محمد (ص)
محمد (ص)


محمد (ص) سے محمدی تک!
تحریر: محمد زکی حیدری
جناب تاریخ انبیاء کے مطالعے سے جهاں بڑے حیرت انگیز اور نا قابل یقین واقعات کا پته چلتا هے وهاں یه بھی ایک عجیب بات معلوم هوتی هے که فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو مارنے کا اعلان کیا که جو نومولود بچه پیدا هو اسے مار دو, بیٹیوں کو نھیں صرف بیٹوں کو! قدرت خداوندی کو جلال آیا اور موسی (ع) کو بھیجا گیا که اس (ج) کے خلق کیئے هوئے بچوں کو فرعون کی تیغ سے بچایا جائے. موسی (ع) آئے پھر جو هوا وه همارا موضوع نھیں بھرحال عرضیکه قوم کے بیٹے جب مارے جا رهے تھے تو موسی (ع) آئے.
اب ذرا عربستان میں آئیے عرب اپنی بیٹیوں کو زنده درگور کر رهے هیں, قوم کی بیٹیاں ماری جا رهی هیں, کسی مسیحا کی ضرورت پیش آئی تو الله (ج) نے اپنے افضل ترین نبی محمد (ص) کو بھیجا... بیٹے مارے جائیں تو افضل ترین نبی نهیں بھیجا جاتا لیکن بات بیٹیوں کی آ جائے تو محمد (ص)... یعنی تاریخ انسانیت کے اس موڑ پر که جب سب سے کمزور ترین طبقے پر مظالم ڈھائے جا رهے هوں, اس وقت جو مسیحا ان کی مدد کو آئے اسے محمد (ص) کهتے هیں.
جوش ملیح آبادی صاحب سے پوچھا گیا محمد (ص) کون هیں فرمایا عرب کی سی جهالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کهلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کهتے هیں...
دنیا کا مشکل ترین کام هے ذھن بنانا, کردار سازی کرنا, ذھن سازی کرنا, کسی کے ذھن کو اچھے اقدار سے مانوس کرنا. اب اگر ذھن سازی کسی بچے کی کرنی هو تو پھر بھی آسان هے مگر کسی بڑے عمر والے شخص کی هو تو بھت مشکل, اسے بھی مشکل یه که اگر موصوف پڑھا لکھا هے تو پھر ذھن سازی کا کام ذرا سا آسان هو جاتا هے, لیکن موصوف بیچاره بلکل هی ان پڑھ ھو اور علم سے دور هو تو ذھن سازی کا کام جوئے شیر لانے کے مترادف هوجاتا هے. اب ذرا عربستان قبل از اسلام پر نظر دوڑائیے, عمر کے بڑے هیں; عرب هیں; علم سے دور هیں; پست ترین اقدار کے مالک هیں; قبیله پرستی کوٹ کوٹ کر اذھان میں بھری هوئی هے; بت پرستی نے قلوب کو کالا کر رکھا هے; ایک اونٹنی کے تنازعے پر شروع هونے والی جنگ 40 سال تک جاری رهتی هے; عورت کو منحوس اور غلام کو جانور سمجھا جاتا هے... یه هیں اذھان! یه هیں اقدار اس معاشرے کے, کیا ان کی ذھن سازی و کردارسازی ایک سھل کام تھا? نھیں یه کسی که بس کی بات نھیں سوائے محمد (ص) کے! اسی معاشرے میں نور محمدی جلوه گر هوتا هے جس نے ابو لھب و ابو جھل و ابوسفیان و... جیسوں کے اثر رسوخ کی دھجیاں اڑا کر علی (ع) و سلمان (رض) و ابوذر (رض) و عمار (رض) و بلال (رض) و حمزه (رض) و ابن عباس (رض) و خذیمه (رض) و عبدالله بن مسعود (رض) و... جیسے اقدار انسانیت کے اعلی مثالوں کی دھاک جمائی , یه تمام لوگ محمد (ص) کے اخلاقی کارخانے کی محصولات هیں. جن کا پوری دنیا میں آج تک هو رها هے.
