آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔۔امام محمد باقر (ع) کا ذریعہ معاش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 4


امام محمد باقر (ع) کا ذریعہ معاش



حضرت امام باقر(ع) موقوفات امام علی (ع) کے سرپرست و متولی تھے اور لوگوں کے امام ہونے کے باوجود اپنی محنت مزدوری سے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے تھے. وہ چاہتے تو گھر بیٹھ کر کھا سکتے تھے مگر پھر بھی وہ کام کرتے تھے.

اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ایک ہی روایت کافی ہوگی.
روایت ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: محمد بن منکدر نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ امام زین العابدین (ع) کے بعد کوئی بڑی شخصیت اس دنیا میں موجود ہو، اس وقت تک کہ جب میں ان کے بیٹے محمد بن علی (امام باقر) سے ملا. میں نے سوچا میں انہیں نصیحت کروں مگر اس نے مجھے نصیحت کر دی. محمد بن منکدر کے دوستوں نے کہا وہ بھلا کیسے؟ منکدر نے کہا: ایک دن جب موسم بہت گرم تھا میں مدینہ کے اطراف میں گیا تو مجھے محمد بن علی ملے جو کہ دو دوسرے افراد کے ساتھ تھے، اور اس موسم میں مدینے سے باہر کام کیلئے نکلے تھے. مجھے تعجب ہوا کہ قریش کا یہ بوڑھا شخص اس موسم میں اور اس حال میں دنیاداری کیلئے مدینے سے باہر آیا ہے. لہٰذا میں نے سوچا اسے نصیحت کروں.
میں اس کے پاس گیا سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا جب کہ پسینے سے شرابور تھا. میں نے کہا اللہ (ج) تمہیں ھدایت دے یہ کیا طریقہ ہے، قریش کا بوڑھا شخص اتنے گرم موسم میں دنیا کی تلاش میں ہے اگر اس حالت میں تمہاری موت ہوگئی تو اللہ (ج) کو کیا منہ دکھاؤ گے؟
محمد بن علی (امام باقر) نے جواب دیا: اگر اس حال میں مجھے موت آجائے تو میں اطاعت الہٰی میں مرا. میں اس کام کے ذریعے اپنے اور اپنے خاندان کو تم اور تم جیسے دیگر انسانوں کی محتاجی سے بچاتا ہوں. میں اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ جب میں گناہ کرنے میں مشغول ہوں اور مجھے موت آجائے. کام کرتے موت آنا عبادت کرتے ہوئے مرنے کے مترادف ہے.
میں نے اس سے کہا: اللہ (ج) تم پر رحم کرے تم نے درست فرمایا. میں نے سوچا تمہیں نصیحت کروں مگر تم نے مجھے نصیحت کردی.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام باقر (ع) بھی محنت مزدوری کرتے تھے.

حوالہ:
وسايل الشيعه ج 12 ص 9 باب 4 ح 1 كتاب التجاره، ابواب مقدمہ)

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔امام جعفر صادق (ع)

سم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 5



امام جعفر صادق (ع) کا ذریعہ معاش




زراعـــــــت



امام صادق(ع) بھی امام باقر (ع) کی طرح اگرچہ متولي و سرپرستِ موقوفات علي و فاطمه عليہم السلام تھے مگر پھر بھی ذاتی طور پر بیلچہ ہاتھ میں لیئے کھیتی باڑی کرتے دکھائی دیتے تھے. اس کے علاوہ مضاربہ (انویسٹمنٹ) کے ذریعے تجارت سے پیسہ کماتے تھے.
عبدالاعلی کہتا ہے: ایک دن اطراف مدینہ میں شدید گرم موسم میں راستے میں مجھے امام جعفر (ع) ملے، میں نے عرض کی: قربان جاؤں آپ اتنے عظیم مرتبے پر فائز ہیں اس کے باوجود اس شدید گرمی میں کیوں اپنے آپ کو زحمت میں ڈال رہے ہیں.؟
امام (ع) نے فرمایا: اے عبدالاعلی! میں یہاں کام کرنے آیا ہوں، تاکہ حلال رزق کما کر عوام کی محتاجی سے بچوں. (۱)


