ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

💡ولی اللہ محمد (ص) نے فرمایا لوگو! اللہ (ج) نے وعدہ کیا ہے کہ ان تنصر اللہ ینصرکم یعنی جو میری (میرے دین کی) مدد کرے گا میں اس کی مدد کروں گا مشرکین مکہ بولے😏 مذاق مت کرو محمد (ص)!
جنگ بدر میں *اللہ (ج)* نے انہیں دکھا دیا کہ ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳 مشرک شاکڈ😳

💡جنگ احد میں ولی اللہ (ص) نے فرمایا اس پہاڑی پہ کھڑے رہنا نیچے مت اترنا، اترے تو نقصان ہوگا، اصحاب نے کہا😏 کھڑے ہی رہیں عجیب مذاق ہے.
*اللہ (ج)* نے دکھایا دیا کہ ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳اصحاب شاکڈ😳

💡ولی اللہ (ص) نے صلح حدیبیہ پر دستخط کیئے شیخ صاحب کو بات سمجھ نہ آئی بولے😏 صلح نہ ہوئی مذاق ہوا.
*اللہ (ج)* نے فتح مکہ کی شکل میں دکھا دیا کہ ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳شیخ شاکڈ😳

💡 ولی اللہ علی (ع) نے خارجیوں سے فرمایا یہ قرآن جو معاویہ کے لشکر نے نیزوں پہ اٹھا رکھا ہے یہ دھوکہ ہے. خارجی بولے 😏 علی (ع) مذاق کرتا ہے قرآن و دھوکہ بھلا کیسے!
*اللہ (ج)* نے دکھا دیا کہ ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳خارجی شاکڈ😳


💡ولی اللہ حسین (ع) نے فرمایا مجھ جیسا تجھ جیسے کی بعیت نہیں کرسکتا، یزید بولا😏 عجیب مذاق ہے، میں امیر المومنین ہوں دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتے!
*اللہ (ج)* نے کربلا سجا کر بتا دیا کہ ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳یزید شاکڈ😳

💡 آتے آتے عراق میں سن ۱۹۲۰ ع میں برطانیہ نے تمباکو کی تجارت کے بہانے عراق پہ قابض ہونا چاہا. ایک فرزند ولی اللہ مجتہد مرزا حسن شیرازی (رض) نے تمباکو کی حرمت کا اور مرزا تقی شیرازی (رض) نے فتوائے دفاعیہ دیا کہ برطانیہ کو عراق سے بھگانا ہے.
برطانیہ بولا😏 عجیب مذاق ہے، آدھی سے زیادہ دنیا پر حاکم سلطنت کو مولوی للکارتے ہیں!
*اللہ(ج)* نے برطانیہ کو شکست سے دوچار کر کے دکھا دیا کہ ولی اللہ کی اولاد مذاق نہیں کرتی!
😳برطانیہ شاکڈ😳

💡 ایران میں ولی اللہ کی اولاد میں سے خمینی (رض) نامی ایک غریب مولوی اٹھا یزید وقت سے کہا: رضا شاہ ان کاموں سے باز آجا ورنہ بہت برا ہوگا، شاہ نے کہا😏 مولوی اچھا مذاق کر لیتا ہے.
*اللہ (ج)* نے ایران میں انقلاب اسلامی برپا کر کے دکھا دیا فرزند ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳شاہ شاکڈ😳


💡 ۸۰ کی دھائی میں لبنان سےتعلق رکھنے والے ولی اللہ کے فرزند امام موسی صدر (رح) نے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر مقاومت شروع کی اور دعوا کیا کہ ہم اسرائیلیوں کو چنے چبا دیں گے. اسرائیل و آمریکا بولے😏 سارے عرب مل کر کچھ نہ بگاڑ سکے، تم لوگ تو منے ہو ابھی بیٹا!
*اللہ (ج)* نے ۲۰۰۶ میں ۳۳ روزہ جنگ میں اسرائیل کو ذلیل کرکے دکھا دیا فرزند ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳اسرائیل شاکڈ😳

💡پھر سے عراق آئیے! آمریکا نے جب عراق پہ حملہ کر کے اپنی من مانی شروع کی تو فرزند ولی اللہ سید سیستانی (زید عزہ) نے انہیں کہا کہ میں ایرانی ہوں تم آمریکی لہذا ہمیں حق نہیں عراق کا فیصلہ کریں.
آمریکا بولا 😏 مولانا آپ نمازیں پڑھو مذاق زیب نہیں دیتا آپکو!
*اللہ (ج)* نے سید سیستانی (زید عزہ) کے ایک فتوے کے ذریعے اپنی طاقت دکھا دی. اور ثابت کیا کہ فرزند ولی اللہ کبھی مذاق نہیں کرتا!
😳آمریکا شاکڈ😳

💡آج سے بیس سال قبل جمعہ کے خطبے میں ولی اللہ کے فرزند سید علی خامنہ ای (زید عزہ) نے ایرانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ آمریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایرانی حکومت کے پھنے خان بولے😏 عجیب مذاق ہے. وہ خود دعوت دے رہیں رھبر کو سیاست کی سمجھ ہی نہیں.
*اللہ (ج)* نے اس سال مذاکرات کرنے والوں کو رسوا کر کے دکھا دیا فرزند ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳ایرانی حکومت شاکڈ😳

💡ساری دنیا کی طاقتیں مل کر شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑتی رہیں لیکن ایران میں بیٹھے ہوئے فرزند ولی اللہ سید علی خامنہ ای (زید عزہ) بڑی تسلی سے کامیابی کی بات کرتے تھے. طاغوت بولے😏 مذاق مت کرو مولانا ہم نے داعش تیار کی ہے اس بار.
*اللہ (ج)* نے حلب میں داعش کو ذلیل کرکے ثابت کیا فرزند ولی اللہ مذاق نہیں کرتا!
😳طاغوت شاکڈ😳

*ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ*
*اللہ (ج)* مذاق نہیں کرتا! نہ ہی اس کے ولی، نہ ہی اولیاء کی اولاد! اس لیئے ماضی کے تجربات سے ہمیں درس لینا چاہیئے. اس وقت پردہ غیبت میں آج بھی ایک ولی اللہ (عج) موجود ہے اس کے فرزند رھبر معظم سید علی خامنہ ای (زید عزہ) و سید سیستانی (زید عزہ) ہمارے درمیان موجود ہیں. اور عین اپنے اجداد کی سیرت پر گامزن ہیں.

