بیبی فاطمہ صغریٰ (ص) کا کوفہ کی دربار میں خطبہ


(جی جی یہ وہی فاطمہ صغریٰ (س) ہیں جنہیں خطیب صاحبان مدینہ میں بیمار حالت میں رہ جانے والی کہا کرتےہیں۔)

 

مترجم از فارسی: محمد زکی حیدری

 

زید بن امام موسیٰ کاظم (ع) اپنے والد سے اور ان کے والد امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغریٰ (س) نے کربلا سے واپسی کے وقت کوفہ میں پہنچ کر یہ خطبہ دیا ۔

خدا کا شکر، اس کائنات میں موجود تمام ریت کے ذروں اور پتھروں کی تعداد اور ان کے اور عرش سے فرش تک موجود ہر چیز کے وزن برابر۔ اس کا شکر ادا کرتی ہوں اور اس پر ایمان رکھتی ہوں اور اس ہی پر توکل کرتی ہوں، اور گواہی دیتی ہوں کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد (ص) اس کا عبد اور پیغمبر ہے؛ اور گواہی دیتی ہوں کہ اس کے بیٹے کی فرات کے کنارے گردن کاٹی گئی جبکہ وہ ان سے نہ کسی کا قصاص رکھتے تھے نہ ہی انہیں کسی کے خون کی قیمت ادا کرنی تھی۔
پروردگار! میں تیری پناہ چاہتی ہوں، اس سے کہ میں تجھ پر جھوٹ باندھوں یا افتراء کروں، یا تمہاری طرف سے نبی (ص) کو دیئے ہوئے پیغام کہ لوگوں سے اپنے جانشین، علی ابن ابی طالب ، کی جانشینی کیلئے بعیت لو، کے بارے میں کچھ کہوں۔ اسی علی کہ جس کا حق چھینا گیا اور اسے بے گناہ مارا گیا، کی طرح کل کچھ زبان سے مسلمان لیکن دلوں سے کافر لوگوں نے اس کے بیٹے کو کربلا میں مار ڈالا۔
یہ قتل ان کے گلے میں ہے! کہ جنہوں نے نہ جیتے جی اور نا ہی مرتے وقت ان پر ظلم و ستم کرنے سے دریغ کیا، جب کہ تونے انہیں فضائل والا، پاکیزہ طبیعت ، خوبیوں اور نیکیوں کی وجہ سے جانا جانے والا اور اپنا قریبی بنایا تھا۔ خداوند! نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور نہ ہی کسی مذمت کرنے والے کی مذمت اسے تیری عبادت و بندگی سے روک سکی۔
تو نے اسے بچپن میں ہی اسلام سکھایا اور جب وہ بڑا ہوا تو تم نے اس کے فضائل بیان کئے۔ وہ اسی طرح تمہارے نبی (ص) کی خوشنودی کیلئے امت کو نصیحت کرتا رہا اس وقت تک کہ جب تک تو نے اس کی روح نہ قبض کرلی۔ وہ دنیا سے خائف وبے پرواہ اور آخرت کی طرف راغب اور اس کا مشتاق تھا اور تیری راہ میں دشمنوں سے برسر پیکار رہ کر جہاد کیا۔ تو اس سے راضی ہوگیا اور اسے برگزیدہ کرکے راہ حق کی طرف ہدایت کی۔ خدا کی حمد و ثناء کے بعد، اے کوفے والو! اے مکارو اور فریبکارو! خدا نے ہمیں تمہاری طرف بھیجا اور ہمارے توسط سے تمہارا امتحان لیا اور ہمیں امتحان میں سرخرو کیا۔ فہم و علم کو اپنی امانت بنا کر ہمیں سونپا، لھٰذا ہم ہی ہیں علم، فہم و حکمت کے خزانے اور دنیا کے چپے چپے پر ہم ہی حجت خدا ہیں۔خدا نے اپنی کرامت سے ہمیں بزرگی سے نوازا، اور محمد (ص) کے توسط سے ہمیں باقی لوگوں پر برتری عطا کی۔
