محبت علی (ع) مومن اور منافق

ولایت، ولی اور موالی

 

 

ولایت، ولی اور موالی

تحریر: محمد زکی حیدری



بھیا بات ہے پہچان کی، سونے کی پہچان لوہار کو نہیں، لوہے کی سونار کو نہیں! اسی طرح الفاظ کی پہچان بھی کسی کسی کو ہوتی ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لفظ ولایت کو ہی لے لیجئے، کسی عام پینڈو سے پوچھیں گے تو وہ اس کی معنٰی کرے گا پردیس کی، بیرون ملک کو "ولایت" کہتے ہیں، بھئی چودھری صاحب کا بیٹا ولایت گیا ہے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے! اسی طرح اس سے اگر ولی کا معلوم کریں گے تو وہ آپ کو پڑوس میں جو درگاہ میں دفن بزرگ ہستی ہے، اس کی طرف اشارہ کرے گا اور موالی کی معنی پوچھیں گے تو وہ آپ کو کسی ڈیرے پر لے جائے گا، جو لوگ نشہ آور چیزوں کے عادی ہوں گے، وہ دکھا دے گا کہ جی ان سے ملیئے، یہ موالی ہیں۔ الطاف چرسی، اس موالی کا نام ہے صدیق بھنگی، اور وہ کونے میں آفیم کا موالی مشتاق پاؤڈری وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ ہے عام، محدود و بالائی و ظاہری و سطحی نگاہ سے چیزوں کا نظارہ کرنا، ایک زاویے سے چیز کو دیکھنا، جو عام ہو۔ ان کی روح سے پردہ نہ اٹھانا، سرسری نگاہ کرنا، انگریزی میں کہتے "سپرفیشل لک" Superficial look))۔۔۔  یہ اس طرح ہے جیسے کتاب کی جلد کو دیکھ کر اس کا تکہ لگانا، اندازہ لگانا کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوگا اور یہ ہے عام آدمی کی عادت! عاقل کبھی جلد سے کتاب کا اندازہ نہیں لگاتا، اس کی نظر الگ ہے، ایک باشعور انسان جس طرح سے چیزوں کو لیتا ہے تو اس کا زاویہ ہی الگ ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو عام انسان کو محض ایک معمولی سی چیز نظر آرہی ہوتی ہے، وہ اسے غیر معمولی بنا کر پیش کر دیتا ہے۔

اسلام میں ولایت کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں، کیا ہے ولایت کہ جس نے اسلام کی دو شاخیں بنا دیں، سنی شیعہ! آخر ہے کیا ولایت؟ ہم تو بھیا اسے بیرون ملک سمجھتے ہیں۔ نہیں! ولایت ایک ملک نہیں، ولایت ایک جہان ہے، اگر اس کی روح سے پردہ اٹھاؤ تو معلوم ہو۔ اچھا بھئی اب بتا بھی دیں کہ ولایت کسے کہتے ہیں؟ ولایت کا مطلب ہے، اپنی مرضی ولی کو سونپ دینا، اپنے آپ کو اٹھا کر ولی کو پیش کردینا، اپنے آپ کو سونپ دینا، ولی کے سپرد کر دینا کہ صاحب اب میری سوچ بھی تمہاری مرضی کے مطابق، میری گفتار، میرا کردار، میرا عمل، میری حرکات، میری سکنات سب تمہاری مرضی سے ہوں گی، میری مرضی میں نے تمہیں دے دی! یہ ہوئی ولایت! اچھا آپ نے مرضی دی آپ بن گئے موالی، جس کو مرضی سونپی آپ نے وہ بن گیا ولی یا مولا! اب آئیں موالیوں کا تعارف کرواتا ہوں میں آپ کو۔ سب سے پہلا موالی اسلام میں ہے محمد (ص)! پہلا موالی جس نے اپنے مولا اللہ (ج) کو اپنی مرضی سونپ دی، جا کر اپنی مرضی اللہ (ج) کی گود میں ڈال دی کہ لو جو تمہاری مرضی وہ میری، تم مولا میں موالی!

