ثواب دارین

 

ثواب دارین

تحریر: محمد زکی حیدری



میں نے خواب دیکھا کہ میں انچولی امام بارگاہ کراچی میں کھڑا ہوں، میرے سامنے ایک شهید شیعہ نوجوان کی میت رکھی ہے، جو چہرے سے ایسا تاثر دے رہا تھا جیسے اسے کسی نے سلگتی آگ پر سے اٹھا کر پھولوں کی سیج پر سلا دیا ہو، وہ مطمئن و مسرور ہے لیکن کونے میں کھڑا اس کا باپ اور اس کے بھائی شہید کے غم سے نڈہال ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، کراچی یونیورسٹی میں کبھی کلاس میں، کبھی باہر میرے موبائل میں جونہی شیعہ کلنگ والوں کا میسج آتا ہے کہ فلاں شیعہ جوان، فلاں شیعہ ڈاکٹر، فلاں شیعہ انجینیئر، فلاں شیعہ طالبعلم، فلاں شیعہ عالم دین فلاں شیعہ۔۔۔ کو شہید کر دیا گیا، تو میں انچولی امام بارگاہ پہنچ جاتا ہوں، تاکہ جنازہ میں شریک ہوکر "ثواب دارین" حاصل کرسکوں، آخر یونیورسٹی اور انچولی کا فاصلہ ہی کتنا ہے بائک پر 5 منٹ بس! اس "ثواب دارین" حاصل کرنے کے بعد شہید اگر با استطاعت ہے تو اس کے سوئم یا چہلم میں ہمارے بڑے بڑے مذھبی رہنماؤں کا خطاب سن کر "ثواب دارین" حاصل کرنے کا موقعہ بھی میں کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

ایک دن بعد حسب دستور اعلان ہوا کہ سوئم کی مجلس میں دونوں شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر شرکت کریں گی اور ان کے رہنماء مجلس پڑھیں گے، شہید کے درجات بلند ہوں گے اور شرکاء کو "ثواب دارین" حاصل ہوگا، لھٰذا میں بھی پہنچ گیا۔ بہت بڑا مجمع تھا، پہلے انقلابی نظمیں پڑھنے  والے آئے، ان کی نظموں کا مدعا یہ تھا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اس کے بعد تنظیموں سے وابستہ علماء خطاب کو آئے، ان میں سے ایک نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اس وقت مجمع لبیک یاحسین کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جب انہوں نے فرمایا "شہادت ہماری میراث ہے، یہ جاہل ہیں، ہمیں مارتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری تعداد کم ہوجائے گی، نہیں یہ ان کی بھول ہے، دنیا میں حلال جانور روز مارا جاتا ہے حرام بہت کم مرتا ہے، لیکن پھر بھی دنیا میں حرام جانور کی تعداد کم ہے، حلال کی تعداد دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم شیعہ حلال جانور کی مثل ہیں اور وہ حرام۔۔۔"

پھر دوسری تنظیم کے ایک بڑے عالم دین آئے۔ انہوں نے تو اور بھی زیادہ جوشیلی تقریر کی اور فرمایا" سن لو ہم لاشے اٹھانے کے عادی ہیں، امویوں نے ہمیں مارا، عباسیوں نے ہمیں مارا، امراء نے ہمیں مارا، بادشاہوں نے ہمیں مارا، افغانی، ترک نژاد سلطانون نے ہمیں مارا، آج کے ڈکٹیٹروں نے ہمیں مارا، ریاستی اداروں نے ہمیں مارا۔۔۔ لیکن سن لو تم تھک جاؤ گے ہم نہیں! ہمارے جوان علی اکبر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بوڑھے حبیب ابن مظاہر کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بچے علی اصغر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! بہنوں کے بھائی عباس علمدار کی طرح مارے جائیں گے! ہمارا افتخار ہے یہ۔۔۔" مجمعے میں ایک بار پھر فلک شگاف نعرے لگنے لگے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔۔۔!

