نوروز

نوروز

بیگانگی

Beganigi

جشن زھرا (س) منانے کی سزا... ایس ایس پی خیرپور کو دعوت آزادی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


جشن زھرا (س) منانے کی سزا!

 

(محترم ایس ایس پی خیرپور صاحب کو دعوتِ آزادی)

 

ظالم ڈرپوک ہوتا ہے چاہے کسی بھی دور میں ہو، اس کی رعیہ میں چار خسرے کسی جگہ جمع ہوکر صرف گھپے ہی ماریں تو بھی اسے وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ چار خسرے میری حکومت کو گرانے کیلئے جمع ہوئے ہیں. یہ ڈر فرعون سے لے کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں تک آپ کو ملے گا.

خسرے تو خسرے ہوتے ہیں لیکن سوچیئے ظالم کی حکومت ہو اور مقاومتی اقدار رکھنے والے و اپنا سر حسین (ع) پہ قربان کرنے والے و لبوں پہ لبیک یا حسین (ع) اور دل میں محبت آئمہ (ع)- وہ آئمہ (ع) جن میں سے ھر ایک شہید ہوا ہو، رکھنے والے شیعان حیدر کرار ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ظالم کی کیا حالت ہوگی!

یہ ہی حالت خیرپور ضلع کے ایک ظالم وڈیرے کی ہوئی، فرعون کی طرح خواب دیکھنے والے اس ظالم نے خیرپور میں منعقد جشن زھرا (س) کو پبلک پراپرٹی کا بلا جواز استعمال کرنے کے جھوٹے الزام میں زبردستی معطل کروا کر جشن کا سارا سامان قبضے میں لے لیا. اس کے دو تین دن بعد ھفتے کی صبح مدرسہ امام علی (ع) کنب کے پرنسپال مولانا محمد نقی حیدری صاحب کو اس جشن منعقد کرنے کے سلسلے میں اپنے مدرسے سے علی الصبح گرفتار کر لیا گیا.

اس سارے عمل میں اہم بات یہ ہے کہ آج پانچوان دن ہے مولانا محمد نقی حیدری سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ان کے والدین چار دن سے خیرپور میں ہیں لیکن "قانون کے رکھوالے" اتنے ڈرے سہمے سے ہیں کہ ایک مولانا، مسجد کے پیش امام کو اس طرح قید رکھا ہے کہ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں.

میرے بھائی تو آزاد ہو جائیں گے لیکن بندہ حقیر اس تحریر کے ذریعے ایس ایس پی خیرپور کو عرض کرتا ہے کہ جناب آپ نے جب ایم ڈبلیو ایم کے وفد سے معذرت کی اور اقرار کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، پھر ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو ایک مولانا سے ایسا کیا خوف ہے کہ آپ ان کے والدین سے نہ مولانا کی ملاقات کروا رہے ہیں نہ فون پر رابطہ!

ایس ایس پی صاحب آپس کی بات ہے ویسے، اتنا اختیار رکھنے کے باوجود بھی آپ "کسی" کے سامنے اتنے مجبور ہیں تو میرا یہ ہی مشورہ ہے کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی.

آپ کی ایم ڈبلیو ایم کے وفد سے معذرت مجھے بتاتی ہے کہ آپ غیرتمند انسان ہیں کیونکہ معذرت کرنا باوقار و غیرتمند و با مروت و دلیر انسان کا خاصہ ہے ...
مگر مجھے جب پتہ چلا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان تمام اعلی اقدار کے باوجود آپ مجبور ہیں، آپ قیدی ہیں، "کسی" کی قید میں ہیں! میرے بھائی تو کل یا پرسوں ان شاء اللہ قید سے رہا ہوجائیں گے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بڑے بھائی بھی قید سے رہا ہوں، "کسی" کی قید سے آزاد ہوکر اللہ (ج) کی آزاد دنیا میں سانس لیں! اللہ (ج) نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے صاحب، اللہ (ج) کے نوکر بن جائیں، آزاد ہو جائیں، یہ وردی اگر زنجیروں سے آزاد ہو تو ہی وردی ہے! پتہ نہیں مجھے آپ جیسا باوقار و اعلی اقدار کا مالک انسان اس وردی میں کیوں قیدی نظر آتا ہے، خود ہی کو پابند سلاسل کر رکھا ہے آپ نے! مشہور فلسفی روسو نے کہا تھا

