ابراہیم (ع) شیعہ تھے
بسم اللّه الرحمن الرحيم
ابراہیم (ع) شیعہ تھے
تحریر: محمد زکی حیدری
قدیم مصر کے شہر قاہرہ میں ابراہیم (ع) کی آمد کا سن کر سڑکوں پر بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں ہوگئے، ھورڈنگز، پمفلیٹس، دیواروں پر مجالس عشرہ اور خمسہ کے اعلانات کہ کس وقت ابراہیم (ع) کہاں خطاب فرمائیں گے، بعض لوگوں نے چاہا کہ ابراہیم (ع) ان کے یہاں آکر مجلس پڑھیں مگر ابراہیم (ع) کے سیکریٹری نے کہا کہ ابراھیم (ع) فارغ نہیں ہیں، سارے دن "بوک" ہو چکے ہیں، ایک دن میں متعدد تقاریر کرنی ہیں. ابراھیم (ع) کی پہلی تقریر ایک بڑے سے میدان میں ہے. بہت بڑا منبر سجایا گیا ہے. ابراہیم (ع) حاکم وقت فرعون کی طرف سے بھیجے گئے پولیس والوں کے اسکارٹ میں آئے، گرمجوشی سے استقبال ہوا، نعرے لگے. جب ابراھیم (ع) منبر نشین ہوچکے تو سب چپ ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب ابراھیم (ع) کچھ بولتے ہیں. اب ابراہیم (ع) نے ایک ایسی زبان میں اللہ (ج) کے بارے میں چند جملے تلاوت کیئے جو مجمعے کی زبان نہیں تھی، سو انہیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ ابراہیم (ع) کیا کہہ گئے. اس کے بعد ابراھیم (ع) نے مصریوں کی زبان میں گفتگو کرنا شروع کی. پہلے انہوں نے آدم (ع) کے فضائل پڑھے لوگوں نے بہت نعرے لگائے، واہ واہ کی؛ پھر حضرت ادریس (ع) کے فضائل بیان کیئے اور جب دیکھا مجمعہ "گرم" ہے تو چیخ چیخ کر نوح (ع) کے فضائل بیان کرنا شروع کیئے، مجمعہ واہ واہ کیئے نہ تھکتا تھا. لیکن یہ مجمعہ اس وقت فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا جب ابراہیم (ع) نے آستینیں اوپر چڑھا لیں، ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے قابیل کے نقائص بیان کرنا شروع کیئے. لوگ اٹھ اٹھ کر نعرے لگانے لگے. قابیل پر تبرا شروع ہو گیا، کسی کونے سے زور زور سے آوازیں آنے لگیں "نوح کے دشمن پر لعنت" سب نے جواب دیا "بے شمار".... ایک بیچ مجمعے سے کھڑا ہوگیا چیخ چیخ کر بولنے لگا
"نوح حق ہے یہی سچ ہے،
جو نعرہ نا مارے اس کی پیدائش میں شک ہے،
حلال زادہ ہاتھ اوپر کر کے جواب دے،
حرام زادہ اپنی ماں سے پوچھے...
پنج نعرا پنتجتنی سوا لکھ نعاااااااااارے نوح" سب نے جواب دیا "یا نوح".... پھر ابراھیم (ع) نے ھابیل کی مظلومانہ شہادت پڑھنا شروع کی، سب رونے لگے. مجلس ختم ہوئی. ابراہیم (ع) کو اپنے ذاتی محافظوں اور فرعون کے پولیس والوں نے گھیر لیا اور وہ حفاظتی دستوں کے زیر سایہ کسی دوسری جگہ "تبلیغ" کرنے چلے گئے. وہاں سے مسجد کے اسپیکر سے اذان شروع ہوئی مجمعہ ماتم شروع کرنے لگا، ۳۰۰۰ تنخواہ لینے والا مولوی مسجد کے اسپیکر سے پکارتا رہا "حی علی صلاۃ" ..... "حی علی صلاۃ".... لیکن مجمعہ ماتم میں مگن ہوگیا.
آپ شاید کہیں کہ یہ تو ابراہیم (ع) کی توہیں ہے، لیکن آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے! کیوں کہ ابراہیم (ع) نبی تھے اور علماء انبیاء کے وارث کہلواتے ہیں. آج خود وارثین ابراہیم (ع) جس طرز سے تبلیغ کرتے ہیں میں نے صرف اس ماحول کو ابراہیم (ع) کے دور سے ملا کر ایک منظرنگاری کی ہے. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری محافل وارثین ابراھیم (ع) کی توھین کرتی ہیں تو میں بھی مان جاؤنگا کہ میں نے ابراہیم (ع) کی توہیں کی ہے.