اب میرا آپ سے بتی سوال ہے...
فرزند ولی اللہ سید علی خامنہ ای (زید عزہ) نے جو شیخ نمر کی شہادت پہ فرمایا کہ *سعودی عرب نے اپنی قبر کھود لی ہے*
اور
اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں فرمایا کہ *اسرائیل اگلے بیس سال نہیں دیکھ پائے گا*
ان دونوں باتوں کو آپ قبول کرتے ہیں یا گذشتہ لوگوں کی طرح 😏 کرتے ہیں؟
اس 👈🏽 😏 کے آخر میں 👈🏽😳 ہوتا ہے. سوچ لیجئے اور
جواب دماغ کی بتی جلا کر کر دیجئے گا.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

عمل اور نسب

سید نہج البلاغہ کی نظر میں

سادات کا احترام و سادات کی مذمت

 

سادات کا احترام و سادات کی مذمت

تحقیق: محمد زکی حیدری

 

پاک و ہند میں کچھ سادات کرام جو کہ بیشک نبی (ص) سے نسبت کی وجہ سے محترم ہیں لیکن انہوں نے اس محترم ہونے کو اپنا رنگ چڑھا کر، صرف سیادت کو ہی اپنی نجات کا وسیلہ بنا لیا اور ایسی عجیب باتین کرنا شروع کردیں کہ سید چاہے گناہگار بھی ہو تو اس کا بھی احترام واجب ہے!اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کے سندہ اور پنجاب  میں لوگوں نے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف بولنا بھی گناہ سمجھ لیا سید چاہے کرپشن کرے ملکی اثاثوں کا ناجائز استعمال کرے تو بھی احترام کریں؟  میرے محترم دوستو بھائیو  بیشک اسلام میں  سادات کے احترام میں  روایات ملتی ہیں لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا پڑوسیوں کے حقوق، احترام، لحاظ، عزت کی روایتیں نہیں ملتیں؟ کیا استادوں، مزدوروں، طالب علموں وغیرہ کے احترام وٖفضیلت کے متعلق احادیث و روایات نہیں ملتیں؟ کیا پڑوسیوں کے بارے میں رویات ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ افضل اور سب ارضل؟ یا پھر ان کے احترام میں  آنے والی رویات کو بنیاد بنا کر وہ دعویٰ کریں کہ انہیں جہنم کی آگ چھو تک نہیں  سکتی۔  کیا یہ عجیب بات نہیں؟  میں مثال عرض کرتا چلوں  میرا پڑوسی بھنگ پیتا ہو، چرس پیتا ہو، موالی ہو، بے نمازی ہو اور میں جب اس کے خلاف کچھ بولوں تو مجھے میرا پڑوسی رویات و احادیث لا کر دکھا دے کہ میاں یہ لو نبی (ص) نے تو ہمارے احترام میں یہ یہ کہا اور آپ ہیں کہ ہم سے اس طرح پیش آ رہے ہیں۔۔۔۔ کیا میرے پڑوسی کی یہ توجیہ درست کہلائے گی؟ نہیں میرے دوستو بھائیو اور بزرگو!

اسی طرح سادات کے احترام میں بھی روایات آئی ہیں جناب لیکن عمل کے ترازو میں تولا جائے گا پھر احترام ہوگا خالی روایات کا آنا سادات کو محترم نہیں کرتا ، اب اس کا ھر گز یہ مطلب نہیں کہ  سادات کا احترام کیا ہی نہ جائے، نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ، میں خود کو سید  امام خمینی و سید علی خامنہ ای وغیرہ کے قدموں کی دھول سمجھتا ہوں۔۔۔  سادات کا مقام محترم ہے  ہمارے مرشد ہیں، آقا ہیں، بزرگ ہیں لیکن اسی طرح بے نمازی سید کو بے نمازی کہوں گا، چرس پینے والے  سید کو چرسی کہوں گا، قرآن کی آیات کا انکار کرنے والے کو منکر کہوں گا، نماز کے خلاف بولنے والے پر اس کی ذات کے متعلق آئی روایات کے قطع نظر اسے بے نمازی کہوں گا۔

اب میں اپنے دعوے کے اثبات میں دلیلیں آئمہ (س) کی سیرت سے پیش کرتا ہوں۔

 

1-            امام باقر (ع)  کا قول

نے  اپنے حسب و نسب پر فاخر انسان مذمت کی ہے فرمایا:" ثلاثۃ من عمل الجاھلیہ : الفخربلأنساب، والطعن فی الأحساب  والاستسقاء بالانواء"

ترجمہ: تین چیزیں جاہل کی نشانی ہیں : آبا و اجداد پر فخر کرنا، حب کی بنیاد پر کسی کو طعنے دینا، اور ستاروں سے بارش طلب کرنا۔ (1)

 

2-            رسول (ص) کے قول سے:

امام صادق (ع) سے روایت ہے :ایک دن رسول خدا (ص) نماز فجر مسجد میں ادا کرنے کے بعد ، اس حال میں کہ آپ (ص) کو سیاہ پیراہن پہنا ہوا تھا، خطبہ دیا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر انجام دیا  اور فرمایا: یافاطمہ! اعملی فانی لا أملک من اللہ شیئاٍ (2)

ترجمہ: اے فاطمہ! جو فرائض تم پر خدا نے  عائد کئے ہیں انہیں انجام دو کیونکہ میں تمہارے کسی کام کی ذمہ دار نہیں۔

 

ابوہریرہ سے روایات ہے  کہ رسول (ص) نے فرمایا: "یا بنی عبدالمناف! اشترو أنفسکم من اللہ، یا بنی عبدالمطلب اشترو أنفسکم من اللہ، یا ام  زبیر العوام عمۃ رسول اللہ ،یا فاطمہ بنت محمد اشترو أانفسکما من اللہ لا أملک کما لکما من اللہ شیئا"

ترجمہ: اے عدالمناف کے بیٹو! اپنی جانوں کو خدا سے خرید لو(یعنی عمل صالح سے خود کو عذاب الٰہی سے محفوظ کرو)  اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنی جانوں کو خدا سے  خرید لو، اےزبیر بن عوام کی ماں رسول کی پھوپھی  اور اے فاطمہ بنت محمد اپنی جانوں کو خدا سے خرید لو کیوں کہ میں خدا کی طرف سے تمہارے کسی عمل کا زمہ دار نہیں۔ (3)

 

3-            امام رضا (ع) کے ایک بھائی  زید النار:

 

200 ہجری کو جب ماموں رشید نے امام رضا (ع) کو ولی عہدی دی، زید (امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بیٹے) نے بصرہ میں بغاوت کھڑی کردی اور بنی عباس کے گھروں کو جلا دیا،(اسی وجہ سے اسے زیدالنار بھی کہا جاتا تھا)۔ آخر زید کی بغاوت ناکام ہوئی اور اسے گرفتار کیا گیا اورپابند رسن کرکے مرو بھیجا گیا۔

حسن بن موسیٰ بغدادی کہتا ہے: میں خراسان کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا، امام رضا (ع) بھی اس میں موجود تھے۔ زید نے حاضرین مجلس کو مخاطب کیا اور اپنی ذات کو ان پر محترم بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے ہم ویسے! امام رضا (ع) جو دوسرے لوگوں سے محو گفتگو تھے، نے اس کی باتیں سنی تو اس کی طرف دیکھ کر کہا: اے زید! کوفہ کے سبزی فروشوں کی طرح کیوں بات کر رہے ہو کہ جو کہتے ہیں کہ " چونکہ فاطمہ زہرا کی عفت و پاکدامنی کی خدا نے خود حفاظت کی اس بنا پر ہم اس کی آل و اولاد والوں پر جہنم کی آگ حرام کر دی گئی ہے" کیا تم ان باتوں کے دھوکے میں ہو؟ کیا تم بھی خود کو "ذریۃ فاطمہ" میں شامل سمجھتے ہو؟  خدا کی قسم یہ اعزاز صرف حسن و حسین (ع) اور ان (س) کے پے در پے آنے والے بیٹوں (آئمہ)  کو حاصل ہے۔