ابو عمرو شيبانی کہتا ہے: ایک دن میں نے گرمی کے موسم میں امام صادق (ع) کو دیکھا کہ بیلچہ ہاتھ میں لیئے، چہرے کو ایک موٹے کپڑے سے لپیٹے ہوئے، اپنے باغ میں کام کر رہے تھے اور پسینہ بہا رہے تھے. میں نے عرض کی: آپ پر قربان جاؤں بیلچہ مجھے دیں میں آپ کی جگہ کام کروں. امام (ع) نے جواب دیا: مجھے یہ بات پسند ہے کہ انسان اپنے گذارے کیلئے خود گرمی کے موسم میں کام کرنے کا مزہ چکھے. (۲)

ابو بصير فرماتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے سنا آپ نے فرمایا: میں اپنے بعض باغات میں کام کرتا ہوں اور پسینہ بہاتا ہوں جب کہ بہت سے ایسے افراد ہیں جو میرے لیئے یہ کام کر سکتے ہیں مگر میں خود یہ کام کرتا ہوں کہ اللہ (ج) گواہ رہے کہ میں اپنا رزق حلال کمانے کیلئے خود کوشش کر رہا ہوں. (۳)


تـــجــــــارت

محمد بن عذافر اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
امام صادق (ع) نے 1700 دینار میرے والد کو دیئے اور فرمایا: اس سے تجارت کرو. مزید فرمایا: میں منافع کی لالچ نہیں رکھتا بس چاہتا ہوں کہ اللہ (ج) دیکھ لے کہ میں رزق حلال کی تلاش میں ہوں. میرے والد فرماتے ہیں: میں نے یہ 1700 دینار امام (ع) سے لے کر تجارت کی اور 100 دینار منافع لاکر امام (ع) کی خدمت میں پیش کیا. امام (ع) خوش ہوئے اور فرمایا کہ اسے بھی سرمایہ گذاری میں لگا دو اور مزید تجارت کرو.
میرے والد امام (ع) کے سرمایہ سے تجارت کیا کرتے اور اسی دوران ان کا انتقال ہوا. اور امام (ع) کا پیغام آیا کہ ہمارے 1800 دینار عمر بن یزید کو دے دیئے جائیں. (۴)

یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) کسب رزق حلال کیلئے کھیتی باڑی کے علاوہ تجارت بھی کیا کرتے تھے.

 نــــکتـــــہ

ان باتوں پہ نعرے تو نہیں لگیں گے مگر ان پر عمل کر کے ہماری زندگی کو چار چاند ضرور لگ جائیں گے

حــــــوالے:
۱- وسائل الشیعہ ج 12 ص 10 ح 2
۲- ایضا، ص 23 ح 7 باب 9
۳- ایضا، ص23 ح 8
۴- ایضا، ص 26 باب 11 ح اول)،

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔ امام موسی کاظم اور امام رضا (ع)۔۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 6



امام موسیٰ کاظم (ع) کا ذریعہ معاش



امام موسی کاظم (ع) گوکہ ایک طویل مدت تک اسیر رہے آپ کے خاندان کی کفالت خفیہ طور پر امام (ع) کے شیعوں کی طرف سے ہوتی تھی مگر روایات میں ہمیں ملتا ہے کہ آپ (ع) بھی اپنے اجداد کی سنت پر چلتے ہوئے خود کام کیا کرتے تھے.
علی بن ابی حمزه فرماتے ہیں:
امام موسی کاظم (ع) اپنی زمینوں میں کام کر رہے تھے اور پسینہ بہا رہے تھے میں نے جا کر عرض کی کہ آپ کے دوست کہاں ہیں (کہ آپ خود کام کر رہے ہیں) امام (ع) نے فرمایا: اے علی! مجھ بہتر لوگوں نے زمینوں میں کھیتی باڑی کی ہے. علی نے کہا: قربان جاؤں آپ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ فرمایا: رسول اللہ (ص)، علی (ع) اور میرے اجداد. اور کھیتوں میں کام کرنا انبیاء، ان کے اوصیاء اور صالحین کی سنت ہے. (۱)

ابن مغیث قرظی لکھتے ہیں: آفت زدہ زمینیں امام (ع) کے توسط سے سنواری جاتیں، غریبوں کی اطلاعات کی جمع آوری کا کام جو سب سے پہلے علی (ع) نے کیا، امام موسی کاظم (ع) نے اسے توسیع دی. آپ بدخواہ اور عیب جوئی کرنے والوں کو محنت و سخاوت اور عفو و درگذر سے شرمندہ کیا کرتے تھے.(۲)



