چالیس دن زیارت عاشورا

چالیس دن زیارت عاشورا

 

عجیب دن ہیں

عجیب دن ہیں

 

اصل قربانی

 

اصل قربانی

شیعو ہوشیار!

شیعو ہوشیار!

 

عورت پر اللہ (ج) کی خاص عنایت

عورت پر اللہ (ج) کی خاص عنایت

شیخ زکزاکی کی کامیابی کا راز

شیخ زکزاکی کی کامیابی کا راز

 

زھرا (س) کی عزاداری اور ہماعی عزاداری

 

زھرا (س) کی عزاداری اور ہماری عزاداری

 

ارسطو, اشرفی اور گدھا

ارسطو, اشرفی اور گدھا

تحریر: محمد زکی حیدری

 

ارسطو نے کہا تھا حسن کی تعریف ہے کُل کے لحاظ سے جُز کی نسبت و تناسب. جتنی کُل کے لحاظ سے جز کی نسبت اچھی ہوگی, مناسب ہوگی, چیز اتنی زیاده خوبصورت لگے گی. یعنی ایسا نہ هو کہ طوطا خود چار فٹ کا ہو اور اس کی ناک 12 فٹ کی. نھیں! جتنا اس کا کُل ہے جز بھی اسی لحاظ سے هو تو طوطا خوبصورت دکھتا هے. اب بات جانوروں کی چل پڑی ہے تو دور کیا جانا طاھر اشرفی کو ہی لے لیجئے, خوبصورت نھیں، کیونکہ اس کا کُل یعنی جسم اور ایک جز یعنی پیٹ ایک دوسرے سے مناسب نھیں هیں...

طاھر اشرفی کو اتنی تسلی تو ہوگی کہ وه اکیلا اس مرض میں مبتلا نہیں ہے بلکه اس کا ساتھی گدھا بیچاره بھی کسی حد تک بڑے کانوں کی وجه سے بدصورتی کا دھبا لیئے مارا مارا پھرتا هے, جیسے طاھر اشرفی پیٹ کی وجہ سے.

ارسطو کی بات کو اگر اعضاء کی نسبت و تناسب سے بالاتر ہوکر سوچیں , یعنی جسمانی حسن کو چھوڑ کر حُسنِ عقل, حُسنِ گفتار, حُسنِ فکر وغیره کی بات کریں تو بھی ہمیں مذکوره بالا دو مخلوقات ایک دوسرے کے قریب قریب نظر آتی ہیں. جہاں گدھا اپنی گندی آواز و صورت کی وجہ سے جانوروں میں متنفر ہے وہاں اشرفی اپنے فرقہ وارانہ  انٹرویوز اور تقاریر کی وجہ سے مسلمانوں میں.

ارسطو کو اس وقت یونان میں اگر طاہر اشرفی اور گدھا ساتھ مل جاتے تو اس کی ایک اور تالیف بڑھ جاتی اور فلسفئہ حسن و جمال کی یه دو عظیم مثالیں دے کر وه اپنی بات بخوبی دنیا تک پہنچا پاتا لیکن ارسطو خوش قسمت تھا کہ اس کے دور میں صرف گدھا تھا، همارے دور میں طاہر اشرفی بھی هے.

اگر طاہر اشرفی المراطبون کے دور میں اندلس میں ہوتا تو مشہور مسلمان سائنسدان ابن زھر اپنی تالیف "کتاب الأغذیه" میں طاھر اشرفی کو دیکھ کر ایک باب کا ضرور اضافہ کرتے، جس میں ہاتھی نما انسان کے پیدا ہونے کی صورت میں اس کی غذائی ضروریات پوری کرنے پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی گئی ہوتی.

ہم نے سنا ہے، وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا بس سنا ہے کہ جب طاہر اشرفی پیدا ہوئے تھے تو نرسز  ڈر کے مارے بھاگ گئی تھیں, ڈاکٹرز ان کی جسمانی بناوٹ دیکھ انگشت بدندان تھے, موصوف کی بھاری بھرکم جسمی بناوٹ کا مشاھده کیونکہ ڈاکٹر پهلی بار کر رہے تھے لھذا الہٰی رموز سے چھیڑ خانی نه کرنے پر اکتفاء کرتے ہوئے تمام ہیومن ڈاکٹرز (انسانی ڈاکٹرز)  اور ویٹنری ڈاکٹرز (حیوانات کے ڈاکٹرز) نے باہمی مشاورت سے  فیصلہ کیا که ملک کے کسی بزرگ کو بلایا جائے جو عالم دین ہو. لہٰذا لدھیانوی مرحوم کو بلایا گیا. انہوں نے اپنے ھاتھ سے دوده کا جگ بچے کے منہ میں ڈالا, جگ اس لئے کیونکہ گلاس, فیڈر, چمچ, یا شیر مادری کفایت نہیں کر رہے تھے تو مجبورا صحت مند بچے کو جگ سے ہی دودھ پلایا گیا.

اسی طرح سنا ہے کہ ایک نرس نے اپنے ماضی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک عجیب حادثے کا ذکر کیا کہ ایک دن وه اور ایک اور نرس مل کر نومولود طاہر اشرفی صاحب کو  سر و پا سے اٹھا کر نھلانے کیلئے  جارهی تھیں کہ اچانک ایک کے ہاتھ سے بچے کی ٹانگیں چھوٹ گئیں بچه جوں ہی زمیں پر گرا تو فرش کے تین چار ماربل کی اینٹیں ٹوٹ گئیں. شکر ہے ایم ایس صاحب نے نھیں دیکھا ورنه ماربل کے پیسے نرسز کی تنخواه سے کاٹے جاتے۔

یہ بھی نامعلوم ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ  موصوف کے ابا کا شوق تھا کہ ان کا نورچشم, حَسین و جمیل بیٹا پاکستان کی کسی اچھی میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹری پڑھے اور ایک بہترین نیوٹریشنسٹ (ماھر غذا) بنے لیکن چونکہ پاکستان میں کوئی اسکول ایسا نہ تھا جہاں کرسیوں کی جگه قالین یا دریاں بچھا کر طلاب کو تعلیم دی جاتی ہو سو انھیں داخلہ نہ ملا. یہاں بھی موصوف کی صحت کاملا و ثاقلا ان کی کامیابی کی راه میں رکاوٹ بنی کیونکہ کرسی پر بھلا آپ کا نازک بدن کب پورا آسکتا تھا.

کہتے هیں بزرگ ہر مشکل میں کام آتے ہیں لہٰذا پھر سے مرحوم لدھیانوی صاحب کو بلایا گیا کہ اس ہونہار کی تعلیم کا بندوبست کریں انہوں نے تجویز دی کہ دریاں و قالین بچھا کر پڑھانے کا رواج صرف مدارس میں ہی ہے, لھذا یونیورسٹی کے بجائے انہیں مدرسے میں داخلہ دلوایا گیا اور اسی غم میں وه آج بھی کبھی کبار پیتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، اور وجہ دریافت کرنے پر فرماتے هیں :

مجھے پینے کا شوق نہیں

پیتا ہوں غم بھلانے کو.

 آج موصوف شیعه-سنی برادران کو لڑوانے میں پیش پیش ہیں. اپنی تمام تر کوششوں اور کچھ راناؤں کے آشرواد سے اپنے خط پے ثابت قدم ہیں.  لیکن ہم سنی اور شیعه "بڑے" شیطان آمریکا سے نھیں ڈرے تو "موٹے" شیطان سے بھلا کیا ڈر.

آپ شاید اعتراض کریں کہ میری یہ تحریر علمی نہیں ہے. بیشک!  لیکن آپ ہی کہیئے جو سنی-شیعہ کو لڑائے، شیعہ مسلمانوں کو کافر کہے جب کہ دنیا اسلام انہیں مسلمان مانتی ہو، تو ایسے بندے کے ساتھ کیسی علمی باتیں. بس کسی نے حُسن کی بات کی تو ارسطو کی تعریف یاد آئی اور دو مخلوقات از خود بنعوان روشن مثال ذہن میں آگئیں تو یہ چند الفاظ لکھ ڈالے.

 

 

www.fb.com/arezuyeaab

 

اصلی سید، بڑا عزادار!

 
اصلی سید، بڑا عزادار!