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ موسیٰ بن جعفر(ع) جو محراب عبادت میں خدا کی فرمانبرداری کرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے رات میں عبادت کرتے تھے اور تم جو کہ کھلم کھلا گناہ کرتے ہو دونوں قیامت کے دن برابر ہوگے؟ اور دونوں کو رحمت خدا نصیب ہوگی؟ یا پھر تم خدا کے مقرب بندوں میں سے ہوگے؟  ہمارے جد امام زین العابدین (ع) نے فرمایا ہے "لمحسنا کفلان من الاجر ولمسینا ضعفان من العذاب" (ہمارے کے نیک افراد کی نیکیاں دوگنی اور ہمارے  خاندان کے گناہگاروں کی سزا بھی دگنی)۔

راوی کہتا ہے اس وقت امام رضا (ع) نے میری طرف دیکھا اور کہا "اے حسن! اس آیت کو کیسے پڑھتے ہو؟ "قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ" (اے نوح یہ تمہاری اھل میں سے نہیں ہے اس نے برا کام کیا ہے)

میں نے عرض کیا: کچھ لوگ اس میں غیر صالح کو "غیرُ صالح' یعنی وصفی کر کے پڑھتے ہیں یعنی اس نے عمل غیر صالح کیا اور کچھ اسے  "غیرِصالح" پڑھتے ہیں یعنی اس نے بدکاری کی۔ جو بھی اسے پہلے طریقے کے مطابق  پڑھتا ہے وہ یہ مانتا ہے کہ وہ نوح کی اولاد ہی نہیں تھا۔

امام (ع) نے فرمایا: ہرگز نہیں! وہ نوح کاہی بیٹا تھا لیکن صرف اس لیئے کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی اس لیئے خدا نے اس کو نوح کا بیٹا ہی ماننے سے انکار کردیا۔ ہم اہل بیت بھی اسی طرح ہیں ہم میں سے جس نے بھی خدا کی نافرمانی کی وہ ہم میں سے نہیں لیکن اے حسن! تم اگر مطیع بن جاؤ تو ہمارے خاندان میں سے ہوجاؤ گے۔ ((4)) (لو بھائی سید کو دیر ہی نہیں لگی غیرسید بننے میں اور غیر سید کو دیر ہی نہیں لگی سید بننے میں)

اما م رضا (ع) فرماتے ہیں خدا اور کسی بندے کے بیچ اس کے آبا و اجداد کا کوئی عمل دخل نہیں، اور کوئی خدا کا قرب حاصل نہیں کرسکتا سوائے اطاعت کے۔ رسول خدا (ص) نے ابوطالب کی اولاد سے فرمایا:"اینونی بأعمالکم لا با حسابکم و انسابکم" (میرے پاس اپنے اعمال لاؤ نہ کہ اپنا حسب و نسب)۔

4-            ایک اور واقعہ پیش خدمت ہے ایک اور امام  کی سیرت سے۔

امام زین العابدین سے طاؤس الفقیہ (یمانی)  نے کہا کیوں اتنی محنت و عبادت کرتے ہیں جب کہ آپ کے بابا حسین بن علی ، دادی زہرا، اور جد رسول ہیں۔ امام سجاد نے فرمایا "ھیھات ھیھات یا طاؤس! دع عنی حدیث ابی و امی و جدی، خلق اللہ الجنۃ لمن أعطا و احسن ولو کان حبشیا، و خلق النار لمن عصاہ ولو کان قرشیا، اما سمعت قول اللہ تعالیٰفَإِذَا نُفِخَفِي الصُّورِ فَلا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلا يَتَسَاءَلُونَ" ((5))"واللہ ینفعک غداً الا تقدمہ تقدمھا من عمل صالح"(6))

ترجمہ : افسوس افسوس طاؤس! میرے باپ، دادی، دادا کی قربت کی بات مت کرو، خدا نے جنت اس کیلئے بنائی ہے جو اطاعت گذار ہو پھر چاہے وہ حبشی کیوں نہ ہو، اور جھنم اس کیلئے بنائی جو گناہگار ہو چاہے قریشی کیوں نہ ہو۔ کیا تم نے قرآن میں خدا کا قول نہیں پڑھا کہ " جس دن صور پھونکا جائے گا اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ نہیں بچے گا نہ وہ ایک دوسرے سے مدد مانگ سکیں گے۔" خدا کی قسم اس دن کوئی کسی پر مقدم نہیں ہوگا سوائے ان کے جنہون نے عمل صالح انجام دیئے۔

 

میرے محترم  سادات بہنو اور بھائیو اگر زندگی قرآن و آئمہ اطہار سے ہی لینی ہے تو بھیا ان کا راستہ صرف فرمانبرداری و اطاعت خداوندی ہے۔

بھائی سادات کرام  کیلئے "ڈبل پیکیج" ہے امام (ع) کے بقول، تو آپ اچھے کام کریں قرآن کی مانیں، احادیث کی مانیں ، آئمہ (ع) کی بات مانیں تقویٰ اختیار کریں کیونکہ قرآن کے مطابق سب سے افضل وہ ہے جو تقویٰ میں آگے ہے "ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم"۔ آئمہ نے آپ کو نعمت کی خبر دی ہے اس سے استفادہ کریں۔

مجھے معلوم ہے اکثر دوستوں کے پاس جواب نہیں ہوتے وہ مجھے سادات دشمن کہیں گے بھائی اگر یہ سادات دشمنی ہیں تو میں سادات کا دشمن ہی صحیح مگر خدا کی قسم میں جس شخص کو دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں اور جسے سجدے (اگر حرام نہ ہوتے) کرتا وہ ایک سید ہی ہے لیکن وہ "صرف" سید نہیں ہے۔

 

شکریہ: محمد زکی حیدری و "آب"

 


 [1] معانی الاخبار 326، باب معانی الانواء ، بحار 55:315

2  بصائر الدرجات 324، بحار 22:465، باب وصیۃ عند قرب و فاتہ 18،

3 مسند احمد 2:50 صحیح بخاری 141:4

 ((4)) معانی الاخبار : 106، باب معنی الظالم لنفسہ والمتقصد و سابق ، عیون اخبار رضا 1، 257-258، باب 58

((5)) سورہ مومنون: آیت 101

 (6)) مناقب آل ابوطالب ج:3 ص: 291-292، باب امامۃ علی ابن الحسین (ع)، مکارم اخلاق علی بن الحسین و علمہ ج:57

 

 



 

سانولا سلونا تیرا سعودیه کا چشمه!

