اللہ (ج) کا خط

اللہ (ج) کا خط 

قاصد: امام جعفر صادق (ع)
مترجم: محمد زکی حیدری


حسین علوان روایت کرتا ہے، ایک مجلس میں درس دے رہا تھا، میرے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے دوست نے ہوچھا: پیسوں کیلئے کس سے امیدوار رکھتے ہو؟ میں نے کہا فلاں دوست سے! بولا: اگر ایسا ہے تو اللہ (ج) کی قسم تم کبھی اپنی مراد نہ پاسکو گے، نہ تمہیں کچھ ہاتھ آئے گا... میں کہا : یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو!
بولا: میں نے امام جعفر صادق(ع) سے سنا کہ اللہ (ج) فرماتا ہے:
میری عزت و جاہ و جلال و آسمانوں پر حکومت کی قسم! میں اپنے بندوں کی غیر خدا سے لگائی ہوئی امیدوں کو ناامیدی دے کر پارہ پارہ کردیتا ہوں. لوگوں کے سامنے اسے خواری کا لباس پہنا کر پیش کرتا ہوں اور اسے اپنے آپ سے اور اپنے احسان سے دور کردیتا ہوں. کیا وہ مشکلات میں میرے علاوہ کسی اور سے امید لگاتا ہے؟ جب کہ مشکلات (کا حل) میرے قبضے میں ہے. کیا یہ میرے علاوہ کسی اور کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے؟. جب کہ سارے تالوں کی چابیاں تو میرے ہاتھ میں ہیں اور میرے گھر کا دروازہ تو ھر پکارنے والے کیلئے کھلا ہے اور دوسرے دروازے (غیر اللہ کے) تو بند ہیں!

*کون ہے ایسا جس نے مشکل گھڑی میں مجھ سے مدد مانگی ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟*
*اور کون ہے ایسا جس اپنے بڑے بڑے مسائل میں مجھ سے امید باندھی ہو اور میں نے اس کا دل توڑا ہو*

میں اپنے بندوں کی آرزوؤں کو پورا کرتا ہوں لیکن وہ ہیں کہ راضی ہی نہیں ہوتے! میں نے آسمان کو ان مخلوقات سے جو میری تسبیح کرتے نہیں تھکتی، بھر رکھا ہے اور انہیں حکم دے رکھا ہے کہ *میرے اور میرے بندوں کے درمیان بہنے والے دریاؤں کہ منہ بند نہ کریں* لیکن یہ بندے ہیں کہ میری بات کا یقین ہی نہیں کرتے کیا انسان یہ نہیں جانتا کہ ہر مصیبت یا تکلیف جو اس پر نازل ہوتی ہے میری یا میری اجازت کے بغیر کوئی اسے رفع نہیں کرسکتا! تو کیا ہوا ہے انہیں کہ یہ مجھ سے غافل ہیں!
جو چیز اس (انسان) نے مانگی ہی نہ تھی لیکن اپنے احسان کے مدنظر میں نے اسے دی، پھر جب میں نے اس سے وہ لے لی تو وہ اسے حاصل کرنے کیلئے غیر کے پیچھے چل دیا. کیا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو اسے بغیر مانگے دے دیتا ہوں تو مانگنے کے بعد نہ دوں گا؟
*کیا میں کنجوس ہوں کہ میرا بندہ مجھے کنجوس سمجھتا ہے؟*
کیا میں احسان و کرم کرنے والا نہیں؟ کیا رحمت و درگذر میرے ہاتھ میں نہیں؟ *کیا میں آرزوؤں (کے پوری ہونے کی) کی جگہ نہیں ہوں؟*
تو پھر کون ہے جو میرے علاوہ امیدوں کو توڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے؟ کیا وہ جو میرے علاوہ کسی اور سے مانگتے ہیں نا امید نہ ہوں گے؟
*اگر اھل آسمان اور زمین مل کر آرزو کریں تو بھی میں ان میں سے ہر ایک کو اس کی امید کے مطابق عطا کرونگا* میرے خزانے میں ذرا برابر بھی کمی نہ آئے گی. بھلا کیسے کمی آئے جب کہ اس کی سرپرستی میرے ہاتھوں میں ہے. *بس تو افسوس ہو ناامید و مایوس ہونے والوں پر!*

(اصول کافی ج ۳ ص ۱۵۱)

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

اللہ (ج) کو چھوڑ کر

اللہ (ج) کیا ہے

هم ایک ھستی کو بھول تو نهیں گئے!

 

هم ایک ھستی کو بھول تو نهیں گئے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 

مجالس میں اھل بیت (ع) کی کریمی کا سن کر کبھی کبھار میرا دل کرتا هے که میں ایک عالم دین کو دعوت دوں اور انهیں عرض کروں که مولانا صاحب! بات یه هے هم پوری زندگی الله (ج) کے عاشقوں کا سنتے رهے ذرا همیں بتائیں همارے معشوقوں کا معشوق (ج) کیسا هے... کیسا هے وه (ج) که جو نافرمانوں کو بھی اپنی نعمات سے نوازتا هے. کیسا هے وه جس نے محمد (ص) کو بنایا ... علی (ع) کو بنایا ... اتنی فکر کیوں هے اسے هماری ... همیں کهتا هے نماز پڑھو بھت بھت بھت کهتا هے!  هم نهیں مانتے لیکن گھر جاتے هیں کھانا همارے لئے تیار رکھا هوتا هے. رزق بند نهیں کرتا!

