عورت، عاشق اور مُلا

 

عورت، عاشق اور مُلا

تحریر: محمد زکی حیدری

 

گاؤں کی عورتیں اور مرد پہاڑی کے قریب اپنی سرسبز فصلوں میں کام کر رہے تھے کہ دور سے بہار کی تیز بہار ہوا کو چیرتا ہوا ایک نوجوان ان کی طرف دوڑتا آتا دکھائی دیا اور گاؤں والوں کو آکر بتایا فاریہ سِمنانی کا وہ پاگل عاشق جو پہاڑی پر بیٹھ کر فاریہ کی مدح میں حافظ شیرازی (رح) کے اشعار پڑھا کرتا تھا، نے آج سِمنان- کہ جہاں فاریہ سِمنانی نے اپنا بچپنا گذارا تھا، جانے کا فیصلہ کیا ہے. یہ سن کر سب لوگ خداحافظی کیلئے گاؤں کے دروازے پر جمع ہوئے اور انہوں نے عاشق سے التجا کی کہ نہ جائے مگر وہ نہ مانا، اسے فاریہ کے بچپن سے مربوط ہر وہ جگہ دیکھنی تھی جہاں فاریہ کے قدموں کے نشان پڑے تھے. آخر گاؤں والوں نے اس سے کہا: اے عاشق ہم سب سنی مسلک کے ہیں لیکن ہم نے تمہیں ہمیشہ ایک نیک دل انسان پایا، بیشک تم شیعہ ہو مگر ہمیں کچھ اچھی باتیں اپنی یادگار کہ طور پر دے جاؤ. اس عاشق نے نیم کے ھرے بھرے درخت کے تنے پر ٹیک لگائی، تھوڑی دیر چپ رہا اور کہا " اللہ (ج) نے کسی کو سنی یا شیعہ نہیں بنایا ہم سب مسلمان پیدا ہوئے تھے. تم میرے اپنے ہو... میری گمشدہ فاریہ سمنانی تمہیں ملے تو اسے کہنا میں سِمنان میں ہوں..." عاشق کی یہ بات سن کر اس مجمعے سے ایک باریش مُلا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:" اس عورت کے عشق میں گرفتار مجنوں سے عقل و خرد کی باتوں کی کیسی امید، عورت کے عاشق کی عقل بھی عورت جیسی..."

یہ سن کر عاشق کے چہرے کا رنگ لال ہوگیا، یہ طیور گاؤں والوں نے پہلی بار مشاہدہ کیئے تھے سو سب اس ھیبت کی وجہ سے چپ ہوگئے، جب خاموشی چھاگئی تو عاشق نے بولنا شروع کیا.
"کاش تمہاری کانوں نے اللہ (ج) کے کلام کو سنا ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ *اللہ (ج) کے پاس جسموں کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یہ خاکی بدن کہ جس میں مرد و عورت الگ الگ ہیں اس بدن کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت ہے تو روح کی ہے اور روح میں عورت مرد کا کوئی فرق نہیں*، روح جیسی تمہارے اندر پھونکی گئی اسی طرح عورت کے اندر، "الروح من امر ربی" کا مصداق فقط تمہارا روح نہیں عورت کا روح بھی ہے! فرق جسمانیت کا ہے تم جسم دیکھتے ہو اس لیئے عورت تمہیں کمزور و ناتواں و نازک نظر آتی ہے مگر اللہ (ج) روح دیکھتا ہے، سارا کام روح کا ہے جسم اس کا ایک غلام ہے اگر اللہ (ج) نے عورت کو مرد سے کم درجے کا بنانا ہوتا تو جسم کی مانند روح میں بھی فرق رکھتا مگر نہیں روح کے لحاظ سے مرد و عورت کے یکساں ہیں."

ملا کے خلیفے نے آواز دی "اے جاہل مجنوں! کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اللہ (ج) فرماتا ہے الرجال قوامون علی النساء، مرد عورت پر حاکم ہے."
عاشق نے کہا:"اگر بقول تمہارے قرآن میں عادل اللہ (ج) مرد کو جنس کی بنیاد پر عورت سے افضل کہتا ہے تو کیا تم مریم و حاجرہ و خدیجہ و فاطمہ سے افضل ہو؟ ھرگز نہیں! تم نے اس آیت میں مرد کی معاشی سرپرستی کے مفہوم کو مرد کی عورت پر فوقیت و فضیلت سمجھ لیا یہ تمہاری مردانہ تفسیر ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں."

