چالیس دن زیارت عاشورا
چالیس دن زیارت عاشورا
چالیس دن زیارت عاشورا
شیعو ہوشیار!
عورت پر اللہ (ج) کی خاص عنایت
شیخ زکزاکی کی کامیابی کا راز
زھرا (س) کی عزاداری اور ہماری عزاداری
ارسطو, اشرفی اور گدھا
تحریر: محمد زکی حیدری
ارسطو نے کہا تھا حسن کی تعریف ہے کُل کے لحاظ سے جُز کی نسبت و تناسب. جتنی کُل کے لحاظ سے جز کی نسبت اچھی ہوگی, مناسب ہوگی, چیز اتنی زیاده خوبصورت لگے گی. یعنی ایسا نہ هو کہ طوطا خود چار فٹ کا ہو اور اس کی ناک 12 فٹ کی. نھیں! جتنا اس کا کُل ہے جز بھی اسی لحاظ سے هو تو طوطا خوبصورت دکھتا هے. اب بات جانوروں کی چل پڑی ہے تو دور کیا جانا طاھر اشرفی کو ہی لے لیجئے, خوبصورت نھیں، کیونکہ اس کا کُل یعنی جسم اور ایک جز یعنی پیٹ ایک دوسرے سے مناسب نھیں هیں...
طاھر اشرفی کو اتنی تسلی تو ہوگی کہ وه اکیلا اس مرض میں مبتلا نہیں ہے بلکه اس کا ساتھی گدھا بیچاره بھی کسی حد تک بڑے کانوں کی وجه سے بدصورتی کا دھبا لیئے مارا مارا پھرتا هے, جیسے طاھر اشرفی پیٹ کی وجہ سے.
ارسطو کی بات کو اگر اعضاء کی نسبت و تناسب سے بالاتر ہوکر سوچیں , یعنی جسمانی حسن کو چھوڑ کر حُسنِ عقل, حُسنِ گفتار, حُسنِ فکر وغیره کی بات کریں تو بھی ہمیں مذکوره بالا دو مخلوقات ایک دوسرے کے قریب قریب نظر آتی ہیں. جہاں گدھا اپنی گندی آواز و صورت کی وجہ سے جانوروں میں متنفر ہے وہاں اشرفی اپنے فرقہ وارانہ انٹرویوز اور تقاریر کی وجہ سے مسلمانوں میں.
ارسطو کو اس وقت یونان میں اگر طاہر اشرفی اور گدھا ساتھ مل جاتے تو اس کی ایک اور تالیف بڑھ جاتی اور فلسفئہ حسن و جمال کی یه دو عظیم مثالیں دے کر وه اپنی بات بخوبی دنیا تک پہنچا پاتا لیکن ارسطو خوش قسمت تھا کہ اس کے دور میں صرف گدھا تھا، همارے دور میں طاہر اشرفی بھی هے.
اگر طاہر اشرفی المراطبون کے دور میں اندلس میں ہوتا تو مشہور مسلمان سائنسدان ابن زھر اپنی تالیف "کتاب الأغذیه" میں طاھر اشرفی کو دیکھ کر ایک باب کا ضرور اضافہ کرتے، جس میں ہاتھی نما انسان کے پیدا ہونے کی صورت میں اس کی غذائی ضروریات پوری کرنے پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی گئی ہوتی.
ہم نے سنا ہے، وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا بس سنا ہے کہ جب طاہر اشرفی پیدا ہوئے تھے تو نرسز ڈر کے مارے بھاگ گئی تھیں, ڈاکٹرز ان کی جسمانی بناوٹ دیکھ انگشت بدندان تھے, موصوف کی بھاری بھرکم جسمی بناوٹ کا مشاھده کیونکہ ڈاکٹر پهلی بار کر رہے تھے لھذا الہٰی رموز سے چھیڑ خانی نه کرنے پر اکتفاء کرتے ہوئے تمام ہیومن ڈاکٹرز (انسانی ڈاکٹرز) اور ویٹنری ڈاکٹرز (حیوانات کے ڈاکٹرز) نے باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا که ملک کے کسی بزرگ کو بلایا جائے جو عالم دین ہو. لہٰذا لدھیانوی مرحوم کو بلایا گیا. انہوں نے اپنے ھاتھ سے دوده کا جگ بچے کے منہ میں ڈالا, جگ اس لئے کیونکہ گلاس, فیڈر, چمچ, یا شیر مادری کفایت نہیں کر رہے تھے تو مجبورا صحت مند بچے کو جگ سے ہی دودھ پلایا گیا.
