تــــــم نــــہ دیکھو

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



تــــــم نــــہ دیکھو



شبانہ نے کہا تنگ آگئے مولیوں سے! پردہ پردہ پردہ! بھائی ہم آزاد ہیں، جیسا لباس پہنیں، مرد نہ دیکھیں، کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سر سے پاؤں تک عورت کو دیکھتے ہیں! ان کےگھر میں بہن بیٹی نہیں. ہم کیوں پردہ کریں، تــــــم دیکھـــــو ہی نہیں!

میں نے کہا جی جی! بات تو تمہاری صحیح ہے کہ مرد کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے، نا محرم کو دیکھنا حرام ہے مگر جو منطق تم پیش کر رہی ہو وہ دماغ کی بتی فیوز منطق ہے .

بولی وہ کیسے؟

میں نے کہا کل میں بھی رات دو بجے گھر میں بڑا سا ایکو ساؤنڈ لگا کر قرآن کی تلاوت چلاؤنگا کوئی پڑوسی اعتراض کرے تو کہوں گا تم اور تمہارے بچے اپنے کان بند کرلو! مجھے ہی کیوں کہتے ہو! میں آزاد ہوں، پورا محلہ مجھے ہی بولے جا رہا ہے اپنے کان بند نہیں کرسکتے...

یا پھر ھسپتال میں بیٹھ کر سگرٹ کے سٹے لگاؤں گا لوگوں نے اعتراض کیا تو کہوں گا میری مرضی تم نہ سونگھو! اپنی ناک بند رکھو! کیوں سانس لیتے ہو!

شبانہ تھوڑی چونک سی گئی اور کہا "ہممم. لیکن دیکھنے میں بھلا کیسا گناہ، دیکھنا بھی حرام ہے عورت کو، دیکھنے سے بھلا کیا ہو جاتا ہے.؟

میں نے کہا سانپ دیکھ کر دل کی دھڑکن تیز کیوں ہوجاتی ہے؟ طبیعت و احساسات میں تبدیلی کیوں آجاتی ہے. سڑک پہ انسانی خون دیکھ کر طبیعت کیوں خراب ہوتی ہے... ثابت ہوا کہ جذبات و احساسات کا دیکھنے سے بھی تعلق ہے. لہٰذا تم جوان لڑکیاں یہ مت کہو کہ ہم تنگ لباس پہنیں گی اور دیکھنے والے کو کچھ نہیں ہوگا. ہوگا! "طبیعت" خراب ہوگی جوانوں کی.


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

۵۹۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجیے: وہ اپنے اوپر چادر لپیٹا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

احزاب آیت ۵۹

حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 

حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام

 



فرح میری پیاری بہن اور دوست! بفضل خدا تمہاری برسوں پرانی خواہش پوری ہوئی، تمہاری شادی لندن میں ہوگئی، اللہ (ج) تمہیں اپنے امیر خاوند کے ساتھ خوش رکھے. تم نے اپنے ای-میل میں لکھا ہے کہ تم نے حجاب سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس متعلق میری رائے معلوم کرنا چاہتی ہو، اور تم نے استدلال بھی کیا ہے، جس میں مُلا پہ خوب بھڑاس نکالتے ہوئے حسب معمول اس کے کرتوتوں کو اسلام کے گلے میں ڈال کر تم نے اپنی چادر اتارنے کا بہانا تلاش کرنے کی ناکام کوشش بھی بخوبی کی ہے. اب جب تم نے میری رائے جاننے کا کہا ہی ہے تو اس موضوع پہ کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں. تم اتنا تو جانتی ہو کہ میں مُلا سے اتنی ہی نفرت کرتا ہوں جتنی نام نہاد پاکستانی لبرلز سے! لہٰذا میری باتوں کو اسی کراچی یونیورسٹی والے زکی کی بات سمجھ کر سننا، البتہ عمل کرنے نہ کرنے پر بیشک اختیار رکھتی ہو.

پیاری بہن! آج تم مغرب کی "آزادی" کے چکر میں اپنی چادر اتارنے پہ تلی ہوئی ہو. اور اسلام کی تاریخ سے چند مثالیں پیش کر کے اسے عورت کا دشمن کہہ رہی ہو. اب جب بات تواریخ کی ہے تو یاد رہے کہ مغرب کی تاریخ بھی عورت کے معاملے میں دودھ سے دھلی ہوئی نہیں ہے. چار صدیاں پیچھے جاؤ مغرب عورت کو یورپ کے پادریوں کی سرپرستی میں چڑیل و جنی (witch) کہہ کر زندہ جلاتے ہوئے ملے گا. اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمس پنجم نے تو حد کردی، یہ بدبخت ڈینمارک سے اپنی نئی نویلی دلہن کو لیئے بذریعہ بحری جہاز اسکاٹ لینڈ آرہا تھا کہ شمالی بیروِک نامی شہر کے قریب بحری جہاز کو سمندری طوفان نے گھیر لیا اور اسے واپس ڈینمارک لوٹنا پڑا. اس وہمی و خرافاتی فکر رکھنے والے انسان نے سمجھا کہ یہ طوفان شمالی بیروک کی چڑیلوں (witches) کی کارستانی ہے لہٰذا ستر سے زائد عورتوں کو شک کی بنیاد پر چڑیل سمجھتے ہوئے اذیت دے کر زندہ جلا دیا گیا. اسکاٹ لینڈ جاؤ گی تو شاہی محل کے باہر صدر دروازے پر ان سینکڑوں معصوم عورتوں کی یادگار کے طور نصب تختی ملے گی. اس کے علاوہ وِچز ویل (Witches Well) کے بارے میں بھی مطالعہ کر سکتی ہو. یہ شکنجے اور زندہ جلا دینا صرف اسکاٹ لینڈ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ تین صدیوں تک پورے یورپ میں رائج تھا. نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد بھی تمہارا حال مغربی معاشرے میں یہ ہی رہا، جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہو کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ مغرب نے اٹھارویں صدی میں تمہیں کام کرنے اور اپنی ذاتی ملکیت رکھنے کا حق دیا ورنہ تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق بھی حاصل نہ تھا. وہ بھی خیر سگالی کی نیت سے نہیں بلکہ اس لیئے کہ صنعتی انقلاب آیا، صنعتکاروں کو وافر مقدار میں مزدور درکار تھے اور تم صنعتکاروں کو مرد سے ذرا سستی پڑتی تھی اور معاشرے کا ستم دیدہ طبقہ ہونے کے ناطے تم سے مرد کی نسبت بغاوت کا خطرہ بھی کم تھا. مختصراً یہ کہ تمہارا استحصال بڑا ہی آسان تھا.
خیر یہ تو تھا مغرب کا گذشتہ کل! آج کیا ہے؟

دیکھو میری پیاری بہن! تم جانتی ہو کہ کراچی یونیورسٹی سے لیکر اب تک میں ایک فیمینسٹ سوچ رکھنے والا انسان ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی یہ مغرب تمہیں حیوان بنانے پہ تلا ہوا ہے. پوچھو کیسے؟ وہ ایسے کہ جانور عریاں ہوتا ہے، برہنگی حیوانی صفت ہے اور لباس پہننا انسانیت. تہذیب حیوان کیلئے نہیں انسان کیلئے ہے اور مغربی مرد اس بات سے بخوبی آگاہ ہے لہٰذا وہ تمہیں حیوان دیکھنا چاہتا اور خود کو انسان! اب تم کہو گی یہ کیسے؟ دیکھو تم لندن کے گوروں کی کسی بھی تقریب میں چلی جاؤ مرد تھری پیس میں ملبوس ملے گا تین آئٹم! پینٹ، شرٹ، کوٹ. حتی کہ اگر ٹائے ذرا سی بھی اِدھر اُدھر ہوئی تو یہ بات مغربی مرد کی اہانت کا باعث سمجھی جاتی ہے. اور اسی تقریب میں عورت نیم برہنہ!

واہ! بھائی اگر آزادی و تہذیب لباس اتارنے میں پنہان ہے تو مرد کو بھی چڈھی (نِکر) پہن کر آنا چاہیئے تقریب میں، لیکن ایسا نہیں ہوتا. مغربی دانشور "حجاب یعنی آزادی نسواں پہ ڈاکا" کے موضوع پہ سیمینار میں تھری پیس پہن کر جاتا ہے. کوئی اس کوڑ مغز سے پوچھے کہ بھئی آپ تو کہتے ہو جسم ڈھانپنا آزادی پر ڈاکا ڈالنا کے مترادف ہے تو پہلے تم خود کو ڈاکے سے آزاد کرواؤ. اتارو تھری پیس اور پہنو چڈھی!
نہیں! بس عورت کیلئے ہے یہ قانون، مرد اس سے مستثنی ہے. لو بھئی عورت اور مرد میں فرق آگیا؟ الزام مشرقیوں پہ لگاتے تھے کہ یہ جنسی امتیاز کے قائل ہیں جب کہ خود صاف صاف جنسی امتیاز (جینڈر ڈسکرمینیشن) کے مرتکب نظر آتے ہیں. عورت نیم برہنہ مرد تین تین کپڑوں میں!
اس کے علاوہ پستیِ تہذیب کی انتہا یہ ہے کہ ایک ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا جاتا ہے، مرد کو مرد سے نکاح کی اجازت دی جاتی ہے جب کہ اسی ملک میں عورت کو حجاب سے منع کرنے کا قانون پاس ہوتا ہے.
یہ ہے تمہارے مغربی مرشدوں کا فلسفہ فرح!

اب تمہارے اس اعتراضکا جواب جو تم نے لکھا ہے کہ اسلام عورت سے مشاورت کرنے سے منع کرتا ہے. دیکھو فرح مُلا کو چھوڑ کر قرآن پہ غور کرو مثلاً ملکہ سبا کی داستان پڑھو کہ جب اس نے اپنے دربار کے مرد شرفاء سے حضرت سلیمان (ع) کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مشاورت کی تو سب نے یہ کہا نَحْنُ أولُوا قُوَّةٍ وَ أولوا بَأسٍ شَدیدٍ وَالأمْرُ إلَیکِ فَانْظُری ماذا تَأمُری
ہم طاقتور اور شدید جنگجوہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔ (نمل ۳۳)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمارے پاس طاقتور فوج ہے، ہمیں سلیمان (ع) سے جنگ کرنی چاہیئے. لیکن ملکہ سبا نے جو فیصلہ لیا اس نے تمام عورتوں کا سر فخر سے اونچا کر دیا ملکہ نے کہا اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۝
بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔ (نمل ۳۴) پھر مردوں کے مشورے کو رد کرتے ہوئے کہا وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ
اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔ (نمل ۳۵)
دیکھیئے اللہ (ج) کو عورت کا یہ فیصلہ اتنا پسند آیا کہ اس نے قرآن میں اس کا ذکر کیا اور اسی کا نتیجہ ہوا کہ ملکہ سبا کا اختتام وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔ پر ہوا.
عورت کو ان چار پانچ آیات میں قرآن مجید جنگ کا مخالف و عاقل و بابصیرت و حقیقت پسند بنا کر پیش کر رہا ہے. اور ہمیں یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اگر وہ ملکہ سبا نامی عورت اپنے مرد شرفاء و وزراء کی بات مانتی تو کفر کی موت مرتی.

پھر قرآن پڑھو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم عرب کے معاشرے میں کیا تھی سورہ نحل کی آیت نمبر ۵۷ پڑھو وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَكَظِيْمٌ
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے.
اس دور میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر باپ کا رنگ سیاہ ہو جاتا تھا کہ ذلت کا ساماں آگیا گھر میں، لیکن اسی معاشرے میں کہ جو تمہیں سیاہی سمجھتا تھا محمد (ص) آتے ہیں اور قرآن لاتے ہیں اور تمہارے لیئے ایک سورہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا نام ہی "نور" رکھا جاتا ہے. دیکھو تو تمہاری قدر و قیمت جو معاشرہ تمہیں ذلت و سیاہی کا باعث سمجھتا تھا وہاں محمد (ص) تمہیں نور کہہ رہے ہیں. اور فرما رہے ہیں کہ خوشقسمت ہے وہ گھرانا جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو! پھر فرمایا گھر میں کوئی چیز لاؤ تو پہلے بیٹی کو دو. اپنی قدر دیکھو اللہ (ج) کے رسول (ص) کی نظروں میں! میں نے کہا کہ مغرب نے تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق نہیں دے رکھا تھا لیکن قرآن چودہ سو سال قبل ان جاہل بدوؤں سے کہہ رہا ہے تم اپنی بیٹیوں کو ملکیت سے حصہ دو! دیکھو فرح مُلا کو شاید علم نہ ہو مگر اسلام میں تمہارے فرائض میں سے یہ نہیں کہ تم گھر میں جھاڑو پوچا لگاؤ! ہر گز نہیں! حتی یہ بھی ہے کہ تم اگر چاہو تو اپنے ہی بچے کو دودہ پلانے کی اجرت بھی مرد سے لے سکتی ہو کیونکہ اسے میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے. اس کے علاوہ شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ تم اگر نوکری کرنا چاہو تو نہ صرف تمہیں نوکری کرنے کا حق حاصل ہے بلکہ جو کماؤ اس کمائی پر صرف و صرف تمہارا حق ہے، مرد تم سے پیسے کا مطالبہ نہیں کر سکتا. گھر کے معاملات میں قرآن مرد کو تم سے مشاورت کرنے کی تاکید کرتا ہے، تم سے رویہ کیسا ہو تو قرآن کہتا ہے و عاشروھنَّ بالمعروف ان سے اچھا برتاؤ کرو. اور جب جزا و سزا کی بات آتی ہے تو قرآن کہتا ہے تم میں سے مرد ہو یا عورت جو نیک کام کرے گا اللہ (ج) کے ہاں اس کا اجر ہے. اور نہ فقط یہ کہ مرد تم پر ولایت رکھتا ہے بلکہ بعض چیزوں میں قرآن نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے پہ ولایت رکھتی ہیں. (توبہ ۷۱)

اور فرح ایک بات یاد رکھو کہ اسلام میں جسم کی اہمیت نہیں روح کی ہے، تم جسم کے لحاظ سے بیشک نازک و نفیس ہو، مرد سے بایولوجیکلی کمزور ہو مگر روح میں تم میں اور مرد میں ذرا فرق نہیں. تمہارا روح بھی مرد کی طرح الروح من امر ربی کا مصداق ہے.

فرح! حقائق بہت زیادہ ہیں لکھنے پہ آؤ تو ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے، بس مدعا یہ ہے کہ تم عورتیں اپنے خیر خواہ و بدخواہ میں تفریق کی صلاحیت نہیں رکھتی اور تمہارا بھی قصور نہیں کیونکہ اس کمبخت مُلا نے عورت کے وہ حقوق بیان ہی نہیں کیئے جو محمد (ص) تمہارے لیئے بذریعہ وحی لے کر آئے لہٰذا تم مُلا کو دین سمجھ کر اپنے محسن محمد (ص) اور اس کے قرآن کو چھوڑ کر مغربی آقاؤں کو گلے لگا رہی ہو لیکن یاد رکھو یہ تہذیب نہیں تذلیل ہے.

خیر! میرا کام تھا تمہارے سامنے حقائق رکھنا ویسے تم اگر چاہو تو کسی بھی حُسن شناس سے یہ پوچھ سکتی ہو کہ تمہارا حقیقی حسن حجاب میں ہے یا بے حجابی میں! تمہیں جواب مل جائے گا.
اللہ (ج) کی رحمت کا سایہ ہو تم پر!