پھر اس عاشق نے اپنی جیب سے ایک پھول نکالا سامنے کھڑی ایک پانچ سالا بچی کے بالوں میں وہ پھول لگا کر کہا:" گاؤں والو! *عورت کی زندگی مرد پر احسان کے سوا کچھ نہیں اور مرد کی زندگی عورت سے احسان فراموشی کے سوا کچھ نہیں...*"
یہ کہہ کر عاشق چپ ہو گیا.

ایک جوان لڑکی نے آواز دی "اے عاشق! ہمیں اس کی تفصیل بتاؤ کیونکہ ہم اشاروں میں باتیں سمجھنے پر قادر نہیں."
عاشق نے ھرے بھرے کھیتوں سے آنے والی باد بہار کی طرف چہرا پھیر دیا، ٹھنڈی سانس لی اور کہا " احسان یعنی حق سے زیادہ عطا کرنا، مرد کا عورت پر حق نہیں کہ وہ اس کے لیئے گھر بار کا کام کرے اور اس کے بچے پالے لیکن پھر بھی عورت یہ کام کرتی ہےیہ اس کا احسان ہے اور مرد اس احسان کو عورت کا فریضہ سمجھ کر اس کی احسان فراموشی کرتا ہے، عورت مریم (س) کی صورت میں تکالیف برداشت کر کے عیسی (ع) کو پالتی ہے کہ مرد ہدایت پائیں، اور اسی قبیلے کے مرد اس احسان کے بدلے اس پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں، عورت راتوں کو جاگ کر مرد کے نطفے کو عظیم انسان بناتی ہے اور مرد سکون بھری نیند سوتے ہیں اور خواب میں جنت کی حوریں دیکھتے ہیں، عورت درد حمل کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے اور مرد کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بیٹی نہ پیدا ہوجائے، عورت بچے کے ولادت کی ساری تکالیف برداشت کرتی ہے مرد اس کے ساتھ اپنا نام لگا کر اسے خود سے منسوب کردیتا ہے..."

عاشق کی بات جاری ہی تھی کہ گاؤں کے مُلاں نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا:" تم بڑے مفسر ہو مجنوں! ذرا بتاؤ مرد کو قرآن نے کیوں اجازت دی ہے کہ وہ عورت کو مارے؟ *اتنا مارے کہ ہڈی نہ ٹوٹے لیکن بیشک مارے،* کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی... فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ وَ اضْرِبُوهُن...َّ؟؟؟"
اس بار عاشق نے اس کی طرف نگاہ نہ کی اور ٹکٹکی باندہ کر انہیں ہرے بھرے کھیتوں کی جانب دیکھتا رہا پھر اپنا منہ گاؤں والوں کی طرف پھیر کر کہا:"میرے عزیزو! کیا میں تم میں سے بوڑھی ترین عورت کو ایک غلطی کرنے پر اپنے رومال یا دانت صاف کرنے والے مسواک سے ماروں تو کیا تم اسے مارنا کہوگے یا دکھاوا؟"
گاؤں والے بولے: "اسے بھلا کوئی کیوں مارنا کہے گا."
عاشق نے کہا " تو بس! قرآن نے عورت کی غلطیوں پر مرد کو حکم دیا کہ وہ اسے نصیحت کرے، عورت نہ مانے تو بستر جدا کرے اور پھر بھی نہ مانے تو اپنا رومال لپیٹ کر یا مسواک سے اس طرح مارے کہ اس کے جسم پر نشان تک نہ پڑے، کیا اسے سزا کہو گے یا اظہار ناراضگی، کیا اس بات سے تمہیں عورت سے نفرت کی بو آتی کے یا ملا کی بات سے؟"

ایک عورت جس کی گود میں بچہ تھا بولی " اے عاشق! اللہ (ج) نے جنت میں مردوں کو حوریں دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن عورت کو کچھ نہیں کیا یہ عدل ہے؟" یہ بات سن کر عاشق مسکرایا اور مُلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"بہتر ہوگا اس کا جواب یہ مولانا دیں" ملا مزید پریشان ہوگیا اور چپ ہوگیا. پھر اس عورت نے یہی سوال عاشق سے پوچھا، عاشق نے کہا:" عربی میں حورا خوبصورت سیاہ آنکھوں والی عورت کو کہا جاتا ہے اور احور بڑی آنکھوں والے خوبصورت مرد کو، قرآن میں لفظ حور جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے، یہ لفظ حورا کا بھی جمع ہے اور اھور کا بھی... سو اللہ (ج) نے نے ایک لفظ "حور" میں ایسی کرامت رکھ دی کہ اس کی تلاوت عورت کرے تو اسے احور ملنے کی بشارت کے طورپر اور مرد پڑھے تو اسے جنت میں حوراء کی بشارت کے طور پر "