تحریر: محمد زکی حیدری


جناب! آج سے تقریباً ڈیڈھ صدی قبل حجازکے ایک شہر میں ایک سید خاندان رہتا تھا، شیعہ، با عزت ، متقی، پرہیزگار۔۔۔ خاندان کا سربراہ مسجد کا پیش امام تھا جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے تووہ سید امام اور اس کا خاندان کے افراد یہ کہہ کر ووٹ نہیں ڈالتے تھے کہ امیدوار لائق نہیں ہے اس منصب کا۔ وقت گذرتا رہا کسی نے اس سید کو نہ چھیڑا کہ بھئی آؤ ہمیں ووٹ دو۔ ایک بار یہ ہوا کہ ایک ظالم امیدوار آیا اور اس نے اعلان کیا کہ سب مجھے ہی ووٹ دیں گے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ اس شریف سید زادے نے اس اعلان کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ جب انتخابات کے دن قریب آئے اتو اس ظالم شرابی امیدوار کو معلوم ہوا کہ فلاں سید ہے اس نے اور اس کے خاندان نے اسے ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس امیدوار نے اس سید کو پیغام بھیجا اور اپنی بیٹھک پر بلایا۔ وہ شریف سید آیا تو امیدوار نے کہا کہ "تم اگر مجھے ووٹ نہیں دو گے تو مرنے کیلئے تیار ہوجاؤ" اس سید نے صاف انکار کردیا اور گھر آکر بال بچوں کو لیا کہ چلو کہیں دور دراز علائقے میں چلتے ہیں۔ اس حکمران کو جب معلوم ہوا کہ اس سید نے اس کے حکم کی تعمیل نہیں کی اور شہر چھوڑ کر جا رہا ہے تو اس نے اس سید کو روک کر مار دینے کیلئے بندے بیجھے اور انہوں نے اس سید کو ایک بیابان میں روکا اور اسے اس کے سارے بھائی بیٹوں سمیت قتل کردیا، سوائے ایک کہ جو بیمار تھا۔ اس سید نے سب کو مدد کیلئے بلایا مگر ظالم حکمران کے ڈر سے کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ جب سب کچھ ہو چکا تب لوگوں میں ایک کہرام سا مچ گیا مگر ایوان انبساط پر اس ظالم کا قبضہ تھا ، لھذا اس نے حالات پر قابو پا لیا۔ اس سید کی مظلومیت پر شہر کی ہر آنکھ اشکبار رہتی۔ ہر کوئی اپنے گھر میں اس کی مظلومیت پر رونے لگا۔

گریه و زاری تو ہر گھر میں عام جام تھا، لیکن کچھ ایسے لوگ تھے، کچھ ایسے غیرتمند نمازی کہ جو اس سید امام کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے، نے مل کر سوچا کہ یہ ظالم ان کے امام کو مار کر بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے،صرف گھر میں بیٹھ کررونے سے اچھا ہے مل کر اس کی حکومت گرا دی جائے۔ صلاح مشورے ہونے لگے لیکن کچھ نے کہا "نہیں ہمارے لیئے غم ہی کافی ہے، ہمیں رونے دو، بدلہ ودلہ ہم نہیں جانتے، ہم چاہتے ہیں کہ ہر گھر سے صرف اس امام کے غم میں رونے کی صدا آئے"۔ لھٰذا منتقمین کے ساتھ جو افراد تھے ان کی تعداد بہت قلیل تھی، لیکن وہ نکلے اور انہوں نے انتقام لیا مگر جلد ہی ان کو دوسرے ظالموں نے آکر مغلوب کرکے پھر سے اس ظالمانہ طرز کی حکومت قائم کردی. جب کہ اکثریت ان کی تھی جو اس سید زادے کے چاہنے والی تھے، لیکن انہوں نے گھر میں بیٹھ کر رونے کو ہی سید زادے کی ذمہ داری سمجھی اور بس۔۔۔

اس کے بعد انتخابات ہوتے رہے سیدزادے کے چاہنے والے چپ ہوکر ظالم حکمرانوں کو ووٹ ڈالتے رہے اور ادھر اس سیدزادے کا جو ایک بیٹا بیماری کی وجہ سے ظالم کے ظلم سے بچ گیا تھا، اس کی اولاد کے ساتھ بھی ظالم حکمران خاندانوں نے وہی ظلم روا رکھا اور سیدزادے کے چاہنے والے گھروں میں بیٹھ کر روتے رہے۔ اس سید پیش امام کی قبر شہر سے دور تھی ہر چالیسویں پر اکثر لوگ پیدل اس سید زادے کی قبر پر جاتے تھے وہاں گریہ کرتے، زاری کرتے،۔۔۔ غم غم غم غم مناتے تھے لیکن اس سید زادے کے پوتے اور پڑ پوتے اسی پہلے ظالم حکمران کے جانشینوں کے ظلم و استبداد کی بھٹی میں جل رہے ہوتے تھے۔ کسی کو قید کیا جاتا، کسی کو زہر دیا جاتا، کسی کی لاش کو بغداد کی پل پر۔۔۔ لیکن گھروں میں اس سید زادے کا غم بڑے زور شور سے جاری رہتا۔ ہر سال جب اس پیش امام سید کی شہادت کا دن آتا تو اس کی یاد میں محافل غم ہوتیں، گریہ ہوتا وغیرہ وغیرہ۔

چلتے چلتے 20 ویں صدی آئی اس میں ایران میں اس سید کا ایک بیٹا اٹھا اور اپنے دادا کے قاتلوں کی اولاد کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ اس سید کا نام سید روح اللہ خمینی موسوی تھا۔ روح اللہ کے سارے ساتھی اس کے مخالف ہو گئے کہ مت کرو یہ باتیں بس رونے دو ہمیں، گھر گھر میں رونا ہو، ایسا کوئی کام کرو کہ یہ رونا اور بڑھے ، مقصد یہی ہے، نجات کا وسیلہ یہی ہے، تم کیوں خومخواہ حکمرانوں کے پیچھے آن پڑے ہو؟ لیکن روح اللہ کے دل میں انتقام کی آگ جل رہی تھی وہ اپنے دادا کے دشمنوں کو برسر اقتدار دیکھ کر کونے میں بیٹھ کر رونا نہیں چاہتا تھا، اس نے ایران سے ظالم کو بھگا کر وہاں ایسی حکومت قائم کی جو اس کے دادا کے دین کی یاد تازہ کرتی تھی، اس نے ایک طرح سے اپنے مخالفین کو بتایا کہ جب سر پر بیٹھے ہوئے حاکم کی خصلتیں تمہارے امام کے قاتل سے ملتی جلتی ہوں تو کونے میں بیٹھ کر رونے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ میدان میں آکر اس سے دادا کا انتقام لینا ہوگا، اس نے بتایا کہ غم تمہیں بھی تھا غم مجھے بھی، لیکن اس غم کی محرکات الگ تھے۔ روح اللہ موسوی کا انتقال ہوا، 21 ویں صدی میں قوم کی کشتی کا ناخدا بننے کی صلاحیت اسے ایک اور سید میں نظر آئی اور وہ اپنی وصیت میں اسے ناخدا بنا کر اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔

21 ویں صدی میں اس سید روح اللہ کے جانشین نے دنیا کے ظالموں کو للکارا کہ مبادہ اس غلط فہمی میں رہنا کہ ہم ان میں سے ہیں جو اپنے دادا کیلئے گھر کے کونے میں بیٹھ کر صرف رونے تک ہی محدود ہیں ، نہیں ہم وہ ہیں کہ اگر کوئی ہمارے دادا کو ماننے والوں ، ان کے چاہنے والوں کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو اس کے گھر میں صف ماتم بچھا کر رکھ دیں۔ اس جانشین کا نام ہے سید علی اور دنیا اسے علی خامنہ ای کے نام سے جانتی ہے۔ یہ عزادار ہے! لیکن کونے میں بیٹھ کر عزاداری نہیں کرتا، یہ بین الاقوامی شہرت یافتہ عزادار ہے، جب یہ اپنا ہاتھ سینے پر مار کر یا حسین (ع) کہتا ہے تو وہائٹ ہاؤس، تل ابیب، لندن، حیفہ میں موجود اولاد یزید کے ایواںوں کے بھاری برج ہلا کر رکھ دیتا ہے ، یہ صرف دس دن کا عزادار نہیں یہ پورا سال عزاداری کرتا ہے، کبھی اپنے دادا کے قاتلوں کی اولاد آل سعود کے منہ پر طمانچے مار کر عزاداری کرتا ہوا نظر آتا ہے، کبھی یہود کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی مدت بتا کرعزاداری کرتا ہے، کبھی آل سعود کے باپ آمریکا کو چنے چبوا کر ان کو مذاکرات پر مجبو کر کے عزاداری کرتا ہے، کبھی رمضان میں آنے والے سیلاب سے متاثره پاکستانیوں کی حالت کو یاد کر کے خطبے میں آنسو بہا کر عزاداری کرتا ہوا نظر آتا ہے...یہ ہے اس کی عزاداری...

