کربلا حرم امام حسین (ع) میں شیر کے بارے میں

سلام زکی بھائی یہ جو کربلا میں شیر کی شبیہ بناتے ہیں یہ کیا چکر ہے شیر کا کربلا سے کیا لینا؟ اکثر روضہ امام حسین (ع) کی تصاویر میں ایک شیر بھی دکھائی دیتا ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

جواب: وعلیکم سلام برادر کہا جاتا ہے کہ *مہران* نامی ایک شخص ایک جنگ میں قید ہو کر آیا ام سلمہ (س) نے اسے خریدا اور رسول (ص) نے اسے آزاد کردیا. وہ اپنے ملک رامھرمز جانے کیلئے کشتی میں سوار ہوا. رات کو تیز طوفانی بارش ہوئی کشتی ڈوبنے لگی *مہران* نے ایک لکڑی کے تختے کو پکڑ لیا جس کے سہارے وہ کنارے پر پہنچا اور پیدل اپنے وطن کی طرف چلنا شروع کیا.
بیابان میں وہ راستہ کھو بیٹھا. خشکی و تھکن سے ریگستان میں مرنے ہی والا تھا کہ اسے سامنے سے ایک قوی و بلند قامت شیر آتا دکھائی دیا. مہران نے اسے بتایاکہ وہ رسول (ص) کا آزاد کردہ غلام ہے. شیر نے *مہران* کا طواف کیا. پھر شیر نیچے بیٹھ گیا اور مہران کو پیٹھ کی طرف اشارہ کیا. مہران سمجھ گیا کہ شیر سوار ہونے کو کہہ رہا ہے سو وہ شیر پر بیٹھ گیا. اور شیر بھاگنے لگا.
(چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو
ہم ہیں تیار چلو ھوو ھووووو)
بھرحال ظہر کے بعد شیر نے مہران کو اپنے گاؤں پہنچا دیا. ایک نگاہ مہران پر ڈالی اور نظروں سے اوجھل ہوگیا.

(ارے بھائی تو اس ساری اسٹوری کا کربلا سے کیا لینا)
سن تو لو بھائی!
عاشورہ کے دن عصر کے وقت فضہ کو پتہ چلا کہ عمر بن سعد نے فیصلہ کیا ہے کہ لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جائیں. تو اس نے یہ بات آکر زینب (س) کو بتائی زینب (س) پریشان ہو گئیں اور فضہ کو حکم دیا کہ جاؤ فرات کے کنارے نخلستان میں اس شیر کو بلا لاؤ جس نے نبی (ص) کے صحابی مہران کو نجات دی تھی.
فضہ گئیں، چلچلاتی دھوپ اور نخلستان میں اکیلی عورت تھک گئی اور زور سے چیخ کر صدا دی یا ابوالحارث! اے شیروں کے باپ کہاں ہو، ایک بہت طاقتور شیر نمودار ہوا. فضہ نے کہا زینب (س) نے تمہیں اپنی مدد کو بلایا ہے. شیر بھاگتا ہوا قتلگاہ کی جانب روانہ ہوا. شیر رات کے وقت پہنچا اپنے چہرے کو امام حسین (ع) کے خون سے آلودہ کیا اور بہت رویا اتنا چیخ چیخ کر رویا کہ اس کی آواز دور دور تک سنائی دی اس کی اواز بھی انسانوں جیسی تھی.
صبح جب عمر سعد لشکر کے ساتھ لاشے پامال کرنے آیا تو شیر کو دیکھا شیر نے انہیں آنکھیں دکھائیں. عمر سعد نے لشکر کو روک دیا. شیر نے اپنے ہاتھوں سے امام حسین (ع) کے جسم سے تیر نکالنا شروع کیئے. عمر نے اپنی فوج سے واپس جانے کو کہا. بیبی زینب (س) اور فضہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر دیکھ رہی تھیں کہ شیر گم ہوگیا.

💡💡💡💡💡💡💡💡💡
اس داستان کی حقیقت
💡💡💡💡💡💡💡💡💡

یہ کہانی مقتل کی کتاب *تظلم الزھراء من اھراق دماء آل عبا* کے صفحہ نمبر ۲۷۳ پر آئی ہے. اس کتاب کے مولف ملا رضی قزوینی کی اور کوئی کتاب نہیں ہے یہ ہی ایک کتاب ہے اور رجال میں اسے ذاکر کہا گیا ہے. اس کتاب میں بہت سی من گھڑت روایات ہیں بزرگوں نے اس پر بہت تنقید کی ہے جس کی تفصیل *دماغ می بتی جلاؤ* کی قسط نمبر ۱۴ و ۱۵ میں پیش کی جاوے گی. ان شاء اللہ.

 


💎💎💎💎💎💎💎💎💎
تحقیق و ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

*_arezuyeaab.blogfa.com_*
💎💎💎💎💎💎💎💎💎

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۳

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 13)

 


مسلم بن عقیل (ع) کی گرفتاری

محمد بن اشعث اور اس کے ساتھی *طوعہ* کے گھر کی دیوار تک آگئے جب مسلم (ع) نے گھوڑوں کے سموں کی آواز سنی تو زرہ پہنی اور گھوڑے پہ سوار ہو کر ان سے جنگ کرنے چل دیئے اور چند افراد کو واصل جہنم کیا. محمد بن اشعث نے آواز لگائی کہ مسلم تم امان میں ہو. مسلم (ع) نے فرمایا شاطر اور مکار انسانوں کی امان امان نہیں ہوتی. لھذا انہوں نے رجز پڑھتے ہوئے جنگ جاری رکھی.
لشکر ابن زیاد نے کہا اے مسلم! محمد بن اشعث جھوٹ نہیں بول رہا وہ تم سے دھوکہ نہیں کرے گا. مسلم (ع) نے دھیان نہ دیا اور جنگ جاری رکھی لیکن تلوار اور نیزوں کے زخموں نے انہیں کمزور کردیا، دشمن نے زور کا حملہ کیا، ایک پلید نے اپنے نیزے سے مسلم (ع) کی پیٹھ کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے مسلم (ع) زمین پہ گر گئے.
مسلم کو گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا آپ (ع) نے ابن زیاد کو سلام نہ کیا. ایک درباری نے سلام نہ کرنے کی وجہ پوچھی مسلم (ع) نے کہا یہ میرا امیر نہیں ہے. ابن زیاد نے کہا سلام کرو نہ کرو مارے ضرور جاؤ گے.
مسلم (ع) نے کہا *یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے تجھ سے بدتر انسانوں نے مجھ سے بہتر انسانوں کو قتل کیا ہے.* لیکن تم چونکہ افراد کو بزدلانہ طریقے سے قتل کرتے ہو، اپنی ناپاکی ظاہر کرتے ہو، اور دشمن پر غلبہ پالینے کے بعد قبیح ترین فعل انجام دیتے ہو اس لیئے بدترین لوگوں کی فہرست میں کوئی تجھ سے بہتر نہیں.
ابن زیاد بولا: اے گنہگار فتنہ گر! وقت کے امام کے خلاف بغاوت کرتے ہو، مسلمانوں کے اتحاد کو خراب کرتے ہو، معاشرے میں تفرقہ پھیلاتے ہو و...
مسلم (ع) نے فرمایا: اے زیاد کے بیٹے جھوٹ بولتے ہو! مسلمانوں کا اتحاد معاویہ اور یزید نے خراب کیا اور فتنہ تو نے اور تیرے باپ زیاد بن عبید نے برپا کیا.میری خواھش ہے کہ اللہ (ج) مجھے شہادت نصیب کرے اور وہ بھی ناپاک ترین ھاتھوں سے!
ابن زیاد بولا: اے مسلم تم نے حکومت ہتھیانے کی کوشش کی لیکن اللہ (ج) نے ایسا نہ کیا اور حکومت اھل کے ہاتھ دے دی.
مسلم (ع) نے پوچھا: حکومت کا اہل کون؟
بولا یزید ابن معاویہ!
مسلم سے ابن زیاد نے پوچھا کیوں یہاں آئے اور فتنہ برپا کیا؟
فرمایا میں یہاں فتنہ برپا کرنے نہیں آیا تم نے گندے کام کیئے، لوگوں کی رضایت کے خلاف امیر بن بیٹھے، لوگوں سے ایران و روم کے بادشاہوں کی طرح رویہ رکھا. ہم اس لیئے آئے کہ لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دیں، لوگوں قرآن و حکم پیغمبر (ص) کا مطیع بنائیں. اور ہم اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں.
ابن زیاد نے علی و حسن و حسین (علیہم السلام)کی شان میں گستاخی شروع کردی.
مسلم نے کہا: تم اور تیرے باپ کو بس دشنام دینا ہی زیب دیتا ہے، جو کرنا ہے کرو اے دشمن خدا.


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:71& 75

۲. ارشاد شیخ مفید ص:404 سے 410 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص145 سے 151

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۲

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط ۱۲)


ھانی (ع) کا سن کر مسلم بن عقیل نے قیام کیا

 

ھانی (ع) کے قتل کی خبر سن کر مسلم بن عقیل (ع) نے اپنے ان تمام ساتھیوں کو بلایا جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعیت کی تھی اور ان کے ساتھ مل کر دارالامارہ کا محاصرہ کر دیا. ابن زیاد نے دارالامارہ کے دروازے بند کر دیئے. باہر اس کے اور مسلم (ع) کے ساتھی لڑتے رہے. اچانک دارالامارہ کی چھت سے اعلان ہوا کہ شام (یزید کی طرف سے) ایک بہت بڑا لشکر آ رہا ہے.
دن گذر گیا اور رات ہونے لگی، اندھیرا چھانے لگا. مسلم (ع) کے ساتھی آہستہ آہستہ ان کو چھوڑ کر جانے لگے. ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ "ہم کیوں اس فتنے میں حصہ لے کر اپنا دامن داغدار کریں. بہتر یہ ہے کہ اپنے اپنے گھر چلے جائیں اور مسلم سے کوئی لینا دینا نہ رکھیں. اللہ (ج) ان کے درمیان صلح کروائے." یہ کہہ کر اکثر لوگ چلے گئے مسلم (ع) کے ساتھ صرف دس لوگ باقی رہ گئے.
مغرب کا وقت ہوچکا تھا سو مسلم (ع) ان دس افراد کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنے مسجد آئے، لیکن نماز کے بعد وہ دس لوگ بھی انہیں چھوڑ کر چلے گئے.
مسلم بن عقیل (ع) تن و تنہا کوفے کی گلیوں میں پھرتے پھرتے ایک عورت "طوعہ" کے در پہ پہنچے اور اس سے پانی مانگا. مسلم نے اس عورت سے پناہ دینے کو کہا. اس عورت نے مسلم (ع) کو اپنے گھر میں بلالیا. لیکن اس عورت کے بیٹے نے ابن زیاد کو جا کر بتادیا.
ابن زیاد نے محمد بن اشعث کو طلب کیا اور اسے ایک گروہ کے ساتھ مسلم (ع) کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:69& 71

۲. ارشاد شیخ مفید ص:396 و 404 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 140

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

دماغ کی بتی جلاؤ ... قسط ۱۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡دماغ کی بتی جلاؤ💡💡

(قسط 14 )

 
*جعلی مصائب والی تاریخی کتب کا تعارف...* 


📙کتاب: منتخب طریحی یا کتاب الفخری
تالیف:فخر الدین طریحی نجفی (979 تا 1085 ھ ق)

 

 ❗❗❗❗❗❗
اس کتاب میں موجود جعلی روایات
❗❗❗❗❗❗

 

❌لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کی زوجہ یعنی بیبی شھربانو بنت یزدجرد بادشاہ اپنے ساتھ ایک بہت ہی نایاب و قیمتی *سونے کا* کمربند لائی تھیں، عاشور کے دن امام حسین (ع) نے یہ سونے کا کمر بند کمر پر باندھا ( *نعوذباللہ! امام سونا پہن رہے ہیں*) اور جنگ کو گئے اور شہید ہوئے. ایک بندہ جو یہ کمربند امام (ع) کی کمر پہ دیکھ چکا تھا امام (ع) کی شہادت کے بعد امام (ع) کی لاش سے وہ اتارنے آیا.... (ص ۹۴،۹۶)

❌لشکر عمر سعد کی تعداد ستر ھزار سوار ( ص ۳۸، ۲۸۰)

❌قاسم (ع) کی شادی کا قصہ (ص ۳۷۲،۳۷۵)

❌امام حسین (ع) نے *دس ھزار یزیدیوں* کو مارا (ص ۴۶۳)

❌مسلم جصاص والی روایت کے بیبی زینب (س) نے محمل کی لکڑی سے سر ٹکرایا.
اور

🤔ان صاحب نے ملا کاشفی کی روضۃ الشہداء سے بھی بہت سی روایات اپنی کتاب میں نقل کی ہیں.

اور بھی بہت سی من گھڑت اور اہانت آمیز روایات اس کتاب کا حصہ ہیں اختصار کی وجہ سے چند نمونے پیش کیئے.

💡💡بتی سوال💡💡
زکی بھائی! آپ نے تو یہ روایات بتادیں کل ایسی کوئی مشکوک روایت ہمیں ملے تو ہم کیا کریں ہمیں تو اتنا علم ہے نہیں کہ جان سکیں؟
*جواب:* علماء کرام سے رجوع کریں اس سارے سلسلے کا مقصد ہی عوام کو علماء سے قریب اور جاہل ذاکر سے دور کرنا ہے.
*❗لیکن❗
علماء سے اختلافی سوال اپنے منہ تنہائی میں پوچھیئے بعض اوقات تفرقے کے ڈر سے علماء کرام سرعام ایسی باتیں بتانے سے اجتناب کرتے ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے. تفرقہ تباہ کردیتا ہے قوموں کو.
*علماء کی صحبت میں بیٹھا کریں ھر چیز منبر سے نہیں بولی جا سکتی*


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۱

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 1⃣1⃣)


ھانی (ع) کے ساتھ ابن زیاد نے کیا کیا

ابن زیاد نے کہا اسے میرے پاس لاؤ. ھانی ابن زیاد کے پاس آئے.....
ابن زیاد نے کہا خدا کی قسم مسلم بن عقیل کو میرے پاس لاکر پیش کرو ورنہ تمہاری گردن اڑا دوں گا.
*ھانی (ع)* نے فرمایا ایسا کیا تو تیرے گھر کی طرف بہت سی تلواریں آئیں گی.
ابن زیاد کو غصہ آیا، ھانی سمجھ رہے تھے کہ ان کے قبیلے والے ان کی آواز سن رہے ہیں. ابن زیاد نے غصے میں آکر ھانی (ع) کی پیشانی، چہرے اور ناک پر لاٹھی سے اتنا مارا کہ ان کی ناک سے خون بہہ کر ان کے کپڑوں پر گرنے لگا، ان کی پیشانی اور چہرے کا گوشت داڑھی پر گرنے لگا اور زیاد کی لاٹھی ٹوٹ گئی.
ھانی نے پاس کھڑے ہوئے سپاہی کی تلوار چھیننا چاہی مگر اس نے نہ دی. ابن زیاد کے حکم پر ھانی کو لے جا کر دارالامارہ کے ایک کمرے میں قید کردیا گیا.
اتنے میں اسماء بن خارجہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا: اے امیر! تم نے ہمیں حکم دیا کہ ھانی کو تمہارے پاس لائیں جب ہم نے ایسا کیا تو تونے اسے مارا، اس کو خون آلود کیا اور چاہتے ہو کہ اس کی جان لے لو.
زیاد نے حکم دیا کہ اسے بھی پکڑو. لھذا اسے بھی پکڑ کر پیٹا گیا اور کمرے میں بند کردیا گیا. اسماء نے اپنا حال دیکھ کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، شاید اسے ھانی کی وہ بات یاد آگئی تھی جو اس نے دارالامارہ آتے ہوئے کہی تھی.

جب ھانی کے سسر *عمر و بن حجاج* کے کانوں تک یہ بات پہنچی کہ ابن زیاد نے ھانی کو قتل کردیا ہے تو اس نے اپنے قبیلے کو جمع کیا اور دارالامارہ کا محاصرہ کرلیا. ابن حجاج نے آواز لگائی کہ امیر ہم نے بادشاہ کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کی، اور خود کو مسلمانوں کی جماعت سے جدا نہیں کیا لیکن ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے سرور و سردار ہانی کو قتل کردیا گیا ہے.
ابن زیاد نے جب یہ بات سنی تو شریح قاضی سے کہا انہیں جاکر کہہ دو ھانی مرا نہیں زندہ ہے. شریح نے ھانی کے قبیلے سے یہ بات کہی تو وہ سچ سمجھے اور چلے گئے.