مولانا صاحب همیں اس کا ذکر سنائیں جس نے همارے باپ کے نطفے کے ایک قطرے میں موجود کروڑوں جرثوموں سے صرف ایک کو منتخب کیا , جو هماری مادر کے رحم میں گیا اور هم پیدا هوئے اور باقی جرثوموں کو ضایع کردیا.

همیں آنکھیں دی ان میں 26 کروڑ آئی رسیپٹرز یعنی چھبیس کروڑ چھوٹے چھوٹے بلب لگے هوئے  هیں, اور انهیں دماغ کے ساتھ پتلی وائرنگ کے ذریعے جوڑ رکھا هے, هم سے کهتا هے اس کا بل کوئی نهیں ... کچھ نه دو ان بلبوں کا بل, بس ان آنکھوں سے فحشات نه دیکھنا لیکن هم نے تو دیکھے! مگر اس کے باوجود اس نے هماری آنکھوں کے بلب جلائے رکھے.

مولانا صاحب ! اپنی مجلس میں همیں بتائیں که آخر مختلف ذائقوں کا مزه لئے بغیر بھی تو زندگی ممکن تھی, پھر اس کریم رب نے هماری زبان کے اندر ھزاروں ٹیسٹ بڈز عرف ذائقه بتانے والے چھوٹے چھوٹے نوکدار نرم کانٹے  کیوں بنائے اور انهیں پوری زبان کی سطح پر اس طرح پھیلا دیا که جب میٹھی چیز زبان کو لگے تو مٹھاس بتانے والے یه بڈز حرکت میں آئیں اور جا کر دماغ کو بتائیں که اس چیز کا ذائقه میٹھا هے .. کیوں؟؟؟ کیا ضرورت تھی؟؟؟ ایک هی ذائقه هوتا تو کیا فرق پڑتا لیکن لگتا هے یه سب اس (ج) نے هماری محبت میں کیا ... کیوں پیار کرتا هے هم سے وه اتنا ... 

پھر ناک کو منه کے اوپر هی کیوں رکھا؟؟؟  ناک کو صرف سانس لینے کیلئے هی بنایا تھا تو کهیں بھی اسے رکھ دیتا منه کے اوپر هی کیوں. شاید اس لئے تا که قبل اس کے که زبان کسی گندی چیز کو رد کرے اور اس وقت تک زبان میں اس کثیف چیز کے جراثیم پھیل جائیں, ناک منه کے اوپر رکھ دی که ناک اس چیز کی بدبو سے هی اسے رد کردے. وه اتنا خیال کرتاهے که  اس کے بندے کے پیٹ میں ایسی چیز جائے جو خوش ذائقه بھی هو اور خوشبودار بھی هو, اگر ناک اس کھانے کی چیز کو قبول نه کرے اور  رد کردے تو منه میں جانے سے پهلے هی اس (ج) کا بنده وه چیز چھوڑ دے اور اسے کھا کر جو نقصان هو اس سے بچا رهے.

اس کے علاوه ناک میں کوئی چیز یا گرد و غبار کے ذرات چلے جائیں تو قبل اس کے که وه گندے ذرات اس (ج) کے بندے کے پهیپھڑوں میں داخل هوں اس کریم نے چھینک کا نظام رکھ دیا که چھینک سے وه غلاظت باهر نکل جائے پهیپهڑوں میں جا کر اس (ج) کے بندے کو ضرر نه دینے پائے...

 مولانا صاحب یه تو کچھ بھی نهیں زمین و آسمان میں اس نے جو جو همارے لئے نظام بنایا هے اتنا منظم نظام ... یه سب کیوں? جو اپنے نافرمانوں کو اتنی محبت دیتا هے, ان کیلئے اتنا عالیشان اھتمام کرتا هے دنیا میں, تو فرمانبرداروں کیلئے جو اس نے جنت بنا رکھی هے وه کیسی هوگی....

 همیں بتائیں مولانا صاحب! وه (ج) همیں کیوں اتنا پیار کرتا هے هم تو اس کی مانتے نهیں کیوں آخر همارے اندر ایسی کیا بات هے ؟ وه اتنا اچھا کیوں هے...

مولانا صاحب! همیں اس (ج) کا ذکر سنائیں اس (ج) نے کها هے که اسکے ذکر سے سکون ملتا هے اسی رب کی قسم یه سچ هے, لھذا همیں اس کریم رب کے بارے میں بتائیں کیونکه همیں لگتا هے که هم اس ھستی کو بھول گئے هیں.

 

www.fb.com/arezuyeaab