وعلیکم سلام
تمہارا بھائی محمد زکی حیدری
۲۵ اپریل ۲۰۱۸
قم المقدسہ. ایران

فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ



ازقلم: محمد زکی حیدری




جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے، بہت سے فاتحین مناظرہ کے نام سنے اور ان کی مناظرے کی کتب پڑھیں. فلاں شیعہ عالم نے فلاں شہر میں مناظرہ جیتا و فاتح قرار پایا، پھر دوسرے پھر تیسرے شہر کے فاتح کا ذکر، پھر ان مناظروں کو کتابی صورت میں منظر عام پر لایا جاتا، جس پر موٹے حروف میں فاتح کا نام و القابات و... لیکن آج تک میں نے یہ نہیں سنا کہ فلاں شہر میں اس فاتح کی فتح کے بعد اس شہر کے کوئی ھزار دو سنی یا دیوبندی افراد شیعہ ہوگئے یا پھر کسی سنی فاتح مناظرہ کی توسط سے شیعہ تبدیل ہو کر سنی ہوئے ہوں. محرم کی مجالس میں ہم نے مناظرے نما مجالس سنی، بڑے بڑے وکلائے زھرا (س) منبر پر آئے لیکن ہمارے کان یہ خبر سننے کو ترستے رہے کہ پاکستان کے فلاں شہر میں مناظرے کے نتیجے میں ایک دو ھزار سنی شیعہ ہوگئے... البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان نام نہاد وکلائے زھرا (س)، جن کی فصل حقیقی علمائے مناظرہ سے جدا ہے، کے طرز خطابت سے سنی-شیعہ مخلوط مجالس ناپید ہونے لگیں، کل ہمارے ساتھ بیٹھ کر حسین (ع) کو رونے والے آج ہمارے عزاخانوں میں آنے سے کتراتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا مناظرہ نہ ہو، علمائے مناظرہ نے اپنے مکتب کا دفاع بخوبی کیا ہے، یہ بزرگ بڑی زحمتیں اٹھاتے ہیں اور ان کی نیک نیتی پہ رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں مگر ان مناظروں کے ثمرات محدود نہیں ہونے چاہیئیں تھے، جتنی توانائی صرف ہوتی ہے اس لحاظ سے اس کے نتائج عوامی سطح پر بھی ظاہر ہونے چاہیئیں تھے، بیشک مناظرہ ہو مگر عوامی سطح پر نتیجہ خیز ہو، تبدیلی نظر آئے اور مناظرہ تعمیر کرنے والا ہو، تفریق کرنے والا نہیں. اب یہ کیسے ہوتا ہے اس کا جواب عرض کر رہا ہوں.

ایک مناظری ہے جو انقلاب اسلامی و خمینی (رح) سے متاثر ہو کر شیعہ ہوتا ہے اور ۱۹۹۰ع میں اپنے ملک نائجیریہ میں اپنی تحریک اسلامی کا باقائدہ آغاز کرتا ہے ، نہ اس نے مناظرے کیئے، نہ اس کے مناظرے کی کوئی ضخیم کتاب اس کے نام و القابات کے ساتھ منظر عام پر آئی اور نہ ہی اسے وکیل زھرا (س) و فاتح فلاں شہر کے القابات سے نوازا گیا. اس نے اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر نائیجریہ کے شہر زاریہ میں عزاخانہ بنایا اور عوام کو دعوت دے کر دروس دینے کا سلسلہ شروع کیا. کچھ نہ کیا! کچھ بھی نہیں! صرف عوام کے سامنے حقائق رکھے، لیکن اخلاق کے ساتھ! اخلاق و پیار و محبت و احترامِ انسانیت و مسلک و مقدساتِ مسلک کے پھولوں کی مہک سے نائجیریہ کے مالکیوں اور وہابیوں کو اس شخص نے ایسا منقلب کیا کہ وہ سب اس کے غلام بنتے چلے گئے، وہ مکتب تشیع کے حقائق کو اپنے بہترین اخلاق و احترام کے غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سامنے رکھتا گیا اور عوام سوچ و فکر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتی ہوئی جوق در جوق حق کی منزل کو پاتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیس بتیس سال کے قلیل عرصے میں نائجیریہ کہ جہاں بمشکل ایک سؤ شیعہ پائے جاتے تھے، وہاں ڈیڑھ کروڑ مالکی و وہابی شیعہ ہو گئے.

جی یہ کوئی اور نہیں بلکہ بوڑھے حبشی مولانا، اولاد حضرت بلال (رض) شیخ ابراھیم زکزاکی (حفظہ اللہ) ہی ہیں. آج اربعین پہ سب سے بڑا مجمع عراق کے بعد نائیجیریہ میں ہوتا ہے. اس کے علاوہ آج حزب اللہ نائیجریہ کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے. شیخ زکزاکی کے اخلاق کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ اپنے شہید بیٹے کا جنازہ پڑھا رہے تھے تو ان ہی کی اقتداء میں کھڑے وہابی علماء اشک بہا رہے تھے. یہ علمائے اھلسنت شیعہ تو نہیں ہوئے مگر شیخ کے عشق میں گرفتار ہوئے بغیر نہ رہ سکے.

میں سوچتا ہوں ہم ایسی فتح حاصل کیوں نہیں کر پائے؟ کیوں ہم نے مناظری تو پیدا کیئے مگر معشوقِ عوام نہیں؟
پھر سوچتا ہوں شاید اس لیئے کہ *ہم نے ہمیشہ مناظرے جیتنے کی کوشش کی دل جیتنے کی نہیں!!!* ہم نے مخالفین کے عقیدے رد تو کر لیئے مگر ان کو اپنے عقیدے پہ نہ لاسکے. کیا شیخ زکزاکی (حفظہ اللہ) کوئی آسمان سے اترے تھے کہ انہوں نے جو کردکھایا وہ ہم نہیں کر سکتے؟ مگر افسوس کہ ہم نہ کر پائے! بس تو جب ہم یہ نہ کر پائے تو ہمیں حق نہیں کہ اپنے آپ کو فاتح کہلوائیں. حقیقی فاتح کہلانے کا حق ایک ہی شخص کو ہے جس نے قلوب فتح کیئے اور وہ فاتح زاریہ ہے!

شیعہ، احسن تقویم اور کـــتا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



شیعہ، احسن تقویم اور کـــتا


ازقلم: محمد زکی حیدری



کل ایک مولائی کی تحریر نظر سے گذری، موصوف نے خود کو اہل بیت (ع) کا کتا کہنے کے حق میں کتے کے ایسے فضائل تحریر کیئے تھے کہ میں نے کتے پالنے والوں کے منہ سے بھی ایسے فضائل نہیں سنے. فـــضائلِ کتـــا! اور ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ بعض منبر والوں کی تقریر ہی اصحاب کہف کے کتے پر ہوتی ہے. شیعہ منبر سے جب بھی اصحاب کہف کا ذکر سنا تو کتے کی وجہ سے ہی سنا، گویا کتا اصحاب کہف کے پیچھے نہیں تھا اصحاب کہف کتے کے پیچھے تھے (معاذاللہ). اصحاب کہف کی پارسائی و جہاد و توکل و شجاعت و استقامت سب کچھ چھوڑ کر بس کــــتا ہی یاد رہا.

شاید آپ یہ کہیں کہ میں آپ کے خود کو سگ علی یا کلب علی کہنے کا مخالف ہوں. نہیں نہیں *آپ کی مرضی ہے صاحب! آپ خود کو علی (ع) کتا کہو، بلی کہو خچر کہو یا گدھا. میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات مان لیں کہ یہ تواضع و انکسار کا طریقہ سیرت معصومین (ع) نہیں.* ہمارے پاس آئمہ (ع) کی دعائیں موجود ہیں ان دعاؤں میں آئمہ (ع) نے خود کو اللہ (ج) کے سامنے انکساری سے پیش کیا ہے. دعائے کمیل میں علی (ع) فرماتے انا عبد الذلیل الحقیر المسکین.. اے اللہ میں تیرا حقیر و ذلیل و مسکین بندہ... مناجات مسجد کوفہ دیکھئے مولای یا مولای انت العزیز و انا ذلیل... انت االاعلی و اناالحقیر...
دعا عرفہ اٹھا لیں کیسے مولا حسین (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں خود کو حقیر ثابت کر رہے ہیں کہ فابْتَدَعْتَ خَلْقى مِنْ مَنِىٍّ يُمْنى تم نے میری ابتداء نطفہ سے کی وَاَسْكَنْتَنى فى ظُلُماتٍ ثَلاثٍ بَيْنَ لَحْمٍ وَدَمٍ وَجِلْدٍ، پھر تین قسم کے تاریک پردوں گوشت و خون و چمڑے میں مجھے رکھا.
صحیفہ سجادیہ کی دعائیں دیکھیں امام سجاد (ع) کیسے تواضع و انکساری کا مظاہرہ کر رہے ہیں *لیکن مقام انسانیت، جو نایاب مقام اللہ (ج) نے انسان کو بخشا ہے اس سے خود کو خارج نہیں کیا. تواضع و انکساری مقام انسانیت میں رہتے ہوئے کی ہے، خود کو نوع انسانیت سے گرا کر کے کسی نجس جانور سے تشبیہ نہیں دی*



بــــتی ســـوال



اگر آئمہ (ع) نے تواضع و انکساری کرتے وقت خود کو کسی نجس جانور سے نسبت نہیں دی تو آج ہم خود کو جانور کیوں کہتے پھریں؟ کیا تواضع و انکساری کیلئے سیرت آئمہ (ع) کافی نہیں؟ شاید کوئی کہے کہ بھئی شہباز قلندر نے خود کو کتا کہا تھا. جی تو بسم اللہ آپ قلندر کی پیروی کریں ہم اللہ (ج) کے بھیجے ہوئے ہادیوں کی.
قرآن میں دعائیں ہیں انبیاء کی، کسی نبی نے خود کو کسی جانور سے نسبت نہیں دی جب کوئی نبی، کوئی امام، کسی صحابی مثلاً سلمان، مقداد، ابوذر، عمار، میثم تمار نے خود کو علی (ع) کتا کہا ہو تو لا کر دکھا دیں.

چودہ معصوم ہادی ہمارے گھر کے ہر فرد کو انسان بنانے آئے، ان کی محبت انسان کو *احسن تقویم* بنا دیتی ہے لیکن ہم ایسے بدنصیب نکلے کہ ان کی محبت میں کتا کہلوانا پسند کیا.

بـــــتی اہـــانت
آخری عرض یہ کہ آپ خود کو کتا کہہ کر معصوم کی اہانت کرتے ہیں. وہ ایسے کہ ابوہریرہ کا اصل نام عبدالرحمٰن ابن صخر تھا لیکن چونکہ بلیاں پالتا تھا تو اسے ابو ہریرہ کہا گیا مطلب بلیوں والا. "ابو" کا مطلب والا یا صاحب بھی ہے. اب اگر آپ خود کو علی (ع) کا کتا کہتے ہیں تو آپ کے بقول علی (ع) کتے پالنے والے ہیں، تو کیا علی (ع) کو (مــــــعاذاللہ) ابو کلاب (کتوں والا) کہا جائے؟ آپ تو غیر مسقیم طور پر علی (ع) کو یہ ہی لقب دے رہے ہیں.
اللہ (ج) ہمیں آئمہ (ع) کی سیرت پر عمل کر کے قرآنی اصطلاحات "احسن تقویم" و "اشرف المخلوقات" بننے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین

امام حسن (ع) یعنی بصیرت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


امام حسن (ع) یعنی بصیرت


از قلم: محمد زکی حیدری



مرحوم خواجہ نصیرالدین طوسی (رض) نے ایک بڑا ہی منفرد کام کیا ہے، انہوں ہر امام (ع) کیلئے ایک مخصوص درود لکھی ہے، جب امام حسن (ع) پہ پہنچتے ہیں تو لکھتے ہیں السلام علی السید المجتبی و الامام المرتجی، صاحب الجود و المنن، دافع المحن والفتن؛ سلام ہو اس امام پر کہ جس کی زندگی جود و سخا و فتنوں کو مٹانے و ظلم کی مخالفت سے بھرپور ہے.

میرا سلام ہو مرحوم خواجہ (رض) کی باریک بینی پر! کمال کے الفاظ انتخاب کیئے ہیں. ہم ساری زندگی یہ سوچتے رہے کہ ظلم مخالف صرف امام حسین (ع) ہی تھے کہ کربلا میں یزید کے خلاف قیام کیا اور امام حسن (ع) صلح پسند مگر ایک برجستہ عالم و محقق کی نظر دیکھیئے امام حسن (ع) کو دافع المحن و الفتن قرار دے رہے ہیں.

یہ اس مشہور اعتراض کا جواب بھی ہے کہ جو بعض افراد کی طرف سے وجود مبارک امام حسن (ع) پر کیا جاتا ہے کہ کیا وجہ تھی علی (ع) نے جنگ کی، حسین (ع) نے جنگ کی جب کہ امام حسن (ع) نے جنگ نہ کی، اور پھر اپنی خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں کہ امام حسن (ع) ذرا ٹھنڈی طبیعت کے تھے، صوم و صلاۃ کو ترجیح دیتے تھے جنگ و جدل میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ. بھائی صاحب آپ نے امام حسن (ع) شخصیت کا مطالعہ ہی نہیں کیا وگرنہ ہر گز ایسا نہ کہتے. بھیا باطل کے خلاف جنگ صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتی، جنگ کا مقصد ہوتا ہے دشمن کے اہداف کو ناکام بنانا اور اپنے اہداف کا حصول! یہ خاموشی کے ہتھیار سے ہو تو علی (ع) جیسا امام پچیس سال خاموش رہ کر دشمن کے اہداف کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتا ہے، یہ ہدف اگر تلوار میان سے نکال کر پورا ہو رہا ہو تو حسین (ع) کربلا میں نظر آتے ہیں. اور اگر اس ہدف کی تکمیل صلح کی تلوار سے ہو تو امام حسن (ع) معاویہ کو بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں. ہر معصوم (ع) نے وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہتھیار کا انتخاب کیا.

اب شاید سوال ہو کہ بھئی کیسے امام حسن (ع) نے معاویہ کو بے نقاب کیا تو پہلے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ افسوس کہ ہمیں منبر سے عموماً آدھی بات بتائی جاتی ہے، کیونکہ مقصد نعرے لگوانا ہوتا ہے لہٰذا ہمیں صلح امام حسن (ع) کی کہانی کچھ اس طرح پیش کی گئی ہے کہ گویا امام حسن (ع) فرما رہے ہوں کہ بھئی مجھے جنگ ونگ نہیں کرنی لاؤ معاویہ صاحب صلح نامہ لاؤ میں دستخط کیئے دیتا ہوں! نہیں بھائی ایسا نہیں ہے!!!

