دین اور بیکری والے

دین اور بیکری والے

تحریر: محمد زکی حیدری

 

ہندوستان کا ایک پنڈت بھوک و بدحالی سے تنگ آکر سر گاڈی پیر پہیا کر کے مارا مارا پھرتا تھا. ایک دن وہ ایک ایسے گاؤں پہنچا جہاں کے لوگ بیچارے تھے تو بلکل ہی ان پڑھ لیکن دین دھرم سے خلوص رکھنے والے تھے، سو انہوں نے پنڈت کو مندر میں جگہ دی، کھانا بھی دے جایا کرتے، پنڈت کے اچھے دن شروع ہوگئے. اس پنڈت بیچارے کو بھی گاؤں والوں کی طرح بلکل پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا لیکن دکھاوے کی خاطر ھر روز صبح سویرے گیتا کھول کر بڑی آواز میں کچھ نہ کچھ پڑھا کرتا، سُر بھی اچھا تھا اور یہ سُر وجہ بنی کہ لوگ اس کے قریب آنے لگے. ایک دن گاؤں والوں نے پنڈت سے کہا: پنڈت جی! کاش ہم بھی آپ کی طرح پڑھے لکھے ہوتے تو اس طرح گیتا پڑھ کر کرم کماتے، لیکن اب ہم تو اپنی عمر کھا چکے، آپ پڑھے لکھے ہو ہمارے بچوں کو پڑھا دو ہم آپ کے شاکر رہیں گے. پنڈت پھنس گیا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا، اس نے بچوں کو الٹا سیدھا پڑھانا شروع کیا، پہلا درس دھرتی ماتا پر دیا پنڈت نے! کہا دھرتی ماتا کی شان یہ ہے کہ سورج دن رات اس کے ارگرد چکر کاٹ رہا ہے جیسے رانی بیچ میں بیٹھی ہو اور نوکرانیاں اس کے گرد چکر کاٹتی ہوں.
کچھ دن بعد حکومت کی طرف سے اس گاؤں میں استاد مقرر ہوا، بچوں نے اسے یہ بات بتائی کہ دھرتی ماتا کے گرد سورج نوکرانی کی طرح چکر کاٹتا ہے. استاد بہت ھنسا اور بچوں کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے یہ پنڈت صاحب کی کم علمی ہے اصل میں دھرتی گھومتی ہے سورج ایک جگہ ٹکا ہوا ہے. یہ بات پنڈت تک پہنچی تو پنڈت نے گاؤں والوں کو جمع کر کے دھرتی ماتا کی شان بتائی اور کہا کہ یہ جو ماسٹر آیا ہے یہ دھرتی ماتا کے خلاف بکواس کرتا ہے اسے نکال دو. سب گاؤں والوں نے اس ماسٹر کی دھرتی ماتا کی شان گھٹانے والی بات سن کر اسے بہت لعن طعن کیا اور گاؤں سے نکال دیا.

ہمارے پاک و ھند کے شیعہ عوام کا بھی یہی حال ہے ہمارے پاس علماء نہیں تھے تو مجبوراً ہم نے ایسوں کو منبر پر بٹھا دیا جو ظاھرا عالم لگتے اور اھلبیت (ع) کا ذکر کیا کرتے تھے، لیکن ان کے بعد جب حقیقی علماء اور انٹرنیٹ کی توسط سے حوزہائے علمیہ و مجتہدین کرام سے حقیقی معارف دین ملے تو ہم نے ان کا اس لیئے انکار کرنا شروع کردیا کہ ہم نے ذاکروں سے اس کے برعکس سنا ہے. اور کہنے لگے کیا آج تک جو ہم سنتے آرہے ہیں ہمارے باپ دادا کرتے آ رہے تھے وہ غلط تھا؟
شروعاتی ذاکر بیچارے علی (ع) کا ذکر کیا کرتے اور اتنا علی علی کیا کہ آج کسی کو پکڑ کر کہہ دو کہ میاں محمد (ص) علی (ع) سے افضل ہیں تو سب ان گاؤں والوں کی طرح آپ کو شان گھٹانے والا مقصر کہیں گے! تم مقصر ہو علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی شان کم کرنے والے، علی (ع) حق ہے علی (ع) سے افضل کوئی نہیں."
کچھ نے محمد (ص) کے مرحلے کو حذف کردیا اور علی (ع) کو ڈائریکٹ اللہ (ج) سے ملانا شروع کردیا.
جب کہ دنیا کا سنی، شیعہ، عیسائی، یہودی جانتا ہے کہ اسلام میں اللہ (ج) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ محمد (ص) کا ہے پھر علی (ع) کا لیکن یہ نہیں مانتے!

