خطیب اور محرم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

خطیب اور محرم

ازقلم: محمدزکی حیدری 

میرے برادر بزرگ جو ایک مذھبی تنظیم سے وابستہ ہیں نے مجھے حکم دیا کہ محرم کی آمد آمد ہے سو میں مبلغین کی ذمہ داریوں کے متعلق آراء لکھ بھیجوں. میرے محسن برادر بزرگ کے حکم کی تعمیل جس طرح کی وہ پیش خدمت ہے) 

 

 

فضائل، فرمان اور ارمان

ایک اچھے سخنران کی نشانی یہ ہے کہ اس کی گفتار مندرجہ ذیل تین اجزاء کے مناسب امتزاج پر مبنی ہوتی ہے.
فضائل
فرمان
ارمان
یعنی اس کی مجلس کے تین حصے ہوتے ہیں، وہ اہل بیت (ع) کے *فضائل* سنا کر مستمع کا دل خوش کرتا ہے، پھر اہلبیت (ع) کے *فرمان* سنا کر امر بہ معروف و نھی از منکر کا فریضہ انجام دیتا ہے اور آخر میں حسب روایت *ارمان* یعنی مصائب آل محمد (ع) بیان کرتا ہے.
یہ امتزاج جتنا مناسب ہوگا اتنی سخنرانی معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوگی.

 

خطیب زندہ مچھلی کی مانند ہو:

مردہ مچھلی اور زندہ مچھلی کی پہچان ماہی گیر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اس مچھلی کی جسمانی حرکت کو دیکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مردہ مچھلی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہی چلی جاتی ہے، اور زندہ مچھلی پانی سے مقابلہ کر کے اپنا راستہ بناتی ہے. اسی طرح یہ معاشرہ کم علمی، کم عقلی، کم فہم و کم فراست کا ایک دریا ہے اس میں خطیب معاشرے کے ساتھ بہتا چلا گیا تو سمجھیئے مردہ ہے، جس طرف معاشرہ جائے گا اس کے ساتھ بہتا چلا جائے گا جب کہ عالم کی ذمہ داری ہے معاشرے کو تبدیل کرنا کہ اس کے ساتھ بہے چلے جانا.

 

معاشرے سے منقطع ہونا ھلاکت ہے:

اس ضمن میں بھی مچھلی کی مثال دونگا. اگر مچھلی خود کو دریا سے نکال کر خشکی پر لے آئے تو ہلاک ہوجائے گی، اسی طرح عالم دین جب معاشرے سے کٹ جاتا ہے تو اس کی موت ہوجاتی ہے.
ہمارے معاشرے میں علماء پر یہ ہی اعتراض ہوتا ہے کہ وہ مجلس کے بعد نظر نہیں آتے. جو مجلس پڑھنی ہو اس میں نظر آتے ہیں باقی مجالس و جلوس وغیرہ میں عوام ہی ہوتی ہے، اس حال میں اگر عالم دین خود عوام کے ساتھ رہے تو یہ عمل عالم کے سخن میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور وہ عالم دین عوام کے اذھان کے ساتھ ساتھ عوام کے قلوب میں بھی جگہ بنا لیتا ہے.

زہر کا خاتمہ کرنا:

زہر کے خاتمے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ آپ بوتل کا ڈھکن کھول کر اسے زمین پر انڈیل دیں، نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری، اس سے زہر کا نام نشان مٹ جائے گا. دوسرا طریقہ یہ کہ آپ اس میں قطرہ قطرہ میٹھا پانی ملاتے جائیں، اس سے یہ ہوگا کہ زہر شربت میں تبدیل ہو جائے گا. عاقل عالم دین معاشرے کے جاہل افراد کو دین سے دور کرکے ان کا خاتمہ نہیں کرتا بلکہ علم کا قطرہ قطرہ ان کے اذہان میں ڈالتا جاتا ہے، ایک دن ایسا آتا ہے کہ ان کی جہالت اپنا اثر کھو دیتی ہے اور علم میں تبدیل ہوجاتی ہے.

*سیاسی رھنمائی و ذھن سازی:

اچھا خطیب سیاسی حالات پر گفتگو کرتا ہے دین و سیاست کو الگ سمجھنے والے نظریئے کی بھرپو مخالفت کرتا ہے اور مراجع کرام و ولایت فقیہ سے تمسک کی اہمیت و افادیت بیان کرتا ہے

شیخ طوسی کی حاضر جوابی

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

 شیخ طوسی کی حاضر جوابی

 

ﻛﺘﺎﺏ ﻗﺼﺺ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ میں ﻧﻘﻞ ہے: جب ھلاکو خان کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس کی دربار میں بہت سے علماء جمع ہوئے. کچھ حاسد علماء نے چال چلی اور ھلاکو سے کہا: قبر میں منکر و نکیر آپ کی والدہ سے اعتقادات و اعمال کے بارے میں سوال کریں گے. چونکہ آپ کی والدہ ان پڑھ ہیں جواب نہ دے سکیں گی، لھذا بہتر ہوگا کہ بزرگ عالم دین خواجہ شیخ طوسی کو ان کے ساتھ قبر میں بھیجیں تاکہ جب سوال جواب ہوں تو شیخ آپ کی والدہ کی طرف سے جواب دے کر منکر و نکیر کو قائل کر سکیں.
شیخ طوسی بھی دربار میں موجود تھے اور انہوں نے اس سازش کو بھانپ لیا سو ھلاکو خان سے کہا: جب آپ کا انتقال ہوگا تو آپ سے زیادہ مشکل سوال ہوں گے اس لیئے مجھے آپ اپنے ساتھ لے جائیے گا. آپ کی والدہ کے ساتھ ان چھوٹے مولویوں کو بھیج دیں.
ھلاکو خان کو یہ تجویز پسند آئی اس نے مولویوں کو مار کر اپنی والدہ کے ساتھ دفن کردیا.

حوالہ:
نشریه ﻧﺼﻴﺤﺖ: ﺷﻤﺎﺭﻩ 6 13/7/1371، ﺹ 2

 

 🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

حسین (ع) کا حج فارسی زبان کے شاعر کی زبانی

حسین (ع) کا حج فارسی زبان کے شاعر شھریار کی زبانی

 

حاجيان جمعند دور هم همه
*حاجی ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہیں

 

پس کجا رفته حسين فاطمه
لیکن کہاں ہے فاطمہ (س) کا حسین (ع)

 

او به جاي موي سر ، سر مي دهد
وہ سر کے بالوں کی بجائے سر دے گا

 

قاسم و عباس و اکبر مي دهد
قاسم و عباس و اکبر دے گا

 

حجّ او داغ جوانان ديدن است
اس کا حج ہے جوانوں (کے بچھڑنے) کا غم دیکھنا

 

دور نعش اکبرش گرديدن است
اکبر کی لاش کے گرد طواف کرنا

 

مسلخ او خاک گرم کربلاست
اس کا مسلخ کربلا کی خاک ہے

 

موقف او زير سمّ اسبهاست
اس کا موقف گھوڑوں کی نعلوں تلے ہے

 

سعي حجّ او صفا با خنجر است
سعی حج اور صفا اس کا خنجر سے ہے

 

مروه اش قبر علي اصغر است
مروہ اس کا علی اصغر کی قبر ہے

 

او رود حجي که قربانش کنند
وہ چلا اس حج پہ جو اسے قربان کردیگا

 

در يم خون سنگبارانش کنند
اس کے خون آلود جسم پر پتھر بسائے گا


مترجم و ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

ابراہیم (ع) شیعہ تھے

 بسم اللّه الرحمن الرحيم

 

ابراہیم (ع) شیعہ تھے

تحریر: محمد زکی حیدری

 

 

قدیم مصر کے شہر قاہرہ میں ابراہیم (ع) کی آمد کا سن کر سڑکوں پر بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں ہوگئے، ھورڈنگز، پمفلیٹس، دیواروں پر مجالس عشرہ اور خمسہ کے اعلانات کہ کس وقت ابراہیم (ع) کہاں خطاب فرمائیں گے، بعض لوگوں نے چاہا کہ ابراہیم (ع) ان کے یہاں آکر مجلس پڑھیں مگر ابراہیم (ع) کے سیکریٹری نے کہا کہ ابراھیم (ع) فارغ نہیں ہیں، سارے دن "بوک" ہو چکے ہیں، ایک دن میں متعدد تقاریر کرنی ہیں. ابراھیم (ع) کی پہلی تقریر ایک بڑے سے میدان میں ہے. بہت بڑا منبر سجایا گیا ہے. ابراہیم (ع) حاکم وقت فرعون کی طرف سے بھیجے گئے پولیس والوں کے اسکارٹ میں آئے، گرمجوشی سے استقبال ہوا، نعرے لگے. جب ابراھیم (ع) منبر نشین ہوچکے تو سب چپ ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب ابراھیم (ع) کچھ بولتے ہیں. اب ابراہیم (ع) نے ایک ایسی زبان میں اللہ (ج) کے بارے میں چند جملے تلاوت کیئے جو مجمعے کی زبان نہیں تھی، سو انہیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ ابراہیم (ع) کیا کہہ گئے. اس کے بعد ابراھیم (ع) نے مصریوں کی زبان میں گفتگو کرنا شروع کی. پہلے انہوں نے آدم (ع) کے فضائل پڑھے لوگوں نے بہت نعرے لگائے، واہ واہ کی؛ پھر حضرت ادریس (ع) کے فضائل بیان کیئے اور جب دیکھا مجمعہ "گرم" ہے تو چیخ چیخ کر نوح (ع) کے فضائل بیان کرنا شروع کیئے، مجمعہ واہ واہ کیئے نہ تھکتا تھا. لیکن یہ مجمعہ اس وقت فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا جب ابراہیم (ع) نے آستینیں اوپر چڑھا لیں، ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے قابیل کے نقائص بیان کرنا شروع کیئے. لوگ اٹھ اٹھ کر نعرے لگانے لگے. قابیل پر تبرا شروع ہو گیا، کسی کونے سے زور زور سے آوازیں آنے لگیں "نوح کے دشمن پر لعنت" سب نے جواب دیا "بے شمار".... ایک بیچ مجمعے سے کھڑا ہوگیا چیخ چیخ کر بولنے لگا
"نوح حق ہے یہی سچ ہے،
جو نعرہ نا مارے اس کی پیدائش میں شک ہے،
حلال زادہ ہاتھ اوپر کر کے جواب دے،
حرام زادہ اپنی ماں سے پوچھے...
پنج نعرا پنتجتنی سوا لکھ نعاااااااااارے نوح" سب نے جواب دیا "یا نوح".... پھر ابراھیم (ع) نے ھابیل کی مظلومانہ شہادت پڑھنا شروع کی، سب رونے لگے. مجلس ختم ہوئی. ابراہیم (ع) کو اپنے ذاتی محافظوں اور فرعون کے پولیس والوں نے گھیر لیا اور وہ حفاظتی دستوں کے زیر سایہ کسی دوسری جگہ "تبلیغ" کرنے چلے گئے. وہاں سے مسجد کے اسپیکر سے اذان شروع ہوئی مجمعہ ماتم شروع کرنے لگا، ۳۰۰۰ تنخواہ لینے والا مولوی مسجد کے اسپیکر سے پکارتا رہا "حی علی صلاۃ" ..... "حی علی صلاۃ".... لیکن مجمعہ ماتم میں مگن ہوگیا.