اسی طرح سنا ہے کہ ایک نرس نے اپنے ماضی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک عجیب حادثے کا ذکر کیا کہ ایک دن وه اور ایک اور نرس مل کر نومولود طاہر اشرفی صاحب کو سر و پا سے اٹھا کر نھلانے کیلئے جارهی تھیں کہ اچانک ایک کے ہاتھ سے بچے کی ٹانگیں چھوٹ گئیں بچه جوں ہی زمیں پر گرا تو فرش کے تین چار ماربل کی اینٹیں ٹوٹ گئیں. شکر ہے ایم ایس صاحب نے نھیں دیکھا ورنه ماربل کے پیسے نرسز کی تنخواه سے کاٹے جاتے۔
یہ بھی نامعلوم ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ موصوف کے ابا کا شوق تھا کہ ان کا نورچشم, حَسین و جمیل بیٹا پاکستان کی کسی اچھی میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹری پڑھے اور ایک بہترین نیوٹریشنسٹ (ماھر غذا) بنے لیکن چونکہ پاکستان میں کوئی اسکول ایسا نہ تھا جہاں کرسیوں کی جگه قالین یا دریاں بچھا کر طلاب کو تعلیم دی جاتی ہو سو انھیں داخلہ نہ ملا. یہاں بھی موصوف کی صحت کاملا و ثاقلا ان کی کامیابی کی راه میں رکاوٹ بنی کیونکہ کرسی پر بھلا آپ کا نازک بدن کب پورا آسکتا تھا.
کہتے هیں بزرگ ہر مشکل میں کام آتے ہیں لہٰذا پھر سے مرحوم لدھیانوی صاحب کو بلایا گیا کہ اس ہونہار کی تعلیم کا بندوبست کریں انہوں نے تجویز دی کہ دریاں و قالین بچھا کر پڑھانے کا رواج صرف مدارس میں ہی ہے, لھذا یونیورسٹی کے بجائے انہیں مدرسے میں داخلہ دلوایا گیا اور اسی غم میں وه آج بھی کبھی کبار پیتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، اور وجہ دریافت کرنے پر فرماتے هیں :
مجھے پینے کا شوق نہیں
پیتا ہوں غم بھلانے کو.
آج موصوف شیعه-سنی برادران کو لڑوانے میں پیش پیش ہیں. اپنی تمام تر کوششوں اور کچھ راناؤں کے آشرواد سے اپنے خط پے ثابت قدم ہیں. لیکن ہم سنی اور شیعه "بڑے" شیطان آمریکا سے نھیں ڈرے تو "موٹے" شیطان سے بھلا کیا ڈر.
آپ شاید اعتراض کریں کہ میری یہ تحریر علمی نہیں ہے. بیشک! لیکن آپ ہی کہیئے جو سنی-شیعہ کو لڑائے، شیعہ مسلمانوں کو کافر کہے جب کہ دنیا اسلام انہیں مسلمان مانتی ہو، تو ایسے بندے کے ساتھ کیسی علمی باتیں. بس کسی نے حُسن کی بات کی تو ارسطو کی تعریف یاد آئی اور دو مخلوقات از خود بنعوان روشن مثال ذہن میں آگئیں تو یہ چند الفاظ لکھ ڈالے.
www.fb.com/arezuyeaab
میرے مولا حسین (ع) مجھے بتائیں!