اسی لئے جوش صاحب اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے هوئے فرماتے هیں جو شخص اپنی قوم کی سطح سوچ پر قدم رکھ کر جو بات کهے اور وه بات پوری دنیا میں اذان بن کر گونجے ایسے شخص کو محمد (ص) کهتے هیں.
محمد (ص) سراپا پیکر اخلاق هیں یه اخلاق هی کی تلوار تھی جس سے محمد (ص) نے دنیا میں موجود جھالت و ظلم و استحصال و ناانصافی و دقیانوسی عقائد و غلامی و نسلی امتیاز و اشرافیت و... کے بت کا سر تن سے جدا کیا.
محمد (ص) نے اپنے اعلی اخلاقی اقدار سے کردار سازی کا اتنا عظیم کارنامه انجام دیا اور هم نے شخصیت محمد (ص) سے عشق کا دعوا کیا مگر لیا کیا...??? نور و بشر کی بحث لی, میلاد پے نئے کپڑے پهن کر میٹھا کھانا بدعت هے یا نھیں کی بحث لی, کسی نے میلاد پر ریمکس نعتوں هے رقص لیا, کسی نے کسی کو بدعتی کهنے کا درس لیا, کسی نے کافر کهنے کا, کسی نے ... هم میں سے جس نے بھی ایسا کچھ لیا هے, کسی اور سے لیا هے, کسی غیر سے لیا هے, محمد (ص) سے ھرگز نھیں لیا, کیونکه محمد (ص) کی شخصیت کے قریب جاتے هیں تو حضور (ص) همیں پهلا تحفه هی اخلاق نامی چیز کا دیتے هیں, جس کے اندر اخلاق نھیں سمجھ لیں که وه محمد (ص) کی شخصیت کے قریب سے بھی نھیں گذرا. جس دن ھمارے اخلاق کے تیر ھمارے مخالف کے قلب میں پیوست هوکر اسے همارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں اسی دن خود کو محمدی سمجھیں گے. جس دن ھمارے اخلاق سے متنفر هو کر لوگ هم سے دور بھاگنا شروع کردیں تو سمجھ جانا چاھئے که هم محمدی نھیں , کچھ اور هیں, جو بھی هیں محمدی نھیں هیں.
www.fb.com/arezuyeaab

عزت کر ہے ہو یا بے عزتی؟
تحریر: محمد زکی حیدری
ذہن الفاظ کا ایک گودام ہے اور منہ اس کا دروازہ، جیسے الفاظ گودام کے اندر ہوں گے ایسے ہی منہ سے باہر آئیں گے ، گودام میں الفاظ کی کمی بات چیت کے دوران اکثر مفہوم کی مکمل رسائی کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے اور بولنے والا اپنے تاثرات درست معنی میں سننے والے تک نہیں پہنچا پاتا ، بات کچھ ہوتی ہے لیکن الفاظ کی کمی کے باعث کچھ اور ہی کہہ بیٹھتا ہے۔ یہ ہی اصول استعارے اور تشبیہات پر بھی صادر ہوتا ہے مثلاً ایک صاحب منبر پر بیٹھ کر مدح علی (ع) کر رہے تھے، تین کو نیچا دکھانے اور چوتھے نمبر کو اونچا دکھانے کیلئے انہیں اور کوئی مثال نہ ملی بڑے ذاکرانہ انداز میں کہنے لگے "اوئےمنافق تیرے توں تے او کتا چنگا جہڑا پشاب کرن ویلے اک ٹنگ اتے چا کہ تن ٹنگا تے پشاب کردا جے۔۔۔" (او منافق تجھ سے تو وہ کتا بہتر ہے جو ایک ٹانگ اٹھا کر تین ٹانگوں پر پیشاب کرتا ہے) پھر اپنے ہاتھ سے سامعین کو اشارے کرنے لگا کہ تم لوگ بات سمجھے ہی نہیں اور سامعین نے نعروں کا تانتہ باندہ دیا یہ بھی نہ سوچا کہ تین کے ساتھ چوتھے کو بھی اس ذاکر نے کتے کی ٹانگ سے ملا دیا چہ جائیکہ اوپر ہو یا نیچے! (نعوذباللہ)