آپ شاید کہیں کہ یہ تو ابراہیم (ع) کی توہیں ہے، لیکن آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے! کیوں کہ ابراہیم (ع) نبی تھے اور علماء انبیاء کے وارث کہلواتے ہیں. آج خود وارثین ابراہیم (ع) جس طرز سے تبلیغ کرتے ہیں میں نے صرف اس ماحول کو ابراہیم (ع) کے دور سے ملا کر ایک منظرنگاری کی ہے. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری محافل وارثین ابراھیم (ع) کی توھین کرتی ہیں تو میں بھی مان جاؤنگا کہ میں نے ابراہیم (ع) کی توہیں کی ہے.
آپ کو ماننا پڑے گا کہ ہمارے حالات بہت برے ہیں. ہمیں کیا دیا وارثین ابراھیم (ع) نے!!! ہمیں سوچنا چاہیئے. اگر آج کے شیعہ سے سوال کیا جائے کہ لفظ شیعہ تاریخ سے ثابت کرو تو وہ قرآن میں لفظ شیعہ سے لیکر احادیث و روایات کے ڈھیر لگا دے گا کہ جناب دیکھئے لفظ "شیعہ" بہت سے مقامات پر ملتا ہے اور اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ اسی قرآن و روایات کے ذریعے سے خود کو شیعہ ثابت کرو تو وہ خاموش ہو جائے گا. ہمارا بچہ بچہ مناظرہ جانتا ہے، فیسبوک، واٹس ایپ پر ایک مناظرے کا موضوع چھیڑیئے، نیچے سینکڑوں مناظری اپنے علم کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں. لیکن خود کو اللہ (ج) و توحید کے یگانے عاشق ابراھیم (ع) جیسا شیعہ کہنے والوں سے توحید کی تعریف یا صفات سلبیہ و صفات ثبوتیہ کی تشریح پوچھ لو تو جواب نہیں آتا.
کیونکہ وارثین ابراہیم (ع)نے منبر سے جو جو ہمیں بتایا ہے ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں. ہمیں عزاداری دی گئی ہم نے لے لی، تبرا، مناظرہ جو چیز وارثین ابراھیم (ع) نے منبر سے دی ہم نے لے لی. *میں یہ ھرگز نہیں کہتا کہ یہ چیزیں نہ ہوں، بیشک ہوں* لیکن یہ دین کا جسم ہیں، دین کی روح توحید ہے وہ ہمیں نہیں دی گئی. اتنی تعداد میں مجالس ہوتی ہیں توحید پر کتنی بات ہوتی ہے؟ آئمہ (ع) کی تبلیغات میں توحید کا تناسب اور ہماری دینی مجالس و محافل میں توحید و اللہ (ج) کے ذکر کا تناسب دیکھئے کبھی، زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا. ہماری محافل میں اللہ (ج) کی صفات بیان نہیں ہوتیں، توکل کیا، دعا کیا، گناہ کیا، توبہ کیا، عبادت کیا، اطاعت کیا، کچھ نہیں. اس لیئے خستہ حال ہیں. توحید کے بغیر دین کا ہر رکن ادھورا ہے. کامیابی توحید میں ہے، عزت، امن، سکون و سلامتی ھر چیز توحید میں ہے.

ہم نے مانا کہ ابراہیم (ع) شیعہ تھے لیکن کیوں انہیں شیعہ کہا گیا یہ قرآن سے پوچھیئے. اور براہ کرم قرآن کی ایک آیت نہ لیا کریں اس سے آگے پیچھے والی ایات بھی پڑھا کریں، منبر نشین صرف ایک آیت بتا کر چلا جاتا ہے. ہمیں اس آیت کی قبلی و بعدی آیات کو پڑھنا چاہیئے تاکہ بات پوری سمجھ میں آئے. دیکھیئے سورہ صافات کی ۸۳ ویں آیت، وہ آیت جس میں ابراہیم (ع) کو نوح (ع) کا شیعہ کہا گیا ہے
وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ

اور نوحؑ ہی کے شیعوں میں سے ابراہیمؑ تھا

کیوں کہا ابراھیم (ع) کو شیعہ؟ یہ سوال پوچھیں مولانا سے یا خود موبائل میں قرآن کا ترجمہ دیکھیں، اس کی اگلی آیت بتاتی ہے کہ کیوں ابراہیم (ع) کو شیعہ کہا کیونکہ:

إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا.

ابراھیم قلب سلیم لے کر آیا. لیکن یہاں سوال کہ ٹھیک ہے پیارے اللہ (ج) وہ تو قلب سلیم لے آیا ہم کیا کریں. ایک آیت چھوڑ کر اگلی آیت پڑھیں

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ

آخر اللہ ربّ العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے؟"

جی ہاں قلب سلیم اسی کو ملتا ہے جو اللہ (ج) کا بندہ بن جائے، جو عمل کرے. نوح (ع) کی طرح، بلکل اس کی طرح جب ابراھیم (ع) نے عمل کیا تب جا کر اللہ (جَ) نے ابراہیم (ع) کو شیعہ کا لقب دیا. ثابت ہوا کہ شیعہ اسی کو کہتے ہیں جو ہو بہو اپنے آپ سے قبل آنے والے موحد کی طرح *عمل* کرے، اسی لیئے جب سلمان (رض)، ابوذر (رض)، عمار (رض) وغیرہ کو ہوبہو علی (ع) کے نقش قدم پر چلتے دیکھا تو رسول (ص) نے فرمایا: "اے علی (ع)! تم اور تمہارے شیعہ کامیاب ہیں." اللہ (ج) نے ابراہیم (ع) کو جس لحاظ سے نوح (ع) کا شیعہ کہا عین انہی معیارات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (ع) کے پیروکاروں کو شیعہ کہا.
سو مجھے اور آپ کو سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم پر شیعہ ہونا صدق کرتا ہے یا نہیں. کہیں ہم صرف یہ کہہ کر خوش تو نہیں ہو رہے کہ ہم جنت میں جائیں گے کیونکہ "ابراہیم بھی شیعہ تھے."


*_arezuyeaab.blogfa.com_*

غریب سبزی فروش اور عالم دین

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 
غریب سبزی فروش اور عالم دین

 

ﻋﻠﺎمہ تہرﺍﻧﻰ فرماتے ہیں:
ہمارے نجف کے ایک ھمعصر دوست جو اس وقت نجف کے بزرگوں میں سے ایک ہیں، نے مجھے بتایا کہ :
میں ایک سبزی کی دکان پر گیا، میں نے ﻣﺮﺣﻮﻡ ﻣﺮﺯﺍ ﻋﻠﻰ ﺁﻗﺎ ﻗﺎﺿﻰ (ﻗﺪﺱ ﺳﺮﻩ) کو دیکھا کہ جھک کر سبزیاں چھانٹ رہے ہیں. تعجب کی بات یہ کہ وہ بجائے تازہ گوبھی چننے کے سڑی ہوئی گوبھی نکال نکال کر رکھ رہے ہیں. میں غور سے دیکھتا رہا مرحوم نے یہ گلی سڑی گوبھیاں جمع کیں سبزی فروش کو دیں اس نے وزن کر کے پیسے بتائے اور آپ نے گوبھیاں عبا کے نیچے چھپائیں اور چل دیئے.
میں ان کے پیچھے گیا اور ان سے اچھی گوبھی کی بجائے ان گلی سڑی گوبھیاں خریدنے کی وجہ پوچھی.
ﻣﺮﺣﻮﻡ ﻗﺎﺿﻰ (رض) نے جواب دیا:
یہ سبزی والا ایک غریب آدمی ہے میں گاہے بگاہے اس کی مدد کر دیتا ہوں، لیکن میں نہیں چاہتا کہ مفت میں اسے کچھ دوں، اس لیئے میں ایسا کرتا ہوں کہ اسے اہانت بھی محسوس نہ ہو اور دوسری بات کہ اسے مفت میں کھانے کی عادت بھی نہ پڑ جائے اور کام کرنے سے اکتا نہ جائے. اس لیئے اس سے وہ چیز لیتا ہوں جو وہ کسی اور کو بیچ نہیں سکتا.
ہمارے لیئے تازہ گوبھی ہو یا دو دن پرانی مسئلہ نہیں، ہم کھالیتے ہیں اور مجھے پتہ تھا یہ گوبھی اس سے کوئی نہیں خریدے گا، وہ ظہر کے وقت جب دکان بند کرے گا تب انہیں پھینک دے گا. سو میں نے سوچا اسے نقصان نہ ہو اس لیئے میں نے یہ گوبھیاں لے لیں اور اسے قیمت دے دی. (۱)

ﭘﻴﺎﻣﺒﺮ ﺍﻛﺮﻡ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ علیہ ﻭﺁﻟﻪ وسلم نے ﻓﺮمایا: 
ﻣَﻦْ ﺍَﻛْﺮَﻡَ ﻓَﻘﻴﺮﺍً ﻣُﺴﻠِﻤﺎً ﻟَﻘِﻰَ ﺍﻟﻠﱠﱠﻪَ ﻳﻮْﻡَ ﺍﻟْﻘِﻴﺎﻣَﺔِ ﻭِ ﻫُﻮَ ﻋَﻨْﻪُ ﺭﺍﺽٍ. 

جو بھی مسلمان غریب کی تکریم کرے اللہ (ج) روز قیامت اس سے راضی ہوکر ملاقات کرے گا (۲)

۱) ﻣﻬﺮﺗﺎﺑﺎﻥ، ﺹ 20
۲) ﺑﺤﺎﺭﺍﻟﺎﻧﻮﺍﺭ، ﺝ 72، ﺹ 38

 
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
مترجم : الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺

مہمان کو گھر سے کیوں نکالا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم


مہمان کو گھر سے کیوں نکالا


شہید دستغیب لکھتے ہیں: حضرت ابراہیم (ع) خلیل اللہ کبھی مہمان کے بغیر، تنہا کھانا نہیں کھایا کرتے تھے. اکثر اوقات یہ ہوتا کہ راستے میں کھڑے ہو جایا کرتے، کسی مہمان کو بلا کر گھر لے آتے کہ ساتھ کھانا کھا سکیں. ایک دن انہیں ایک کافر مسافر ملا، آپ نے کھانے کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی اور مہمان سے بھی کہا کہ وہ بھی اللہ (ج) کا نام لے کر کھانا شروع کرے. کافر نے کہا میں اللہ (ج) کو نہیں مانتا. ابراھیم (ع) نے کہا ایسی بات ہے تو اٹھو اور چلے جاؤ!
مہمان اٹھا اور چلا گیا.

اللہ (ج) نے ابراھیم (ع) کو وحی کے ذریعے فرمایا: *اے ابراہیم! مہمان کو کیوں بھیج دیا؟ ۷۰ سال سے میں اسے روزی دے رہا ہوں ایک دن اس کی روزی میں نے تہمارے اختیار میں دی تو تم نے اسے منع کردیا.*

ابراھیم (ع) اس کافر کے پیچھے گئے اور اسے جا کر التماس کی کہ واپس آئے. کافر نے کہا جب تک یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہیں کس نے میری طرف بھیجا، میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤنگا.
ابراھیم (ع) نے اسے پورا قصہ سنا دیا، یہ سن کافر نے کہا: وائے ہو مجھ پر! ایسے کریم اللہ (ج) سے روگرداں رہا، یہ کہہ کر اس نے ابراھیم (ع) کے ہاتھ پر بیعیت کی اور مسلمان ہوگیا.