پھر عاشق اٹھا اور کہا:" لوگو! عورت سے محبت کرو، اس کی قدر کرو، وہ تم سے کچھ نہیں چاہتی سوائے احترام و محبت کے، رسول (ص) کو پسند ہے عورت، علی (ع) فاطمہ (س) کے ساتھ گھر کام کرتے تھے... تم میں اور ملا میں فرق ہونا چاہیئے اس نے اسلام کو عورت کی دشمنی کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے، اس لیئے اسے پورا دین عورت کے خلاف نظر اتا ہے مگر میں نے فاریہ سِمنانی کے عشق کا چشمہ لگا کر اس دین کو دیکھا ہے، اب یہ تم ہی سوچو مجھے عورت کے عشق نے ھدایت دی کے یا اس مولوی کو عورت کی نفرت نے؟"

یہ کہہ کر اس نے اپنی گٹھڑی اٹھائی اور جانے لگا، سب گاؤں والے تھوڑے سے فاصلے تک اس کے پیچھے پیچھے چلے، پھر سب نم آنکھوں سے اسے دیکھتے رہے اور وہ کچھ دیر بعد پھاڑوں کی اوٹ میں ان ھرے بھرے کھیتوں میں گم ہوگیا.

*پیر پاکستان میں سر ایران میں!

*پیر پاکستان میں سر ایران میں!*
.
تحریر: محمد زکی حیدری


کافر، مرتد، رافضی، لعنتی وغیرہ کے فتوے جو ہم پر دشمن لگاتا ہے اس کی وجہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ہم شیعہ علمی میدان میں ان سے آگے ہیں، ان بیچاروں کے پاس علمی جواب نہیں ہوتے تو فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں، افسوس کہ یہ وبا پاک و ھند کے کچھ نام نہاد شیعوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے،ابھی کچھ فتووں کی دکانیں بلکل نئی نئی کھلی ہیں جن کا پہلا فتوا ھوتا ہے یہ حلالی نہیں ہے! اگر کہو کہ میاں یاعلی مدد سے اچھا کچھ نہیں لیکن پہلے سلام علیکم پھر یا علی مدد کہو کیونکہ قرآن کا حکم ہے سلام کرو. اس بات کو سنتے ہی فتوا فیکٹری فتوا جاری کرے گی کہ فلاں شخص یا علی مدد کا منکر ہے لھذا حلالی نہیں! لیکن مرتا کیا نہ کرتا اصلاح کرنے والے بیچارے تو دشنام کھانے کے باوجود بھی قرآن و سیرت اھلبیت (ع) کی بات کرتے رہیں گے، اب وہ الگ بات ہے کہ ماننے والے عاقل لوگ مان جاتے ہیں نہ ماننے والے فتوا دے کر اپنی علمی سطح کا اظھار فرماتے ہیں.

کل ہی مجھے شوق اٹھا کہ میں نے مجتھدوں کے دشمنوں سے تو وافر مقدار میں یعنی "پیٹ بھر کر" لعنتیں رسید کی ہیں اب ذرا عاشقان مجتہدین سے اس قسم کا کسب فیض کروں، اور امام راحل امام خمینی (رض) کی برسی سے بڑھ کر اور کیا موقع ہوسکتا تھا بس یہی سوچ کر میں نے ان انقلابیوں جو کہ کبھی کبھار سید علی خامنہ ای (زید عزہ) سے بھی ایک قدم آگے نکل جاتے ہیں، کے بارے میں یہ تحریر لکھنا شروع کی. عرض خدمت ہے کہ جب میں نے چشمہ لگا کر غور سے ان انقلابی جوانوں کو دیکھا تو مجھے اکثر چیزیں مثبت نظر آئیں ان انقلابیوں کی اچھی خصلتیں جیسے خلوص، درد ملت، تقوی، پرھیزگاری وغیرہ قابل دید اور قابل رشک ہیں، ان میں سے اکثر نماز شب پڑھنے والے ہیں.
لیکن جب میں ان کے ساتھ رابطے میں آیا تو مجھے ان کی یہ دو خصلتیں دیکھ کر دکھ پہنچا: ایک انتہا پسندی اور دوسری فقدانِ حب الوطنی!