لیکن افسوس کہ جن پاکستانیوں کیلئے اس نے آنسو بھائے اسی پاکستان میں اس عزادر کو گالیاں دی جاتی ہیں، برا بھلا کہا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔۔۔ کیوں؟ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کونے میں بیٹھ کر رونے والوں نے ہمیشہ سڑک پر آکر باطل کیخلاف تلوار لہرانے والے کی مخالفت کی ہے۔ متعدد پاکستانی جنهوں نے عزاداری کا مقصد صرف خود کو خون میں لت پت کرنا هی سمجھ رکھا هے، اس سید علی خامنه ای کو عزادار ہی نہیں مانتے کیوں کہ اس سید نے کہا کہ عزادری کو نمونہ عمل بناؤ کہ دنیا دیکھ کر نفرت نہ کرے؛ عزاداری میں اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھو؛ برادران اہل سنت کی مقدسات کا احترام کرو... تو یہاں کے کچھ "عزاداروں" نے کہا یہ کون ہوتا ہے ہمارے رونے اور تبرے میں خلل ڈالنے والا، ہمیں تقدس کا پاٹ پڑھانے والا!

ان مخالفین مجتھدین (بالخصوص سید علی خامنه ای) کا دعوی هے که ان کے لیئے سادات کے احترام اور عزاداری سے بڑھ کر کچھ نهیں! یہ سید علی خامنہ ای کو گالیاں دیتے ہیں جب که یه صاحبان خود فرماتے هیں که سید جیسا بھی هو اس کا احترام کرو, "جیسا بھی" هے سید تو هے! لیکن جب رھبر معظم کی بات آئے تو سیادت نهیں دیکھی جاتی! بھیا اب کیا کہوں کہ ان کوسادات کی عزت و حرمت کا کتنا لحاظ هے, میں لکھنا نهیں چاهتا تھا مگر جس طرح یه بیهوده قسم کے لوگ رھبر معظم کی سوشل میڈیا پر بے حرمتی کرتے هیں اسے دیکھ کر مجبورا ان کی خامیوں سے پرده اٹھانا پڑا. یہ تو وہ ہیں جن کی اکثریت یه عقیده رکھتی هے که سید زادی کا نکاح غیر سید لڑکے سے حرام ہے یعنی نعوذ باللہ پوری دنیا میں جن جن سید زادیوں کے نکاح غیر سید سے ہوئے ان کے نکاح جائز هی نہیں، نکاح جائز نہیں تو عورت کا مرد سے تعلق زنا کا! استغفراللہ!!! یه هے ان کا احترام سادات که اپنی پیری مریدی بچانے کے چکر میں دنیا کے تمام سید زادیوں کہ جنہوں نے غیر سید مومن سے نکاح کیئے کو زانیہ کہہ دیتے ہیں! اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ان کے یہاں سادات کے احترام اور عزاداری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ سادات کااحترام یہ کہ سید زادیوں کے نکاح حرام کہہ ڈالو??? ان زھرا زادیوں پر زنا کا الزام لگاؤ, ان کی جائز اولاد کوناجائز کهو??? اور عزاداری یہ ہے کہ کونے میں بیٹھ کر ظالم کے ظلم پر روتے رہو یا اٹھا کر خود کو خون میں لت پت کردو اور سو جاؤ جب که ظالم حکمران تمهارے شیعوں کو چن چن کر مارتا رهے۔??? شیعه ماؤں کی گود اجڑنے پر کوئی احتجاج نهیں ان کی طرف سے, نه ان کے لواحقین کی امداد کیلیے ان کا کوئی اداره, نه زینب (س) کے روضے پر حملے کیخلاف اقدام , نه یمن کے مظلوموں..... بس بڑے عزادار بنے پھرتے هیں بات کرو تو ماں بھن سے کم کی گالی نهیں, فلاں عالم دین یه , فلاں مجتھد ایسا فلاں فقیه ویسا ... یه هے ان کی عزاداری....کیا لکھوں .... بس اب آپ ہی فیصلہ کیجئے وقت کا اصلی سید کون، بڑا عزادر کون؟

میرے مولا حسین (ع) مجھے بتائیں!

 

میرے مولا حسین (ع) مجھے بتائیں!

تحریر: محمد زکی حیدری


مولا! میرے مظلوم مولا! آپ پر ، آپ کی آل و انصار پر میرا سلام! مولا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کا پاکستانی عزادار ہوں۔ جیسے ایک بچہ صورتخطی لکھنا سیکھتا ہے تو بار بار اپنے استاد کو دکھا کر تصدیق کرتا ہے کہ وہ صحیح لکھ رہا ہے یا نہیں اسی طرح میں بھی آپ کی عزاداری کر کے آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ میں صحیح سمت جا رہا ہوں یا نہیں۔ میں آپ کو اپنی عزاداری کی ساری تفصیل بتا دیتا ہوں پھر آپ پر ہے کہ مجھ ایسے گنہگار کو اپنا جواب کس طرح عطا فرماتے ہیں۔

مولا! میں نے جب آنکھ کھولی تو مجھے بتایا گیا که هم شیعه هیں, محرم میں میرے سارے رشته دار, عزیز و اقارب سیاه لباس زیب تن کرت,ے ماتم کرت,ے مجھے بتایا گیا که یه سب اس امام (ع) کے غم میں کیا جاتا هے جنهیں کربلا نامی جگه پر شھید کیا گیا. مجھے نه امام کے معانی پته تھی, نا شھید کی.

پھر میں کچھ بڑا ہوا اسی طرح عزاداری کرتے رہے، جلوس، مجالس ، مصائب میں... میں سمجھ گیا کہ مخصوص دنوں میں مخصوص سرگرمیاں ہی انجام دی جاتی ہیں جیسے رمضان والی عید پہ نئے کپڑے پہنتے ہیں سوویاں پکتی ہیں ، اور قربانی والی پہ نئے کپڑے پہن کر گوشت کھاتے ہیں اسی طرح محرم میں کالے کپڑے پہن کر جلوس میں جاتے ہیں۔

قریبی شہر کے ہائےاسکول میں گئے تو سنیوں نے کہا تم شیعوں نے ہی امام حسین (ع) کو مارا اور تم ہی ماتم کرتے ہو اس سوال نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا میں سوچتا تھا یہ کیوں ایسا کہتے ہیں۔ اب جب تھوڑی بھت عقل آ چکی تھی تو میرے ابو جو خود بھی ایک خطیب ہیں، سے میں نے پوچھا کہ ابو کیا امام حسین (ع) کو ہم ہی نے مارا؟ بولے نہیں! کوفہ شہر کے لوگوں نے خطوط لکھے کہ امام آپ آجائیں ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ پھر ؟ پھر کیا ہوا ابو؟ تو بیٹا وہ "بے وفا" نکلے اور امام (ع) کو اکیلا چھوڑ دیا۔ میں نے پوچھا ابو یعنی کوفے والے بھی امام (ع) کے چاہنے والے تھے؟ بولے ہاں لیکن بعد میں مکر گئے، اور جب مکر گئے تو مرتد ہوگئے۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ سنی ایساکیوں کہتے ہیں۔ کوفہ والے امام (ع) کے چاہنے والے ہی تھے، جنہوں نے امام (ع) کو بلایا تھا اور نہتا چھوڑ دیا۔

مولا! ان کوفیوں کا سن کر میں نے سوچ لیا کہ آپ سے وفا کرنی ہے، بے وفا نہیں بننا، میں نے نوحہ خوانی سیکھی، میں نے مجالس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، راتوں کے رات جلوس میں چلا، حتیٰ نماز تک چھوڑ دی، کہ نمازتو کوفی بھی پڑھتے تھے، ان تکھ عزاداری، عزاداری اور بس عزاداری! صرف اس لیئے کہ میں اپنی وفا ثابت کر سکوں۔ اب میں بڑا ہوں عاقل ہوں ہر سال عزاداری کرتا ہوں مگر مجھ سے میرے کچھ دوست بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں کہتے ہیں اصل عزاداری یہ نہیں! امام (ع) سے وفا کا مطلب ہے کل کے یزید کی نہیں بلکہ آج کے موجودہ یزید کے خلاف قیام کرنا، امام حسین (ع) سے وفا یہ نہیں کہ ہم ان کے نام پر رونے کی ایک رسم چلا دیں اور بس رونے کو ہی اپنا شعار بنا لیں جب کہ ایوان انبساط پر اسی یزید نما ظالم کا قبضہ ہو اور وہ امام (ع) کے چاہنے والوں کو چن چن کر مارتا رہے، ماؤں کی گود اجڑتی رہے، پڑوس میں کسی جوان شہید کے سوئم کی مجلس میں اس کی ماں رو رہی ہو اور تم اپنے گھر میں مجلس کروا کر صدیوں پرانے یزید پر لعنت کر رہے ہو۔۔۔