آپ کو ماننا پڑے گا کہ ہمارے حالات بہت برے ہیں. ہمیں کیا دیا وارثین ابراھیم (ع) نے!!! ہمیں سوچنا چاہیئے. اگر آج کے شیعہ سے سوال کیا جائے کہ لفظ شیعہ تاریخ سے ثابت کرو تو وہ قرآن میں لفظ شیعہ سے لیکر احادیث و روایات کے ڈھیر لگا دے گا کہ جناب دیکھئے لفظ "شیعہ" بہت سے مقامات پر ملتا ہے اور اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ اسی قرآن و روایات کے ذریعے سے خود کو شیعہ ثابت کرو تو وہ خاموش ہو جائے گا. ہمارا بچہ بچہ مناظرہ جانتا ہے، فیسبوک، واٹس ایپ پر ایک مناظرے کا موضوع چھیڑیئے، نیچے سینکڑوں مناظری اپنے علم کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں. لیکن خود کو اللہ (ج) و توحید کے یگانے عاشق ابراھیم (ع) جیسا شیعہ کہنے والوں سے توحید کی تعریف یا صفات سلبیہ و صفات ثبوتیہ کی تشریح پوچھ لو تو جواب نہیں آتا.
کیونکہ وارثین ابراہیم (ع)نے منبر سے جو جو ہمیں بتایا ہے ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں. ہمیں عزاداری دی گئی ہم نے لے لی، تبرا، مناظرہ جو چیز وارثین ابراھیم (ع) نے منبر سے دی ہم نے لے لی. *میں یہ ھرگز نہیں کہتا کہ یہ چیزیں نہ ہوں، بیشک ہوں* لیکن یہ دین کا جسم ہیں، دین کی روح توحید ہے وہ ہمیں نہیں دی گئی. اتنی تعداد میں مجالس ہوتی ہیں توحید پر کتنی بات ہوتی ہے؟ آئمہ (ع) کی تبلیغات میں توحید کا تناسب اور ہماری دینی مجالس و محافل میں توحید و اللہ (ج) کے ذکر کا تناسب دیکھئے کبھی، زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا. ہماری محافل میں اللہ (ج) کی صفات بیان نہیں ہوتیں، توکل کیا، دعا کیا، گناہ کیا، توبہ کیا، عبادت کیا، اطاعت کیا، کچھ نہیں. اس لیئے خستہ حال ہیں. توحید کے بغیر دین کا ہر رکن ادھورا ہے. کامیابی توحید میں ہے، عزت، امن، سکون و سلامتی ھر چیز توحید میں ہے.
ہم نے مانا کہ ابراہیم (ع) شیعہ تھے لیکن کیوں انہیں شیعہ کہا گیا یہ قرآن سے پوچھیئے. اور براہ کرم قرآن کی ایک آیت نہ لیا کریں اس سے آگے پیچھے والی ایات بھی پڑھا کریں، منبر نشین صرف ایک آیت بتا کر چلا جاتا ہے. ہمیں اس آیت کی قبلی و بعدی آیات کو پڑھنا چاہیئے تاکہ بات پوری سمجھ میں آئے. دیکھیئے سورہ صافات کی ۸۳ ویں آیت، وہ آیت جس میں ابراہیم (ع) کو نوح (ع) کا شیعہ کہا گیا ہے
وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ
اور نوحؑ ہی کے شیعوں میں سے ابراہیمؑ تھا
کیوں کہا ابراھیم (ع) کو شیعہ؟ یہ سوال پوچھیں مولانا سے یا خود موبائل میں قرآن کا ترجمہ دیکھیں، اس کی اگلی آیت بتاتی ہے کہ کیوں ابراہیم (ع) کو شیعہ کہا کیونکہ:
إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا.
ابراھیم قلب سلیم لے کر آیا. لیکن یہاں سوال کہ ٹھیک ہے پیارے اللہ (ج) وہ تو قلب سلیم لے آیا ہم کیا کریں. ایک آیت چھوڑ کر اگلی آیت پڑھیں
فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
آخر اللہ ربّ العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے؟"
جی ہاں قلب سلیم اسی کو ملتا ہے جو اللہ (ج) کا بندہ بن جائے، جو عمل کرے. نوح (ع) کی طرح، بلکل اس کی طرح جب ابراھیم (ع) نے عمل کیا تب جا کر اللہ (جَ) نے ابراہیم (ع) کو شیعہ کا لقب دیا. ثابت ہوا کہ شیعہ اسی کو کہتے ہیں جو ہو بہو اپنے آپ سے قبل آنے والے موحد کی طرح *عمل* کرے، اسی لیئے جب سلمان (رض)، ابوذر (رض)، عمار (رض) وغیرہ کو ہوبہو علی (ع) کے نقش قدم پر چلتے دیکھا تو رسول (ص) نے فرمایا: "اے علی (ع)! تم اور تمہارے شیعہ کامیاب ہیں." اللہ (ج) نے ابراہیم (ع) کو جس لحاظ سے نوح (ع) کا شیعہ کہا عین انہی معیارات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (ع) کے پیروکاروں کو شیعہ کہا.
سو مجھے اور آپ کو سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم پر شیعہ ہونا صدق کرتا ہے یا نہیں. کہیں ہم صرف یہ کہہ کر خوش تو نہیں ہو رہے کہ ہم جنت میں جائیں گے کیونکہ "ابراہیم بھی شیعہ تھے."
*_arezuyeaab.blogfa.com_*
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.