اچھا محمد (ص) کو موالی بنتے دیکھا تو علی (ع) بھی صحبت میں آ کر موالی بن گئے! دیکھئے صحبت کے اثر میں موالی بننے کا نیا انداز! موالی کا دوست موالی۔۔۔ اپنی مرضی لی اور لے جاکر  محمد (ص) کی گود میں ڈال دی کہ لو میری مرضی اب نہیں، اب سے تمہاری مرضی! ولایت کا نشہ، علی (ع) نامی یہ موالی چور ہے ولایت محمدی  کے نشے میں۔ محمد (ص) نے کہا ایسے نہیں چلے گا ثابت کرکے دکھاؤ، زبانی دعویٰ کافی نہیں، ثابت کرو کہ واقعی موالی بن گئے ہو، تب دنیا کو بتاؤں گا، تب سند دوں گا موالی کی، جب اس موالی نے حقیقی موالی بن کر دکھا دیا تو قبل اس کے کہ محمد (ص) اسے سند دیتے بڑے مولا اللہ (ج) نے اپنے محمد (ص) نامی موالی کو آواز دی کہ اے محمد! اپنے موالی کا اعلان کر دو، اگر نہیں کیا تو سمجھو تم نے موالی ہونے کا حق ادا نہیں کیا ۔۔۔ محمد (ص) نے ہاتھ اٹھا کر کہا دیکھو، جس جس کا میں مولا ہوں، اس کا میرا یہ موالی علی (ع) مولا ہے! علی (ع) موالی تھے، غدیر کے دن مولا بن گئے۔ یہ ہے غدیر!

موالی!!! کیا سمجھتے ہو موالیوں کو، دنیا کو جینا سکھا گئے! انسانیت کو انسانیت سکھا گئے اور حضور اب آپ ہی کہیئے کتنا جاہل ہوگا وہ انسان جو کہے کہ جس شخص نے ان موالیوں کی پالنا کی وہ کافر! محمد (ص) اور علی (ع) جیسے موالیوں کو جس ابو طالب (ع) نے پال کر بڑا کیا، اسی ابو طالب کو (نعوذباللہ) کافر کہتا ہے یہ! یہی تو جھگڑا ہے!!!  ذرا غور فرمائیں یہ وہی جاہل پینڈو، یہ وہی جاہل دیہاتی ہے، یہ وہی جاہل بدو ہے، جس نے 1400 سال پہلے الفاظ  کو بالائی سطح سے، سرسری نگاہ اور سپر فیشلی دیکھنا شروع کیا تھا، اس وقت اس نے ابو طالب (ع) کو (نعوذباللہ)  کافر کہا کیونکہ اس کے پاس لفظ ایمان کی معانی صرف زبانی اقرار تھی۔۔۔ اور آج اس کی اولاد ہے کہ الفاظ پر سرسری نگاہ ڈال کر ان کی معانی کرتی ہے، ولایت کو بیرون ملک سمجھتی ہے، موالی کو نشئی اور مست ملنگ کو ولی کہتی ہے۔۔۔

خیر وہ تو ٹھہرا جاہل! علی (ع) کو مولا ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہم، کیا ہم اس سے الگ ہیں؟ کیا ہم حقیقی موالی ہیں؟؟؟ ہم نے موالی ہونے کا حق ادا کیا؟ دعویٰ کرتے ہیں موالی ہونے کا، قسم کھا کر بتائیں کہ کیا ہم نے اپنی مرضیاں علی (ع) کی گود میں ڈالیں؟ ہم نے اٹھا کر خود علی (ع) کے سامنے پیش کیا کہ مولا یہ لیجئے میری مرضی آپ کی خدمت میں، جو آپ کہیں میں کروں گا، میری کوئی مرضی نہیں، لایئے یہ قرآن، لایئے یہ نہج البلاغہ، ان میں جو جو آپ کی مرضی  درج ہے، میں اسی پر عمل پیرا ہوں گا، میں کچھ  نہیں بس آپ کا جو حکم! آپ کی مرضی سے نوکری کروں گا، سود والی نوکری نہیں کروںگا، آپ کہیں گے رشوت نہیں تو مولا نہیں، آپ کی مرضی سے شادی کروں گا۔