حوالہ: روضہ ھای شہید دستغیب ص ۱۴۸

 

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

صدقہ اور پپو پکوڑے والا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم


صدقہ اور پپو پکوڑے والا

میرے پڑوس میں پپو پکوڑے والا رہتا ہے کہتا ہے یہ مولوی لوگ تو بس باتیں بناتے ہیں کہ *صدقہ* دے دو بلا ٹلے گی، برکت ہوگئی، *پیسہ گھوم کر واپس تمہاری ہی جیب میں آئے گا*... بھئی ہم دیکھ رہے ہیں فقیر کو دس روپئے دیئے تو ہماری جیب سے پیسے کم ہی ہوئے مشکل بڑھی کم تو نہیں ہوئی. مولوی الٹی بات کرتے ہیں.
😏

میں نے کہا پپو بھائی سانس تو لے لو! میں آپ کو مثال دے کر سمجھاتا ہوں کہ کیسے صدقہ بلائیں دور کرتا ہے اور کیسے وہی صدقہ واپس جیب میں آتا ہے.
بولے اچھا!

میں نے کہا دیکھیں! میرے بھانجے کی سالگرہ تھی میں نے آپ کو جمعے کی صبح ایک ھزار روپیہ دیا اڈوانس، کہ پپو بھائی یہ رکھ لو میں شام کو کنفرم کرونگا کہ اگر سالگرہ ہوئی تو آپ اس ھزار کے پکوڑے و سموسے بنا دیجئے گا. ٹھیک؟
اب آپ جمعے دن مسجد سے نکلے تو باہر آپ کے بیٹے ببلو کو ٹیوشن پڑھانے والے *ماسٹر بشیر* ملے، ان کی فیس نہیں دی تھی آپ نے، سو آپ نے وہ میرا دیا ہوا ھزار روپیہ ماسٹر بشیر کو دے دیا.
ٹھیک؟
ماسٹر بشیر نے جاکر *جمن دودھ والے* کو یہ ھزار روپیہ دیا کیونکہ اس نے ایک ماہ سے دودہ کے پیسے نہیں دیئے تھے. اور جمن دودہ والے نے بیوی کے علاج کیلئے پچھلے ماہ آپ سے ایک ھزار ادھار لیا تھا سو اسے جب یہ ھزار روپیہ ملا تو اس نے آپ کو آکر یہ ھزار دے دیا کہ یہ لیں پپو بھائی. اور جب یہ ھزار آپ کی جیب میں آیا تب تک شام ہو چکی تھی میں نے آپ کو فون کیا کہ پپو بھائی سالگرہ کا پروگرام ملتوی ہوگیا مجھے یہ ھزار واپس چاہیئے.
یہ ھزار جمعے کی صبح میری جیب سے نکلا اس نے آپ کا قرض اتارا، ماسٹر بشیر کا قرض اتارا، جمن دودہ والے کا قرض اترا اور واپس میری ہی جیب میں آگیا.
*یہ ایک ھزار ختم بھی نہیں ہوا اور تین بندوں کے قرض کی ادائیگی بھی کر دی یعنی ان کے سر سے قرض کی بلا بھی ٹال دی.*
اب سمجھے آپ؟
پیسہ اگر میں اپنی جیب میں رکھتا تو کیا ان تین لوگوں کے قرضے اترتے؟
نہیں!
سو پیسے کو گھمائیں تاکہ لوگوں کی مشکلات حل ہوں اسے جیب میں قابو کر کے نہ رکھیں.

قرآن کیا کہتا ہے:
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

اگر اپنے صدقات علانیہ (سرعام) دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے

(بقرہ آیت ۲۷۱)


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
از طرف: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

اللہ (ج) نے قرآن کسی دولتمند شخص پر نازل کیوں نہیں کیا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم


اللہ (ج) نے قرآن کسی دولتمند شخص پر نازل کیوں نہیں کیا


بھئی کفار نے کہا ہمارے چودھری، سردار، سائیں، پیر، گدی نشین، وڈیرے، بھائی، کرنل، جنرل وغیرہ کے ہوتے ہوئے قرآن ایک غریب نبی پر کیوں نازل کیا

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ

کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا
(سورہ زخرف آیت ۳۱)

یہ سن کر اللہ (ج) کو جلال آیا اور جو لوگ اپنے دولتمند پھنے خانوں کو اپنا مائی باپ سمجھتے تھے، انہیں بڑے خوبصورت انداز میں جواب دے کر بتایا کہ یہ جو مال، دولت، ثروت، بینک بیلنس، گاڑی.... جسے تم معیار عزت و عظمت سمجھتے ہو اس کی میری نظروں میں کوئی قدر و قیمت نہیں.
یعنی اللہ (ج) فرما رہا ہے بے وقوفو!!! *تم جن چیزوں کو معیار عظمت و بزرگی سمجھ رہے ہو یہ تو میں اسے دیتا ہوں جو مجھے پسند نہیں*

فرماتا ہے:

وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ

اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے *گھروں کی چھتیں،* اور ان کی *سیڑھیاں* جن سے وہ اپنے *بالا خانوں* پر چڑھتے ہیں
(زخرف ۳۳)

وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ

اور اُن کے *دروازے*، اور ان کے *تخت* جن پر وہ *تکیے* لگا کر بیٹھتے ہیں
(زخرف ۳۴)

 

کیا کرتا انہیں پڑھیئے گا 👇🏼👇🏼


وَزُخْرُفًا ۚ وَإِنْ كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ

*سب چاندی* اور *سونے کے بنوا دیتے* یہ تو *محض حیات دنیا کی متاع ہے*، اور *آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے*
(زخرف ۳۵)

بتا دیا کہ کس کیلئے کیا ہے، سو اب کے بعد اس دنیا میں کسی راشی، شرابی و ظالم و سودخور کو ثروتمند دیکھنا اور مومن، نمازی و شریف انسان کو فاقوں میں دیکھنا تو *ٹینشن* مت لینا... اللہ (ج) کو جو پسند ہیں انہیں اگلی دنیا کی ابدی نعمات دیتا ہے جو نا پسند ہیں ان کو اس دنیا میں سب کچھ دے دیتا ہے.

 

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

اللہ (ج) ظالم پر بم کیوں نہیں گرا دیتا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم

کہتے ہیں یہ کیا بات ہوئی کہ ظالم اتنے برے کام کرتا ہے اللہ (ج) اسے پھر بھی نعمتوں سے نوازے جاتا ہے. اس پر بم کیوں نہیں گراتا


بھئی بات سنو!
پہلی بات تو سب کچھ اللہ (ج) خود سے فرشتے بھیج کر نہیں کرے گا اس نے تمہیں توفیقات عطا کی، کامیابی کے سارے طریقے بتا دیئے، اچھے اچھے پیکجز بھی دیئے کہ تم ایک قدم اٹھاؤ ظالم کے خلاف میں ۷۰ قدم اس ایک قدم میں اضافہ کردونگا لیکن تم ذرا حرکت تو کرو. سب اللہ (ج) آکر نہیں کرے گا انبیاء (ع) نے بھی تکالیف برداشت کی.
تھوڑا ہاتھ پیر مارو!

رہی بات ظالم کی کہ کیا اللہ (ج) کو ظالم پسند ہے (نعوذباللہ) جو اسے کچھ نہیں کرتا، نعمات دیئے جارہا ہے پیسہ، گاڑی، بنگلہ.....
اس کا جواب میں نہیں اللہ (ج) ہی دے رہا ہے. فرماتا ہے

وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذينَ کَفَرُوا أَنَّما نُمْلي‏ لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلي‏ لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهينٌ (آل عمران ۱۸۷)


یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، *ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں،* پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے.


سمجھے میاں! ایسا نہیں کہ آج کے پیر، مرشد، وڈیرے، ملک، سائیں، چودھری، سردار اور بھائی وغیرہ ظلم کے باوجود مزے سے جی رہے ہیں ان سب سے اللہ (ج) راضی ہے. یہ مت سمجھو کہ ان کیلئے انتظام نہیں ہو رہا ان کیلئے دھکتی آگ *ریڈی* ہے ...یہ ڈھیل ہے...

سوچ لو کہیں میں اور آپ بھی ان ڈھیل والوں میں سے تو نہیں کہ مزے کی زندگی جی رہے ہیں بھئی اللہ (ج) کا دیا ہوا سب کچھ ہے، سب کچھ تو ہے لیکن اللہ (ج) نعمت دے کر جھنم میں بھی لے جاتا ہے. دیکھ لو بھائی جن نعمات کو *انجواء* کر رہے ہو اس کے ساتھ اللہ (ج) کی اطاعت بھی ہے کہ بس ایسے ہی گاڑی چل رہی ہے.
اپنا راستہ چیک کریں *اللہ (ج) نے تو اوبامہ کو بھی نعمات دے رکھی ہیں ہماری نعمات و اوبامہ کو دی گئی نعمات میں فرق دیکھ لیں کہیں دیر نہ ہوجائے*


کل اسی *ٹائیپ* کی ایک اور آیت دونگا تب بات مزید واضح ہو جاوے گی
ان شاء اللہ


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

حسنین (ع) میں واقعی خوشبو تھی

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم


حسنین (ع) میں واقعی خوشبو تھی

 

شہید آیت اللہ دستغیب فرماتے ہیں:
سورہ رحمٰن میں لفظ ریحان استعمال ہوا ہے اس کے بارے میں میں کہوں گا کہ امام حسن و حسین (ع) کا ایک لقب "ریحان" بھی ہے اور علی (ع) کی کنیت بھی. اس ضمن میں رسول اللہ (ص) سے حدیث ملتی ہے.
ایک دن حضرت علی (ع) نے رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا رسول اللہ (ص) نے جواب میں فرمایا "سلام ہو تم پر اے دو *ریحانوں* کے والد!"

رسول اللہ (ص) نے بلاوجہ یہ الفاظ نہیں کہے، ماننا پڑے گا کہ آنحضرت (ص) حسنین (ع) کو سونگھا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی کے آخری لمحات میں جب حسنین (ع) آپ (ص) کے سینے سے چپکے تھے اور علی (ع) نے انہیں جدا کرنا چاہا تو آپ (ص) نے فرمایا:" انہیں رہنے دو، میں چاہتا ہوں ان کی خوشبو سونگھتا رہوں اور لذت حاصل کرتا رہوں"
جی ہاں! حسینیوں پر فرض ہے کہ کل روز قیامت حوران بہشت پر حسین (ع) کو ترجیح دیں. بھلے نصیب ان کے جنہیں قیامت کے دن حسین (ع) کی خوشبو سونگھنے کو ملے!