 

_Man is born free but everywhere he is in chains!_

It seems to me that you too, unfortunately my dear sir, are in shackles and chains, lets break these shackles, ALLAH jj is the absolute sustainer, i assure you, blieve me sir you would recieve both spritual and temporal remunerations once you resigned from the service of "someone" and apply for Allah jj's service!

You may charge me for disgracing a CSP! You may! and i would love to be charged for inviting you to the realm of absolute freedom! The realm of ALLAH jj!
You can charge me but let me clear myself that i am not talking to you, but to your conscinces, to your hidden values my dear sir, and its not a crime i guess!

Release of my brother is not imporatant for me, whats more important for me now is your realease, your freedom, so that oneday your garaceful family and children may raise their heads with pride and say "our Abu was ALLAH jj's servant not "someone's"!

Death keeps no calender dear sir nor it leaves any human being untouched by its frightening fingers. Lets pray everyone of us dies free and serving ALLAH JJ.

ALLAH JJ bless you and your family!

Duagoo!
Muhammad Zakki Haidery

Younger brother of (imprisoned) Mollana Muhammad Naqi Haidery

مجھ کو استاد کہتے ہیں اھل نظر

Ustad sibte jaffar

بسم اللہ الرحمن الرحیم


*مجھ کو استاد کہتے ہیں اھل نظر*
(شھیداستاد )

تحریر: محمد زکی حیدری


"کیا استاد استاد لگا رکھا ہے استاد کہتے کسے ہیں کچھ پتہ بھی ہے، بس جو آئے اسے استاد کہہ دیا، تم لوگ..." میں نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا "بس کردو..." جب وہ چپ ہوا تو میں نے کہا 18مارچ شہید استاد سبط جعفر (رح) کی برسی ہے اس مناسبت سے میں تحریر لکھوں گا اور آپ کو بتاؤنگا کہ استاد کہتے کس کو ہیں.

استاد کیا ہوتا ہے؟ کاش انہیں علم ہوتا!!!
مسلمان جس کا نبی محمد (ص) جیسا ہو. اگر استاد کی تعریف نہ سمجھے تو حیف ہے، بقول مرحوم جوش ملیح آبادی (رح) کہ "عرب کی سی جہالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لیئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کہلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کہتے ہیں"
محمد (ص) نے ہمیں سکھایا کہ استاد اسے کہتے ہیں جو اپنی معنوی تعلیمات میں زمان و مکان کی قید سے مبرا ہو، استاد وہ ہے جس کی کلاس روم چار دیواری نہیں بلکہ معاشرہ ہو، معاشرے کے عام افراد اس کے شاگرد ہوں، اس کی ھر حرکت و سکون میں معنوی و عملی دروس ہوں۔ استاد کتاب نہیں لکھتا افراد کی زندگی لکھتا ہے، استاد افراد و اقوام کی تقدیریں بدلتا ہے. اگر ہم شیعان حیدر کرار اپنے آئمہ (ع) کہ زندگی کا غور سے جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ ان کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی اور وہ شیعوں کیلئے نمونہ عمل تھے یعنی نہ فقط استاد بلکہ عملی نمونہ، آئیڈیل و رول ماڈل بھی تھے۔ اسی طرح ہم ان آئمہ (ع) کے وارثین علماء کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی نہ صرف نظریاتی استاد تھے بلکہ عملی استاد تھے۔ استاد وہ ہی ہوتا ہے جو ھر آن و ھمہ وقت استاد ہو نہ فقط کلاس کے اندر!

