بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 


میں نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر اس سے کہا: "دیکھو بھیا یہ جو سونے کی انگوٹھی میرے ھاتھ میں رکھی ہے، یہ اصلی سونے کی بنی ہے." بولا "وہ کیسے؟" میں نے کہا "میں نے شہر کے سب سے پرانے و تجربیکار ترین سونار کہ جس کی داڑھی اس کام میں سفید ہوئی ہے، سے معلوم کیا ہے، اس نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کہ ہے."
اس نے جو کہا وہ سننے کے بعد میں حواس باختہ ہوکر خاموش ہوگیا، اس نے کہا"جاؤ میاں! وہ کیا جانے سونے کے بارے میں، میرے پڑوس کے لوہار نے کہا ہے کہ یہ سونا نہیں، سو یہ انگوٹھی نقلی ہے."

ہمارے پاکستانی و ھندوستانی عزاداروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، ہمارے کچھ محترم دوست ایک مجتہد جس کی داڑھی قول و قال کرتے کرتے سفید ہوئی، کی بات یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ ہمارے ذاکر صاحب کہتے ہیں یہ بات غلط ہے!
آج کل کئی منبر نشین، جو کسی مستند علمی درسگاہ کے سند یافتہ نہیں ہیں، عوام کو اپنی اس قسم کی باتوں سے عقائدی جھانسا دے رہے ہیں. میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ذاکر و خطیب برے ہیں، بلکل نہیں! بہت سے ذاکر جب ہم سنتے ہیں تو ان کے پڑھنے سے لگ رہا ہوتا ہے کہ بیشک بیچارے کم علم رکھتے ہیں مگر مولا (ع) کی محبت سے سرشار ہوکر ڈیوٹی دے رہے ہیں. میں ھر گز ان ذاکروں و خطیبوں کی بات نہیں کر رہا بیشک مدرسے کے پڑھے نہیں مگر ذکر اھلبیت (ع) کرتے ہیں یہ لوگ محترم ہیں، لیکن کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو منبر پر بیٹھنے لگی ہیں ایسے منبر نشینوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مراجع عظام حوزہ علمیہ قم و نجف سے تو ناراض رہتے ہی ہیں، لیکن ایک اصطلاح بھی بڑے زور و شور سے استعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ "ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے."

مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی، کیونکہ میں نے جب اپنے ملک و ھندوستان میں عزادری دیکھی تو مجھے تقریباً ھر چیز ایران سے لی ہوئی نظر آئی. جب میں نے ذاکر کو کھڑے ہوکر یا منبر پر بیٹھ کر مصائب امام حسین (ع) بیان کرتے دیکھا تو مجھے گیارھویں ھجری صدی کا ایرانی صفوی دور یاد آیا، جی ہاں! یہ ایران کے صفوی سلطان ہی تھے جنہوں نے "روضہ خوانی" یعنی مجلس کے اس طریقے کو منظم طور رائج کیا. آپ دعبل خزائی وغیرہ کی مثال بیشک دیں مگر آج کے طرز پر منظم طور مجلس پڑھنے کی جڑیں صفوی دور میں ہی پیوستہ نظر آتی ہیں. بقول شہید مطہری (رض) کے کہ روضہ خوانی اصل میں روضۃ الشھداء خوانی ہے. روضۃ الشھداء دسویں صدی میں لکھی گئی مصائب امام حسین (ع) پر مشتمل ایک کتاب کا نام ہے جسے ہاتھ میں لے کر ایک ذاکر پڑھا کرتا تھا اور عوام گریہ کرتی تھی. بعد میں یہ کتاب و طریقۂ مجلس ایران سے ھندوستان منتقل ہوا.
اسی طرح جب میں نے تعزیہ برداری دیکھی تو مجھے پھر صفویوں کا دور یاد آیا، مجھے صفوی سلطان شاہ اسماعیل و شاہ زمان کے عالیشان تعزیے یاد آئے جن کا مغربی مورخین نے بھی اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے. "تعزیہ یا شبیہ خوانی" یعنی باقائدہ تھئیٹر پر ڈرامے کی صورت میں واقعۂ کربلا کو عوام کے سامنے پیش کرنا صفوی دور کی دین ہے، جو ایرانی قاجاریوں کے دور حکومت میں زور پکڑ کر اب تک ایران میں رائج ہے، مگر جب یہ تعزیہ خوانی ھندوستان پہنچی تو تھئیٹر ڈرامہ کی صورت تبدیل ہوگئی، اس میں سے اداکار نکل گئے باقی ذوالجناح، علم، عماریاں، تابوت وغیرہ رہ گئے.
جب میں جلوس و نیاز کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسی صفوی دور میں ایران کا شہر اردبیل یاد آتا ہے، جس کی پانچ سڑکیں تھیں اور ھر سڑک سے مختلف قسم کے جلوس نکل کر ایک بڑے سے میدان میں آتے جہاں ان عزاداروں کیلئے حاکم شاہ زمان کی طرف سے خوشبودار شربتوں اور کھانے کا انتظام کیا ہوا ہوتا تھا. بقول مغربی مورخین کے شاہ خود بھی اس بڑے سے میدان میں موجود ہوتے جہاں یہ لنگر کا دسترخوان لگایا جاتا.
آگ پر ماتم کی جڑیں ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو وہ بھی مجھے ایران کے ترک نژاد و بقول بعض مورخین کے، ایرانی آتش پرستوں کے شیعہ ہونے سے متعلق افسانوں میں ہی نظر آتی ہیں. مختصراً یہ کہ ہمارے برادران نے عزاداری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تمام مادی و معنوی اشیاء ایران سے لے رکھی ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی رہتا ہے کہ ہمیں ایرانی تشیع نہیں چاہیئے! ایسا کیوں ہے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں *صفوی سلطانوں* کی تخلیق کردہ رسمی عزاداری چاہیئے، اگر کوئی رسم ایران سے ملے تو ہم لے لیں گے، ذوالجناح ملے تو ایران سے لے لیں گے، تعزیہ ملے تو صحیح، قمعہ زنی، زنجیر زنی، آگ کا ماتم، مجلس....
ٹھیک ہے ہمیں قبول! ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ چیزیں بے ارزش و فضول ہیں، ھر گز نہیں! یہ شعائر حسینی ہیں ہمیں ہماری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں مگر! ہمارا عرض صرف اتنا سا ہے کہ جہاں آپ نے کل کے *صفوی ایران* سے عزاداری لی اسی طرح آج کے *خمینوی ایران* سے انقلاب بھی لیں، اس خمینوی ایران نے اس وقت دنیا کے ظالموں و طاغوتی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے، ساری دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ مکتب اہلبیت (ع) میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ مدرسے میں پڑھنے والے مولوی پورا ملک چلا رہے ہیں، نہ صرف چلا رہے ہیں بلکہ دنیا کے سارے ظالموں سے نبرد آزما بھی ہیں اور مطلوموں کی حمایت بھی کر رہے ہیں. ہم نے *صفوی ایران* سے بہت کچھ لے رکھا ہے لیکن شیخ ابراہیم زکزاکی (حفظہ اللہ) نے *خمینوی ایران* سے ایسی عزاداری لی کہ اپنے ملک میں ڈیڑھ کروڑ سنیوں و وہابیوں کو شیعہ کر دیا، لبنان والوں نے *خمینوی ایران* سے عزت و وقار و مقاومت سے جینے کا درس لیا، یمن کے زیدیوں نے *خمینوی ایران* سے تاثیر لی اور سالوں پرانی سعودی بادشاہت کے خلاف ڈٹ کر اسے چنے چبوا دیئے ، شام و عراق والوں نے جب *خمینوی ایران* کی بات پر لبیک کہا تو داعش کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مار کر ان کا صفایہ کردیا، عمان میں سالوں بعد سرکاری ٹی.وی پر علی ولی اللہ کی اذان سنائی دی، قطیف میں سعودی بکتر بند گاڑیوں کو جلتا دیکھا گیا، ساری دنیا کے سنی شیعہ *خمینوی ایران* سے عزاداری لے کر جینا سیکھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک *صفوی ایران* کی تقلید کر رہے ہیں اور کوئی کہے کہ *خمینوی ایران* سے بھی کچھ لے لو تو ہم کہتے ہیں "ہمیں ایرانی شیعیت نہیں چاہیئے.

arezuyeaab.blogfa.com