امام حسن (ع) کو جب علم ہوا کہ معاویہ عراق پر چڑہائی کرنے کیلئے ۹۰ ہزار کا لشکر لیئے پیش قدمی کر رہا ہے تو امام (ع) نے عبید اللہ بن عباس کی سپہ سالاری میں ۴۰،۰۰۰ کا لشکر (با اختلاف تعداد لشکر) معاویہ کے خلاف بھیجا اور خود ایک لشکر کے ساتھ مدائن میں رکے کیونکہ ان پر جراح بن سنان نامی شخص نے اچانک حملہ کر کے ان کے پیر پر تلوار کی ایسی ضرب لگائی تھی کہ جو گوشت کو چیرتی ہوئی ہڈی تک جا پہنچی. اس وجہ سے امام (ع) لشکر سے جدا ہوکر سعد بن مسعود ثقفی کے گھر بستر تک محصور ہوگئے(۱) یہاں امام (ع) کو خبر ملی کہ *عبیداللہ بن عباس* کو معاویہ نے 10,0000درہم کی آفر کی اور وہ آٹھ ھزار ساتھیوں کے ساتھ معاویہ سے جا ملا. (۲)

اس کے بعد امام (ع) نے *کـــــندی* کو سپہ سالار بنا کر بھیجا وہ جب انبار نامی علائقے تک پہنچا تو معاویہ نے اپنے جاسوس کے ذریعے اسے 50،000 درہم اور شام کے مختلف علائقوں پر حکمرانی کی لالچ دے کر خرید لیا اور کندی اپنے کئی ساتھیوں سمیت معاویہ سے جا ملا.
اس کے بعد تیسرا لشکر امام (ع) نے *مـــــرادی* کی سپہ سالاری میں بھیجا مرادی کو بھی معاویہ نے خرید لیا. (۳)
یہ جنگ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ یہ ٹھنڈی طبیعت والا امام لگتا ہے آپ کو؟

اب امام (ع) کی بصیرت ملاحظہ ہو، ساتھی چھوڑ گئے، سپہ سالار خیانت کر گئے، جو باقی بچ گئے وہ سپہ سالاروں کی خیانت دیکھ دیکھ کر تھک گئے تھے، ان کے عزائم ڈھیلے پڑ گئے، معاویہ کا بہت بڑا لشکر عراق پہ قابض ہونے آ رہا ہے اور ایسے میں معاویہ کی طرف سے صلح نامہ آتا ہے. امام (ع) نے سوچا تلوار سے تو معاویہ بے نقاب نہ ہوا، اب اسی صلح نامے کے ذریعے ہی ساری دنیا کے سامنے معاویہ کو بے نقاب کریں لہٰذا آپ نے شرائط رکھ کر صلح نامہ معاویہ کو بھیجا. امام (ع) کو علم تھا کہ معاویہ کبھی صلح میں مذکور شرائط کو قبول نہیں کرے گا لیکن اگر معاویہ نے ان شرائط کو مان بھی لیا تو بھی امام (ع) کی کامیابی تھی کہ شیعوں کی جان و مال محفوظ ہوجائے گی اور معاویہ کے بعد یزید جیسا قبیح انسان منبر رسول (ص) پر نہ آ پائے گا. اور اگر وہ امام (ع) کی طرف سے پیش کردہ شرائط کی مخالفت کرتا ہے تو ساری دنیا کے سامنے اس کے امن پسند ہونے کے کھوکھلے دعوے کی قلعی کھل جائے گی اور یہ ہی ہوا معاویہ نے صلح کو ہاتھ میں لیا پڑھا اور اپنے پیروں تلے روند دیا. سب نے دیکھ لیا کہ معاویہ کی حقیقت کیا ہے.

یہ ہے بصیرت، یہ ہے فتنے کو مٹانے کا طریقہ، یہ ہے ظالم کو بے نقاب کرنے کا طریقہ، بصیرت یعنی حالات آپ کے بلکل مخالف ہوں لیکن آپ ایسی صورتحال میں بھی اپنی شخصیت کا لوہا منوائیں. اور امام حسن (ع) نے یہ بخوبی کر دکھایا.

حـــــوالــــے:
(۱) ارشاد مفید، فارسی ترجمہ ص 8 - 9. 
(۲) ایضاً ص 8 - 9. اور تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 191
(۳) آیت اللہ امین، اعیان الشیعه، ج 1، ص 569

ابو القاسم، امام المتقین (ع) اور امام المتعصبین (لعہ)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




ابو القاسم، امام المتقین (ع) اور امام المتعصبین (لعہ)


تحریر: محمد زکی حیدری

 



حسن بن فضال اپنے والد صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) سے پوچھا رسول اللہ (ص) کو ابو القاسم کیوں کہا جاتا ہے. فرمایا کیونکہ آپ (ص) کے بیٹے کا نام قاسم تھا.
میں کہا یابن رسول اللہ (ص) کیا آپ مجھے اس لائق سمجھتے ہیں کہ اس کی مزید وضاحت مجھ سے بیان فرمائیں.
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ نبی (ص) نے فرمایا میں اور علی (ع) اس امت کے باپ ہیں؟
میں کہا: جی!
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) اپنی ساری امت بشمول علی (ع) کیلئے والد کا مقام رکھتے ہیں؟
میں نے کہا: جی!
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ علی (ع) جنت و جہنم تقسیم کرنے والے، ہیں؟
میں نے کہا: جی جانتا ہوں.
فرمایا: اسی وجہ سے انہیں قاسمِ (تقسیم کرنے والا) جنت و جہنم کا والد کہا گیا ہے. (۱)

یعنی امام رضا (ع) فرما رہے ہیں کہ علی (ع) جنت و جہنم کے قاسم (تقسیم کرنے والے) ہیں، اور علی (ع) نے چونکہ رسول (ص) کے ہاتھوں پرورش پائی اور دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد (ص) علی (ع) کے استاد بھی تھے اور استاد باپ کی جگہ ہوتا ہے اس لیئے محمد (ص) ابو القاسم یعنی جنت و جہنم تقسیم کرنے والے کے باپ قرار پائے.

کمال ہے علی (ع) کی ذات اقدس! جس زاویے سے دیکھو علی (ع) وجود مبارک محمد (ص) کا اٹوٹ جز نظر آتے ہیں. آپ دیکھیں ہر نبی کی ذریت اس کی اولاد سے چلی ہے مگر محمد (ص) کی ذریت علی (ع) سے جاری رہی. یہ علی (ع) ہیں کہ ان کی اولاد ہی یابن رسول اللہ کہلواتی ہے.


 *آپ امام المتقین (ع) کو مانتے ہو یا امام المتعصبین کو؟*:bulb:

علی (ع) امام المتقین ہیں آپ (ع) نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 192 میں شیطان کو "امام المتعصبین" تعصب کرنے والوں کا امام قرار دیا. شیطان نے آدم (ع) سے تعصب کیا. شیطان کا جرم کیا تھا؟ وہ اللہ (ج) *کو مانا* چھ ھزار سال سجدے کیئے مگر اللہ (ج) *کی نہیں مانی* کہ آدم (ع) کو سجدہ نہ کیا. شیطنت یہ ہی ہے کہ آپ *کسی کو* مانو مگر *اس کی* نہ مانو. آج کل افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے بعض شیعہ دوست علی (ع) *کو* مانتے ہیں مگر علی (ع) *کی* نہیں مانتے. یہ تو صاف صاف امام المتعصبین کی سیرت ہے. اب وہ اپنے دماغ کی بتی جلا کر سوچ لیں کہ وہ واقعی امام المتقین کے شیعہ ہیں یا امام المتعصبین کے!

حوالہ:
۱- بحارالانوار ج 16 ص 95

فرشتوں کو ٹوپی کرانے والے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

💡💡 *دین اسلام شدت پسند نہیں*💡💡


ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری

قسط: سوم

 

💂🏽‍♀💂🏽‍♀ *فرشتوں کو ٹوپی کرانے کی کوشش*💂🏽‍♀💂🏽‍♀

 

کل ثابت ہوا کہ مستضعفین وہ ہیں جو بیچارے مجبور ہیں اور حق تک پہنچنے سے قاصر ہیں. وہ خبیث لوگ نہیں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی حق کا انکار کریں، ویسے یہ بڑے خبیث لوگ ہیں حتی قیامت کے دن فرشتوں کو بھی ٹوپی کرانے کی کوشش کریں گے. 😀 کیونکہ یہ کمبخت سب جانتے ہیں کہ اللہ (ج) مستضعف پہ ٹھنڈا ہاتھ رکھے گا سو یہ قیامت کے دن خود کو مستضعف ثابت کرنے کی کوشش کریں گے. یہ ہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کی طرف اشارہ کرتے فرمایا:

*إِنَّ الَّذينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظالِمي‏ أَنْفُسِهِمْ قالُوا فيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفينَ فِي الْأَرْض‏...*

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو *ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں مستضعفین تھے*.

یہ دیکھئے!!!
یہ کمبخت جھوٹ بولیں گے فرشتوں سے بھی، یعنی فرشتوں کو بھی ٹوپی کرانے کی کوشش کریں گے.
لیکن فرشتے کہیں گے:

*أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتهَُاجِرُواْ فِيهَا*

فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟

تب یہ کمبخت جواب نہ دے پائیں گے.

*فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا*

یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے.
(سورہ نساء ۹۷)

تو اس آیت سے ثابت ہوا کہ مستضعفین کا معاملہ الگ ہے جہنم میں وہ بدبخت جائیں گے جو سب کچھ جانتے بھی حق کا انکار کریں، ضد کریں.

 

اگلی قسط کا سوال👇🏽

 

سوال: بعض اوقات کچھ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہی حق ہے... بڑے مطمئن، ذرا بھی شک نہیں ہوتا انہیں.
جب کہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ حق پر نہیں باطل پر ہیں.
تو ایسے لوگوں کا کیا ہوگا؟
انہیں کبھی ذرا بھی شک نہیں ہوا کہ وہ باطل پہ ہیں.


اگلی قسط میں (انشاء اللہ)*

arezuyeaab.blogfa.com

مستضعفین کون ہیں؟  (اسلام شدت پسند دین نہیں)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

💡💡 *دین اسلام شدت پسند نہیں*💡💡


ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری

قسط: دوم

 

دیکھیئے جناب رام لعل توتلہ و آفریقی جنگلات میں رھنے والے اور عام سنی شیعہ جو علمی، عقلی یا جسمانی مجبوری کی وجہ حق یا شرعی ذمہ داری سے نا آشنا ہیں. ان سب کو اسلام میں " *مُستَضعِف*" کہا گیا ہے. یہ لفظ ضعف سے لیا گیا ہے مطلب کمزوری!

مستضعف کی ایک قسم مستضعف اعتقادی ہے جو عقیدہ کے بارے میں کسی طرح سے *بے بس و کمزور* ہیں.
دوسری قسم ہے مستضعف عملی، وہ جو ظلم کے خلاف لڑ نہیں کرسکتے، جہاد کیلئے *بے بس و کمزور* ہیں.
ہمارا موضوع مستضعف اعتقادی ہے.

سو مستضعفین یعنی وہ جو کسی مجبوری یا کمزوری کی وجہ سے حق تک نہ پہنچ پائے یا پھر سرے سے حق ان تک پہنچا ہی نہیں.

مستضعفین اعتقادی کے چار گروہ ہیں. جن پر بات ہوگی تو ان شاء اللہ آپ سمجھ جائیں گے کہ ان کا آخرت میں کیا مقام ہوگا.
البتہ یہ کنفرم ہے کہ
*اللہ (ج) مستضعفین کو عذاب نہیں دے گا* البتہ لازمی نہیں کہ جنت میں جائیں!
🤔 تو پھر کہاں ہونگے؟🤔

یہ اگلی اقساط میں واضح ہوگا.
فی الحال یہ طے ہے کہ مستضعفین جھنم میں نہیں جائیں گے کیونکہ
👇🏽
*جھنم صرف و صرف و صرف و صرف اس بدبخت کیلئے ہے جو حق جان کر بھی ضد کرے اور حق کا انکار کرے یا شرک کرے اسلام میں اسے کافر و مشرک محض کہتے ہیں*

جسے حق کا پتہ نہ ہو وہ مستضعف ہے.

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

کچھ دوسر ے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھیرا ہوا ہے، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے اُن پر از سر نو مہربان ہو جائے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے

سورہ توبہ ۱۰۶

البتہ کریم سے کریمی کی امید ہوتی ہے، چونکہ اللہ (ج) کریم ہے سو عقل و شہود یہ ہی کہتا ہے کہ اللہ (ج) اس گروہ کو بخش دیگا.


اگلی قسط👇🏽

💂🏽‍♀💂🏽‍♀ *فرشتوں کو ٹوپی کرانے کی کوشش کرنے والے کون؟* 💂🏽‍♀💂🏽‍♀

 

 

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

رام لعل توتلہ جھنم میں جائے گا یا جنت؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

💡💡 *دین اسلام شدت پسند نہیں*💡💡


ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری

قسط: اول


*رام لعل توتلہ جھنم میں جائے گا یا جنت؟*

 

ھندوستان کے قدیم زمانے، جب میڈیا نہیں ہوتا تھا، کی بات ہے کہ رام لعل توتلہ نامی ھندو اپنے گاؤں میں کچی شراب بناتا اور شہر لے جاکر بیچا کرتا. یہ مہینے میں ایک بار پاس والے شہر کا چکر لگاتا اور شراب بیچ کر خوب پیسے کماتا. ایک دن وہ جوں ہی اس شہر میں داخل ہوا تو پولیس نے اسے شراب بیچنے کے الزام میں پکڑ لیا. وہ ڈر کے مارے رونے لگا کیونکہ اسے پتہ ہی نہ تھا کہ اسے جیل کیوں لے کر جا رہے ہیں. اس نے سپاہی سے اپنے توتلے لہجے میں پوچھا: شابجی میڑا دوش (جرم) کیا ہے شڑکاڑ؟
بولے: تم دارو (شراب) کا بیوپار (تجارت) کرتے ہو اور اب اس شہر پر مسلمان راجہ کا راج ہے، اسلام میں یہ کام حرام ہے؟
رام لعل کو کچھ سمجھ نہ آیا سو وہ چپ چاپ پورے راستے سوچتا رہا کہ مسئلہ کیا ہے. جب تھانے پہنچے تو تھانیدار نے اس سے رعبدار انداز میں پوچھا: تمہیں معلوم نہیں اب اس شہر پہ اسلام کا راج ہے اور اسلام میں شراب حرام ہے؟
رام لعل توتلہ ہاتھ جوڑ کر بولا: شابجی یہ اشلام اوڑ حڑام کیا ہے؟ شپاہی بابو بھی مجھے یہ بولے مگر ڑام قسم مجھے نہیں پتہ کہ یہ ہے کیا چیج، دیا (رحم) کڑیں میڑے چھوٹے چھوڑے بچے ہیں؟
تھانیدار بہت ھنسا اور سپاپیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ جسے یہ نہیں پتہ کہ اسلام کیا اور حرام کیا ہے اسے سزا دینا کس عاقل کا کام ہے، جانے دو اسے لیکن اسے پوری بات سمجھاؤ کہ شراب کے بارے میں نیا قانوں کیا ہے، اگر اس کے بعد بھی یہ ایسا کام کرے تو ہی سزا کا مستحق ہوگا.


🤔💡 *بتی سوال*💡🤔

جب رام لعل توتلہ کو اسلام کے بارے میں علم نہ ہونے پر ایک تھانیدار اسے سزا نہیں دیتا تو کیا *اللہ (ج)* عادل بادشاہ رام لعل توتلہ کو دہکتی آگ میں ڈالے گا؟

کیا افریقہ کے جنگلات میں رہنے والوں جن کے پاس اسلام کا پیغام پہنچا ہی نہیں، کو بھی *اللہ (ج)* سزا دے کر جھنم بھیج دیگا؟

یا پھر وہ نام کا مسلمان جو ایسی جگہ رہتا ہے جسے کسی نے بتایا ہی نہیں کہ نماز و روزہ و حج و زکوات نامی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، وہ بس باپ دادا کی وجہ سے نام کا مسلمان ہے، کیا ایسا مسمان بھی جہنم میں جائے گا؟

کیا شیعہ و سنی عام و سادہ لوح عوام جنہیں پتہ ہی نہیں کون سا فرقہ سچا ہے شیعہ یا سنی، وہ بس جس گھر میں پیدا ہوئے اسی دین پہ چل رہے ہیں، ایک کو بتایا گیا کہ ھاتھ باندھ کر نماز پڑھو وہ پڑھ رہا ہے، دوسرے کو بتایا گیا ہاتھ کھول کر نماز پڑھو یہ صحیح ہے وہ کھول کر. *جو تحقیق کرنا نہیں جانتے* وہ بھی جہنم میں جائیں گے؟

اس طرح یہودی، عیسائی، ھندو، جو کسی بھی عذر کی وجہ سے *حق و باطل کی تمیز کرنے سے قاصر ہیں*، تو کیا انہیں جھنم کی آگ میں جلانا *اللہ (ج)* کی عدالت کے شایان شان ہے؟

*کیا یہ عدالت ہے کہ کسی کو ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر جہنم کی آگ میں ڈالا جائے جن احکامات کا ذکر اس بے کبھی سنا ہی نہیں؟*

*جس بچے کو کسی استاد نے پڑھایا ہی نہیں، اس بچے سے امتحان لینا اور اگر وہ فیل ہو اسے سزا دینا انصاف ہے؟*

سوچیئے! اگر یہ مسئلے ہم سمجھ لیں تو دنیا میں امن ہو جائے.