تحریر: محمد زکی حیدری
مولا! میرے مظلوم مولا! آپ پر ، آپ کی آل و انصار پر میرا سلام! مولا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کا پاکستانی عزادار ہوں۔ جیسے ایک بچہ صورتخطی لکھنا سیکھتا ہے تو بار بار اپنے استاد کو دکھا کر تصدیق کرتا ہے کہ وہ صحیح لکھ رہا ہے یا نہیں اسی طرح میں بھی آپ کی عزاداری کر کے آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ میں صحیح سمت جا رہا ہوں یا نہیں۔ میں آپ کو اپنی عزاداری کی ساری تفصیل بتا دیتا ہوں پھر آپ پر ہے کہ مجھ ایسے گنہگار کو اپنا جواب کس طرح عطا فرماتے ہیں۔
مولا! میں نے جب آنکھ کھولی تو مجھے بتایا گیا که هم شیعه هیں, محرم میں میرے سارے رشته دار, عزیز و اقارب سیاه لباس زیب تن کرت,ے ماتم کرت,ے مجھے بتایا گیا که یه سب اس امام (ع) کے غم میں کیا جاتا هے جنهیں کربلا نامی جگه پر شھید کیا گیا. مجھے نه امام کے معانی پته تھی, نا شھید کی.
پھر میں کچھ بڑا ہوا اسی طرح عزاداری کرتے رہے، جلوس، مجالس ، مصائب میں... میں سمجھ گیا کہ مخصوص دنوں میں مخصوص سرگرمیاں ہی انجام دی جاتی ہیں جیسے رمضان والی عید پہ نئے کپڑے پہنتے ہیں سوویاں پکتی ہیں ، اور قربانی والی پہ نئے کپڑے پہن کر گوشت کھاتے ہیں اسی طرح محرم میں کالے کپڑے پہن کر جلوس میں جاتے ہیں۔
قریبی شہر کے ہائےاسکول میں گئے تو سنیوں نے کہا تم شیعوں نے ہی امام حسین (ع) کو مارا اور تم ہی ماتم کرتے ہو اس سوال نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا میں سوچتا تھا یہ کیوں ایسا کہتے ہیں۔ اب جب تھوڑی بھت عقل آ چکی تھی تو میرے ابو جو خود بھی ایک خطیب ہیں، سے میں نے پوچھا کہ ابو کیا امام حسین (ع) کو ہم ہی نے مارا؟ بولے نہیں! کوفہ شہر کے لوگوں نے خطوط لکھے کہ امام آپ آجائیں ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ پھر ؟ پھر کیا ہوا ابو؟ تو بیٹا وہ "بے وفا" نکلے اور امام (ع) کو اکیلا چھوڑ دیا۔ میں نے پوچھا ابو یعنی کوفے والے بھی امام (ع) کے چاہنے والے تھے؟ بولے ہاں لیکن بعد میں مکر گئے، اور جب مکر گئے تو مرتد ہوگئے۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ سنی ایساکیوں کہتے ہیں۔ کوفہ والے امام (ع) کے چاہنے والے ہی تھے، جنہوں نے امام (ع) کو بلایا تھا اور نہتا چھوڑ دیا۔
مولا! ان کوفیوں کا سن کر میں نے سوچ لیا کہ آپ سے وفا کرنی ہے، بے وفا نہیں بننا، میں نے نوحہ خوانی سیکھی، میں نے مجالس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، راتوں کے رات جلوس میں چلا، حتیٰ نماز تک چھوڑ دی، کہ نمازتو کوفی بھی پڑھتے تھے، ان تکھ عزاداری، عزاداری اور بس عزاداری! صرف اس لیئے کہ میں اپنی وفا ثابت کر سکوں۔ اب میں بڑا ہوں عاقل ہوں ہر سال عزاداری کرتا ہوں مگر مجھ سے میرے کچھ دوست بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں کہتے ہیں اصل عزاداری یہ نہیں! امام (ع) سے وفا کا مطلب ہے کل کے یزید کی نہیں بلکہ آج کے موجودہ یزید کے خلاف قیام کرنا، امام حسین (ع) سے وفا یہ نہیں کہ ہم ان کے نام پر رونے کی ایک رسم چلا دیں اور بس رونے کو ہی اپنا شعار بنا لیں جب کہ ایوان انبساط پر اسی یزید نما ظالم کا قبضہ ہو اور وہ امام (ع) کے چاہنے والوں کو چن چن کر مارتا رہے، ماؤں کی گود اجڑتی رہے، پڑوس میں کسی جوان شہید کے سوئم کی مجلس میں اس کی ماں رو رہی ہو اور تم اپنے گھر میں مجلس کروا کر صدیوں پرانے یزید پر لعنت کر رہے ہو۔۔۔
مولا ! یہ میرے عجیب و غریب قسم کے دوست کہتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے دور میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ نہیں کی تھی یزید نے، یزید نے کسی امام بارگاہ پر بم نہیں پھینکوایا تھا، یزید نے کسی کو بسوں سے اتار اتار کر مارا نہیں تھا، یزید نے بازاروں میں ، مسجدوں میں، دکانوں میں امام حسین (ع) کے چاہنے والوں کو مارا بھی نہیں تھا ۔۔۔ کچھ نہیں کیا تھا یزید نے صرف امام حسین (ع) سے کہا تھا مجھے ووٹ دو، میری بعیت کرو، صرف زبانی ہی مان لو کہ میں تیرا حکمران! مگر امام (ع) نے لٹ جانا، مٹ جانا، قتل ہوجانا، گھر لٹا دینا تو گوارا کر لیا مگر ووٹ نہیں دیا، ظالم کی حکمرانی کا انکار کربلا کی شروعات تھی۔ تم لوگ ایک طرف خود کو حسین (ع)کا کہتے ہو دوسری طرف ان لوگوں جو تمہیں چن چن کر مارتے ہیں کے نعرے لگاتے ہو، انہین ووٹ دیتے ہو، انہیں انکار نہیں کرتے ۔۔۔ حسین (ع) کا انکار کربلا کی شروعات تھی، تم انکار کیوں بھول گئے؟ تم نے کتنے انکار کیئے ہیں آج تک؟ کیا امام (س) سے وفا یہ ہے کہ تم ایک رسم بنا لو رونے کی اور ہر سال رسم نبھاؤ۔ رونے کی رسم تو بنا رکھی ہے حسین (ع) کے انکار کی رسم کہاں ہے؟؟؟ تمہاری رسم اور حسین (ع) کی رسم میں فرق کیوں؟ اور دیکھو تمہاری اس رسم کا کیا اثر ہو رہا دیکھ لو، ہو رہا ہے کچھ اثر؟ نہیں کوئی نہیں ، کچھ نہیں رسم تو رسم ہوتی ہے۔۔۔
مولا! انہوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ تم نے اپنی اس رسم سے کتنے ظالموں کے دانت کھٹے کئے ہیں آج تک؟ یزیدیت کتنی کمزور ہوئی؟َ
مولا! یہ میرے دوست کہتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں حسینت ہو وہاں یزیدیت کو اس سے خوف نہ ہو، جہاں حسینیت ہو وہاں ممکن ہی نہیں کہ یزید طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا جائے ، جہاں یزیدیت طاقتور ہوتی چلی جائے سمجھ جاؤ وہاں حسینیت کمزور ہوتی جا رہی ہے، وہ کہتے ہیں دیکھو پاکستان میں یزیدیت کمزور ہو رہی ہے یا طاقتور؟ وہ پھر ادھر اھر جیسے ایران، لبنان، یمن، شام وغیرہ کے حسینوں اور حسینیت کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ وہاں دیکھو یزیدیت مسلسل پریشان ہے کیوں کہ اسے وہاں کی حسینیت کے علاوہ کسی سے خوف نہیں۔