امام رضا (ع) کا ذریعہ معاش



امام رضا(ع) ایک بہترین دانشور، طبیب اور کسان تھے. آمدنی کے لحاظ سے اقتصاد کے ماہر تھے. عرفہ کے دن اپنا سارا مال انفاق کر دیا کرتے، ہمیشہ ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرنے کی فکر میں رہتے. اپنا مال انہیں بخش دیتے اور ہمیشہ لوگوں کو تجارت و کاشتکاری کی ترغیب دلاتے اور نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے مدد کرتے. (۳)

حــــــوالے:

۱- همان، ص 23 ج 6، باب 9
۲- مجلہ معارف/مہر ۱۳۶۹ بخش مدیریت زمان
۳- حلیه الأبرار و مجلہ معارف/مہر ۱۳۶۹ بخش مدیریت زمان

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع ۔۔۔امام علی نقی (ع)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 8: (آخری قسط)



امام علی نقی (ع) کے ذرائع آمدنی



اب تک جو آئمہ (ع) کے ذرائع آمدنی ہم نے پیش کیئے ہیں ان میں سے ایک اہم ذریعہ وہ نقدی تحفے بھی ہیں جو آئمہ (ع) کو ملتے تھے. امام علی نقی (ع) کے بارے میں ان ھدایا کی بہت سی روایات ملتی ہیں. یہ تحائف نہ فقط شیعہ یا مسلمانوں بلکہ دیگر ادیان کے لوگوں کی طرف سے بھی موصول ہوتے تھے اور آئمہ (ع) انہیں قبول کر لیا کرتے تھے.

متوکل عباسی کی والدہ کی نذر

روایات میں ملتا ہے کہ متوکل شدید بیمار ہو گیا. اس کی والدہ نے نذر کی کہ اگر متوکل کو شفا ملی تو وہ امام علی نقی (ع) کو دس ھزار دینار دے گی. لہٰذا جب اسے شفا ملی تو اس نے امام (ع) کو نقدی بھیج دی. (۱)

نصرانی کی نذر


ابی منصور موصلي نقل كرتا ہے کہ يوسف بن يعقوب نصراني كاتبنيز کہ جسے متوکل نے بلوایا تھا اور وہ اس بات سے ڈرا ہوا تھا لہٰذا اس نے نذر کی کہ اگر متوکل کے خشم سے محفوظ رہا تو امام علی نقی (ع) کو سؤ دینار دیگا. اور ایسا ہی ہوا اور اس نے امام (ع) کی خدمت میں نذر پوری کی. (۲)

ابراهيم بن مہزيار خيران، خادم امام نقی (ع) تھے، نے امام (ع) سے طرسوس (شام کا ایک شہر) کی طرف سے آنے والا آٹھ درھم کا تحفہ قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوال کیا (ایسا لگتا ہے کہ تحفہ دینے والا مسیحی تھا) تو آپ (ع) نے انہیں اس قسم کے تحائف و دیگر چیزیں قبول کرنے کی اجازت دی اور فرمایا "رسول اللہ (ص) نصرانی و یہودیوں کے تحائف بھی رد نہیں کیا کرتے تھے. (۳)



حوالہ جات:
۱- کليني، همان، ج1، ص499؛ ابن شهرآشوب، همان، ج4، ص.415
۲- نباطي بياضي، همان، ج2، ص203.
۳- شيخ طوسي، اختيار معرفة الرجال کشي، ص610؛ شيخ حر عاملي، همان، ج17، ص292.


امام حسین عسکری (ع) نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ عباسیوں کے قلعہ و فوجی مراکز میں نظر بند ہو کر گذاری لہٰذا ان کی ذرائع آمد کے متعلق بندہ کو کچھ خاص اطلاع نہیں ملی.

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن۔۔۔ قسط اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن


قسط اول


ایک بات یاد رکھیں کہ علی (ع) (چونکہ وہ خلیفہ تھے اور بقول ان کے حاکم کو رعیہ کے غریب ترین فرد کی مانند جینا چاہیئے) کے علاوہ تمام آئمہ (ع) اچھا کھاتے تھے، اچھا پہنتے تھے، اور زمانے کی اچھی سواری سے استفادہ کرتے تھے. البتہ اس سے مراد فضول زرق و برق نہیں ہے. اس کی دوسری وجہ معاشرے کا معیار زندگی کا ترقی کرنا ہے علی (ع) کے دور میں معاشرے کا رہن سہن و معیار زندگی کچھ اور تھا اور باقی آئمہ (ع) کا کچھ اور. لہٰذا یہ بھی ایک سبب تھا کہ آئمہ (ع) کا رہن سہن الگ نظر آتا ہے.