سادات اور بھرتپور ریاست میں بارش!

سادات اور بھرتپور ریاست میں بارش!

 

تحریر: محمد زکی حیدری

 

1937 ع... یہ بھرتپور ریاست هے جس میں میرے مرشد جعفری سادات کا ایک گاؤں ہے پہر سر۔۔۔ ریاست میں سخت قحط سالی ہے۔۔ بارش کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے، ریاست کے ہندو راجه پریشان ہیں۔۔۔ مندروں میں وشیش پراتھنا (خاص دعا) کرنے کی حکومتی سفارشات جاری ہوئیں لیکن لاحاصل...آخر راجہ نے بڑے بڑے پنڈتوں کی بیٹھک بلائی کہ سب مل کر پراتھنا کریں۔۔۔ بڑے بڑے پائے کے پنڈٹ اور سادھو ریاست کے خرچ پر آنے لگے ایک مہا پراتھنا (اکھنڈ کیرتن) کا انتظام ہوا، جادوگر، سوامی، سادھو، گرو، چیلے، پنڈت سب آئے تین شب و روز تک یہ رسومات جاری رہیں مگر ان کے بارش کے دیوتا اندر صاحب راضی نہ ہوئے ۔۔۔ اور ان تمام پنڈتوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا کہ راجہ جی ہم کچھ نہیں کر سکتے...

اس وقت کے انگریز وزیر اعظم یعنی بھرتپور انتظامیہ کے صدر (راجہ کے مہا منتری) مسٹر ہینکوک صاحب نے مسئلہ پر غور کیا اور ان کے ذھن میں ایک بات آئی کہ ریاست کے تمام مذاہب سے متعلقین نے اپنے گھوڑے دؤڑا لیئے سوائے بھرتپور کے مسلمان سادات کے... لہٰذا انہوں نے سوچا چلیئے انہیں بھی بلا لیتے ہیں کہ پتہ چلے یہ کتنے پانی میں ہیں...جب سادات تک یہ دعوت پہنچی تو باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ جلوس و علم حضرت عباس (ع) برآمد کیا جائے..

29 اگست 1937 کو جلوس برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا یاد رہے کہ اس دن کے بارے میں ہندو جوتشیوں نے پیشگوئی کر رکھی تھی کہ اس دن بارش کے کوئی امکانات نہیں اور محکمہ موسمیات نے بھی بارش کے کسی امکان کو رد کیا تھا۔

آج 29 اگست کی صبح ہے سارے سادات بچے، جوان، بوڑھے محلہ گھیرسی صاحب میں جوق در جوق آرهے هیں، جیسے جیسے سادات کے آمد کا سلسلہ بڑھتا جا رہا هے سورج کی کرنوں کی تپش میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارها هے , مگر سادات نے تحیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی صورت علم برآمد کرنا ہے...

دن کے دو بجے ہیں، چلچلاتی دھوپ، جسم کو جھلسا کر رکھ دینے والی کڑی دھوپ، اتنی گرم لو کہ جیسے جھنم کی کوئی کھڑکی بھرتپور کی طرف کھل گئی ہو، سورج کی کرنیں گھر سے باہر آنے والی ہر مخلوق کو بھون کر رکھ دینے پر تلی ہوئیں... اور محلہ گھیرسی صاحب سے سادات عزاداروں کے ایک جم غفیر کے همراه بڑی آب و تاب سے اپنے مولا (ع) کا علم بر آمد کرتے هیں، پورا محلہ یا حسین کی فلک شگاف صداؤں سے گونج اٹھتا هے، دور دور تک زمین پر سادات ہی سادات اور بادلوں سے صاف آسمان مین لہراتا ہوا غازی کا علم...

یہ چلے سادات وعزادار... منزل ہے کربلا جو کہ شہر سے تین میل دور ہے... کڑکتی دھوپ کہ پرندہ بھی گھونسلے سے باہر آنے سے قبل ہزار بار سوچے، جھلسا دینے والی لو چل رہی ہے، چلا کاروان سادات کا ، سینے پہ ہاتھ مارتے ہوئے لبوں پہ نوحے کے بول " ابر باراں بھیج یا رب مصطفی کے واسطے ، پیاسوں کی فریاد سن مرتضی کے واسطے” سجائے ہوئے عزاداروں کا جم غفیر اپنی منزل کربلا کی جانب روان دوان... جوں ہی جلوس شہر سے باہر نکلا تو گرمی کی شدت اور باد مخالف کی تپش میں اضافہ ہوا لیکن عزادار بے نیاز، سادات بے نیاز ہوکر " ابر باراں بھیج یا رب مصطفی کے واسطے ، پیاسوں کی فریاد سن مرتضی کے واسطے” کہتے ہوئے سینوں پر ہاتھ مارتے ہوئے جا رہے ہیں.. آخر شام 4 بجے یہ قافلہ کربلا پہنچا لیکن بادلوں کا کوئی نام و نشان تک نہیں ، ماتم جاری رہا کربلا پہنچنے کے بعد آدھا گھنٹا جم کر ماتم ہوا...
اب ہوا کی تیزی میں کمی آ چکی تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا رک گئی ہے، ماتم اسی جوش سے جاری رہا یاحسین، یا حسین کی صدائیں فلک مکینوں تک پہنچ رہی تھیں کیونکہ سادات نے تحیہ کر رکھا تھا جب تک بارش نہ ہوگی ماتم نہ رکے گا... بڑی دیر ماتم کے بعد اچانک بھرتپور واسیوں نے دیکھا کہ بھرت پور کے مشرق سے بھورے بادل نمودار ہونے لگے جو کہ آہستہ آھستہ پوری ریاست پر چھاگئے اور بوندہ باندی کے بعد بڑے زور کی بارش ہونے لگی۔۔۔ سادات کے آباو اجداد نے اللہ کے یہاں سادت کی سفارش کردی تھی ۔۔۔

بارش کافی دیر کے بعد رکی۔ شرکاۓ جلوس اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹے اور جب صدر دروازے سے شہر میں داخل ہوۓ تو یہ دیکھا کہ مین شاہراہ پر پانی بہہ رہا تھا۔ شاہراہ کے دونوں جانب ہندوؤں کی دکانیں تھیں اور جلوس کے لوگوں کو آتا دیکھ کر یہ تمام لوگ تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ قصہ گو (فیض بہرتپوری) نے یہ الفاظ اپنے سے سنے تھے ایک بنیا دوسرے سے بلند آواز میں کہہ رہا تھا – دیکھو یہ ہیں جو پیاسے سے پانی مانگنے گئے تھے پیاسے نے بھی ایسا پلون ہار پانی دیا کہ مجا (مزا) آگیا۔ اس پورے سال میں یہی ایک بارش ہوئی تھی جسکی وجہ سے قحط ٹل گیا۔ راجہ بہرتپور اعلی حکام اور عوام سب کے سب اس واقعہ سے متاثر ہوۓ اور شیعوں کا برابر احسان مانتے رہے۔