(جاری ہے)

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:67& 69

۲. ارشاد شیخ مفید ص:393 و 396 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 135 و 137

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

دماغ کی بتی جلاؤ قسط 13

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡دماغ کی بتی جلاؤ💡💡

(قسط 13 )

 
جعلی مصائب والی تاریخی کتب کا تعارف... 


📙کتاب: منتخب طریحی یا کتاب الفخری
تالیف:فخر الدین طریحی نجفی (979 تا 1085 ھ ق)

 
یہ کتاب جو فخر الدین طریحی سے منسوب کی جاتی ہے مجلس پڑھنے والا ذاکروں اور نوحہ خوانوں کیلئے لکھی گئی ہے تاکہ وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ رلا سکیں. *منتخب طریحی* کو نہ تاریخ یا مقتل کی کتاب کہا جا سکتا ہے نہ ہی حدیث یا روایت کی کتاب! بس ایک مرثیوں اور مجلس کہ کتاب ہے جسے نثر و نظم کی شکل میں جمع کیا گیا ہے. یہ کشکول کی مانند کتاب بغیر کسی تحقیق کے لکھی گئی اور بہت سے تاریخ کے محققین جیسے آقای بزرگ تھرانی نے الذریعہ میں، ثقہ الاسلام تبریزی نے مرآت الکتب میں، محدث قمی نے منتھی الامال میں، محدث نوری نے لولوو مرجان میں، مرزا محمد ارباب نے اربعین حسینیہ میں، اس پر سخت تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ جعلی روایات سے بھرپور کتاب ہے.

💡💡بتی افسوس💡💡
خوب رلانے کے چکر میں بہت سے مقتل نویسوں نے جب کربلا کے بارے میں لکھنا چاہا تو اس نوحوں و ذاکری والی کتاب سے بھی بہت سی روایات نقل کی، جس سے یہ ہوا کہ اس میں موجود جعلی روایات ہماری مجالس میں عام ہو گئیں.


📣📢 کل اس کتاب کی چند جعلی روایات نمونے کے طور پر پیش کی جاویں گی. ان شاء اللہ

💎💎💎 عزاداری💎💎💎


آیت اللہ امینی (صاحب الغدیر) کے سامنے جب مصائب پڑھے جاتے تو ان کی کیفیت عجیب ہو جاتی ایسا جیسے کربلا میں جو کچھ ہوا ان کے سامنے ہو رہا ہے.


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

آیت اللہ حسن زادہ عاملی اور فال حافظ (رح)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

آیت اللہ حسن زادہ عاملی اور فال حافظ (رح)

مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

علامہ حسن زادہ آملی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس مختلف علوم پر تسلط رکھتے ہیں، جن میں ریاضی، علم نجوم، فلکیات، عمرانیات وغیرہ شامل ہیں. یہ بزرگ ریاضی میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں.
اپنی سوانح حیات میں فرماتے ہیں:

چھٹی کلاس کے بعد میں نے اسکول چھوڑ دیا اور بابا کی دکان پر منشی لگ گیا، تقریباً ڈیڑھ سال تک بابا کی دکان سنبھالتا رہا... کیونکہ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد بابا نے مجھ سے فرمایا: بیٹا اب آپ نے جب لکھنا و پڑھنا سیکھ لیا ہے، تو بہتر ہے کہ دکان کا حساب کتاب آپ سنبھالیں. میں نے عرض کیا بابا میرا درس و مباحثہ بہت قوی کے مجھے اجازت دیں کہ ساتوین جماعت میں بیٹھوں اور پڑھائی جاری رکھوں.

بابا نے فرمایا: بیٹا میں تھک گیا ہوں، ھر ایک ادھ سال بعد ایک نیا بندہ دکان کا منشی بنتا ہے. بہتر ہے آپ خود مستقل طور پر دکان سنبھالیں. لیکن میں راضی نہ تھا اور بابا جان چکے تھے کہ میں راضی نہیں.
بھرحال ایک مدت کے بعد اللہ (ج) کی جانب سے ایک ایسا اتفاق ہوا کہ میری زندگی بدل گئی.

ایک کسان تھا جس کی قرآن کی قرآئت بہت اچھی تھی. اس نے قرآن میں میری دلچسپی کو بھانپ لیا اور
اس نے مجھے *نجف* کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تم تحصیل علم کیلئے کیوں نہیں جاتے ابھی وقت ہے.
اس کی بات میرے دل میں بیٹھ گئی اور میرے اندر قہرام بپا کردیا.

آدھی رات کو اٹھا، وضو کیا اور سارے گھر والے سو رہے تھے، میں نہیں چاہتا تھا انہیں پتہ چلے.
ہمارے گھر میں ایک *دیوان حافظ (رح)* تھا میں نے کہا : *جناب حافظ! مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ آپ کے دیوان سے فال دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں، میں آپ کیلئے ایک فاتحہ پڑھتا ہوں آپ بھی بتائیں کہ میں کیا کروں؟ کیا میں درس کو جاری رکھوں یا نہیں؟*
فاتحہ ختم کر کے دیوان کو کھولا، سارے اشعار تو مکمل طور سمجھ نہ سکا کیونکہ بچہ تھا لیکن میرے فال میں وہ غزل آئی جس میں لفظ
*مدرسہ* تھا. میں اشاتہ سمجھ گیا، اس لفظ نے مجھے بے تاب کردیا اور میں صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا کہ کب صبح ہو اور میں مدرسے جا کر پڑھائی شروع کروں. (۱)


استاد شوشتری کا علامہ حسن زاده آملی سے دیوان حافظ (رح) کے بارے میں سوال اور ان کا جواب:

علامہ نے فرمایہ: ایک کورس ملا صدرا کی اسفار کا، ایک کورس ابن سینا کی اشارات، اور کورس قرآن کی تفاسیر کا مکمل کریں تب آپ کو دیوان حافظ (رح) کی سمجھ آئے گی. (۲)


حوالہ:
(۱)
http://pirastefar.blogfa.com/post-1164.aspx

(۲) کتاب قبول اھل دل

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۱۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 🔟)


ھانی (ع) ابن زیاد کی دربار میں...

سید ابن طاؤس علیہ رحمہ لکھتے ہیں *ھانی* جوں ہی دربار ابن زیاد میں پہنچے تو انہیں دیکھتے ہی ابن زیاد نے (اپنے آپ سے) کہا کہ *جو تجھ سے خیانت کرتا ہے وہ خود چل کر تمہارے سامنے آگیا*. پھر پاس بیٹھے قاضی کو مخاطب ہوکر ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ ھانی زندہ رہے مگر وہ ہے کہ اپنے گھر میں میرے خلاف سازشیں تشکیل دیتا ہے!
*ھانی* نے فرمایا: اے امیر! ان باتوں سے کیا مراد ہے؟
بولا: چپ رہو ھانی! یہ کیا کام ہیں جو تمہارے گھر میں مسلمانوں اور امیر المومنین (یزید) کے خلاف ہو رہے ہیں؟ مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں بلاتے ہو اور اس کیلئے جنگجو افراد اور اسلحے کا انتظام کرتے ہو اور ان لوگوں کو اپنے گھر کے اطراف میں ٹھہراتے ہو، تم سمجھتے ہو یہ باتیں مجھ سے ڈھکی چھپی رہیں گی.؟
ھانی نے انکار کیا، ابن زیاد نے کہا تم نے ایسا کیا ہے ھانی نے پھر انکار کیا.
ابن زیاد نے حکم دیا *مقعل* غلام کو بلایا جائے. مقعل جب آیا تو *ھانی* سمجھ گئے کہ یہ ابن زیاد کا جاسوس تھا. تب ھانی نے فرمایا: اے امیر! خدا کی قسم میں نے مسلم کو خود نہیں بلایا تھا، اس نے میرے گھر میں پناہ لی تو میں نے مہمان نوازی کے ناطے اسے پناہ دی، اب کہ جب مجھے اس کی اصلیت پتہ چل گئی تو مجھے جانے دیا جائے تاکہ میں اسے اپنے گھر سے نکال دوں.
ابن زیاد نے کہا خدا کی قسم تمہیں جانے نہیں دونگا قبل اس کے کہ مسلم کو میرے سامنے پیش کرو.
ھانی نے فرمایا: خدا کی قسم میں اسے تمہارے سامنے نہیں لاؤں گا، کیا میں اپنے مہمان کو تمہارے حوالے کردوں تا کہ تم اسے مار ڈالو.
ابن زیاد نے کہا اسے پیش کرنا ہوگا.
ھانی نے کہا ھر گز نہیں.
اتنے میں مسلم بن عمرو نے ابن زیاد سے اجازت مانگی کہ میں سمجھاتا ہوں ھانی کو.
وہ ھانی کو کونے میں لے گیا بولا مسلم ابن عقیل ابن زیاد کا چچا زاد بھائی ہے، وہ مسلم کو قتل نہیں کرے گا تم خود کو اور اپنے قبیلے کو خطرے میں مت ڈالو مسلم کو پیش کردو.
ھانی نے کہا کہ میرے لیئے رسوائی کی بات ہے کہ اتنے معزز مہمان کو تن و تنہا چھوڑ دوں، جب کہ میرے بازوؤں میں طاقت ہو اور میرے قبیلے کے مرد بہت زیادہ ہوں.خدا کی قسم اگر میں تنہا بھی ہوں تو بھی ایسا نہ کرونگا.
مسلم بن عمرو نے ھانی کو قسمیں دیں لیکن وہ نہ مانے.
ابن زیاد نے کہا اسے میرے پاس لاؤ. ھانی ابن زیاد کے پاس آئے.....

(جاری ہے)

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:65& 67

۲. ارشاد شیخ مفید ص:392 و 394 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 134 و 135

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 9⃣)


جب ابن زیاد کو مسلم بن عقیل (ع) کے ٹھکانے کا پتہ چلا

سید ابن طاؤس فرماتے ہیں جب ابن زیاد کو مسلم بن عقیل (ع) کے ٹکھانے کا پتہ چلا کہ انہوں نے *ھانی بن عروہ* کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے تو محمد بن اشعث اور اسماء بن خارجہ اور عمرو بن حجاج کو اپنے یہاں بلا کر پوچھا کہ کیا بات ہے کہ *ھانی* مجھے سے ملاقات کرنے نہیں آیا. انہوں نے جواب دیا ہمیں معلوم نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ *ھانی* بیمار ہے.
شیخ مفید (رض) کے بقول *ھانی* نے جب ابن زیاد کی کوفہ آمد کا سنا تھا تب سے خود و بیمار ظاہر کرنا شروع کیا اور ابن زیاد کی ملاقات کو نہ گیا.
جب مذکورہ بالا تین اشخاص نے ابن زیاد کو *ھانی* کی بیماری کا بتایا تو ابن زیاد نے کہا: میں نے سنا ہے اب وہ شفایاب ہوگیا ہے، اور رات کو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھتا ہے. اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ بیمار ہے تو میں اس کی عیادت کو جاتا. اس کے بعد ان تینوں سے اس نے کہا: آپ لوگ *ھانی* کے پاس جاؤ، اسے کہو کہ مجھ سے ملنے آئے کیونکہ عرب کا ایسا معزز شخص مجھ سے دور رہے یہ مجھے ھرگز قبول نہیں.
یہ تینوں اشخاص ابن زیاد کے کہنے پر *ھانی* کے گھر گئے اور اس سے ابن زیاد سے نہ ملنے کا سبب پوچھا، *ھانی* نے جواب دیا کہ میں بیمار تھا. وہ بولے ابن زیاد کو پتہ چل گیا ہے کہ تم اب ٹھیک ہو گئے ہو. ہم تمہیں قسم دیتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ چل کر ابن زیاد سے ملو.
*ھانی* نے لباس بدلہ اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان افراد کے ساتھ دارالامارہ جانے لگا، جب قریب پہنچا تو اسے شک ہوا، اس نے حسان بن اسماء بن خارجہ سے کہا: اے بھتیجے! میں ابن زیاد سے خوفزدہ ہوں، تم کیا سمجھتے ہو؟ وہ بولا: چاچا جان! مجھے ذرا برابر بھی ایسا خوف نہیں اور آپ بھی ایسا مت سوچیں.
حسان کو معلوم نہ تھا کہ ابن زیاد نے *ھانی* کو کیوں بلایا ہے.
*ھانی* دربار میں پہنچے .....

*(جاری ہے)*


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:63 & 65

۲. ارشاد شیخ مفید ص:390 و 391 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 132

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

ھرجگہ بولا نہیں جاتا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ھرجگہ بولا نہیں جاتا

مراجع کرام کیوں بدعات پہ چپ ہیں

(یہ میرا ذاتی خیال ہے )

جناب موسی (ع) ھارون (ع) کو خلیفہ بنا کر گئے تھے کوہ طور پہ، جب آئے تو قوم گوسالے کی پوجا کر رہی تھی. موسی (ع) نے ھارون (ع) سے پوچھا تم نے انہیں روکا کیوں نہیں.
ھارون (ع) نے جو جواب دیا اللہ (ج) کو بہت پسند آیا اسے قرآن کی سورہ طحہ کی ۹۴ نمبر آیت بنا دیا.

ھارون (ع) جواب کا پڑھیں:

قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي

ہارونؑ نے جواب دیا "اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا"

 

یعنی اتحاد خراب نہ ہو!!! تفرقہ نہ پڑے اس لیئے ھارون (ع) شرک دیکھ کر بھی چپ رہے، ثابت ہوا نبی کی خاموشی کا ایک گہرا مقصد تھا کہ فتنہ نہ ہو تفرقہ نہ ہو ....
شاید مجتھدین کرام بھی بعض بدعات پر اس لیئے خاموش ہیں.

بھائی جب بدعت دیکھ کر مجتھد خاموش رھتا ہے تاکہ اتحاد برقرار رہے تو ہمارے کچھ دوست اس مجتھد پر لعنت کرتے ہیں.

بتائیے شرک دیکھ کر ایک نبی کے چپ رہنے پہ ھم کتنا قہرام مچاتے... اگر ھوتے ھارون (ع) کے دور میں!!!

ہم بڑے پھنے خان ہیں... نبی کو بھی چار سنا دیتے یا اس سے بھی علمی دلیل مانگتے.


مرجیعت نعمت ہے ھر ایرے غیرے کو اس پر انگلی اٹھانے نہ دیا جائے

الاحقر محمد زکی حیدری

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 8⃣)

ابن زیاد کا شاطر غلام مقعل

شیخ مفید علیہ رحمہ کے بقول ابن زیاد نے کوفہ میں مسلم بن عقیل (ع) کا ٹھکانا معلوم کرنے کیلئے اپنے ایک شاطر غلام *مقعل* کو تین ھزار درھم دیئے *مقعل* ایک دن کوفہ کی جامع مسجد میں گیا تو اس نے وہاں مسلم بن عوسجہ (ع) کو نماز ادا کرتے دیکھا. *مقعل* نے وہاں کچھ لوگوں کی زبانی سنا کہ یہ شخص امام حسین (ع) کی بعیت لے رہا ہے. *مقعل* نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جا کر مسلم بن عوسجہ (ع) کے برابر میں بیٹھ گیا. بولا اے برادر میں شام کا رہنے والا ہوں، میرا دل اھلبیت (ع) کی محبت سے سرشار ہے، اور خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے یہ جملے بول کر *مقعل* نے رونا شروع کردیا اور بولا یہ تین ھزار درھم ہیں، میں نے سنا ہے کہ یہاں کوفہ میں کچھ دن قبل ایک ایسا شخص داخل ہوا ہے جو امام حسین (ع) کے حق میں لوگوں سے بعیت لے رہا ہے. میں جب سے کوفہ آیا ہوں کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہوں جو مجھے اس بیعیت لینے والے شخص تک پہنچا دے، مگر کسی نے میری مدد نہ کی. سو میں تھک ہار کر مسجد میں بیٹھ گیا، کسی نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ اس بیعیت لینے والے شخص کا ٹھکانا جانتے ہیں، سو میں موقع پا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اب لطف کریں مجھے ان تک پہنچائیں تاکہ میں اپنے رھبر، اپنے آقا کی بیعیت کروں اور یہ رقم ان تک پہنچاؤں کیونکہ میں بھی محب اھل بیت (ع) ہوں اگر یقین نہیں آتا تو مجھے اس کے پاس لے جانے سے قبل بعیت لے لو.
*مسلم بن عوسجہ (ع)* نے جب اس کا رونا دھونا دیکھا تو سمجھا کہ یہ واقعی سچا شیعہ ہے. فرمایا اللہ (ج) کا شکر کہ تم مجھے ملے، مجھے تم سے مل کر خوشی ہوئی، امید کرتا ہوں کہ بہت جلد تمہیں اس شخص کے یہاں لے جاؤنگا جس سے ملنے کی خواھش رکھتے ہو.
*مسلم بن عوسجہ (ع)* نے کہا تم کچھ دن میرے گھر رہو تاکہ میں تمہارے آقا سے اجازت لوں پھر تمہیں وہاں لے جاؤں.
*مقعل*چند روز مسلم بن عوسجہ (ع) کے گھر رہا آخر اسے مسلم بن عقیل (ع) نے ملنے کی اجازت دے دی. وہ مسلم بن عقیل (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا، بیعیت کی، اور رقم دے دی، مسلم بن عقیل(ع) نے یہ رقم قبول کی اور اسے مالی اخراجات سنبھالنے پر مامور اپنے صحابی کے حوالے کیا. بالقصہ *مقعل* مسلم بن عقیل (ع) کے ٹھکانے پر آزادی سے آنے جانے لگا یہ پہلا شخص ہوتا جو مسلم (ع) کی محفل میں آتا اور آخری شخص ہوتا جو اٹھ کر جاتا. اس طرح اسے مسلم بن عقیل (ع) کی ھر فعالیت کا پتہ چلتا رہا اور وہ یہ سب جا کر ابن زیاد کو بتا دیا کرتا.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:63 & 65