میں سوچتا تھا کہ یہ اتنے غیر منطقی اور سراسر خلاف حقیقت عقائد کی تبلیغ کرنے والے ان ذاکروں کی تعداد کم کیوں نہیں ہو رہی؟ پھر مجھے سمجھ آیا کہ یہ ان کا کاروبار ہے، یہ لوگ بیکری کی طرح ہیں! بیکری کو پیسے دو اور جس قسم کا کیک چاہیئے بنوالو، بلکل اسی طرح یہ لوگ دینی بیکریاں ہیں، آرڈر بوک کروائیں اور بیکری والا دین کو آپ کی پسند کے عین مطابق بنا دیگا. عمل کے بغیر جنت چاہیئے آرڈر دیں کیک مل جائے گا، علی (ع) افضل ہیں محمد (ص) سے، آرڈر بوک کروائیں بیکری والا یہ فلیور ڈال دے گا کیک میں، دین کے کیک سے نماز نکال دینی ہے آرڈر دیں دین کے کیک کو بغیر نماز کے بھی خوبصورت و لذیذ بناکر پیش کردیں گے... ہم سب بیکری والوں سے دین کا کیک بنوا رہے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ بیکری والا ہمارے ہی آرڈر مان کر یہ سب کر رہا ہے، ہمارے ہی پیسے سے ہمیں پسندیدہ دین بنا کر دے رہا ہے، جو دین کیک کی طرح ہماری خواھشات و آرڈرز کے مطابق بنے اس دین میں علی (ع) کو محمد (ص) سے افضل نہیں سمجھا جائے گا تو اور کیا ہوگا.

ان بیکری والوں عرف ذاکروں سے اور ان کے پیروکاروں سے میرا سوال ہے کہ دنیا میں تحقیق و تھیوری پیش کرنے کا حق دنیا کے معتبر اور مانے ہوئے اداروں کو ہے. سائنس ہو یا کوئی اور علم، اگر کوئی شخص کسی نئی تھیوری یا ایجاد کا دعوا کرے گا تو جب تک اس کی تصدیق کوئی ساکھ والا عملی ادارہ نہیں کرےگا تب تک دنیا کے عالم اسے نہیں مانیں گے اور عوام بھی نہیں، کیونکہ جو علمی مراکز سے اثبات شدہ تحقیق یا تھیوری نہیں وہ قابل قبول نہیں.

*کیا ان بیکری والے ذاکرین و خطیب کا کوئی علمی مرکز یا ادارہ ہے؟*
*انہیں سند کون سا علمی ادارہ جاری کرتا ہے؟*
*کوئی ایسا ورق دکھا دیں کہ جس پر ان کے مضمون اور امتحانی کارکردگی کا ذکر ہو؟*
*اگر ان کا کوئی علمی مرکز نہیں تو جو ان جیسوں سے علم لیتے ہیں انہیں اپنی جہالت کا ماتم کرنا چاہیئے کہ ان کے نظریات و عقائد لے رہے ہیں اور دنیا کے باعظمت و تاریخی حوزھا علمیہ نجف اور قم سے دور ہیں. کبھی شہادت ثالثہ کا نظریہ ، کبھی سیدزادی کا مومن سے نکاح حرام، کبھی ظھور کی باتیں، ان کے پیروکاروں سے میرا سوال ہے کیا دنیا کے شیعہ شیعہ نہیں ہیں بس آپ پاکستانی شیعہ ہو؟ انٹرنیٹ کا دور ہے دیکھیں یہ تھیوریز اور نظریے جو یہ جاھل ذاکر پیش کرتے ہیں باقی دنیا تشیع میں اس قسم کوئی چیز وجود رکھتی ہے؟ صرف اتنا کریں تب بھی بات واضح ہوجائے گی. اور نہیں تو ان کی شکلیں ہی دیکھ لیں بعض کی شکلیں علماء کرام جیسی لگتی ہیں*

خدارا دین کو آرڈر پر نہ بنوائیں، پیسے دے کر نہ بنوائیں، مجتھدین و علماء کرام کی کتب تقریباً مفت ملتی ہیں، ایک بزرگ عالم دین نے پاکستان میں ایک مدرسہ بنا رکھا ہے ان بزرگ کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے طلاب عالم دین مفت میں آپ کے گاؤں یا شہر عشرہ مجالس پڑھنے آسکتے ہیں. ان کا ساتھ دیں. پیسوں سے جھوٹ لینے سے بہتر ہے مفت میں سچ لیجئے. نہیں تو بھیا یاد رہے دین بنانا اللہ (ج) کا کام ہے اس نے بنا دیا نماز و نکاح و انسان کی ولادت کا تفصیلی ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے، اللہ (ج) نے یہ دین کامل بنا کر دیا ہے اب کسی بیکری والے کو آرڈر دے کر اس میں تبدیلی کر کے اپنے پسند کا فلیور ڈالیں گے تو یہ ہم نے خود کو ہی بیوقوف بنایا، اللہ (ج) کے بنائے ہوئے دین پر کوئی فرق نہیں پڑے گا. اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ (ج) کے دین کے مقابلے میں جو بندہ اپنا دین لایا وہ لانے والا خود بھی تباہ ہوگا اور اس کے پیروکار بھی.