حوالہ:
روضہ ھای شہید دستغیب ص ۱۴۷
حوالہ روایت: بحار ج ۲ اور ۶ ، تفسیر سورہ مبارکہ رحمٰن ص ۱۰۱


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

جعفر جذباتی اور سنی مولوی

جعفر جذباتی اور سنی مولوی

 

از قلم: محمد زکی حیدری



آج جمعہ تھا سو جعفر جذباتی صاحب نے غسل جمعہ کیا اور نماز جمعہ ادا کی. جعفر جذباتی ویسے بھی نمازی ہیں، ماتمی تو اس سے بھی زیادہ ہیں، محرم میں زنجیر زنی کر کے خون کا پرسہ بھی دیتے ہیں. جذباتی کے زنجیروں کا دستہ ایسا تھا کہ کراچی کے بڑے بڑے ماتمیوں کے اس سے پسینے چھوٹ جاتے تھے. یگانہ سید عزادار تھا. جمعے کو عموماً جذباتی صاحب چھٹی کرتے ہیں، مگر آج جمعے کے بعد انہوں نے کسی بندے کو سامان دینا تھا سو جمعہ پڑھ کر انہوں نے دکان کھولی تھی. سگرٹ سلگائی کرسی پر براجمان ہوکر اس شخص کا انتظار کرنے لگے. ایک گھنٹے بعد سوچا اب کیا انتظار کرنا، شٹر نیچے کیا جانے ہی لگے تھے کہ سامنے سے ان کے محلے کے طفیل چچا موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے نظر آئے. اس نے سوچا طفیل چچا انچولی جا رہے ہوں گے اس لیے زور سے آواز لگائی "طافو چچا!!!"
طافو پر چڑتے ہیں طفیل میاں، کئی بار جذباتی کو اپنے منہ نصیحت بھی کر چکے کہ بزرگوں کے نام بگاڑنا تم ایسے ھونہار کو زیب نہیں دیتا مگر جذباتی صاحب کب کسی کی سنتے ہیں. بالقصہ طفیل میاں نے اس کی آواز سن کر موٹرسائیکل روک دی لیکن مڑ کر ایسی گندی نظروں سے جذباتی کو دیکھا کہ گویا جذباتی گٹر سے نکل کر آ رہا ہو.
" چچا کدھر؟" اس نے سگرٹ سڑک پر پھینکتے پوچھا
"میں گھر نہیں جا رہا" چچا نے غصے سے جان چھڑانے کے انداز میں جواب دیا.
"کاہے چچا؟ تو کدھر جا رہے ہیں"
چچا نے سوچا جھنم وھنم بول دیں لیکن جانتے تھے جذباتی منہ پھٹ ہے. سو بولے: "میلاد میں جا رہا ہوں"
"اچھا زبردست! میں بھی چلتا ہوں جمعہ ہے کوئی کام وام نہیں لائیں مجھے دیں بائیک میں چلاؤں"
"ارے سنی دوست کے ہاں ہے تم کیا..."
"بے چچا تو میں کوئی یہودی ہوں! کیا میلاد میں میں نہیں جاسکتا"
مرتا کیا نہ کرتا طفیل میاں نے موٹرسائیکل کا ھینڈل جذباتی کے حوالے کیا اور خود نا چاہتے ہوئے بھی پیچھے کھسک گئے.
میلاد برادران اھل سنت کا تھا اور مولانا وعظ فرما رہے تھے. طفیل میاں اور جذباتی بھی جاکر بیٹھ گئے.
"آقا صلواہ وسلام نے فرمایا علی ردی (رضی) اللہ عنہ علم کا شہر ہیں اور میں علم کا دروازہ بھئی سمجھیئے تو آقا کیا فرما رہے ہیں... دروازہ وہ ہے جہاں سے شہر میں گھسنے والے کا دو بار گذر ہوتا ہے گویا مدینے والی سرکار فرما رہے ہیں جبرئیل جب آتے ہیں تو بھی علی ردی (رضی) اللہ عنہ سے ملتے ہیں اور جاتے ہیں تو بھی.... "
پورے مجمعے نے مل کر کہا سبحان اللہ!!! اتنے میں جذباتی جو جوش آیا زور سے بولا "نعرہ حیدری" سنی مجمعے نے جواب تو بیشک دیا مگر سمجھ گئے کہ کوئی شیعہ بھی موجود ہے محفل میں. کچھ پر یہ خالی نعرے حیدری کچھ گراں سا گذرا سو انہوں نے جذباتی کو ترچھی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا گویا کہہ رہے ہوں رک بیٹا اگلے نکتے پہ ہمارا نعرہ سنیو.
مولانا تو سنی تھے بیچارے ایک تعریف علی (ع) کی بیان کی پھر خلفاء کی تعریف میں رقم اللسان ہوئے بولے "حضرت سیدبا عثمان غنی ردی اللہ تعالی نے اپنا سارا گھر اسلام کی خاطر لٹا دیا" یہ کہنا تھا تو ایک لمبی داڑھی والا اٹھا گلا پھاڑ کر یکے بعد دیگرے نعرے لگانا شروع کر دیئے "نعرے تکبیر..." نعرے رسالت... ، نعرے حیدری.... اور آخر میں نعرہ لگایا نعرے تحقیق ... حق چار یار!!!

اب جذباتی دل ہی دل میں پیچ و تاپ کھائے جا رہے ہیں. لیکن مجبوری تھی نعرہ تو لگنا تھا لگ گیا.
مولانا کا جذباتی خطاب اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری تھا، لیکن اب پھولوں کی سیج جذباتی جیسے زنجیر زن شیعہ کو کانٹوں کا بستر لگنے لگی لیکن خیر.. مولانا نے فرمایا "اب حضرت سیدنا عمر ردی اللہ کی تعریف سنیئے آقا صلات و سلام نے فرمایا اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو عمر ردی اللہ تعالی عنہ ہوتے"
یہ سن کر جذباتی پر قبض کی سی کیفیت طاری ہوگئی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے بول دیا کہ "مولانا اگر نبی ہوتا تو عمر ہوتا پھر آپ ابوبکر کو پہلا خلیفہ کیوں مانتے ہو عمر کو مانو"
مولوی کے طوطے اڑ گئے، ادھر ادھر سے آوازیں آنے لگیں "یہ کون ہے"
"بھائی چپ رہو" جذباتی بولا " بھئی سوال عالم سے نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے"
"ابے کون ہے نکالو اسے، ہے کون یہ... "
طفیل میاں نے اسے سمجھایا، ہاتھ جوڑے، حضرت علی (ع) کی قسم دی کہ چپ ہو جاؤ.
تب جاکر کہیں چپ ہوئے مسٹر جعفر جذباتی.
مولانا کو تو موقع ملا سو اس نے پھر خلفاء کی تعریفیں شروع کیں. پانچ دس منٹ تک تو جذباتی سنتا رہا پھر اچانک سے اٹھا، یہ دیکھ کر مولوی کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی کیونکہ جذباتی کی شکل غصے سے بڑی وحشتناک ہوگئی تھی. سب کے چہرے کا رنگ فک کہ خدا ہی خیر کرے.
لیکن جذباتی نے ادھر ادھر دیکھا چپ کر کے دروازے سے باہر آئے اپنےمنہ بڑبڑاتے ہوئے سگرٹ جلائی اور بس اسٹاپ کی طرف چل دیئے.

یبی معصومہ (س) کے حرم کی چھت پر سے بے حجاب عورتوں کو اتارنے کی سزا

 

 

 

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

بیبی معصومہ (س) کے حرم کی چھت پر سے بے حجاب عورتوں کو اتارنے کی سزا

 

تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری

 

ایران پر آمریکی پٹھو ظالم رضا شاہ کی حکومت تھی ایک دن عید نوروز کے موقع پر رضا شاہ کا خاندان قم میں بیبی معصومہ (س) کے حرم میں تفریح کی غرض سے آیا اور بے حجابی کی حالت میں بیبی سلام اللہ علیہا کے روضے کی چھت پر چڑھ کر تفریح کرنے لگا.
مرحوم ﺁﻗﺎ ﺳﻴﺪ ﺑﺎﻗﺮ ﻧﺎﻇﻢ
جو کہ مرحوم آیت اللہ ﺷﻴﺦ ﻣﺤﻤّﺪﺗﻘﻰ ﺑﺎﻓﻘﻰ کے ساتھیوں میں سے تھے، چھت پر گئے اور شاہ کے خاندان کو اس بے حجابی سے منع کیا اور نیچے آنے کو کہا.
شاہ کے گھر والوں نے شاہ کو فون گھمایا کہ تمہارے خاندان کی اھانت ہوئی ہے اور تم چپ بیٹھے ہو.  
رضا شاہ کچھ فوجیوں اور توپوں کے زیر سایہ قم میں داخل ہوتا ہے. یہ سوچ کر کہ ملاؤں نے پھر کوئی نیا ڈرامہ کھڑا کیا ہے اور وہ انہیں سبق سکھائے. لہذا وہ جوتوں سمیت بیبی (س) کے حرم میں داخل ہوا، ضریح مبارک کو لات مار کر چیخنے لگا "شیخ تقی کہاں ہے" اس کے کارندے جاکر مرحوم آیت اللہ شیخ محمد تقی بافقی کو لے آتے ہیں. اور یہ ظالم اس بزرگ کو اتنی لاتیں مارتا ہے کہ شیخ آخر عمر تک ان زخموں کے درد کو محسوس کرتے رہے.
پھر شیخ کو قم سے نکال دیا گیا اور شاہ عبدالعظیم (ع) کے روضے میں نظر بند کردیا گیا.
لوگ جوق در جوق شیخ کی عیادت کو آنے لگے اور اپ وہاں بھی امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرتے. حتی کہ ایک دن شاہ کے کارندے ان کے پاس گئے کہ آپ اگر حق کہنا چھوڑ دیں تو ہم شاہ سے آپ کی آزادی کیلئے سفارش کریں. شیخ محمد تقی بافقی نے جواب دیا "تم اور تمہارا شاہ ھیچ (کچھ بھی نہیں) ہو اور اور میں ھیچ سے کیا امید رکھوں، میں امام زمانہ (عج) کا خادم ہوں تم لوگوں نے جو کرنا ہے کرو" (1) 

ﺍﻣﻴﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻠﺎﻡ نے ﻓﺮمایا:
ﻣَﻦْ ﺍﺳْﺘَﻐْﻨﻰ ﻋَﻦِ ﺍﻟﻨﱠﱠﺎﺱِ ﺍَﻏْﻨﺎﻩُ ﺍﻟﻠﱠﱠﻪُ ﺳُﺒْﺤﺎﻧَﻪُ. 
جو شخص لوگوں سے بے ﻧﻴﺎز ہونے کی کوشش کرے اللہ (ج) اسے بے نیاز کر دیتا ہے. (2) 

1) ﻣﺠﻠﻪ ﺣﻮﺯﻩ، ﺷﻤﺎﺭﻩ 34، ﺹ 64 ﻭ 65. 
2) ﻏﺮﺭﺍﻟﺤﻜﻢ

 🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

میں اب امامت کے لائق نہیں رہا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم

 

میں اب امامت کے لائق نہیں رہا

 

ایک عالم دین بیان کرتے ہیں: ایک رمضان مبارک میں ہم نے مرحوم شیخ محدث عباس قمی (جنہوں نے مفاتیح الجنان جمع کی)
سے عرض کیا کہ مسجد گوھر شاد (حرم امام رضا علیہ السلام میں واقع) میں نماز پڑھائیں. انہوں نے ہمارے بہت اسرار کے بعد ہماری درخواست قبول کی اور ایک دن نماز ظھر و عصر ہم نے ان کی امامت میں پڑھی. ان بزرگوار کا سن کر ھر روز جماعتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا. ابھی دس دن بھی نہ گذرے تھے کہ جماعت حد سے زیادہ بڑی ھوگئی جم غفیر جماعت میں شریک ہونے لگا.

