے همارے ڈر کو بھانپ لیا اور تسلی آمیز انداز میں مسکرائے ,حالانکه اشک ان کی آنکھ سے اسی طرح جاری تھے.

 جب هم کھانا کھا چکے  تو وه بزرگ همیں باھر لے آئے اور جو بات انهوں نے باھر آکر هم سے کهی وه مجھے آج تک یاد هے. اس نے میرے اور عائشه کے سر پر پیار سے هاتھ پھیرا, اشکبار آنکھوں سے کها "میری بچیو! یه سب لوگ جو ھال میں رو رهے هیں یه اس لئے که آج سے بھت سال قبل ایک رحمدل انسان تھا جس کا نام حسین تھا اس کے دشمن نے اسے مار ڈالا, اس کی ایک تمهاری هی عمر کی بیٹی تھی, دشمن نے اسے طمانچے مارے جب که وه تین دن کی پیاسی تھی, پهر چادر چھین کر رسیوں سے جکڑ کر بازاروں میں لے گئے. اس کا نام سکینه تھا.... یه جو بریانی تم نے کھائی اسے اس ننھی سکینه (س) کی طرف سے تحفه سمجھنا.!!!

 

هم نے وه عمارت چھوڑی, میں اور عائشه جب بھی تنهائی میں بیٹھتیں تو اس بزرگ کو دعائیں دیتیں  اور سکینه کو یاد کرتیں که جب هم ایک وقت کی بھوک برداشت نهیں کر پارهی تھیں تو اس بیچاری نے کیسے پیاس برداشت کی هوگی. آج میں بڑی هوں مجھے یه سیاه پرچم اس مھربان بزرگ کا کالا لباس اور پرچم پے لگا هوا لوهے هاتھ اس بزرگ چاچا کا وه شفقت بھرا هاتھ یاد دلاتا هے, جو اس نے میرے اور عائشه کے سر پے پهیرا. اب یه سیاه پرچم اور پنجه مجھے اپنے لگتے هیں... آج میں صاحبائے اولاد هوں, مجھے الله (ج) نے بیٹی دی هے اس کا نام میں نے سکینه رکھا هے.

 

 www.fb.com/arezuyeaab

البغدادی الباکستانی!

البغدادی الباکستانی!

تحریر: محمد زکی حیدری


یه بغداد هے! خلیفه ھارون رشید برسر اقتدار هے! محرم کی آمد آمد هے, عاشقان و عزاداران حسین (ع) عزاخانے سجا رهے هیں که عزاداری کرنی هے. کچھ لوگ خوش نصیب هیں که عاشور کربلا میں جاکر کریں گے علما نے سوچ لیا هے که هارون کا جب هم اپنی مجالس میں نام هی نهیں لیں گے تو هماری "عزاداری" میں کیوں خلل ڈالے گا لھذا مجلس میں صرف لبیک یا حسین (ع) لگائیں گے مرده باد هارون کا نعره نهیں . مجلسیں بھی هوں گی, کوشش هوگی که ھارون سے "روٹ پرمٹ" لے کر جلوس بھی امن امان سے نکال لیں گے. ھارون سے کهیں گے که ھر سال کی طرح اس سال بھی عزاداروں کی حفاظت کا بھرپور انتظام کرے.

ھارون کی قید میں حسین (ع) کا ایک بیٹا پچھلے پانچ سال سے ناحق سڑ رها هے اس کے گھر والوں پر پهرے هیں, اتنی سختی هے اس سے میل جول پر که کوئی اس کے گھر کی طرف جاتے هوئے بھی ڈرتا هے. یهی وجه هے که اس کی سب کی سب بیٹیان باوجودیکه عالمه; فاضله و متقی هیں, کنواری بیٹھی هیں! اس حسین (ع) کے بیٹے موسی کاظم (ع) کو مھینوں گذر جاتے هیں وه سورج کی روشنی نهیں دیکھ پاتے. اتنی شدید قید!