دوسرے روز یعنی 30 اگست 1937 کو کربلا میں مجلس شکرانہ ہوئ اور بہت جم کے ہوئ۔ کافی مجمع تھا۔ پوری ریاست پر شیعوں کی دھاک بیٹھ گئ تھی۔

با تشکر خاص:
سید سرفراز حسین زیدی الواسطی فیض بہرتپوری
مکان نمبر 5 قطار نمبر 11 بلاک سی
بلاک 5 ناظم آباد
کراچی

 


www.facebook.com/arezuyeaab

 

دلچسپ بحث شیعہ اور باوا ملنگ   

 

دلچسپ بحث
شیعہ اور باوا ملنگ

 

از قلم: محمد زکی حیدری

 


شیعہ: سید کس کی اولاد کو کہتے ہیں؟
باوا: جی شیعہ مولا علی (ع) اور سیدہ زھرا (س) کی اولاد کو۔

شیعہ: تو کیا نبی (ص) سید نہیں تھے نسل کے لحاظ سے؟ کیوں کہ وہ تو علی (ع) کی اولاد نہیں تھے؟
باوا : جی نہیں جو بھی حدیث کساء والی چادر میں 5 شخص تھے وہ سید ہیں۔

شیعہ: اچھا تو مولا علی (ع) کے بھائی بھتیجے نسل کے لحاظ سے سید نہیں تھے؟
باوا : نہیں وہ سید نہیں تھے۔

شیعہ: اچھا سید زادی کا غیر سید سے نکاح جائز ہے؟
باوا: نہیں حرام ہے بلکل حرام!

شیعہ: تو زینب (س) بنت علی (ع) کا نکاح تو علی (ع) کے بھتیجے جناب عبدااللہ (ع) سے ہوا ابھی آپ نے کہا علی (ع) کے بھتیجے بھائی سید نہیں۔
باوا: نہیں جی وہ ہاشمی سید ہیں ، جو بھی جناب ہاشم کی اولاد ہے وہ ہاشمی سید ہے اور جو فاطمہ (س) کی اولاد ہے وہ فاطمی سید کہلاتی ہے۔

شیعہ: اچھا ہاشمی سید ہیں؟
باوا: جی ہاشم کی اولاد سید ہے ہاشمی سید، علی (ع) خود ھاشمی سید تھے نبی (ص) بھی۔

شیعہ : باوا سوچ لیں پکا ہاشمی سید ہوتے ہیں؟
باوا: جی جی پکا

شیعہ: تو نبی (ص) کی پھوپھیاں بھی سید ہ ہوئیں؟
باوا: جی ہاں

شیعہ: اچھا تو سورہ احزاب کی آیت نمبر 37 کھولیں اس میں لکھا ہے زید غلام غیر سید صحابی کا نکاح ہوا ہے نبی (ص) کی پھوپھی زاد بھن زینب بنت جحش سے۔ قرآن کھولیں آیت میں زید کا نام بھی ہے۔
اصول کافی (جلد 5 صفحہ 344) میں سیدہ ضبائۃ بنت زبیر بن عبدالمطب کا نکاح غیر سید صحابی مقداد بن اسود سے ہوا یہ کیسے؟؟؟؟
باوا: او دفع ہو لعنتی مقصر دا پتر۔۔۔
شیعہ : والسلام

کیا امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی سید لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے شادیاں نہ ہوسکیں؟

 

کیا امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی سید لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے شادیاں نہ ہوسکیں؟

 

تحریر: محمد زکی حیدری 

 

امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کے بارے میں تاریخی کتب میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں ہم ان میں سے ہر ایک پر مفصل گفتگو کریں گے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ایک معصوم کی اتنی بیٹیاں کیوں نہ بہائی جا سکیں؟

وصیت امام موسیٰ کاظم کہ میری بیٹیاں شادی نہ کریں (استغفراللہ)

ایک تاریخ دان لکھتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے خود وصیت کی تھی کہ میری کوئی بھی بیٹی شادی نہ کرے!
یہ کہنا ہے ابن واضح یعقوبی کا ۔ اس کے بقول : موسی بن جعفر (امام موسی کاظم) کی 23 بیٹیاں تھیں اور 18 بیٹے تھے : على‌رضا ، ابراهيم ، عباس ، قاسم ، اسماعيل ، جعفر ، هارون ، حسن ، احمد ، محمد ، عبيدالله ، حمزه ، زيد ، عبدالله ، اسحاق ، حسين ، فضل و سليمان۔ موسی کاظم (ع) نے وصیت کی کہ میری کوئی بھی بیٹی شادی نہ کرے اور ان میں سے کسی بیٹی نے شادی نہیں کی سوائے ام سلمہ کہ جنہوں نے مصر میں قاسم بن محمد بن جعفر بن محمد سے عقد کیا لیکن اس بات کو لیکر قاسم اور ان کے رشتیداروں میں بڑی بحث چھڑ گئی اتنی حد تک کہ قاسم کو قسم کھانی پڑی کہ انہوں نے سلمہ کا جامہ اس سے دور نہیں کیا اور سوائے عقد موقتی (یعنی متعہ) کے کچھ نہ کیا تا کہ سفر حج کیلئے دونوں ایک دوسرے کے محرم ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اور اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
علمائ کرام نے یعقوبی کی بات کا انکار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے ہیں:
ایسی وصیت سنت رسول اللہ (ص) اور آئمہ اطہار (ع) کی سیرت کے خلاف ہے اور امام معصوم سے ایسی وصیت کا آنا ناممکن اور نا معقول ہے۔
اب جو وصیت امام (ع) نے کی تھی اس کی روشنی میں ہم یعقوبی کی بات کا جائزہ لیتےہیں۔
ابراهيم بن عبدالله از موسى بن جعفر ( ع ) نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کچھ افراد مثل اسحاق بن جعفر، ابراهيم بن محمد و جعفر بن صالح وغیرہ ۔۔ کو اپنی وصیت کا گواہ بنایا اور فرمایا : اُشْهِدُ هُمْ اَنّ هَذِهِ وَصِيَّتى . . . اَوصَيْتُ بها اِلى عَلَىٍّ‌ٍ اِبْنى . . . و اِنْ اَرادَ رَجَلٌ مِنْهَم اَنْ يُزَوِّجَ أختَهُ فَلَيْسَ لَهُ اَنْ يُزَوِّجَها الاّ بِاِذْنِهِ وَ اَمْرِهِ . . . وَ لا يُزَوِّجَ بَناتى اَحَدٌ مِنْ اِخْوتِهِنَّ وَ مِنْ اُمّهاتِهِنَّ وَ لا سُلْطانٌ وَ لا عَمِلَ لَهُنّ اِلاّ بِرأيِهِ وَ مَشْوَرتهِ ، فَاِنْ فَعْلُوا ذلِكَ فَقَدْ خالَفُوا الله تَعالى وَ رَسُولَهُ ( ص ) وَ حادُّوهُ فى مُلْكِهِ وَ هُوَ اَعْرَفُ بِمنالحِ قَوْمِهِ اِنْ اَرادَ اَنْ يَزَوِّجَ زَوَّجَ ، وَ اِنْ اَرادَ اَنْ يَتْرَكَ تَرَكَ . . . "
میں نے شاہد بنایا ان کو کہ یہ میری وصیت ہے میرے بیٹے علی کیلئے۔ تم میں سے کوئی بھائی اپنی بہن کی کسی سے شادی کرنا چاہے تو اسے حق نہیں جب تک کہ (امام علی رضا) اجازت و فرمان نہ دے دیں۔ اور نہ ہی میری بیٹیوں میں سے کسی کو حق ہے کہ وہ اپنی بہنوں کی شادیاں کروائیں، نہ ان کی ماں نہ ہی کوئی ولی ان کیلئے کوئی اقدام کرے اس سے قبل کہ اس (امام رضا) سے رائے زنی اور مشاورت نہ کرلی جائے۔ اگر اس کی اجازت کے بغیر کسی نے کوئی اقدام کیا تو بیشک اس نے خدا و رسول کی مخالفت کی اور اس کی سلطنت میں فساد کیا۔ وہ (امام رضا) اپنی قوم میں شادی کی مصلحتوں کو سب سے بہتر طور جانتے ہیں،جس کی چاہیں شادی کرائیں اور جس کی چاہیں نہ کرائیں۔"
اس وصیت نامے میں امام موسیٰ کاظم (ع) نے صراحت کے ساتھ اپنے بیٹوں کو بتایا کہ ان کے بعد حجت خدا امام رضا (ع) ہیں، لہٰذا ان کی بہنیں ہر کام بشمول ازدواج میں ان (ع) سے مشاورت کریں۔ جس کیلئے امام رضا(ع) راضی ہوں اس کے ساتھ شادی کریں کیونکہ امام مسائل ازدواج سے بہتر واقف ہیں اور ان کے ہمسروں کا فیصلہ بہتر طور کر سکتےہیں۔ اس میں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے بیٹیوں سے کہا ہو کہ وہ ازدواج کریں ہی نا!!!!! بات صرف اتنی ہے کہ امام (ع) نے فرمایا جو بھی کرنا ہو حجت خدا امام علی رضا (ع) کی مشاورت سے کرنا۔ لہٰذا یعقوبی کا یہ کہنا کہ معاذاللہ امام (ع) نے ازداوج جیسے اہم اور ضروری فعل سے اپنی بیٹیوں کو منع فرمایا سراسر جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مورخین نے یعقوبی کی بات کو جعلی و بے بنیاد کہا ہے