 

رسم نبھانے والے امام؟

رسم نبھانے والے امام؟
.
تحریر: محمد زکی حیدری
.
جاپان کی بات ہے کہ صابن بنانے والی ایک بہت بڑی کمپنی کو ایک مسئلہ پیش آیا، اس کے گراہکوں نے اس کمپنی پر دھوکے کا الزام لگا دیا کہ اس کمپنی کا جو صابن آتا ہے اس کے متعدد ڈبوں میں صابن نہیں ہوتا، پیکٹ خالی ہوتا ہے. کمپنی کے مینجرز سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس کیا حل نکالا جائے, ایک انجینیئر نے تجویز دی کہ آمریکا سے فلاں ڈٹیکٹر منگایا جائے جو پیک شدہ صابن کے *موونگ کنویئر پر رکھ دیا جائے جو صابن کا ڈبا خالی ہوگا ڈٹیکٹر گھنٹی بجائے گا اور مزدور اسے جدا کردیگا. سب نے اس تجویز کو بہت سراہا، میٹنگ کا اختتام ہوا، وہ جاپانی انجنیئر میٹنگ روم سے باھر آیا تو اس کا پاکستانی فورمین چھٹی کی درخواست لے کر کھڑا تھا. انجینیئر نے اسے کہا کہ ابھی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مجھے آمریکا جانا ہے، کمپنی کو صابن سے خالی پیکٹس کی بہت شکایت ہے لہذا وہ کیونکہ سب سے تجربہ کار فورمین ہے تو پیچھے سارا کام اس نے ہی سنبھالنا ہے اس لئے اسے اگلے مہینے چھٹی ملے گی اس ماہ نہیں. پاکستانی فورمین نے سوچا یہ تو مسئلہ ہوگیا. وہ بھی آگے سے پاکستانی تھا بولا: سر وہ ڈٹیکٹر کتنے کا ہوگا؟ اور آپ کا آمریکا جانا آنا سب لگا کر ھزاروں ڈالر کا خرچہ ہوگا نا؟" انجینئر نے کہا: وہ تو ہے. پاکستانی کو چھٹی لینی تھی، سو بولا آپ مجھے چھٹی دیں تو میں سستے میں اس کا حل بتا سکتا ہوں. انجینئر نے حامی بھر لی. پاکستانی بولا ایک پنکھا منگوا لیں اور جس کنویئر لائین سے صابن قطار میں گزرتے ہیں اس کے سامنے وہ پنکھا رکھ دیں جو صابن کا ڈبہ خالی ہوگا وہ ھلکا ہی ہوگا سو ھوا سے اڑ جائے گا اور از خود کنویئر لائین سے نیچے گر جائے گا. جاپانی بہت خوش ہوا بولا پہلے کیوں نہ بتایا؟ شاید پاکستانی نے جوابا کہا ہوگا سوچنے کی ضروت ہی اب پڑی جب چھٹی درکار تھی!

ہمارا دماغ بہت چلتا ہے، جب ہمیں اپنی غرض ہو، ہماری سوچ اتنی تیزی سے کام کرتی ہے کہ مجال ہے دنیا کا کوئی بڑا مفکر بھی ہم سے مقابلہ کر سکے. مثال کے طور پر ہمارے مذھبی-سیاسی بزرگ اتحاد بین المسلمین کی آڑ میں جب کسی قبیح سیاسی تنظیم سے اتحاد کرتے ہیں تو صلح حدیبیہ، صلح امام حسن (ع) کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور ہم چپ ہو جاتے ہیں، لیکن یہ جب ایک دوسرے سے اختلافات کی وجہ سے اپنی الگ تنظیم بناتے ہیں تب انہیں اتحاد بین المومنین یاد نہیں ہوتا کہ علی (ع) نے ایک نامناسب شخص کو منصب قیادت پر دیکھا لیکن اس کی خلافت کے مقابلے میں نہ کوئی پارٹی بنائی نہ متوازی خلافت کا اعلان کیا کیونکہ اتحاد اہم تھا سو ان کو کمزور کرنے کی بجائے ان کو اپنی تجاویز سے مدد دی.

اسی طرح جب ہمیں شیعت کے مسائل پر خاموش رہنا ہو تو ہمارا تیز دماغ آئمہ (ع) کی زندگی سے تقیہ کی بڑی بڑی مثالیں پیش کر دیتا ہے، علی ابن یقتین و فلاں و فلاں... اسی کوشش میں ہمارا "چیتا دماغ" ایک اور کام بھی کرتا ہے وہ یہ کہ ہم آئمہ (ع) کو ایسا بناکر پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ (نعوذباللہ) رھبانیت میں زندگی گذار رہے تھےکہ بس ایک کونے میں بیٹھ کر نماز و روزہ و عبادت و حسین (ع) پر گریہ ہی کیا کرتے تھے، رسومات و عبادات اور بس... ہمارا دماغ یہاں نہیں چلتا کہ سوچیں کہ اگر وہ مدنی مولویوں کی طرح کونے میں بیٹھے غیبت کے خلاف جنگ کی تقاریر کرتے اور صرف رسم عبادت ہی نبھایا کرتے تھے تو ظالم حکمرانوں کو کیا ضرورت تھی کہ انہیں شہید کر کے اپنا دامن داغدار کریں!!!