امام موسی کاظم (ع) کا لباس

امام (ع) کے لباس کے حوالے سے شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید نے جو بات بیان کی وہ یہ ہے کہ آپ (ع) اور امام رضا (ع) صوفیاء کی طرح اونی لباس پہنتے تھے جو کہ بہت ہی سادہ ہوتا تھا. (۱)
ابی الحدید کا دعوا تھا کہ امام کاظم (ع) مالی لحاظ سے مستحکم تھے مگر فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے. مگر ابی الحدید کا یہ دعوا دیگر کثیر روایات سے متضاد ہے کہ جن میں آپ (ع) اچھا لباس پہنے ہوئے پیش کیئے گئے ہیں. مثال:
يونس کہتا ہے: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے نیلے رنگ کا طيلسان (کملی یا گون جو آج بھی جج اور یونیورسٹی کے گریجویٹ پہنتے ہیں) میں زیب تن دیکھا. (۲)
سليمان بن رشيد اپنے والد سے نقل کرتا ہے كہ میں نے ابوالحسن(علیه السلام) کو دیکھا کہ انہوں نے سیاہ رنگ دراعہ(جبہ جس کا اگلا حصہ کھلا ہو) اور نیلے رنگ کا طیلسان پہن رکھا تھا.(۳)

محمدبن علی روایات کرتے ہیں: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سر پہ قلنسوه (دراز ٹوپی جو بنی امیہ اور عباسی دور میں رائج تھی) پہنی ہوئی تھی اور ایک کوٹ پہنے ہوئے تھے.(۴)


امام موسی کاظم (ع) کی سواری

امام (ع) کی سواری کے متعلق ملتا ہے کہ آپ مختلف جانور سواری کیلئے استعمال کرتے تھے مگر کثرت سے خچر کا ذکر ملتا ہے کیونکہ خچر اس دور کی متوسط سواری سمجھی جاتی تھی.

جب ھارون رشید حج سے واپس آیا تو مدینہ کی مشہور شخصیات اس کے استقبال کیلئے گئیں، امام (ع) بھی ان کے ساتھ تھے اور خچر پہ سوار تھے. ربیع نے امام (ع) کے پاس جا کر کہا: یہ کیسی سواری ہے کہ جس پہ سوار ہو کر خلیفہ وقت کے استقبال کو آیا جائے؟ (اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ استقبال کیلئے کسی مہنگی و مجلل سواری پر آتے) امام (ع) نے فرمایا: خچر ایسی سواری ہے جس کا سوار نہ تکبر محسوس کرتا ہے نہ فقیری و ذلت، بلکہ یہ دونوں کے درمیان بہترین اعتدال ہے. (۵)

حمّاد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے امام كاظم(علیه السلام) کو دیکھا کہ وہ مرو سے واپس آ رہے تھے اور خچر پہ سوار تھے (۶)

امام موسی کاظم (ع) کا مکان

امام (ع) کے مکان کے متعلق کچھ زیادہ روایات نہیں ملتی، ایک دو روایات پیش خدمت ہیں.

حسن بن زیارت نقل کرتا ہے کہ میں امام موسی کاظم (ع) کے گھر گیا تو آپ ایک ایسے کمرے میں تھے جو پردے اور قالین سے آراستہ تھا لیکن جب دوسرے دن گیا تو انہیں ایسے کمرے میں پایا کہ جس میں ریت اور سنگریزوں کے سوا کچھ نہ تھا. مجھے حیرت ہوئی تو آپ (ع) نے فرمایا:کل جو کمرہ تم نے دیکھا وہ میری بیوی کا کمرہ تھا
(۷)

محمّد بن عيسی ابراهيم بن عبدالحميد سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام كاظم(علیه السلام) کے ہاں گیا تو جس کمرے میں آپ (ع) نماز پڑھتے تھے، اس میں کھجور سے بنی ایک ٹوکری، قرآن اور تلوار جو دیوار پہ لٹک رہی تھی، کے علاوہ کچھ نہیں تھا.(۸)

معمّر بن خداد کہتا ہے: امام كاظم(علیه السلام) نے ایک مکان خریدا اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس میں رہے اور فرمایا: تمہارا مکان چھوٹا اور تنگ تھا. غلام نے کہا: وہ میرے والد کا گھر تھا اس لیئے میں اسی مکان میں رہ رہا تھا. امام (ع) نے فرمایا: اگر تمہارا والد بیوقوف تھا تو لازم نہیں تم بھی اس کی طرح ہو. (۹)
 
ثابت ہوا کہ امام (ع) رہائش کیلئے چھوٹا مکان پسند نہیں فرماتے تھے.