ہم ایسے ہی ہیں ہم سوچتے نہیں، ہمیں تو بھیا بس عشق ہے! عقل کی بات کوئی ہم سے کرے تو ہم اسے کہتے ہیں عشق کے آگے عقل کچھ نہیں بیچتی ، تو یہ حال ہے ہمارا! اتنا وقت، اتنی توانائی، اتنا سرمایہ دیوبندی- شیعہ کا بالعموم اور سنی- دیوبندی کا بالخصوص فقط اس بات پر صرف ہوا کہ "نبی (ص) نور ہیں کہ نہیں؟" سنی کہتے نبی (ص) نور ہیں ، دیوبندی کہتا نبی بشر، سنی کہتا ہے ابے شرم کر نبی (ص)کو ہم جیسا کہہ دیا۔ بولا تو اور کیا؟ قرآن میں لکھا ہے "انا بشر مثلنا" میں تمہارے جیسا بشر ہوں۔ سنی کہے دفع ہو! وہ رحمت للعالمین ہیں ہم جیسے بھلا کیسے ہو گئے! بات بڑھتی چلی گئی سنی نے کہا بھیا دیکھو بشر کا سایہ ہوتا ہے نبی (ص) اگر بشر تھے تو سایہ کیوں نہ تھا۔ دیوبندی کہتا ہے کمینے تم ہی نے تو کہا ہے کہ حدیث میں ملتا ہے ایک بادل چوبیس گھنٹے حضور (ص) پر سایہ افگن رہتا تھا تو جب سر پہ سایہ ہو تو ان (ص) کا اپنا کیسا سایہ کیسی پرچھائی؟ سنی بولے محمد (ص) نورِ مجسم! دیوبندی جواب میں کہے ہائے ہائے! جاہل بریلوی اگر محمد (ص) نور کے بنے ہوئے تھے تو بتا خندق والے دن پیٹ پر پتھر کس نے باندھا نور پر پتھر ٹِکا کیسے! اچھا یہ بتا طائف کے شریروں نے نبی (ص) کو پتھروں کی برسات کرکے زخمی کر دیا تھا اگر نور کے بنے ہوئے تھے تو نور کو پتھر بھلا کیا کرے گا، یہ چھوڑ یہ بتا نبی (ص) کھاتے پیتے نہ تھے؟ رفع حاجت محسوس نہیں ہوتی تھی، ہیں؟؟؟ نور کو بھلا بھوک کاہے کی؟ بول بے بدعتی۔۔۔؟؟؟ الا بلا ۔۔۔ بحث چلتی رہی تقاریرمیں، سیمیناروں میں، کتابوں میں، ایک ہی جنگ کہ نبی (ص) نور ہیں کہ نہیں!
میں کراچی یونیورسٹی میں تھا وہ الگ دؤر تھا اتنا مذہبی نہیں تھا میں، لے دے کہ بس نماز کی ادائیگی تک محدود! اس میں بھی فجر کی نماز موڈ پر منحصر! وہ تو بعد میں کسی نے آکر زندگی بدل دی۔۔۔ خیر! اس دور میں میرے سامنے دوستوں نے یہ بحث چھیڑی، میں نے کہا یار نور کی تعریف پتہ ہے تم لوگوں کو؟ بولے کیوں نہیں نور مطلب روشنی! میں نے کہا سادہ سی تعریف نور کی اگر یہ کی جائے کہ ہر وہ چیز جس کی وجہ سے اندھیرا دور ہوجائے، تو درست رہے گا؟۔ میں نے ان سے تصدیق کروائی خاص طور پر دیوبندی دوست عبداللہ سے۔ بولا ہاں اس میں کوئی شک نہیں، میں نے کہا یار دیکھ عرب کی نگری جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی؟ بولا ہاں! میں نے کہاں وہ جہالت کا اندھیرا کس نے ہٹایا محمد (ص) نے یا کسی اور نے ؟ کہا محمد (ص) نے! میں کہا تو اندھیرے کو جو ہٹائے اسے کیا کہتے ہیں؟ کہنے لگا نور! میں نے کہا محمد (ص) کو نور مانتے ہو نا کہنے لگا "ہاں اس طرح تو مانتے ہیں مگر یار یہ بریلوی کہتے ہیں نورِ مجسم یہ تو غلط ہے نا یار!" میں نے کہا رکو!