یہ سن کر میں نیند سے بیدار ہوا، میری آنکھ کھلی، خواب کے عکس میری آنکھوں سے سامنے ایک فلم کی مانند چلنے لگے، وہ جوان کی لاش، اسکا والد، بھائی، علماء کی تقاریر، پھر میں نے خواب کا حقیقت کے ساتھ موازنہ کیا، مجھے حقیقت بھی یہی نظر آئی۔ تب میں نے سوچا کیا شہادت ہماری میراث ہے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مرتے رہیں؟ روز جنازے اٹھاتے رہیں؟ کیا امام حسین (ع) کی قربانی کا مقصد یہی تھا کہ مرتے رہو؟ روز لاشے دفن کرکے گھر آجاؤ؟؟؟ ہمارے علماء کو کربلا بہت یاد ہے، شہادتیں بھی یاد ہیں، لاشے پامال ہونا، پیاس، کمسن کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہونا بھی یاد ہے، مگر صرف مرنا یاد ہے مارنا یاد نہیں! ہمیں حسین (ع) کو لگنے والی ضربوں کی تعداد یاد ہے، حسین (ع) کے ہاتھوں سے کتنے یزیدی واصل جہنم ہوئے یاد نہیں!، زینب (س) یاد ہیں لیکن صرف چادر چھننے کی حد تک! ان کی طرف سے دیئے گئے کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دینے والے خطبوں میں مقاومت کا درس یاد نہیں! ہمیں کربلا کے بعد امویوں کا محبان اہلبیت (ع) کے گلے کاٹنے کا کارنامہ یاد ہے، مختار کی طرف سے امویوں کے گلے کاٹنا یاد نہیں!

کربلا سے ہم نے صرف مرنا لیا ہے، جبکہ کربلا میں مارنا پہلے تھا مرنا بعد میں! صرف پیاسے حسین (ع) کی جنگ دیکھو تو جہاد کی محیرالعقول اور عدیم النظیر مثال ہے کہ ایک ناتوان اور پیاسہ کس طرح لڑ رہا ہے، علی اکبر (ع) کیا (نعوذباللہ) بزدلانہ طریقے سے مارے گئے تھے؟ جاکر لہوف ابن طاؤس میں پڑھیئے لکھا هے "و قاتل اعظم القتال" علی اکبر (ع) نے عظیم کشتار کی، جنگ کی، ایک ایک کربلائی بپھرے ہوئے شیر کی مانند سوئے مقتل گیا اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر شہادت کو پہنچا۔ عبداللہ بن حسن (ع)، صحت روایت سے قطع نظر دیکھیئے، جب اس کمسن نے دیکھا کہ حسین (ع) پر فوج مخالف کا ایک سپاہی تلوار تان رہا ہے تو دوڑ کر اس کے آگے آیا فرمایا خبردار اے نامرد میرے چچا پر وار کرتا ہے! کمسن کا ہاتھ کٹا۔۔۔ جون (ع) نے کتنے لاشے گرائے، کس جوش سے حرز پڑھتے ہوئے گئے یاد نہیں! اس ماں کا کیا کہ جس نے اپنے شہید بیٹے کی کٹی گردن دشمن کی طرف پھینک کر کہا کہ لو اسے اپنے پاس رکھو، ہم جو چیز راہ خدا میں دے دیں اسے واپس نہیں لیا کرتے! کربلا کا یہ پہلو کیا آپ کی نظروں سے نہیں گذرا؟ کربلا صرف گلے کٹوانے کا نام ہوتا تو بزدلی کی کہانی ہوتی کربلا نہیں ہوتی! کربلا شروع سے آخر تک جنگ و مقاومت و شجاعت و قتال و۔۔۔ کی کہانی ہے آپ نے کربلا کا اختتام  لے لیا اور رونے لگے...

نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے اس مسئلے کا حل یہی نکالا ہے کہ لڑو اور مرجاؤ، نہیں جناب آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتا ہوں قوم کو حل دینے والا، لیکن معذرت سے کہوں گا کہ آپ ماشاءاللہ شہادت پر بڑی اچھی اور جوشیلی مجلس نما تقاریر کرتے ہیں، مگر ان تقاریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔۔۔ قوم کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ قوم کی مائیں آپ سے امید رکھتی ہیں کہ اس روز روز کے جوان جنازے اٹھانے سے قوم کو کب نجات ملے گی، کیا اس کا کوئی اور حل بھی ہے یا آپ کی تقاریر کے مطابق مرتے ہی رہیں؟؟؟ یہ کون سی کربلا ہے جو دنیا کے باقی شیعوں نے نہیں لے رکھی، صرف پاکستانیوں نے لے رکھی ہے کہ شہادت ہماری میراث ہے، لہذا مرتے رہو۔۔۔۔؟

شام والے مر رہے ہیں لیکن مار بھی رہے ہیں۔ یمن والے قتل ہو بھی رہیں ہیں قتل کر بھی رہے ہیں، لبنان والے ہمیشہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کو پہنچے، عراق والے لڑے، 1920ء میں انقلاب لائے اب بھی لڑ رهے ہیں۔ ایرانی لڑے انقلاب لائے، سب میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہو رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔ کیوں ہے ایسا؟ اس کا حل دیجیئے خدا را "ثواب دارین" کے سوئم اور چہلم ہم بہت کرچکے شہیدوں کے لئے آنکھیں رو رو کر خشک ہوگئیں۔ شیعہ نسل کشی کا حل کیا ہے؟ کوئی لائحہ عمل دیں، کوئی حل بتائیں۔۔۔ کربلا کے مصائب تو ہماری نانی اماں بھی سناتی ہیں، کتابوں اور نوحوں میں بھی سن لیتے ہیں، آپ قوم کی نیا پار لگانے کے دعویدار ہیں، آپ کی ذمہ داری الگ ہے۔ آپ سے امید ہے کہ قوم کو اس مسئلے کا حل بتا کر "ثواب دارین"حاصل کریں گے۔

یار دشمن پلیز!

 

یار دشمن پلیز!

تحریر: محمد زکی حیدری

شیعان دنیا شھادت "دے" رھے هیں اور پاکستان کے شیعوں سے دشمن زبردستی شھادت "لے" رھا هے. مقاومت کی ایک تحریک کے زیر سایه میدان میں دشمن کے خلاف شعار حق بلند کرتے هوئے مرنا الگ بات هے مسجد میں نماز پڑھتے یا بازار میں اپنا کاروبار کرتے هوئے مرنا الگ بات هے. وه الگ بات هے که شھید بیشک دونوں هیں (اس فقرے کو ضرور ذھن میں رکھیں).

هم نے کوئی عسکری تنظیم نھیں بنائی, هم نے سید حسن نصرالله کی طرح دشمن کو کبھی یه نھیں کها که تم نے همارے 2 مارے تو هم چار ماریں گے... نھیں هم نے ایسا نھیں کها نه همارا ایسا کهنے کا کوئی پروگرام هے. همارا لڑنے کا یا اپنے شھداء کا بدله لینے کا کوئی پروگرام نھیں, همارا لڑنے کا جنگ کرنے کا کوئی موڈ نھیں هے (شاید کوئی کهے که همارا شھید هونے کا بھی کوئی موڈ نھیں هے) هم نے کربلا سے ایسی ٹائم ضایع کرنے والی چیزیں نھیں لیں, یا ایسے قول کو علمی جامه نھیں پهنایا که ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بھتر, هم نے کربلا سے عزاداری لے لی وه بھی اتنی اچھی که خود استعمار کی ایجنٹ ظالم حکومت همیں گلیاں و سڑکیں  صاف کر کے دیتی هے که لو عزاداری کرو, بجلی بھی کوشش کرتی هے که بلاتعطل فراهم کرے, وردی والے بھی دیتی هے که کرو عزاداری. هماری عزاداری سے هم نے کبھی ایسا پیغام نھیں دیا که جس سے لگے که هم ظلم کے خلاف کوئی بھت بڑا لائحه عمل رکھتے هیں, هم نے ایسا کچھ بھی نھیں کیا لیکن پھر بھی هم مسجد میں جاتے هیں بمب پھٹتا هے شھید هوجاتے هیں, دکان پے بیٹھے کاروبار کر رھے ھیں بمب پھٹتا هے شھید. ..