لیکن مولا میرے ماموں کہتے ہیں کہ عزاداری رسم ہی سہی لیکن ہونی چاہیئے کہ امام حسین (ع) کا نام زندہ رہے، اب ہم اتنا حسین (ع) حسین (ع) کرتے ہیں پھر بھی ذاکر نائک جیسے کہتے ہیں یزید اچھا تھا، تو اب ہمیں اس عزاداری کو جاری رکھنا چاہیے، مولا یہ بات جب میں نے اپنے ان عجیب و غریب باتیں کرنے والے دوستوں کو بتائی تو انہوں نے کہا چلو مان لیتے ہیں کہ تمہاری اس رسمی عزاداری سے ایسے لوگوں کے منہ بند ہوجانے چاہیئں، تو ذرا دیکھو بھلا, ذاکرنائک جیسوں کی تعداد ہی کو دیکھ لو, کیا کم ہوئی ہے یا بڑھ رہی ہے؟ مولا میرے پاس ان کی اس بات کا بھی جواب نہیں کہ واقعی ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
مولا! یہ کہتے ہیں کہ امام سے محبت تو کوفیوں کو بھی تھی مگر انہوں نے ابن زیاد کے ڈر سے ووٹ کا انکار نہیں کیا، حیسنیت کا تقاضہ تھا کہ انکار ہو لیکن انہوں نے ان کار نہیں کیا، اپنے اوپر ظالم کو ہی مسلط رہنے دیا، وہ ڈرپوک تھے، وہ توجہیات پیش کرنے والے تھے ، رسمِ محبت ان کے پاس بھی تھی اس لئے خطوط لکھے رسمِ محبت تمہارے پاس بھی ہے تم میں اور کوفیوں میں اگر فرق ہے تو بتاؤ!!! انہوں نے اپنی کھوکھلی رسم سے ایک امام شہید کروا دیا تم اپنی رسم سے امام کے چاہنے والے مروا رہے ہو فرق کیا ہے؟
مولا ! مجھے بتائیں آپ سے وفا یہ والی عزاداری جو میں کر رہا ہوں ہے یا وہ عزاداری جو میرے یہ عجیب و غریب دوست کہہ رہے ہیں وہ؟ مولا مجھے جواب دیں۔ میں نے فیصلہ آپ پر چھوڑا۔
www.facebook.com/arezuyeaab
ان اعتراضات کے جوابات
از قلم: محمد زکی حیدری
1. علی (ع) پر جب سب و شتم هوا تو علی (ع) کے پیروکاروں نے اذان میں علی (ع) کے نام کا اضافه کیا. اموی دور میں جمعه کے خطبات میں امام علی (ع) پر لعنت کی جاتی تھی جو که اموی خلیفه عمربن عبدالعزیز کے دور تک جاری رهی انهوں نے آکر اس بدعت کا خاتمه کیا. یه علی (ع) کا نام ڈالنا ان خطبات میں کی جانے والی لعنت و معاویه کے پروپگنڈا کا ردعمل تھا.
2. تراویح پر شیعه کو کوئی اعتراض نهیں, تراویح کی جماعت پر اعتراض هے جو که عمر کی شروع کی هوئی بدعت هے. نبی (ص) نے مسلسل تروایح اس لئے نهیں پڑھائی که کهیں فرض نه هوجائے حضرت ابوبکر نے بھی ایسا کیا لیکن حضرت عمر نے جماعت کھڑی کر دی.
.
3.امام بارگاه علی (ع) کیوں بنواتے جب حسین (ع) کی شھادت هی دور علی (ع) کے بعد هوئی..
4. متعه ختم هی کب هوا جاری هے. حضرت عمر کا اسے حرام قرار دینا ثابت کرتا هے که نبی (ص) و حضرت ابوبکر کے دور میں حلال تھا.
.
.
5.باغ فدک گیند کی طرح رها علی (ع) کے دور میں اھل بیت (ع) کے حصے میں رها پھر چھینا گیا پھر عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اھل بیت (ع) کو ملا پھر بعد میں آنے والے حاکم نے چھینا پھر جب بھی کوئ اھل بیت (ع) کیلئے دل میں نرم گوشه رکھنے والا آیا تو اس نے اھل بیت (ع) کے نام کیا.