*جواب اگلی قسط میں (انشاء اللہ)*

arezuyeaab.blogfa.com

کیا آئمہ (ع) گناہ کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

💡💡 بتی سوال💡💡

 

کیا معصوم گناہ کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا دل بلکل بھی نہیں کرتا کہ کوئی گناہ کریں؟
ہم کیسے مان لیں کہ وہ گناہ کی صلاحیت رکھتے ہیں؟🤔


جناب اس کو ہم ایک مثال سے واضح کریں گے. سوال 💡 *کیا آپ بیچ بازار میں اپنے کپڑے اتار سکتے ہیں؟* آپ کہیں گے نہیں!
ہم پوچھیں گے کیوں؟ کیا آپ اس کام کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ آپ کہیں گے جی صلاحیت بلکل رکھتے ہیں، ہمارے ہاتھوں میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اپنے کپڑے سب کے سامنے اتار سکیں لیکن پھر بھی ہم ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ عمل قبیح ہے اور اس عمل کی قباحت ہمیں اس کام سے روکتی ہے.

💡💡پس ثابت ہوا کہ آئمہ (ع) بھی چاہیں تو گناہ کر سکتے ہیں، صلاحیت رکھتے ہیں مگر گناہ کی قباحت سے وہ اتنے آگاہ ہیں کہ وہ گناہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے

نعرہ حیدری!!!

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

قبر کی فریاد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سنو سنو اے دنیا کے کاموں میں مست جوانوں!...

اس بات پہ سوچنا جانا ہے ہم نے یہاں... سب نے جانا ہے...

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمد (صلی الله علیه و آله) نے فرمایا:
اَلْقَبْرُ یُنادِی کُلُّ یَوْمٍ بِخَمْسَ کَلَمات(1) 

قبر هر روز پانچ فریادیں بلند کرتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1⃣ اَنا بَیْتُ الْوَحْدَه فَاحْمِلوا اِلیَّ اَنیساً

*میں تنہائی کا گھر ہوں اپنے لیئے دوست و ساتھی کا انتظام کر کے آنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2⃣ اَنا بَیْتُ الْظُّلْمَه فَاحْمِلوا اِلیَّ سِراجاً

میں اندھیری جگہ ہوں اپنے لیئے روشنی کا چراغ لیتے ہوئے آنا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3⃣ اَنا بَیْتُ التُرابْ فَاحْمِلوا اِلیَّ فِراشاً

میں خاکی زمین ہوں اپنے لیئے بستر کا بندوبست کر کے آنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
4⃣ اَنا بَیْتُ الْعِقابْ فَاحْمِلوا اِلیَّ تَرْیاقاً

میں بلاؤں کا گھر ہوں اپنے ساتھ تریاق (زھر کا اثر ختم کرنے والی دوائی) لیتے آنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
5⃣ اَنا بَیْتُ الْفَقْرْ فَاحْمِلوا اِلیَّ کَنْزاً

میں غربت کا گھر ہوں اپنے ساتھ خزانہ لیتے ہوئے آنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


(1) تحریر المواعظ العددیة ص 390

arezuyeaab.blogfa.com

محبتیں

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

محبتیں

کوئی اللہ (ج) سے محبت کرے تو اس پر لازم ہے کہ *مجھے* بھی دوست رکھے، جو مجھے دوست رکھے اس پہ لازم ہے کہ *میری آل* کو بھی دوست رکھے. میں تہمارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک *قرآن* و دوسرا میری آل. جو مجھے دوست رکھتا ہے اس پر لازم ہے کہ قرآن کو بھی دوست رکھے اور جو قرآن سے محبت کرتا ہے اس پہ لازم ہے کہ *مسجد* سے بھی محبت کرے، کیونکہ مساجد اللہ (ج) کی دربار اور گھر ہیں کہ جن کو اس نے آباد کرنے کا حکم دیا ہے اور انہیں مبارک قرار دیا ہے. مساجد سعادتمند ہیں اور *اھل مسجد* بھی. مسجد و اہل مسجد دونوں محفوظ اور امن میں ہیں.
اھل مسجد ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ اللہ (ج) ان کی حاجات پوری فرما دیتا ہے. وہ مسجد میں ہوتے ہیں اور اللہ (ج) ان کا حامی و ناصر ہوتا ہے.

 

رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم

(مستدرک ج3ص355)

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟

 

تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

 

بھائی اللہ (ج) کے نام پہ قربان جاؤں، اس نے حکم دے دیئے یہ کرو وہ کرو، ہم گنہگاروں نے اپنی استطاعت کے مطابق اللہ (ج) کے احکام کی پیروی کی. اب ہمیں یہ کون بتائے کہ بھئی ہمارے یہ ٹوٹے پھوٹے اعمال قبول بھی ہو رہے ہیں کہ نہیں! کیونکہ
مولا علی (ع) نے فرمایا :
كُونُوا عَلي قَبُول الْعَمَلِ اَشَدَّ عِناية مِنكُم عَلَي الْعَمَل

*عمل کی قبولیت پر عمل سے بھی زیادہ دھیان دو*
(بحارالانوار، ج 71، ص 173 )

یعنی عمل کرنے کے چکر میں ہی مت پڑے رہو پہلے یہ تسلی کرلو کہ جس طریقے سے تم عمل کرنے چلے ہو اس طرح سے قبول بھی ہوگا کہ نہیں، اس بندے کی طرح نہ ہو کہ جس نے سنا کہ اللہ (ج) نے وعدہ کیا ہے کہ گناہ پر ایک سزا ملے گی، جب کہ نیکی پر دس برابر ثواب ملے گا سو اس مرد کے بچے نے بڑی چالاکی دکھائی، ایک دکان سے روٹی چوری کی دوسرے دکان سے انار چوری کیا اور لاکر فقیر کو دیا. فقیر بولا: یہ کیا چکر ہے؟
اس نے کہا دیکھ بھائی! اللہ (ج) نے کہا ہے ایک گناہ ایک سزا اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ثواب. اب میں نے دو چیزیں چوری کیں سو میرے گناہ ہوئے دو. جب کہ تجھے یہ دونوں چیزیں دے کر میں نے بیس نیکیاں کمائی ہیں.
ثابت ہوا اس کام سے مجھے ثواب زیادہ ہوا گناہ کم!

کیا ایسا ہی ہے؟؟؟
نہیں!
یہاں قرآن مجید پر غور کریں ھابیل و قابیل دونوں کو حکم ہوا کہ قربانی کرو مگر اللہ (ج) نے صرف ھابیل کی قربانی قبول کی قابیل کی نہیں.
کیوں؟

سورہ مائدہ کی آیت میں اللہ (ج) نے جواب دیا
إِنَّما يتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين

اللہ (ج) صرف متقیوں کے عمل قبول کرتا ہے.

یعنی اولین شرط یہ ہے کہ جو کرو اس میں *تقوی کا عنصر موجود ہو*

تقوی کیا ہے ... سمپل سی، سادہ سی تعریف : *خود کو گناہ سے بچانا*
یعنی عمل اس کا قبول جو خود کو گناہ سے بچائے...
ایک طرف سے چوری کرو دوسری طرف سے خیرات کرو تو بھیا اس میں تقوی کی شرط پوری نہیں ہورہی سو اجر زیرو! ❌

یہ ہی وجہ ہے کہ *امام جعفر صادق (ع) سے سوال ہوا مولا کیسے پتہ چلے کہ ہماری نمازیں قبول ہیں کہ نہیں؟*

امام (ع) نے زبردست معیار بتا دیا فرمایا:

(مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَعْلَمَ أَقُبِلَتْ صَلَاتُهُ أَمْ لَمْ تُقْبَلْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ مَنَعَتْهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ فَبِقَدْرِ مَا مَنَعَتْهُ قُبِلَتْ مِنْه)

جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا اس کی نمازیں قبول ہو رہی ہیں یا نہیں وہ یہ دیکھے کہ آیا اسے نماز گناہ سے دور کر رہی ہے یا نہیں. پس جتنی مقدار میں نماز نے اسے گناہ سے بچایا ہے اتنی ہی نماز قبول ہے (باقی نہیں)

(بحارالأنوارج 79 ص 198باب 1- فضل الصلاة و عقاب تاركها ...)

یہ بات ہے بھیا تقوی (گناہ سے دوری لازمی ہے) صرف عمل نہیں کرتے جانا.
قرآن پر غور کریں:

إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهي‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ. (عنكبوت، آيه 45)
*بیشک نماز فحاشی اور برائیوں سے بچاتی ہے.*

اگر یہ کہیں کہ نماز ہے ہی وہ جو برائیوں سے بچائے تو بے جا نہ ھوگا.

سو بھیا قرآن و اھلبیت (ع) نے پیمائش کا آلہ (Checking instrument) دے دیا جیسے درجہ حرارت تھرمامیٹر سے چیک کرتے ہو، بلڈ پریشر چیک کرتے ہو اسی طرح اعمال کی قبولیت کا پیمائش کا آلہ *تقوی عرف گناہوں سے دوری* ہے.

اب *نماز* کو اس آلے سے چیک کریں
*عزاداری* کو اس آلے سے
*روزے* کو اس آلے سے
*مجلس*، *خیرات*، *نیاز*... ھر چیز....
عمل کرتے جائیں چیک کرتے جائیں اگر گناہ سے دور ہو رہے ہو تو قبول، نہیں تو 🚨 خطرہ ہے!


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

نمرود اِن ٹینشن

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحيم

 
💀💀 نمرود اِن ٹینشن 💀💀

 

مترجم: محمد زکی حیدری


بین النھرین (۱) کے نام سے معروف سرزمین پر بابل نامی ایک خوبصورت اور گنجان آباد شہر واقع تھا جہاں ایک ظالم بادشاہ نمرود ولد کوش بن حام حکومت کیا کرتا تھا. بابل بت پرستی، انحرافات و فساد کا گڑھ تھا. هوس بازی، شراب خوری، جوا، جنسی گندگی، مالی فسادات اور ہر قسم کی معاشری قباحتیں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں. معاشرہ سخت طبقاتی نظام کے زیر تسلط تھا جس میں دو طبقات نمایاں تھے: حاکم و محکوم.
بت پرست حاکم کہ جس جس کی زندگی سراپا ظلم، فساد اور انحرافات کا نمونہ تھی، بابل کی عوام پر حکومت کرتا تھا. ھر طرف ظلم و زیادتی کا گھپ اندھیرا چھایا تھا اور گناہ کی فراوانی نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا. ہر شریف انسان شب ظلمت کے خاتمے و سحر سعادت کا منتظر تھا.
نمرود نہ فقط بابل بلکہ کچھ اور علائقوں پر بھی حکومت کرتا تھا. یہ ہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا تھا: اس زمین پر چار افراد نے حکومت کی ہے جس میں سے دو عادل، حضرت سلیمان (ع) اور ذوالقرنین. اور دو ظلم: نمرود و بخت النصر(2) تھے.

اللہ (ج) نے بابل والوں پر نظر کرم فرمائی اور ارادہ کیا کہ
ایک نیک و صالح رھبر ان کی جانب بھیجے جو انہیں جہالت، بت پرستی، ظلم و استبداد کے چنگل سے آزاد کروائے اور نمرود کے طاغوتی پنجوں سے انہیں رہائی بخشے. یہ نیک و صالح رہبر ابراھیم (ع) تھے جنہوں نے ابھی اس دنیا میں آنکھ بھی نہ کھولی تھی.
حضرت ابراھیم (ع) کا چاچا آزر نہ فقط ایک بت پرست تھا بلکہ نمرود کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا. اس کے علاوہ وہ ایک ماہر نجومی و ستارہ شناس بھی تھا جو حلقۂ مشیران نمرود میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا. آزر نے اپنے علم نجوم کو بروئے کار لاتے ہوئے پیشنگوئی کی کہ اس سال ایک بچہ پیدا ہوگا جو نمرود کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنے گا. اس نے اپنی یہ پیشنگوئی نمرود کی خدمت میں پیش کردی.

عجیب بات یہ کہ خود نمرود نے بھی اس رات خواب دیکھا کہ ایک ستارہ آسمان پر نمودار ہوا ہے جس کی روشنی کے سامنے چاند و سورج کی روشنی بھی ماند پڑ گئی. جب نمرود نیند سے جاگا تو اس نے تعبیر کرنے والوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خواب بیان کیا، ان سب نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ بہت جلد ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں اس کی حکومت کا خاتمہ ہوگا.

نمرود خواب کی تعبیر اور آزر کی پیشنگوئی سن کر شدید خوفزدہ ہوگیا. اس نے کئی دوسرے معبران اور ستارہ شناس سے بھی مشاورت کی سب نے اسے یہ ہی بات کہی جس کی وجہ سے اس کا چین و آرام برباد ہو گیا.


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺


1) بین دجلہ و فرات کے درمیاں، حالیہ عراق میں واقع
2) بحار الانوار، ج 12، ص 36

نام کتاب : داستانهای خواندنی از پیامبران اولواالعزم‏

مولف: محمد محمدی اشتهاردی‏.

 989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)

اللہ (ج) کا دوست

بسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

اللہ (ج) کا دوست

مترجم: محمد زکی حیدری

ابراہيم عليه ‏السلام جہاں تقوی، پارسائی اور حق گرائی میں اپنی مثال آپ تھے وہاں محنت و مشقت کرنے والے انسان بھی تھے.
کبھی فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے. ان کی زندگی کا ایک حصہ کھیتی باڑی اور چوپایوں کی دیکھ بھال میں گذرا اور اس پیشے میں انہوں نے ترقی بھی کی جس کے نتیجے میں وہ کچھ بھیڑوں کے مالک بن گئے.

کچھ فرشتوں نے اللہ (ج) سے کہا کہ ابراہیم (ع) کی تجھ سے محبت ان فراوان نعمتوں کی وجہ سے ہے جو تو نے اسے عطا کی ہیں.

اللہ (ج) نے چاہا کہ فرشتوں کو دکھا دے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ابراھیم (ع) اللہ (ج) کو حقیقی طور پر مانتا ہے. اللہ (ج) نے جبرئیل کو حکم دیا کہ "ابراہیم (ع) کے پاس جا کر میرا ذکر کرو"
جبرئیل ابراہیم (ع) کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ اپنی بھیڑیں چرانے میں مشغول ہیں. جبرئیل نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر کہا:

*سبُّوح قُدُّوس ربُّ الملائِكةِ و الرُّوحِ

پاک و منزہ ہے خدا فرشتوں اور روح کا!

ابراہیم (ع) نے جوں ہی اللہ (جَ) کا نام سنا تو ان پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی.