۲. ارشاد شیخ مفید ص:388 و 389 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 128 & 129

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۷)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 7⃣)

 

ابن زیاد کوفے میں


چونکہ یزید نے خط لکھ کر ابن زیاد کو کوفہ جاکر حالات پر قابو پانے کا حکم دیا تھا سو وہ بصرہ میں اپنے بھائی عثمان بن زیاد کو اپنا جانشین بناکر کوفے کی طرف چل دیا.
بقول شیخ مفید (رض) ابن زیاد جب کوفے پہنچا تو رات پڑ چکی تھی اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور منہ پر نقاب لوگ سمجھے حسین (ع) آگئے سو سب خوشی کے مارے اس کا استقبال کرنے آئے جب انہیں حقیقت پتہ چلی تو تتر بتر ہوگئے. ابن زیاد دارالامارہ گیا اور رات وہاں گذاری. دوسرے صبح منبر پر جاکر لوگوں کو یزید کی مخالفت سے ڈرایا دھمکایا اور اس کی بیعیت کرنے والوں سے احسن طور پیش آنے کا وعدہ دیا.
وہاں جب جناب مسلم (ع) کو ابن زیاد کے آنے کا علم ہوا تو انہوں نے مختار کا گھر چھوڑ کر ھانی بن عروہ کے گھر قیام کیا. شیعوں کی کوشش تھی کہ ابن زیاد کو ان کے ٹھکانے کا پتہ نہ چلے.
شیخ مفید (رض) کے بقول ابن زیاد کا ایک غلام تھا جس کا نام معقل تھا. ابن زیاد نے اسے تین ھزار درھم دیئے اور کہا کہ مسلم (ع) کے چاہنے والوِ سے جب وہ ملا کرے تو انہیں پیسے دیا کرے اور ان کی خیر خبر لے اور ایسا رویہ رکھے کہ وہ سمجھیں کہ مقعل ہم سے ہے جب تم انکا اعتماد جیت لوگے تو وہ تم سے کچھ نہیں چھپائیں گے. اس طرح مسلم (ع) کا ٹھکانہ پتہ چل جائے گا.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:61

۲. ارشاد شیخ مفید ص:385 و 388 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 126

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا  قسط (6)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 6⃣)

کوفےکے گورنر نعمان بن بشیر نے جب دیکھا کہ شیعہ یزید کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں تو اس نے عوام سے خطاب کیا لیکن کوفے میں موجود یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط لکھا کہ مسلم (ع) کوفے میں آچکا ہے اگر کوفہ بچانا ہے تو نعمان کو مبذول کر کے اس کی جگہ کوئی دلیر آدمی بھیجو.
یزید نے بصرہ کے والی عبداللہ بن زیاد کو خط لکھا اور حسین (ع) اور مسلم (ع) کی تفصیل بتائی پھر اسے بصرہ کے ساتھ کوفے کی ولایت بھی دے دی اور تاکید کی کہ مسلم (ع) کو گرفتار کر کے اسے قتل کردو. ابن زیاد نے خط پڑھ کر کوفہ جانے کی تیاری کی

امام حسین (ع) نے بصرہ کے بزرگوں *یزید بن مسعود اور منذر بن جارود* (ابن زیاد کا سسر) کو خط لکھ کر اپنی حمایت کی دعوت دی.
یزید بن مسعود نے تین قبیلوں بنی تمیم، بنی حنظلہ اور بنی سعد کو بلایا اور تقریر کرتے ہوئے معاویہ کے مظالم کا ذکر کیا اور اس کے بعد انہیں یزید کی بدترین صفات بتائیں. اس کے بعد حسین (ع) کے فضائل سنا کر ثابت کیا کہ حسین (ع) ہی
اس منصب کے حقدار ہیں.
یزید بن مسعود نے مزید کہا تم لوگوں نے جنگ جمل میں صخر بن قیس کے کہنے پر علی (ع) کا ساتھ نہ دیا اور اس طرح ایک داغ سے اپنے دامن کو داغدار کیا. اب وقت ہے کہ حسین (ع) کا ساتھ دے کر اس داغ کو دھو ڈالو.
بنی حنظلہ اور بنی تمیم نے بڑی گرمجوشی سے یزید بن مسعود سے کہا کہ جو اس کا
حکم ہوگا وہ اس کے پابند ہوں گے. البتہ بنی سعد نے کہا کہ ہمیں مشاورت کیلئے وقت درکار ہے.
جب یزید بن مسعود نے دیکھا کہ دو قبیلے حسین (ع) کا ساتھ دینے کیلئے راضی ہیں تو انہوں نے امام (ع) کو خط لکھ کر آنے کی دعوت دی.
امام (ع) نے خط کا جواب
لکھا لیکن بقول سید ابن طاؤس کے جب یزید بن مسعود امام (ع) کی مدد کو بصرے سے نکلا ہی تھا کہ اسے امام (ع) کے شہادت کی خبر ملی. اور اس نے بہت گریہ کیا.

 


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:

۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:55 سے 61
۲. ارشاد شیخ مفید ص: 383 و 384 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی

(در کربلا چہ گذشت) ص 118 سے 122

 

💠💠💠💠💠💠💠💠

التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 5⃣)

مسلم بن عقیل (ع) کا سفر

شیخ مفید (رض) لکھتے ہیں کہ جب امام (ع) کو کوفیوں کے کثیر تعداد میں خطوط موصول ہوچکے تب آپ نے مسلم بن عقیل کو دو راھنماؤں (راستہ دکھانے والے) کے ساتھ کوفہ بھیجا. یہ دونوں راھنماء راستہ بھول گئے اور صحرا میں بھٹکنے اور شدت پیاس کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. (قریب تھا کہ مسلم (ع) کی بھی موت ہوجائے) بھرحال راہنماؤں نے مرتے وقت مسلم (ع) کو راستہ بتا دیا تھا وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں انہیں پانی نصیب ہوا. وہاں کچھ دن آرام کیا اور وہاں سے انہوں نے امام حسین (ع) کو آگاہ کیا کہ میرے ساتھ یہ ماجرہ ہوا ہے کہ میرے دونوں ساتھی مر گئے، میں اس حادثے کو کوئی نیک فال (اچھا شگن) نہیں سمجھتا. میں پریشان ہوں مجھے معاف کریں، بہتر سمجھیں تو میری جگہ کسی اور کو بھیج دیں.
امام (ع) نے جواب میں لکھا
کہ مجھے یہ بات پریشان کر رہی ہے کہ تم شاید کوفہ جانے سے ڈرتے ہو اور اس لیئے مستعفی ہونا چاہتے ہو. جو میں نے راہ بتائی ہے اس پر چلو.
مسلم (ع) نے کہا میں نہیں ڈرتا یہ کہہ کر انہوں نے پھر سفر شروع کیا.

مسلم (ع) کوفہ پہنچے تو کوفی جوق در جوق اس گھر میں آنے لگے جہاں وہ رکے ہوئے تھے. جب شیعوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تب آپ نے امام (ع) کا خط انہیں پڑھ کر سنایا. کوفی خط پڑھ کر آنسو بہانے لگے.
عابس بن شبیب شاکری، حبیب ابن مظاہر اور دوسرے بزرگ کوفیوں نے مسلم (ع) کو یقین دلایا کہ وہ سب ان کے ساتھ ہیں.
18000 لوگوں نے مسلم (ع) کے ہاتھ پر بعیت کی تب مسلم (ع) نے امام (ع) کو خط لکھا کہ آپ آجائیں.
یہ خط مسلم (ع) کی شہادت سے 27 دن قبل لکھا گیا.
شیعوں نے مسلم (ع) کے گھر اتنی آمد و رفت کی کہ ان کے مکان کے بارے میں سب کو پتہ چل گیا.
🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:53 اور 55
۲. ارشاد شیخ مفید ص:382 و 383 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص113 سے 114

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

مقتل حسین ابو مخنف مستند ہے؟

سوال: کیا اصلی مقتل ابی مخنف مفقود ہو گئی ہے ؟ اور اب جو ہمارے پاس مقتل حسین ابو مخنف سے ایک کتاب منسوب کی جاتی ہے وہ اصلی نہیں..؟

 

جواب : جی ہاں محدث نوری علیہ رحمہ لولو مرجان کے صفحہ نمبر ۱۵۰ پر لکھتے ہیں
افسوس ہے کہ اصل متقل جو بے عیب اور درست تھی وہ آج دسترس میں نہیں ہے اور موجودہ مقتل کو جسے اس مقتل سے نسبت دی جاتی ہے وہ کچھ ایسے غلط و شیعہ اصول کے منافی مطالب پر مشتمل ہے جنہیں دانا دشمن اور نادان دوستوں نے اپنے مضموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اس میں ڈال دیا ہے. اس لیئے یہ (جدید مقتل) اعتماد و اعتبار کھو بیٹھا ہے اور اس کے منفردات پر ذرا بھی اطمنان و اعتبار نہیں کیا جاسکتا(۱)

صاحب نفس المھموم مقدمے میں لکھتے ہیں
ابو مخنف لوط بن یحیی بن سعید ازدی غامدی شیخ و موجہ محدثان کوفہ میں سے تھے اور اس کی روایت مورد اطمینان ہے ......
آخر میں مقتل ابو مخنف کے بارے میں لکھتے ہیں:
طبری سے رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طبری نے جو متقل حسین کے بارے میں لکھا اس کا بہت بڑا حصہ بلکہ سارا کچھ مقتل ابو مخنف سے لیا ہے. اور ہم جب طبری کے منقولات اور اس مقتل، جو ابو مخنف سے منسوب کیا جاتا ہے، کے منقولات کو غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقتل اصل مقتل (ابو مخنف) نہیں ہے اور کسی اور مورخ قابل اعتماد کی لکھی ہوئی بھی نہیں ہے. (۲)


(۱) در کربلا چہ گذشت، (ترجمہ نفس المہموم، ص ۲۹ مقدمہ مولف

(۲) لولو مرجان، محدث نوری ص ۱۵۰

جی عاشورہ کیسا گذرا؟

جی عاشورہ کیسا گذرا؟

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

(11 Muharam 1437)

 

چلو اس سال کے عاشورہ کا خاتمہ بھی بخیر ہوا... ہم نے کیا لیا اس عاشورہ سے اس کا اندازہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی باتوں سے لگائیے....

شام غریباں کے وقت فون.... "ھیلو کمیل! ابے واٹس ایپ کھول ذرا، دیکھ چاند پہ حسین (ع) لکھا ہوا آ رہا ہے! ابے معجزہ! سارے واٹس ایپ گروپس میں بات ہو رہی ہے!"
کمیل: "ہیں! اچھا دیکھتا ہوں، لیکن واٹس ایپ کیوں چھت پہ نہ جاؤں چاند تو چھت سے دکھے گا، تجھے نظر آیا لائیو ؟"
میثم: "نہیں مجھے آسمان پہ صاف نہیں دکھا، واٹس ایپ پہ صاف دکھائی دے رہا ہے، بلکل صاف استاد!"
کمیل: "اچھا تو رک! ابھی دیکھتا ہوں."
یار میثم میرے گھر میں ایرانی ڈش ہے اس پہ تو ایسی بات نہیں بتا رہے وہ تو عزاداری میں مصروف ہیں، نہ ہی مجھے لائیو دکھائی دیا چھت سے."
میثم: "بھاڑ میں جا!"

گیارہویں محرم کی صبح فون پر.... بھئی یاسر! پکوان والے سے کہو خالی دیگیں لے جائے. اور ڈیکوریشن والے سے کہو اس کا جو سامان ہے لے جائے. اور ایک کام کر، نیاز کا بچا ہوا سامان بھی چنگچی میں ڈال کر منظور بھائی کی دکان پہ دے آ، اس سے کہنا شبر بھائی دوپہر میں آکے حساب کردیں گے. بہت تھکا ہوا ہوں ابھی!

فون.... بتول کی بچی کب سے فون کرے جا رہی ہوں جلوس کی پِکس بھیجو، مجھے "کسی کو" فارورڈ کرنی ہیں اور تم ہو کہ گھوڑے بیچ کر سو رہی ہو! ھنھ!
بتول: ھمممم!!! ہاں بھیجتی ہوں مرضیہ مرو مت ابھی اٹھی ہوں! آ آھ ھ ھ تھکن!!! پورا جسم دُکھ رہا ہے. ویسے تصویریں دیکھیں رات میں، اچھی آئی ہیں، *تم بلیک میں بہت پیاری لگ رہی ہو*.
مرضیہ: الاااا...! وائو! تو پھر جلدی بھیجو نا پلیز، الا بتول پلیز جلدی!!!

فون.... ھیلو! ھاں سجاد کہاں تھے بھئی رات مجلس میں نظر نہیں آئے.؟
سجاد: ہاں عباس بھائی بس نیاز چلانے بیٹھ گیا، بچے ہیں ان کے سر پہ جب تک کوئی بڑا کھڑا نہ ہو تو کام صحیح نہیں کرتے. اور یار حلیم کا ستیہ ناس کردیا اس بار باورچی نے، اگلی بار اس سے نہیں بنوانا. تم سناؤ، شام غریباں کی مجلس سنی؟
عباس: ہاں یار لیکن مزا نہیں کر رہے اب مولانا صاحب، بوڑھے ہوگئے لگتا ہے، اس بار ان کا عشرہ لگا نہیں. مجمعہ بھی کم تھا پچھلے سال کی نسبت؟ مولانا شمشیر کی مجلس میں بڑا رش تھا اس بار ان کا عشرہ ٹاپ پہ گیا...
اپنی بارگاہ کا مولانا اگلی بار تبدیل کریں گے.
سجاد: میں نے تو پہلے ہی ٹرسٹ کی میٹنگ میں کہا تھا یہ مولانا بلاؤ گے پبلک نہیں آئے گی، چالیس پچاس اوپر دے کر مولانا شمشیر سے ڈن کرلو، لیکن ہماری سنتا کون ہے!

فون...ھیلو ناھیدا بہن کیا حال ہیں سناؤ تمہارے ہاں عاشور کیسا گذرا؟
جی زینب بہن بس اچھا گذرا شہزادی سکینہ (س) کے تابوت پر منت مانی کہ بس جلد از جلد کنول کا رشتہ ہو جائے اب تو عمر بیتی جا رہی ہے اس کی، علی کے این. ای. ڈی یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے تابوت میں دھاگہ باندھا. مہندی سے کلاوا تبرک طور پر لیا. آپ سنائیں.
زینب: بس بہن میرے تو جوڑوں کا درد ہے، سو بارگاہ کم ہی جاتی، گھر پہ عشرہ ہوتا ہے سو وہیں بیٹھ کے سنتی اور یہ آج کل کی خطیبائیں عجیب چِلا چِلا کر مجلس پڑھتی ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا بس گلا پھاڑنے پر زور... اوپر سے تین تین بہوئیں ہیں ہماری لیکن نیاز بنانے کا سلیقہ نہیں، میں نے پچھلے سال منت مانی تھی نیاز کی، وہ اس بار ادا کی لیکن قسم پنجتن پاک کی چکھنے کا دل ہی نہ کیا، نیاز کی شکل دیکھ کر پیٹ بھر گیا. یہ ہیں بہوئیں ہماری، اب میری عمر تو رہی نہیں کہ ہر کام خود اپنے ہاتھ سے کروں، سو ناک کٹنا نصیب سمجھ کر بیٹھ گئی...