کفو کا نہ ملنا


کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ امام (ع) کی دختران مثلاً فاطمہ معصومہ (س) علمی و معنوی کمالات سے سرشار تھیں لھٰذا ان کا کوئی کفو موجود نہیں تھا اس لیئے ان کی شادیاں نہ ہو سکیں۔ کیونکہ ازداوج میں کفو بھی دیکھا جاتا ہے.
یہ نظریہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ اقوال و سیرت محمد (ص) کےمنافی ہے ۔ اور سیرت آئمہ بھی یہ نہیں رہی کہ صرف کفو نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو عظیم نعمت یعنی ازدواج سے محروم رکھیں۔ دوسری بات یہ کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مومن مومنہ کی کفو ہے۔ اور رسول اللہ (ص) نے جویر نامی صحابی کا نکاح بشیر بن زیاد جیسے شرفاۓ وقت میں سے ایک کی بیٹی سے کروایا جب کہ جویر اصحاب صفا میں سے تھا جن کا کوئی رشتیدار بھی نہیں تھا نہ مال نہ دولت بس تقویٰ تھی۔ اسی طرح زید بن حارث غیر ہاشمی صحابی تھے ایک غلام تھے ان کا نکاح رسول (ص) نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب بنت جحش ہاشمی سے کروایا اور بھی متعدد مثالیں ہیں جن سے ثابت ہی کہ مومن مومنہ کا کفو ہے۔ اس کے علاوہ رسول (ص) کا قول بھی ہے کہ "جب بھی کوئی تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے، اس کی دینداری و ایمان تمہیں پسند آئے تو اس کو رشتہ دے دو،اگر نہیں دیا تو زمین میں بڑا فساد کیا۔ امام موسیٰ کاظم (ع) کے دور میں امام حسن (ع) کی پشت اور امام حسین (ع) کی نسل کے بڑے اچھے نوجوان اس وقت موجود تھے کہ جن سے امام (ع) کی بیٹیوں کی شادی ہوسکتی تھی۔

 