عمربن عبدلعزیز کا فدک اھل بیت کے حوالے کرنا ثابت کرتا هے که عمر اول غاصب تھا.
.
اور سنائیں مولانا صاحب چائے چلے گی یا ٹھنڈا... حلوے کا انکار تو آپ کے یهاں گناه کبیره هے.😜
الاحقر محمد زکی حیدری
www.fb.com/arezuyeaab
arezuyeaab.blogspot.com
سلام بھائی ایک ذاکر نے دلیل دی که جب مصر کی عورتوں نے یوسف (ع) کو دیکھا تو عشق یوسف (ع) کے عشق میں اپنی انگلیاں کاٹ دیں لھذا هم بھی زنجیر اور تلوار والا ماتم کر کے حسین (ع) کے عشق میں خون بھاتے هیں. بھائی کیا زنجیر کا ماتم واقعی قرآن سے ثابت هے؟
www.facebook.com/arezuyeaab
آخری بات! مردہ مچھلی دریا کے بہاؤ کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے جب کہ زندہ مچھلی اپنی حرکت دکھا کر بہاؤ کے مخالف جاکر زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے آپ خود اپنے گریبان میں دیکھیں کیا آپ جاہل معاشرے کے بہاؤ میں بہتے چلے جا رہے ہیں یا اس سے خلاف جا رہے ہیں؟ اگر بہاؤ کہ مخالف ہو تو زندہ ہو نہیں تو افسوس کہ مردہ ہو اور مردہ سے امید لگانا فضول ہے۔
ثواب دارین
تحریر: محمد زکی حیدری
میں نے خواب دیکھا کہ میں انچولی امام بارگاہ کراچی میں کھڑا ہوں، میرے سامنے ایک شهید شیعہ نوجوان کی میت رکھی ہے، جو چہرے سے ایسا تاثر دے رہا تھا جیسے اسے کسی نے سلگتی آگ پر سے اٹھا کر پھولوں کی سیج پر سلا دیا ہو، وہ مطمئن و مسرور ہے لیکن کونے میں کھڑا اس کا باپ اور اس کے بھائی شہید کے غم سے نڈہال ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، کراچی یونیورسٹی میں کبھی کلاس میں، کبھی باہر میرے موبائل میں جونہی شیعہ کلنگ والوں کا میسج آتا ہے کہ فلاں شیعہ جوان، فلاں شیعہ ڈاکٹر، فلاں شیعہ انجینیئر، فلاں شیعہ طالبعلم، فلاں شیعہ عالم دین فلاں شیعہ۔۔۔ کو شہید کر دیا گیا، تو میں انچولی امام بارگاہ پہنچ جاتا ہوں، تاکہ جنازہ میں شریک ہوکر "ثواب دارین" حاصل کرسکوں، آخر یونیورسٹی اور انچولی کا فاصلہ ہی کتنا ہے بائک پر 5 منٹ بس! اس "ثواب دارین" حاصل کرنے کے بعد شہید اگر با استطاعت ہے تو اس کے سوئم یا چہلم میں ہمارے بڑے بڑے مذھبی رہنماؤں کا خطاب سن کر "ثواب دارین" حاصل کرنے کا موقعہ بھی میں کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
ایک دن بعد حسب دستور اعلان ہوا کہ سوئم کی مجلس میں دونوں شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر شرکت کریں گی اور ان کے رہنماء مجلس پڑھیں گے، شہید کے درجات بلند ہوں گے اور شرکاء کو "ثواب دارین" حاصل ہوگا، لھٰذا میں بھی پہنچ گیا۔ بہت بڑا مجمع تھا، پہلے انقلابی نظمیں پڑھنے والے آئے، ان کی نظموں کا مدعا یہ تھا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اس کے بعد تنظیموں سے وابستہ علماء خطاب کو آئے، ان میں سے ایک نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اس وقت مجمع لبیک یاحسین کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جب انہوں نے فرمایا "شہادت ہماری میراث ہے، یہ جاہل ہیں، ہمیں مارتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری تعداد کم ہوجائے گی، نہیں یہ ان کی بھول ہے، دنیا میں حلال جانور روز مارا جاتا ہے حرام بہت کم مرتا ہے، لیکن پھر بھی دنیا میں حرام جانور کی تعداد کم ہے، حلال کی تعداد دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم شیعہ حلال جانور کی مثل ہیں اور وہ حرام۔۔۔"
پھر دوسری تنظیم کے ایک بڑے عالم دین آئے۔ انہوں نے تو اور بھی زیادہ جوشیلی تقریر کی اور فرمایا" سن لو ہم لاشے اٹھانے کے عادی ہیں، امویوں نے ہمیں مارا، عباسیوں نے ہمیں مارا، امراء نے ہمیں مارا، بادشاہوں نے ہمیں مارا، افغانی، ترک نژاد سلطانون نے ہمیں مارا، آج کے ڈکٹیٹروں نے ہمیں مارا، ریاستی اداروں نے ہمیں مارا۔۔۔ لیکن سن لو تم تھک جاؤ گے ہم نہیں! ہمارے جوان علی اکبر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بوڑھے حبیب ابن مظاہر کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بچے علی اصغر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! بہنوں کے بھائی عباس علمدار کی طرح مارے جائیں گے! ہمارا افتخار ہے یہ۔۔۔" مجمعے میں ایک بار پھر فلک شگاف نعرے لگنے لگے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔۔۔!
یہ سن کر میں نیند سے بیدار ہوا، میری آنکھ کھلی، خواب کے عکس میری آنکھوں سے سامنے ایک فلم کی مانند چلنے لگے، وہ جوان کی لاش، اسکا والد، بھائی، علماء کی تقاریر، پھر میں نے خواب کا حقیقت کے ساتھ موازنہ کیا، مجھے حقیقت بھی یہی نظر آئی۔ تب میں نے سوچا کیا شہادت ہماری میراث ہے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مرتے رہیں؟ روز جنازے اٹھاتے رہیں؟ کیا امام حسین (ع) کی قربانی کا مقصد یہی تھا کہ مرتے رہو؟ روز لاشے دفن کرکے گھر آجاؤ؟؟؟ ہمارے علماء کو کربلا بہت یاد ہے، شہادتیں بھی یاد ہیں، لاشے پامال ہونا، پیاس، کمسن کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہونا بھی یاد ہے، مگر صرف مرنا یاد ہے مارنا یاد نہیں! ہمیں حسین (ع) کو لگنے والی ضربوں کی تعداد یاد ہے، حسین (ع) کے ہاتھوں سے کتنے یزیدی واصل جہنم ہوئے یاد نہیں!، زینب (س) یاد ہیں لیکن صرف چادر چھننے کی حد تک! ان کی طرف سے دیئے گئے کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دینے والے خطبوں میں مقاومت کا درس یاد نہیں! ہمیں کربلا کے بعد امویوں کا محبان اہلبیت (ع) کے گلے کاٹنے کا کارنامہ یاد ہے، مختار کی طرف سے امویوں کے گلے کاٹنا یاد نہیں!