اخلاق دیکھوں گا لڑکی میں، دولت نہیں، جہیز کی شرط نہیں رکھوں گا لڑکی والوں سے! آپ کی مرضی کے مطابق اولاد کی تربیت کروں گا، نہیں گانے نہیں، انڈین چینلز نہیں، موسیقی نہیں، اولاد کو نمازی متقی بناؤں گا، شہید عارف حسین الحسینی، شہید  محمد علی نقوی کے قصے سناؤں گا، عزادار بناؤں گا، بیٹے کو شہید سبط جعفر زیدی، بیٹی کو بنت الہدیٰ بناؤں گا، مولا بس آپ کی مرضی، میں آپ کا موالی۔۔۔ !!! ایسا کیا ہم نے عزیزو؟ ایسا نہیں کیا تو خود کو جب موالی سمجھیں تو اس کی معانی بھی وہی لیں، جو اس جاہل نے لئے کہ موالی مطلب نشئی، اور یاد رہے، یہ وہی ہے جس کا باپ علی (ع) کے باپ کو کافر کہتا تھا۔ تو بھیا اب ہم نے کون سا موالی بننا ہے، جو علی (ع) کی نظر میں موالی ہو یا جو اس جاہل عام آدمی کی نظر میں موالی ہو۔ فیصلہ ہم پر ہے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab

ھارون (ع)، علی (ع)، ہماری قوم کے باپ

ھارون (ع)، علی (ع)، ہماری قوم کے باپ

تحریر: محمد زکی حیدری

 

جناب موسیٰ گئے کوہ طور پر چالیس دن لگ گئے پیچھے اپنے بھائی ھارون (ع) کو چھوڑ گئے، عوام سامری کے جال میں پھنس کر بچھڑے کو پوجنے لگے، مسلمان سے مشرک ہوگئے لوگ! غور کیجیئے گا لوگ شرک پر اتر آئے، موسیٰ (ع) جب چالیس دن بعد آئے دیکھا ساری محنت پر پانی پھر چکا ہے جو دیندار تھے اب مشرک بن چکے ہیں، ھارون (ع)کو پکڑ لیا کہ یہ کیا کردیا؟ تمہیں میں نے ان کی حفاظت پر جانشین بناکر چھوڑا تھا یہ مشرک بن گئے اور تم ۔۔۔ ھارون (ع) کا جواب قرآن کی آیت ہے "قال یا ابن ام لا تاخذ بلحیتی والا برأسی أنی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل" (1) اے میرے بھائی! میری نہ داڑھی پکڑو نہ سر میں ڈرتا تھا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ " فرقت بین بنی اسرائیل" تم نے بنی اسرائیل کے اندر تفرقہ ڈال دیا، پھوٹ ڈال دی، ان کی وحدت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ۔ ثابت ہوا کہ ھارون (ع) لوگوں کو مشرک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن وحدت ، اتحاد کو خراب نہیں کر رہے۔ یہ وحدت کی اہمیت!

اس کی ایک جھلک علی (ع) کی زندگی میں ملتی ہے ، محمد (ص) کے قول کہ علی (ع) تمہیں مجھ سے وہ نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی کو سچا ثابت کرتے ہوئے تاریخ انسانیت میں محمد (ص) کے بعد دنیا کا عظیم ترین انسان علی (ع) 25 سال خاموش رہتا ہے! منبر رسول پر کوئی اور آکر بیٹھ گیا، عبائے خلافت کھینچ کران سے چھین لی گئی، بیوی کی ملکیت غصب ہوئی اور۔۔۔ لیکن خاموش! کیا علی (ع) نے ان پچیس سالوں میں کوئی پیغام نہیں دیا؟؟؟ سننے والوں نے ایک ایک پیغام سنا علی (ع) جن کی کانوں میں محمد (ص) کی طرف سے بیان کی جانے والی علی (ع) کے فضائل کی صداؤں کا انعکاس گونج رہا تھا انہوں نے ان پچیس سالوں کی خاموشی میں پچیس لاکھ پیغاماتِ وحدت سنے! علی (ع) کی خاموشی میں وحدت کے فصیح و بلیغ پیغامت پنہاں ہیں۔