جیسے انتہا پسندی سے میری مراد دہشتگردی نہیں اسی طرح حب الوطنی کے فقدان سے میری مراد ملک دشمنی نہیں، بات یہ ہے کہ جب میں ان کے قریب گیا تو دیکھا انہوں نے ہر بات میں جمہوری اسلامی ایران اور حزب اللہ کو نمونہ عمل بنا رکھا ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے لیکن دوسری طرف میں نے دیکھا کہ ان کے سوشل میڈیا پر ایران عراق جنگ کے شہداء کا ذکر ہے، لبنانی شہداء کا ذکر ہے، لیکن پاکستانی شہداء کا بہت کم! *ہم جانتے ہیں کہ مدافعان حرم کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے تعلق رکھتی ہے ہم سوشل میڈیا پر ان کا ذکر نہیں کرتے اور عجیب بہانا بناتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو پاکستانی ایجنسیز حرکت میں آجائیں گی گویا پاکستان کی ایجنسیز خفیہ اطلاعات کیلئے ہمارے سوشل میڈیا کی غلام ہیں کہ کب ہم سوشل میڈیا پر کوئی خبر رکھیں اور وہ اٹھا لیں اور شور کریں* کہ شیعہ زینب (س) کے حرم کے دفاع کیلئے جا رہے ہیں، ارے بھائی ایران میں مدافعان حرم کے جنازے سب کے سامنے پڑھے جاتے ہیں، دنیا بھر کا شیعہ میڈیا وڈیو بنا کر دنیا میں پھیلاتا ہے کہ فلاں ملک سے تعلق رکھنے والا جوان شام میں اپنی مظلوم بیبی (س) کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا، وہ افتخار سے، عظمت سے دنیا کو بتاتے ہیں اور ہم ہیں کہ ایجنسیز کا بہانا. یہاں ہمارے انقلابیوں کو حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑے گا. ایران کی حکومت میں شہداء کا اکرام و احترام دیکھئے کس طرح وہ اپنے شہداء کی یاد مناتے ہیں، رھبر معظم (زید عزہ) کسی دورے پر جائیں تو شہداء کے گھروں سے چکر لگاتے ہیں ان کے حالات سے آشنا ہوتے ہیں یہ روش ہمارے یہاں بھی رائج کرنے کی ضرورت ہے ہمیں شہداء پسند ہیں، بس کرنا یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے شہداء کے عزت و احترام کے ساتھ ساتھ اپنے شہداء، اپنے نوجوانوں اور اپنے مدافعان حرم کو بھی خراج پیش کریں. *جہاں ہم فیسبوک اور واٹس ایپ پر لبنانی و ایرانی شہداء کے ماؤں کی وڈیو کلپس اور تصاویر نشر کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے شہداء کی ماؤں کے تاثرات بھی لینے چاہیئیں، کیا ہمارے پڑوس میں کسی شہید کی ماں نہیں؟* *اور کیا ہم اس سے چند منٹ جا کر مل کر اس کی وڈیو بناکر اس دکھیاری کی تڑپ دنیا تک نہیں پہنچا سکتے ؟* ہم نظام کو شہداء کے خون اور شہداء کی یاد سے بدل سکتے ہیں ، ہمیں یاد رکھنا چاہیئے ایک مادر شہید کی سسکیوں بھری دو منٹ کی وڈیو کلپ عوام کے قلوب پر جتنا اثر رکھتی ہے اتنا دو گھنٹے کا درس بھی نہیں رکھتا. گلگت بلتسان سے لیکر بدین تک شہداء کی مائیں چمکتے تاروں کی طرح موجود ہیں کیا ہم ان کے پاس نہیں جا سکتے؟ اور اس سے زیادہ بھلا کیا چاہیئے جب ایک ماں اور وہ بھی شہید کی ماں کا دل اس کام سے خوش ہو اور وہ ہمیں دعا دے کر رخصت کرے! ہمارے انقلابی جوان کو اس سے زیادہ کیا چاہیئے! یہ ہے حب الوطنی کا تقاضہ!