مولا ! یہ میرے عجیب و غریب قسم کے دوست کہتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے دور میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ نہیں کی تھی یزید نے، یزید نے کسی امام بارگاہ پر بم نہیں پھینکوایا تھا، یزید نے کسی کو بسوں سے اتار اتار کر مارا نہیں تھا، یزید نے بازاروں میں ، مسجدوں میں، دکانوں میں امام حسین (ع) کے چاہنے والوں کو مارا بھی نہیں تھا ۔۔۔ کچھ نہیں کیا تھا یزید نے صرف امام حسین (ع) سے کہا تھا مجھے ووٹ دو، میری بعیت کرو، صرف زبانی ہی مان لو کہ میں تیرا حکمران! مگر امام (ع) نے لٹ جانا، مٹ جانا، قتل ہوجانا، گھر لٹا دینا تو گوارا کر لیا مگر ووٹ نہیں دیا، ظالم کی حکمرانی کا انکار کربلا کی شروعات تھی۔ تم لوگ ایک طرف خود کو حسین (ع)کا کہتے ہو دوسری طرف ان لوگوں جو تمہیں چن چن کر مارتے ہیں کے نعرے لگاتے ہو، انہین ووٹ دیتے ہو، انہیں انکار نہیں کرتے ۔۔۔ حسین (ع) کا انکار کربلا کی شروعات تھی، تم انکار کیوں بھول گئے؟ تم نے کتنے انکار کیئے ہیں آج تک؟ کیا امام (س) سے وفا یہ ہے کہ تم ایک رسم بنا لو رونے کی اور ہر سال رسم نبھاؤ۔ رونے کی رسم تو بنا رکھی ہے حسین (ع) کے انکار کی رسم کہاں ہے؟؟؟ تمہاری رسم اور حسین (ع) کی رسم میں فرق کیوں؟ اور دیکھو تمہاری اس رسم کا کیا اثر ہو رہا دیکھ لو، ہو رہا ہے کچھ اثر؟ نہیں کوئی نہیں ، کچھ نہیں رسم تو رسم ہوتی ہے۔۔۔

مولا! انہوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ تم نے اپنی اس رسم سے کتنے ظالموں کے دانت کھٹے کئے ہیں آج تک؟ یزیدیت کتنی کمزور ہوئی؟َ

مولا! یہ میرے دوست کہتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں حسینت ہو وہاں یزیدیت کو اس سے خوف نہ ہو، جہاں حسینیت ہو وہاں ممکن ہی نہیں کہ یزید طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا جائے ، جہاں یزیدیت طاقتور ہوتی چلی جائے سمجھ جاؤ وہاں حسینیت کمزور ہوتی جا رہی ہے، وہ کہتے ہیں دیکھو پاکستان میں یزیدیت کمزور ہو رہی ہے یا طاقتور؟ وہ پھر ادھر اھر جیسے ایران، لبنان، یمن، شام وغیرہ کے حسینوں اور حسینیت کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ وہاں دیکھو یزیدیت مسلسل پریشان ہے کیوں کہ اسے وہاں کی حسینیت کے علاوہ کسی سے خوف نہیں۔

لیکن مولا میرے ماموں کہتے ہیں کہ عزاداری رسم ہی سہی لیکن ہونی چاہیئے کہ امام حسین (ع) کا نام زندہ رہے، اب ہم اتنا حسین (ع) حسین (ع) کرتے ہیں پھر بھی ذاکر نائک جیسے کہتے ہیں یزید اچھا تھا، تو اب ہمیں اس عزاداری کو جاری رکھنا چاہیے، مولا یہ بات جب میں نے اپنے ان عجیب و غریب باتیں کرنے والے دوستوں کو بتائی تو انہوں نے کہا چلو مان لیتے ہیں کہ تمہاری اس رسمی عزاداری سے ایسے لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہیئں، تو ذرا دیکھو بھلا, ذاکرنائک جیسوں کی تعداد ہی کو دیکھ لو, کیا کم ہوئی ہے یا بڑھ رہی ہے؟ مولا میرے پاس ان کی اس بات کا بھی جواب نہیں کہ واقعی ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
مولا! یہ کہتے ہیں کہ امام سے محبت تو کوفیوں کو بھی تھی مگر انہوں نے ابن زیاد کے ڈر سے ووٹ کا انکار نہیں کیا، حیسنیت کا تقاضہ تھا کہ انکار ہو لیکن انہوں نے ان کار نہیں کیا، اپنے اوپر ظالم کو ہی مسلط رہنے دیا، وہ ڈرپوک تھے، وہ توجہیات پیش کرنے والے تھے ، رسمِ محبت ان کے پاس بھی تھی اس لئے خطوط لکھے رسمِ محبت تمہارے پاس بھی ہے تم میں اور کوفیوں میں اگر فرق ہے تو بتاؤ!!! انہوں نے اپنی کھوکھلی رسم سے ایک امام شہید کروا دیا تم اپنی رسم سے امام کے چاہنے والے مروا رہے ہو فرق کیا ہے؟

مولا ! مجھے بتائیں آپ سے وفا یہ والی عزاداری جو میں کر رہا ہوں ہے یا وہ عزاداری جو میرے یہ عجیب و غریب دوست کہہ رہے ہیں وہ؟ مولا مجھے جواب دیں۔ میں نے فیصلہ آپ پر چھوڑا۔

www.facebook.com/arezuyeaab

یعقوب (ع) کی عزاداری اور ہم

 
 
یعقوب (ع) اور ہم
 
یوسف (ع) کے غم میں یعقوب (ع) نابینا هوگئے ... هم حسین (ع) کے غم میں نابینا هوجاتے اگر غم هوتا... کاش اتنا غم هوتا که سجاد (ع) کی طرح خون کے آنسو بھا سکتے.... تب بات تھی... تب خون کا پرسه هوتا... نور کا پرسه ... آنکھوں کا نور گنوا دو تو کهیں که عشق هے...
یعقوب (ع) کی پهنچ میں چھریاں تھیں... تیز دھار والے آلے سجاد (ع) کی دسترس میں تھے مگر عشق و عزا کے طریقے نرالے تھے ان کے... واه...


محمد زکی حیدری

عقل کی بتی جلائے رکھیں!

 

 
عقل کی بتی جلائے رکھیں!

تحریر: محمد زکی حیدری

ایک پاگل جھاز میں بولا بھائی مجھے تو کھڑکی والی سائڈ جو سیٹ هے اسی پر هی بیٹھنا هے ! عمله پریشان, لوگوں نے بھت سمجھایا که بھائی وه سیٹ کسی اور کو الاٹ هے, مگر نهیں وه پاگل بضد تھا که اسے اسی سیٹ پر هی بیٹھنا هے.اتنے میں ایک بزرگ جو ذرا عقلمند تھے اور یه سب دیکھ رهے تھے, اٹھے پاگل کے پاس پهنچ کر اس کے کان میں کچھ کها. یه سنتے هی پاگل اپنی سیٹ پر آگیا. سب نے بزرگ سے پوچھا آپ نے ایسا کیا کها پاگل کو که وه مان گیا. بزرگ بولے میں نے اس کے کان میں جاکر کها که کھڑکی کی طرف جو سیٹ هے وه لاھور جائے گی تم تو دبئی جا رهے هو نا دبئی والی سیٹ پر بیٹھو.

مجھے کبھی کبھار پاکستانی شیعوں کا بھی اسی پاگل سا حال معلوم هوتاهے. مجتھدین ایک واضح بات کردیں تو بھی پاکستانی نهیں مانیں گے "نهیں بھائی یه کیسے هو سکتا هے, بات ھضم هی نهیں هوتی." میں مثال دے دوں آقای بشیر نجفی نے فتوا دیا که سیدزادی سے غیر سید کا نکاح جائز هے. همارے برادران ناراض هو گئے که یه کیا بات هوئی, نهیں هم تو نهیں مانتے. آغا نے فتوامیں جمله ایڈ کر دیا که جهاں فساد کا ڈر هو وهاں "جائز نهیں" یه سن کر همارے دوست خوش هوگئے که هاں یه هوئی نا بات اب ٹھیک هے. ناجائز کا لفظ آگیا. جب که ان عقلمندوں سے یه کها جائے که ذرا غور تو کرو آقا نے هرگز فتوا تبدیل نهیں کیا, فساد تو کسی بھی عمل سے هو تو وه عمل ناجائز هے چاهے شیخ کی شادی شیخ سے هو رهی هو اس سے فساد هوتا هے تو ناجائز هے. مگر ایک جائز کام کے فتوا میں ان عاقلوں کو لفظ "ناجائز" لااااااازمی دیکھنا تھا سو فتوا میں جب یه لفظ دیکھا تو خوش هو گئے.
اسی طرح کل عزاداری پر بات شروع هوئی مستحب هے یا واجب!!! سب فقهاء نے کهه دیا عزاداری اپنی عام حالت میں مستحب هے. لیکن همیں یه بات ھضم نهیں هوتی. یه "هم" جو هیں نا اپنی "هم" سے باهر آهی نهیں پاتے. مجبور هو کر ایک بزرگ عالم آیا اس نے فرمایا اگر حالات فلاں فلاں نوعیت کے هوں تو عزاداری واجب! صاحبان خوش که واه یه هوئی نه بات... واجب کا لفظ آگیا... اتنا بھی نه سوچا که فتوا جوں کا توں هی هے که عام حالت میں مستحب هے اگر مگر ڈال کر واجب هوئی.
همیں فقهاء کی بات من و عن ماننے میں اتنا بخار کیوں چڑھ جاتا هے? هم ان مجتھدین کے علم سے بھی واقف هیں, ان کی تقوا سے بھی, ان کی قربانیوں سے بھی واقف هیں هم ان کی شخصیت میں ایک بھی بڑا عیب, ایک بھی حرام فعل نهیں دکھا سکتے پھر بھی جب وه کچھ کهیں تو همیں اس منبری مولوی و خطیب کی بات یاد آجاتی هے جسے هم دوهزار کم دے دیں تو فون کر کے همیں سناتا بھی هے اور آئنده مجلس میں نه آنے کی دھمکی بھی دیتا هے. اس مولوی اس خطیب کی بات کو بنیاد بناکر هم ایسی ھستیوں کی بات سے کیڑے نکالتے هیں جن ھستیوں نے مکتب اھل بیت (ع) کیلئے اپنی زندگیاں دے دیں. یه هین هماری عقلیں! خدارا عقل کی بتی جلا کر رکھیں تا که زندگی منور رهے.