فون... ھیلو قبلہ مولانا قاسم صاحب! صاحب کیسے مزاج ہیں، اس سال کتنے عشرے پڑھے اور نیاز اچھی ملی یا پچھلے سال کی طرح...؟
قبلہ قاسم: جی قبلہ عابد صاحب دو عشروں کی نیاز (فیس) تو جو بکنگ ہوئی تھی اس کے مطابق ملی، مگر دو عشروں کے بانیان نے ہمیشہ کی طرح اس بار پھر گند کیا کہ مولانا اس بار بہت تنگی ہے بجٹ نہیں. ایک نے ۳۰ ھزار کم دیئے دوسرے نے چالیس!
میں نے کہا اگلی بار مجھ سے رابطہ مت کیجئے گا اگر نہیں دے سکتے تو ہم سے مجلس کیوں پڑھواتےہیں، کسی قم یا نجف کے طالبعلم سے پڑھوا لیا کریں. میں اتنا مجمعہ کٹھا کر کے دیتا ہوں پھر بھی آپ ہیں کہ.... فلاں امام بارگاہ والے مجھے اس سے کہیں زیادہ دے رہے تھے لیکن ہم نے سوچا پچھلے سال سے آپ کے ہاں پڑھ رہے ہیں تو اس لیئے لحاظ کیا لیکن آپ ہمارا لحاظ نہیں کرتے!
عابد: ارے بھئی یہ صرف پاکستان ہی نہیں ہمارے ھندوستان کا بھی یہی حال ہے، ہمارے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تین عشرے بوک کیئے لیکن طے شدہ رقم سے سے تقریبا ایک لاکھ کم ملا. بولے بعد میں آپ کی امانت پہنچا دیں گے *یہ لوگ بڑے بے ایمان ہیں قبلہ، نیاز کی دیگوں کی قطار لگا دیتے ہیں لیکن مولوی بیچارے کی چند لاکھ فیس بھی نہیں دے سکتے*. مجھے لندن والوں نے بلایا تھا، لیکن وہ ذرا غالی و ولایتی قسم کے تھے سو دامن داغدار ہوجاتا اس لیئے نہ گیا وگرنہ وہ لوگ نیاز (فیس) کے معاملے میں زبان کے پکے ہیں. بس آئندہ آپ بھی آئیے گا لندن ہی چلیں گے، *کراچی اور لکھنؤ کی مارکیٹ اب مدرسے کے طلاب سنبھالیں*. مقصدِ کربلا سکھائیں دنیا کو...
(یہ کہہ کر مولانا نے قہقہہ لگایا اور دوسرے والے مولانا نے بھی قہقہہ لگایا).


*_arezuyeaab.blogfa.com_*

تقلید کا انکار کرنے والے پیارے پیارے برادران سے سوال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تقلید کا انکار کرنے والے پیارے پیارے برادران سے سوال

سائل: الاحقر محمد زکی حیدری

(5th Muharam 2016)

 

❓خلیفہ دوم نے کہا تھا جانشین کی ضرورت نہیں ہمارے لیئے کتاب ہی کافی ہے. رسول (ص) ناراض ہوئے. معلوم ہوا اصل جانشین انسان ہوتا ہے کتاب نہیں.
کیا آپ اس بات سے متفق ہیں ؟ جی ضرور ہوں گے.

❓ تو کیا امام زمانہ (عج) بھی نعوذ باللہ نعوذ باللہ خلیفہ دوم کی سنت پر چلتے ہوئے یہ کہہ کر پردہ غیبت میں چلے گئے کہ میرے بعد قرآن و حدیث کی کتب ہی کافی ہیں؟؟؟؟؟


❓ کیا یہ عقیدہ خلیفہ دوم کا نہیں کہ کتاب کافی ہے جانشین کی ضرورت نہیں؟


❓ آپ کہتے ہیں معصوم (ع) کا جانشین معصوم ہوتا ہے تو اس حکم کا کیا کریں؟
امام زمانہ علیه السلام: لیکن ھر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ھماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ *وہ تم پر ھماری حجت ھیں* اور میں ان پر خدا کی حجت ھوں.

(کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۱۰،
الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۱، ح۲۴۷،
احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴

*کیا یہ لوگ معصوم ہیں جنہیں امام زمانہ (عج) اپنی حجت کہہ رہے ہیں؟*

❓کیا اس حدیث میں جس گروہ کی طرف امام (عج) اشارہ فرما رہے ہیں وہ گروہ علماء و فقہاء کا ہے یا ڈاکٹروں کا انجنیئرز کا یا ذاکروں کا یا باواؤں کا؟؟؟

❓ آپ اس وقت کس انسان کو جانشین مانتے ہیں امام زمانہ (عج) کا؟ *اگر حدیث کی کتابوں کو جانشین مانتے ہیں تو عمر اور آپ کے عقیدے میں کیا فرق ہے عمر نے بھی کتاب کافی کہا تھا انسانی جانشین کا انکار کیا تھا.*

❓ آپ تک کربلا کس نے پہنچائی علماء نے یا ملنگوں نے؟ اگر علماء نے کتابیں لکھ کر آپ تک کربلا پہنچائی تو وہ علماء تو سارے فقہاء تھے آپ ان کی لکھی کتابیں کیوں پڑھتے ہیں.

❓ آپ کہتے ہیں فتوا کا مطلب ہے اپنی طرف سے بات بنانا تو نعوذباللہ نہج البلاغہ کی اس روایت میں علی (ع) اپنے صحابی کو یہ حکم دے رہے ہیں کہ اپنی طرف سے بات بنا کر لوگوں کو بتاؤ:

نہج البلاغہ میں امیرالمومنین (ع) کے خطوط میں ملتا ہے آپ (ع) نے قشم بن عباس (رض) کو جو کہ ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کے حکمران تھے لکھا:

و اجلس لهم العصرین *فافت* (اور فتوا دو) المستفتی و علّم الجاهل و ذاکر العالم.
ترجمہ:
نماز ظہر و عصر کے وقت لوگوں کے درمیان بیٹھو اور *(فافت)* *فتوا دو*ان کو جو فتوا لینے آئیں اور جو نہیں جانتے انہیں علم دو اور جو عاقل ہیں انہیں یاد دلاؤ.
(سید رضی، نهج البلاغہ، خط نمبر 67، فیض الاسلام، نشر آفتاب تهران.)


❓کیا امام علی (ع) یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ جا کر مسجد میں لوگوں کو ہماری حدیث سناؤ... فتوا کا لفظ کیوں استعمال کیا..... ؟؟؟


❓آپ کہتے ہو ہم حدیث سے حکم لے لیں گے مجھے بتائیں ایک حدیث میں ایک چیز جائز کہی ہوئی ہو دوسرے میں ناجائز تو کس طرح معلوم کریں گے کہ کس حدیث پر عمل کریں.؟؟؟
لفظ مولی کی تقریبا ۱۱ معانی ہیں کہاں مولیٰ کی کون سی معنی استعمال ہوگی یہ آپ کہاں سے فیصلہ کریںِ گے.؟


❓ کیا امام جعفر علیہ السلام کے ۴۰۰۰ شاگرد ذاکر تھے؟ باوے تھے؟ ملنگ تھے؟
یا فقہاء تھے؟؟؟؟


❓آپ نے پوچھا ہے پہلے مجتھد کا نام کیا ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں پہلے زنجیر زن ماتمی کا نام بتا دیں؟ آگ کا ماتم کس معصوم نے کیا؟ پہلا عشرہ مجالس کس ذاکر نے پڑھا.؟

❓ آپ کہتے ہیں سید چرسی ہو اس کا بھی احترام واجب ہے تو سید علی سیستانی اور سید علی خامنہ ای و دیگر سادات مجتہدین کی اہانت کیوں کرتے ہو؟

😡😡😡😡😡😡😡😡😡😡
*اب آپ کے ایک نہایت ہی گھٹیا عقیدے کے بارے میں سوالات*
😡😡😡😡😡😡😡😡😡😡

❓ آپ کہتے ہو سید زادی کا نکاح غیر سید سے جائز نہیں. آپ کی والدہ کے بارے میں کوئی کہے کہ ان کا نکاح جو آپ کے والد کے ساتھ ہوا وہ جائز نہیں تھا تو آپ کی والدہ کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے اور خود آپ کی؟
تو آئمہ (ع) کی بیٹیاں جن کے نکاح غیر سید مومنوں سے ہوئے ان کے بارے میں ایسا کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا وہ سب اپنے شوہروں سے ناجائز تعلقات میں منسلک ہیں (نعوذباللہ)

Ye link he is me tarikh ki kaee syedzadion k nikah ghair syed se hony k suboot mustanad kutub se mojood hn:

http://arezuyeaab.blogfa.com/post/6

❓ *کیا عراق، شام، بحرین، لبنان، سعودیہ، یمن ... اور باقی دنیا میں سید نہیں رہتے وہ تو غیر سید سے نکاح جائز سمجھتے ہیں کیا ان ساری سیدانیوں کے نکاح ناجائز ہیں اور ان کی اولادیں بھی ناجائز؟ یہ ہے عقیدہ آپ کا...*

❓ *کیا یہ احترام سادات ہے کہ ذاکر منبر پر بیٹھ کر آئمہ (ع) کی بیٹیوں اور ساری دنیا کی سیدانیوں (اولاد زھرا سلام اللہ علیہا) کے نکاح* *حرام کہہ کر انہیں زانیہ کہیں... اور آپ واہ واہ کریں یہ ہے احترام سادات...*


اگر ذرا بھی عقل ہوگی تو اس جہالت کی نگری سے نکل کر علماء کی طرف آئیں گے. نہیں تو ساری زندگی سیدہ زھرا (س) کی اولاد کو گالیاں دے کر سمجھ رہے ہونگے کہ ہم نے سادات کا احترام کیا ہے.

علماء سے دوری کا یہی نتیجہ نکلتا ہے... کرنے تعریف چلتے ہیں کر اہانت بیٹھتے ہیں.

🙏🏼 برادران، عزاداران خدا را تقلید کریں، فقہاء جانشین امام زمانہ (عج) ہیں مفت میں علم دیتے ہیں. حقیقی عقائد.... مجتھدین شیعہ ہیں عزادار ہیں کوئی کافر نہیں کہ جن کی بات مان کر آپ شیعت سے خارج ہو جائیں گے.

سوچیں.... سوچیں... خدارا سوچیں برادران یہ ذاکر پیسہ لے کر ہمیں کیا دے کر جا رہے ہیں

میں اپنے غیر مقلد بھائیوں کے جواب کا منتظر ہوں.

 

التماس دعا خاکپائے عزادار: الاحقر محمد زکی حیدری

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

غیر مقلد کے سوالوں کے جوابات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*Ek Ghair muqalid bardar k sawal aur tamam Maraje kiram bilkhusoos Rahbar e Moazim Sayed Ali Khamnei (z.i) k haqeer khadim k jawabat..*

پیارے پیارے تقلیدی ۔۔ !!
کچھ سوال ھیں ۔۔۔ اگر ھوسکے تو جواب تو دو ؟

*Ji ji hukm kren...*

1 - رسول اللہ ﷺ کے دنیاوی خلفاء کو کیوں نہیں مانتے ؟؟ جبکہ امام کا نائب ایک غیر معصُوم کو مان کر " ولی الامر المسلمین بھی مانتے ھو ؟؟ یہ کیا تضاد ھے ؟ رسول کا نائب غیر معصُوم نہیں ھوسکتا تو امام کا نائب غیر معصُوم کیسے ھوسکتا ھے ؟؟ "

*Kash ap ko ilm hota Imam e Zamana atf kia apna janashin banai bigher parday me chaly gaye? Ye to Umar wali bat hue k janashin nhi chahye kitab kafi h*
kia *Imam e Zamana atf ny b ye kaha k me ja ra hu ghaibat me pichy meri kitab kafi h*.
*Nahi bhai janashin dia*.
*Ye len hadees:*

الإمَامُ الحُجَةِ عَلَیهِ الّسَلَامُ: اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیہٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْہِمْ.


امام زمانہ علیه السلام: لیکن ھر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ھماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ *وہ تم پر ھماری حجت ھیں* اور میں ان پر خدا کی حجت ھوں.

(کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۱۰،
الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۱، ح۲۴۷،
احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴)

*Imam Zamana atf ko pata nhi tha k masoom a.s ka janashin ghair masoom nhi hota ap imam e zamana atf se b zada ilm rakhty hn?*



۔
2 - جو لوگ رسول اللہ ﷺ کو " اپنے جیسا " کہتے ھیں انکو بُرا کیوں سمجھتے اور کہتے ھو ؟ جبکہ تمہارے مجتہد بھی خود کو " آئیت اللہ ، حجّت الاسلام ، ولی الامر ، اھل الذکر ، انبیاء کے وارث کہتے ھیں ؟؟ یعنی یہ کہتے ھیں کہ " ھم ان جیسے ھیں ؟ " تو پھر انکو اچھا اور انکو برا کیوں ؟؟ یہ کیا تضاد ھے ؟

*Bhai sahb ooper wali imam e Zamana atf ki hadees me lafz HUJAT saf likha h parho Imam e Zamana atf apny bad HUJAT ul Islam kis giroh ko keh rahy hn*...

 

3 - اغیّار کہتے ھیں " سب صحابی ستارے ھیں کسی کی بھی پیروی کرو فلاح پاؤ گے " تو نہیں مانتے لیکن اپنے مجتہدوں کے اختلاف کے باوجود انکے فتوؤں پر یہ سوچ کر عمل کرتے ھو کہ " کسی بھی مجتہد کی پیروی کرو گے تو فلاح پاؤ گے ؟؟ کیا فرق ھے ان میں اور تم میں ؟؟
*Imam e Zamana atf ny ulma k GIROH ko apna janasheen banaya h... ye nhi kaha k EK janashin h ooper dekhen hadees me GIROH ko hujat aur janashin qarar dia..*.

*Imam Zamana atf pe teesra aitraz (astaghfirullah)*

۔
4 - وہ کہتے ھیں " رسول اللہ ﷺ نہیں رھے اس لیئے اب ھماری ذمّہ داری ھے تبلیغ کرنا اور امت کو لیکر چلنا " تمہارے مجتہد کہتے ھیں " امام غیبت میں ھیں اس لیئے ھماری ذمّہ داری ھے امّت کو لیکر چلنا ؟؟ " فرق کیا ھے ؟؟
Astaghfirullah phir imam e zamana atf pe aitraz k kiu ulma ko apna janasheen banaya... *bhai imam e zamana atf ny apny janashin malangon baavon aur zakiron ko nhi banaya to is me ulma ka kia qusoor*

5 - جب نماز پڑھنا اور اوّل وقت مین پڑھنا اتنا ھی ضروری ھے اور ثواب بھی بہت زیادہ ھے تو دن میں پانچ اذانیں دے کر پانچ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ؟؟

*Q k jamat me zindagi k har tabqay s taluq rakhny wala fard ata h aur jub jamat ho to jamat me parhny ka sawab awal e waqt ka sawab us se ziada... ab koi job wala h koi dukan wala har ksi ko kam kaaj hn islam unhen asani deta h k mila kr parh lo. Jub Nabi s.a.w se rawayat me sabit h k sath parhi ja skti hn to ap ko kua aitraz...*

6 - اذان و اقامت میں بقول تمہارے " علیُُ ولی اللہ " پڑھنا صرف " مُستحب " ھے تو پھر اسکو اپنی اذان سے ھٹا کر باقی مسلمانوں سے کیوں نہیں مل جاتے ؟؟ آخر اتحاد بین المسلمین کیلیئے اتنا بھی نہیں کرسکتے ؟؟

*Itehad bain ul muslimin ka matlb ye kub he k apny aqeeday chor do. Hum ny itehad b rakhna h aqeedon p amal bhi krna h..*

7 - تقلید بقول تمہارے واجب ھے تو پھر مردے کو دفن کرتے وقت جس بیچارے نے زندگی بھر جس مجتہد کی توضیح المسائل پر عمل کیا اسکای یاد دھانی " تلقین میں کیوں نہیں کرواتے کہ آخر کو وہ ذمّہ دار ھے اسکے اعمال کا جو مرنے والے نے اسکے فتوؤں کے مطابق سرانجام دیئے ؟؟ "

*Q k qabr me taqlid ka sawal nhi hoga Tohid, Nubuwat, Imamat ka sawal hoga..*.
*Ab ye mat kehna k jub taqlid ka sawal nhi hoga to chor q nhi dety.*
*Me kahu ga azadari ka sawal b nhi hoga to kia chor den?*


8 - کیا تمہارا مجتہد تم کو جانتا اور پہچانتا ھے کیونکہ جب محشر میں اسکی ضرورت پڑے گی تو " اگر اس نے قسم کھا لی کہ تمہیں اس نے زندگی میں کبھی دیکھا ھی نہیں تو کیا کرو گے ؟؟ "