انقلابی دشمن شناس ہوتا ہے، اپنے قریبی دشمن سے لیکر بین الاقوامی دنیا تک سارے دشمنوں پر اس کی کڑی نظر ہونی چاہیئے، اسے ایم آئی سکس، موساد، را، سی آئی اے وغیرہ کی حرکتوں سے بڑی آشنائی ہونی چاہیئے بیشک! لیکن *اگر انقلابی چار کلومیٹر دور ایک دشمن جو ہمیشہ شیعوں کے خلاف بھونکتا ہو کو چھوڑ کر صرف آمریکا و اسرائیل پر لعنت کرتا پھرے تو ایسے انقلابی کو دشمن شناس نہیں کہا جائے گا،* دشمن شناسی میں ہمارا محور بیشک ایران ہو لیکن ایران کا دشمن خارجی ہے ہمارا دشمن خارجی بھی ہے اور داخلی بھی لہذا انقلابی صرف خارجی دشمن پر اکتفا کرے اور داخلی دشمن پر لعنت کرنا بھول جائے تو اسے ایران کی نقل کرنے والا اور اس کی اندھی تقلید کرنے والا کہا جائے گا. جب کہ انقلابی کی روش و رفتار ایسی ہو کہ وہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ دے.

انقلابی اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ انقلاب مظلوم طبقہ لاتا ہے، مظلوم کے دل میں جگہ بنانے سے انقلاب کی راہ ہموار ہوتی ہے جہاں جہاں ظلم ہوتا ہے اور ظلم کے خلاف کسی قسم کی بھی آواز بلند ہوتی ہے تو انقلابی جوان رنگ، نسل، قومیت، نظریہ، عقیدہ بھلا کر اس کا ساتھ دینے میں سب سے پیش پیش ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فلسطینی سنی برادران پر ظلم ہو تو میلوں دور ایک شیعہ انقلابی سب کچھ بھول کر اس کی حمایت میں نکل پڑتا ہے پس انقلابی صرف مظلوم دیکھتا ہے اور کچھ نہیں ، *انقلابی مظلوم کا ساتھ دیتا ہے. سو انقلابی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مظلوم کے کسی بھی حامی کی کردراکشی کرے، یا اس سے جو شکایات ہیں ان کی بنا پر اسے تنہا چھوڑ دے!* ایسا انقلابی دنیا کے انقلابیوں سے خود کو جدا کردیگا، تنہا رہ جائے گا، عوام کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے گا اور نظام بدلنے میں کارگر ثابت نہیں ہو پائے گا.

انقلابی ھوش سے کام لیتا ہے جوش سے نہیں، علی (ع) جیسا انقلابی جب ھوش کا تقاضہ خاموشی ہو تو خاموش رہتا ہے، شیخین کیخلاف بولنے کی بجائے چپ رھنے سے اسلام کی خدمت ہوتی ہے تو علی (ع) ھوش سے کام لے کر چپ رھتے ہیں اپنے حق کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، ایک انقلابی بھی دیکھے کہ جب کوئی اس وقت کے علی، سید علی خامنہ ای (زید عزہ) کے خلاف کچھ بول رہا ہے تو یہ یاد رکھے کہ اس انقلابی کا جواب میں بولنا رھبر معظم (زید عزہ) کو فائدہ دیگا یا چپ رھنا! ابھی ایک وڈیو میں ایک صاحب نے اپنے انقلابی جوش و خروش میں تمام مجتہدین کی اہانت کردی کہ اگر زنجیز زنی اتنا ثواب رکھتی ہے تو خود کیوں نہیں کرتے! جناب آپ کیسے انقلابی ہیں؟ *رھبر معظم (زید عزہ) کی تصویر آفیس میں لگا کر تاریخ تشیع کے تمام بزرگ مجتہدین پر انگلی اٹھانے سے کیا آپ رھبر معظم (زید عزہ) کی خدمت کر رہے ہیں یا خیانت؟* کیا رھبر معظم (زید عزہ) کو یہ دلیلیں نہیں معلوم جو دلیلیں آپ پیش کر کے بزرگ مجتھدین پر اعتراض فرما رہے ہیں، کیا یہ سیرت رھبر معظم (زید عزہ) ہے؟ کس نے اجازت دی آپ کو مجتہدین پر اعتراض کریں اور ان کو ایک جنبش قلم سے ایم آئی سکس کا کہہ دیں. ایم آئی سکس کی لسٹ رھبر معظم (زید عزہ) سے لیں یا آپ سے؟ اور وہ بھی پاکستان و ھندوستان کے ماحول میں جہاں کی عوام مجتہدین کو برا بھلا کہتی ہے، ایسے ماحول میں مجتہدین پر کیچڑ اچھال کر یہ تاثر دینا کہ مجتھدین ایک دوسرے کے مخالف ہیں (معاذاللہ) یہ کیسی انقلابی سوچ ہے یہ تو انتہا پسندی ہے!