دشمن سمجھدار ہے بھائی ایسے ہی نہیں مار دیتا. ہر امام مقاومت کا ایک ناقابل تسخیر قلعہ تھا، ھر امام شیعوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا، یہ تو مرد تھے، اگر ہم زھرا (س) و زینب (س) کی مقاومت دیکھ لیں تو بھی سمجھ جائیں کہ آئمہ (ع) کی مقاومت کس نہج پر ہوگی، یہ میدان میں فعال رھنے والے ھادی تھے. دیکھئے امام ھادی (ع) کو کہ غربت ہے، بھیس بدل کر چھپ چھپ کر کہیں سے خمس و زکوات ملے تو لینے جاتے،.پھر بھیس بدل بدل کر ان ھاشمی و غیر ھاشمی خاندانوں کی کفالت کرتے، اپنے شیعوں سے مسلسل رابطے میں رہتے، شیعوں کے فائدے کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے، امام موسی کاظم (ع) سے کسی شیعہ کو ھدایات لینی تھی امام (ع) اس سے بھیس بدل کر بازار میں ملے، اسے ھدایات دیں کہ ظالم حاکم سے کیسے نبرد آزمائی کی جائے. یہی وجہ تھی ظالم اموی و عباسی حکمران اکثر آئمہ (ع) کو ایک مجرم کی مانند صفائی پیش کرنے کیلئے اپنی درباروں میں بلایا کرتے. حکمرانوں کو ہمیشہ ان مقاومتی آئمۂ تشیع سے خوف رہتا تھا.

کیوں امام موسی کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادیاں نہ ہوسکیں؟ کیوں نہیں سوچتے ہم؟ وہ امام (ع) کی باتقوی، باعفت، ھاشمی، عالمہ، فاضلہ بیٹیاں... ان کا رشتہ لینے کو کوئی تیار نہ تھا. کیوں...؟ یہاں بھی ہم نے امام موسی کاظم (ع) کی مظلومیت پر پردہ ڈالا اور کہنا شروع کردیا بھئی وہ تو سیدانیاں تھیں اور اس وقت کوئی سید لڑکا نہ ملا. گویا سید سب ناپید تھے. عجب! ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ امام کاظم (ع) جو خود قید میں، گھر پہ سخت پہرا، آنے جانے والے کی سخت جاسوسی، ایسے میں کون تھا کہ موسی کاظم (ع) جیسے ہارون رشید کے سخت ترین دشمن کا داماد بنتا. امام موسی کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادیاں نہ ہونا امام (ع) کی ھارون جیسے وقت یزید سے دشمنی کا عظیم ثبوت ہے، مقاومت کی دلیل ہے. لیکن ہم نے اس عظیم ثبوت کو سید لڑکے کی عدم موجودگی کہہ دیا اور اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ذاکروں کو حرمت نکاح سیدہ با غیرسید کا جواز مل گیا اور امام (ع) کی مقاومت پر بھی پردہ پڑ گیا. یہ ہے ہمارا تیز دماغ!

اس طرح کی ھزاروں مثالیں، ایک امام کبھی سنیوں سے شیعت کو بچاتا نظر آتا ہے، کبھی معتزلہ سے نبرد آزما، کبھی غالیوں سے کبھی اسماعیلیوں سے، کبھی صوفیوں سے... آئمہ (ع) کا جرم دفاع تشیع تھا جس کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کو شہید کیا گیا، ہمارے آئمہ (ع) ظلم پہ خاموش رہتے اور صرف رسومات و عبادات میں مگن رہتے تو شہید نہ ہوتے.

آئمہ (عَ) کو ہم چاہے جو بھی نام دیں، لقب دیں، چاہے لاکھ کہیں کہ ہمارا ایک امام پچیس سال خاموش تھا، دوسرا معاویہ سے صلح کرنے والا تھا، تیسرا بس گلے کٹانے والا تھا، چوتھا بیمار تھا، ساجد تھا، روتا تھا، صرف دعائیں اچھی کرتا تھا؛ پانچواں عالم؛ چھٹا ایک فقیہ و استاد؛ ساتواں غصہ پینے والا؛ آٹھواں رضا پہ راضی؛ نواں تقی؛ دسواں ھادی؛ گیارہواں زکی، اور آخری غائب... بیشک ہم اپنی محافل مجالس میں ان القابات کو جتنا بھی زور و شور سے پیش کریں اور ان کی شہادت ولادت کو صرف رسم بنا دیں، اور ان کے اسباب شہادت کی طرف دھیان نہ دیں، ان کی مقاومت کے اوراق پر دھول پڑی رہنے دیں، لیکن ہمیں یاد رہے کہ ان میں سے کسی نے شیعہ پہ ظلم ہوتا دیکھ کر کونا نہیں پکڑا، ان سادات کا پاک لہو گواہ ان میں سے ایک بھی رسومات میں غرق رہ کر ظلم پر چپ رھنے والا امام نہ تھا.

*(وہ گھومتا ہوا پٹا عرف بیلٹ جس پر تیار شدہ صابن قطار میں بڑے بڑے کارٹنز میں جمع ہونے جاتے ہیں)

www.fb.com/arezuyeaab.com

بیمار ماں کے بیٹے!