 

دنیا بھر کے شیعوں کو چیلنج کا جواب

 

ان اعتراضات کے جوابات

از قلم: محمد زکی حیدری

1. علی (ع) پر جب سب و شتم هوا تو علی (ع) کے پیروکاروں نے اذان میں علی (ع) کے نام کا اضافه کیا. اموی دور میں جمعه کے خطبات میں امام علی (ع) پر لعنت کی جاتی تھی جو که اموی خلیفه عمربن عبدالعزیز کے دور تک جاری رهی انهوں نے آکر اس بدعت کا خاتمه کیا. یه علی (ع) کا نام ڈالنا ان خطبات میں کی جانے والی لعنت و معاویه کے پروپگنڈا کا ردعمل تھا.

2. تراویح پر شیعه کو کوئی اعتراض نهیں, تراویح کی جماعت پر اعتراض هے جو که عمر کی شروع کی هوئی بدعت هے. نبی (ص) نے مسلسل تروایح اس لئے نهیں پڑھائی که کهیں فرض نه هوجائے حضرت ابوبکر نے بھی ایسا کیا لیکن حضرت عمر نے جماعت کھڑی کر دی.

.
3.امام بارگاه علی (ع) کیوں بنواتے جب حسین (ع) کی شھادت هی دور علی (ع) کے بعد هوئی..

4. متعه ختم هی کب هوا جاری هے. حضرت عمر کا اسے حرام قرار دینا ثابت کرتا هے که نبی (ص) و حضرت ابوبکر کے دور میں حلال تھا.
.
.
5.باغ فدک گیند کی طرح رها علی (ع) کے دور میں اھل بیت (ع) کے حصے میں رها پھر چھینا گیا پھر عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اھل بیت (ع) کو ملا پھر بعد میں آنے والے حاکم نے چھینا پھر جب بھی کوئ اھل بیت (ع) کیلئے دل میں نرم گوشه رکھنے والا آیا تو اس نے اھل بیت (ع) کے نام کیا.
عمربن عبدلعزیز کا فدک اھل بیت کے حوالے کرنا ثابت کرتا هے که عمر اول غاصب تھا.
.
اور سنائیں مولانا صاحب چائے چلے گی یا ٹھنڈا... حلوے کا انکار تو آپ کے یهاں گناه کبیره هے.😜


الاحقر محمد زکی حیدری
www.fb.com/arezuyeaab

ایک قدم  

ایک قدم
 
ابوسعید ابوالخیر کو ایک مسجد میں تقریر کرنی تھی گرد و نواح کے گاؤں اور شہروں سے لوگ آکر ان کی تقریر سننے کیلئے جمع ہوئے، حتیٰ کہ بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی  اور کچھ لوگوں کو مسجد کے باہر بیٹھنا پڑا لھٰذا ابوسعید ابوالخیر کے شاگرد نے لوگوں سے کہا "آپ کو خدا کا واسطہ جس جگہ آپ تشریف فرما ہیں اس جگہ سےایک قدم آگے آئیے" سب لوگ ایک قدم آگے آکر بیٹھ گئے۔
ابوسعید ابوالخیر کے تقریر کا وقت آیا توانہوں نے تقریر کرنے سے انکار کردیا! وہ لوگ جو ایک گھنٹے سے منتظر تھے اور بیٹھ بیٹھ کر خائف ہوگئے تھے، نے احتجاج کرنا شروع کردیا ابوسعید ابوالخیر نے تھوڑی  دیر خاموش رہنے کے بعد کہا "میں جو کچھ آپ لوگوں سے کہنا چاہتا تھا وہ میرے شاگرد نے کہہ دیا ، آپ ایک قدم بڑھائیں اللہ دس قدم آپ کی طرف بڑھائے گا۔"
 
منبع: www.pandamoz.com
مترجم: محمد زکی حیدری و آب

arezuyeaab.blogspot.com

افواہ

افواہ
 
ایک عوت نے اپنے ایک پڑوسی شخص کے بارے میں بہت ہی نازیبا بات گڑھی اور اسے پورے محلے میں پھیلا دیا۔ تھوڑے عرصے میں ہی یہ بات پورے شہر میں پھیل گئی، سب کو پتہ چل گیا اور اس افواہ کی وجہ سے اس شخص کو بہت صدمہ پہنچا اور اسے مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا۔ ایک مدت کے بعد اس عورت نے اس شخص کا حال دیکھا تو اسے پشیمانی ہوئی لھٰذا وہ ایک بزرگ کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ کس طرح اس جرم کا ازالہ کرے۔
بزرگ نے اسے کہا: بازار جاؤ اور ایک مرغہ خریدو، اسے مار کر اس کے پروں کو اپنے محلے میں ایک ایک کرکے پھیلا دو اور کل میرے پاس آنا۔" عورت کو تعجب ہوا مگر اس نے بزرگ کی بات مانتے ہوئے اس کام کو انجام دیا۔
اگلے دن جب وہ عورت اس بزرگ کے پاس آئی تو بزرگ نے اسے کہا :"اب جاؤ جو جو پر تم نے محلے میں پھیلائے تھے انہیں لے آؤ!" عورت گئی مگر تین چار پروں سے زیادہ لے کر نہ آ سکی۔   بزرگ نے اس عورت سے کہا: جس طرح پروں کا پھیلانا آسان تھا اور پھر سے انہیں جمع کرنا مشکل، اسی طرح افواہ کا پھیلانا بھی آسان ہوتا ہے مگر اسے ختم کرنا بہت مشکل۔"
 
 
مترجم: محمد زکی حیدری و آب
arezuyeaab.blogspot.com

کیا سورہ یوسف میں قمعہ زنی کی دلیل ہے؟

 

سلام بھائی ایک ذاکر نے دلیل دی که جب مصر کی عورتوں نے یوسف (ع)  کو دیکھا تو عشق یوسف (ع) کے عشق میں اپنی انگلیاں کاٹ دیں لھذا هم بھی زنجیر اور تلوار والا ماتم کر کے حسین (ع) کے عشق میں خون بھاتے هیں. بھائی کیا زنجیر کا ماتم واقعی قرآن سے ثابت هے؟

 
(پسند علی 
یونیورسٹی آف سنده جامشورو, سنده)
 
برادر عرض هے که یه محض قرآن سے عوام کی لاعلمی کو بنیاد بنا کر عوام سے پیسے بٹورنے کے حربے هیں .قرآن کی جس آیت کا حواله اس ذاکر نے دیا هے وه سوره یوسف کی آیت نمبر 31 هے که جب زلیخه نے مصر کی عورتوں سے کها که تم مجھے بڑے طعنے دیتی هو که میں ایک غلام په عاشق هوئی لو چھریاں هاتھ میں اور دیکھو خود اپنا ضبط! پھر یوسف ع کو حکم دیا که ان کے سامنے سے گذرو جب مصر کی عورتوں نے یوسف ع کو دیکھا تو بیخودی میں انهوں نے اپنے هاتھ کاٹ ڈالے... یه تھا مفھوم سورہ یوسف کی آیت 31 کا۔ لیکن یهاں مت رکیں اسی سوره کی ایک  آیت چھوڑ کر اگلی دو آیات پڑھیں ان میں صاف لکھا هے یه عورتیں مکار تھیں ان کے شر سے بچنے کیلیے یوسف (ع) نے انهیں آیات میں الله سے دعا کی اور الله نے بھی فرمایا که میں نے یوسف (ع) کو ان کی چال سے بچا لیا.
ذاکر کا علم یه هے که ان مکار عورتوں کے فعل کو عزاداری حسین (ع) کی دلیل بنانے کی کوشش کر رها هے افسوس! جن پر خدا کی لعنت هو ان کے فعل کو دلیل بنانے لگ گئے یه لوگ. ٹھیک هے بھائی پھر جیسی وه عورتیں ویسے تم لوگ! لگے رهو همارا کیا جائے۔۔۔
 نوجوانو خدارا قرآن کے قریب آئیں, پڑھیں مطالعه کرین سنی سنائی پر مت چلیں.
هم دلیل کے طور پر سوره یوسف کے اس صفحه کی تصویر بھی بھیج رهے هیں جس میں اوپر ذکر کی گئ آیات اردو ترجمے کے ساتھ موجود هیں پڑھیں.
 