خلیفہ وقت ہارون رشید کی سختیاں 

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہارون رشید جیسے سفاک خلیفہ کی طرف سے امام پر کیئے جانے والے مظالم وجہ بنے کے امام (ع) کی بیٹیاں غیر شادی شدہ رہ گئیں۔ ہارون رشید کے دؤر میں امام (ع) اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی۔ ہارون کے جاسوس ہر جگہ موجود ہوتے تھے کون امام (ع) سے مل رہا ہے ، کب مل رہا ہے سب کی سخت نگرانی کی جاتی تھیئ اور تاریخی کتب میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں جو اس وقت امام (ع) اور ان کے خاندان کے حالت کے عکاس ہیں۔ ان حالات میں کس میں اتنی جرآت تھی کہ جا کر امام (ع) کا داماد بنے۔ اور خود کو امام (ع) کے رشتہ داروں کی فہرست میں شامل کروا کر ہارون کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوجائے۔ اس وقت کےحالات ایسے تھے کہ کوئی امام (ع) سے فقہی مسئلہ دریافت کرنے بھی نہ جاتا تھا پھر اس ماحول میں شادیوں کی باتیں کیسے ممکن تھیں۔ حالانکہ ہارون رشید ظاہری طور پر بڑا دیندار بنتا تھا لیکن باطن میں اتنا ہی سفاک اور ظالم تھا۔ ایک مورخ نے لکھا کہ جب ہارون وعظ سنتا تھا تو بہت روتا تھا لیکن جب غصے میں ہوتا تو درندہ صفت انسان بن جاتا تھا۔
اس وقت کے شیعہ سیاسی حبس اور گھٹن کے ماحول میں زندگی گذار رہے تھے حتیٰ کہ علی بن یقطین جیسا بندہ بھی کو تقیہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ اس کی ہر سرگرمی پر نظر رکھی جاتی تھی۔ وہ لباس ولا مشہور واقعہ بھی حالات کی تنگی کا گواہ ہے کہ جو لباس خاص خلفہ کیلیئے تھا اور علی بن یقطین کو ھارون رشید نے دیا تھا اور علی بن یقطین نے یہ لباس امام موسیٰ کاظم (ع) کو تحفہ میں دینا چاہا مگر امام نے قبول نہ کیا اور فرمایا : اس لباس کو سنبھال کر رکھو کسی کو مت دینا کیونکہ یہ ایک بڑے حادثے سے تمہیں بچانے کے کام آئے گا۔ کچھ دن بعد علی بن یقطین کے ایک غلام نے جا کر ہارون سے کہا کہ وہ جو لباس تم نے علی بن یقطین کو دیا تھا وہ اس نے امام موسی کاظم (ع) کو دے دیا ہے۔ ہارون نے فوراً علی بن یقطین کو بلایا اور اس سے اس لباس کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا میں نے وہ لباس صندوقچے میں سنبھال کر رکھا ہے۔ ہارون بولا فوراً لے آؤ۔ جب ہارون نے لباس دیکھا تو کہا اچھا ٹھیک ہے آئندہ میں تمہارے خلاف کسی شکایت پر اعتبار نہیں کرونگا۔ اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں حتیٰ کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے علی بن یقطین کو اہل سنت کی طرح وضو کرنے کی بھی تاکید کی تا کہ وہ دشمن کے شر سے محفوظ رہے۔ اس کے بعد یہ بھی تو ظاہر ہے کہ امام بعض روایات کے مطابق 7 بعض کے مطابق 14 سال زندان میں رہے اور اس دوران جب امام علی رضا (ع) نے ہوش سنبھالا تب بھی حالت ایسے ہی تنگ رہے۔ مجبوراٍ انہیں خراسان کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور اسی دربدری میں ہی بیبی معصومہ بنت امام موسیٰ کاظم (ع) کی قم میں شہادت ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ امام (ع) نے وصیت کی تھی کہ بیٹیاں شادی نہ کریں ایک معصوم کی سچائی کے دامن پر ایک بڑا داغ ہوگا۔ اور یہ کہنا کہ کفو میسر نہیں تھا بھی امام (ع) کی ذات اقدس پر ایک عظیم بہتان ہوگا کیونکہ سیرت معصومین سے یہ ثابت نہیں کہ کفو نہ ملے تو بیٹیاں کنواری رہنے دی جائیں۔ امام (ع) کی بیٹیوں کی شادی نہ کرنے کی وجہ ہارون کے مظالم ہیں جن کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ حالات ایسے تھے کہ امام (ع) کے گھر کی طرف کوئی جانا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ اور اس کے بعد طویل قید ایک صاف دلیل ہے کہ حالت واقعی بہت تنگ تھے۔

تاریخ اسلام میں سید زادیوں کے غیر سادات لڑکوں سے نکاح

 

تاریخ میں سید زادیوں کے غیر سادات لڑکوں سے نکاح

 

تحقیق: محمد زکی حیدری



1-  فاطمہ صغریٰ (س) بنت حسین (ع) کا عبدالله ابن عمر و بن عثمان بن عفان (غیر سید) سے نکاح:


فاطمہ بنت حسین (س) یعنی فاطمہ صغریٰ (س) کے عبدالله ابن عمر و بن عثمان بن عفان سے ازدواج کے بارے میں آتا ہے کہ: "جب عبداللہ ابن عمر نے بیبی فاطمہ صغریٰ (س) کا رشتہ مانگا تو بیبی نے انکار کیا، لیکن ان (س) کی ماں اس رشتے کی طرف مائل نظر آئیں اور انہیں قسم دی کہ عبدااللہ سے شادی کرلیں، بیبی (س) نے اپنی ماں کے اسرار اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس شادی کیلئے ہاں کر دی لیکن اس کے بعد (تمام مورخین کے اتفاق سے) ایک سال تک اپنے شھید شوہر (حسن مثنی بن امام حسن ) کے غم میں خیمہ زن ہوکر خدا سے رازو نیاز کرتیں اور اپنے شوہر کا غم مناتی رہیں۔(1)(2)(3)(4)
حوالہ جات:
1-قمي، عباس، سفينة البحار، ج1، ص256.
2- ترجمة مقاتل الطالبين، ص 196 و 194
3- صادقي اردستاني، احمد، فاطمه دختر امام حسين ـ عليه السّلام ـ ، تهران، مطهر، 1379، ص 182، 178
4-.انساب الاشراف، ج2، ص 47 و ج 8، ص245، البدایه و النهایه، ج9، ص256.

 



2-  مقداد بن اسود (غیر سید صحابی) کا ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب (سید زادی) سے نکاح:


ہماری اہل تشیع کی مستند ترین کتب کتب اربعہ میں سے ایک "اصول کافی " کی حدیث ہے سند کے ساتھ ذرا غور سے پڑہیئے گا:
محمد بن يعقوب ، عن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن الحسن بن علي بن فضال ، عن ثعلبة بن ميمون ، عن عمرو بن أبي بكار ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) زوج المقداد بن الاسود ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب ، وانما  زوّجه لتتّضع المناكح ، وليتأسّوا برسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وليعلموا أن أكرمهم عند الله أتقاهم .
ترجمہ: محمد بن یعقوب نے علی بن ابراہیم، نے ابیہ، نے حسن بن علی بن فضال، نے ثعلبہ بن میمون نے عن عمرو بن أبي بكار نے عن أبي بكر الحضرمي نے عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) سے روایت کی کہ : رسول (ص) نے مقداد بن اسود کا نکاح ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب سے کروایا، اور یہ نکاح اس لیئے کروایا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے۔ (نہ کہ قریشی یا ھاشمی )

حوالہ جات:
اصول کافی جلد 5 صفحہ 344
اور جن کو شک ہے وہ اس لنک پر کلک کر کے وسائل شیعہ جو کہ ایک اور مستند شیعہ کتاب ہے میں اس روایت کو دیکھ لیں: اس لنک پر کلک فرمائیں http://alkafeel.net/islamiclibrary/hadith/wasael-20/wasael-20/v04.html

 

۳. حضور (ص) کی پھوپھی کی بیٹی سیدہ زینب بنت جحش کا نکاح شیخ زید بن حارث (صحابی) سے


قرآن میں سورہ احزاب کی آیت نمبر 37 کی تفسیر پڑھیں، اس میں زید (رض) کا نام آیا ہے قرآن میں یہ واحد صحابی ہیں جن کا نام آیا ہے جا کر دیکھئے ان کا نکاح خود رسول (ص) نے زینب بنت جحش سے کروایا۔ اگر آپ مولانا ذیشان حیدر جوادی کی تفسیر پڑھین تو انہوں نے زینب بنت جحش کے لیئے لفظ "سیدانی" استعمال کیا ہے۔ بھرحال اس کے حوالے کی ضرورت نہیں قرآن میں زید کے نکاح اور پھر طلاق کا قصہ مشہور ہے مجہول نہیں۔


اس کے علاوہ میں نے پڑھا ہے امام حسین (ع) کی پوتیوں زینب، ام کلثوم، فاطمہ ، ملیکہ، اور ام قاسم وغیرہ کے نکاح بھی غیر سادات سے ہوئے

 