کربلا سے ہم نے صرف مرنا لیا ہے، جبکہ کربلا میں مارنا پہلے تھا مرنا بعد میں! صرف پیاسے حسین (ع) کی جنگ دیکھو تو جہاد کی محیرالعقول اور عدیم النظیر مثال ہے کہ ایک ناتوان اور پیاسہ کس طرح لڑ رہا ہے، علی اکبر (ع) کیا (نعوذباللہ) بزدلانہ طریقے سے مارے گئے تھے؟ جاکر لہوف ابن طاؤس میں پڑھیئے لکھا هے "و قاتل اعظم القتال" علی اکبر (ع) نے عظیم کشتار کی، جنگ کی، ایک ایک کربلائی بپھرے ہوئے شیر کی مانند سوئے مقتل گیا اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر شہادت کو پہنچا۔ عبداللہ بن حسن (ع)، صحت روایت سے قطع نظر دیکھیئے، جب اس کمسن نے دیکھا کہ حسین (ع) پر فوج مخالف کا ایک سپاہی تلوار تان رہا ہے تو دوڑ کر اس کے آگے آیا فرمایا خبردار اے نامرد میرے چچا پر وار کرتا ہے! کمسن کا ہاتھ کٹا۔۔۔ جون (ع) نے کتنے لاشے گرائے، کس جوش سے حرز پڑھتے ہوئے گئے یاد نہیں! اس ماں کا کیا کہ جس نے اپنے شہید بیٹے کی کٹی گردن دشمن کی طرف پھینک کر کہا کہ لو اسے اپنے پاس رکھو، ہم جو چیز راہ خدا میں دے دیں اسے واپس نہیں لیا کرتے! کربلا کا یہ پہلو کیا آپ کی نظروں سے نہیں گذرا؟ کربلا صرف گلے کٹوانے کا نام ہوتا تو بزدلی کی کہانی ہوتی کربلا نہیں ہوتی! کربلا شروع سے آخر تک جنگ و مقاومت و شجاعت و قتال و۔۔۔ کی کہانی ہے آپ نے کربلا کا اختتام لے لیا اور رونے لگے...
نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے اس مسئلے کا حل یہی نکالا ہے کہ لڑو اور مرجاؤ، نہیں جناب آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتا ہوں قوم کو حل دینے والا، لیکن معذرت سے کہوں گا کہ آپ ماشاءاللہ شہادت پر بڑی اچھی اور جوشیلی مجلس نما تقاریر کرتے ہیں، مگر ان تقاریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔۔۔ قوم کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ قوم کی مائیں آپ سے امید رکھتی ہیں کہ اس روز روز کے جوان جنازے اٹھانے سے قوم کو کب نجات ملے گی، کیا اس کا کوئی اور حل بھی ہے یا آپ کی تقاریر کے مطابق مرتے ہی رہیں؟؟؟ یہ کون سی کربلا ہے جو دنیا کے باقی شیعوں نے نہیں لے رکھی، صرف پاکستانیوں نے لے رکھی ہے کہ شہادت ہماری میراث ہے، لہذا مرتے رہو۔۔۔۔؟
شام والے مر رہے ہیں لیکن مار بھی رہے ہیں۔ یمن والے قتل ہو بھی رہیں ہیں قتل کر بھی رہے ہیں، لبنان والے ہمیشہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کو پہنچے، عراق والے لڑے، 1920ء میں انقلاب لائے اب بھی لڑ رهے ہیں۔ ایرانی لڑے انقلاب لائے، سب میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہو رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔ کیوں ہے ایسا؟ اس کا حل دیجیئے خدا را "ثواب دارین" کے سوئم اور چہلم ہم بہت کرچکے شہیدوں کے لئے آنکھیں رو رو کر خشک ہوگئیں۔ شیعہ نسل کشی کا حل کیا ہے؟ کوئی لائحہ عمل دیں، کوئی حل بتائیں۔۔۔ کربلا کے مصائب تو ہماری نانی اماں بھی سناتی ہیں، کتابوں اور نوحوں میں بھی سن لیتے ہیں، آپ قوم کی نیا پار لگانے کے دعویدار ہیں، آپ کی ذمہ داری الگ ہے۔ آپ سے امید ہے کہ قوم کو اس مسئلے کا حل بتا کر "ثواب دارین"حاصل کریں گے۔
پریشانی میں سکون
مال جمع کرنے والے
ہدایت کے بعد گمراہی نہ دینا
جو اللہ (ج) کے دین کی مدد کرتا ہے
ذرہ برابر نیکی
فقر کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو
مشکل میں اللہ اللہ اور بعد میں۔۔۔