میں جب، بغیر مبالغے کے، استاد شہید سبط جعفر (رح) کی زندگی کو آئمہ (ع) کے دیئے نمونہ عمل پر رکھ کر پرکھتا ہوں تو مجھے شہید استاد انہی استادوں کی سیرت پر چلتے نظر آتے ہیں۔ ولایت سے عشق کی بات آئے تو شہید استاد سبط جعفر (رح) جب بھی پڑھتے محفل کو ولایت کے پھولوں سے سجا کر رکھ دیتے، تقویٰ کی بات کریں تو استاد شہید کا چہرا مبارک دیکھ لیں، معنویت کے رنگ سے عیاں ہے کہ نماز شب پڑھا کرتے تھے، آئمہ (ع) روٹیوں کی بوریاں لے لے جاکر غریبوں کو کھلاتے تو استاد نے بھی اسی نمونہ عمل کا اتباع کرتے ہوئے کراچی و مضافات کے بہت سے یتیم و مساکین کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھا. استاد نہ فقط رحمدل بلکہ ایک انتہائی خوش طبع انسان تھے، یاور زیدی بھائی نے حقیر کو بتایا کہ استاد عید پرعیدی کے لفافے بناتےاور ھرایک کے ہاں خود چل کر دینے جایا کرتے۔ کیا اس فعل کے تانے بانے کسی امام معصوم سے نہیں ملتے؟ اور خوش طبع ہونے کی بات آتی ہے تو یاور بھائی ہی نے بتایا کہ یہ جو عیدی کے لفافے بنتے تھے ان پہ استاد فقط وصول کنندہ کا نام نہیں بلکہ ھر شخص کا ایک خاص مزاحیہ لقب بھی لکھا کرتے، بقول یاور زیدی بھائی کہ میں چونکہ غسل و تدفین و
تلقین کے امور میں مصروف رہا کرتا تو میرے لفافے پہ لکھا ہوتا "یاور عباس زیدی غسال العلماء آیت اللہ تلقینی!"
قناعت کی بات آئے تو شہید استاد نے اتنے بڑے افسر ہونے کے باوجود پروٹوکول تو کنار گاڈی تک رکھنا پسند نہ کی ایک خستہ حال موٹرسائیکل لے کر پورے کراچی کی محافل میں شرکت کیا کرتے۔ انقلاب کی بات ہو تو آپ امام خمینی (رض) کی برسی پہ اپنے مخصوص کلام کے ساتھ ظاہر ہوکر انقلاب سے محبت کا ثبوت دیتے نظر آتے، اجر رسالت میں محبت اھلبیت مانگنے والے محمد (ص) کے اس فرزند سید سبط جعفر زیدی پر زیادہ نیاز لینے کا الزام بھلا کوئی کیسے لگا سکتا ہے کہ جب حلقۂ احباب میں مشہور ہو کہ سبط جعفر
یعنی بغیر لفافے کے بڑا شاعر بننے والا!

متقی، عاشق ولایت، انقلابی، محب مساکین، یاور یتیمان، خوش طبع، قناعت پسند، طمع سے پاک... علی (ع) کے قول کہ جیو ایسے کہ جب تک زندہ رہو لوگ تم سے ملنے کے مشتاق رہیں اور جب مرو توتم پر گریہ کریں، کا بے نظیر نمونہ....

کیا لکھ کر کیا لکھوں اب تو کمبخت آنکھیں بھی استاد کے یاد کی تاب نہ لاسکیں، گستاخ آنسو بھر آئے آنکھ میں!!!
بس اتنا سا سوال ہے کہ جناب کون سا ایسا پہلو رہ گیا زندگی کا کہ جس کے بارے میں استاد شہید کی زندگی سے ہمیں علمی و عملی دروس نہ ملتے ہوں؟ اگر ان کی زندگی کے ھر پہلو سے اطاعت اساتیذ معصوم یعنی آئمہ (ع) کی خوشبو آتی ہے تو پھر میں یہ کیوں کہوں کہ شہید استاد سبط جعفر صرف سوزخوانوں کے استاد تھے، نہیں! استاد سبط جعفر ھر انسان کے استاد تھے.