ھارون (ع) نے ثابت کیا کہ شرک ہورہا ہو پھر بھی اتحاد بین المسلمیں تو دور اتحاد بین الناس کو بھی ملحوظ خاطر رکھ کر خاموش رہو، علی (ع) نے ثابت کیا کہ اتحاد بین المسلمین کی خاطر غاصبوں کی دربار میں جاکر ان کی مشکلات میں ان کی مدد کرو حتی کہ وہ خود کہنے پر مجبور ہو جائیں لولا علی۔۔۔! ھاں علی (ع) نے تلوار اٹھائی! مجبور ہوکر جب تلوار نکالی جب اس پر چارون طرف سے تیر و تبر کی یلغار ہوئی لیکن اپنے اور خلافت اسلامیہ کے دفاع میں تلوار میان سے باہر نکالنے سے قبل علی (ع) نے معاویہ جیسے شاطر ترین انسان سے بھی مذاکرات کی بات کی  اور اسے اپنے ایک خط میں لکھا "۔۔۔ و اقبل الی فی وفد من اصحابک" (2) اور اپنے مصاحبوں کا وفد لے کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ! یہ علی (ع) ہیں وحدت اسلامی کے علمبردار کہ معاویہ جیسے شاطرو چالاک وعیاش و غیر عادل و غیر منصف شخص سے بھی مذاکرات اور اتحاد چاہتے ہیں۔۔۔

اب ذرا پاکستان کی شیعہ قیادت پر نظر گھماتے ہیں ایک تھے، ایک تنظیم تھی، ایک سیاسی پلیٹ فارم تھا، ایک نعرہ تھا، ایک پرچم تھا، ایک قائد تھا پھرکچھ نوجوان، کچھ بچے عقل کے کچے، ھوش سے زیادہ جوش سے کام لینے والے جوکبھی خود اپنے قائد پر جان قربان کرنے پر تلے ہوا کرتے تھے،جنہوں نے "قائد کے فرمان پرجان بھی قربان ہے" کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے خراب کردیئے، ایک دن ناراض ہو کر جوش میں آکر الگ تنظیم بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اتحاد کی دھجیاں اڑنے لگتی ہیں۔ بچوں نے بچپنا کیا مگر باپ خاموش ہے! علی (ع) جو اتحاد کی بحالی کو ملحوظ خاطر رکھ کر خاموش تھا اس کا وارث اتحاد کے بگڑنے پر خاموش ہے! ، ان جوشیلے بچوں نے مزید مایوس ہوکر الگ تنظیم بنا ڈالی تب بھی علی (ع) کا وارث خاموش ہے، جلسے کرنے لگے تب بھی علی (ع) کا وارث خاموش ہے،  اور بالاخر باقائدہ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تب وحدت کے علمبرادار علی (ع) کے وارث کی آنکھ کھلتی ہے اور افسوس! بجائے اس کے کہ علی (ع) کہ جس نے معاویہ جیسے قبیح ترین انسان کو بھی مذاکرات کی دعوت دی، کی سنت پر چلتے ہوئے ان بچوں شفقت کا ہاتھ رکھ کر ان کی شکایتوں کا ازالہ کرتے، باپ نے ان کے خلاف نفرت اگلنا شروع کردی۔

ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے جب ہمارے قائد صاحب کے چاہنے والے ہمارے برادران عزیز ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ ہمارے قائد صاحب بڑے با بصیرت ہیں اور مفاہمت کی صلاحیتیں تو ان کی شخصیت میں اتنی ہیں کہ کل تک کافر کافر شیعہ کافر کہنے والے بھی آج آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ماشا اللہ! اس کے ہم انکاری نہیں ہم خوش ہوتے ہیں جب سیاہ عمامے میں ہمارے قائد کے پیچھے یہ لوگ نماز ادا کرتے ہیں یہ بیشک آپ کی مفاھمتی صلاحیتوں کی بہت بڑی سند ہے لیکن کیا یہ مفاھمتی صلاحتیں صرف اتحاد بین المسلمیں کیلئے بروئے کار لائی جاسکتی ہیں اتحاد بین المومنین کیلئے نہیں؟ کیا مفاھمت پسندی و اصلاح پسندی وحدت پسندی و مذاکرات پسندی و گفت و شنید کے علمبردارپر قوم کے قائد ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی کہ پہلے اپنے گھر کے ناراض بچوں کو اپنے ساتھ لے پھر باھر جاکر لوگوں کو گلے لگائے؟ کیا ان بچوں کی شخصیت معاویہ سے بھی گئی گذری ہے؟ کیا ان کلیئے نبی (ص) نے عمار یاسر کی شہادت کا اشارہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ باغی گروہ ھے؟ کیا انہوں نے کسی معصوم کی بیعیت سے انکار کیا تھا؟ کیا ان بچوں نے کسی معصوم پر خلیفائے ثالث کے قتل کا الزام لگایا تھا؟ تو پھر ان سے مذاکرات کیوں نہیں؟ علی (ع) نے معاویہ کو لکھا وفد لے کر آؤ میرے پاس مذاکرات کریں، آپ علی (ع) کے وارث ہو قوم کو بتائیے کتنے خطوط لکھے اپنے بچوں کو کہ بیٹا آؤ اپنا وفد لیکر ، آؤ اپنے تحفظات بتاؤ، آؤ میں ہوں تمہارا باپ میں تم سے زیادہ بصیرت رکھتا ہوں، تجربہ رکھتا ہوں، میں بڑا ہوں تم جوش سے کام مت لو ہوش کے ناخن لو ۔ تنظیم گھر کی مثل ہے باپ کی ڈانٹ سے بیٹا گلی میں جاکر بیٹھ جاتا ہے تو شام کو اسی باپ کی محبت اسے گھر میں لاتی ہے اور ایک ہی دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتی ہے۔

کہاں ہے وہ ہارون (ع) کی وحدت کا درس لینےوالا کہ جو شرک سے زیادہ تفرقے کو قوم کیلئے خطرناک سمجھتا ہے؟ کہاں ہے علی (ع) جیسا باپ؟ وہ وحدت کا علمبردار باپ؟ وہ اتحاد کا دائی باپ؟ وہ بچوں کو آغوش میں سمیٹ کررکھنے والا باپ؟ وہ حقیقی وارث ھارون و محمد (ص)؟ کہاں ہے وہ قائد جو قوم کی کشتی سے گرنے والوں کا ہاتھ تھام کر انہیں پھر سے کشتی میں سوار کرے جیسے علی (ع) نے معاویہ کو اسلام کی کشتی سے گر کر باطل کے سمندر میں غرق ہونے سے بچانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تھا اور ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اس کی اصلاح ہو؟ کہاں ہےاس قوم کا باپ؟ کہاں ہے ہر روز لاشے اٹھانے والی قوم کا باپ جس کے بچے تتر بتر ہوگئے، جسے کے جوان مارے جا رہے ہیں، جس کی بیٹیوں کی آنھیں گھر کی چاردیواری میں مقید ہوکر رہ گئیں؟ جس قوم کا باپ نہ ہو اسے یتیم کہتے ہیں اور بے سر و سامانی یتیم ہی کا مقدر ہوا کرتی ہے۔

 

(1)    سورہ طہ آیت نمبر 94

(2)    نھج البلاغہ مکتوب نمبر 75،  ص: 811، اردو ترجمہ الحاج ملک صادق علی عرفانی، طبع لاہور