اب میں نے اس بریلوی دوست عمار سے مخاطب ہو کر کہا یار عمار! نبی (ص) نور کے بنے ہوئے تھے ؟ بولا ہاں! میں نے کہا یہ تو تم حضور (ص) کی اہانت کر رہے ہو۔ بولا کیسے؟ میں نے کہا نوری مخلوق تو فرشتے ہوتے ہیں وہ اشرف المخلوقات نہیں ہیں، اشرف المخلوقات تو انسان ہے۔ تم انسان ہو نا؟ کہنے لگا ہاں ہوں؟ میں نے کہا تو اس نوری مخلوق سے افضل ہو نا؟ بولا ہاں ہوں! میں نے کہا جب تم نوری مخلوق سے افضل ہو تو نبی (ص) کو نوری مخلوق کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ چپ ہوگیا!کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دبے الفاظ میں کہنے لگا "تو کیا تیرا مطلب یہ ہے کہ نبی (ص) نور نہیں؟" میں نے کہا میں نبی (ص) کو نور مانتا ہوں اور یہ عبداللہ بھی مان چکا ہے۔
ہم لوگ یہی کرتے ہیں، کرنا عزت افزائی چاہتے ہیں لیکن اصل میں اگلے کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں، ایک نبی (ص) کو نور ماننے کو تیار نہیں دوسرا انہیں نوری مخلوق سمجھ بیٹھا۔ افراط و تفریط! نبی (ص) کے سامنے نور کی حیثیت ہی کیا ہے بھائی! ہمیں کہنا چاہیئے جب یہ پوری کائنات اس محمد (ص) کے صدقے وجود میں آئی تو کیا نور کوئی انوکھی چیز ہے؟ اس کا وجود بھی محمد (ص) کے توسط سے ہے۔ نور محمد (ص) کی وجہ سے ہے نہ کہ محمد (ص) نور کی وجہ سے!
ان بحثوں کو چھوڑیئے، محمد(ص) سے دنیا کا مشکل ترین کام سیکھئے، کیا کام؟ ذہن سازی کا! انسان سازی کا! کردار سازی کا! محمد (ص) نے کتابیں نہیں لکھیں انسان لکھے! محمد (ص) کی کتاب علی (ع) ہیں، محمد (ص) کی کتاب زہرا (س) ہیں، سلمان (رض)، بلال (رض) ابوذر (رض)۔۔۔ ان سب کا استاد محمد (ص) ہے، ان پڑھ ہو کر بھی! یہی وجہ ہے کہ حضرت جوش ملیح آبادی (رح) فرما گئے "عرب کی سی جہالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لیئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کہلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کہتے ہیں" جناب مدح سرائی کے گر سیکھئے یا چپ رہنا سیکھئے، اپنے کیچڑ سے بھرے گودام کا دروازہ کم از کم ان پاک ہستیوں کیلئے تو نہ کھولیئے۔
بیبی فاطمہ صغریٰ (ص) کا کوفہ کی دربار میں خطبہ
(جی جی یہ وہی فاطمہ صغریٰ (س) ہیں جنہیں خطیب صاحبان مدینہ میں بیمار حالت میں رہ جانے والی کہا کرتےہیں۔)
مترجم از فارسی: محمد زکی حیدری
زید بن امام موسیٰ کاظم (ع) اپنے والد سے اور ان کے والد امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغریٰ (س) نے کربلا سے واپسی کے وقت کوفہ میں پہنچ کر یہ خطبہ دیا ۔