ایک دن شیخ محدث (رض) نماز ظھر ختم کر کے مجھ سے مخاطب ہوئے، کیونکہ میں ان کے قریب ہی نماز پڑھا کرتا تھا، فرمایا کہ :
میں اب نماز عصر نہیں پڑھا سکتا، یہ کہہ کر وہ مسجد سے چلے گئے اور پھر اُس سال لوٹ کر نمازجماعت پڑھانے نہ آئے. جب ہم نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ترک جماعت کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: حقیقت یہ ہے کہ میں نے ظھر کی چوتھی رکعت میں محسوس کیا کہ میرے پیچھے نماز پڑھنے والے یا اللہ یا اللہ یا اللہ کی آوازیں لگاتے ہیں. یہ آوازیں دور دور سے آیا کرتی ہیں اور *اس کی وجہ سے میرے دل میں خوشی و فخر پیدا ہونے لگا کہ میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. اس فخر و خوشی کی وجہ سے اب میں سمجھتا ہوں کہ میں پیش امامی کے لائق نہیں رہا.*


نقل از: حسین دیلمی، هزار و یک نکته درباره نماز

 


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و ترجمہ: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

سیاسی جذباتی بچے!

سیاسی جذباتی بچے!

 

بچے تو بچے ہوتے ہیں جب تک انہیں زبردستی کلائی سے پکڑ کر، گود میں بٹھا کر، گال پر پپی دے کر نہ سمجھایا جائے تب تک نہیں سمجھتے.

یہ ہی حال ان بچوں کا تھا جب علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے بھوک ھڑتال شروع کی تھی یہ بچے اس بھوک ھڑتال کو ذلالت کہہ رہے تھے. بیشک تنقید ہم نے بھی کی کہ راجہ صاحب نے اچانک سے اعلان کیا بھوک ھڑتال کا، بغیر کسی کیمپین کے. لیکن ذلالت نہ کہا. آج جب ایک خبر آئی کہ نثار چودھری اپنی باتوں سے مُکر گیا جن کی اس نے راجہ صاحب کو یقین دھانی کروائی تھی. تو سب سے زیادہ خوشی ان سیاسی جذباتی بچوں کو ہوئی ہے. انہوں نے تحریریں لکھنا شروع کردی ہیں کہ راجہ صاحب نے قوم کو ذلیل کر دیا، دیکھا نثار چودھری مُکر گیا ہم نے کہا تھا بھوک ھڑتال مت کرو ...!!! کچھ فائدہ نہیں ملنے والا...!!!

دیکھا آپ نے کتنی بچگانہ اور cute سی باتیں ہیں ان کی

گویا ان کے بقول اُس دشمن کے خلاف دھرنا و بھوک ھڑتال ہو جو متقی، پرھیزگار اور وعدے کا پابند ہو. جب پکا یقین ہوجائے کہ حکمران ہماری شرطیں قبول کرے گا تب ہی اس کے سامنے شرائط رکھیں ورنہ چپ رہیں.
یہ بسیجی بچے اگر امام حسن (ع) کے دور میں ہوتے تو امام حسن (ع) سے کہتے "دیکھا مُکر گیا معاویہ، کردیا نہ قوم کو ذلیل جب پتہ تھا معاویہ ظالم ہے وعدہ کر کے مکر جائے گا تو کیا فائدہ صلح کی شرائط لکھنے کا " اور تاریخ گواہ ہے امام (ع) کو یہ الفاظ کہے بھی گئے امام حسن (ع) کو "یا مذل المومنین" (مومنوں کو ذلیل کروانے والا) کہا گیا.
وہ بھی جذباتی بچے تھے آج بھی ....
یہ امام حسین (ع) سے بھی کہتے کہ مت جائیں اپنی بہن بیٹیاں اسیر کروائیں گے جب پتہ ہے یزید ظالم ہے تو کیوں جا رہے ہیں اس کے سامنے. جب سید سجاد (ع) مدینہ لوٹتے تو یہ جذباتی انقلابی انہیں بھی یہ کہتے "دیکھا ہم نے کہا تھا نہ یزید ظالم ہے کسی چیز کا لحاظ نہیں کرتا اب کروا دیا نا قوم کو ذلیل"

یہ بھوک ھڑتال کو ذلالت کہنے والے بہت پرانے ہیں ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وقت کے امام سے بھی خود کو زیادہ دین کا درد رکھنے والا سمجھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ آج رھبر معظم کسی کے بارے میں کچھ نہ کہیں لیکن یہ اسے ایم آئی سکس کا مجتھد کہنے میں دیر نہیں لگاتے.
اللہ (ج) سے دعا ہے کہ ان جذباتی جوانوں کو جذبات کے ساتھ عقل بھی عطا کرے. یہ آپ کو جہاں بھی ملیں انہیں گلے لگا کر گال پر پپی دے کر بات سمجھائیے گا. ٹافی بھی آپ کے جیب میں ہو تو کیا ہی خوب ہو!

الاحقر: محمد زکی حیدری

میں کیوں نماز پڑھوں میں تو گنہگار ہوں

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

میں کیوں نماز پڑھوں میں تو گنہگار ہوں

 

ایک انصاری جوان رسول (صلي الله عليه و آله) کے پیچھے نماز پڑھا کرتا تھا لیکن گناہ و حرام کام بھی کیا کرتا تھا.

لوگوں نے یہ بات حضور (صلي الله عليه و آله) کو بتائی. پيغمبر (صلي الله عليه و آله)  نے فرمایا:
*ایک دن اس کی نماز اسے گناہوں سے دور کر دے گی*
زیادہ عرصہ نہ گذرا کہ لوگوں نے دیکھا کہ اس نوجوان نے گناہوں سے توبہ کر لی.


حوالہ: ميزان الحکمه، ج5، ص371، ح 10254

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

غیب کا ہاتھ !

بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم

غیب کا ہاتھ !

(سیدہ عفت زھراء کاظمی)

 

مقامِ استعجاب ہے! مرزا غالب نے بھی کیا خوب کہا: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا... ایک وقت تھا کہ ایک بندہ اشارہ کرتا تھا پورا کراچی بند ہوجایا کرتا تھا صرف اس کی چھتر چھایا میں چلنے والا نائن زیرو ہی کھلا ہوتا،.مگریہ کیا آج حالات ایسے ہوگئے کہ پورا کراچی کھلا ہے اور صرف نائن زیرو بند ہے...

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ 'نصیر'
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی.

لیکن ہم عوام ....ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج یہ بے سر و سامان انسان کل بھی ایک سڑک چھاپ تھا... اسے کس نے اتنا طاقتور بنا دیا تھا؟ اللہ کو چھوڑیں کسی اور زاویے سے سوچیں...
کون ہے جس نے اسے اتنی طاقت دی کہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا یہ سڑک چھاپ اتنی ترقی کر گیا کہ جب لندن سے اپنی عجیب آواز میں تقریر کیا کرتا تھا تو پورے پاکستان کا میڈیا یرغمال ہوجاتا تھا... اس کی پوری تقریر براہ راست نشر ہوتی مجال کہ کوئی چینل اس دوران وقفہ بھی دے...

ایم کیو ایم کا اب کیا ہوگا؟ یہ مت سوچیں، اس کا کوئی نیا نام آجائے گا مارکیٹ میں! آپ بے فکر رہیں، یہ کام آپ کا نہیں ہے یہ کام کرنے والے آپ کو ایک نیا تحفہ دینے کا سوچ چکے ہوں گے، وہ ہماری خواری کی ہی تو تنخواہ لیتے ہیں... لیکن یہ ہیں کون؟؟؟
اتنے طاقتور کہ چار پہر میں سڑک چھاپ کو بادشاہ بنادیں
کون ہیں؟؟؟
چلیں بالفرض ان کا نام "غیب کا ہاتھ" رکھ لیتے ہیں. جی تو جناب یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے کہ جس سڑک چھاپ کے سر پر بھی رکھ دیا جائے تو وہ بھی پورے پاکستان کے میڈیا کو تین تین گھنٹے یرغمال بنا سکتا ہے... کسی کی مجال کہ چوں بھی کرے... وہ سڑک چھاپ اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ میڈیا پر آکر بولتا ہے کہ "سائیز تم بتاؤ بوری ہم بنائیں گے..." پھر بھی کوئی ادارہ اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ اس پر "غیب کا ہاتھ" تھا. لیکن جب یہ ہاتھ اٹھا تو اس کے ہاتھوں کا پلا بچہ کراچی میں اسے شرابی پاگل کہتا سنائی دیا،
اتنا کمزور ہوجاتا ہے بندہ جب سر سے "غیب کا ہاتھ" اٹھ جائے.

پاکستان میں یہ ہاتھ جس پر ہوتا ہے وہ کبھی لانڈھی میں سرعام بیٹھ کر شیعوں کو کافر کہتا ہے اور ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کہتا ہے ایسا کام کروں گا کہ سنی شیعہ سے ہاتھ بھی نہ ملائے گا. مگر اسے کوئی ادارہ کچھ نہیں کہہ سکتا. کیونکہ "غیب کا ہاتھ" اس کے سر پر ہے. اسلام آباد کے مدرسے کا ایک مُلا داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی کیونکہ اس مدرسے کی بنیاد ڈالنے والوں پر بھی شاید "غیب کا ہاتھ" تھا.
میڈیا بھی نہیں جانتا کہ "غیب کا ہاتھ" کیا ہے، جسں نے عمران خان کو اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے سامنے آکر "امپائر کی انگلی" کی بات کیا کرتا تھا.
کسی میڈیا چینل، کسی کالم نگار، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ اس انگلی کا مطلب کیا ہے!!!
کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس ملک میں جو بھی اچانک طاقتور ہو کر اس طرح کی باتیں کر کے سب کو ڈراتا ہے اس پر "غیب کا ہاتھ" ہوتا ہے اور غیب سے کون ٹکرائے.
ملک ریاض بھتہ نہیں دیتا کسی کی مجال کے اتنے بڑے بلڈر سے کوئی بھتہ مانگے کسی کو نہیں پتہ کہ اس میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ ملک ریاض سے بھتہ نہیں لے سکتے، بھتہ خوروں سے پوچھیئے آپ کو بتائیں گے کہ اس پر "غیب کا ہاتھ" ہے.
ریمن ڈیوس آتا ہے بندے مارتا ہے چلا جاتا ہے. وہ کیسے آیا کیسے گیا کوئی نہیں جانتا کیونکہ غیب کا ہاتھ ہے. اسامہ ایبٹ آباد سے ملتا ہے لیکن تحقیق نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، سب چپ رہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ غیب....
بلوچستان سے قومپرست نوجوان اٹھا لیئے جاتے ہیں اور ان کی گلی سڑی لاش اس کے گاؤں کے قریب سڑک پر پھینک دی جاتی ہے اور یہی کچھ سندھی قومپرستوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن کون تحقیق کرے کون تفتیش! کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ "غیب کا ہاتھ" ملوث ہے.