 سید زادی کا نکاح غیر سید زادے سے نکاح اور قرآن 


سید زادی کا نکاح غیر سید زادے سے حرام ہوتا تو قرآن ضرور اشارہ کرتا کیونکہ مشرکوں سے جب نکاح حرام کہا تو فرمایا:
وَلا تَنکحُوا المُشرِکَات حتَّی یُومنَّ (مشرکات سے نکاح مت کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں) }سورہ البقرہ آیت 221{
اور کفار سے نکاح کی ممانعت سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 10 میں :
وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ (اور کفار عورت سے شادی کے روابط مت قائم کرنا)

اہل کتاب سے نکاح جائز کہا تو سورہ مائدہ کی آیت نمبر 5 میں فرمایا:
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ۔
آج تمہارے لیے سب اچھی پاک صاف چیزیں حلال کی جا چکی ہیں اور اہل کتاب کااناج تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا اناج ان کے لیے حلال ہے اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جنہیں تمہارے پہلے کتاب ملی ہے، جبکہ ان کی اجرتیں دیدوپاک دامنی کا تحفظ کرتے ہوئے، نہ کہ بے محابا شہوت رانی کرتے ہوئے اور نہخفیہ طور پر ناجائز تعلقات قائم کرتے ہوئے اور جو ایمان کے بجائے کفر اختیار کرے، اس کے سب اعمال اکارت گئے اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا۔


(واہ پاکستانی اور ہندوستانی سیدو! قرآن مسلمان لڑکے کو اہل کتاب یعنی عیسائی یہودی لڑکی سے بھی نکاح کی اجازت دے رہا ہے اور آپ نے اس پر مسلمان لڑکی (سیدزادی) حرام کردی۔۔۔۔)

محرمات سے نکاح حرام تھا تو سورہ نساء کی آیت 23 میں صاف فرما دیا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا.
تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ تمہاری مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری خوش دامنیں اور تمہاری پرورش میں آنے والی تمہاری ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تم نے مقاربت کی ہے لیکن اگر ان کے ساتھ تم نے مقاربت نہیں کی ہے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اور بیویاں تمہاری صلبی اولاد کی اور یہ کہ تم دو بہنوں کو اکٹھا کرو مگر جو ہو چکا۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان.

بھائی کوئی ایک ٹوٹی پھوٹی آیت ہی لا کر دکھا دے کہ غیر سید لڑکے سید زادی سے (نعوذ باللہ) نکاح حرام ہے۔

 

  سید زادی کا نکاح غیر سید سے جائز مستند شیعہ احادیث اور آئمہ کے اقوال سے

 


ذرا غور سے پڑھیئے گا سادات کرام وسائل شیعہ میں پورا ایک باب ہے جس کا عنوان ہی یہ ہے :
26 ـ باب انه يجوز لغير الهاشمي تزويج الهاشمية ن والأعجمي  العربية ، والعربي القرشيّة ، والقرشي الهاشمية ، وغير ذلك
باب کہ غیرھاشمی مرد کیلئے ہاشمی عورت سے نکاح جائز ہے، عجمی مرد کا عربی عورت سے ، عربی کا قریشی سے، قریسشی کا ہاشمی وغیرہ سے
یہ وسائل شیعہ جلد نمبر 7 میں باب 26 ہے
اس کے نیچے اسی باب میں یہ حدیث ہے
ـ وعن الحسين بن الحسن الهاشمي ، عن إبراهيم بن إسحاق الاحمر ، وعن علي بن محمد بن بندار ، عن السياريّ ، عن بعض البغداديين ، عن علي بن بلال قال : لقي هشام بن الحكم بعض الخوارج فقال : يا هشام ، ما تقول في العجم ، يجوز أن يتزوّجوا في العرب ؟ قال : نعم ، قال : فالعرب يتزوجوا من قريش ؟ قال : نعم ، قال : فقريش تزوج في بني هاشم ؟ قال : نعم ، قال : عمن أخذت هذا ؟ قال : عن جعفر بن محمد ( عليه السلام ) ، سمعته يقول : أتتكافأ دماؤكم ولا تتكافأ فروجكم ، الحديث . 
ترجمہ: حسن بن حسین ہاشمی سے، اس نے إبراهيم بن إسحاق الاحمرسے، اس نے علي بن محمد بن بندارسے ، اس نے السياريّ سے، اس نے عن بعض البغداديين سے، اور اس نےعن علي بن بلال سے رویت کی کہ: کچھ خارجیوں نے ہشام کو دیکھا اور پوچھا کہ : اے ہشام! کیا کہتے ہو عجمی مردوں کے بارے میں کیا وہ عرب کی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں؟
ہشام نے کہا: ہاں
پوچھا: عرب کو غیر قریشی ہیں کیا وہ قریشی لڑکی سے نکاح کرسکتے ہیں؟
ہشام نے کہا : ہاں
پوچھا : کیا قریش مرد کسی ہاشمی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے؟
فرمایا: ہاں
پوچھا: یہ علم تمہیں کس نے دیا؟
ہشام نے کہا: میں نے جعفر بن محمد (علیہ السلام) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا " کیا تم صرف خون میں ایک دوسرے کے برابر ہو اور شادی اور کفو میں نہیں۔
حوالہ:  الكافي 5 : 345 |
وسائل شیعہ کی اس لنک پر کلک کر کے خود دیکھ لیں:
http://alkafeel.net/islamiclibrary/hadith/wasael-20/wasael-20/v04.html

 

نتیجہ:


میں متقی سادات کے احترام کا قائل ہوں لیکن بھیا سید وہی ہوتا ہے جو سید المرسلین(ص) اور اس کی اہل بیت معصومین (ع) کے قول اور فعل کو من و عن قبول کرے نہ کہ اپنی سیادت کی کھوکھلی شان بچانے کیلئے ان کے ساتھ ساتھ تمام فقہاء، مجتھدیں اور مستند راویوں کا بھی انکار کر دے۔ حقیقت مان لینی چاہئے ضد کرنا شیطان کا کام ہے۔ پوری دنیا میں یہ مسئلا وجود ہی نہیں رکھتا ہم پاکستانی اور ھندوستانی ہیں کہ اپنی انا کی خاطر شیطنیت پر اتر آتے ہیں اور حقیقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔


++++++ غیرت مند سادات سے میرا سوال +++++++++++


آخری مؤدبانہ سوال : جناب آپ کے بقول سید زادی کا غیرسید زادے سے نکاح حرام ہے تو جناب کیا مندرجہ بالا شخصیتات جنہوں نے ایسا نکاح کیا وہ (نعوذ باللہ) زانی اور زانیہ ہیں؟ کیا ان کی ہونے والی اولادیں حرامی و ناجائز ہیں؟ کیونکہ جب نکاح حرام ہو تو شوہر بیوی کا تعلق ہی نہیں بنتا۔۔۔۔ آپ سوچ کر جواب دیجیئے گا۔۔۔۔ مجھے نہیں میری پاک بیبی سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو۔
خدا ہمیں حقیقت پسند بنائے۔
یاعلی!


www.facebook.com/arezuyeaab