خدا کا شکر، اس کائنات میں موجود تمام ریت کے ذروں اور پتھروں کی تعداد اور ان کے اور عرش سے فرش تک موجود ہر چیز کے وزن برابر۔ اس کا شکر ادا کرتی ہوں اور اس پر ایمان رکھتی ہوں اور اس ہی پر توکل کرتی ہوں، اور گواہی دیتی ہوں کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد (ص) اس کا عبد اور پیغمبر ہے؛ اور گواہی دیتی ہوں کہ اس کے بیٹے کی فرات کے کنارے گردن کاٹی گئی جبکہ وہ ان سے نہ کسی کا قصاص رکھتے تھے نہ ہی انہیں کسی کے خون کی قیمت ادا کرنی تھی۔
پروردگار! میں تیری پناہ چاہتی ہوں، اس سے کہ میں تجھ پر جھوٹ باندھوں یا افتراء کروں، یا تمہاری طرف سے نبی (ص) کو دیئے ہوئے پیغام کہ لوگوں سے اپنے جانشین، علی ابن ابی طالب ، کی جانشینی کیلئے بعیت لو، کے بارے میں کچھ کہوں۔ اسی علی کہ جس کا حق چھینا گیا اور اسے بے گناہ مارا گیا، کی طرح کل کچھ زبان سے مسلمان لیکن دلوں سے کافر لوگوں نے اس کے بیٹے کو کربلا میں مار ڈالا۔
یہ قتل ان کے گلے میں ہے! کہ جنہوں نے نہ جیتے جی اور نا ہی مرتے وقت ان پر ظلم و ستم کرنے سے دریغ کیا، جب کہ تونے انہیں فضائل والا، پاکیزہ طبیعت ، خوبیوں اور نیکیوں کی وجہ سے جانا جانے والا اور اپنا قریبی بنایا تھا۔ خداوند! نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور نہ ہی کسی مذمت کرنے والے کی مذمت اسے تیری عبادت و بندگی سے روک سکی۔
تو نے اسے بچپن میں ہی اسلام سکھایا اور جب وہ بڑا ہوا تو تم نے اس کے فضائل بیان کئے۔ وہ اسی طرح تمہارے نبی (ص) کی خوشنودی کیلئے امت کو نصیحت کرتا رہا اس وقت تک کہ جب تک تو نے اس کی روح نہ قبض کرلی۔ وہ دنیا سے خائف وبے پرواہ اور آخرت کی طرف راغب اور اس کا مشتاق تھا اور تیری راہ میں دشمنوں سے برسر پیکار رہ کر جہاد کیا۔ تو اس سے راضی ہوگیا اور اسے برگزیدہ کرکے راہ حق کی طرف ہدایت کی۔خدا کی حمد و ثناء کے بعد، اے کوفے والو! اے مکارو اور فریبکارو! خدا نے ہمیں تمہاری طرف بھیجا اور ہمارے توسط سے تمہارا امتحان لیا اور ہمیں امتحان میں سرخرو کیا۔ فہم و علم کو اپنی امانت بنا کر ہمیں سونپا، لھٰذا ہم ہی ہیں علم، فہم و حکمت کے خزانے اور دنیا کے چپے چپے پر ہم ہی حجت خدا ہیں۔خدا نے اپنی کرامت سے ہمیں بزرگی سے نوازا، اور محمد (ص) کے توسط سے ہمیں باقی لوگوں پر برتری عطا کی۔
تم نے ہماری تکذیب اور تکفیر کی، ہمارے خون کو مباح؛ ہم سے جنگ کو حلال اور ہمارا مال لوٹنے کو جائز سمجھا، ایسے جیسے ہم کوئی ترک یا کابلی اسیر ہوں! چونکہ تم نے کل ہمارے جد کا قتل کیا اور تمہاری تلواروں سے ہمارے لیئے نفرت اور تعصب کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے، اور جو بہتان تم نے خدا پر باندھا اور جو مکاری و فریبی تم نے کی، اس سے تمہارے دل بڑے خوش اور مسرور ہیں لیکن جان لو! خدا سب سے بڑا تدبیر بنانے والا ہے اور وہ ہی سب سے اچھا منتقم ہے۔