 

www.facebook.com/arezuyeaab

دو بادشاہ

 

دو بادشاہ

تحریر: محمد زکی حیدری

 

حضور ایسا ہے کہ دور قدیم کی ایک ریاست میں دو بادشاہ تھے ایک کا نام ردیح تھاجو کہ انصاف پسند تھا خدا سے ڈرنے والا، بلکہ اس کا پورا خاندان ہی اچھا تھا اور اس کے مقابلے میں جو دوسرا بادشاہ تھا جس کا نام ہیواعم تھا وہ بدنام زمانہ تھا ظالم تھا، مفادپرستی  و منافقت اس کے آباو اجداد کی میراث کے طور پر اسے ملی تھی۔ ردیح صاحب کی رعایا بڑی جوشیلی تھی، یہ جب ردیح بادشاہ کی دربار میں آتی تو کہتی تھی بادشاہ سلامت حقیقی بادشاہ آپ ہیں ہیواعم ظالم ہے اپنے منہ بادشاہت کا دعویٰ کرتا هے, اس میں اہلیت ہی نہیں، یہ ظالم ، یہ غاصب یہ۔۔۔ آپ ظل الٰہی، آپ خدا کامظہر، آپ یہ آپ وہ۔۔۔ ان کی محبت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب ردیح بادشاہ کا جنم دن ہوتا تو پورے شہر کو مشعلوں سے روشن کرتے اور بڑے بڑے خطباء، شعراء، قصیدہ خواں بلا کر ردیح بادشاہ کی شان میں محافل منعقد کرتے اس کے برعکس یہ ہیواعم بادشاہ کی دشمنی میں اتنے آگے جاچکے تھے کہ انہی محافل میں سرعام ہیواعم اور اس کے چاہنے والوں  پر لعنت کرتے تھے۔ لیکن جب بھی ردیح کی دربار سے باہر نکلتے تو ردیح کی عملی مخالفت کرتے تھے اور ہیواعم سے عملی موافقت!

 ردیح نے ان سے کہہ رکھا تھا زنا مت کرنا، سود مت کھانا، رشوت مت لینا ، جھوٹ مت بولنا حتیٰ کہ ہیواعم کے لوگ تم سے بدتمیزی کریں تو بھی انہیں حسن ظن دکھانا لیکن یہ لوگ باہر جاکر ہر وہ کام کرتے جس سے ردیح نے انہیں منع کیا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ  اس وقت بھی ان کی زبان پر ردیح بادشاہ کی تعریف و توصیف جاری رہتی!!! حیرت تو تب ہوتی  کہ جب ردیح کی دربار میں ردیح سے وفاداری اور عشق کا دم بھر کے جوں ہی باہر نکلتے تو سیدھے ہیواعم کے چاہنے والوں کے ساتھ مل کر ہیواعم کے پسندیدہ کام یعنی شباب و غنا کی محافل سجایا کرتے لیکن اس وقت بھی ان کی "زبان" پر تعریف و توصیف و فصائلِ ردیح ہی جاری رہتے۔ ردیح کے کچھ سچے ساتھی ان سے کہتے کہ بھائی یہ کیا بات ہوئی تم تو زبان سے ردیح کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن عمل میں تو ہیواعم باد شاہ کی بتائی ہوئی نحس باتون پر چلتے ہو، اور انہی کے ساتھیوں کے ساتھ نظر آتے ہو! تو وہ کہتے تم لوگ منافق ہو تمہیں ہمارے بادشاہ ردیح کی تعریف گراں گذرتی ہے ہم تو ردیح کے دشمنوں پر لعنت بھیجتے ہیں صبح شام،  تم وہ ہو جو چاہتے ہو کوئی ردیح بادشاہ کی تعریف نہ کرے۔۔۔ اور یہ کہہ کر یہ لوگ ردیح بادشاہ کے سچے ساتھیوں کو "رصقم" کے لقب دیتے اور ردیح کے سچے ساتھی انہیں "یلاغ" کہہ کرپکارتے۔۔۔