محمد زکی حیدری آب

 

www.facebook.com/arezuyeaab

شیعه خاک شفا په سجده کیوں کرتے هیں؟

السلام العلیکم برادر شیعه خاک شفا په سجده کیوں کرتے هیں؟


(حسیب قمبرانی ماتلی

 
(ساده جواب)
.
پهلے تو هم آپ سے پوچھتے هیں کیا خاک پر سجده نهیں هوتا؟ آپ کهیں گے جی کیوں نهیں ضرور هوتا هے. نبی ص کے دور میں خاک هی پر سجده هوتا رها ٹائلز اور ماربل وغیره تو بعد میں آئے. مسجد نبوی میں بھی سجده خاک پر هوا کرتا تو اگر هم کهیں نبی ص کی سجده گاه خاک تھی تو غلط نه هوگا. یعنی ثابت هوا که خاک پر سجده کرنا غلط نهیں بلکه عین سنت نبوی هے.
اب آپ کهو که خاک کربلا کو کیوں سجده گاه بناتے هو تو جناب جس طرح آپ کو مقام مقدسه بالخصوص مکه و مدینه کی تسبیح اور ٹوپی اور جا نماز اور.... وغیره دوسرے ممالک کی بنی هوئی ان قسم کی اشیاء سے زیاده محترم و محبوب هے اسی طرح همارے یهاں بھی سجده هر قسم کی خاک, کھجور کی بنی صف, پتھر وغیره پر هو جاتا هے مگر خاک کربلا اس لیئے که هم اسے خون حسین ع کی نسبت کی وجه سے زیاده محترم و محبوب سمجھتے هیں . 
اور جی هاں هم آپ کی عالمانه ذھنیت سے بخبوبی واقف هیں اب آپ یهی کهو گے که کربلا کی خاک میں تو یزید کے فوجیوں کا خون بھی شامل هے صرف حسین ع کا نهیں تو آپ کے اس "علمی" سوال کا جواب یه هے که  آپ قرآن کو کیوں چومتے هیں جب که اس میں ابولھب , فرعون, حتی که خنزیر کا ذکر بھی هے کیا آپ ان کے ناموں کو چومنے کی نیت سے قرآن کو بوسه دیتے هیں? نهین نا? اسی طرح کربلا کی خاک کا احترام بھی هم همارے پاک امام (ع) اور ان کے انصار و اصحاب کے خون کی وجه سے کرتے هیں نه که سپاه یزید کے خون کی وجه سے.
.
والله اعلم باالصواب....
 
محمد زکی حیدری و آب


www.facebook.com/arezuyeaab

جناب ماحول بھی دیکھا کریں!

 
 
جناب ماحول بھی دیکھا کریں!
 