تحریر: محمد زکی حیدری

ایک گاؤں میں ایک بیوہ بوڑھیا رہا کرتی تھی اس کے تین بیٹے تھے، تینوں ماں کی خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں رہا کرتے تھے، لیکن دنیاوی چپکلشوں کی زد میں آکر ان کے درمیاں چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے لہذا انہوں نے الگ الگ گھر بنا لیئے اور ان میں سے ہر ایک نے ماں کو یہ تسلی دے کر چھوڑ دیا کہ میں تیرا خادم ہوں لیکن فلاں بھائی کی وجہ سے میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا.
ایک دن ماں بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے کہا آپریشن ہوگا تین لاکھ کا خرچہ ہے. اب ہر ایک بھائی غربت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ صرف ایک لاکھ تک انتظام کر سکتا تھا ہر ایک نے ماں سے کہا تم فلاں بھائی سے ایک ٹکہ بھی نہ لینا تم میری ماں ہو، تمہاری خدمت کرنا صرف میرا فرض ہے، تم بے فکر رہو میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے باقی دو لاکھ دوستوں سے لے لوں گا. دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں میں سے باری باری ماں کی خدمت میں پیش ہوکر یہی کہا کہ میرے پاس ایک لاکھ روپے ہے باقی کے دولاکھ دوستوں سے لے لوں گا. آپریشن کا دن آیا ماں کیلئے تین لاکھ جمع نہ ہوسکے اور وہ اس دنیا سے چلی گئی. فاتحہ خوانی پر تینوں بھائی ساتھ بیٹھے ایک بزرگ نے جب ان سے تین لاکھ جمع نہ کر پانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہانی سنا دی. بزرگ بولے تم تینوں کی جیب میں ایک ایک لاکھ تھا، جس طرح آج مل بیٹھے ہو اسی طرح دو دن قبل مل کر بیٹھتے اور اپنا ایک ایک لاکھ جمع کرواتے تو تین لاکھ بن جاتے اور آپ اس وقت ماں کی تعزیت لینے کی بجائے ماں کی دعائیں لے رہے ہوتے. یہ سن کر تینوں بھائی چپ ہوگئے!

یہی حال اب مجھے ہماری ماں یعنی ملت تشیع کے تین بیٹوں کا لگتا ہے، ماں بیماری میں مبتلا ہے روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے لیکن بڑے بیٹے فضل الرحمن کے ساتھ نظر آتے ہیں، دوسرے نمبر والے بیٹے قادری صاحب یا محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا صاحب کے ساتھ اور کل ہی ان کے ایک بزرگ نمائندے علامہ امین شہیدی صاحب ایک دویوبندی مدرسے میں بھی دیکھے گئے. اسی طرح تیسرے نمبر والے بیٹے بھی قابل احترام جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے. یہ اس ماں کے تینوں بیٹے دوستوں سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن افسوس کہ یہ تین بھائی خود ایک دوسرے کے ساتھ بہت کم نظر آتے ہیں. یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے.


ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اتحاد بین المسلمین بری چیز ہے نہیں! ہم جانتے ہیں کہ برادران اھل سنت ہمارے بھائی ہیں، جب ہم ہمارے علماء کو ان کےساتھ بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں قسم سے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے. پچھلے دنوں تین تصاویر آئی ہیں ایک میں قبلہ محترم استاد سید جواد نقوی صاحب محترم جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے، ایک تصویر میں محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا اور محترم فیصل رضا عابدی صاحب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نظر آئے اور پھر محترم جناب قبلہ امین شہیدی صاحب اوکاڑہ کے دیوبندی عالم دین محترم مولانا فضل الرحمن اوکاڑی کے مدرسے اشرف المدارس میں نظر آئے. یہ تصاویر دیکھ کر دل خوش ہوا اللہ (ج) اتحاد کے ایسے مزید مناظر ہمیں دکھائے. ہم ان اھل سنت علماء کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں وہ ہمارے دل و جان میں ہیں، ان کا ہمارے اور ہمارے علماء کا ان کے یہاں جانا نعمت الہی ہے.
بیشک اتحاد بین المسلمین اہم فریضہ ہے لیکن جب اتحاد بین المومنین کی اشد ضرورت ہو، جب اتحاد بین المومنین نظر نہ آ رہا ہو تو کیا ایسے میں اتحاد بین المسلمین مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ جب نوبت یہاں تک آجائے کہ ملک میں شیعہ مرد تو مرد عورتوں پہ بھی گولیاں چلنے لگ جائیں، ھر گھر میں صف ماتم بچھی ہو، ایسے حال میں ہم شیعہ ایک دوسرے کو گلے لگانے کی بجائے پڑوسیوں سے مراسم استوار کرنے کی کوشش کریں اور تو اس کا نتیجہ سوائے عوامی مایوسی کے اور کچھ نہیں ہوگا. جب گھر میں ماں بیمار ہو تو دوستوں کے ساتھ دعوتیں نہیں کی جاتیں بلکہ ہنگامی بنیادوں پر تمام بہن بھائیوں کو بلا کر ماں کے علاج کا سوچا جاتا ہے.