یہ تھی بات میرے انقلابی دوستو، مجھ سے آپ کروڑ گنا بھتر ہیں، آپ کی فکر، تقوی، خلوص، فداکاری اور ان گنت اقدار آپکو مجھ سے ممتاز کرتے ہیں لیکن وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ تاثیر ایران، لبنان، شام، نائجیریہ وغیرہ کہیں سے بھی لیں، کسی سے بھی اچھی چیزیں لیں لیکن اس کوشش میں وطن کی مٹی اور اس پر بسنے والے بھائیوں اور بہنوں خصوصاً شہداء کی یاد ہمارے دلوں میں رہے تاکہ کل کوئی ہمیں یہ طعنہ نہ دے کہ ہم تو صرف ایران ایران کرتے ہیں، بیٹھے پاکستان میں ہیں باتیں ایران کی کرتے ہیں! اور کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا سر ایران میں ہے پیر پاکستان میں.

*–arezuyeaab.blogfa.com_*

*_www.fb.com/arezuyeaab_*

اللہ (ج) کا خط

اللہ (ج) کا خط 

قاصد: امام جعفر صادق (ع)
مترجم: محمد زکی حیدری


حسین علوان روایت کرتا ہے، ایک مجلس میں درس دے رہا تھا، میرے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے دوست نے ہوچھا: پیسوں کیلئے کس سے امیدوار رکھتے ہو؟ میں نے کہا فلاں دوست سے! بولا: اگر ایسا ہے تو اللہ (ج) کی قسم تم کبھی اپنی مراد نہ پاسکو گے، نہ تمہیں کچھ ہاتھ آئے گا... میں کہا : یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو!
بولا: میں نے امام جعفر صادق(ع) سے سنا کہ اللہ (ج) فرماتا ہے:
میری عزت و جاہ و جلال و آسمانوں پر حکومت کی قسم! میں اپنے بندوں کی غیر خدا سے لگائی ہوئی امیدوں کو ناامیدی دے کر پارہ پارہ کردیتا ہوں. لوگوں کے سامنے اسے خواری کا لباس پہنا کر پیش کرتا ہوں اور اسے اپنے آپ سے اور اپنے احسان سے دور کردیتا ہوں. کیا وہ مشکلات میں میرے علاوہ کسی اور سے امید لگاتا ہے؟ جب کہ مشکلات (کا حل) میرے قبضے میں ہے. کیا یہ میرے علاوہ کسی اور کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے؟. جب کہ سارے تالوں کی چابیاں تو میرے ہاتھ میں ہیں اور میرے گھر کا دروازہ تو ھر پکارنے والے کیلئے کھلا ہے اور دوسرے دروازے (غیر اللہ کے) تو بند ہیں!

*کون ہے ایسا جس نے مشکل گھڑی میں مجھ سے مدد مانگی ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟*
*اور کون ہے ایسا جس اپنے بڑے بڑے مسائل میں مجھ سے امید باندھی ہو اور میں نے اس کا دل توڑا ہو*

میں اپنے بندوں کی آرزوؤں کو پورا کرتا ہوں لیکن وہ ہیں کہ راضی ہی نہیں ہوتے! میں نے آسمان کو ان مخلوقات سے جو میری تسبیح کرتے نہیں تھکتی، بھر رکھا ہے اور انہیں حکم دے رکھا ہے کہ *میرے اور میرے بندوں کے درمیان بہنے والے دریاؤں کہ منہ بند نہ کریں* لیکن یہ بندے ہیں کہ میری بات کا یقین ہی نہیں کرتے کیا انسان یہ نہیں جانتا کہ ہر مصیبت یا تکلیف جو اس پر نازل ہوتی ہے میری یا میری اجازت کے بغیر کوئی اسے رفع نہیں کرسکتا! تو کیا ہوا ہے انہیں کہ یہ مجھ سے غافل ہیں!
جو چیز اس (انسان) نے مانگی ہی نہ تھی لیکن اپنے احسان کے مدنظر میں نے اسے دی، پھر جب میں نے اس سے وہ لے لی تو وہ اسے حاصل کرنے کیلئے غیر کے پیچھے چل دیا. کیا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو اسے بغیر مانگے دے دیتا ہوں تو مانگنے کے بعد نہ دوں گا؟
*کیا میں کنجوس ہوں کہ میرا بندہ مجھے کنجوس سمجھتا ہے؟*
کیا میں احسان و کرم کرنے والا نہیں؟ کیا رحمت و درگذر میرے ہاتھ میں نہیں؟ *کیا میں آرزوؤں (کے پوری ہونے کی) کی جگہ نہیں ہوں؟*
تو پھر کون ہے جو میرے علاوہ امیدوں کو توڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے؟ کیا وہ جو میرے علاوہ کسی اور سے مانگتے ہیں نا امید نہ ہوں گے؟
*اگر اھل آسمان اور زمین مل کر آرزو کریں تو بھی میں ان میں سے ہر ایک کو اس کی امید کے مطابق عطا کرونگا* میرے خزانے میں ذرا برابر بھی کمی نہ آئے گی. بھلا کیسے کمی آئے جب کہ اس کی سرپرستی میرے ہاتھوں میں ہے. *بس تو افسوس ہو ناامید و مایوس ہونے والوں پر!*