محرم ختم هوا شیعان بغداد کے کاروان پیدل کربلا جانے کی تیاری کرنے میں جٹ گئے, اربعین کربلا میں .... پیدل جانا هے... روتے جا رهے هیں .... سلم لمن سالمکم حرب لمن حاربکم ... اے حسین! جس سے تیری صلح اس سے میری صلح جس سے تیری جنگ اس سے میری جنگ کا ورد زبان پر جاری ... جوشیلے نعرے یه درس کربلا کا هے خوف بس خدا کا هے.. حسینیوں کی زندگی عقیده اور جهاد هے... یه چلے کربلا! عشق و عزاداری...!!!

امام موسی کاظم (ع) جیل میں هیں... خطباء و علماء کے خطابات سے عزاداری کی ترویج پر زور دیا جا رهاهے که عزاداری کرو اسی عزاداری نے اسلام کو بچایا هے. عزاداری کرو که عزاداری هی میں "عزت" هے ... عزاداری کرو جس طریقے سے کرنی هے کرو , "اسی" عزاداری نے حسین (ع) کو زنده رکھا.... عزادارو آپ معزز ترین قوم هو... کوئی عزاداری سے تمهیں روکے اسے اتنا کهو که دفع هو هم تمهیں تو نهیں پیٹ رهے خود کو پیٹ رهے هیں... علماء عزاخانے سجواتے رهے ھارون امام کیلئے قید خانے تیار کرواتا رها....
.
اوپر والے میرے مضمون میں اب لفظ "بغداد" کی جگه "پاکستان"
لفظ هارون کی جگه "سعودی نواز حکومت"
اور لفظ موسی کاظم کی جگه "شیخ نمر" رکھیں پھر أئینے میں اپنی شکل دیکھیں آپ کو ایک بغدادی بھی نظر آئے گا ایک پاکستانی بھی!


www.fb.com/arezuyeaab

اس اربعین امام حسین (ع) سے کون کیا لے جائے گا؟؟؟

از

 

اس اربعین امام حسین (ع) سے کون کیا لے جائے گا؟

از قلم: محمد زکی حیدری

👈یمن والے حسین (ع) سے سعودی کے خلاف عزت و غیرت والی جنگ میں کامیابی کی دعا لے جائیں گے.

👈 لبنان والے اسرائیل کے خلافت ثابت قدمی لے جائیں گے.

👈 شام والے زینب س کے روضے کی حفاظت اور بشار الاسد کے استحکام کیلئے امام کی دعا لے جائیں گے.

👈 نائجیریا والے بوکو حرام کی نابودی کی دعائیں لے جائیں گے اور آقای زکزاکی کی سلامتی لے جائیں گے.

👈 ایران والے آمریکا کی چالوں سے محفوظ رھنا اور اس کے خلاف ڈٹے رهنے کی سعادت لے جائیں گے.

👈 عراق والے حسین (ع) کے زواروں کی خدمت کا شرف اور داعش سے برسر پیکار رهنے کی سعادت لے جائیں گے.

👈 ھندوستان والے آقا قلب جواد کی چلنے والی مودی مخالف تحریک میں کامیابی کی نیک تمنائیں لے جائیں گے امام حسین (ع) سے.

👈 پاکستان والے... ایس یو سی والے ایم ڈبلیو ایم اور ایم ڈبلیو ایم والے ایس یو سی پر سبقت اور یه دونوں مل کر جواد نقوی صاحب پر سبقت لینے کی "نیک نیتی" لے جائیں گے اور کھانے پینے یعنی نیاز عرف لنگر کی تصویریں.😊

www.fb.com/arezuyeaab

بیبی فاطمہ صغریٰ (ص) کا کوفہ کی دربار میں خطبہ

 

بیبی فاطمہ صغریٰ (ص) کا کوفہ کی دربار میں خطبہ


(جی جی یہ وہی فاطمہ صغریٰ (س) ہیں جنہیں خطیب صاحبان مدینہ میں بیمار حالت میں رہ جانے والی کہا کرتےہیں۔)

 

مترجم از فارسی: محمد زکی حیدری

 

زید بن امام موسیٰ کاظم (ع) اپنے والد سے اور ان کے والد امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغریٰ (س) نے کربلا سے واپسی کے وقت کوفہ میں پہنچ کر یہ خطبہ دیا ۔