 

 

یہ منہ مسور کی دال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

😏 یہ منہ اور مسور کی دال 😏

ازقلم: محمد زکی حیدری


اسی نا روندیں گَل مُک ویندی!!!
(ہم نہ روتے تو بات یعنی حسین ع ختم ہو جاتے)

یہ بات ایک ذاکر و نوحہ خوان جو بیچارہ ان پڑھ ہے، نے کہہ دی تو کہہ دی لیکن یقین مانیئے درحقیقت ہم سب کا یہ ہی عقیدہ ہے کہ اگر ہم عزاداری نہ کرتے تو حسین (ع) کا نام و نشان باقی نہ رہتا. (نعوذباللہ)

عجب!!! 💡

او بھائی ساڑھے تین سو سال قبل مسیح یعنی حضرت عیسیٰ (ع) سے بھی تین، ساڑھے تین سو سال قبل یونان میں تین افراد سقراط، افلاطون و ارسطو منظر عام پر آتے ہیں، یہ لوگ نہ پیغمبر تھے نہ کتاب لائے، نہ گدی نشین تھے نہ مرید رکھتے تھے، یہ تینوں فلسفہ لائے وہ بھی ایسا کہ اس وقت کے مُلا بھی ان کے خلاف ہوگئے، حکومت بھی خلاف، عوام بھی خلاف، شرفاء بھی ان کے خلاف، پورا معاشرہ مل کر ان کے نام کو مٹانا چاہتا تھا مگر پھر بھی آج تک ان کا نام و کام و فلسفہ زندہ ہے.

کیا ارسطو کا نام اور اس کا فلسفہ اس لیئے زندہ ہے کہ اس کیلئے ھر سال ماہ محرم کی طرح جلوس نکلتا تھا؟ کیا ارسطو کی قبر اس کے مداحوں کی آماجگاہ تھی؟ کیا ارسطو کیلئے عشرۂ مجالس ہوا کرتا تھا؟
یا پھر یا ارسطو! یا ارسطو! کر کے اس کے چاہنے والے اپنی پیٹھ زنجیر و چھریوں سے لال کر دیتے تھے اس وجہ سے ارسطو کا نام و فلسفہ زندہ رہا... ؟؟؟

*اگر ارسطو کے نام و فلسفہ کو زندہ و جاوید رہنے کیلئے عزاداروں و پرسہ دینے و رونے والوں و جلوس و عماری و پیدل اس کی قبر پہ جانے کی ضرورت نہیں تو کیا حسین (ع) ارسطو سے بھی گئے گذرے ہیں کہ ہم نہ روتے تو چودہ سو سال کے اندر حسین (ع) جیسا معلمِ و محسن انسانیت لوگوں کے اذھان سے گم ہوجاتا!!!*

حسین (ع) کی شخصیت ہمارے جلوسوں کی محتاج نہیں، آپ بند کر دیں عزاداری پھر بھی حسین (ع) زندہ رہے گا. حسین (ع) دنیا کے کسی بھی زمان، کسی بھی مکان، کسی بھی ازم کے امام ہوتے زندہ و جاویدان رہتے. *ہم حسین (ع) کے محتاج ہیں حسین (ع) ہمارے محتاج نہیں*
عزاداری بیشک کریں اہانت مت کریں، ایک لمحے کیلئے بھی اگر دل میں یہ خیال آیا کہ میری عزاداری سے حسین (ع) کا نام مٹنے سے بچ رہا ہے تو یہ آپ نے شرک کیا. جی! کیونکہ حسین (ع) کو اللہ(ج) نے زندہ رکھا ہوا ہے. "مصباح الھدیٰ" ہیں حسین (ع)، ھدایت کا چراغ جسے اللہ (ج) نے عصمت و تقوا و شجاعت و رضی بقضا و ایثار و مقاومت و... کا تیل ڈال کر اسے ہمیشہ ھدایت انسانیت کیلئے روشن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس چراغ میں تیل ڈالنے والے ہم ہیں، کیا یہ شرک و اہانت نہیں؟