تم نے ہماری تکذیب اور تکفیر کی، ہمارے خون کو مباح؛ ہم سے جنگ کو حلال اور ہمارا مال لوٹنے کو جائز سمجھا، ایسے جیسے ہم کوئی ترک یا کابلی اسیر ہوں! چونکہ تم نے کل ہمارے جد کا قتل کیا اور تمہاری تلواروں سے ہمارے لیئے نفرت اور تعصب کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے، اور جو بہتان تم نے خدا پر باندھا اور جو مکاری و فریبی تم نے کی، اس سے تمہارے دل بڑے خوش اور مسرور ہیں لیکن جان لو! خدا سب سے بڑا تدبیر بنانے والا ہے اور وہ ہی سب سے اچھا منتقم ہے۔
تم ہماری قتل و غارت سے کسی خوش فہمی میں مبتلا مت ہونا کیونکہ یہ مصائب اس سے پہلے ہی قرآن میں بیان کئے جاچکے ہیں (اور اللہ ان کو جانتا تھا) اور یہ خدا کیلئے سہل و آسان ہے۔ "جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل گئی اسکا غم نہ کرو اور جو نفعہ تمہیں حاصل ہو اس پر خوش مت ہو کیونکہ اللہ بہانے بنانے اور منحرف ہوجانے والے کو پسند نہیں کرتا"۔
اے اہل کوفہ! تمہیں موت آئے! اب منتظر رہو کیونکہ کہ خدا بہت جلد غیب سے تم پر مسلسل لعنت اور عذاب بھیجنے والا ہے اور تمہیں اپنے کیئے کی سزا دینے والا ہے تم سے بعض کو بعض پر حاوی کرکے تم سے انتقام لینے والا ہے۔ اور قیامت کے دن یہ مظالم تم نے ہم پر ڈھائے ہیں ان کے بدلے ہمیشہ کیلئے جہنم کی دہکتی اور ہمیشہ رہنے والی آگ میں جلتے رہو گے۔ اللہ لعنت اللہ علی قوم الظالمین! وائے ہو تم پر اے کوفے والو! تمہیں معلوم ہے کن ہاتھوں سے تم نے ہم پر تیر و تیغ چلائے؟ کس نیت سے تم نے ہم سے جنگ کی ٹھانی؟ کن قدموں سے چل کر تم ہم سے جنگ کرنے آئے؟ خدا کی قسم تمہارے دلوں پر زنگ چڑھ چکا ہے، تمہارے جگر سخت و پتھر کے ہوگئے ہیں، اور تمہارے دل علم و دانش سے خالی ہو گئے ہیں اور تمہارے کانوں اور آنکھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اے کوفے والو! تمہیں موت آئے! کیا تم جانتے ہو کہ تم نے نبی (ص) کی اولاد کا خون بہایا ہے اور اس کے بھائی علی ابن ابی طالب اور اس کی آل و عترت سے دشمنیاں کیں، اور تم میں سے بعض نے بڑے فخر سے کہا کہ " ہم نے علی اور اولاد علی کو ہندی تلواروں اور نیزوں سے مارا، اور اس کی اہل بیت کو ترک اسیروں کی مانند اسیر بنا دیا۔
لعنت ہو تم پر کہ ان کو قتل کرکے خوش ہوتے ہو جنہیں خدا نے ہر نجاست و پلیدی سے پاک و پاکیزہ کہا! اے بے شرم انسان شرم کر! اور اپنی اوقات میں رہ جیسے تیرا باپ رہا! یہ سب اسی کی وجہ سے ہے جس تجھے بھیجا اور یہ منصب تجھے دیا۔
وائے ہو تم پر! کیا ہم سے اس لیئے حسد کرتے ہو کہ خدا نے ہمیں برگزیدہ کیا؟ آخر ہمارا گنا ہ ہی کیا تھا کہ ہمارے دریا (سکون والی زندگی) میں طغیانی ڈال دی گئی، اور تمہارے دریا میں سکون ہے۔ یہ فضل خدا ہےاور وہ بڑے فضل والا ہے، وہ جسے عطا کرنا چاہتا ہے کرتا ہے اور جسے اپنے نور سے محروم کرکے تاریکی کی ظلمت میں جھونک دینا چاہے جھونک دیتا ہے۔۔۔
جب بیبی کا خطبہ اس مقام پر پہنچا تو لوگوں نے زور زور سے رونا شروع کیا اور روتے کہا:" اے پاک و پاکیزاؤن کی بیٹی! تم نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور جگر کو غم و اندوہ کی آگ سے جلا کر رکھ دیا اب بس کرو۔۔۔۔" یہ سن کر بیبی (س) خاموش ہوگئیں۔

یہ خطبہ احتیاج طبرسی میں اور دیگر کتب میں ملتا ہے