تحریر:محمد زکی حیدری
 
ہر نبی  نے جب دین کا پیغام پہنچایا تو اسے پتھر لگے اسے لعن طعن کیا گیا مگر انہی انبیاؑ کے دین کی "حق" بات منبر نشین بتاتا ہے تو لوگ واہ واہ کرتے ہیں؟ کیوں؟ کیونکہ انبیا وہ کچھ بتاتے تھے جو "حق" ہو اور منبر نشین (اکثر) وہ کچھ بتاتے ہیں جو عوام سننا چاہتی ہے۔۔۔
میرے کسی محترم دوست نے بتایا کہ ایک ذاکر نے بھرے مجمعے میں کہا جب علی (ع) آسمان پر گیا تو اللہ بن گیا جب اللہ زمین پر آیا تو علی (ع) بن گیا۔۔۔ میں ان لوگوں کا ان ان پڑھ معصوموں کا، ان بھولے بھالے شیعوں کا، ان محبتِ اہلبیت سے سرشار لوگوں کا جنہوں نے ذاکر کی اس بات کو حق سمجھ کر اس پر واہ واہ کی ہوگی، کا سوچ رہا ہوں!۔۔۔ ان کا کوئی قصور نہیں وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں، مجلس کو عبادت سمجھ کر آتے ہیں،قرآن و حدیث و تاریخ و منطق کا علم انہیں نہیں، انہیں ذاکر جا کر فضول باتیں بتا کر ان کے عقائد خراب کرتا ہے تو ہم لوگ جو کہ سب کچھ جانتے ہیں کیا کر رہے ہین؟؟؟ ذاکروں کو وظیفہ نہیں ملتا، ایران میں، نجف میں ذاکروں کا کوئی حوزہ علمیہ نہیں کہ جس سے ہر سال سینکڑوں ذاکر فارغ التحصیل ہوکر نکلیں،  لیکن ان کے کام دیکھیں ذرا! آپ کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ  شہادت ثلاثہ جیسا خرافاتی عقیدہ اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ بات ہمارے مجتہدین تک جاکر پہنچے گی۔۔۔۔ ذاکر کا پھیلایا ہوا کچرا ہمارے مجتہد تک جاتا ہے لیکن ہمارا "کچرا صاف" کرنے کی کوئی رپورٹ مجتہدیں تک نہیں جاتی کہ جناب فلاں عقیدۂ باطل کو، فلاں خرافاتی رسم ورواج کو ہم نے پاکستان سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔  نہیں ہم "نئی چیز" لانے سے ڈرتے ہیں چاہے وہ حق ہی کیوں نہ ہو ہم منبر پر بیٹھ کر بیبی صغریٰ (س) کو بیمار کہتے ہیں کیونکہ وہ عوام میں بیمار مشہور ہیں جو مدینہ میں رہ گئیں تھی، کوئی بتانے آئے  بھی تو ہم سب مل کر اسی کی مخالفت کرتے ہیں کہ بھائی "ماحول کو بھی دیکھا کرو" ، کئی سیدزادیوں کے قرآن سے نکاح کردیئے گئے کنواریاں رہ گئی، اور اس طرح دیگر ذاتوں میں بھی لڑکیوں پر یہ ظلم روا ہے، سیدزادی کا نکاح غیرسید سے جائزہونے کا عوام کو نہیں بتاتے کیونکہ سادات ناراض ہوں گے "ماحول کو بھی دیکھا کریں" ہم مہندی کی جگ ہنسا رسم پر بات نہیں کرتے کیوں کہ "ماحول کو بھی دیکھنا پڑتا ہے" آپ مجھے بتائیے اس عالم دین کا کیا کہ جو 20 سال 25 سال سے منبر کا مشہور خطیب ہے اور ہے بھی حوزہ علمیہ کا پڑھا اس نے آج تک اپنے کیریئر میں کتنی خرافات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھیکنے کی بات کی ؟ اس نے جہالت کے اندھیرے میں گھرے ہوئے معاشرے کو اوپر لانے کیلئے کیا اقدام کیا؟
ہم جب بھی اصلاح کی بات کرتے ہیں ہمیں یہ کہا جاتا ہے "ماحول کو بھی دیکھا کرو" کیا حسین (ع) کو آپ کے  جتنی بھی عقل نہ تھی کہ ماحول کو دیکھتے، مستورات لے کر چلے گئے، کاش پیغمبر (ص) کو بھی جاہل عقائد کا لحاظ ہوتا، ابولہب، ابوسفیان، ابوجہل کی "فیلنگس" (جذبات و عقیدتمندی) کا احترام ہوتا،  بتوں کو بیشک نہ مانتے لیکن چپ رہتے دوسروں کو تو نہ بتاتے، منبر پر چڑھ کر بولے کہ تمہارے عقیدے غلط، تمہارے باپ داد بھی غلط اور 360 بتوں میں سے ایک کا بھی لحاظ نہ کیا اٹھا کر سارے کے سارے ٹوڑ دیئے بلکل "ماحول کا لحاظ " لوگوں کی "عقیدتمندی" کا لحاظ نہ کیا ۔۔۔ آج خرافات کے بت جنہوں نے ہماری عوام کو ذاکروں کی دولت کی حوس کے چنگل میں پھنسا کر انہیں اسلام ناب محمدی و امامت ناب علوی سے دور کر دیا، کے خاتمے کی بات آتی ہے تو تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود ہمارے مدرسے کے طلاب منبر پر "مصلحت " سے کام لیتے ہیں جیسا چلتا ہے چلنے دو! "ماحول خراب نہیں کرنا" 
ذاکر نے مجھے سکھایا ہے کہ عوام میں ہاضمے کی قوت ہے منبر سے جو بھی بتایا جائے عوام مانے گی لیکن بتانے والے ذاکر سینہ تان کر اپنی فضول باتیں، باطل عقائد بتاتے ہیں لیکن ہم حقیقی عقائد یہ بہانا بنا کر نہیں بتاتے کہ "ماحول خراب ہوگا" پاکستان اتنا بڑا ملک نہیں آپ اپنی تعداد دیکھو قم دیکھو نجف دیکھو، ابھی جو تحصیل علم میں مصروف ہو اور جو فارغ التحصیل ہو اپنی تعداد دیکھو اور آپ منبروں پر جاتے بھی ہو لیکن پھر بھی چند ذاکر اپنے عقیدے ببانگ دہل بیان کرتے ہیں  آپ ڈرتے ہو، آپ اپنا عقیدہ پیش کرتے وقت مصلحتیں برتتے ہو ، اگر آپ ان سے زیادہ فعال ہوتے تو معاشرہ بہتری کی طرف جاتا ہوا نظر آتا مگر حالات کچھ الگ ہی کہانی بتاتے ہیں،!  ۔ "بھائی معاشرہ ابھی ان باتوں کیلئے سازگار نہیں۔۔۔" اچھا بھائی کب سازگار ہوگا؟ کون سازگار کرے گا؟ آج تک آپ نے اسے سازگار بنانے کیلئے کیا اقدام کیئے ہیں؟ ہمیں روز غالیوں کی طرف سے کوئی نہ کوئی "خوشخبری" ملتی ہے مگر "عالیوں" کی طرف سے چپ۔۔۔! اور بات دور دور تک پھیل جانے کے بعد دفاع!
امام خمینی (رح) کے حالات زندگی پڑھیئے بزرگ مخالف ہوگئے، پوری روحانیت ان کے خلاف کھڑی ہوگئی کہ جناب "ماحول انقلاب کیلئے سازگار نہیں" امام ڈٹے رہے، صعوبتییں برداشت کیں، جلا وطن ہوئے امام کے فلسفے کے درس پر قم میں پاندی لگی، امام چھپ کر درس دیا کرتے۔ آخر جیت کس کی ہوئی "ماحول کا لحاظ" کرنے والوں کی یا نعرۂ حق بلند کرنے والے کی؟ 1963 میں آمریکا میں کالوں سے ہاتھ ملانا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اس دور میں ایک کالا وکیل ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ آتا ہے اور کہتا ہے "میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب میں آمریکا میں کالے اور گورے نوجوان ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گھومیں گے" اور آج دیکھیئے۔۔۔ میں جرآت و استقامت کے ساتھ حق کیلئے ڈٹ جانے والوں کی دسیوں مثالیں پیش کر سکتا ہوں چاہے وہ آئرلینڈ کا بابی سینڈس ہو، الجزائر کا احمد بن بلہ ہو، افغانستان کا شاہ مسعود ہو، کیوبہ کا کاسترو ہو، چی گوویرہ ہو، ہوچی منہ ہو یا کوئی اور۔۔۔ لیکن جن کے پاس حسین (ع) و زینب (س) جیسے انقلابی نمونے موجود ہوں انہیں کسی اور شخصیت یا "رول ماڈل" کی ضرورت نہیں۔
یاد رکھیں! ہم سب اگر متحد ہوکر عہد کرلیں کہ خرافات مٹاکر معاشرے کو باطل عقائد سے پاک کرنا ہے تو ایک میزائل بن کر تم اس باطل و خرافاتی عقائد کی عمارت کو تحس نحس کرسکتے ہیں، مگر میزائل بننے کیلئے ہمت چاہیئے جیسی ذاکر میں ہے، باطل پر ہوکر ہمارے لیئے روز نت نئے مسائل کھڑے کر دیتا ہے اور آپ ہو کہ "ماحول سازگار نہیں" ان کے لیئے ماحول سازگار ہے تمہارے لئے نہیں۔
قرآن چلا چلا کر کہہ رہا ہے : "وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ"   ترجمہ : اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ"   مجھے تو آپ یہ کہہ کر ٹال دوگے کہ یہ آیت اس کام پر دلالت نہیں کرتی ،اس کا ہمارے حالات پر صادر ہونا صحیح نہیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ آپ "عالم" جو ٹھہرے لیکن جناب آگے بھی چلنا ہے جس امام زمانہ (عج) کی دال روٹی کھائی ہے اس کا حساب بھی دینا پڑے گا بھائی!
معاشرہ ہم لوگوں کا منتظر ہے جناب! ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے لیکن ہم چپ ہیں صرف ذاکر کا دفاع کرتے ہیں اور پوری توانائی اسی میں صرف ہو جاتی ہے۔ آگے بڑھ کر حق بتائیں تا کہ ذاکر کی پوری زندگی گذر جائے اس کے دفاع میں لیکن وہ کبھی دفاع نہ کر پائے ، کیونکہ حق پر باطل کبھی غالب نہیں آسکتا۔ خدا را اٹھیں معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے  اٹھا کر اوپر لائیں، آج بیج بوئیں شجر کی آبیاری آنے والی نسلیں کریں گی، ذرا حرکت تو کریں۔۔۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں جوان طبقہ آپ کا ساتھ دیگا اور جوان آپ کے ساتھ آگیا تو اگلی نسل آپ کی ہے۔ حق بولیئے آپ کو کس کا ساتھ چاہیئے اللہ (ج) آپ کے ساتھ ، محمد (ص) آپ کے ساتھ ، علی (ع) آپ کے ساتھ امام زمانہ (عج) آپ کے ساتھ ۔۔۔ پھر بھی آپ "معاشرے کے سرداروں، ملکوں، چوہدریوں، پیروں، مرشدوں اور وڈیروں"خوفزدہ ہو تو آپ جانیئے اور زیارت عاشورہ کا وہ جملا جانے "وَٲَنْ یَرْزُقَنِی طَلَبَ ثارِی مَعَ إمامِ ھُدیً ظَاھِرٍ نَاطِقٍ بِالْحَقِّ " نیز مجھے نصیب کرے آپکے خون کا بدلہ لینا اس امام کیساتھ جو ہدایت دینے والا مدد گار رہبرحق بات زبان پر لانے والا ہے۔ آپ حق کے امام کا ساتھ دیں گے لیکن وہ "ماحول کا خیال" کریں گے یا نہیں۔۔۔ یہ آپ ان کے آبا و اجداد کی زندگی پڑھ کر اندازہ لگائیں۔  حیف ہے ہم پر اتنے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن حق کہنے کہ بات آتی ہے تو "ماحول۔۔۔

آخری بات! مردہ مچھلی دریا کے بہاؤ کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے جب کہ زندہ مچھلی اپنی حرکت دکھا کر بہاؤ کے مخالف جاکر زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے آپ خود اپنے گریبان میں دیکھیں کیا آپ جاہل معاشرے کے بہاؤ میں بہتے چلے جا رہے ہیں یا اس سے خلاف جا رہے ہیں؟ اگر بہاؤ کہ مخالف ہو تو زندہ ہو نہیں تو افسوس کہ مردہ ہو اور مردہ سے امید لگانا فضول ہے۔

ثواب دارین

 

ثواب دارین

تحریر: محمد زکی حیدری



میں نے خواب دیکھا کہ میں انچولی امام بارگاہ کراچی میں کھڑا ہوں، میرے سامنے ایک شهید شیعہ نوجوان کی میت رکھی ہے، جو چہرے سے ایسا تاثر دے رہا تھا جیسے اسے کسی نے سلگتی آگ پر سے اٹھا کر پھولوں کی سیج پر سلا دیا ہو، وہ مطمئن و مسرور ہے لیکن کونے میں کھڑا اس کا باپ اور اس کے بھائی شہید کے غم سے نڈہال ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، کراچی یونیورسٹی میں کبھی کلاس میں، کبھی باہر میرے موبائل میں جونہی شیعہ کلنگ والوں کا میسج آتا ہے کہ فلاں شیعہ جوان، فلاں شیعہ ڈاکٹر، فلاں شیعہ انجینیئر، فلاں شیعہ طالبعلم، فلاں شیعہ عالم دین فلاں شیعہ۔۔۔ کو شہید کر دیا گیا، تو میں انچولی امام بارگاہ پہنچ جاتا ہوں، تاکہ جنازہ میں شریک ہوکر "ثواب دارین" حاصل کرسکوں، آخر یونیورسٹی اور انچولی کا فاصلہ ہی کتنا ہے بائک پر 5 منٹ بس! اس "ثواب دارین" حاصل کرنے کے بعد شہید اگر با استطاعت ہے تو اس کے سوئم یا چہلم میں ہمارے بڑے بڑے مذھبی رہنماؤں کا خطاب سن کر "ثواب دارین" حاصل کرنے کا موقعہ بھی میں کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