ہماری عزاداری کی وجہ سے حسین(ع) زندہ ہیں!!! ہماری و ہماری عزاداری کی اوقات ہی کیا ہے بھائی، اس سے حسین (ع) کو زندہ رکھنے چلے ہو! جاؤ صاحب یہ منہ اور مسور کی دال😏

قاری بشیر اور کامریڈ سرمد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قاری بشیر اور کامریڈ سرمد

از قلم: محمد زکی حیدری

ایک ہی گھر میں ایک ڈاکیے کے دو بیٹے رہا کرتے تھے، ان کے والد نے دونوں کو مدرسے میں داخلہ دلوایا کہ یونیورسٹی فیس بھرنا اس کے بس میں نہ تھی۔ اس نے سوچا دین پڑھ لیں گے تو اس کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ لیکن اس کے خوابوں کے برعکس بڑا بیٹا آزاد خیال بن گیا، اسلامی احکامات کو پاوں کی زنجیر و آزادی انسانیت کے منافی سمجھتا تھا سو وہ لبرل سے ہوتے ہوتے سوشلسٹ و سوشلسٹ سے باقائدہ پکا کمیونسٹ بن گیا اور لوگوں نے اسے کمیونزم کے جیالوں کا لقب "کامریڈ" عطا کیا، والدین کا دیا ہوا نام اکرم تبدیل کر کے خود کو سرمد کہلانے لگا۔ اور بن گیا کامریڈ سرمد!
لیکن چھوٹا بھائی قاری بشیر مدرسے میں پڑھتا رہا اور قاری بن گیا اب وہ محلے کی مسجد میں بچے و بچیوں کو قرآن پڑھانے لگا۔

ایک مرتبہ کامریڈ سرمد نے مشاھدہ کیا کہ اس کا چھوٹا بھائی قاری بشیر جو تقریبا اپنا آدھا دن مسجد میں گذارا کرتا، نے مسجد میں جانا بہت کم کردیا ہے اور داڑھی بھی بہت چھوٹی کروا دی، رات کو آدھی آدھی رات تک موبائل پہ باتیں کرتا رہتا ہے، صبح بھی بڑی دیر سے اٹھتا ہے۔
کامریڈ سرمد نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بات گھما دی۔ لیکن کامریڈ کا تجسس بڑھا سو اس نے قاری سے ضد کی کہ بتاو کہ ایسا کیا ہوا کہ تم تبدیل ہوگئے؟
قاری ھنس کر بولا کامریڈ تم سچ کہتے تھے اللہ وللہ نامی کوئی چیز نہیں ہے! بس سب ہماری سوچ کا نتیجہ ہے یہ اللہ وغیرہ!
کامریڈ نے حیرت سے اسے دیکھا، اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے پوچھا : ابے یہ کیا کہہ رہا ہے بشیر!
بشیر: ہاں یار سچ کہہ رہا ہوں، سب باتیں ہیں اللہ و الللہ کچھ نہیں، تم جن فلاسفرز کہ بات کرتے ہو وہ سچ کہتے ہیں اللہ وجود نہیں رکھتا!
کامریڈ: ابے گھامڑ اب بتا بھی دو کہ ہوا کیا ہے اور یہ سب کس نے تمہیں بتایا؟ کس نے تجھے تبدیل کیا کہ تو اب مسجد جاتا ہی نہیں۔
بشیر: ھنستے ہوئے بھئی اب تم سے کیا چھپانا، بات یہ ہے کہ میں بچوں کو قرآن پڑھاتا تھا ایک بچہ مجھے بڑا پسند تھا، میں نے بڑی ہی کوشش کی کہ کسی بھی طریقے سے اسے کہیں اور لے جاوں اور اپنی خواہش پوری کروں لیکن میں ناکام رہا۔ ایک دن اسے سبق یاد نہ تھا میں نے سزا کے طور پر اسے مسجد میں بٹھا دیا باقی سارے بچوں کو بھیج دیا اور پھر میں نے وہ کیا جس سے اب تک میں ڈرتا رہا۔ مجھے بڑی لذت حاصل ہوئی۔ میں گھر آیا شروع میں تھوڑا سا پریشان ضرور تھا کہ مسجد میں یہ کام کیا۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیا، کوئی بھی دیکھ لیتا تو مجھے سزا دیتا، لیکن میرے عقیدے کے مطابق اللہ (ج) دیکھ رہا تھا اس نے مجھے کچھ نہ کیا۔ سو تب سے مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو مجھے ضرور سزادیتا۔