*kisi ne ye nhi kaha k qabr me mujtahid k pichy uthaai jaain gy, humara aqeeda h har qom imam k sath uthaai jai gi...* *quran me likha h...*
*Ap ny mujtahid ko imam samjh lia h shayad..*


9 - اپنے مجتہد سے کوئ پروانہ لکھوایا ھے کہ جس پر تحریر ھو کہ ۔۔
" میں فلاں مجتہد تصدیق کرتا ھوں کہ یہ شخص میرا مقلّد ھے اور جو یہ اعمال میرے فتوے کے مطابق کرے گا اسکا ذمّہ دار ھوں ؟؟ " نہیں لکھوایا تو کیوں ؟؟ آخر زمانہ خراب ھے بھئ ۔۔ لکھ پڑھ اچھی چیز ھوتی ھے نا ؟
*Har tozeeh me yhi to likha hota h ap jis mujtahid ki taqleed kro us ny ghalt fatwa dia to imam e zamana atf us mujtahid ka gireban pakren gy q k usay Imam e Zamana atf hi ny hum par hujat banaya*

10 - تقلید واجب ھے تو بتاؤ قبر یا حشر میں کسی معصُوم علیہ السّلام نے بتایا کہ " قبر یا حشر میں ایک سوال یہ بھی ھوگا کہ " من مُجتہدوک ؟؟ " تمہارا مجتہد کون ھے ؟؟

*Qabr me murshid ka sawal hoga bata kis baavy ka murid tha?*

*Qabr me azadari ka sawal hoga k kis party me azadari krta tha?*
*Agar nhi hoga to kia azadari chor den?*

11 - اپنے مجتہد سے کوئ ثبوت مانگا کہ وہ واقعی " نائب امام ھے بھی یا نہیں ؟ " اگر مانگا تو کیا ملا ثبوت ؟؟ اور اگر نہیں مانگا تو کیوں نہیں مانگا ؟؟

*Mujtahid se q len? apna naaib imam e zamana atf khud bana kr gaye hn ooper hadees parh len*


12 - جب تم یہ کہتے ھو کہ تقلید واجب ھے اپنے سے " اعلم " کی کیونکہ اسکا علم زیادہ ھے تو پھر تمہارے چھوٹے مجتہد اس بڑے " ولی الامر المسلمین " کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟؟ یہ کیا بات ھوئ کہ اگر آپ خود علم حاصل کرسکتے ھیں تو آپ پر تقلید واجب نہیں ؟؟ جبکہ جو زیادہ علم والا ھے وہ " ولی الامر المسلمین " سب نے مان لیا ؟؟
یہ کیسا " ولی الامر " ھے کہ جسکی اطاعت باقی مولویوں پر واجب نہیں ھے ؟؟
*bhai yehi he wali e faqeeh k *hukm* *ki pabandi har mujtahid par farz h. Lekin fiqhi fatwa me har mujtahid azad h*

13 - قرآن میں آیۃ اولی الامر کی تفسیر اغیّار نے کرتے ھوۓ کہا " جو صاحب حکومت ھو وہ اولی الامر ھوتا ھے " ۔۔ تمہارے مجتہدوں میں سے جسکے پاس حکومت ھے وہ باقی سب کا " ولی الامر المسلمین " ھوگیا ؟؟ کیا فرق ھے تم میں اور ان میں ؟؟ وہ غلط اور تم صحیح کیسے ؟؟


*Oolil amr sirf mansoos minallah hoga hum kisi ko Masoom ki jaga oolil amr nhi maanty.*
*Wali e faqeeh masoom nhi h mansoos minalah nhi h*.
*Jese masjid ka pesh imam ko b imam kehty hn lkin us imam aur 12 masoom me farq h isi tarh valiye amr e muslimin aur oolil amr me b farq h*

14 - جو تقلیدی ھیں وہ اپنے بچے کی پیدائش کے وقت اپنے مجتہد کی گواھی کیوں نہیں دیتے اسکے کان میں ؟؟ آخر کو اس نے بڑا ھوکر مقلّد تو بننا ھی ھے نا ؟؟ اور جسکی تقلید تم نے کی ھے اسے سب سے پہتر سمجھ کر ھی کی ھوگی ؟؟

*Gawahi masoom ki di jati h ghair masoom ki nhi*

چودہ پاک و پاکیزہ ، طاھر و مطاھر ، معصُوم و منصُوص من اللہ ، ھادیان برحق ، اصلی آیات اللہ و حجّۃ الاسلام محمّد و آل محمّد علیہ السّلام کے صدقے میں یہ چودہ سوال ھیں ۔۔
کوئ پیارا پیارا تقلیدی جواب دے گا ؟؟


*Teeen aitraz ap ny Imam e Zamana atf par kiye Aur namaz mila kr parhny wala aitraz ap ny Rasool s.a.w pe kia ab ja kar toba krn ulama se doori yhi sikhati h k Masoomin a.s pe ungli uthao...*


میں منتظر ھوں ۔۔ !! :)
۔
بندہؑ علی ابن ابیطالب علیہم السّلام

*Aur koi sawal hon to bhej dihye ga.*
*Wasalam*
*Al-ahqar Muhammad Zakki Haidery*

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 3⃣)

 

 

یہ بات یاد رہے کہ امام حسین (ع) کے علاوہ ایک اور اہم شخص جس نے بیعیت یزید سے انکار کر کے مکہ کی طرف رخ کیا وہ عبداللہ بن زبیر تھا. اس نے مکہ جانے کا خفیہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ ولید کے بھیجے ہوئے افراد سے بچ نکلے سو امام (ع) کو بھی ان کے ساتھیوں نے عرض کی کہ آپ بھی وہ ہی راستہ اختیار کریں مگر امام (ع) نے منع فرمایا.
امام (ع) تین شعبان کو مکہ پہنچے. اور یہ آیت تلاوت کی
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ

ترجمہ:
(مصر سے نکل کر) جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا تو اُس نے کہا "اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا" (قصص ۲۲)

بہت سے لوگ آپ سے ملنے آئے. زبیر بھی ملنے آیا. زبیر سوچ رہا تھا کہ وہ یزید کے خلاف مکہ کے لوگوں سے بیعیت لے گا مگر حسین (ع) کے مکہ آنے سے زبیر کو اپنے منصوبے پر پانی پھرتا ہوا نظر آیا. سو اس پر حسین (ع) کی مکہ آمد گراں گذری.

*کوفہ*
وہاں کوفیوں کو معاویہ کے مرنے کی خبر ملی اور یہ بھی کہ یزید نے خلافت سنبھال لی ہے اور یہ بھی کہ حسین (ع) نے اس کی بیعیت سے انکار کردیا اور مدینہ سے مکہ آگئے.

سارے کوفی سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے (سلیمان جمل،صفین،نھروان میں علی ع کے ساتھ تھے) سب نے معاویہ کے مرنے پر اللہ (ج) کا شکر کیا.

*سلیمان بن صرد نے کیا کہا؟*

سلیمان نے کوفیوں سے کہا حسین (ع) نے بیعیت سے انکار کردیا اور مکہ میں ہیں، تم خود کو علی (ع) کے شیعہ کہتے ہو اگر حسین (ع) کا ساتھ دینا ہے تو اسے خط لکھ کر حمایت کا اظہار کرو. *اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حسین (ع) کا ساتھ نہیں دے سکتے تو بتادو اور حسین (ع) کو اس کے حال پر چھوڑ دو اس کے ساتھ فریب نہ کرو.*
سب نے کہا نہیں ہم حسین (ع) کی حمایت میں اپنی جان بھی دے دیں گے.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 48 و 49
۲. ارشاد شیخ مفید ص: 377 و 378 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص: 102

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

 

کربلا میں کیا ہوا (قسط 4)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 4)

کوفے والوں کے خطوط

جب سلیمان بن صرد نے دیکھا کہ کوفے والے بڑی گرمجوشی دکھا رہے ہیں تو سلیمان نے خط لکھا. جس میں لکھا کہ ہم کوفے والے ذرا برابر بھی یزید کو اچھا نہیں سمجھتے.... اور بھی بہت سی برائیاں لکھیں یزید کی.. مزید لکھا کوفے میں یزید کا گورنر *نعمان بن بشیر* موجود ہے ہم نہ اس کے پیچھے جمعہ نماز پڑھتے ہیں، نہ عید نماز اور دیگر دینی رسومات میں بھی شرکت نہیں کرتے.
اگر آپ کوفہ آئیں تو ہم نعمان کو دارالامارہ سے نکال کر شام بھیج دیں گے.

سید ابن طاؤس (رض) فرماتے ہیں یہ خط جلدی حسین (ع) کی طرف بھیجا گیا. اس کے بعد پھر 150 خطوط لیکر کچھ اور لوگ گئے جس میں ھر خط پر دو ، تین یا چار افراد کے دستخط تھے.

*عجیب بات*

امام (ع)نے اتنے خطوط آنے کے باوجود جواب نہ دیا. حالانکہ ایک ایک خط کا مطالعہ فرمایا. حتی کہ *ایک دن 600 خطوط آئے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اور تعداد 12000 تک پہنچ گئی.*

امام (ع) نے پھر بھی جواب نہ دیا لیکن آخری خط جب پہنچا تو آپ نے پوچھا یہ خط کس نے لکھا ہے بندے نے جواب دیا فلاں فلاں نے. تب آپ نے دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ (ج) سے خیر طلب کی.
پھر خط کا جواب لکھا کہ میں نے تم کوفہ کے مسلمانوں کے خطوط پڑھے سو میں نے اپنے چچازاد بھائی اور ثقہ (سچا) مسلم بن عقیل کو آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ وہ مجھے آپ کا حال بتائے. اگر اس نے مجھے کوفہ آنے کا لکھا تو میں بہت جلد آؤنگا.
پھر مسلم بن عقیل کو بلایا کچھ نصیحتیں کیں اور تین دوسرے افراد کے ساتھ کوفہ بھیج دیا.

*(کل ان شاء اللہ مسلم بن عقیل کے دشوار اور خوفناک سفر کو پیش کرونگا)*


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:52 اور 53
۲. ارشاد شیخ مفید ص: 380 و 381 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 108 سے 109

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 


میں نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر اس سے کہا: "دیکھو بھیا یہ جو سونے کی انگوٹھی میرے ھاتھ میں رکھی ہے، یہ اصلی سونے کی بنی ہے." بولا "وہ کیسے؟" میں نے کہا "میں نے شہر کے سب سے پرانے و تجربیکار ترین سونار کہ جس کی داڑھی اس کام میں سفید ہوئی ہے، سے معلوم کیا ہے، اس نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کہ ہے."
اس نے جو کہا وہ سننے کے بعد میں حواس باختہ ہوکر خاموش ہوگیا، اس نے کہا"جاؤ میاں! وہ کیا جانے سونے کے بارے میں، میرے پڑوس کے لوہار نے کہا ہے کہ یہ سونا نہیں، سو یہ انگوٹھی نقلی ہے."

ہمارے پاکستانی و ھندوستانی عزاداروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، ہمارے کچھ محترم دوست ایک مجتہد جس کی داڑھی قول و قال کرتے کرتے سفید ہوئی، کی بات یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ ہمارے ذاکر صاحب کہتے ہیں یہ بات غلط ہے!
آج کل کئی منبر نشین، جو کسی مستند علمی درسگاہ کے سند یافتہ نہیں ہیں، عوام کو اپنی اس قسم کی باتوں سے عقائدی جھانسا دے رہے ہیں. میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ذاکر و خطیب برے ہیں، بلکل نہیں! بہت سے ذاکر جب ہم سنتے ہیں تو ان کے پڑھنے سے لگ رہا ہوتا ہے کہ بیشک بیچارے کم علم رکھتے ہیں مگر مولا (ع) کی محبت سے سرشار ہوکر ڈیوٹی دے رہے ہیں. میں ھر گز ان ذاکروں و خطیبوں کی بات نہیں کر رہا بیشک مدرسے کے پڑھے نہیں مگر ذکر اھلبیت (ع) کرتے ہیں یہ لوگ محترم ہیں، لیکن کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو منبر پر بیٹھنے لگی ہیں ایسے منبر نشینوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مراجع عظام حوزہ علمیہ قم و نجف سے تو ناراض رہتے ہی ہیں، لیکن ایک اصطلاح بھی بڑے زور و شور سے استعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ "ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے."

مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی، کیونکہ میں نے جب اپنے ملک و ھندوستان میں عزادری دیکھی تو مجھے تقریباً ھر چیز ایران سے لی ہوئی نظر آئی. جب میں نے ذاکر کو کھڑے ہوکر یا منبر پر بیٹھ کر مصائب امام حسین (ع) بیان کرتے دیکھا تو مجھے گیارھویں ھجری صدی کا ایرانی صفوی دور یاد آیا، جی ہاں! یہ ایران کے صفوی سلطان ہی تھے جنہوں نے "روضہ خوانی" یعنی مجلس کے اس طریقے کو منظم طور رائج کیا. آپ دعبل خزائی وغیرہ کی مثال بیشک دیں مگر آج کے طرز پر منظم طور مجلس پڑھنے کی جڑیں صفوی دور میں ہی پیوستہ نظر آتی ہیں. بقول شہید مطہری (رض) کے کہ روضہ خوانی اصل میں روضۃ الشھداء خوانی ہے. روضۃ الشھداء دسویں صدی میں لکھی گئی مصائب امام حسین (ع) پر مشتمل ایک کتاب کا نام ہے جسے ہاتھ میں لے کر ایک ذاکر پڑھا کرتا تھا اور عوام گریہ کرتی تھی. بعد میں یہ کتاب و طریقۂ مجلس ایران سے ھندوستان منتقل ہوا.
اسی طرح جب میں نے تعزیہ برداری دیکھی تو مجھے پھر صفویوں کا دور یاد آیا، مجھے صفوی سلطان شاہ اسماعیل و شاہ زمان کے عالیشان تعزیے یاد آئے جن کا مغربی مورخین نے بھی اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے. "تعزیہ یا شبیہ خوانی" یعنی باقائدہ تھئیٹر پر ڈرامے کی صورت میں واقعۂ کربلا کو عوام کے سامنے پیش کرنا صفوی دور کی دین ہے، جو ایرانی قاجاریوں کے دور حکومت میں زور پکڑ کر اب تک ایران میں رائج ہے، مگر جب یہ تعزیہ خوانی ھندوستان پہنچی تو تھئیٹر ڈرامہ کی صورت تبدیل ہوگئی، اس میں سے اداکار نکل گئے باقی ذوالجناح، علم، عماریاں، تابوت وغیرہ رہ گئے.
جب میں جلوس و نیاز کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسی صفوی دور میں ایران کا شہر اردبیل یاد آتا ہے، جس کی پانچ سڑکیں تھیں اور ھر سڑک سے مختلف قسم کے جلوس نکل کر ایک بڑے سے میدان میں آتے جہاں ان عزاداروں کیلئے حاکم شاہ زمان کی طرف سے خوشبودار شربتوں اور کھانے کا انتظام کیا ہوا ہوتا تھا. بقول مغربی مورخین کے شاہ خود بھی اس بڑے سے میدان میں موجود ہوتے جہاں یہ لنگر کا دسترخوان لگایا جاتا.
آگ پر ماتم کی جڑیں ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو وہ بھی مجھے ایران کے ترک نژاد و بقول بعض مورخین کے، ایرانی آتش پرستوں کے شیعہ ہونے سے متعلق افسانوں میں ہی نظر آتی ہیں. مختصراً یہ کہ ہمارے برادران نے عزاداری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تمام مادی و معنوی اشیاء ایران سے لے رکھی ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی رہتا ہے کہ ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے! ایسا کیوں ہے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں *صفوی سلطانوں* کی تخلیق کردہ رسمی عزاداری چاہیئے، اگر کوئی رسم ایران سے ملے تو ہم لے لیں گے، ذوالجناح ملے تو ایران سے لے لیں گے، تعزیہ ملے تو صحیح، قمعہ زنی، زنجیر زنی، آگ کا ماتم، مجلس....
ٹھیک ہے ہمیں قبول! ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ چیزیں بے ارزش و فضول ہیں، ھر گز نہیں! یہ شعائر حسینی ہیں ہمیں ہماری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں مگر! ہمارا عرض صرف اتنا سا ہے کہ جہاں آپ نے کل کے *صفوی ایران* سے عزاداری لی اسی طرح آج کے *خمینوی ایران* سے انقلاب بھی لیں، اس خمینوی ایران نے اس وقت دنیا کے ظالموں و طاغوتی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے، ساری دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ مکتب اہلبیت (ع) میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ مدرسے میں پڑھنے والے مولوی پورا ملک چلا رہے ہیں، نہ صرف چلا رہے ہیں بلکہ دنیا کے سارے ظالموں سے نبرد آزما بھی ہیں اور مطلوموں کی حمایت بھی کر رہے ہیں. ہم نے *صفوی ایران* سے بہت کچھ لے رکھا ہے لیکن شیخ ابراہیم زکزاکی (حفظہ اللہ) نے *خمینوی ایران* سے ایسی عزاداری لی کہ اپنے ملک میں ڈیڑھ کروڑ سنیوں و وہابیوں کو شیعہ کر دیا، لبنان والوں نے *خمینوی ایران* سے عزت و وقار و مقاومت سے جینے کا درس لیا، یمن کے زیدیوں نے *خمینوی ایران* سے تاثیر لی اور سالوں پرانی سعودی بادشاہت کے خلاف ڈٹ کر اسے چنے چبوا دیئے ، شام و عراق والوں نے جب *خمینوی ایران* کی بات پر لبیک کہا تو داعش کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مار کر ان کا صفایہ کردیا، عمان میں سالوں بعد سرکاری ٹی.وی پر علی ولی اللہ کی اذان سنائی دی، قطیف میں سعودی بکتر بند گاڑیوں کو جلتا دیکھا گیا، ساری دنیا کے سنی شیعہ *خمینوی ایران* سے عزاداری لے کر جینا سیکھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک *صفوی ایران* کی تقلید کر رہے ہیں اور کوئی کہے کہ *خمینوی ایران* سے بھی کچھ لے لو تو ہم کہتے ہیں "ہمیں ایرانی شیعیت نہیں چاہیئے.