شاید یہی وجہ ہے کہ اس ماں کے بڑے بیٹے کو اس بات کا احساس ہوا اور ماں عرف ملت تشیع کی خستہ حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے پچھلے دنوں کراچی میں انہوں نے ایک پروگرام رکھا جس میں ایم ڈبلیو ایم کے بزرگ علماء کو دیکھ کر کو مدعو کیا گیا تھا، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی، اتحاد بین المومنین کی مثال پیش کی گئی، اس پر میں نے قائد صاحب کو سلام پیش کیا تھاـ امید کرتا ہوں کہ اسی طرح بڑے بھائی ہونے کے ناطے اس روش کو مزید تقویت بخشتے ہوئے قائد صاحب اپنے چھوٹے بھائیوں کو کھانے پہ بلائیں گے، اور مجھے صد در صد یقین ہے کہ چھوٹے بھائی روگردانی نہیں کریں گے. یہ دعوت، اتحاد کی دعوت، بھائیوں کے یکجاء ہونے کی دعوت زخموں سے چور، مجروح ماں کے زخموں پہ مرہم کا کام کرے گی اور یہی اتحاد بین المسلمین کا مرھم ان شاء اللہ اس کے سارے زخم دھو دے گا. جب اپنی ماں صحتمند ہوجائے گی تو دوستوں کی دعوتیں کر لیں گے.


arezuyeaab.blogfa.com

گانے کی طرز پر اھل بیت (ع) کی تعریف

Ek group me indian ganay ki tirz par Ahl Bait a.s ki madah me video ai. doston ne kaha ye tariqa durust ni, Behs hue، banday ne kaha tariqa o tirz jo bhi ho aap sirf zikr dekho k ks ka h, to me ne ye arz kia.


جو لوگ بھی فلمی گانوں کی دھنوں پر اھل بیت علیہم السلام کا ذکر کرتے ہیں وہ شاید ان دو میں سے ایک بات کے قائل ہیں.

ایک. گانا گانے والے/والیاں اور خود گانا شریف خاندانوں کا پیشہ ہے. اس لئے اس طریقے سے یا اس سے ملتے جلتے انداز میں شریفوں کا ذکر کرنا جائز ہے.

دو. شریفوں کا ذکر اس انداز میں بیشک نازیبا ہے لیکن یہ اس لیئے کرتے ہیں کہ اس طرح ان شریفوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکے، ترویج فضائل... اور عوام کو بتایا جا سکے کہ یہ اھلبیت شریف خاندان ہے.


جو پہلی بات کے قائل ہیں تو ان کیلئے دعا ہے ان کے خاندان کے ہر مرد اور عورت کا ذکر بھی لوگ اسی طرح کریں. اور اگر یہ پیشہ (گانا) شریفوں کا پیشہ ہے تو اللہ ج ان کے گھر کی ہر عورت و مرد کو یہ عظیم پیشہ عطا فرماوے.

اگر وہ دوسری بات کے قائل ہیں کہ شریفوں کی عزت افزائی "کسی بھی" طریقے سے ہو جائز ہے تو اللہ (ج) نہ کرے کسی کی بہن کو کوئی راہ جاتے ہوئے گلے لگا کر کہے "تواڈا پورا خاندان اس شہر چ ساڈے لئی شرافت دی مثالے" بے شک یہ طریقہ ذرا نازیبا ہے لیکن اس سے مزید لوگ آپ کے خاندان کی عزت کے قائل ہوں گے سو یہ دیکھئے وہ کہہ کیا رہا ہے یہ مت دیکھئے کہ کس طرح کہہ رہا ہے... بے شک بہن کو گلے لگا رہا ہے لیکن تعریف تو خاندان کی کر رہا ہے... فضائل اہم ہیں طرز و طریقہ نہیں.


ملتمس دعا
محمد زکی حیدری

زینب (س) یعنی...

زینب (س) یعنی...

تحریر: محمد زکی حیدری

میرے ایک دوست نے پوچھا زینب (س) نے اتنی قربانی دی کیوں اسے چار برگزیدہ عورتوں میں شامل نہیں کیا جاتا؟ میں نے کہا مجھے اس مصلحت خداوندی کا علم نہیں. وہ کہنے لگا تم زینب (س) کو ان سے کم سمجھتے ہو شاید؟ میں چپ ہوگیا اس وقت اسے جواب نہ دیا لیکن اب جواب دے رہا ہوں کہ دوست سنو!

حوا (س) یعنی ممنوعہ درخت سے میوہ کھانے والی, زینب (س) یعنی علی (ع) کے گھر میں مسلسل سوکھی روٹیاں کھانے والی، ازواج نوح (ع) و لوط (ع) یعنی شوہر کا گھر چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والیں، زینب (س) یعنی شوہر کا گھر چھوڑ کر حق کیلئے کربلا کا رخ کرنے والی، آسیہ یعنی دنیا کی تمام تر آسائشوں سے آراستہ فرعون کے محل میں رہ کر اسلام کا دفاع کرنے والی زینب (س) یعنی تپتے صحراء و بیابان میں اسلام کا دفاع کرنے والی؛ ھاجرہ یعنی ایک اسماعیل (ع) پر چھری برداشت نہ کر پانے والی، زینب (س) یعنی عون و محمد (ع) کے جنازے بڑے صبر سے حاصل کرنے والی؛ مریم یعنی جس کا ایک بیٹا اسلام پہ قربان ہو زینب (س) یعنی وہ جس کے دو بیٹے، بھائی، بھتیجے.. اسلام کی راہ پہ قربان؛ خدیجہ (س) یعنی اپنا مال محمد (ص) کے دین پہ لٹانے والی زینب (س) یعنی اپنی چادر اسلام پر لٹانے والی، عائشہ یعنی وہ عورت جو علی (ع) کے خلاف نکلی ہو اور اس کے ساتھی مرد اس کی اونٹنی کو گھیرے ہوں، زینب (س) یعنی وہ جو یزید کے خلاف نکلی ہو اور دشمن مرد اس کے خیمے کو گھیرے ہوئے ہوں...