خدا کا شکر، اس کائنات میں موجود تمام ریت کے ذروں اور پتھروں کی تعداد اور ان کے اور عرش سے فرش تک موجود ہر چیز کے وزن برابر۔ اس کا شکر ادا کرتی ہوں اور اس پر ایمان رکھتی ہوں اور اس ہی پر توکل کرتی ہوں، اور گواہی دیتی ہوں کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد (ص) اس کا عبد اور پیغمبر ہے؛ اور گواہی دیتی ہوں کہ اس کے بیٹے کی فرات کے کنارے گردن کاٹی گئی جبکہ وہ ان سے نہ کسی کا قصاص رکھتے تھے نہ ہی انہیں کسی کے خون کی قیمت ادا کرنی تھی۔
پروردگار! میں تیری پناہ چاہتی ہوں، اس سے کہ میں تجھ پر جھوٹ باندھوں یا افتراء کروں، یا تمہاری طرف سے نبی (ص) کو دیئے ہوئے پیغام کہ لوگوں سے اپنے جانشین، علی ابن ابی طالب ، کی جانشینی کیلئے بعیت لو، کے بارے میں کچھ کہوں۔ اسی علی کہ جس کا حق چھینا گیا اور اسے بے گناہ مارا گیا، کی طرح کل کچھ زبان سے مسلمان لیکن دلوں سے کافر لوگوں نے اس کے بیٹے کو کربلا میں مار ڈالا۔
یہ قتل ان کے گلے میں ہے! کہ جنہوں نے نہ جیتے جی اور نا ہی مرتے وقت ان پر ظلم و ستم کرنے سے دریغ کیا، جب کہ تونے انہیں فضائل والا، پاکیزہ طبیعت ، خوبیوں اور نیکیوں کی وجہ سے جانا جانے والا اور اپنا قریبی بنایا تھا۔ خداوند! نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور نہ ہی کسی مذمت کرنے والے کی مذمت اسے تیری عبادت و بندگی سے روک سکی۔
تو نے اسے بچپن میں ہی اسلام سکھایا اور جب وہ بڑا ہوا تو تم نے اس کے فضائل بیان کئے۔ وہ اسی طرح تمہارے نبی (ص) کی خوشنودی کیلئے امت کو نصیحت کرتا رہا اس وقت تک کہ جب تک تو نے اس کی روح نہ قبض کرلی۔ وہ دنیا سے خائف وبے پرواہ اور آخرت کی طرف راغب اور اس کا مشتاق تھا اور تیری راہ میں دشمنوں سے برسر پیکار رہ کر جہاد کیا۔ تو اس سے راضی ہوگیا اور اسے برگزیدہ کرکے راہ حق کی طرف ہدایت کی۔ خدا کی حمد و ثناء کے بعد، اے کوفے والو! اے مکارو اور فریبکارو! خدا نے ہمیں تمہاری طرف بھیجا اور ہمارے توسط سے تمہارا امتحان لیا اور ہمیں امتحان میں سرخرو کیا۔ فہم و علم کو اپنی امانت بنا کر ہمیں سونپا، لھٰذا ہم ہی ہیں علم، فہم و حکمت کے خزانے اور دنیا کے چپے چپے پر ہم ہی حجت خدا ہیں۔خدا نے اپنی کرامت سے ہمیں بزرگی سے نوازا، اور محمد (ص) کے توسط سے ہمیں باقی لوگوں پر برتری عطا کی۔
تم نے ہماری تکذیب اور تکفیر کی، ہمارے خون کو مباح؛ ہم سے جنگ کو حلال اور ہمارا مال لوٹنے کو جائز سمجھا، ایسے جیسے ہم کوئی ترک یا کابلی اسیر ہوں! چونکہ تم نے کل ہمارے جد کا قتل کیا اور تمہاری تلواروں سے ہمارے لیئے نفرت اور تعصب کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے، اور جو بہتان تم نے خدا پر باندھا اور جو مکاری و فریبی تم نے کی، اس سے تمہارے دل بڑے خوش اور مسرور ہیں لیکن جان لو! خدا سب سے بڑا تدبیر بنانے والا ہے اور وہ ہی سب سے اچھا منتقم ہے۔