 

یار دشمن پلیز! کیا هم ایرانی قوم هیں؟؟؟

کیا هم نے حزب الله (لبنان) بنائی ؟؟؟

کیا هم نے حزب الله (نائیجریا)  کی طرح کوئی تنظیم بنائی؟؟؟

کیا هم شریف لوگوں نے انصارالله طرز کی کوئی تنظیم, یا عراقی مقتدی صدر کی جیش المھدی طرز کی کوئی تنظیم بنائی یا کبھی شیخ نمر کی طرح همارے کسی لیڈر نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولا؟

چلو سب چھوڑو یه بتاؤ کیا هم متحد هیں? همارے تو قائدین بھی چار هیں, یار کسی بے وقوف سے بھی پوچھو تو وه آپ کو بتائے گا که همارے کسی طرز عمل یا تحریک سے یه ثابت نھیں هوتا که هم لڑنے کا یا مر مٹنے کا کوئی اراده رکھتے هیں. هم تو صرف اپنے لیڈروں کی شھادت پے باھر نکلتے هیں یار کیا اب اتنا بھی حق نھیں همیں...

یار اتنا تو بھائی بندی میں چلتا هے دنیا کو بھی منه دکھانا هے اب اتنا بھی نھیں کریں گے تو لیڈری کو زنگ لگ جائے گا. چلو اگر آپ کو یه بھی نھیں پسند تو اس پے بھی هم سوچیں گے جیسے حال هی میں هم نے ایک ریلی ملتوی کی هے انشاء الله آگے بھی ھر قسم کا تعاون کریں گے ... یار دشمن بھائی هم غریب شریف لوگ هیں یار پلیز یار  همیں چھوڑ دو همیں نا مارو پلیز.

 

www.fb.com/arezuyeaab

سیاه دیواریں, لال دیواریں

سیاه دیواریں, لال دیواریں

تحریر: محمد زکی حیدری

 

کھتے هیں که آفریقہ میں ایک بھت بڑا جنگل تھا, اس میں انسانوں کا ایک گاؤں تھا جس کے لوگ جنگل میں مقیم بقیه جنگلیوں کے  مقابلے ذرا زیاده مھذب و شریف تھے. یه مھذب اور امن پسند گاؤں والے جنگلیوں کو بلکل ناپسند تھے اور ان کی آنکھ میں کانٹے کی مانند تھے. یهی وجه تھی که آئے دن یه جنگلی مختلف بھانوں سے ان شریف لوگوں کو ستایا کرتے. ان کی متعصبانه روش اس حد تک پهنچ گئی که اس گاؤں کے سردار جو بھت نیک دل اور عظیم انسان تھے, کو جنگلیوں نے قتل کردیا. پورے گاؤں پر سوگ کی گھٹا چھا گئی. اب نیا سردار تو بنانا تھا لھذا اس گاؤں کا ایک نیا سردار بنایا گیا, گاؤں والوں کو امید تھی که ان کا نو منتخب سردار جنگلیوں سے اپنے شھید سرادر کا بدله بھی لے گا اور جنگلیوں کو ایسا سبق سکھائے گا که آئنده جنگلی اس گاؤں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نه دیکھیں گے.

 

وهاں جنگلی بھی ذرا ڈرے سھمے سے تھے که سردار قتل هوا هے گاؤں والے ضرور بدله لیں گے اور نئے سردار کی جوشیلی تقاریر نے تو ان کی نیندیں حرام کر رکھیں تھیں.

وقت گذرتا گیا جنگلیوں نے محسوس کیا که گاؤں والوں نے کوئی ردعمل ظاھر نھیں کیا سوائے اپنے سردار کی چند جوشیلی تقریروں کے. سو جنگلیوں کی جان میں جان آئی اور انھوں نے آھسته آھسته سے ایک بار پھر گاؤں کے افراد کو تنگ کرنا شروع کیا. سردار کو پته چلا تو سردار نے پھر جوشیلی و دھمکی آمیز تقریر کر ڈالی. لیکن اب جنگلیوں کو ان تقاریر کی حقیقت پته چل چکی تھی سو وه بڑی آزادی سے اپنی بزدلانه حرکتیں کرتے رهے.