حــــوالــــــــہ جـــــات:
۱- ابن ابي ‏الحديد، شرح نہج ‏البلاغہ، قم، كتابخانہ آية اللّه مرعشي نجفي، 1404ق، ج 15، ص273
۲-محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61
۳-عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق، 3، ص49
۴- محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61.
۵- شيخ مفيد، الارشاد، قم، آل‏ البيت، 1416ق، ج ۲ ص ۲۳۴
۶- محمدبن يعقوب كليني، فروع کافی، ج 8، ص86
۷- عزيزاللّه عطاردي، ایضا، ج 3، ص28.
۸- محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 48، ص100
۹- محمدبن يعقوب كليني، ایضا، ج 6، ص525
 

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن (قسط 2)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن



قسط 2



امــــام موســـی کاظم (ع) کی غـــذا

امام موسی کاظم (ع) کی غذا کے بارے جو روایات ملتی ہیں ان سے امام (ع) کا غذا کے انتخاب و مصرف میں احتیاط و اعتدال؛ وقت غذا کی اہمیت اور مختلف غذاؤں کے فوائد آشکار ہوتے ہیں.

گـــــــوشــــــت

لقانی کہتے ہیں: میں نے امام كاظم(علیه السلام) کو مکہ میں دیکھا کہ انہوں ایک شخص کو گائے کا گوشت لینے بھیجا. پھر امام (ع) نے اس گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں سوکھنے کیلئے ڈال دیا تاکہ اس سے وقفے وقفے سے استفادہ کیا جا سکے..(۱)

محمّدبن بكر کی روایت میں بھی ملتا ہے کہ کہا جب میں مالی مدد کیلئے امام (ع) کے کھیتوں میں گیا تو آپ نے مجھے ٹکڑے ٹکڑے شدہ خشک گوشت پیش کیا. (۲)

ســــــــلاد

موفق مدينی اپنے والد سے نقل کرتا ہے کہ ایک دن امام کاظم (ع) کی خدمت میں گیا، امام (ع) نے مجھے دوپہر کا کھانا پیش کیا. جب دسترخوان بچھایا گیا تو اس پر سبزی (فارسی میں سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزی کو سبزی خوردنی کہتے ہیں) موجود نہیں تھی. امام (ع) نے کھانا شروع نہ کیا. اپنے غلام سے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ جس دسترخوان پر سبزی نہ ہو تو میں اس دسترخوان پر کھانا نہیں کھاتا. پھر آپ (ع) نے غلام سے سبزی لانے کو کہا اور سبزی لایا تو امام (ع) نے کھانا شروع کیا(۳)

مـــــــچھـــلـــــی

معتب کہتے ہیں: ایک دن امام کاظم (ع) نے مجھے حکم دیا کہ میرے لیئے تازہ مچھلی کا انتظام کرو کیونکہ میرا حجامت (cupping) کا ارادہ ہے. معتب کہتا ہے میں نے مچھلی خریدی اور امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا. امام (ع) نے فرمایا: اس میں سے تھوڑا حصہ پکاؤ اور کچھ حصے سے کباب بناؤ. پھر امام (ع) نے دوپہر و رات کا کھانا اسی سے تناول فرمایا (۴)

یونس بن یعقوب کہتا ہے: میں نے امام کاظم (ع) کو دیکھا کہ وہ گندنے (ایک قسم کی سبزی) کو پانی میں دھو کر کھا رہے تھے. (۵)
اس کے علاوہ بہت سی ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام (ع) کے دسترخوان پر سلاد اور پھل اکثر موجود ہوتے تھے.