ابراھیم (ع) نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی اور ٹیلے پر کھڑے اس شخص کو دیکھا. اس سے جاکر پوچھا: "کیا تم تھے جس نے میرے دوست کا نام لیا؟"
اس نے کہا: "ہاں"
ابراہیم (ع) نے اس سے کہا: دوبارہ میرے دوست کا نام لو میں اپنی بھیڑوں کا ایک تہائی حصہ تمہیں ھدیہ کردوں گا.

اس نے کہا: 
سبُّوح قُدُّوس ربُّ الملائِكةِ و الرُّوحِ

ابراہیم (ع) کو یہ الفاظ سن کر اتنا لطف آرہا تھا جو قابل بیان نہیں. وہ اس شخص کے پاس گئے فرمایا: "ایک بار پھر اگر میرے دوست کا نام لو تو بھیڑوں کا آدھا حصہ تمہیں بخش دونگا"
اس شخص نے تیسری بار یہ الفاظ دہرائے.
اس بار ابراہیم (ع) نے فرمایا: ساری بھیڑیں تمہاری! بس ایک بار پھر سے میرے دوست کا نام لو.

اس شخص نے پھر سے وہ الفاظ کہے.
ابراہیم (ع) نے کہا اب میرے پاس اور کچھ نہیں رہا سوائے میرے جسم کے، سو مجھے اپنی غلامی میں لے لو اور مزید ایک بار میرے دوست کا ذکر کرو.
اس شخص نے اللہ (ج) کا ذکر کیا.
ابراہیم (ع) نے اس شخص سے کہا اب مجھے اور ان بھیڑوں کو تم اپنا سمجھو.

تب جبرئیل (ع) نے اپنا تعارف کروایا اور کہا: میں جبرئیل ہوں، مجھے تمہارا کچھ نہیں چاہیئے لیکن یہ سچ ہے کہ تم نے اللہ (ج) سے دوستی کے سارے مراحل طے کر لیئے ہیں سو تمہارا حق ہے کہ اللہ (ج) تمہیں اپنا خلیل (سچا و پکا دوست) قرار دے


 اقتباس از معراج السعادة،ص 491

 

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی شرعی طور ناجائز ہے)

*اتنی سخت سزا*

عجب!
اتنی سخت سزا

 

بھیا ذرا یہ سنیئے! جنگ تبوک روم کے بارڈر پر ہونی تھی، مدینہ سے یہ جگہ ۷۰۰ کلومیٹر دور ہے، حکم ہوا رسول (ص) کا چلو تو اصحاب نکل پڑے.... ۷۰۰ کلومیٹر دور مدینہ سے... اب یہ اعلان جب ہوا تو اس وقت ذرا سا فصلوں کی کٹائی یا شاید کھجور کے پک کر اترنے کا وقت تھا سو کچھ افراد نے رسول (ص) سے عرض کی کہ اجازت ہو تو ہم ایک دو دن بعد نکلیں لیکن آئیں گے ضرور... رسول (ص) نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے!

ان میں سے تین افراد
کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع، اور ھلال بن امیہ روز سوچتے آج نہیں کل جائیں گے یہ سوچتے سوچتے دن گذر گئے یہ گئے نہیں. اتفاق سے تبوک کی جنگ ہوئی ہی نہیں بس محاصرہ تھا سو کچھ دن بعد رسول (ص) بخیر و عافیت مدینہ لوٹ آئے لوگ استقبال کیلئے آئے تو یہ تین لوگ بھی آئے یعنی کعب، مرارہ اور ھلال... رسول (ص) نے ان سے بات تک نہ کی اور اعلان کیا کوئی ان سے بات نہ کرے...
بیویوں نے کہا یا رسول (ص) ہمارے لیئے کیا حکم ہے فرمایا تم بھی ان سے بات نہ کرو...
بھیا اب ذرا سوچیئے دکان پر جاؤ دکان والا بات نہ کرے ، دوست بات نہ کریں، عزیز، احباب حتی بیوی بچے بھی دیکھ کر منہ پھیر لیں... کتنا مشکل ہو جاتا ہے جینا... یہ تین لوگ پچھتاوے کی حالت میں پاگلوں کی طرح مدینے میں اس طرح پھرتے رہے جیسے اجنبی!
کیوں؟
کیونکہ *وعدہ کیا تھا* نبھایا نہیں...
سو اپنی زندگی میں دیکھ لیں کہیں ہم کعب، مرارہ اور ھلال کی طرح تو نہیں... جس چیز کو ہم چھوٹا سمجھتے ہیں قرآن و رسول (ص) اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں... ہم لوگوں کو "ٹوپیاں" (ہم کراچی والوں کی مروجہ زبان میں دھوکہ دینا یا وعدہ کرکے مکرجانا) کراکے فخر کرتے ہیں لیکن یہ قصہ پڑھ کر "ٹوپی کرانے" والوں کی سزا کا پتہ چلتا ہے.

(یہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۸ کی تفسیر میں قصہ ہے اس آیت میں ان تین کی طرف ہی اشارہ ہے)

الاحقر: محمد زکی حیدری

علی (ع) اور ضربیں

 

 

علی (ع) اور ضربیں ...

 

از قلم: محمد زکی حیدری


بت شکن محمد (ص) کے بت شکن جانشین علی (ع) کیلئے ضربیں کھانا کوئی نئی بات نہیں چاہے وہ ضربیں جسمانی ہوں یا روحانی! اسلام کیلئے ۹ سال کی عمر میں دعوت ذولعشیرہ کے موقع پر محمد (ص) نے جب لوگوں سے پوچھا کون ہے میرا ساتھی تو اس ۹ سالہ بچے نے حمایت کیلئے جوں ہی ہاتھ کھڑا کیا تو وہاں سے ابوجھل کا تضحیق آمیز قہقہا اس بچے کی روح پر پہلی ضرب تھی لیکن اس نے پرواہ نہ کی، اس کے بعد بدر و احد و حنین و... کی جسمانی ضربیں بھی علی (ع) کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، انتقال رسول (ص) کی ضربت سے ابھی سنبھلے ہی نہ تھے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سقیفہ کی ضربت لگا کر علی (ع) کو رسول (ص)-جو کہ جسمانی طور تو ان سے جدا ہوچکے تھے، سے جانشین کے طور بھی جدا کردینے کی کوشش کی گئی، علی نے یہ دو بڑی ضربیں برداشت کی، پھر علی (ع) سے شیخین کی بعیت طلب کرنے کی ضرب، اپنی ۱۸ سالا بیوی زھرا (س) کو ۸۰ سالہ بوڑھیا کے جسم کے طور پر دفن کرنے کی ضربت، ایک کو منصب خلافت کو دیکھنے کی ضرب، پھر دوسرے کو، پھر تیسرے کو ... علی (ع) یہ سب ضربیں برداشت کرتے گئے تو دشمن کو یقین ہوگیا کہ ایمان کا یہ قلعہ ان ضربوں سے نہیں گرنے والا... اس وقت ایک طرف علی (ع) کو کہا جاتا ہے کہ خلافت آپ نے نہ سنبھالی تو اسلام کو خطرہ ہے دوسری طرف شام میں بیٹھے ایک شاطر انسان نے سیاست کے پتے پھینکنا شروع کیئے اور پورے معاشرے کو دعوت دی کہ آؤ علی (ع) کو مل کر ضربیں لگاؤ کیونکہ ہم کچھ لوگوں نے کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے...

علی (ع) کے خلاف مصر سے عمر و عاص نامی میڈیا بلایا گیا جس کے پروپیگنڈہ نے سارے معاشرے کے تیروں کے منہ علی (ع) کی جانب کر دیئے کبھی صفین، کبھی جمل، کبھی نھروان... علی (ع) تنہا اور سارے دشمن تیروں سے اس ایک تنہا جانشین محمد (ص) کو ضربیں مارنے لگے علی (ع) نے یہ ضربیں بھی دلیری سے برداشت کی اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی...

اور تب دشمن نے سوچا کہ اب بزدلی ہی واحد راستہ ہے *ایک بزدل انسان ڈھونڈا جائے! ایسا بزدل کہ جو اتنا بزدل ہو کہ کائنات کے شریف ترین شخص کو کائنات کی پاکیزہ ترین جگہ پر اس لیئے قتل کرے تاکہ اسے کائنات کی غلیظ ترین شہوت مٹانے کا سامان فراہم ہو سکے.* ایسے بزدل و غلیظ انسان کا انتظام ایک غلیظ عورت کی جسمانی مٹھاس ہی کرسکتی ہے سو یہ قطام نے ذمہ داری قبول کی اور ابن ملجم نے بزدلی کے یہ سارے رکارڈ توڑتے ہوئے علی (ع) پر حملہ کیا اور ۱۹ رمضان کے دن شریفوں کے سردار کو مسجد میں ضرب لگا کر زخمی کردیا گیا...

*السلام علیک یا امیر المومنین*

*_www.fb.com/arezuyeaab_*

 لبنان کا سیاسی جمہوری نظام اور پاکستانی شیعہ

 

 

لبنان کا سیاسی جمہوری نظام اور پاکستانی شیعہ

تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری

 

ہمارے کچھ بزرگ کہتے ہیں کہ نظام ولایت فقیہ کے علاوہ سب نظام طاغوتی ہیں. میں نے جب لبنان کو دیکھا تو مجھے تعجب ہوا کہ اگر ایسا ہی ہے تو ہماری اتنی عظیم تنظیم حزب اللہ اس جمہوری نظام کے تحت تشکیل میں آنے والی پارلیامنٹ کا حصہ کیوں ہے؟
کچھ بھولے دوست سمجھتے ہیں کہ بیشک حزب اللہ لبنان میں اقتدار کا حصہ ہے مگر ہے نظام ولایت فقیہ کے تحت! عجب!!! گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ حزب اللہ اس جمہوری نظام کو نہیں مانتی لیکن الیکشن لڑ کر اقتدار میں آجاتی ہے اور پارلیامنٹ کا حصہ بھی بن جاتی ہے...

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سوچا جس ملک میں حزب اللہ اقتدار کا حصہ ہے یعنی جمہوریہ لبنان، اس ملک کا تعارف اور سیاسی بناوٹ دوستوں تک پہنچاؤں.

چونکہ کامیاب تحریکیں اور ان کے رھنماء ہمارے لیئے نمونہ عمل ہیں سو اس لیئے میں حزب اللہ کو نمونہ بنا کر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ثابت ہو کہ ایک نظامِ غیر ولایت فقیہ کا حصہ بن کر بھی اپنے حقوق کا حصول و دفاع ممکن ہے. بلکہ لازم ہے کہ جہاں اکثریت غیر شیعہ ہو وہاں شیعہ اپنے حقوق کیلئے کسی بھی نظام کا حصہ بن کر جدوجہد کرسکتے ہیں.

لبنان کا نام *جمہوریہ لبنان (جمھوریۃ اللبنانیۃ)* ہے
اس کی آبادی تقریبا سوا چار ملین کے لگ بھگ ہے.
اس کا نظام پارلیامانی ہے.
یہ ملک فرانس کے قبضے میں رہا ۱۹۴۵ میں آزاد ہوا. اس میں عیسائی اکثریت میں ہیں دوسرے نمبر پر سنی مسلمان ہیں.


لبنان جمہوریت کی بھترین مثال ہے چونکہ عیسائی اکثریت میں تو *صدر عیسائی ہوتا ہے*
*وزیر اعظم مسلمان اھل سنت*
اور *اسپیکر شیعہ*

پارلیامنٹ کی ۱۲۸ نشست کیلئے
ھر چار سال بعد الیکشن ہوتے ہیں، عوام ووٹ ڈالتی ہے. جیتنے والی پارٹی کا نمائندہ وزیر اعظم بنتا ہے
صدر کی مدت چھ سال ہوتی ہے
عدالت لبنان قدیم بیپولینائی طرز پر ہے مگر ھر مسلک کو اپنی عبادات و شادی وغیرہ اپنے طریقے سے انجام دینے کی آزادی ہے.

*شیعان لبنان*

جمہوریہ لبنان میں تقریبا ۱۲ لاکھ سے ۱۶ لاکھ کے قریب شیعہ آبادی ہے. جو کہ کل آبادی کا ۲۸ فیصد بنتا ہے.
اکثر شیعہ جنوب لبنان میں جب کہ کچھ مشرق لبنان میں بھی ہیں.
ان شیعوں میں اکثریت بارہ امامی علویوں کی ہے باقی اقلیت میں اسماعیلی شش امامی شیعہ ہیں.
حزب اللہ ایک شیعہ جھادی تنظیم ہے جو ۱۹۸۲ میں بنی اور ۱۹۹۲ کے اس کے بانی سید عباس موسوی (رح) کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بناکر شہید کیا جس کے بعد اس تنظیم کی قیادت سید حسن نصر اللہ کے سر ہے جو اسے اپنے بیٹے کی قربانی اور دیگر قربانیوں کی توسط سے بڑی کامیابیوں سے ہمکنار کرچکے ہیں.
یاد رہے کہ لبنان کی پارلیامنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے. لبنان میں شیعوں کو لبنان میں مذھبی-قومی گروہ کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے.

لبنان کے شیعوں نے جدوجہد کی اور ایک استعمار تلے چلنے والے ملک کو تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر آزاد کرایا اور اس نظام سے کرپشن کا خاتمہ کر کے اپنے حقوق کے حصول کیلئے مسلسل جدوجہد جاری رکھی اور آدھی صدی سے بھی کم عرصے میں اپنا نام و نشان بنایا. *کیا یہ ہمارے پاکستانی شیعوں کیلئے نمونہ عمل نہیں* کہ اتحاد کے ساتھ اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کی کوشش کریں آئین کی بالادستی کے ذریعے پارلیامنٹ کا حصہ بن کر اپنے سنی برادران سے مل کر جمہوریہ لبنان کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائیں
یا
پھر اس سنی اکثریت ملک پاکستان میں نظام ولایت فقیہ (جو کہ شیعہ مجتھدین اور عوام مل کر بناتے ہیں اور اس میں فوج ، میڈیا، مساجد، پارلیامنٹ سب ایک شیعہ مجتھد ولی فقیہ کے اختیار میں ہوتے ہیں) لانے کہ خواب دیکھیں؟ *اگر عیسائی- سنی اکثریت رکھنے والے ملک لبنان میں شیعہ اتنی عقل رکھتے ہیں کہ نظام ولایت فقیہ سے عشق رکھنے کے باوجود اس کے نفاذ کو ناممکن اور خلاف عقل سمجھتے ہیں تو پاکستانی شیعہ اس خواب کے حقیقت میں بدلنے کا انتظار کر کے خود کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں.*

کیا ہم اس خواب کو لیکر سوتے رہیں اور ہمارے بھائی، بیٹے، دانشور، علماء، زاکرین وکلاء، سول سوسائٹی کے افراد وغیرہ قتل ہوتے رہیں اور جب ہم سے حل مانگا جائے تو ہم کہیں کہ اس کا حل نفاذ نظام ولایت فقیہ ہے؟ کیا یہ جواب ہمارا ضمیر تو دور شہداء ملت جعفریہ کے لواحقین کو مطمئن کرپائے گا.؟
اس حل دینے سے بھتر ہے یہ کہہ دیا جائے کہ ہمارے پاس حل نہیں امام زمانہ عج کے ظھور کا انتظار کریں. کیونکہ پاکستان جیسے سنی اکثریت ملک میں شیعہ مجتھدین کی حکومت امام زمانہ ہی لاسکتے ہیں.