جب اس نے بات پوری کر کے کامریڈ کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ کامریڈ کے اشک اس کے رخسار سے جاری تھے۔
جب قاری نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا: ارے بدبخت اللہ (ج) ہے! اس نے تجھے اس جرم کی یہ سزا دی کہ تجھے خود سے دور کردیا اور اپنے گھر یعنی مسجد سے نکال دیا، اس سے بڑی سزا تجھے کیا دے اللہ!!!
یہ کہہ کر کمیونسٹ نے اپنے بدبخت بھائی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ چل وہ غفور ہے ایک بار رو کر معافی مانگتے ہیں سارے گناہ بخش دے گا۔ دونوں نم آنکھوں کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔


(💡کیا کہیں ایسا تو نہیں ہمیں بھی اللہ جل جلالہ نے کسی گناہ کی سزا کے طور پر اپنے گھر یعنی مسجد سے دور کردیا ہے💡)

 

arezuyeaab.blogfa.com

بنانے

💡 بنانے💡

 

آئمہ (ع) کی تعلیمات زندگیاں *بنانے* کیلئے تھی لیکن اب منبر والے انہیں اپنا گھر *بنانے* اور عوام کو بیوقوف *بنانے* کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

منجانب: ادارہ تحفظ "بنانے والی" حیات (رجسٹرڈ) کراچی ، پیارا پاکستان

مالک، کتے اور ڈی پیاں!

بسم اللہ الرحمن الرحیم


مالک، کتے اور ڈی پیاں!

از قلم: محمد زکی حیدری۔

 

لو بھئی چاچا آمریکا نے اپنے کتوں سے کہا بس کرو عراق چھوڑ دو۔ ہمارا خرچہ بہت ہوگیا۔۔۔ کچھ اور سوچتے ہیں۔
پلان چینج!!!

پلان تو چینج ہوا لیکن یہ کتے جو اس پلان کا حصہ تھے کدھر جاویں گے؟ 🤔
بھئی کیا مطلب کدھر جاویں گے،
ترکی جاویں گے اور کدھر!
ھر کتا جب ھڈی ملنا بند ہو تو اپنے مالک کو ہی کاٹتا ہے!
جیسے طالبان نے پاکستان کو!
داعش کو ھڈی ترکی فوج سے ملتی تھی سو وہیں جا کر گند مچاویں گے!
کچھ مساجد میں پھٹیں گے! کچھ ٹارگٹ کلنگ کریں گے اور کچھ۔۔۔

اووووور پھر!!!

اور پھر ترکی کی فوج آپریشن مرد عضب و درد الفساد شروع کرے گی کیونکہ انہیں دھشتگردوں سے "سخت نفرت" ہے۔

اور ترکی کی قوم واٹس ایپ و فیسبوک ڈی پیوں پر انہی ظالم فوجیوں کی تصاویر رکھے گی جن کے پالے ہوئے کتوں کے ہاتھوں عراق و شام میں ھزاروں معصوم مسلمانوں کا خون بہا۔۔۔

اور جو بھی لکھاری یا بلاگر ترک قوم کو ھوش کے ناخن لینے کا کہے گا کہ *سوچو تمہیں کون ما رہا ہے* تو وہ بلاگر گم ہوجائے گا۔ قوم اسے غدار کہے گی کہ اتنی معصوم فوج کیخلاف لکھا اور پھر صوفے پہ ٹیک لگا کر رموٹ سے ترکی حکومت کے زیر اثر چلنے والے میڈیا کا ایک چینل لگا کر مرد غضب اور درد الفساد آپریشن کی اپ ڈیٹ لیگی اور کہے گی!
ترک فوج کو سلام!!!