روٹـــــی کا احترام
فضل بن یونس کہتے ہیں:
ایک دن امام کاظم (ع) کا مہمان تھا، جب کھانا لایا گیا تو غلام نے روٹی کو برتن کے نیچے رکھا ہوا تھا. امام (ع) نے جب یہ دیکھا تو فرمایا: روٹی کا احترام کرو اور اسے برتن کے نیچے نہ رکھا کرو پھر غلام کو حکم دیا کہ روٹی کو برتن کے نیچے سے ہٹا لے (۶)

مـــــــیٹھـــا

موسی بن بکر کہتے ہیں: امام کاظم (ع) اکثر اوقات سونے سے قبل مٹھائی (دیسی مٹھائی) تناول فرمایا کرتے. اور فرمایا کرتے: کسی کے پاس دس درھم ہوں اور وہ اس سے مٹھائی خریدے تو اس نے اسراف نہیں کیا.(۷)
اور فرمایا نحنُ نحبُّ الحلو ہم مٹھائی پسند کرتے ہیں (۸)

ڈنــــــــر کی اہــــمیت

روایت ہے کہ امام (ع) رات کا کھانا کھائے بغیر کبھی نہیں سوئے حتی ایک نوالہ ہی کیوں نہ ہو لیکن رات کا کھانا ترک نہیں کیا کرتے تھے. اور فرماتے اِنَّه قوّةٌ لِلجسمِ بیشک اس سے جسم کو طاقت ملتی ہے (۹)



حوالہ جات:
۱- عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق، ج ۳، ص ۶۸
۲- محمدباقر مجلسي، بحار الانوار، ج 48، ص102
۳- . عزيزاللّه عطاردي، ایضا، ج 3، ص81
۴- ایضا ص 77
۵- محمدبن يعقوب كليني، فروع كافي، ج 6، ص341.
۶- ایضا، ص304 ص64
۷-  ایضا ص64
۸- ایضا
۹-ایضا، ص 288.

امــــام موســـی کاظم (ع) کی زینت و آرائش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں
امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن

آخری قسط



امــــام موســـی کاظم (ع) کی زینت و آرائش



صفائی نصف ایمان ہے ہمارے آئمہ (ع) وقت کے لحاظ سے اچھے قسم کا لباس اور اس کے ساتھ دیگر تزین و آرائش کے لوازمات سے استفادہ کرتے تھے.

خــــــوشبــــوء
حسن بن جهم کہتے ہیں:
میں امام کاظم (ع) کے پاس گیا. آپ ایک صندوقچہ میرے لیئے لائے اس میں مشک تھی. مجھ سے فرمایا کہ لے لو. میں نے اس میں سے کچھ لیا لیکن آپ نے دوبارہ مجھے فرمایا کہ لے لو اور اپنے کپڑوں کو معطر کرو. میں نے دوبارہ اس میں سے کچھ لیا اور اپنے جامے پہ لگایا. پھر بھی امام نے فرمایا لے لو اور لباس کو معطر کرو. پھر فرمایا امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا: لا يأبي الكرامةَ الاّ حِمارٌ. سوائے گدھے کے کوئی بھی کرامت و مہربانی کو رد نہیں کرتا. میں نے سوال کیا: "کرامت" کیا ہے؟ فرمایا: عطر، پشتی اور چند چیزیں.(۱)

حسن بن جهم سے منقول ہے کہ امام كاظم(علیه السلام) کیلئے ایک صندوقچہ لایا گیا جس میں مشک اور عطر تھا اور وہ آبنوس (مضبوط لڑکی کی ایک قسم) سے بنا تھا جس میں عطر کی ڈبیاں رکھی ہوئیں تھیں جو خواتین کیلئے مختص تھیں.(۲)

کــــــنگھــــی

موسی بن بكر کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) کو دیکھا وہ عاج کی کنگھی سے اپنے بالوں کو کنگھا فرمارہے تھے. یہ کنگھی میں نے ان کیلئے خریدی تھی. (۳)

خضــــــــاب

حسن بن جھم نقل کرتے ہیں: میں امام موسی کاظم (ع) کے پاس گیا میں نے دیکھا کہ امام (ع) نے سیاہ رنگ کا خضاب لگا رکھا تھا. (۴)


انــــــگـــوٹھی

علی بن مہران فرماتے ہیں: امام (ع) کے پاس گیا اور دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پہن رکھی ہے جس کا نگینہ فیروزے کا ہے اور اس پر "للہ الملک" کا نقش موجود تھا. (۵)


حوالہ:
۱- محمدبن يعقوب كليني، فروع كافي، ج 6، ص۵۱۲
۲- ایضا، ص515
۳- ایضا ص488
۴- عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق ج 3، ص24
۵- محمدبن يعقوب كليني، ایضا، ج 6، ص 472.