زھرا (س) یعنی وہ عورت جو صرف اپنے بابا (ص) کی موت دیکھے زینب (س) یعنی وہ جو حسن (ع) خون کی الٹیاں کرتے دیکھے؛ زھرا (س) یعنی وہ جو رسول (ص) کا جنازہ کاندھوں پہ دیکھے، زینب (س) وہ جو بھائی کا جنازہ تیروں پہ دیکھے؛ زھرا (س) یعنی وہ خاتون جو ایک دربار میں چادر کے ساتھ جائے زینب (س) یعنی وہ جو درباروں میں بے چادر...
زھرا (س) یعنی وہ خاتوں جو اپنے شوہر کے گھر میں یا اس کے بنائے ہوئے بیت الاحزان میں عزاداری کرے زینب (س) یعنی وہ خاتون جو شرابی کی دربار میں روئے؛ زھرا (س) یعنی وہ جو دنیا میں نہ آنے والا اپنا محسن شہید ہوتا دیکھے، زینب (س) یعنی جو چھ ماہ کے پیاسے کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہوتا دیکھے، زھرا (س) یعنی جس کو عباس (ع) کی ضرورت نہ ہو، زینب (س) یعنی جسے عباس (ع) کی ضرورت ہو اور وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پہ خون میں غلطاں ہو، زھرا (س) یعنی وہ جس کا اکبر (ع)... یعنی جس کی زندگی میں اکبر (ع) جیسا لعل سلامت ہو، زینب (س) یعنی وہ جو اکبر (ع) کی آخری صدا سنے اور واہ حبیبا! یابن اخی! کی صدا دیتی ہوئی مقتل کی جانب دوڑے اور خود کو علی اکبر (س) کے جنازے پہ گرا دے، زھرا (س) یعنی وہ بیبی جو علی (ع) کے پہرے میں ہو، زینب (س) یعنی جس کے پہرے میں بیبیاں ہوں، زھرا (س) یعنی جسے امام (ع) سنبھالے زینب (س) یعنی وہ خاتون جو امام (ع) کو سنبھالے... زینب (س) یعنی اونٹ پر تھجد، زینب (س) یعنی کاخ امراء کے در دیوار ھلانے والی علی (ع) کی مظلوم بیٹی، زینب (س) یعنی مقاومت، زینب (س) یعنی ظالم مرد کی آنکھ میں اس طرح آنکھیں ڈال کر دیکھنے والی کہ اسے اندھا کر دے...
مجھ میں اب طاقت نہیں مجھے کی پیڈ دھندلا نظر آرہا ہے اس سے قبل کے گستاخ آنسو ٹپکیں... زھرا(س) یعنی وہ جو حسین (ع) کے سینے پر رسول (ص) کو بوسے دیتے ہوئے دیکھے اور زینب (س) یعنی وہ جو حسین (ع) کے سینے پہ شمر کو خنجر...

www.fb.com/arezuyeaab

غالی کا علی (ع) کو خط!

غالی کا علی (ع) کو خط!
.
تحریر: محمد زکی حیدری
.
مولا یاعلی مدد!
آپ کو آپ کا ظہور مبارک ہو، بس مولا دکھاوے سے قلندر بچائے، آپ تو علم غیب کے مالک ہیں لیکن بات یہ ہے کہ میرے پاس آپ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، فلم انڈسٹری کا کاروبار ٹھپ ہوگیا لیکن ھرسال آپ کے نام پر تیرھویں رجب کا بڑا جشن کرتا ہوں جس کی برکت یہ ہے کہ سارے سی ڈی مارکیٹ میں آپ کے اس بندے کی شاپس سب سے زیادہ دھندا کرتی ہیں، اس جشن میں ساتوں سی ڈی شاپس کی آمدنی لگا دیتا ہوں، اس بار بیوی نے کنجوسی دکھائی کہ بچت کرو، بس کیا کریں عورت ذات ہے نا مولا، لیکن میں نے کہا نہیں! اور تین سی ڈی شاپز پر چھاپا نہ پڑتا تو ان کی ساری آمدنی بھی اس جشن میں لگا دیتا. بس مولا کرم ہیں آپ کے کہ جوتائی صاحب کا سن کر بڑا رش ہوا بارگاہ پر، مولا میں جوتائی صاحب کو ہی پڑھاتا ہوں، جب آپ کا دیا ہوا سب کچھ ہے تو پھر کسی مسجد کے ملا سے کیوں پڑھواؤں جشن...