 

جنگلی رات میں آکر اس گاؤں کی دیواروں په ان گاؤں والوں کے خلاف اپنی جنگلی زبان میں نازیبا الفاظ لکھ کر چلے جاتے. گاؤں والوں نے اپنے سردار کو شکایت کی که دیکھئے سردارصاحب گاؤں کی دیواریں دشنام سے بھری هوئی هیں, جنگلی همیں غیر مھذب کهتے هیں.

سردار نے وعده کیا که اس بار وه ان جنگلیوں کا ایسا علاج کرے گا که وه یاد رکھیں گے اور آئنده کسی  دیوار پر بھی گاؤں والوں کے خلاف دشنام طرازی نظر نھیں آئے گی. اس سردار نے  یه کیا که جنگلیوں کے ایک سردار سے جاکر صلح کر لی. اور سارے جنگل میں یه بات پهیل گئی که جنگلیوں کے سردار اور گاؤں والوں کے سردار کے مابین صلح ھوگئی هے. اس کے نتیجے میں یا اتفاق کی بات هے که جنگلیوں نے دیواریں گندی کرنے کا کام ترک کر دیا لیکن جنگلی تو جنگلی تھے ان کو کیا لینا سرداروں سے اور صلح سے, سو انھوں نے اپنا دیواریں گندی کرنے والا کام روک کر گاؤں والوں کو تنگ کرنے کے اس سے بھی گھٹیا طریقے پر سوچنا شروع کیا.

جب تک وه گاؤں والوں کے خلاف نیا منصوبه تشکیل دینے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے تھے تب تک وهاں گاؤں کے سردار نے بڑی جوشیلی تقریریں کی که " هم نے جنگلیوں سے اتحاد کا عظیم فیصله کیا جس کا نتیجه یه هے که وه لوگ جو کل هماری دیواروں پے دشنام طرازی کر جاتے تھے آج انھوں نے یه کام ترک کردیا, یه هماری فتح هے"

وهاں جنگلیوں نے کئ دن کی گفت و شنید کے بعد حتمی فیصله کیا که هر رات کو گاؤں میں گھس کر گاؤں والوں کے اچھے, عقل والے, اور جنگل میں شھرت رکھنے والے افراد کو ایک ایک کر کے قتل کریں گے. لھذا ان جنگلیوں نے اپنے اس گھنؤنے منصوبے کو عملی جامه پهنانا شروع کیا, ایک کے بعد ایک گاؤں کے بڑے بڑے ماھر لوگ مارے جانے لگے, کبھی کبار تو درجنوں و دسیوں گاؤں والے ایک هی دن میں مارے جانے لگے, ھر عمر کے افراد, ھر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد چن چن کر مارے جانے لگے. گاؤں کا کوئی پرسان حال نه تھا.  سردار کی جنگلیوں کے اس سردار سے صلح قائم رهی , آنا جانا بھی رها. جب بھی کوئی گاؤں والا قتل هوتا تو سردار اپنے گاؤں والوں سے خطاب کرتے ھوئے کهتا " هم نے جنگلیوں سے اتحاد کیا جس کی برکت یه هے که آج کسی دیوار پر هماری دشمنی میں بهائی جانے والی سیاھی کے نشان نظر نھیں آتے " .... سامنے کھڑی کسی مقتول کی ماں, بھن, بیٹی, بیوی دل هی دل میں کهتی هوگی "ھاں جی سردار صاحب! دیواروں په سیاھی کے نشان بیشک نظر نھیں آتے مگر خون شھداء کے چھینٹوں کے نشان ضرور نظر آتے هیں... آپ نے دیواروں کو سیاه هونے سے بچایا لال هونے سے پته نھیں کون بچائے گا..."

 

www.fb.com/arezuyeaab