میرے عزیز شیعہ بھائیو! آپ کو ردیح کے ان زبانی دعویدار درباریوں پر بہت غصہ آیا ہوگا بیشک آنا چاہیئے یہ فطری عمل ہے! لیکن آپ سے عرض ہے کہ ان دونوں بادشاہوں کے ناموں اور ردیح بادشاہ کے ماننے والے دو گروہوں کو ایک دوسرے کو دیئے ہوئے القاب کو الٹا پڑھیئے تو آپ کو قصہ سمجھ آئے گا کہ یہ دور جہالت کے کسی بادشاہ کی رعایا کی کہانی نہیں بلکہ 21 ویں صدی کے پاکستانی شیعوں کی ہی کہانی ہے !!! کوئی ردیح بادشاہ نہیں یہ "حیدر" ہے اور نہ کوئی " ہیواعم" بادشاہ ہے بلکہ یہ معاویہ ہے اسی طرح جو دو گروہ ہیں انہیں الٹا پڑھیئے تو "مقصر" اور "غالی" ہی بنتے ہیں!

میں نے ایسا کیوں کیا؟ تاکہ آپ کو یقین دلاؤں کہ ہمارے پاکستان کے شیعوں کی کہانی 21 ویں صدی نہیں بلکہ دور جہالت کے قدیم بادشاہی دور میں بھی لے کر "فٹ" کردی جائے تو بھی آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا۔ خدارا یا تو قول و فعل میں حیدر (ع) کے ہوجاؤ یا قول و فعل میں معاویہ کے۔ صرف امام بارگاہ میں حیدر حیدر کرنے سے کچھ نہیں ملے گا۔۔۔

ہم علی (ع) کوامام بارگاہ میں  چھوڑ کر آجاتے ہیں، وہاں علی (ع)  کے محب ہوتے ہیں لیکن جیسے  باہر نکلے آفیس گئے رشوت لیتے وقت نوٹوں کو دیکھتے ہیں علی (ع) کو نہیں ، بیٹے بیٹی کا رشتہ کرتے وقت داماد و بہو میں بنگلے، گاڈی، بنک بیلنس دیکھتے ہیں علی (ع) کو نہیں دیکھتے، ٹی وی دیکھتے وقت ہم ہندوستانی چینلز میں موجود فیشن کو دیکھتے ہیں علی (ع) کو نہیں دیکھتے، لڑکے لڑکیاں اپنا ہمسر پسند کرتے وقت خوبصورتی و مال و زر و۔۔۔ کو دیکھتے ہیں علی (ع) کو نہیں دیکھتے، ووٹ ڈالتے وقت کسی خبیث بھائی، کسی منحوس وڈیرے، کسی مکروہ  پیر، کسی جاہل چودھری، کسی ظالم سردار کا انتخابی نشان دیکھتے ہیں علی (ع) کو نہیں دیکھتے۔۔۔

 بس کردو یار!!! خدا کو مانو!!! اب تو سدھر جاؤ یہ اکسویں صدی ہے دوستو! دنیا کے شیعہ کہاں جا پہنچے اور آپ ابھی تک علی (ع) و حسین (ع) کو "رسمی"  امام بناکر بیٹھے ہیں، مخصوص دنوں تک محدود علی (ع)، مخصوص عمارتوں تک محدود علی (ع) ، مختلف جلوسی سڑکوں تک محدود حسین (ع)۔۔۔۔ هم نے لامحدود شخصیات کو محدود بنا دیا اور خوش هوتے ہیں، فخر کرتے ہیں!!!  بس مسجدوں و امام بارگاہوں میں حیدر حیدر ہے مگر زندگیوں میں نہیں۔۔۔  علی (ع) کو صرف امام بارگاہ میں مت لاؤ علی (ع) کو زندگی میں لاؤ۔ جنت اس کی جس کی "زندگی میں" علی (ع)ہوگا۔

 

www.fb.com/arezuyeaab