ایک دن بعد حسب دستور اعلان ہوا کہ سوئم کی مجلس میں دونوں شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر شرکت کریں گی اور ان کے رہنماء مجلس پڑھیں گے، شہید کے درجات بلند ہوں گے اور شرکاء کو "ثواب دارین" حاصل ہوگا، لھٰذا میں بھی پہنچ گیا۔ بہت بڑا مجمع تھا، پہلے انقلابی نظمیں پڑھنے  والے آئے، ان کی نظموں کا مدعا یہ تھا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اس کے بعد تنظیموں سے وابستہ علماء خطاب کو آئے، ان میں سے ایک نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اس وقت مجمع لبیک یاحسین کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جب انہوں نے فرمایا "شہادت ہماری میراث ہے، یہ جاہل ہیں، ہمیں مارتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری تعداد کم ہوجائے گی، نہیں یہ ان کی بھول ہے، دنیا میں حلال جانور روز مارا جاتا ہے حرام بہت کم مرتا ہے، لیکن پھر بھی دنیا میں حرام جانور کی تعداد کم ہے، حلال کی تعداد دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم شیعہ حلال جانور کی مثل ہیں اور وہ حرام۔۔۔"

پھر دوسری تنظیم کے ایک بڑے عالم دین آئے۔ انہوں نے تو اور بھی زیادہ جوشیلی تقریر کی اور فرمایا" سن لو ہم لاشے اٹھانے کے عادی ہیں، امویوں نے ہمیں مارا، عباسیوں نے ہمیں مارا، امراء نے ہمیں مارا، بادشاہوں نے ہمیں مارا، افغانی، ترک نژاد سلطانون نے ہمیں مارا، آج کے ڈکٹیٹروں نے ہمیں مارا، ریاستی اداروں نے ہمیں مارا۔۔۔ لیکن سن لو تم تھک جاؤ گے ہم نہیں! ہمارے جوان علی اکبر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بوڑھے حبیب ابن مظاہر کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بچے علی اصغر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! بہنوں کے بھائی عباس علمدار کی طرح مارے جائیں گے! ہمارا افتخار ہے یہ۔۔۔" مجمعے میں ایک بار پھر فلک شگاف نعرے لگنے لگے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔۔۔!

یہ سن کر میں نیند سے بیدار ہوا، میری آنکھ کھلی، خواب کے عکس میری آنکھوں سے سامنے ایک فلم کی مانند چلنے لگے، وہ جوان کی لاش، اسکا والد، بھائی، علماء کی تقاریر، پھر میں نے خواب کا حقیقت کے ساتھ موازنہ کیا، مجھے حقیقت بھی یہی نظر آئی۔ تب میں نے سوچا کیا شہادت ہماری میراث ہے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مرتے رہیں؟ روز جنازے اٹھاتے رہیں؟ کیا امام حسین (ع) کی قربانی کا مقصد یہی تھا کہ مرتے رہو؟ روز لاشے دفن کرکے گھر آجاؤ؟؟؟ ہمارے علماء کو کربلا بہت یاد ہے، شہادتیں بھی یاد ہیں، لاشے پامال ہونا، پیاس، کمسن کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہونا بھی یاد ہے، مگر صرف مرنا یاد ہے مارنا یاد نہیں! ہمیں حسین (ع) کو لگنے والی ضربوں کی تعداد یاد ہے، حسین (ع) کے ہاتھوں سے کتنے یزیدی واصل جہنم ہوئے یاد نہیں!، زینب (س) یاد ہیں لیکن صرف چادر چھننے کی حد تک! ان کی طرف سے دیئے گئے کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دینے والے خطبوں میں مقاومت کا درس یاد نہیں! ہمیں کربلا کے بعد امویوں کا محبان اہلبیت (ع) کے گلے کاٹنے کا کارنامہ یاد ہے، مختار کی طرف سے امویوں کے گلے کاٹنا یاد نہیں!

کربلا سے ہم نے صرف مرنا لیا ہے، جبکہ کربلا میں مارنا پہلے تھا مرنا بعد میں! صرف پیاسے حسین (ع) کی جنگ دیکھو تو جہاد کی محیرالعقول اور عدیم النظیر مثال ہے کہ ایک ناتوان اور پیاسہ کس طرح لڑ رہا ہے، علی اکبر (ع) کیا (نعوذباللہ) بزدلانہ طریقے سے مارے گئے تھے؟ جاکر لہوف ابن طاؤس میں پڑھیئے لکھا هے "و قاتل اعظم القتال" علی اکبر (ع) نے عظیم کشتار کی، جنگ کی، ایک ایک کربلائی بپھرے ہوئے شیر کی مانند سوئے مقتل گیا اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر شہادت کو پہنچا۔ عبداللہ بن حسن (ع)، صحت روایت سے قطع نظر دیکھیئے، جب اس کمسن نے دیکھا کہ حسین (ع) پر فوج مخالف کا ایک سپاہی تلوار تان رہا ہے تو دوڑ کر اس کے آگے آیا فرمایا خبردار اے نامرد میرے چچا پر وار کرتا ہے! کمسن کا ہاتھ کٹا۔۔۔ جون (ع) نے کتنے لاشے گرائے، کس جوش سے حرز پڑھتے ہوئے گئے یاد نہیں! اس ماں کا کیا کہ جس نے اپنے شہید بیٹے کی کٹی گردن دشمن کی طرف پھینک کر کہا کہ لو اسے اپنے پاس رکھو، ہم جو چیز راہ خدا میں دے دیں اسے واپس نہیں لیا کرتے! کربلا کا یہ پہلو کیا آپ کی نظروں سے نہیں گذرا؟ کربلا صرف گلے کٹوانے کا نام ہوتا تو بزدلی کی کہانی ہوتی کربلا نہیں ہوتی! کربلا شروع سے آخر تک جنگ و مقاومت و شجاعت و قتال و۔۔۔ کی کہانی ہے آپ نے کربلا کا اختتام  لے لیا اور رونے لگے...

نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے اس مسئلے کا حل یہی نکالا ہے کہ لڑو اور مرجاؤ، نہیں جناب آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتا ہوں قوم کو حل دینے والا، لیکن معذرت سے کہوں گا کہ آپ ماشاءاللہ شہادت پر بڑی اچھی اور جوشیلی مجلس نما تقاریر کرتے ہیں، مگر ان تقاریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔۔۔ قوم کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ قوم کی مائیں آپ سے امید رکھتی ہیں کہ اس روز روز کے جوان جنازے اٹھانے سے قوم کو کب نجات ملے گی، کیا اس کا کوئی اور حل بھی ہے یا آپ کی تقاریر کے مطابق مرتے ہی رہیں؟؟؟ یہ کون سی کربلا ہے جو دنیا کے باقی شیعوں نے نہیں لے رکھی، صرف پاکستانیوں نے لے رکھی ہے کہ شہادت ہماری میراث ہے، لہذا مرتے رہو۔۔۔۔؟

شام والے مر رہے ہیں لیکن مار بھی رہے ہیں۔ یمن والے قتل ہو بھی رہیں ہیں قتل کر بھی رہے ہیں، لبنان والے ہمیشہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کو پہنچے، عراق والے لڑے، 1920ء میں انقلاب لائے اب بھی لڑ رهے ہیں۔ ایرانی لڑے انقلاب لائے، سب میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہو رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔ کیوں ہے ایسا؟ اس کا حل دیجیئے خدا را "ثواب دارین" کے سوئم اور چہلم ہم بہت کرچکے شہیدوں کے لئے آنکھیں رو رو کر خشک ہوگئیں۔ شیعہ نسل کشی کا حل کیا ہے؟ کوئی لائحہ عمل دیں، کوئی حل بتائیں۔۔۔ کربلا کے مصائب تو ہماری نانی اماں بھی سناتی ہیں، کتابوں اور نوحوں میں بھی سن لیتے ہیں، آپ قوم کی نیا پار لگانے کے دعویدار ہیں، آپ کی ذمہ داری الگ ہے۔ آپ سے امید ہے کہ قوم کو اس مسئلے کا حل بتا کر "ثواب دارین"حاصل کریں گے۔

پریشانی میں سکون

پریشانی میں سکون

 

مال جمع کرنے والے

مال جمع کرنے والے

 

ہدایت کے بعد گمراہی نہ دینا

ہدایت کے بعد گمراہی نہ دینا

 

دکھاوا کرنا

دکھاوا کرنا

 

جو اللہ (ج) کے دین کی مدد کرتا ہے

جو اللہ (ج) کے دین کی مدد کرتا ہے

 

ذرہ برابر نیکی

ذرہ برابر نیکی

 

صدقہ

صدقہ

 

فقر کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو

فقر کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو

 

 

حجاب

حجاب

 

زنا

زنا

 

مشکل میں اللہ اللہ اور بعد میں۔۔۔

مشکل میں اللہ اللہ اور بعد میں۔۔۔