تم ہماری قتل و غارت سے کسی خوش فہمی میں مبتلا مت ہونا کیونکہ یہ مصائب اس سے پہلے ہی قرآن میں بیان کئے جاچکے ہیں (اور اللہ ان کو جانتا تھا) اور یہ خدا کیلئے سہل و آسان ہے۔ "جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل گئی اسکا غم نہ کرو اور جو نفعہ تمہیں حاصل ہو اس پر خوش مت ہو کیونکہ اللہ بہانے بنانے اور منحرف ہوجانے والے کو پسند نہیں کرتا"۔
اے اہل کوفہ! تمہیں موت آئے! اب منتظر رہو کیونکہ کہ خدا بہت جلد غیب سے تم پر مسلسل لعنت اور عذاب بھیجنے والا ہے اور تمہیں اپنے کیئے کی سزا دینے والا ہے تم سے بعض کو بعض پر حاوی کرکے تم سے انتقام لینے والا ہے۔ اور قیامت کے دن یہ مظالم تم نے ہم پر ڈھائے ہیں ان کے بدلے ہمیشہ کیلئے جہنم کی دہکتی اور ہمیشہ رہنے والی آگ میں جلتے رہو گے۔ اللہ لعنت اللہ علی قوم الظالمین!وائے ہو تم پر اے کوفے والو! تمہیں معلوم ہے کن ہاتھوں سے تم نے ہم پر تیر و تیغ چلائے؟ کس نیت سے تم نے ہم سے جنگ کی ٹھانی؟ کن قدموں سے چل کر تم ہم سے جنگ کرنے آئے؟ خدا کی قسم تمہارے دلوں پر زنگ چڑھ چکا ہے، تمہارے جگر سخت و پتھر کے ہوگئے ہیں، اور تمہارے دل علم و دانش سے خالی ہو گئے ہیں اور تمہارے کانوں اور آنکھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اے کوفے والو! تمہیں موت آئے! کیا تم جانتے ہو کہ تم نے نبی (ص) کی اولاد کا خون بہایا ہے اور اس کے بھائی علی ابن ابی طالب اور اس کی آل و عترت سے دشمنیاں کیں، اور تم میں سے بعض نے بڑے فخر سے کہا کہ " ہم نے علی اور اولاد علی کو ہندی تلواروں اور نیزوں سے مارا، اور اس کی اہل بیت کو ترک اسیروں کی مانند اسیر بنا دیا۔
لعنت ہو تم پر کہ ان کو قتل کرکے خوش ہوتے ہو جنہیں خدا نے ہر نجاست و پلیدی سے پاک و پاکیزہ کہا! اے بے شرم انسان شرم کر! اور اپنی اوقات میں رہ جیسے تیرا باپ رہا! یہ سب اسی کی وجہ سے ہے جس تجھے بھیجا اور یہ منصب تجھے دیا۔
وائے ہو تم پر! کیا ہم سے اس لیئے حسد کرتے ہو کہ خدا نے ہمیں برگزیدہ کیا؟ آخر ہمارا گنا ہ ہی کیا تھا کہ ہمارے دریا (سکون والی زندگی) میں طغیانی ڈال دی گئی، اور تمہارے دریا میں سکون ہے۔ یہ فضل خدا ہےاور وہ بڑے فضل والا ہے، وہ جسے عطا کرنا چاہتا ہے کرتا ہے اور جسے اپنے نور سے محروم کرکے تاریکی کی ظلمت میں جھونک دینا چاہے جھونک دیتا ہے۔۔۔
جب بیبی کا خطبہ اس مقام پر پہنچا تو لوگوں نے زور زور سے رونا شروع کیا اور روتے کہا:" اے پاک و پاکیزاؤن کی بیٹی! تم نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور جگر کو غم و اندوہ کی آگ سے جلا کر رکھ دیا اب بس کرو۔۔۔۔" یہ سن کر بیبی (س) خاموش ہوگئیں۔
یہ خطبہ احتیاج طبرسی میں اور دیگر کتب میں ملتا ہے