ہم بیشک دعا کرتے ہیں کہ اس قسم کے خواب دیکھنے والوں کا خواب سچا ہو مگر ہم اس خواب کے چکر میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے سو ہمیں ابھی اسی نظام میں رہ کر حقوق کیلئے لڑنا ہوگا.

www.fb.com/arezuyeaab

عورت، عاشق اور مُلا

 

عورت، عاشق اور مُلا

تحریر: محمد زکی حیدری

 

گاؤں کی عورتیں اور مرد پہاڑی کے قریب اپنی سرسبز فصلوں میں کام کر رہے تھے کہ دور سے بہار کی تیز بہار ہوا کو چیرتا ہوا ایک نوجوان ان کی طرف دوڑتا آتا دکھائی دیا اور گاؤں والوں کو آکر بتایا فاریہ سِمنانی کا وہ پاگل عاشق جو پہاڑی پر بیٹھ کر فاریہ کی مدح میں حافظ شیرازی (رح) کے اشعار پڑھا کرتا تھا، نے آج سِمنان- کہ جہاں فاریہ سِمنانی نے اپنا بچپنا گذارا تھا، جانے کا فیصلہ کیا ہے. یہ سن کر سب لوگ خداحافظی کیلئے گاؤں کے دروازے پر جمع ہوئے اور انہوں نے عاشق سے التجا کی کہ نہ جائے مگر وہ نہ مانا، اسے فاریہ کے بچپن سے مربوط ہر وہ جگہ دیکھنی تھی جہاں فاریہ کے قدموں کے نشان پڑے تھے. آخر گاؤں والوں نے اس سے کہا: اے عاشق ہم سب سنی مسلک کے ہیں لیکن ہم نے تمہیں ہمیشہ ایک نیک دل انسان پایا، بیشک تم شیعہ ہو مگر ہمیں کچھ اچھی باتیں اپنی یادگار کہ طور پر دے جاؤ. اس عاشق نے نیم کے ھرے بھرے درخت کے تنے پر ٹیک لگائی، تھوڑی دیر چپ رہا اور کہا " اللہ (ج) نے کسی کو سنی یا شیعہ نہیں بنایا ہم سب مسلمان پیدا ہوئے تھے. تم میرے اپنے ہو... میری گمشدہ فاریہ سمنانی تمہیں ملے تو اسے کہنا میں سِمنان میں ہوں..." عاشق کی یہ بات سن کر اس مجمعے سے ایک باریش مُلا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:" اس عورت کے عشق میں گرفتار مجنوں سے عقل و خرد کی باتوں کی کیسی امید، عورت کے عاشق کی عقل بھی عورت جیسی..."

یہ سن کر عاشق کے چہرے کا رنگ لال ہوگیا، یہ طیور گاؤں والوں نے پہلی بار مشاہدہ کیئے تھے سو سب اس ھیبت کی وجہ سے چپ ہوگئے، جب خاموشی چھاگئی تو عاشق نے بولنا شروع کیا.
"کاش تمہاری کانوں نے اللہ (ج) کے کلام کو سنا ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ *اللہ (ج) کے پاس جسموں کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یہ خاکی بدن کہ جس میں مرد و عورت الگ الگ ہیں اس بدن کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت ہے تو روح کی ہے اور روح میں عورت مرد کا کوئی فرق نہیں*، روح جیسی تمہارے اندر پھونکی گئی اسی طرح عورت کے اندر، "الروح من امر ربی" کا مصداق فقط تمہارا روح نہیں عورت کا روح بھی ہے! فرق جسمانیت کا ہے تم جسم دیکھتے ہو اس لیئے عورت تمہیں کمزور و ناتواں و نازک نظر آتی ہے مگر اللہ (ج) روح دیکھتا ہے، سارا کام روح کا ہے جسم اس کا ایک غلام ہے اگر اللہ (ج) نے عورت کو مرد سے کم درجے کا بنانا ہوتا تو جسم کی مانند روح میں بھی فرق رکھتا مگر نہیں روح کے لحاظ سے مرد و عورت کے یکساں ہیں."

ملا کے خلیفے نے آواز دی "اے جاہل مجنوں! کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اللہ (ج) فرماتا ہے الرجال قوامون علی النساء، مرد عورت پر حاکم ہے."
عاشق نے کہا:"اگر بقول تمہارے قرآن میں عادل اللہ (ج) مرد کو جنس کی بنیاد پر عورت سے افضل کہتا ہے تو کیا تم مریم و حاجرہ و خدیجہ و فاطمہ سے افضل ہو؟ ھرگز نہیں! تم نے اس آیت میں مرد کی معاشی سرپرستی کے مفہوم کو مرد کی عورت پر فوقیت و فضیلت سمجھ لیا یہ تمہاری مردانہ تفسیر ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں."

پھر اس عاشق نے اپنی جیب سے ایک پھول نکالا سامنے کھڑی ایک پانچ سالا بچی کے بالوں میں وہ پھول لگا کر کہا:" گاؤں والو! *عورت کی زندگی مرد پر احسان کے سوا کچھ نہیں اور مرد کی زندگی عورت سے احسان فراموشی کے سوا کچھ نہیں...*"
یہ کہہ کر عاشق چپ ہو گیا.

ایک جوان لڑکی نے آواز دی "اے عاشق! ہمیں اس کی تفصیل بتاؤ کیونکہ ہم اشاروں میں باتیں سمجھنے پر قادر نہیں."
عاشق نے ھرے بھرے کھیتوں سے آنے والی باد بہار کی طرف چہرا پھیر دیا، ٹھنڈی سانس لی اور کہا " احسان یعنی حق سے زیادہ عطا کرنا، مرد کا عورت پر حق نہیں کہ وہ اس کے لیئے گھر بار کا کام کرے اور اس کے بچے پالے لیکن پھر بھی عورت یہ کام کرتی ہےیہ اس کا احسان ہے اور مرد اس احسان کو عورت کا فریضہ سمجھ کر اس کی احسان فراموشی کرتا ہے، عورت مریم (س) کی صورت میں تکالیف برداشت کر کے عیسی (ع) کو پالتی ہے کہ مرد ہدایت پائیں، اور اسی قبیلے کے مرد اس احسان کے بدلے اس پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں، عورت راتوں کو جاگ کر مرد کے نطفے کو عظیم انسان بناتی ہے اور مرد سکون بھری نیند سوتے ہیں اور خواب میں جنت کی حوریں دیکھتے ہیں، عورت درد حمل کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے اور مرد کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بیٹی نہ پیدا ہوجائے، عورت بچے کے ولادت کی ساری تکالیف برداشت کرتی ہے مرد اس کے ساتھ اپنا نام لگا کر اسے خود سے منسوب کردیتا ہے..."

عاشق کی بات جاری ہی تھی کہ گاؤں کے مُلاں نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا:" تم بڑے مفسر ہو مجنوں! ذرا بتاؤ مرد کو قرآن نے کیوں اجازت دی ہے کہ وہ عورت کو مارے؟ *اتنا مارے کہ ہڈی نہ ٹوٹے لیکن بیشک مارے،* کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی... فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ وَ اضْرِبُوهُن...َّ؟؟؟"
اس بار عاشق نے اس کی طرف نگاہ نہ کی اور ٹکٹکی باندہ کر انہیں ہرے بھرے کھیتوں کی جانب دیکھتا رہا پھر اپنا منہ گاؤں والوں کی طرف پھیر کر کہا:"میرے عزیزو! کیا میں تم میں سے بوڑھی ترین عورت کو ایک غلطی کرنے پر اپنے رومال یا دانت صاف کرنے والے مسواک سے ماروں تو کیا تم اسے مارنا کہوگے یا دکھاوا؟"
گاؤں والے بولے: "اسے بھلا کوئی کیوں مارنا کہے گا."
عاشق نے کہا " تو بس! قرآن نے عورت کی غلطیوں پر مرد کو حکم دیا کہ وہ اسے نصیحت کرے، عورت نہ مانے تو بستر جدا کرے اور پھر بھی نہ مانے تو اپنا رومال لپیٹ کر یا مسواک سے اس طرح مارے کہ اس کے جسم پر نشان تک نہ پڑے، کیا اسے سزا کہو گے یا اظہار ناراضگی، کیا اس بات سے تمہیں عورت سے نفرت کی بو آتی کے یا ملا کی بات سے؟"

ایک عورت جس کی گود میں بچہ تھا بولی " اے عاشق! اللہ (ج) نے جنت میں مردوں کو حوریں دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن عورت کو کچھ نہیں کیا یہ عدل ہے؟" یہ بات سن کر عاشق مسکرایا اور مُلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"بہتر ہوگا اس کا جواب یہ مولانا دیں" ملا مزید پریشان ہوگیا اور چپ ہوگیا. پھر اس عورت نے یہی سوال عاشق سے پوچھا، عاشق نے کہا:" عربی میں حورا خوبصورت سیاہ آنکھوں والی عورت کو کہا جاتا ہے اور احور بڑی آنکھوں والے خوبصورت مرد کو، قرآن میں لفظ حور جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے، یہ لفظ حورا کا بھی جمع ہے اور اھور کا بھی... سو اللہ (ج) نے نے ایک لفظ "حور" میں ایسی کرامت رکھ دی کہ اس کی تلاوت عورت کرے تو اسے احور ملنے کی بشارت کے طورپر اور مرد پڑھے تو اسے جنت میں حوراء کی بشارت کے طور پر "

پھر عاشق اٹھا اور کہا:" لوگو! عورت سے محبت کرو، اس کی قدر کرو، وہ تم سے کچھ نہیں چاہتی سوائے احترام و محبت کے، رسول (ص) کو پسند ہے عورت، علی (ع) فاطمہ (س) کے ساتھ گھر کام کرتے تھے... تم میں اور ملا میں فرق ہونا چاہیئے اس نے اسلام کو عورت کی دشمنی کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے، اس لیئے اسے پورا دین عورت کے خلاف نظر اتا ہے مگر میں نے فاریہ سِمنانی کے عشق کا چشمہ لگا کر اس دین کو دیکھا ہے، اب یہ تم ہی سوچو مجھے عورت کے عشق نے ھدایت دی کے یا اس مولوی کو عورت کی نفرت نے؟"

یہ کہہ کر اس نے اپنی گٹھڑی اٹھائی اور جانے لگا، سب گاؤں والے تھوڑے سے فاصلے تک اس کے پیچھے پیچھے چلے، پھر سب نم آنکھوں سے اسے دیکھتے رہے اور وہ کچھ دیر بعد پھاڑوں کی اوٹ میں ان ھرے بھرے کھیتوں میں گم ہوگیا.

اللہ (ج) کا خط

اللہ (ج) کا خط 

قاصد: امام جعفر صادق (ع)
مترجم: محمد زکی حیدری


حسین علوان روایت کرتا ہے، ایک مجلس میں درس دے رہا تھا، میرے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے دوست نے ہوچھا: پیسوں کیلئے کس سے امیدوار رکھتے ہو؟ میں نے کہا فلاں دوست سے! بولا: اگر ایسا ہے تو اللہ (ج) کی قسم تم کبھی اپنی مراد نہ پاسکو گے، نہ تمہیں کچھ ہاتھ آئے گا... میں کہا : یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو!
بولا: میں نے امام جعفر صادق(ع) سے سنا کہ اللہ (ج) فرماتا ہے:
میری عزت و جاہ و جلال و آسمانوں پر حکومت کی قسم! میں اپنے بندوں کی غیر خدا سے لگائی ہوئی امیدوں کو ناامیدی دے کر پارہ پارہ کردیتا ہوں. لوگوں کے سامنے اسے خواری کا لباس پہنا کر پیش کرتا ہوں اور اسے اپنے آپ سے اور اپنے احسان سے دور کردیتا ہوں. کیا وہ مشکلات میں میرے علاوہ کسی اور سے امید لگاتا ہے؟ جب کہ مشکلات (کا حل) میرے قبضے میں ہے. کیا یہ میرے علاوہ کسی اور کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے؟. جب کہ سارے تالوں کی چابیاں تو میرے ہاتھ میں ہیں اور میرے گھر کا دروازہ تو ھر پکارنے والے کیلئے کھلا ہے اور دوسرے دروازے (غیر اللہ کے) تو بند ہیں!

*کون ہے ایسا جس نے مشکل گھڑی میں مجھ سے مدد مانگی ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟*
*اور کون ہے ایسا جس اپنے بڑے بڑے مسائل میں مجھ سے امید باندھی ہو اور میں نے اس کا دل توڑا ہو*

میں اپنے بندوں کی آرزوؤں کو پورا کرتا ہوں لیکن وہ ہیں کہ راضی ہی نہیں ہوتے! میں نے آسمان کو ان مخلوقات سے جو میری تسبیح کرتے نہیں تھکتی، بھر رکھا ہے اور انہیں حکم دے رکھا ہے کہ *میرے اور میرے بندوں کے درمیان بہنے والے دریاؤں کہ منہ بند نہ کریں* لیکن یہ بندے ہیں کہ میری بات کا یقین ہی نہیں کرتے کیا انسان یہ نہیں جانتا کہ ہر مصیبت یا تکلیف جو اس پر نازل ہوتی ہے میری یا میری اجازت کے بغیر کوئی اسے رفع نہیں کرسکتا! تو کیا ہوا ہے انہیں کہ یہ مجھ سے غافل ہیں!
جو چیز اس (انسان) نے مانگی ہی نہ تھی لیکن اپنے احسان کے مدنظر میں نے اسے دی، پھر جب میں نے اس سے وہ لے لی تو وہ اسے حاصل کرنے کیلئے غیر کے پیچھے چل دیا. کیا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو اسے بغیر مانگے دے دیتا ہوں تو مانگنے کے بعد نہ دوں گا؟
*کیا میں کنجوس ہوں کہ میرا بندہ مجھے کنجوس سمجھتا ہے؟*
کیا میں احسان و کرم کرنے والا نہیں؟ کیا رحمت و درگذر میرے ہاتھ میں نہیں؟ *کیا میں آرزوؤں (کے پوری ہونے کی) کی جگہ نہیں ہوں؟*
تو پھر کون ہے جو میرے علاوہ امیدوں کو توڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے؟ کیا وہ جو میرے علاوہ کسی اور سے مانگتے ہیں نا امید نہ ہوں گے؟
*اگر اھل آسمان اور زمین مل کر آرزو کریں تو بھی میں ان میں سے ہر ایک کو اس کی امید کے مطابق عطا کرونگا* میرے خزانے میں ذرا برابر بھی کمی نہ آئے گی. بھلا کیسے کمی آئے جب کہ اس کی سرپرستی میرے ہاتھوں میں ہے. *بس تو افسوس ہو ناامید و مایوس ہونے والوں پر!*

(اصول کافی ج ۳ ص ۱۵۱)

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

اونٹنی اور انسان

اونٹنی اور انسان

 

تحریر: محمد زکی حیدری

 

ذی صدوق بہت خوبصورت تھی، اس کے حسن و جمال کے چرچے پوری بستی میں عام تھے، یہی وجہ تھی کہ مصدع بن مھرج جیسا جوان بلند قد و قامت اور چٹان مثل جسم رکھنے کے باوجود ذی صدوق کے سامنے موم بن گیا، ھر عاشق کی طرح مصدع نے بھی محبوبہ کو ہمیشہ کیلئے اپنا بنانے کیلئے بڑے بڑے دعوے کیئے لیکن ذی صدوق کی صرف ایک ہی شرط تھی، وہ یہ کہ مصدع اگر قبیلے کی فلاں اونٹنی کو مار کر اس کے قدموں میں ڈال دے تو ذی صدوق ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کی! ایک اونٹنی کی بھلا مصدع جیسے طاقتور انسان کی نظروں میں اوقات ہی کیا تھی. مصدع اپنے دوست قدار سے ملا اور مزید سات افراد کی جماعت بنا کر ذی صدوق کی شرط پوری کرنے چل دیا. اونٹنی کو پاتے ہی مصدع نے تیر چلایا جس نے اس بے زبان کے پیر کو چیر کرکھ دیا، اونٹنی لڑکھڑانے کے بعد زمین بوس ہوئی، قدار نے لپک کر اس کے شکم پر تیز دھار خنجر سے وار کیئے، اور اونٹنی قید حیات سے آزاد ہوئی.
یہ نو لوگ اس مردہ اونٹنی کو لے کر بستی میں آئے تو ایک جم غفیر جمع ہوگیا، بستی کا صالح نامی ایک بزرگ شخص غم سے نڈھال، اس مجمعے کی طرف آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچانا، تم نے اسے قتل کر کے عذاب کو دعوت دی! اب تین دن گھر میں رہو اس کے بعد تم پر سخت عذاب نازل ھوگا. ایک نے دور سے صالح کو آواز دی "صالح! جس نے اس اونٹنی کو مارا ہے اسی پر عذاب آئے گا ہم نے تو تمہاری اونٹنی کو کچھ نہ کیا تھا."
صالح نے جو جواب دیا اس کی عکاسی قرآن کی یہ آیت کرتی ہے:

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو (بلکہ سب اس کے گھیرے میں، جو خاموش رہے وہ بھی) اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے (انفال ۲۵)

آج صالح (ع) نہیں ہیں! حالات بدل گئے، کل کی ذی صدوق اپنے مہریہ میں اونٹنی کا خون مانگتی تھی لیکن آج شاید انسان کا! کل ظالم مصدع و قدار نے اونٹنی کا خون زمین کو پلایا آج کے مصدع اور قدار انسان کا...