(اصول کافی ج ۳ ص ۱۵۱)

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

مجھے سب پتہ ہے کون کیا ہے !

مجھے سب پتہ ہے کون کیا ہے !

 تحریر: محمد زکی حیدری

 

ڈائینامائیٹ بنانے والے الفرڈ نوبل کے شاید وھم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پھاڑ توڑ کر راستے بنانے کیلئے اس کی انسان دوست ایجاد ایک دن جنگوں میں انسان کشی میں استعمال کی بنیاد بنے گی. اسلام میں بھی اسی طرح بہت ساری مثالیں ہیں جن کا وجود خیرسگالی پر مبنی ہے لیکن انسان نے اسے اپنے فائدے کیلئے غلط استعمال کیا. جیسے صلح حدیبیہ کو ظالم سے صلح کیلئے، تقیہ کو بزدلی کی ڈھال کے طور پر وغیرہ...

تاویل و تعلیل و توجیہہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کے ذھن میں موجود غلط فہمیاں دور کرنے کی نیت سے بنایا گیا لیکن آج کل اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے زور شور سے استعمال میں ہے. ہماری شیعہ قوم کے لیڈران تو لیڈران عوام بھی تاویل کے فن کی ماہر ہے. اگر کہو کہ میاں مر رہے ہو، قتل ہو رہے ہو، بموں سے اڑائے جا رہے ہو اس کا حل کیا ہے؟ بولے بھائی ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں جب لیڈر متحد نہ ہوں، ہر کسی کو اپنی پڑی ہے ہم تو تیار ہیں لیکن یہ رھبر ہیں کہ ظلم کے خلاف اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے، اب بھلا ہم بغیر رھبر و رھنماء کے کیا کرسکتے ہیں! تاویل!!! کچھ دن بعد پتہ چلا ایک بزرگ نے سوچا ٹارگٹ کلنگ کا حل ہے سنی برادران سے اتحاد، سو وہ مرتا کیا نہ کرتا کہ تحت سنیوں اور دیوبندیوں سے اتحاد کی کوشش میں جٹ گئے باقیوں کو دعوت دی آؤ ظلم کے اس حل میں میرا ساتھ دو، بولے ھہہ یہ کیا بات ہوئی دشمن کی گود میں جا کر بیٹھ گئے یہ ذلالت ہے ہم عزت دار لوگ ہیں. تاویل!!!

ایک بزرگ بولے اچھا بھلا ایسا کرو کہ دیکھو جو تمہارے اندر شیعیت کے لبادے میں چھپے تمہارے دشمن ہیں جو منبر پر جاکر ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ تمہارے قتل کا باعث بنتی ہیں چلو میری بات مانو ان کو مجالس و جشن میں بلانا چھوڑ دو، میں مفت میں اپنے طلاب تمہیں جشن و مجالس کیلئے فراھم کردوں گا جو پیسے لے کر جھوٹ بتانے کی بجائے پیسے لیئے بغیر سچ بتائیں گے. بولے لو جی! یہاں جو دو لفظ ایران سے پڑھ کر آجاتا ہے اسے بس عزاداری ہی ہر برائی کا سبب لگتی ہے بھائی فلاں تو عزاداری کے خلاف ہے ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکتے! تاویل!!!

اچھا بھائی ایک کام کرو احتجاج کرو، چیخو چلاؤ، گھر سے باہر نکلو دیکھو پچھلی بار بھی مل کر نکلے تھے تو کچھ ہوا تھا اس بار بھی بھلا نکلو احتجاج تو کرو، اور نہیں تو ظلم کے خلاف آواز تو اٹھاؤ ، میں بھوک ہڑتال میں بیٹھ رھا ہوں سب اگر میرا ساتھ دوگے تو ہم اس بار چپ رھنے والوں کی فہرست سے تو نکل جائیں گے! بولے چھوڑو یار یہ کل قادری کے ساتھ، عمران خان کے ساتھ تھا یہ اپنی لیڈری چمکانا چاہتا ہے اس کے پاس کیا حل ہوگا ہمارے مسائل کا! تاویل !!!