ہم اس ملک کے حالات کا ذمہ دار سیاستدانون کو سمجھتے ہیں مگر یقین جانیئے انہیں بھی "غیب کے ہاتھ" کی ماننی پڑتی ہے نہیں تو ان کا سیاسی کیریئر تو جاوے ہی جاوے، جان بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے.

اب کوئی پوچھے کہ یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے تو ملک سدھارنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس "دیسی" غیب کے ہاتھ پر ایک اور "پردیسی" غیب کا ہاتھ ہے. جس کے سامنے یہ دیسی غیب کا ہاتھ بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے کچھ کچھ عرصہ قبل پارلیامنٹ میں کھڑے ہوکر یہی کہا تھا:
*This is not a _desi_ conspiracy, this is an international conspiracy"*
(یہ دیسی سازش نہیں ہے یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مجھے راستے سے ہٹانے والا یہ "دیسی" غیب کا ہاتھ نہیں، یہ "خارجی" غیب کا ہاتھ ہے.
سو آپ بے فکر رہیں آپ کی سیاست پر "غیب کا ہاتھ" ہے. اور جسے غیب والا رکھے اسے کون چکھے.

sizkazmi110@gmail.com

امام خمینی (رض) اور ریفریجریٹر (فریج)

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

امام خمینی (رض) اور ریفریجریٹر (فریج)

 


حجۃ الاسلام فرقانی فرماتے ہیں جب امام خمینی (رض) نجف میں جلاوطن تھے تو اس وقت کئی طلاب کے گھر میں ریفریجریٹر نہیں تھا. امام خمینی (رض) نے بھی نہیں لیا. حتی اس بات پر بھی راضی نہ ہوئے کہ شیخ نصر اللہ خلخانی اپنے پیسوں سے ان کے گھر کا فریج خریدیں. امام کے گھر والے دوسال تک وہ چھوٹے کولرز پانی کیلئے استعمال کیا کرتے تھے جو لوگ سفر کے دوران استعمال کرتے ہیں. امام سے جب بھی فریج خریدنے کی بات کی جاتی آپ فرمایا کرتے تھے *طلاب کے پاس نہیں ہے* دو تین سال بعد جب طلاب کے وظیفے بہتر ہوئے اور ان سب نے فریج خرید لیئے تب امام خمینی (رض) نے فرمایا: اب جب سارے طلاب کے گھر میں بھی فریج ہے تو بیشک آپ بھی لے آئیں" (۱)

 


میٹرس جتنا کچن

 

خانم خدیجہ ثقفی (زوجہ امام خمینی) فرماتی ہیں جب عراق گئے تو ایک بہت ہی پرانا گھر کرائے پر لیا جس کی ایراضی بمشکل ۵ مربع میٹر تھی. اس کا کچن بیڈ کے میٹرس (گدے) جتنا تھا. اتنا کہ ہم مجبور ہوتے کہ بھگونہ (بگونہ) باہر آنگن میں رکھ کر ہی کھانا کھائیں. *اس گھر میں ہم نے تقریبا چودھا سال گذارے* (۲)

حوالہ جات:
(۱) درسھای از امام قناعت و سادہ زیستی ص ۴۴

(۲) ایضا ص ۹۳

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

غیب کا ہاتھ !

بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم

غیب کا ہاتھ !

(سیدہ عفت زھراء کاظمی)

 

مقامِ استعجاب ہے! مرزا غالب نے بھی کیا خوب کہا: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا... ایک وقت تھا کہ ایک بندہ اشارہ کرتا تھا پورا کراچی بند ہوجایا کرتا تھا صرف اس کی چھتر چھایا میں چلنے والا نائن زیرو ہی کھلا ہوتا،.مگریہ کیا آج حالات ایسے ہوگئے کہ پورا کراچی کھلا ہے اور صرف نائن زیرو بند ہے...

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ 'نصیر'
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی.

لیکن ہم عوام ....ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج یہ بے سر و سامان انسان کل بھی ایک سڑک چھاپ تھا... اسے کس نے اتنا طاقتور بنا دیا تھا؟ اللہ کو چھوڑیں کسی اور زاویے سے سوچیں...
کون ہے جس نے اسے اتنی طاقت دی کہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا یہ سڑک چھاپ اتنی ترقی کر گیا کہ جب لندن سے اپنی عجیب آواز میں تقریر کیا کرتا تھا تو پورے پاکستان کا میڈیا یرغمال ہوجاتا تھا... اس کی پوری تقریر براہ راست نشر ہوتی مجال کہ کوئی چینل اس دوران وقفہ بھی دے...

ایم کیو ایم کا اب کیا ہوگا؟ یہ مت سوچیں، اس کا کوئی نیا نام آجائے گا مارکیٹ میں! آپ بے فکر رہیں، یہ کام آپ کا نہیں ہے یہ کام کرنے والے آپ کو ایک نیا تحفہ دینے کا سوچ چکے ہوں گے، وہ ہماری خواری کی ہی تو تنخواہ لیتے ہیں... لیکن یہ ہیں کون؟؟؟
اتنے طاقتور کہ چار پہر میں سڑک چھاپ کو بادشاہ بنادیں
کون ہیں؟؟؟
چلیں بالفرض ان کا نام "غیب کا ہاتھ" رکھ لیتے ہیں. جی تو جناب یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے کہ جس سڑک چھاپ کے سر پر بھی رکھ دیا جائے تو وہ بھی پورے پاکستان کے میڈیا کو تین تین گھنٹے یرغمال بنا سکتا ہے... کسی کی مجال کہ چوں بھی کرے... وہ سڑک چھاپ اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ میڈیا پر آکر بولتا ہے کہ "سائیز تم بتاؤ بوری ہم بنائیں گے..." پھر بھی کوئی ادارہ اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ اس پر "غیب کا ہاتھ" تھا. لیکن جب یہ ہاتھ اٹھا تو اس کے ہاتھوں کا پلا بچہ کراچی میں اسے شرابی پاگل کہتا سنائی دیا،
اتنا کمزور ہوجاتا ہے بندہ جب سر سے "غیب کا ہاتھ" اٹھ جائے.

پاکستان میں یہ ہاتھ جس پر ہوتا ہے وہ کبھی لانڈھی میں سرعام بیٹھ کر شیعوں کو کافر کہتا ہے اور ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کہتا ہے ایسا کام کروں گا کہ سنی شیعہ سے ہاتھ بھی نہ ملائے گا. مگر اسے کوئی ادارہ کچھ نہیں کہہ سکتا. کیونکہ "غیب کا ہاتھ" اس کے سر پر ہے. اسلام آباد کے مدرسے کا ایک مُلا داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی کیونکہ اس مدرسے کی بنیاد ڈالنے والوں پر بھی شاید "غیب کا ہاتھ" تھا.
میڈیا بھی نہیں جانتا کہ "غیب کا ہاتھ" کیا ہے، جسں نے عمران خان کو اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے سامنے آکر "امپائر کی انگلی" کی بات کیا کرتا تھا.
کسی میڈیا چینل، کسی کالم نگار، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ اس انگلی کا مطلب کیا ہے!!!
کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس ملک میں جو بھی اچانک طاقتور ہو کر اس طرح کی باتیں کر کے سب کو ڈراتا ہے اس پر "غیب کا ہاتھ" ہوتا ہے اور غیب سے کون ٹکرائے.
ملک ریاض بھتہ نہیں دیتا کسی کی مجال کے اتنے بڑے بلڈر سے کوئی بھتہ مانگے کسی کو نہیں پتہ کہ اس میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ ملک ریاض سے بھتہ نہیں لے سکتے، بھتہ خوروں سے پوچھیئے آپ کو بتائیں گے کہ اس پر "غیب کا ہاتھ" ہے.
ریمن ڈیوس آتا ہے بندے مارتا ہے چلا جاتا ہے. وہ کیسے آیا کیسے گیا کوئی نہیں جانتا کیونکہ غیب کا ہاتھ ہے. اسامہ ایبٹ آباد سے ملتا ہے لیکن تحقیق نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، سب چپ رہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ غیب....
بلوچستان سے قومپرست نوجوان اٹھا لیئے جاتے ہیں اور ان کی گلی سڑی لاش اس کے گاؤں کے قریب سڑک پر پھینک دی جاتی ہے اور یہی کچھ سندھی قومپرستوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن کون تحقیق کرے کون تفتیش! کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ "غیب کا ہاتھ" ملوث ہے.

ہم اس ملک کے حالات کا ذمہ دار سیاستدانون کو سمجھتے ہیں مگر یقین جانیئے انہیں بھی "غیب کے ہاتھ" کی ماننی پڑتی ہے نہیں تو ان کا سیاسی کیریئر تو جاوے ہی جاوے، جان بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے.

اب کوئی پوچھے کہ یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے تو ملک سدھارنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس "دیسی" غیب کے ہاتھ پر ایک اور "پردیسی" غیب کا ہاتھ ہے. جس کے سامنے یہ دیسی غیب کا ہاتھ بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے کچھ کچھ عرصہ قبل پارلیامنٹ میں کھڑے ہوکر یہی کہا تھا:
*This is not a _desi_ conspiracy, this is an international conspiracy"*
(یہ دیسی سازش نہیں ہے یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مجھے راستے سے ہٹانے والا یہ "دیسی" غیب کا ہاتھ نہیں، یہ "خارجی" غیب کا ہاتھ ہے.
سو آپ بے فکر رہیں آپ کی سیاست پر "غیب کا ہاتھ" ہے. اور جسے غیب والا رکھے اسے کون چکھے.

sizkazmi110@gmail.com

بیبی خدیجہ (س) و حضرت ابوطالب (ع) کی جنازہ نماز کس نے پڑھائی؟

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

*بیبی خدیجہ (س) و حضرت ابوطالب (ع) کی جنازہ نماز کس نے پڑھائی؟


تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری

 

ہاں تو بھئی کس نے پڑھائی؟ بولے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ظاہر سی بات ہے رسول (ص) کے ہوتے اور کس نے پڑھائی ہوگی.
ایک بڑی داڑھی والے اپنے علم کے جوہر دکھاتے ہوئے کہا حضرت بیبی خدیجہ (س) کی تو میں مانتا ہوں کہ رسول (ص) نے پڑھائی ہوگی مگر ابوطالب تو ہمارے یہاں مسلمان ہی نہیں.
لو جی! شیعہ وہابی مناظرہ شروع...
ان کو لڑنے دیں، آئیے ھم کتابیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتی ہیں:

رسول (ص) کے مدینہ پہنچنے سے ایک ماہ قبل بـراءبـن مـعرور (رض)نامی انصاری مدینہ میں انتقال فرما گئے، یہ بڑے معزز صحابی تھے، بیعیت عقبہ میں ان کا اہم کردار تھا. جوں ہی رسول (ص) مدینے آئے تو انہیں پتہ چلا کہ براء (رض) کا انتقال ہوگیا رسول (ص) ان کی قبر پر گئے اور نماز ادا کی یہ *پہلی جنازہ نماز تھی* یعنی اس سے قبل نماز جنازہ کا حکم ہی نہیں آیا تھا. شریعت محمدی کا حصہ ہی نہ تھی.