ہاں البتہ کچھ چیزیں نہیں بدلیں کل ۹ لوگ قتل کرتے تھے اور لاکھوں افراد پر مشتمل عوام خاموش رہتی تھی، آج بھی ایسا ہی ہے، کل ایک معصوم صالح (ع) اس خاموشی پر گریاں نظر آئے آج ایک معصوم امام زمانہ (عج)!!!

میں کیسے اس آیت کو کہوں کہ یہ آیت بدل گئی! نہیں قرآن تاقیامت رہے گا، آج بھی جو خاموش ہے اس کیلئے یہی ہے جو اس دور کے خاموش رہنے والوں کیلئے، کیا میں یہ مان لوں کہ وہ اللہ (ج) جو اونٹنی کے خون پہ خاموش رہنے والوں کو عذاب دیتا ہے وہ انسان کے خون پہ خاموش رہنے والوں کو سلام کریگا اور انہیں کوئی سزا نہیں ملے گی؟

میری اور آپ کی نظروں میں پچھلے ھفتے شہادت پانے والے شہید پروفیسر عابد رضا اور شہید ایڈوکیٹ نجم الحسن یا کل کے دو کراچی کے جوان ہاشم اور علی سجاد کی سڑک پہ پڑی خون آلود لاشیں شاید روز کا معمول ہوں لیکن اس پرودگار کیلئے ایسا نہیں ہے! آج ہم اس مسجد میں نماز پڑھ رہیں ہیں جس کی بنیادوں میں ہمارے بھائیوں کا خون ناحق ہے، ان بازاروں سے افطار کا سامان لاتے ہیں جن بازاروں میں ہمارے اپنے مومن بھائیوں کے جسم کے اعضاء بکھیرے جا چکے ہیں، ہم ان سڑکوں ہر عزاداری کرتے ہیں جن پر ہمارے شہداء کا خون ابھی تازہ ہے...
ہر طرف خون ہی خون ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ ہماری آنکھوں پر پردے ہیں، ہم نے خود ڈال رکھے ہیں، ہم نے کسی لیڈر کی محبت کا پردہ، کسی نے روزگار کے بہانے کا پردہ، کسی نے گھریلو مجبوری کا پردہ، کسی نے... سب نے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے... لیکن اللہ (ج) کو ان پردوں کا علم تھا، اسی لیئے ھر دور میں ان پردوں کو چاک کرنے والا رکھا. ہماری آنکھوں سے پردے چاک کرنے والا آئے گا، کہیں ایسا نہ ہو اس وقت ہم بھی صدا دیں "اے! مہدی ہم نے تو تیرے شیعوں کو مارنے میں مدد نہ کی، مارا تو فلاں لشکر، فلاں سپاہ، فلاں فلاں نے" اور مہدی کا جواب سورہ انفال کی ۵۲ ویں آیت ہوـ

www.fb.com/arezuyeaab

.
arezuyeaab.blogfa.com

زکی کی زکی سے بات!

زکی کی زکی سے بات!

 

تحریر: محمد زکی حیدری

کسے مارا؟ وکیل تھا؟ ہیں!!! میں نے تو سنا ہے امام بارگاہ کا متولی تھا، اور وہ جس کی لاش سڑک پہ پڑی تھی سنا ہے پروفیسر تھاــــ خیر چھوڑو جو بھی تھا یہ بتاؤ یہ متحدہ کے جو بھائی لوگ جدا ہوئے ان کا کیا بنے گا، ہاں اور یار یہ سنی کیا چاہتے ہیں؟ مُلا اسلام باد میں، ان کی دھلائی تو لگتا ہے ہوگی، کل بیان تھا چودھری نثار کا کہ میں ڈی چوک خالی کروا دوں گا، اور ہاں روحانی صاحب آئے ہوئے ہیں نواز شریف سے ملنے یار فیری سروس چل جائے دعا کرنا زیارت پہ جانا بڑا مشکل ہو گیا ہے، ابا بیچارے ھر سال جاتے تھے بائے روڈ پھر پیسے چھیننے لگے ایف سی والے، لیکن ہم پیسے دے کر بھی چلے جایا کرتے، اچھا خیر اپ ڈیٹ کرتے رہنا کہ متحدہ و رابطہ کمیٹی، چودھری نثار، روحانی صاحب اور نواز شریف و فیری اور گیس پائپ لائین و ....

زکی یہ تمہاری گفتگو ہے؟ تم جانتے بھی ہو کہ کل ہی دن دہاڑے ایک نہتے شیعہ وکیل کو چلتی موٹرسائیکل پر سب کے سامنے شہید کردیا گیا. تم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھا تھا نا کس مظلومیت سے وہ گرا تھا پھر بھی!!! اور زکی وہ تمہارے امام (ع) کے پیروکار شیعہ پروفیسر کی خون میں لت پت لاش نے بھی تم پہ اثر نہ کیا؟ یکے بعد دیگرے دو دانشور چھن گئے ...
زکی تم کیا ہو مجھے سمجھ نہیں آتا... اتنی سیاست میں دلچسپی لیکن حقیقت سے اتنا دور... دیکھو تمہارے گھر جو دودہ والا دودہ دینے آتا ہے دو اخباریں ساتھ لاتا ہے...
جس ملک کے اندر دودہ والا! زکی سن رہے ہونا؟ ایک دودہ والا! ایک دودہ بیچنے والا گاؤں کا بندہ بھی سیاست سے اتنی دلچسپی رکھتا ہو کہ ہر روز اخبار خریدتا ہو، ایک عام آدمی اتنی فکر رکھتا ہو، تو یار اس دودہ والے کی سیاسی بصیرت اور اس ملک کی سیاست تو آج کہاں سے کہاں ہوتی لیکن سچ یہ ہے کہ اس ملک میں پست ترین سیاستِ دنیا...! کیوں زکی؟

اچھا تم ہی بتاؤ اتنا سیاست کو پڑھتے ہو، اخبار صبح کی الگ شام کی الگ، میڈیا، تو تمہیں کتنی سیاسی بصیرت ملی میڈیا سے، جو جو اخبار بتاتے ہیں تمہارے کراچی والے سیاسی استاد اس کا وہ زاویہ تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جو کہ میڈیا نہیں بتاتا، تب تمہیں بات سمجھ آتی ہے کہ ہاں استاد کی بات میں منطق ہے! وہ اکثر کہتے ہیں زکی جو تم سمجھ رہے ہو ایسا ہے نہیں یہ دکھاوا ہے! تو پھر کیوں تم اس میڈیا اور اس سیاست سے تنگ نہیں آجاتے، مانتے بھی ہو کہ گند ہے، طاغوتی کیچڑ سے بھرے لوگوں کی پنچائت ہے اور کچھ نہیں! پھر بھی؟

ہاں شاید تمہیں پیاس ہے، جاننے کی پیاس، سیاست کے بارے میں، حالات کے بارے میں جاننے کی پیاس! ہاں یہ پیاس اچھی ہے، لیکن پیاس بجھانے کیلئے جس چشمے کا تم نے انتخاب کر رکھا ہے وہ غلط ہے! وہ نجس ہے! اس کا پانی پانی نہیں شراب ہے زکی، جس کے اندر نشہ ہے. جو پی پی کر تمہیں اس شراب کا نشہ ہوگیا ہے... ہاں یہ نشہ ہے میڈیا کا، میڈیا اسے فضول اسٹوریاں بناکر پیش کرتا ہے حقیقت کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے، تمہیں اس میں مزہ آتا ہے، اور اب تمہیں اس کی لت لگ گئی ہے، تمہاری صبح تب تک نہیں ہوتی جب تک یہ مصنوعی سیاسی اکھاڑے کے منحوس پاکستانی سیاستدانوں کی منحوس کشتی بازی نہ دیکھ لو! کیا ملتا ہے تمہیں یہ سوچ کر کہ کراچی کے بھائی کا کیا بنے گا، جو جدا ہوئے وہ کیا کریں گے، کراچی کے تخت پر کون بیٹھے گا، اسلام آباد سے ایک جھوٹے نے کون سا نیا جھوٹ بولا، سارا دن تم یہی سوچتے ہو.. کیوں؟ تمہیں کیا فائدہ ملتا ہے اس سے؟ سوچو نا، کیوں نہیں سوچتے؟ اس لئے نہیں سوچتے کیونکہ تم میڈیا کا نشہ کرتے ہو، نشے میں مبتلا ہو. جیسے چرسی ایک بار چرس پی لیتا ہے تو اسے لت لگ جاتی ہے تمہیں بھی لت لگ گئی ہے!
ہاں تو پھر اتنا جان لو زکی کہ جتنا فائدہ چرس ایک نشئی کو دیتی ہے، اتنا ہی سیاسی و بصیرتی فائدہ پاکستانی میڈیا تمہیں دیتا ہے. زکی سمجھو، ذرا دنیا پر نظر دوڑاؤ، کیوں کنویں کے مینڈک بن بیٹھے ہو اس میڈیا کے ہاتھوں، اس جھوٹے میڈیا کو کم سچ کو زیادہ ٹائم دو، سچ سنو سچ دیکھوـ

دیکھو تم اس نشے میں اتنے دھت ہو کہ اپنے ایک مومن بھائی کی لاش گرتے دیکھتے ہو مگر تمہیں اس کی فکر نہیں، تمہیں سیاسی منظرنامے پر آنے والی تبدیلی کی فکر ہے. جناب زکی یہ کس نے تمہیں اتنا بے حس کردیا تمہارے جذباتی و احساسی اقدار اتنے پست کیوں ہوگئے، یار تم سے تو ایسی امید نہ تھی، تم تو اتنے حساس ہو حسین (ع) کا نام سن کر رو پڑتے ہو، کہاں گئی وہ حساسیت! تم روز جنازے اٹھا رہے ہو لیکن ایک آنسو بھی نہیں بہتا اس طرح نظر انداز کرتے ہو کہ جائے ہوتا رہے شہید میری بلا سے!

دیکھو زکی! اپنے مسائل پر دھیان دو تم حسینی ہو، تمہارے مومن بھائی مسلسل ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں، شیعہ ایک جسم میں اعضا کی مانند ہیں ایک عضو کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہے...
اب بولو گے کیا کروں میں!!!
ہاں تم یہ کرو کہ قوم کی طرف دھیان دو پہلے شیعہ کے مسائل، پھر مسلمان کے، پھر عام انسان پھر... دھیان دو جس طرح منحوس سیاست پہ دھیان دیتے ہو اور اس کا تو کوئی نتیجہ نہیں ملتا کیونکہ منبع علم جھوٹ ہے، سو تم شیعوں کے نیوز سائٹس زیادہ دیکھو، سچ پتہ چلے گا تمہیں، تمہیں تو انگلش بھی آتی ہے پریس ٹی وی دیکھو! دنیا کے شیعہ کیسے جی رہے ہیں تمہیں معلوم ہو!
پھر سوچو ہم کیوں ان کی طرح نہیں، کیوں ہماری نہ چاردیواری، نہ عبادتگاہ، نہ جلوس، نہ دانشور، نہ عالم، نہ جوان نہ... کوئی بھی محفوظ نہیں؟ سوچو کہ دنیا کے شیعہ کی شہادت اور ہمارے شیعوں کی شہادت میں فرق کیا ہے، وہ اپنے حقوق کیلئے کچھ کرتے ہیں اس لیئے شہید ہوتے ہیں یا پھر شہادتوں کے بعد تحرک دکھاتے ہیں اور ہم صرف مرتے ہیں، تحرک دور دور تک نہیں نظر آتا، کیوں زکی؟ اور ہماری کشتی کے ناخدا اس قتل و غارت پر چپ کیوں ہیں؟ ان سے پوچھو کہ ان کے پاس پلان و لائحہ عمل کیا ہے اس قتل و غارت کو روکنے کیلئے، اگر ہے تو ان کا ساتھ دو اگر ان کے پاس لائحہ عمل نہیں تو سوچو یہ قائدین کس کام کے ہیں؟؟؟ تم بس یہ کام کرو دنیا کے شیعوں اور پاکستانی شیعوں میں فرق دیکھو، عوام کا فرق ہے یا قائدین کا، اتحاد عوام میں نہیں یا قائدین میں، اتحاد اس مشکل وقت میں بھی نہ وجود میں آیا تو کب... سوچو زکی!

زکی! میرے بھائی تم کیوں اپنوں کے قتل پر دھیان نہیں دیتے؟ کہیں ایسا تو نہیں تمہیں لاشے اٹھانے کی بھی لت لگ گئی ہے. سیاست کی لت، رسموں کی لت، اخبار کی لت، میڈیا کی لت، چپ رہنے کی لت اب یہ لاشے اٹھانے کی لت....!!! زکی اگر ایسی کوئی لت خدانخواستہ تمہیں لگی ہے تو میرے عزیز یہ لت ختم کرو، اس نشے سے باہر آؤ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کل تمہارے گھر کا کوئی پروفیسر عابد رضا، ایڈوکیٹ نجم الحسن، کوئی تمہارے گھر کا سبط جعفر، کوئی تمہارے گھر کا حسن عسکری و... خون میں لت پت تمہارے سامنے لایا جائے، اپنے نشے توڑو ہوش میں آؤ، میرے عزیز محمد زکی حیدری تم شیعہ ہو اس لئے دشمن کا ٹارگٹ ہو لہذا تم بھی انہیں ٹارگٹ رکھو! اپنے سارے نشے توڑ دو اس سے قبل کہ تمہارے گھر کے کسی فرد پر چلنے والی گولی کی آواز سے تمہارے نشے ٹوٹیں...