 

صورتحال یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر خاموش رہتا ہے تو اس کی اتنی برائیاں منظر عام پر نہیں آتیں جتنی اس وقت آتی ہیں جب وہ کچھ فعالیت دکھاتا ہے! جب بھی فعالیت کوئی دکھاتا ہے ہمارے لیڈران اور قوم تاویلات و توجیہات و تعلیلات کے توپوں میں دشنام کا بارود بھر کر چلانا شروع کر دیتی ہے! ٹارگٹ کلنگ کے موضوع پر اتنی کبھی تحریریں نہیں آئیں جتنی اب آ رہی ہیں وہ بھی اس لیئے نہیں کہ حل دیں بلکہ اس لیئے کہ جو لیڈر ظلم کے خلاف نکلا ہے اسے غلط ثابت کیا جائے! عجب ہے! چلو فرض کرو ایک بندہ یہودی ہے، مسلمان نہیں، اسے حسین (ع) کا بھی پتہ نہیں، اسے کچھ نہیں پتہ صرف اس لیئے سڑک پر احتجاج کیلئے بیٹھا ہے کہ کہتا ہے شیعوں پر ظلم بند کرو، تو کیا آپ کا اور میرا فرض نہیں بنتا اس کا ساتھ دیں؟ کیا اس وقت یہ تاویلات جائز ہوں گی کہ میاں یہ تو یہودی ہے، اس میں تو فلاں فلاں نقائص ہیں!!! اگر یہودی ظالم کے خلاف نکلے تو ہم اس کا سب کچھ بھول کر اس کے نعرے کا ساتھ دیتے ہیں تو اگر بلفرض ایک شیعہ جو نقائص سے بھرا ہے (بلفرض) تو کیا اس کے سارے نقائص بھول کر ہمیں اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیئے؟؟؟ میں انہیں مجاھد عالم دین مانتا ہوں لیکن بقول آپ کے بلفرض بلفرض وہ کرپٹ ہیں، رشوت لیتے ہیں، انھوں نے محلات بنا لیئے لاشوں کی سیاست سے... جو برا فرض کرنا ہے کر لو. اگر آپ کی نظر میں وہ کائنات کے سب سے بڑے گنھگار ہیں تو بھی کیا آپ ظلم کے خلاف ان کا ساتھ نہ دینے کی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟؟؟

*امام علی (ع) نے مالک اشتر سے فرمایا مالک! رات میں کسی کو گناہ کرتے دیکھو تو صبح اسے گنھگار کی حیثیت سے مت دیکھنا شاید رات سونے سے قبل اس نے توبہ کرلی ہو* اب بتائیے کوئی بہانہ رہ جاتا ہے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں صرف تاویلیں پیش کرنی آتی ہیں تاکہ گھر پر بیٹھے رہیں، ہم اپنی ذمہ داری سے روگردانی کا سہرا کسی اور کے گلے میں ڈال دینے کی کوشش میں رہتے ہیں ہم اور کہتے ہیں سارا قصور ان کا. اللہ (ج) نہ کرے کل ہمارے جوان بھائی کی لاش ہماری چوکھٹ پرآئے، اور اس کے خون کو دیکھ کر ہی ہمیں اندازہ ہو کہ جو ایک ہفتے سے بزرگ سڑک پر بیٹھا ہے وہ کتنا اچھا انسان ہے، لیکن اللہ (جَ) نہ کرے ایسا ہو، اللہ (ج) کرے اس سے قبل کے اپنوں کے خون کے چھینٹے ہمارے ضمیر کو بیدار کریں عقل و فہم ہمیں بیدار کرے اور ہم تمام خود ساختہ تاویلات و توجیہات پر لات مار کر مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے گھر سے نکلیں. وہ بزرگوار کئی دن سے بھوکے ہیں، تن و تنہا ہیں، ان کے لبوں پر ہمارے شہداء کی بات ہے... آخری عرض! اگر ہم توجیہات و تاویلات رکھتے ہیں تو اتنے مضبوط رکھیں کہ کل محشر کے دن ہمارا زھرا (س) اور شہداء پاکستان سے سامنا ہو تو ہم اپنی یہی توجیہات ان کے سامنے پیش کر پائیں اور وہ کہیں ٹھیک ہے تمہاری خاموشی واقعی جائز تھی! *_www.fb.com/arezuyeaab_*