*تو بھائی جب مدینے میں پہلی جنازہ نماز پڑھی گئی، اس سے قبل نماز جنازہ کا حکم ہی نہ تھا تو مکہ میں انتقال پانے والے جناب ابوطالب (ع) اور بیبی خدیجہ (س) کی جنازہ نماز کیسے ہوسکتی ہے.*

ہاں البتہ!

مـجـلسـى رحـمه الله بحار میں فرماتے ہیں: نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ (س) کا انتقال ہوا اور وہ حجون میں دفن ہوئیں. رسـول خـدا صـلى الله عـلیـه و آله و سـلم ان کی قبر میں داخـل ہوئے مگر ان دنوں ابھی نماز جنازہ تشریع نہ ہوئی تھی: ولم یكن یومئذ سنة الجنازة و الصـلاة عـلیـهـا على هذا (۱) آنحضرت (ص) نے جناب ابوطالب علیہ السلام اور جناب یاسر و جناب سـمـیـہ دونوں شـهـداء اسلام کی جنازہ نماز بھی نہیں پڑھی تھی.
یعقوبى لکھتا ہے: جب جناب ابوطالب (ع) دنیا سے رحلت فرما گئے تو رسـول الله (ص) بہت غمزدہ ہوئے، اس وقت اپنے ہاتھ کو چار مرتبہ جناب ابوطالب (ع) کی پیشانی کے دائیں طرف اور تین مرتبہ بائیں طرف گھمایا اور فرمایا: میرے عزیز چاچا محترم! آپ نے بچپن میں میری تربیت کی اور یتیمی میں میری کفالت کی اور جب بڑا ہوا تو میرا ساتھ دیا. اللہ (ج) اس کا اجر آپ کو عطا فرمائے(۲) 

۱) بحارالانوار، ج 19، ص 21
۲) تاریخ یعقوبی ج 2 ص 21؛

*اس کے علاوہ*

 *مناقب ابن شهر آشوب، ج 1، ص 150

*شرح نهج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 14، ص 76

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

علم غیب صرف اللہ (ج) کو ہے!

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

بھیا یہ آیت پڑھیئے گا ذرا اس میں کون سی بڑی بات کردی اللہ (ج) نے. فرماتا ہے غیب کا علم سارا میرے پاس ہے.بھئی بیشک لیکن ہم الٹراساؤنڈ کر کے بتا سکتے ہیں کہ رحم مادر میں کیا ہے کل لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی. اور یہ درختوں کے پتے گرنے کا پتہ ہونا کون سی بڑی بات ہے یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے خزاں کے موسم میں پتے گرتے ہیںتو جب ہمیں پتہ ہے تو اللہ (ج) کیوں فرماتا ہے کہ صرف میں جانتا ہوں اور کسی کو نہیں? معلوم؟*

 

ارے پڑھیں تو!! میں جھوٹ تھوڑی بول رہا ہوں.

لیجئے

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

 

اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو خشک و ترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے

(انعام آیت ۵۹)


کیا کریں اب 🤔

بھئی بات یہ ہے کہ قرآن مجید ایک کتاب ہے جس میں اشارے ہیں اور عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے پورا چِٹھا کھولنا لازمی نہیں سو ہم تو ٹھہرے کوڑ مغز لیکن جب علماء سے پوچھا گیا تو مسئلہ ہی حل ہوگیا.
بولے مُنے آپ جو الٹراساؤنڈ کرتے ہو اس میں بیشک آپ کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ اللہ دتا ہے یا رضیہ. لیکن اللہ (ج) جب کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ رحم میں مادر میں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ کل کردار کے لحاظ سے کیسا ہوگا، یہ کل ایدھی بنے گا، یا الطاف یا زرداری، ظالم بنے گا یا مظلوم، عاشق بنے گا یا معشوق، نیٹی جھیٹی پل کے نیچے بیٹھ کر صمد بونڈ کا نشہ کریگا یا مسجد میں با جماعت فجر نماز پڑھے گا.
لڑکی جو ماں کے پیٹ میں ہے کل کراچی یونیورسٹی میں جاکر کسی کار والے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے جایا کریگی یا شریف ماں باپ کے عزت کی رکھوالی بنے گی.
کیا یہ الٹرا ساؤنڈ بتا سکتا ہے؟
ہر گز نہیں!!!

اچھا پتے خزاں میں جھڑتے ہیں لیکن کون سا پھنے خان ہے جو یہ بتائے کہ اس سال پاکستان میں کتنے پتے گریں گے، ھر پتہ کتنے دن درخت سے جڑا رہے گا اس کے بعد گرے گا. کوئی فگر و تعداد تو ہوگی نا کہ کتنے پتے کب اور کس وقت گرتے ہیں تو وہ فگر آپ بتا سکتے ہو؟
ھرگز نہیں!!!

اس لیئے اللہ (ج) کہتا ہے صرف ہم جانتے ہیں اور کوئی نہیں.

قربان جاؤں میں کریم رب پر...

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

نزول قرآن کیسے ہوا

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ویسے آپس کی بات ہے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ قرآن مجید شب قدر میں نازل ہوا... تو پھر بار بار جبرئیل (ع) وحی لے کر آتے تھے وہ کیا تھا؟🤔

 

تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری


برادران اھل سنت اور ہم شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن رمضان المبارک میں نازل ہوا کیونکہ قرآن مجید کی صاف آیت ہے جو اس بات کی گواہ ہے
شَهرُ رَمَضانَ الَّذِی اُنزِلَ فیهِ القُرءانُ (بقره / 185)

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا.

*تو بھائی ہوگیا تو ہو گیا پھر جبرئیل (ع) بار بار کیا لے کر آرہے تھے؟*

اصل میں بات یہ کہ نزول قرآن کے بارے میں دو بڑے اور ایک چھوٹا نظریہ ہے:

بعض علماء کا کہنا ہے کہ پورا کا پورا قرآن ایک ہی دفعہ میں قلب رسول (ص) پرنازل ہوا یا پھر آسمان پر نازل ہوا ایک ہی دفعہ میں اور پھر گاہے بہ گاہے رسول (ص) پر آیات نازل ہوتی رہیں. یہ ہے *نزول دفعی*

دوسرے کہتے نہیں قرآن مختلف وقتوں میں نازل ہوتا رہا. یعنی جیسی صورتحال ہوتی تھی اس کے مطابق جبرئیل (ع) اللہ (ج) کا پیغام لے کر نازل ہوتے تھے. اس نزول کی قسم کو کہتے ہیں *نزول تدریجی*

اس کے علاوہ چند علماء ایسے ہیں جن کا ماننا ہے کہ بیشک قرآن لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا تھا مگر ھر سال! یعنی ھر سال رمضان میں اس سال کے بارے میں ساری آیات نازل ہو جایا کرتی تھیں اور پھر اگلے رمضان اگلے سال کی.

ارے بھیا ہم تو چکرا گئے تین تین باتیں اب کس کی مانیں؟🤔

بھئی ڈریں مت! ویسے تو یہ بحث بہت طولانی ہے لیکن مجھے جو بات پسند آئی وہ شیخ مفید (علیہ رحمہ) کی ہے. شیخ مفید (علیہ رحمہ) نے ایک مثال میں پوری بات سمجھا دی، فرماتے ہیں :
"اگر ایک بڑے سے تالاب میں پانی جمع ہونا شروع ہو اور یہ پانی پہلی بار جمعے کے دن کو تالاب میں جانا شروع ہوا تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ سارا پانی جمعے کے دن ہی تالاب میں گیا.؟ جب کہ تالاب کو بھرنے میں بہت دن لگے. اسی طرح قرآن مجید مختلف مدتوں میں نازل ہوا مگر اس نزول کی *شروعات* لیلۃ القدر سے ہوئی.

لہذا شیخ مفید (علیہ رحمہ) کی بات سے واضح ہو گیا کہ قرآن مجید ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا اور سورہ قدر میں جو بات آئی ہے کہ "ہم نے قرآن کو قدر کی رات میں نازل کیا" یا سورہ دخان کی آیت ۳ اِنّا اَنزَلنـهُ فی لَیلَةٍ مُبـرَکَةٍ
بیشک ہم نے اسے (قرآن کو) مبارک رات میں نازل کیا. ان سے مراد یہ ہی ہے کہ قرآن کے نزول کی *شروعات* اس رات میں ہوئی نہ کہ پورا کا پورا قرآن اسی رات میں نازل ہوا.

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟

 

تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

 

بھائی اللہ (ج) کے نام پہ قربان جاؤں، اس نے حکم دے دیئے یہ کرو وہ کرو، ہم گنہگاروں نے اپنی استطاعت کے مطابق اللہ (ج) کے احکام کی پیروی کی. اب ہمیں یہ کون بتائے کہ بھئی ہمارے یہ ٹوٹے پھوٹے اعمال قبول بھی ہو رہے ہیں کہ نہیں! کیونکہ
مولا علی (ع) نے فرمایا :
كُونُوا عَلي قَبُول الْعَمَلِ اَشَدَّ عِناية مِنكُم عَلَي الْعَمَل

*عمل کی قبولیت پر عمل سے بھی زیادہ دھیان دو*
(بحارالانوار، ج 71، ص 173 )

یعنی عمل کرنے کے چکر میں ہی مت پڑے رہو پہلے یہ تسلی کرلو کہ جس طریقے سے تم عمل کرنے چلے ہو اس طرح سے قبول بھی ہوگا کہ نہیں، اس بندے کی طرح نہ ہو کہ جس نے سنا کہ اللہ (ج) نے وعدہ کیا ہے کہ گناہ پر ایک سزا ملے گی، جب کہ نیکی پر دس برابر ثواب ملے گا سو اس مرد کے بچے نے بڑی چالاکی دکھائی، ایک دکان سے روٹی چوری کی دوسرے دکان سے انار چوری کیا اور لاکر فقیر کو دیا. فقیر بولا: یہ کیا چکر ہے؟
اس نے کہا دیکھ بھائی! اللہ (ج) نے کہا ہے ایک گناہ ایک سزا اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ثواب. اب میں نے دو چیزیں چوری کیں سو میرے گناہ ہوئے دو. جب کہ تجھے یہ دونوں چیزیں دے کر میں نے بیس نیکیاں کمائی ہیں.
ثابت ہوا اس کام سے مجھے ثواب زیادہ ہوا گناہ کم!

کیا ایسا ہی ہے؟؟؟
نہیں!
یہاں قرآن مجید پر غور کریں ھابیل و قابیل دونوں کو حکم ہوا کہ قربانی کرو مگر اللہ (ج) نے صرف ھابیل کی قربانی قبول کی قابیل کی نہیں.
کیوں؟

سورہ مائدہ کی آیت میں اللہ (ج) نے جواب دیا
إِنَّما يتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين

اللہ (ج) صرف متقیوں کے عمل قبول کرتا ہے.