تم ہماری قتل و غارت سے کسی خوش فہمی میں مبتلا مت ہونا کیونکہ یہ مصائب اس سے پہلے ہی قرآن میں بیان کئے جاچکے ہیں (اور اللہ ان کو جانتا تھا) اور یہ خدا کیلئے سہل و آسان ہے۔ "جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل گئی اسکا غم نہ کرو اور جو نفعہ تمہیں حاصل ہو اس پر خوش مت ہو کیونکہ اللہ بہانے بنانے اور منحرف ہوجانے والے کو پسند نہیں کرتا"۔
اے اہل کوفہ! تمہیں موت آئے! اب منتظر رہو کیونکہ کہ خدا بہت جلد غیب سے تم پر مسلسل لعنت اور عذاب بھیجنے والا ہے اور تمہیں اپنے کیئے کی سزا دینے والا ہے تم سے بعض کو بعض پر حاوی کرکے تم سے انتقام لینے والا ہے۔ اور قیامت کے دن یہ مظالم تم نے ہم پر ڈھائے ہیں ان کے بدلے ہمیشہ کیلئے جہنم کی دہکتی اور ہمیشہ رہنے والی آگ میں جلتے رہو گے۔ اللہ لعنت اللہ علی قوم الظالمین! وائے ہو تم پر اے کوفے والو! تمہیں معلوم ہے کن ہاتھوں سے تم نے ہم پر تیر و تیغ چلائے؟ کس نیت سے تم نے ہم سے جنگ کی ٹھانی؟ کن قدموں سے چل کر تم ہم سے جنگ کرنے آئے؟ خدا کی قسم تمہارے دلوں پر زنگ چڑھ چکا ہے، تمہارے جگر سخت و پتھر کے ہوگئے ہیں، اور تمہارے دل علم و دانش سے خالی ہو گئے ہیں اور تمہارے کانوں اور آنکھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اے کوفے والو! تمہیں موت آئے! کیا تم جانتے ہو کہ تم نے نبی (ص) کی اولاد کا خون بہایا ہے اور اس کے بھائی علی ابن ابی طالب اور اس کی آل و عترت سے دشمنیاں کیں، اور تم میں سے بعض نے بڑے فخر سے کہا کہ " ہم نے علی اور اولاد علی کو ہندی تلواروں اور نیزوں سے مارا، اور اس کی اہل بیت کو ترک اسیروں کی مانند اسیر بنا دیا۔
لعنت ہو تم پر کہ ان کو قتل کرکے خوش ہوتے ہو جنہیں خدا نے ہر نجاست و پلیدی سے پاک و پاکیزہ کہا! اے بے شرم انسان شرم کر! اور اپنی اوقات میں رہ جیسے تیرا باپ رہا! یہ سب اسی کی وجہ سے ہے جس تجھے بھیجا اور یہ منصب تجھے دیا۔
وائے ہو تم پر! کیا ہم سے اس لیئے حسد کرتے ہو کہ خدا نے ہمیں برگزیدہ کیا؟ آخر ہمارا گنا ہ ہی کیا تھا کہ ہمارے دریا (سکون والی زندگی) میں طغیانی ڈال دی گئی، اور تمہارے دریا میں سکون ہے۔ یہ فضل خدا ہےاور وہ بڑے فضل والا ہے، وہ جسے عطا کرنا چاہتا ہے کرتا ہے اور جسے اپنے نور سے محروم کرکے تاریکی کی ظلمت میں جھونک دینا چاہے جھونک دیتا ہے۔۔۔
جب بیبی کا خطبہ اس مقام پر پہنچا تو لوگوں نے زور زور سے رونا شروع کیا اور روتے کہا:" اے پاک و پاکیزاؤن کی بیٹی! تم نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور جگر کو غم و اندوہ کی آگ سے جلا کر رکھ دیا اب بس کرو۔۔۔۔" یہ سن کر بیبی (س) خاموش ہوگئیں۔

یہ خطبہ احتیاج طبرسی میں اور دیگر کتب میں ملتا ہے