 

www.fb.com/arezuyeaab
.
arezuyeaab.blogfa.com

دعا مستجاب کیوں نہیں ہوتی؟

ہماری دعا کیوں مستجاب نہیں ہوتی؟؟؟

 

 

امام معصوم - سلام الله علیه - سے سوال کیا گیا ہماری دعا کیوں مستجاب نہیں ہوتی، کیا اللہ (ج) نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا مانگو میں تمہاری دعا مستجاب کروں گا؟
فرمایا: لانکم تدعون من لا تعرفونه.
تم ایک ایسی ھستی کو پکارتے ہو جسے جانتے نہیں ہو. تم خدا کو نہیں جانتے.
ایسی کیا چیز ہے جو وجہ بنتی ہے کہ ہم خدا کو نہیں پہچان سکتے، باوجود اس کے کہ وہ نورالسموات والارض ہے. یہ گرد و غبار ہمارا ہی اڑایا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ (جَ) کو نہیں دیکھ پاتے ورنہ وہ تو ظاہر ہے...
ہمیں یہ معلوم کرنے کیلئے کہ آیا ہم اللہ (ج) کو جانتے ہیں یا نہیں، امام جعفر (ع) کا یہ قول مدد کر سکتا ہے.
فرمایا:
👇🏼👇🏼👇🏼👇🏼
"اگر تم چاہتے ہو تمہاری دعا مستجاب ہو تو جس قسم کی بھی امید تم غیر خدا سے رکھتے ہو اس سے دستبردار ہوجاؤ.
👆🏼👆🏼👆🏼👆🏼👆🏼

ھر وہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ (ج) سے جو مانگے اسے ملے تو پہلا کام یہ کرے کہ اللہ (ج) کے سواء ہر کسی سے نا امید ہوجائے (ان سے امید نہ رکھے).

جس طرح انسان ڈوبنے والا ہوتا ہے تو اسے کوئی امید نظر نہیں آتی اور وہ دل سے دعا کرتا ہے اسی طرح عام زندگی میں بھی اللہ (ج) پر ہی یقین رکھیں.

🌹🌹🌹
فرمایا: ھر کسی سے امید توڑ دو تاکہ اللہ (ج) تمہاری بات کا جواب دے.
اپنے آپ سے، اپنے کام سے، اپنی طاقت سے، اپنی صلاحیت و مقام سے نا امید ہو جائیں اور پھر دعا مانگیں... غیر اللہ سے ناامیدی اور اللہ (ج) سے امید دعا کی قبولیت کیلئے زمین ہموار کرتی ہے. جب اللہ (ج) بندے کے دل میں دیکھتا ہے کہ بندہ مجھے سے امید رکھتا ہے اور میرے غیر سے نا امیدی، وہ اللہ (ج) سے کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ جو اللہ (ج) اسے عطا کرے، اس نقطے پر دعا اپنے عروج کو، عبادت اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے.

 

 

✍🏻اسرار عبادات
مؤلف : آیت الله عبدالله جوادی آملی
.
مترجم اردو: محمد زکی حیدری
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
www.fb.com/arezuyeaab
arezuyeaab.blogfa.com
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

بزرگان مدفون در حرم بیبی معصومہ (س)

بسمہ تعالی

حضرت بیبی معصومہ (س) کے روضے میں مدفون آیات عظام کی شخصیت کی چند خصوصیات.

 

مترجم از فارسی: محمد زکی حیدری


🌺 مرحوم آیت اللہ حاج میرزا مہدی آشتیانی (رح)

دوسروں کی برائی والے موضوعات پر بات نہیں کیا کرتے تھے.


🌺 مرحوم آیت اللہ میرزا ھاشم آملی لاریجانی (رح)

خود کو بڑا آدمی سمجھنے سے نفرت کرتے تھے نیند سے بیدار ہوتے وقت یہ ذکر ان کے لبوں پہ جاری ہوتا "السلام علیک یا امیرالمومنین و رحمہ اللہ و برکاتہ "ـ سادات کا بے حد احترام کرتے تھے.


🌺 مرحوم آیت اللہ محمد علی اراکی (رح)


عام دنوں میں ھر روز ایک جز قرآن کا، رمضان میں تین جز تلاوت کیا کرتے.


🌺 مرحوم آیت اللہ شیخ محمد تقی بافتی (رح)


۱۷ سال تک نجف اشرف میں رہے، تب تک ہر جمعرات کی رات مسجد سھلا جاتے صبح تک قیام با عبادت فرمایا کرتے.

 

🌺 مرحوم آیت اللہ سید حسین بروجردی طباطبائی (رح)

بیبی معصومہ (س) کا بہت احترام کرتے تھے حتی کہ سعودی بادشاہ نے ان کے ہاں آکر ان سے ملنا چاہا تو آپ نے منع کردیا. دوستوں سے فرمایا کہ یہ آتا تو بیبی معصومہ (س) کی زیارت کو نہ جاتا. اور یہ بیبی (س) کی توھین ہوتی کہ کوئی مجھ سے ملے اور بیبی (س) کی زیارت کئے بغیر چلا جائے.


🌺 مرحوم آیت اللہ سید رضا بہاء الدینی (رح)

مسکین و فقرا کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھتے، لوگوں سے فرماتے کہ رات میں مساکین کی مدد کیا کرو تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو...

🌺 مرحوم آیت اللہ میرزا جواد تبریزی (رح)

بیبی زھرا (س) کی شہادت کے دنوں ننگے پاؤں جلوس میں چلتے تھے.


🌺 مرحوم آیت اللہ سید مصطفی حسینی خوانساری (رح)

ان کے کتابخانے میں کوئی ایسی کتاب نہ تھی جسے انہون کامل نہ پڑھا ہو اور حاشیہ نہ لگایا ہو.

🌺 مرحوم آیت اللہ سید احمد خوانساری (رح)

سب کے احترام میں کھڑے ہوجاتے. سادات کا بھی احترام کرتے.

🌺 مرحوم آیت اللہ محمد تقی خوانساری (رح)

سال ۱۳۲۳ ش میں انہوں نے قم میں نماز استسقاء پڑھی تو بارش ہوئی اور کچھ انگریزی فوجی یہ دیکھ کر مسلمان ہوئے.


🌺 مرحوم آیت اللہ سید فخرالدین سیدی قمی (رح)

کسی کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ ان کا کام کوئی اور بندہ کرے. سب خود کیا کرتے، کبھی نماز جماعت ترک نہیں کی، اول وقت نماز کے عادی تھے.
انتقال کے وقت قم کے غریب ترین افراد میں سے ایک تھے.


🌺 مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی (رح)

رمضان میں افطار بیبی معصومہ (س) کی ضریح مبارک کو چوم کر کیا کرتے.


ان تمام بزرگوں و نجف و پاک و ھند کے مرحوم علماء کے درجات کی بلندی کے لئے سورہ فاتحہ.

 

www.fb.com/arezuyeaab


قدر

استاد کی منزلت

اول وقت نماز

عقل کی بتی جلائے رکھیں!

 

 
عقل کی بتی جلائے رکھیں!

تحریر: محمد زکی حیدری

ایک پاگل جھاز میں بولا بھائی مجھے تو کھڑکی والی سائڈ جو سیٹ هے اسی پر هی بیٹھنا هے ! عمله پریشان, لوگوں نے بھت سمجھایا که بھائی وه سیٹ کسی اور کو الاٹ هے, مگر نهیں وه پاگل بضد تھا که اسے اسی سیٹ پر هی بیٹھنا هے.اتنے میں ایک بزرگ جو ذرا عقلمند تھے اور یه سب دیکھ رهے تھے, اٹھے پاگل کے پاس پهنچ کر اس کے کان میں کچھ کها. یه سنتے هی پاگل اپنی سیٹ پر آگیا. سب نے بزرگ سے پوچھا آپ نے ایسا کیا کها پاگل کو که وه مان گیا. بزرگ بولے میں نے اس کے کان میں جاکر کها که کھڑکی کی طرف جو سیٹ هے وه لاھور جائے گی تم تو دبئی جا رهے هو نا دبئی والی سیٹ پر بیٹھو.

مجھے کبھی کبھار پاکستانی شیعوں کا بھی اسی پاگل سا حال معلوم هوتاهے. مجتھدین ایک واضح بات کردیں تو بھی پاکستانی نهیں مانیں گے "نهیں بھائی یه کیسے هو سکتا هے, بات ھضم هی نهیں هوتی." میں مثال دے دوں آقای بشیر نجفی نے فتوا دیا که سیدزادی سے غیر سید کا نکاح جائز هے. همارے برادران ناراض هو گئے که یه کیا بات هوئی, نهیں هم تو نهیں مانتے. آغا نے فتوامیں جمله ایڈ کر دیا که جهاں فساد کا ڈر هو وهاں "جائز نهیں" یه سن کر همارے دوست خوش هوگئے که هاں یه هوئی نا بات اب ٹھیک هے. ناجائز کا لفظ آگیا. جب که ان عقلمندوں سے یه کها جائے که ذرا غور تو کرو آقا نے هرگز فتوا تبدیل نهیں کیا, فساد تو کسی بھی عمل سے هو تو وه عمل ناجائز هے چاهے شیخ کی شادی شیخ سے هو رهی هو اس سے فساد هوتا هے تو ناجائز هے. مگر ایک جائز کام کے فتوا میں ان عاقلوں کو لفظ "ناجائز" لااااااازمی دیکھنا تھا سو فتوا میں جب یه لفظ دیکھا تو خوش هو گئے.
اسی طرح کل عزاداری پر بات شروع هوئی مستحب هے یا واجب!!! سب فقهاء نے کهه دیا عزاداری اپنی عام حالت میں مستحب هے. لیکن همیں یه بات ھضم نهیں هوتی. یه "هم" جو هیں نا اپنی "هم" سے باهر آهی نهیں پاتے. مجبور هو کر ایک بزرگ عالم آیا اس نے فرمایا اگر حالات فلاں فلاں نوعیت کے هوں تو عزاداری واجب! صاحبان خوش که واه یه هوئی نه بات... واجب کا لفظ آگیا... اتنا بھی نه سوچا که فتوا جوں کا توں هی هے که عام حالت میں مستحب هے اگر مگر ڈال کر واجب هوئی.
همیں فقهاء کی بات من و عن ماننے میں اتنا بخار کیوں چڑھ جاتا هے? هم ان مجتھدین کے علم سے بھی واقف هیں, ان کی تقوا سے بھی, ان کی قربانیوں سے بھی واقف هیں هم ان کی شخصیت میں ایک بھی بڑا عیب, ایک بھی حرام فعل نهیں دکھا سکتے پھر بھی جب وه کچھ کهیں تو همیں اس منبری مولوی و خطیب کی بات یاد آجاتی هے جسے هم دوهزار کم دے دیں تو فون کر کے همیں سناتا بھی هے اور آئنده مجلس میں نه آنے کی دھمکی بھی دیتا هے. اس مولوی اس خطیب کی بات کو بنیاد بناکر هم ایسی ھستیوں کی بات سے کیڑے نکالتے هیں جن ھستیوں نے مکتب اھل بیت (ع) کیلئے اپنی زندگیاں دے دیں. یه هین هماری عقلیں! خدارا عقل کی بتی جلا کر رکھیں تا که زندگی منور رهے.

 

دنیا بھر کے شیعوں کو چیلنج کا جواب

 

ان اعتراضات کے جوابات

از قلم: محمد زکی حیدری

1. علی (ع) پر جب سب و شتم هوا تو علی (ع) کے پیروکاروں نے اذان میں علی (ع) کے نام کا اضافه کیا. اموی دور میں جمعه کے خطبات میں امام علی (ع) پر لعنت کی جاتی تھی جو که اموی خلیفه عمربن عبدالعزیز کے دور تک جاری رهی انهوں نے آکر اس بدعت کا خاتمه کیا. یه علی (ع) کا نام ڈالنا ان خطبات میں کی جانے والی لعنت و معاویه کے پروپگنڈا کا ردعمل تھا.

2. تراویح پر شیعه کو کوئی اعتراض نهیں, تراویح کی جماعت پر اعتراض هے جو که عمر کی شروع کی هوئی بدعت هے. نبی (ص) نے مسلسل تروایح اس لئے نهیں پڑھائی که کهیں فرض نه هوجائے حضرت ابوبکر نے بھی ایسا کیا لیکن حضرت عمر نے جماعت کھڑی کر دی.

.
3.امام بارگاه علی (ع) کیوں بنواتے جب حسین (ع) کی شھادت هی دور علی (ع) کے بعد هوئی..

4. متعه ختم هی کب هوا جاری هے. حضرت عمر کا اسے حرام قرار دینا ثابت کرتا هے که نبی (ص) و حضرت ابوبکر کے دور میں حلال تھا.
.
.
5.باغ فدک گیند کی طرح رها علی (ع) کے دور میں اھل بیت (ع) کے حصے میں رها پھر چھینا گیا پھر عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اھل بیت (ع) کو ملا پھر بعد میں آنے والے حاکم نے چھینا پھر جب بھی کوئ اھل بیت (ع) کیلئے دل میں نرم گوشه رکھنے والا آیا تو اس نے اھل بیت (ع) کے نام کیا.
عمربن عبدلعزیز کا فدک اھل بیت کے حوالے کرنا ثابت کرتا هے که عمر اول غاصب تھا.
.
اور سنائیں مولانا صاحب چائے چلے گی یا ٹھنڈا... حلوے کا انکار تو آپ کے یهاں گناه کبیره هے.😜


الاحقر محمد زکی حیدری
www.fb.com/arezuyeaab

شیعه خاک شفا په سجده کیوں کرتے هیں؟

السلام العلیکم برادر شیعه خاک شفا په سجده کیوں کرتے هیں؟


(حسیب قمبرانی ماتلی

 
(ساده جواب)
.
پهلے تو هم آپ سے پوچھتے هیں کیا خاک پر سجده نهیں هوتا؟ آپ کهیں گے جی کیوں نهیں ضرور هوتا هے. نبی ص کے دور میں خاک هی پر سجده هوتا رها ٹائلز اور ماربل وغیره تو بعد میں آئے. مسجد نبوی میں بھی سجده خاک پر هوا کرتا تو اگر هم کهیں نبی ص کی سجده گاه خاک تھی تو غلط نه هوگا. یعنی ثابت هوا که خاک پر سجده کرنا غلط نهیں بلکه عین سنت نبوی هے.
اب آپ کهو که خاک کربلا کو کیوں سجده گاه بناتے هو تو جناب جس طرح آپ کو مقام مقدسه بالخصوص مکه و مدینه کی تسبیح اور ٹوپی اور جا نماز اور.... وغیره دوسرے ممالک کی بنی هوئی ان قسم کی اشیاء سے زیاده محترم و محبوب هے اسی طرح همارے یهاں بھی سجده هر قسم کی خاک, کھجور کی بنی صف, پتھر وغیره پر هو جاتا هے مگر خاک کربلا اس لیئے که هم اسے خون حسین ع کی نسبت کی وجه سے زیاده محترم و محبوب سمجھتے هیں . 
اور جی هاں هم آپ کی عالمانه ذھنیت سے بخبوبی واقف هیں اب آپ یهی کهو گے که کربلا کی خاک میں تو یزید کے فوجیوں کا خون بھی شامل هے صرف حسین ع کا نهیں تو آپ کے اس "علمی" سوال کا جواب یه هے که  آپ قرآن کو کیوں چومتے هیں جب که اس میں ابولھب , فرعون, حتی که خنزیر کا ذکر بھی هے کیا آپ ان کے ناموں کو چومنے کی نیت سے قرآن کو بوسه دیتے هیں? نهین نا? اسی طرح کربلا کی خاک کا احترام بھی هم همارے پاک امام (ع) اور ان کے انصار و اصحاب کے خون کی وجه سے کرتے هیں نه که سپاه یزید کے خون کی وجه سے.
.
والله اعلم باالصواب....
 
محمد زکی حیدری و آب


www.facebook.com/arezuyeaab