arezuyeaab.blogfa.com

हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


*हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए!*

लेखन: मोहम्मद ज़की हैदरी

 
मैंने उसकी ओर अपना हाथ बढ़ाकर उससे कहा: "देखो भैया ये जो सोने की अंगूठी मेरे हाथ में रखी है, यह असली सोने की बनी है।" बोला "वो कैसे?" मैंने कहा, "मैंने शहर के सबसे पुराने और तजूरबेकार सूनार के जिस की दाढ़ी इस काम में सफेद हुई है, से मालूम किया है, उसने उसके असली होने की तसदिक़ की है।
उसने जो कहा वह सुनने के बाद मैं हवास बाखतह होकर चुप हो गया, उसने कहा, "जाओ मियां! वो क्या जाने सोने के बारे में, मेरे पड़ोस के लोहार ने कहा है कि यह सोना नहीं, सो यह अंगूठी नक़ली है।

हमारे पाकिस्तानी और भारती अज़ादारों का भी कुछ ऐसा ही हाल है, हमारे कुछ प्रिय दोस्त एक मुजतहिद जिसकी दाढ़ी "क़ोल" और "क़ाल" करते करते सफेद हुई उसकी बात यह कह कर रद कर देते हैं कि हमारे जाकिर साहब कहते हैं यह बात गलत है!

 आजकल कई मिम्बर नशीन, जो कीसी मुसतनद ईलमी दरसगाह के सनद याफ़ता नहीं हैं, अवाम को अपनी इस तरह की बातों से अक़ाऐदी झांसा दे रहे हैं। मैं यह नहीं कहता कि सारे जाकिर और खतीब बुरे हैं, बिल्कुल नहीं! कई जाकिर जब हम सुनते हैं तो उनके पढ़ने से लगता है कि बेचारे कम ज्ञान रखते हैं मगर मौला (अ) की मोहब्बत मे सरशार होकर ड्यूटी दे रहे हैं। में हरगिज़ इन ज़ाकरों और खतीबों की बात नहीं कर रहा, यह बेशक मदरसे के पढ़े नहीं मगर ज़ीकरे अहलेबेयत (अ) करते हैं यह लोग मौहतरम हैं, लेकिन कुछ काली भेड़ें हैं जो मिम्बर पर बैठने लगी हैं ऐसे मिम्बर नशीनों की खास बात यह है कि यह मराजे ऊज़्ज़ामे क़ुम व नजफ़ से तो नाराज रहते ही हैं, लेकिन एक शब्द भी बड़े जोर-शोर से उपयोग करते हुऐ पाये जाते हैं की "हमें ईरानी शियत नहीं चाहिए।"

मुझे यह बात बड़ी अजीब लगी, क्योंकि मैंने जब अपने मूल्क और भारत में अज़ादरी देखी तो मुझे लगभग हर बात ईरान से ली हुई दिखी। जब मैंने ज़ाकिर को खड़े होकर या मिम्बर पर बैठकर मसाईबे इमाम हुसैन (अ) बयान करते देखा तो मुझे ग्यारहवी हिजरी सदी का ईरानी सफ़वी दौर याद आया, हाँ! यह ईरान के सफ़वी सुल्तान ही थे जिन्होंने "रोज़ाख़ानी" यानी मजलिस के इस तरीके को मूनज़्जम तौर पर राईज किया। आप देबले खज़ाई आदि की मीसाल बेशक दें मगर आज की तर्ज पर मुनज़्ज़जम तौर पर मजलिस पढ़ने की जड़ें सफ़वी दौर से ही जूड़ी दिखती हैं। बकौल शहीद मुताहरी (रज़) कि रोज़ाख़ानी वास्तव में रौज़ा-तुल- शौहदा को पढ़ना है। रौज़ा-तुल- शौहदा दसवीं सदी में लिखी गई मसाईबे इमाम हुसैन (अ) पर मुशतमील एक किताब का नाम है जिसे हाथ में लेकर एक जाकिर पढ़ा करता था और लोग गिरया करते थे। बाद में यह किताब व तरीका ऐ मजलिस ईरान से भारत मुनतक़ील हुआ।
इसी तरह जब मैंने ताजिया बरदारी देखी तो मुझे फिर सफ़यों का दौर याद आया, मुझे सफ़वी सुल्तान शाह इस्माईल व शाह ज़मान के आलीशान ताज़िये याद आए जिनका पश्चिमी इतिहासकारों ने भी अपने सफरनामों में तज़केरा किया है। "ताजिया या शबीह ख़ानी" यानी बाकायदा थईटर (theatre) पर नाटकों की सुरत मे वक़ऐ कर्बला को अवाम के सामने पेश करना सफ़वी दौर की देन है, जो ईरानी क़ाचारयों के शासनकाल में जोर पकड़ कर अब तक ईरान में राईज है, लेकिन जब यह शबीहख़ानी(شبیہ خوانی) भारत पहुंची तो थईटर नाटक की सूरत बदल गई, उसमें से अदाकार निकल गए बाकी ज़ूलजनाह, अलम, अमारयाँ, ताबूत आदि रह गए।
जब जुलूस व नियाज़ को देखता हूँ तो मुझे इसी सफ़वी दौर में ईरान का शहर अरदबील याद आता है, जीसकी पांच सड़कें थीं और हर सड़क से विभिन्न प्रकार के जुलूस निकल कर एक बड़े से मैदान में आते जहां अज़ादारों के लिए हाकीम शाह ज़मान द्वारा ख़ूशबुदार शरबत और खाने की व्यवसथा होती थी। बकौल पश्चिमी इतिहासकारों के राजा खुद भी बड़े से मैदान में मौजूद होते जहां यह लंगर लगाया जाता।
आग पर मातम की जड़ें ढूंढने निकलता हूँ तो वह भी मुझे ईरान के तुर्की मूल और बकौल कुछ इतिहासकारों के, ईरानी आतीश परसतों के शिया होने से मुताल्लीक़ अफ़सानो में ही नजर आती हैं। मुख़तसर यह की हमारे भाइयों ने अज़ादारी में रीढ़ की हैसियत रखने वाली सभी माद्दी व मानवी चीज़ें ईरान से ले रखी हैं लेकिन फिर भी उनकी ज़बान पर यही रहता है कि हमें ईरानी तशय्यो नहीं चाहिए! ऐसा क्यों है?

वास्तव में बात यह है कि हमें *सफ़वी सुल्तानों* की तख़लीक़ की हुई रसमी अज़ादारी चाहिए, अगर कोई रस्म ईरान से मिले तो हम ले लेंगे, ज़ूलजनाह मिले तो ईरान से ले लेंगे, ताजिया मिले तो सही, क़माज़नी, ज़ंजीर ज़नी, आग का मातम, मजलिस ....

ठीक है हमें स्वीकार है! हम यह नहीं कहते कि ये चीजें बे अरजी़श और फूज़ूल हैं, हरगीज़ नहीं! यह शआईरे हुसैनी हैं हमें हमारी जान से भी ज़ीयादा अज़ीज़ हैं मगर! हमारा निवेदन सिर्फ इतना सा है कि जहाँ आपने कल के *सफ़वी ईरान* से अज़ादारी ली उसी तरह आज के *खुमेनवी ईरान* से क्रांति भी लें, इस खुमेनवी ईरान ने इस समय दुनिया के अन्याय और ताग़ूती सरकारों को परेशान कर रखा है, सारी दुनिया यह सोचने पर मजबूर है कि मकतब अहले बैत (अ) में ऐसी कौन सी शक्ति है कि मदरसे में पढ़ने वाले मौलवी पूरा देश चला रहे हैं, न केवल चला रहे हैं बल्कि दुनिया के सारे ज़ालीमो से भी टक्कर ले रहे हैं और मज़लूमो का समर्थन भी कर रहे हैं। हमने *सफ़वी ईरान* से बहुत कुछ ले रखा है लेकिन शेख इब्राहिम ज़कज़ाकी (हफाज़ा हुलअल्लाह) ने *खुमेनवी ईरान* से ऐसी अज़ादारी ली कि अपने देश में डेढ़ करोड़ सुन्नियों और वहाबियों को शिया कर दिया, लेबनान वालों ने *खुमेनवी ईरान* से ईज़्ज़त, वीक़ार और मुकावेमत से जीने का दरस लिया, यमन के ज़ेदीयों ने *खुमेनवी ईरान* से प्रभावशीलता ली और वर्षों पुरानी सऊदी राज्य के खिलाफ डट कर उसे चुने चबवा दिए, सीरिया और इराक वालों ने जब *खुमेनवी ईरान*की बात पर लब्बेक कहा तो दाईश को कीड़े मकोड़ों की तरह मार कर उनका सफ़ाया कर दिया, ओमान में वर्षों बाद सरकारी टी.वी पर अलीयून वलीउल्लाह की अज़ान सुनाई दी, क़तीफ में सऊदी बक्तरबंद वाहनों को जलता देखा गया। सारी दुनिया के सुन्नी शिया *खुमेनवी ईरान* से अज़ादारी लेकर जीना सीख रहे हैं लेकिन हम अभी तक *सफ़वी ईरान* की तक़लीद कर रहे हैं और कोई कहे कि *खुमेनवी ईरान* से भी कुछ ले लो तो हम कहते हैं "हमें ईरानी शीयत नहीं चाहिए।

arezuyeaab.blogfa.com

کربلا میں کیا ہوا (قسط ۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 2⃣)

 

شیخ مفید (رض) فرماتے ہیں دوسرے دن پھر ولید نے کچھ لوگ بھیجے امام (ع) کو بیعیت کی دعوت دینے کیلئے، امام (ع) نے فرمایا کل صبح تک یہ مسئلہ ایک طرف ہو جائے گا.
اس کے بعد بقول سید ابن طاؤس (رض) کے۳ شعبان اور بقول شیخ مفید (رض) کے ۲۸ رجب کو امام (ع) نے اپنے کنبے سمیت مکہ کی جانب کوچ کیا سوائے محمد بن حنفیہ (ع)!
شیخ مفید (رض) لکھتے ہیں محمد بن حنفیہ کو علم نہ تھا کہ حسین (ع) کہاں جا رہے ہیں. انہوں نے حسین (ع) کو مشورہ دیا کہ جتنی حد تک ممکن ہو خود کو اور مشہور شہروں کے لوگوں کو یزید کی بیعیت سے بچا لیں. بڑے بڑے شہروں کے لوگوں کو خطوط لکھو اور انہیں اپنی بیعیت کی دعوت دو لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم کسی شہر میں جاؤ اور ایک گروہ تمہاری حمایت کرے اور دوسرا مخالفت، اس طرح تلواریں چلیں اور تمہارا خون نہ بہایا جائے.
امام (ع) نے پوچھا کہاں جاؤں؟
حنفیہ (ع) نے فرمایا: مکہ چلے جاؤ، اگر وہاں تمہارا کوئی ساتھ نہ دے تو یمن چلے جاؤ وہاں بھی مطمئن ہو تو پہاڑوں اور ریگستانوں میں چلے جاؤ شہر بہ شہر جاؤ دیکھو لوگ اپنے لیئے کیا عاقبت انتخاب کرتے ہیں.
امام حسین (ع) نے حنفیہ (ع) کا شکریہ ادا کیا
اگلے دن امام (ع) مکہ کیلئے روانہ ہوئے اور ان کی زبان پر یہ آیت تھی:
فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِين

َترجمہ
یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہمتا نکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ "اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا
(قصص ۲۱)


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: ۴۷
۲. ارشاد شیخ مفید ص: ۳۷۷ و ۳۷۴ ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص ۹۴ سے ۹۵

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا  (قسط ۱)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط اول)

 

معاویہ بن ابو سفیان کا انتقال ہو یزید تخت پر بیٹھا. مدینے کے حاکم ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ سارے مدینے والوں سے بیعیت لو. خصوصا حسین (ع) سے! اگر حسین (ع) بیعیت نہ کرے تو اس کا سر کاٹ کر مجھے بھیج دو.😳 ولید نے امام (ع) کو اپنے یہاں بلایا امام اپنے ۳۰ رشتہ داروں کے ساتھ ولید کے یہاں آئے. ولید نے کہا بیعیت کریں. امام (ع) نے فرمایا *بیعیت کوئی بے ارزش چیز نہیں کہ میں تنہائی میں تمہیں دے کر چلا جاؤں، کل جب سب کو بلانا بیعیت کیلئے تب ہم بھی آئیں گے.*
یہاں مروان بولا: امیر! حسین کی بات پر دھیان مت دو، اس نے بیعت سے انکار کر دیا ہے، اس کی گردن اڑا دو.
یہ سن کر میرے مولا (ع) کو جلال آیا مروان سے فرمایا: ویل لک یأبن الزرقا! وائے ہو تم ہر اے بدکار عورت کے بیٹے! ( ابن اثیر نے زرقا بنت وہب کو اس دور کی گندی عورت لکھا ہے.... الکامل ابن اثیر ج ۴ ص ۷۵) تم میرے قتل کی بات کرتے ہو اور....
پھر امام (ع) نے ولید سے مخاطب ہو کر اپنے اور اپنے خاندان کے فضائل بیان کیئے اور یزید کی برائیاں بیان کیں اور بیعیت سے انکار کر دیا. اور ولید کے گھر سے باہر آگئے.
مروان نے بولا دیکھا ولید! تم نے میری بات نہ مانی...
ولید نے کہا وائے ہو تم پر کیا تم چاہتے ہو میرے دین و دنیا برباد ہو.....
صبح ہوئی مروان امام حسین (ع) کے پاس پہنچ گیا. بولا حسین! میں تمہارا بھلا چاہتا ہوں میری نصیحت مان لو.
امام (ع) نے فرمایا: بولو
بولا: میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کر لو.....
امام (ع) نے فرمایا: "انا للہ و انا الیہ راجعون" اسلام پر فاتحہ پڑھ لی جائے اگر اس کے حاکم یزید جیسے ہونے لگے!
مزید فرمایا: میں نے رسول (ص) سے سنا ہے کہ خلافت ابوسفیان کے بیٹوں پر حرام ہوگئی ہے.
امام (ع) اور مروان کی گفتگو زور پکڑ گئی آخر مروان کو غصہ آگیا اور وہ چلا گیا



حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: ۳۷ سے ۴۱
۲. فارسی ترجمہ نفس المھموم (در کربلا چہ گذشت) ص ۹۲ سے ۹۴
۳. نفس المھموم شیخ محدث عباس قمی کی ہے اور انہوں نے شیخ مفید کی کتاب "ارشاد" کے حوالے سے بھی یہ بات ذکر کی ہے صفحہ ۹۴ پر.


🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

میں تقلید کیوں کروں  (قسط چہارم)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡 💡


💠میں تقلید کیوں کروں💠

(قسط چہارم)

 

گذشتہ قسطوں میں مندرجہ ذیل باتیں دلائل سے ثابت ہوئیں (یاد کیجئے):

۱ *جانشینی لازمی ہے*
۲ *جانشین کتاب نہیں*
۳ *امام (ع) نے اپناجانشین ایک گروہ کو بنایا*.
۴ *امام زمانہ (عج) نے خود غیر معصومین کو اپنا جانشین بنایا*
۵. *وہ گروہ جس کی طرف امام زمانہ (عج) نے اشارہ کیا وہ علماء دین و فقہاء کا ہے*


اس کے بعد بتی اعتراض تھا:
💡💡بتی اعتراض 💡💡

کراچی کی ایک بہن نے جب میری یہ دلیل سنی تھی تو اعتراض کیا تھا کہ
*بھائی اب تک جو روایات آپ نے پیش کی ہیں ہمیں ان سے اختلاف نہیں ہمیں علماء سے روایت لینے میں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں مسئلہ ہے فتوا سے. یہ فتوا دینے کی اجازت مولانا کو کس نے دے دی. کیا ان جیسی "فتوا فیکٹری" آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی کیا فتوا دینے کی اجازت آئمہ (ع) نے دی ہے کسی عالم کو؟*

ٹھیک ہے بہن اللہ (ج) کا لاکھ لاکھ شکر کہ آپ نے یہ مان لیا کہ امام زمانہ (عج) کے بعد دینی مسائل کیلئے علماء ہی سے رجوع کیا جائے. یہ کہہ کر آپ نے ۸۰ فیصد مسئلہ تقلید حل کر دیا. رہ گئی یہ بات کہ کسی معصوم (ع) نے کسی کو فتوا دینے کی اجازت دی ہے یا نہیں. بلکل دی ہے! ایک نہیں بہت سے مقامات پر دی ہے. میں روایات سے ثابت کرونگا لیکن پہلے آپ کی ایک غلط فہمی دور کردوں.
سنی بھائی کہتے ہیں کہ جب کسی مسئلے کا جواب قرآن و حدیث سے سمجھ نہ آئے تو بندہ اپنا دماغ استعمال کرے اور جو اسے سمجھ میں آئے وہ کہہ دے. وہ اس عمل کو اجتہاد کہتے ہیں یعنی اپنا فتوا.
لیکن مکتب اہل بیت (ع) میں ایسے اجتہاد کو باطل کہا گیا ہے آئمہ (ع) کی اس قسم کے اجتہاد پر بہت سی روایات آئی ہیں اور ہمارے غیر مقلد برادران شرارتاً ان روایات کو شیعہ فقہاء کے اجتہاد کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں جس پر صرف ھنسا ہی جا سکتا ہے.😃
عرض کہ جب شیعہ فقیہ یا مرجع فتوا دیتا ہے تو وہ قرآن و حدیث اھلبیت (ع) سے استنباط کرتا ہے *اپنی طرف سے کچھ نہیں بول دیتا* سو فتوا کو یہ مت سمجھیں کہ مجتہد نے اپنے من کی بات کر دی .

*اب آئیے اصل بات پر...*


👇🏼👇🏾👇🏿👇👇🏻👇🏽👇🏾👇🏾
*معصوم (ع) کی طرف سے بعض اشخاص کو فتوا دینے کی اجازت دینا*
☝☝🏻☝🏼☝🏽☝🏾☝🏿☝🏻☝🏻


1⃣ *پہلی مثال سرکار مولا کائنات علی ابن ابی طالب (ع) کی زندگی سے*

نہج البلاغہ میں امیرالمومنین (ع) کے خطوط میں ملتا ہے آپ (ع) نے قشم بن عباس (رض) کو جو کہ ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کے حکمران تھے لکھا:

و اجلس لهم العصرین *فافت* (اور فتوا دو) المستفتی و علّم الجاهل و ذاکر العالم.

یعنی نماز ظہر و عصر کے وقت لوگوں کے درمیان بیٹھو اور *فافت* فتوا دو
ان کو جو فتوا لینے آئیں اور جو نہیں جانتے انہیں علم دو اور جو عاقل ہیں انہیں یاد دلاؤ. (۱)


2⃣ *دوسری مثال سرکار امام جعفر صادق (ع) کی زندگی سے*

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک اصحابی ابان ابن تغلب (رض) جو کہ فقہاء میں سے ایک تھے کو فرمایا:
اجلس فی مسجد المدینة و *افت* (فتوا دو) للناس فانّی احبّ ان یری فی شیعتی مثلک .

مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کیلئے *فتوے* دو، کیونکہ مجھے پسند ہے کہ
میرے اصحاب میں تم جیسے لوگ مجھے نظر آئیں. (۲)

3⃣ *تیسری مثال بھی سرکار امام جعفر صادق (ع) کی زندگی سے ہی*

امام صادق علیہ السلام نے معاذ بن مسلم نحوی سے فرمایا:
بلغنی انک تقعد فی الجامع *فتفتی* للنّاس قلت نعم واردت ان اسئلک عن ذلک قبل ان اخرج انّی اقعد فی المسجد فیجیئنی الرّجل فیسألنی عن الشیی ء فاذا عرفته بالخلاف لکم اخبرته بما یفعلون و یجیئنی الرّجل اعرفه بمودّتکم وحبکم فاخبره بما جاء عنکم و یجیئنی الرّجل لااعرفه ولاادری من هو فاقول جاء عن فلان کذا وجاء عن فلان کذا فادخل قولکم فیما بین ذلک فقال لی اصنع کذا فانی کذا اصنع.

میں نے سنا ہے کہ تم شہر کی جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو *فتوے* دیتے ہو. میں نے کہا: جی ہاں! میں نے بھی یہ سوچ رکھا تھا کہ اس سے قبل کہ میں آپ سے خداحافظی کروں، چاہتا تھا کہ یہ بات آپ سے پوچھوں. میں لوگوں کے دینی مسائل کے جواب دینے کیلئے مسجد میں بیٹھتا ہوں، جب مجھے پتہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا آپ کا مخالف ہے، تو اسے وہ جواب دیتا ہوں جو عام طور پر رائج طریقہ ہے، اور جب معلوم ہو کہ سوال کرنے والا آپ کا محب ہے تو اسے وہ جواب دیتا ہوں جو آپ سے مجھ تک پہنچا ہے اور جب مجھے پتہ نہ ہو کہ سوال کرنے والا آپ کا محبت ہے یا مخالف تو میں آپ کے نظریئے کو دوسروں کے نظریئے کے ساتھ ملاکر پیش کرتا ہوں. کیا میں صحیح کر رہا ہوں؟
امام علیہ السلام فرمایا:
اسی طرح عمل کیا کرو کیونکہ میں خود بھی اسی طرح کرتا ہوں. (۳)

ایسی کئی مثالیں امام رضا (ع) و دیگر آئمہ (ع) کی زندگی سے دے سکتا ہوں.


💡💡فتوا فارمولہ💡💡

*شیعہ مراجع فتوا=*
*قرآن+ اہلبیت*✔

*سنی مفتی فتوا=*
*قرآن+سنت صحابہ+مولوی کے من کی بات*❌

حوالے:
(۱) سید رضی، نهج البلاغہ، خط نمبر 67، فیض الاسلام، نشر آفتاب تهران.

(۲) شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ج 18، باب 11، حدیث نمبر 34

(۳) یہ ہی کتاب یہ ہی باب حدیث نمبر 35


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

+989199714873
arezuyeaab.blogfa.com
💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

میں تقلید کیوں کروں  (قسط سوم)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡 💡


💠میں تقلید کیوں کروں💠

(قسط سوم)

 

گذشتہ قسطوں میں مندرجہ ذیل باتیں دلائل سے ثابت ہوئیں (یاد کیجئے):

۱ *جانشینی لازمی ہے*
۲ *جانشین کتاب نہیں*
۳ *امام (ع) نے اپناجانشین ایک گروہ کو بنایا*.
۴ *امام زمانہ (عج) نے خود غیر معصومین کو اپنا جانشین بنایا*

اس کے بعد بتی سوال تھا:

💡💡بتی سوال 💡💡

*بھائی اس حدیث سے کیسے پتہ چلے کہ حدیث بیان کرنے والا یہ گروہ کن لوگوں کا ہے. اس میں تو صرف "حدیث بیان کرنے والے" لکھا ہے حدیث تو ذاکر بھی بیان کرتے ہیں کیا وہ بھی حجت ہیں؟*

عرض کہ علمی جانشین کے طور یہ واحد موقع نہیں ہے کہ کسی معصوم (ع) نے کسی کو جانشین کے طور پر مقرر کیا ہو. تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں میں صرف دو پیش کر رہا ہوں. تاکہ پتہ چلے کہ وہ گروہ کس قسم کے لوگوں کا ہے جن کی طرف امام زمانہ (عج) نے اپنی غیبت میں رجوع کرنے کا حکم دیا.

*پہلی مثال سرکار امام ھادی (ع) کی زندگی سے.*

احمدبن اسحاق؛ عن ابی الحسن(ع) قال سئلته و قلت من اعامل؟ و عمّن آخذ؟ و قول من اقبل؟ فقال (ع) العمری ثقتی فما ادّی الیک فعنّی یؤدّی و ما قال لک فعنّی یقول فاسمع واطع فانّه الثقة المأمون قال وسئلت ابا محمد عن مثل ذلک فقال العمری وابنه ثقتان فما ادّیا الیک فعنّی یؤدّیان و ما قالا لک فعنّی یقولان فاسمع لهما واطعهما فانّهما الثقتان المأمونان.

یعنی احمد بن اسحاق نے کہا: امام هادی علیہ السلام سے میں نے سوال کیا:
میں کس سے معاملہ کروں،
کس سے داد و ستد کروں؟ کس سے دینی احکامات لوں؟ دینی مسائل میں کس کی بات مانوں؟
امام (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید عمری میرا قابل اعتماد ہے وہ جو بات تجھے *بتائے* سمجھو میں نے بتائی ہے اور وہ جو *کہے* سمجھو میں نے کہا ہے. اس کی بات سنو اور اطاعت کرو کیونکہ وہ سچا اور میرے اعتماد والا ہے. (۱)


*دوسری مثال سرکار امام حسن عسکری (ع) کی زندگی سے.*

یہ ہی روای کہتا ہے میں نے ایسا ہی سوال امام حسن عسکری (ع) سے پوچھا
امام علیہ السلام نے فرمایا:
عمری اور اس کا بیٹا محمد بن عثمان، یہ دونوں میرے قابل اعتماد ہیں سو دینی معاملات میں *یہ دونوں جو بات تم تک پہنچائیں، سمجھو میری طرف پہنچائی ہے اور جو یہ کہیں سمجھو وہ بات ہم نے کہی ہے*. ان کی بات سنو اور اطاعت کرو. کیونکہ یہ دونوں سچے اور میرے قابل اعتماد ہیں. (۲)


💡💡بتی نکتہ 💡💡

بھائی یہ دو اشخاص جن کے نام لے کر امام (ع) نے اپنے شیعوں سے کہا کہ ان کی بات ماننا کیا یہ شاعر تھے؟ یا طبیب تھے؟ یا خطیب تھے؟ یا ذاکر تھے؟ نہیں بھائی یہ بہت بڑے فقیہ اور عالم دین تھے.

*ثابت ہوا کہ جس گروہ کی طرف سرکار امام زمانہ (عج) نے اشارہ فرمایا کہ میرے بعد اس گروہ کی اطاعت کرنا وہ گروہ نہ ڈاکٹروں کا ہے، نہ انجینئروں کا ہے، نہ شاعروں کا ہے، نہ قوالوں کا ہے، نہ خطیبوں کا ہے بلکہ علمائے دین و فقہاء کا ہے.*

 

💡💡بتی اعتراض 💡💡

کراچی کی ایک بہن نے جب میری یہ دلیل سنی تھی تو اعتراض کیا تھا کہ
*بھائی اب تک جو روایات آپ نے پیش کی ہیں ہمیں ان سے اختلاف نہیں ہمیں علماء سے روایت لینے میں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں مسئلہ ہے فتوا سے. یہ فتوا دینے کی اجازت مولانا کو کس نے دے دی. کیا ان جیسی "فتوا فیکٹری" آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی کیا فتوا دینے کی اجازت آئمہ (ع) نے دی ہے کسی عالم کو؟*

اس کا جواب اگلی قسط میں... (ان شاء اللہ)


روایات کے حوالے:
(۱) شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ج 18، باب 11، حدیث 4، ص 100.

(۲). یہ ہی کتاب و یہ ہی باب، حدیث 27


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

+989199714873
arezuyeaab.blogfa.com
💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

میں تقلید کیوں کروں (قسط دوم)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡 💡


💠میں تقلید کیوں کروں💠

(قسط دوم)

قسط اول میں دو باتیں دلائل سے ثابت ہوئیں (یاد کیجئے):

۱ *جانشینی لازمی ہے*
۲ *جانشین کتاب نہیں*

اس کے بعد بتی سوال تھا:


💡💡 *بتی سوال* 💡💡

*جب جانشینی لازمی ہے تو کیا امام زمانہ (عج) پردہ غیبت میں جاتے وقت کوئی جانشین نہیں دے گئے ہوں گے؟؟؟؟*
*کیا نعوذ باللہ نعوذباللہ امام آخر زمان (عج) خلیفہ دوم کی طرح یہ کہہ کر چلے گئے ہوں گے کہ کتاب ہی کافی ہے شیعوں کیلئے .....*
اچھا بنا کر گئے تو اپنا جانشین کس کو بنا کر گئے....؟

ھر شیعہ یہ کہے گا کہ ہمارے معصوم امام آخرالزمان سرکار قائم آل محمد (عج) خلیفہ دوم کی سنت پر نہیں چلے ہوں گے، یہ ممکن ہی نہیں، کہاں امام معصوم اور کہاں وہ..... سو لازمی سرکار پردہ غیبت میں جاتے وقت پیچھے اپنا جانشین چھوڑ گئے ہوں گے جن سے دینی مشکلات کے حل کیلئے رجوع کیا جائے.
یعنی یہ طے ہوگیا کہ امام زمانہ اپنا جانشین بنا گئے ہوں گے.

*ٹھیک* ؟

ہم ثابت کر چکے کہ جانشین کتاب نہیں ہوگی انسان ہوگا. کتاب کافی ہونے کا فلسفہ خلیفہ دوم کا ہے مکتب اھلبیت (ع) کا نہیں. سو امام زمانہ (عج) کا جانشین بھی ہوگا اور ہوگا بھی انسان!

*اچھا کیا امام زمانہ (عج) کے بعد کوئی معصوم ہے؟* نہیں! سب جانتے ہیں عصمت کا سلسلہ ختم ہوگیا امام زمانہ (عج) پر، یعنی ثابت ہوا کہ امام زمانہ (عج) کا جانشین معصوم نہیں ہوگا. بلکل ایسا ہی احادیث میں ملتا ہے.
لیجیئے مستند روایت:

الإمَامُ الحُجَةِ عَلَیهِ الّسَلَامُ: اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیہٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْہِمْ.


امام زمانہ علیه السلام: لیکن ھر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ھماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ *وہ تم پر ھماری حجت ھیں* اور میں ان پر خدا کی حجت ھوں.

(کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۱۰،
الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۱، ح۲۴۷،
احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴)

یعنی امام زمانہ (عج) نے یہ بتادیا کہ فلاں گروہ!
بھئی غور کیجئے گا، ایک دو کا نام نہیں لیا. "وہ" حجت ہیں، جمع ہیں. "وہ" کون؟ جو ہماری حدیثیں بیان کرتے ہیں.
لو جی امام زمانہ (عج) نے ایک گروہ کو اپنا جانشین بنا دیا.