یعنی اولین شرط یہ ہے کہ جو کرو اس میں *تقوی کا عنصر موجود ہو*

تقوی کیا ہے ... سمپل سی، سادہ سی تعریف : *خود کو گناہ سے بچانا*
یعنی عمل اس کا قبول جو خود کو گناہ سے بچائے...
ایک طرف سے چوری کرو دوسری طرف سے خیرات کرو تو بھیا اس میں تقوی کی شرط پوری نہیں ہورہی سو اجر زیرو! ❌

یہ ہی وجہ ہے کہ *امام جعفر صادق (ع) سے سوال ہوا مولا کیسے پتہ چلے کہ ہماری نمازیں قبول ہیں کہ نہیں؟*

امام (ع) نے زبردست معیار بتا دیا فرمایا:

(مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَعْلَمَ أَقُبِلَتْ صَلَاتُهُ أَمْ لَمْ تُقْبَلْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ مَنَعَتْهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ فَبِقَدْرِ مَا مَنَعَتْهُ قُبِلَتْ مِنْه)

جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا اس کی نمازیں قبول ہو رہی ہیں یا نہیں وہ یہ دیکھے کہ آیا اسے نماز گناہ سے دور کر رہی ہے یا نہیں. پس جتنی مقدار میں نماز نے اسے گناہ سے بچایا ہے اتنی ہی نماز قبول ہے (باقی نہیں)

(بحارالأنوارج 79 ص 198باب 1- فضل الصلاة و عقاب تاركها ...)

یہ بات ہے بھیا تقوی (گناہ سے دوری لازمی ہے) صرف عمل نہیں کرتے جانا.
قرآن پر غور کریں:

إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهي‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ. (عنكبوت، آيه 45)
*بیشک نماز فحاشی اور برائیوں سے بچاتی ہے.*

اگر یہ کہیں کہ نماز ہے ہی وہ جو برائیوں سے بچائے تو بے جا نہ ھوگا.

سو بھیا قرآن و اھلبیت (ع) نے پیمائش کا آلہ (Checking instrument) دے دیا جیسے درجہ حرارت تھرمامیٹر سے چیک کرتے ہو، بلڈ پریشر چیک کرتے ہو اسی طرح اعمال کی قبولیت کا پیمائش کا آلہ *تقوی عرف گناہوں سے دوری* ہے.

اب *نماز* کو اس آلے سے چیک کریں
*عزاداری* کو اس آلے سے
*روزے* کو اس آلے سے
*مجلس*، *خیرات*، *نیاز*... ھر چیز....
عمل کرتے جائیں چیک کرتے جائیں اگر گناہ سے دور ہو رہے ہو تو قبول، نہیں تو 🚨 خطرہ ہے!


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

بھئی ہماری دعا تو قبول ہی نہیں ہوتی!!!

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

بھئی ہماری دعا تو قبول ہی نہیں ہوتی!!!

 


 راوی کہتا ہے میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا: اللہ (ج) کی کتاب میں دو آیات ایسی ہیں کہ جن کے نتائج ڈھونڈنے کی میں نے بہت کوشش کی مگر آج تک ناکام رہا.
امام علیه السلام نے فرمایا وہ دو آیات کون سی ہیں؟
میں نے عرض کی کہ ایک تو یہ آیت کہ قرآن میں اللہ (ج) فرماتا ہے *ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکمْ* مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کرونگا.
میں نے بہت دعائیں کیں لیکن قبول نہیں ہوئیں.

امام علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ (ج) کے قول و فعل میں تضاد ہے (نعوذباللہ) ؟

میں نے عرض کیا: جی نہیں!
امام (ع): تو پھر کیوں تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی؟

میں نے عرض کیا: پتہ نہیں!
امام (ع) نے فرمایا: میں بتاتا ہوں. *ھر وہ شخص جو اللہ (ج) کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کرے اور پھر دعا کرے تو اللہ (ج) اس کی دعا قبول کرتا ہے.*
میں نے عرض کیا: دعا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

امام (ع) نے فرمایا: اللہ (ج) کی تعریف سے شروع کرو اور جو نعمات اس نے تمہیں عطا کی ہیں ان کو یاد کرو اور ان نعمات کے ملنے پر اللہ (ج) کا شکر ادا کرو اس کے بعد محمد و آل محمد (ع) پر درود بھیجو. پھر اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان کی معافی مانگو اور ان سے اللہ (ج) کی پناہ مانگو. یہ ہے دعا کا طریقہ.

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا: دوسری آیت کون سی ہے؟
میں نے عرض کیا: دوسری آیت یہ
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

"جو تم انفاق (اللہ جل جلالہ کی راہ میں خرچ) کرتے ہو اللہ (ج) اس کا عوض عطا کرتا ہے بیشک وہ بہت بڑا رزق دینے والا ہے."
میں اللہ (ج) کی راہ میں خرچ کرتا ہوں مگر مجھے اس کا عوض نہیں ملتا.

امام علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ (ج) کے قول و فعل میں تضاد ہے (نعوذباللہ) ؟

میں نے عرض کی: جی نہیں!
امام (ع) نے فرمایا: تو پھر تمہیں اس کا عوض کیوں نہیں ملتا؟
میں نے عرض کیا: مجھے نہیں معلوم!

فرمایا: اگر کوئی حلال طریقے سے مال کمائے اور راہ حلال میں انفاق کرے تو ایک درھم بھی ایسا نہیں جو وہ انفاق کرے اور اس کا بدلہ اسے نہ ملے.
 
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
حوالہ:
 اصول کافی، باب الثناء قبل الدعا

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

arezuyeaab.blogfa.com

+989199714873

(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)

اصحاب سبت کون تھے؟

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم


🐬 چلے تھے مچھلی پکڑنے بن گئے بندر🐒

تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری


وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ *مچھلیاں* سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے.

(سورہ اعراف آیت ۱۶۳)


فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

ہم نے انہیں کہہ دیا کہ *بندر بن جاؤ* اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے

(سورہ بقرہ آیت ۶۵)


*ارے*😳
یہ کیا بات ہوئی بھائی ایک بستی والے مچھلیاں پکڑتے تھے ان کا پیشہ ہی ماہی گیری تھا، ماہی گیر روز روز مچھلی پکڑتا ہے، ہفتے کے دن پکڑ لی تو اللہ (ج) اتنا ناراض ہوا کہ انہیں بندر بنا دیا.

😳 *عجب*

بھئی یہ یوم سبت کا قانون کیا تھا کہ جس کی مخالفت پر اللہ (ج) نے اس قوم کو بندر بنا دیا؟ 🤔

ویسے آپس کی بات ہے اللہ (ج) خود ہی تو محنت مشقت کی تاکید کرتا ہے پھر کیا ھفتہ کیا اتوار کیا جمعہ .... ہفتے کو کوئی ماہی گیر کام پر جائے تو سزا کے طور پر بندر!!!

*چکر کیا ہے بھائی ...* 🤔


بھیا بات پوری سمجھیں! اصل میں بات یہ ہے کہ یہ حضرت داؤد (ع) کی قوم تھی، بحر احمر (Red sea) کے ساحل پر مچھلی کا شکار کر کے زندگی بسر کرتی تھی. اکثر لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا. (۱)

اب اللہ (ج) تو امتحان لیتا ہے اور امتحان کا تقاضہ بھی یہ ہوتا ہے کہ یا تو ایسی چیز قربان کرنے کا حکم دیتا یے جو سب سے پیاری ہو یا پھر کسی پسندیدہ کام سے روکتا ہے. جیسے ابراھیم (ع) کو حکم دیا کہ بیٹا قربان کرو، آدم (ع) سے کہا کہ فلاں درخت سے مت کھانا وغیرہ وغیرہ...
اب اس قوم کی پسندیدہ چیز تھی *مچھلی* سو اللہ (ج) نے انہیں حکم دیا کہ دیکھو بستی والو پورا ھفتہ مچھلیاں پکڑو مسئلہ نہیں ھفتہ (یوم سبت) کے دن مچھلیاں نہ پکڑنا. اس دن مچھلیوں کیلئے امن کا دن ہے.
یہ حکم اس لیئے دیا کہ اس دن مچھلیاں سطح سمندر پر آجایا کرتی تھیں باقی دنوں میں مچھلیاں سمندر کی گہرائی میں ہوا کرتی تھیں. اب ماہی گیر ھفتے کے دن دیکھتے کہ اتنی تعداد میں مچھلیاں وہ بھی گھر بیٹھے مل رہی ہیں یعنی ساحل پر تو ان سے رہا نہ گیا.
ان کے کچھ ماہی گیروں نے اللہ (ج) کے حکم کی نافرمانی کی اور مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا. یعنی امتحان میں فیل ہوئے.
اس بستی کے نیک لوگوں نے انہیں اس کام سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے.

اچھا دلچسپ بات یہ کہ ان میں سے کچھ بڑے چالاک نکلے وکلاء کی طرح!
کیسے؟
وہ بولے بھئی دیکھو اللہ (ج) نے ھفتے کو ماہی گیری سے منع کیا ہے نا! ٹھیک ہے مسئلہ نہیں. ہم ھفتے کے دن شکار نہیں کریں گے. انہوں نے کیا کیا ایک چال چلی وہ یہ کہ ساحل سمندر پر بڑے بڑے حوض بنادیئے جن کے دروازے وہ ھفتے کی صبح کھول دیا کرتے مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہوتیں تو شام میں یہ لوگ ان کے دروازے بند کر دیا کرتے. اس طرح مچھلیاں ان حوضوں میں قید ہو جاتیں، یہ لوگ ھفتے کے دن تو ان مچھلیوں کو ہاتھ بھی نہ لگاتے البتہ اتوار کے دن ان کا خوب شکار کیا کرتے اور کہتے ہم نے تو اتوار کو شکار کیا ہے اللہ (ج) نے تو ھفتے کا منع کیا ہے (۲)

اللہ (ج) کو جلال آیا حکم دیا کہ جو اچھے لوگ ہیں وہ اس بستی سے نکل جائیں باقی جو ھفتے کے دن مچھلی کا شکار کرتے تھے ان پر عذاب نازل ہوا وہ بندر بن گئے اور بستی کے دروازے بند ہو گئے تاکہ وہ باہر نہ جا سکیں.

روایات میں ملتا ہے کہ برابر والی بستی کے لوگوں کو جب پتہ چلا تو وہ اس بستی کی دیواروں پر چڑھ کر ان مرد و عورتوں کو بندر کی شکل میں دیکھا کرتے، اور جو بندر شکل سے انہیں لگتا کہ یہ اس کا فلاںِ دوست ہے تو وہ ان بندروں سے پوچھتے کہ تم فلاں ہو؟.
اور وہ اشک بھری آنکھوں سے سر ھلا کر تائید کرتے.
تین دن بعد تیز آندھی چلی اور یہ بستی صفحۂ ھستی سے مٹ گئی. (۳)

سبت ھفتے کے دن کو کہتے ہیں اور جو لوگ اس قصے سے منسوب ہیں انہیں *اصحاب سبت* کہا جاتا ہے.
آج بھی ھفتے کا دن یہودیوں میں مذھبی دن کے طور پر رائج ہے اس دن چھٹی کی تاکید ہے.

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

حوالہ جات:
(۱)تفسیر کشاف، ج1، ص355

 (۲) تفسیر برهان، ج2، ص42؛ یہ بات ابن عباس (رض) نے بھی تفسیر مجمع البیان میں آیت کے ذیل میں نقل کی ہے.

(۳) بحارالانوار، ج14، ص56

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)