مولا یہ سب آپ ہی کی دین ہے ورنہ ہماری اوقات ہی کیا تھی، معجزے کی بات دیکھیں، میں نے جشن کیلئے صرف جوتائی صاحب اور کجنکر یونسوی صاحب کو ہی دعوت دے رکھی تھی لیکن رات میں چھوٹے بھائی جو وکیل ہے، کا فون آیا کہ اس کے کلائنٹ جو منسٹر تھے ان پر کسی نے کرپشن کا الزام لگایا تھا سو جج کو عیدی ویدی دی تو فیصلہ منسٹر صاحب کے حق میں سنا دیا، چھوٹے کو منسٹر نے کیس جیتنے پر عیدی دی تو چھوٹے نے مجھے فون کر کے کہا کہ میں جشن کیلئے حافظ مصدق اور علامہ خمیر بکتر صاحب کو بھی دعوت دے رہا ہوں، میں نے چھوٹے کو دعا دی حلالی بیٹا ہے نا مولا اپنے شوق چھوڑ کر آپ کے جشن میں پیسہ لگا دیا...

مولا چھوٹے کا جوش دیکھ کر میں نے جشن میں آئے ہوئے خطباء سے کہا جتنی نیاز لینی ہے لیں، لیکن آپ کی ربانیت ثابت کریں اور سالگرہ کا جشن اس طرح پڑھیں کہ لوگ جھوم اٹھیں، اور آپ کا کرم ہوا، سب نے پڑھا اور بڑا دھوم کا پڑھا مسجدی مقصروں کی مٹی پلید کر دی، جوتائی صاحب نے بھی ایسا پڑھا کہ امام بارگاہ کی دیواریں بھی حیدر حیدر کرنے لگیں، انہوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ جو حلالی ہوگا وہ نماز کی تشہد میں علی ولی اللہ ضرور پڑھے گا. اس کے بعد یونسوی صاحب نے پڑھا اور آپ تو جانتے ہیں یونسوی صاحب کو آپ کے در سے بڑا علم ملا ہے بولے کس نے کہا ہے کہ صلاۃ مطلب نماز ہے صلاۃ کا مطلب ہے عزاداری اور قمعہ زنی! حالانکہ تھا جشن لیکن اس نکتے نے مجتہدوں کے دفاتر کی بنیادیں ھلا کر رکھ دیں،
مغرب کی اذان کے وقت جب مسجدی مرغے کُر کُر کرنے لگے اس وقت خمیر بکتر صاحب نے پڑھنا شروع کیا انہوں نے کہا ان نمازوں کی کوئی اوقات ہی نہیں، جو علی علی کرے گا جنتی ہے، نماز جیسی خسیس چیز کو ذکر علی سے ملانے کا سوچو بھی نہیں، انہوں حر (ع) مثال بھی دی کہ وہ ایک بار یا حسین (ع) بول کر جنتی ہوگیا تو تم روز یا علی یاعلی بول کر کیوں نہیں.
آخر میں حافظ مصدق صاحب نے قرآن سے ثابت کیا کہ ہمارا رب اللہ نہیں ہے، ہمارے رب معصومین سرکار ہیں. وہ اللہ صرف معصومین کا رب ہے...

اور مولا! اس بار کیک بھی آٹھ ٹیئر والا تھا، اسلام آباد سے بنوایا تھا. اس نے تو جشن کو چار چاند لگا دیئے. منافق دیکھ کر جل گئے، مولا آج کل مقصر ذوالجناح کے خلاف بہت بکواس کرتے ہیں سو میں نے سوچا ان کو جلانے کیلئے ذوالجناح سرکار سے ہی آپ کا کیک کٹوایا جائے، اور تعجب کی بات دیکھیں، معجزہ یہ تھا کہ ذوالجناح نےکیک کا کونہ کھانے کی بجائے تبرک سمجھ کر اپنا چہرا مبارک کیک سے مل دیا... واہ! اس وقت تو منظر دیکھنے کا تھا حیدر حیدر کی گونج تھی، بس کیک کیونکہ بہت بڑا تھا اور ذوالجناح سرکار نے اپنا منہ ڈال کر اسے بابرکت کردیا تھا اس لیئے سب مومنوں نے پیٹ بھر کے کھایا.
اور مولا آخر میں معذرت چاہتا ہوں آپ بخشنے والے ہیں سو... بات دراصل یہ ہے کہ میں ولادت شہادت کے دن نہیں پیتا, لیکن اس رات جشن کے بعد دوستوں نے محفل لگائی تو منتیں کیں، لیکن میں نہ مانا، پھر آپ کی قسم دی کہ رب کی قسم پیو سو میں نے مجبوری میں ایک پیگ لگایا. مجھے پتہ ہے آپ اتنی سی بات پہ ناراض نہیں ہوں گے آپ سخی ہیں لیکن پھر بھی..
خیر مولا! اب میں چلتا ہوں صبح نیا مال آنا ہے سو یاعلی مدد.
سگ در قلندر

www.fb.com/arezuyeaab