💡💡بتی نکتہ 💡💡
وہ برادران جو کہتے ہیں *ہم صرف معصوم (ع) کی تقلید کریں گے* امام زمانہ (عج) انہیں غیر معصوم سے رجوع کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری حجت ہیں.
بھیا امام زمانہ (عج) کی مانیں یا آپ کی؟

یہ تو صرف ایک حدیث ہے صرف ایک معصوم (عج) سے، میں آگے چل کر متعدد احادیث پیش کرنے والا ہوں جن میں معصومین (ع) نے نام لے لے کر فرمایا ہے فلاں فلاں فلاں لوگ تمہارے لیئے حجت ہیں...
مزید بتیاں 💡 روشن ہوں گی ان شاء اللہ

💡💡بتی سوال 💡💡

*بھائی اس حدیث سے کیسے پتہ چلے کہ حدیث بیان کرنے والا یہ گروہ کن لوگوں کا ہے. اس میں تو صرف "حدیث بیان کرنے والے" لکھا ہے حدیث تو ذاکر بھی بیان کرتے ہیں کیا وہ بھی حجت ہیں؟*


اس کا جواب اگلی قسط میں... (ان شاء اللہ)


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

+989199714873
arezuyeaab.blogfa.com
💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

میں تقلید کیوں کروں    (قسط اول)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡 💡


💠میں تقلید کیوں کروں💠

(قسط اول)

 

ہمارے برادران اھلسنت کہتے ہیں نبی (ص) کوئی جانشین مقرر کر کے نہیں گئے تھے. ہم ان سے کہتے کہ بھیا ذرا سوچو تو سہی موسی (ع) تیس دن کے "ٹوئر" پر کوہ طور پر گئے تو پیچھے اپنا جانشین ھارون (ع) چھوڑ گئے.... آج بھی کوئی صدر وزیر اعظم کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے تو پیچھے اپنا قائم مقام، جانشین، وکیل، ڈپٹی وغیرہ مقرر کے جاتا ہے تاکہ وہ اس کے جانے کے بعد کام سنبھالے. ایک ھوٹل کے دخل (کاؤنٹر) پر بیٹھنے والا بھی ایک دو گھنٹے کیلئے جاتا ہے تو پیچھے بندہ بٹھا کر جاتا ہے. تو عقل یہ کیسے تسلیم کر لے کہ محمد (ص) اپنے وصال کے بعد دین جیسی گرانقدر چیز کو سنبھالنے کیلئے کسی کو جانشین مقرر نہ کر گئے ہوں.....
ثابت ہوا کہ جانشین کا ہونا لازمی ہے. ھر عاقل انسان جب کہیں جاتا ہے تو اپنا جانشین مقرر کر کے جاتا ہے.

*ٹھیک ہے؟*

اب یہ بھی سن لو کہ جانشین کوئی کتاب یا غیر جاندار چیز نہیں ہوگی *انسان ہی ہوگا*. ہم اسی لیئے خلیفہ دوم پر اعتراض کرتے ہیں کہ جب نبی (ص) نے جاتے وقت فرمایا کہ کاغذ قلم دو تو حضرت عمر نے کہا حسبنا کتاب اللہ

ہمارے لیئے کتاب ہی کافی ہے.

کیا رسول (ص) کو نہیں پتہ تھا کہ کتاب کافی ہے. 🤔
کتاب کافی نہیں تھی! اس لیئے آپ (ص) نے کاغذ قلم مانگا تاکہ ایسا جانشین بتا جائیں کہ رسول (ص) کے بعد سارے مسائل کے حل کیلئے اس سے رجوع کیا جائے. بھئی آپ ہی فیصلہ کیجئے *خالی کتاب کسی دور میں بھی فائدہ مند نہ رہی جب جب آسمان سے کوئی کتاب اتری تو ساتھ میں اس کا مفسر، اس کو سمجھانے والا، اس کا شارح ساتھ آیا*... ثابت ہوا کہ اللہ (ج) کا طریقہ یہی ہے کہ کتاب تنہا نہیں بھیجتا ساتھ میں بندہ ، ھادی لازمی بھیجتا ہے. اور جس حضرت نے یہ کہا کہ کتاب کافی ہے اس نے اللہ (ج) کی روشِ ھدایت پر انگلی اٹھائی اس لیئے نبی (ص) کو اس دن غصہ آیا اوت نبی (ص) نے فرمایا چلے جاؤ یہاں سے....
سو کتاب کافی ہے مت کہیئے گا کبھی ورنہ معصوم (ع) کہیں گے چلے جاؤ یہاں سے!


اس قسط میں دو باتیں ثابت ہوئیں (یاد رکھیں):

۱ *جانشینی لازمی ہے*
۲ *جانشین کتاب نہیں*

💡💡 *بتی سوال* 💡💡

کل بات ہوگی کہ *جب جانشینی لازمی ہے تو کیا امام زمانہ (عج) پردہ غیبت میں جاتے وقت کوئی جانشین نہیں دے گئے ہوں گے؟؟؟؟*
*کیا نعوذ باللہ نعوذباللہ امام آخر زمان (عج) خلیفہ دوم کی طرح یہ کہہ کر چلے گئے ہوں گے کہ کتاب ہی کافی ہے شیعوں کیلئے .....*
اچھا بنا کر گئے تو اپنا جانشین کس کو بنا کر گئے....؟


اس کا جواب اگلی قسط میں... (ان شاء اللہ)


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com 

💡💡💡💡💡💡💡

شیعہ گرے ہوئے کو لات نہیں مارتا

 بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

شیعہ گرے ہوئے کو لات نہیں مارتا

 

عبدالملک بن مروان، 21 سال ظالمانہ طریقے سے حکومت کرنے کے بعد ، سال 86 هجری میں انتقال کر گیا. اور اس کے بعد اس کا بیٹا ولید حاکم بنا. ولید نے مدینہ کے لوگوں کے دل جیتنے کی بڑی کوشش کی انہی کوششوں کی ایک کڑی یہ تھی کہ اس نے ھشام بن اسماعیل- عبدالملک کے سسر، جو ایک ظالم انسان تھا اور لوگ اس کی حکومت گرنے کی دعائیں کیا کرتے تھے، کو حکومت سے ھٹا کر اپنے چچا زاد بھائی عمر بن عبدالعزیز کو اس کی جگہ مقرر کیا، عمر بن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ ھشام بن اسماعیل کو مروان بن حکم کے گھر کے سامنے کھڑا کیا جائے اور جس جس کے ساتھ اس نے برا سلوک کیا وہ آئے اور ھشام بن اسماعیل سے بدلہ لے. یہ سن کر لوگ جوق در جوق ابن حکم کے گھر کی طرف جانے لگے اور کسی نے ھشام پر لعنت کی تو کسی نے اسے گالی دے کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کیا.
ھشام کو سب سے زیادہ ڈر امام زین العابدین (ع) اور علویوں سے تھا کہ جن کے ساتھ اس نے بہت برا سلوک کیا تھا. ھشام سوچ رہا تھا کہ اس نے امام (ع) اور ان کے بزرگوں پر جتنی لعن طعن و سب و شتم کیا اس کا انتقام قتل سے کم نہ ہوگا.
لیکن
امام (ع) نے علویوں سے فرمایا: *یہ ہمارا شیوہ نہیں ہے کہ گرے ہوئے انسان کو لاتیں مارنا شروع کردیں. اور دشمن کو کمزور پا کر اس سے انتقام لیں.*
جب ھشام بن اسماعیل نے امام (ع) کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ڈر کے مارے اس کے طوطے اڑ گئے اور اس کا رنگ زرد ہوگیا.
لیکن ھشام کی سوچ کے برعکس امام (ع) اس کے قریب گئے اور بلند آواز میں اسے سلام علیکم کہا، اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے حال پہ رحم کھایا. اور اسے فرمایا:
*"اگر میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں تو کہو میں حاضر ہوں."*
یہ سننے کے بعد مدینہ کے لوگوں نے بھی ھشام پر لعن طعن کرنا چھوڑ دیا.


حوالہ:
 شهید مطهری، داستان راستان، ج 1، ص 257

 


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

خیرُو سائیں المعروف "خیرو خر مغز"

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خیرُو سائیں المعروف "خیرو خر مغز"

تحریر: محمد زکی حیدری

 

رکن قومی اسیمبلی پیر سائیں عبدالکریم شاہ ڈھیٹانی عشقبندی گادی نشین درگاہ لُٹیاری شریف کا سندہ میں بہت بڑا نام تھا. والد ترکے میں درگاہ کی گدی اور بہت بڑی جاگیر چھوڑ گئے تھے، اس لیئے انہوں نے نہ خود تعلیم حاصل کرنے کی زحمت کی نہ بچوں کی تعلیم پر دھیان دیا. اپنے بزرگوں کے عقیدے کہ پیر مرشد کی بیٹی کا کفو کوئی انسان نہیں ہوسکتا، مرشد کی بیٹی کا کفو صرف قرآن ہے، پر عمل کرتے ہوئے تینوں بیٹیوں کے نکاح قرآن سے کروا کر انہیں ساری زندگی حویلی کی دیواروں میں قید کردیا. پیر صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے نورِچشمِ پدر پیر سید خیرمحمد عرف خیرو سائیں تھے. خیرو سائیں ذھنی لحاظ سے ذرا کند تھے بلکہ ایسا کہیئے عقل سے پیدل تھے اور توتلے بھی تھے سن بلوغت پار کر گئے لیکن توتلا پن نہ گیا، اب کسی اور کی اولاد ہوتے تو انہیں پاگل کہا جاتا لیکن آپ تو ٹھہرے پیر سائیں کے بیٹے سو کس کی مجال کہ پاگل کہنے کی گستاخی کرتا. ان کی احمقانہ حرکتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں سندھی زبان میں "پہتل" یعنی "پہنچا ہوا" کہا کرتے تھے. باپ اپنے اس نور چشم کو "خیرو سائیں" بلاتے، اس لیئے حویلی میں بھی انہیں "خیرو سائیں" یا "خیرو بابا" پکاراجاتا. اور حویلی میں خیرو سائیں کچھ بھی کرلیں انہیں کوئی اف تک نہ کہہ پاتا.

خیرو سائیں بچپن سے ہی کچھ عجیب و غریب عادات کے مالک تھے، ویسے تو اکثر امراء کی اولاد کا یہ ہی حال ہوتا ہے لیکن خیرو سائیں انوکھے پن میں اپنی مثال آپ تھے. اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ کو اسکول جانے کا شوق ہوا، کلاس میں استاد نے بتایا کہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے یہ سائنسی ترقی کی عظیم مثال ہے. یہ سن کر خیرو سائیں نے استاد سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے انسان چاند پر تو گیا سورج پر نہیں؟ استاد نے سائیں کو مؤدبانہ طریقے سے سمجھایا کہ سورج کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے، اتنا زیادہ کہ تپش زمین تک بھی آجاتی ہے، اس لیئے جانا ممکن نہیں. سائیں تو تھے ہی عقلمند سو توتلی سندھی میں بولے "گڑمی آ تہ پو ڑات جو چھو نتھا وجن" یعنی دن میں سورج کی تپش ہوتی ہے تو پھر رات کو کیوں نہیں جاتے. یہ سننا تھا کہ کلاس کے سارے لڑکے ھنسنے لگے، سائیں کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ دوبارہ اسکول کی طرف مڑ کر بھی دیکھیں، سو وہ دن ان کے مختصر تعلیمی کیریئر کا اختتامی دن تھا.

خیرو سائیں کا ماننا تھا کہ وہ دنیا کا ھر کام کر سکتے ہیں. اور اگر کسی نے کہہ دیا کہ خیرو سائیں یہ کام آپ کے بس کی بات نہیں تو خیرو سائیں اس کام کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑ جاتے. کبھی کبھار حویلی کے نوکر چاکر جو انہیں اپنی زبان میں "خیرو خر مغز" کہا کرتے تھے، خیرو سائیں کو جان بوجھ کر کسی کام کیلئے کہہ دیتے کہ خیرو سائیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں. یہ سننا ہوتا خیرو سائیں کہتے میں یہ کام کر کے رہوں گا، اور پھر حویلی کے نوکر بیٹھ کر تماشہ دیکھتے.

ابھی عید الاضحی ہی کی بات ہے کہ نوکروں کو شرارت سوجھی، بندوق لے کر خوشی میں دو چار فائر کیئے. خیرو سائیں دیکھ رہے تھے. اتنے میں ایک نے بندوق خیرو سائیں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا خیرو سائیں آپ فائر کریں گے.؟ اس سے قبل کہ خیرو سائیں جواب دیتے ایک شرارتی نوکر نے کہا "اڑے بابا چھوڑو کہاں خیرو سائیں اور کہاں بندوق، یہ سائیں کے بس کا کام نہیں ہے بابا!" یہ سن کر خیرو سائیں غصے سے لال ہوگئے. آنکھوں میں خون بھر آیا، کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھ کر اس گستاخ نوکر کو گھورتے رہے، پھر اس سے نظریں ھٹائیں، تیزی سے بندوق کی طرف لپکے، توتلی سندھی زبان میں نوکر سے کہا "لوڈ کڑ ما فائڑ کندم!" (لوڈ کرو میں فائر کروں گا). کلف شدہ کاٹن کی کشادہ شلوار، بھاری بھرکم جسم اور ورثے میں ملے ہوئے آٹے کی بوری نما پیٹ کو سنبھال کر خیرو سائیں نے سامنے ایک کبوتر کو بندوق سے نشانہ بنایا، فائر ہوا لیکن کبوتر قہقہے لگاتا ہوا اڑ گیا اور فائر کرتے وقت جس برے طریقے سے بندوق نے خیرو سائیں کو جھٹکا دیا تھا اسے دیکھ کر نوکر اپنی ھنسی نہ روک سکے. نشانہ چوکنے کا غم اور مضحقانہ ھنسی نے خیرو سائیں کی خاندانی غیرت کو للکارا، بندوق نوکر کو دے کر پھر سے لوڈ کرنے کا حکم دیا، بالقصہ تقریبا آدھا درجن پرندوں کا ناکام نشانہ لینے کے بعد خیرو سائیں کو یاد آیا کہ ان کے دادا مرحوم بھی آسمانی شکار میں کمزور تھے لھذا اب ورثے میں ملے نقائص کو لے کر بدنام ہوتے رہنا بھلا کہاں کی عقلمندی تھی، سو انہوں نے زمین پر دس بیس فیٹ دور بیٹھے ایک کتے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا. لیکن کتا بھی خیرو سائیں سے زیادہ خوشقسمت نکلا اور گولی سے بچ کر دم دباکر بھاگ نکلا. سائیں کے موٹے گالوں سے پسینے کے بدبودار قطرے ٹپکنے لگے، چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی، قمیض کے بٹن بھی کھول دیئے.
متعدد بار شکار کی مختلف کوششوں میں کارتوس ضایع کرنے کے بعد بلآخر بنگلے کی ایک چار پائی کے ساتھ ایک مرغا باندھا گیا اور صرف چند بالشت کے فاصلے سے خیرو سائیں کو کہا گیا کہ فائر کریں، لیکن جب سائیں گولی چلا چکے تو لوگوں نے فرش پر گولی کے نشان کے ساتھ مرغے کو صحیح و سالم کک کک کک کرتے دیکھا. اس کے بعد خیرو سائیں نے بندوق کو کی والدہ کو سندھی میں فحش گالی دی اور پھینک کر چل دیئے.

خیرو سائیں کی زندگی بھی عشق سے خالی نہ تھی. سید تھے، ان کیلئے سادات لڑکیوں کی کب کمی تھی لیکن سائیں کو ھندو بھیِل ذات کی چوڑیاں بیچنے والی ایک لڑکی پسند آگئی، "عشق کیا کھوتی سے تو پری کیا چیز ہے"، اس بھیِلن کا نام پاروتی تھا. اب سائیں خیرو کوئی چیز پسند کریں اور وہ انہیں نہ ملے یہ بھلا کیسے ممکن تھا. بھیل تو غریب ھندو تھے ان کی کیا مجال کہ سائیں کو منع کریں، لہذا بھیِلن پاروتی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا گیا اور چونکہ سائیں خیر محمد شاہ کی زوجیت میں آئیں تھیں تو یہ بھیلن پاروتی اب سیدہ مریم زوجہ پیر سید خیر محمد شاہ بن گئیں اور اس کی گود سے ایک سال بعد ایک نوجوان سید سائیں کمال شاہ پیدا ہوئے.

خیرو سائیں کی زندگی اسی طرح "عاقلانہ" و "شاہانہ" حرکتیں کرتے کرتے اس موڑ پر پہنچی جہاں ان کے والد کا انتقال ہوا اور ایک جم غفیر تعزیت کرنے پہنچا، جب مرحوم کی جانشینی کی "پگ" پہنانے کی بات آئی تو کچھ لوگ خیرو سائیں کے ذھنی توازن کی وجہ سے سوچ رہے تھے کہ شاید ان کی بجائے مرحوم کے چھوٹے بیٹے کو "پگ" پہنائی جائے لیکن جب والد کی وصیت پڑھی گئی تو اس میں تاکید کے ساتھ لکھا تھا کہ میری ساری ملکیت بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے لیکن درگاہ کی گدی نشینی اور سیاسی جانشینی صرف و صرف میرے بڑے صاحبزادے خیر محمد شاہ عرف خیرو سائیں کے حوالے ہے. لہذا میرے انتقال کے بعد میری جگہ میرے حلقے میں رکن قومی اسیمبلی کے امیدوار پیر خیرمحمد شاہ ہوں گے اور میں عوام سے امید کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے بزرگ پیروں سے مذھبی و سیاسی میدان فیض حاصل کیا اسی طرح پیر خیر محمد شاہ سے بھی فیض حاصل کر کے بزرگوں کی روایتِ فیض رسانی کو برقرار رکھیں گے.

 

arezuyeaab.blogfa.com