بڑا آسان ہے کاظم کہہ دینا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



بڑا آسان ہے کاظم کہہ دینا



از قلم: محمد زکی حیدری

 



امام موسیٰ کاظم (ع) کو ہم نے کہہ دیا وہ کاظم تھے، غصہ پی جانے والے... ہم نے کہہ دیا اور گذر گئے یہ نہ سوچا کہ کاظمی ہونے کا مطلب غصہ پینے والا ضرور ہے مگر دکھ برداشت کرنے والے نہیں...
جب ایک شریف امام کے پیروکار اسے تنہا چھوڑ دیں اور اس بے وفائی کی وجہ سے حاکم وقت اسے قید و بند کی صعوبتیں دے تو اس درد کو برداشت کرنے کیلئے کاظمی ہونا مددگار ثابت نہیں ہوتا...
جب ایک شریف باپ، کہ جس کے گھر میں جوان بیٹیاں ہوں اور حکومتی کارندے اس کے گھر پہ منڈلاتے رہیں تو وہاں پر کاظمی ہونے سے رنج و الم میں کمی نہیں آتی...
سوچیئے تو ذرا! دل تھام کر سوچیں! آج کل کسی باپ کی ایک جوان بیٹی ہو تو اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے، تو جس شریف انسان کی ۱۹ یا ۲۳ جوان بیٹیاں جو کہ ہر جوان لڑکی کی طرح شادی کی خواھش رکھتی ہوں اور ان کا باپ ان کے ارمان پورے نہ کر پائے تو وہاں کاظمی ہونا کام نہیں آتا...
جب ایک معصوم ابن معصوم کو جیل میں بند کر کے اس کال کوٹھڑی میں عرب کی بدکار عورت کو بھیجا جائے اور یہ خبر عوام میں پھیلائی جائے تو اس اہانت پر کاظمی ہونا کسی کام نہیں آتا...
جب معلوم ہو کہ ایک عابد و زاھد و متقی و پرھیزگار شخص غنا و موسیقی سے نفرت کرتا ہے تو اسے عیسی بن جعفر کے گھر میں نظر بند کر کے وہاں پہ رقص و غنا کی آوازوں سے اسے اذیت دی جائے تو اس درد کو برداشت کرنے کیلئے صفت کاظمی کسی کام کی نہیں...
اور...
مجھے نہیں معلوم یہ روایت کتنی مستند ہے مگر ایک دو ایرانی سائیٹس پر نظر سے گذری...
ذرا دل تھام کر پڑھیئے گا عباسی دور میں ابوالعَتاہیہ نامی ایک ایرانی تھا لیکن عربی زبان میں شاعری کرتا تھا. ابوالعتاہیہ ایک عرصے سے ہارون الرشید کے دربار میں نہیں گیا تھا لیکن ایک دن ھارون رشید کے کہنے پر جعفر برمکی انہیں ھارون کی دربار میں لے آیا. ابوالعتاہیہ سے کہا گیا کہ شعر پڑھو. اس نے اشعار سے ھارون رشید کو خوش کردیا. جب ھارون اشعار سن کر بہت خوش ہوا تو ابوالعتاہیہ سے کہنے لگا مانگو جو مانگنا ہے. ابو العتاہیہ کہنے لگا ہارون! نہ مال چاہیئے نہ منصب! میرے مولا کب سے تیری قید میں ہیں، مدینے میں ان کے بچے ان کے منتظر ہیں. اگر دے سکتے ہو تو میرے مولا (ع) کی آزادی کا حکم دے دو. ھارون نے اس کی بات مان لی، آزادی نامہ لے کر یہ عاشقِ امام (ع) دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے تیزی سے قیدخانے کی طرف جا رہا ہے کہ اس نے آج رسول اللہ (ص) و زہراء (س) کا دل خوش کیا ہے، جب قیدخانے پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ چار لوگ ایک جنازہ لے کر آرہے ہیں. سوال کرتا ہے کہ یہ کس کا جنازہ ہے.... جواب ملتا ہے کہ شیعوں کے ساتویں امام کا...

جنــت، پــادری اور امام محمد باقـــر (ع)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



جنــت، پــادری اور امام محمد باقـــر (ع)



امام محمد باقر (ع) دمشق میں اپنے فرزند کے ساتھ ایک جگہ سے گذرے اور دیکھا کہ خلیفہ وقت ھشام بن عبدالملک کے محل کے سامنے جم غفیر موجود ہے. امام نے معلوم کیا یہ کون لوگ ہیں اور کیوں یہاں جمع ہیں. جواب ملا کہ یہ سارے عیسائی پادری ہیں اور آج سب سے بڑا پادری (پاپ) آکر ان سے خطاب کرے گا یہ سب اس کے دیدار کیلئے جمع ہیں. امام بھی خاموشی سے آکر اس مجمعے میں بیٹھ گئے. تھوڑی دیر بعد ایک نہایت ہی کمزور، بوڑھا سا سفید ریش شخص لوگوں کے جھرمٹ میں آتا دکھائی دیا. جب اس پادری کی امام کے چہرے پہ نگاہ پڑی تو کہا:
*پــــادری:* تم ہم عیسائیوں میں سے ہو یا مسلمان؟
*امــــام:* مسمان ہوں.
*پـــادری:* ان کے علماء میں سے ہو یا نادان افراد میں سے؟
*امـــام:* نادان افراد میں سے نہیں ہوں!
*پـــادری:* پہلے میں سوال کروں یا آپ؟
*امـــام:* اگر چاہیں تو آپ سوال کر سکتے ہیں.
*پـــادری:* *تم مسلمان کس بنیاد پر یہ دعوا کرتے ہو کہ اہل بہشت کھاتے ہیں، پیتے ہیں مگر انہیں رفع حاجت کی ضرورت پیش نہیں آتی؟ کیا ایسی مثال دنیا کی زندگی میں بھی دے سکتے ہو؟*
*امـــام:* جی! اس دنیا میں اس کی روشن مثال رحم مادر ہے کہ جس میں بچہ کھاتا پیتا ہے مگر رفع حاجت نہیں کرتا.
*پـــادری:* تم نے تو کہا تھا کہ تم مسلمانوں کے علماء میں سے نہیں ہو پھر ایسا جواب کہاں سے لائے؟
*امـــام:* میں نے ایسا نہیں کہا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ میں نادان افراد میں سے نہیں!
*پـــادری:* *تم لوگ کس بنیاد پر یہ دعوا کرتے ہو کہ جنت کے میوے اور نعمتیں جتنا استعمال کرو ختم نہیں ہوں گے. کیا اس دنیا سے ایسی کسی چیز کی مثال پیش کر سکتے ہو؟*
*امـــام:* جی! اس دنیا میں چراغ کا شعلہ اس کی مثال ہے. ایک جلتے ہوئے چراغ کے شعلے سے ھزاروں چراغ جلا لو مگر وہ شعلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اس میں ذرا بھی کمی نہیں آتی.

پادری نے جو سوال کیئے امام نے منطقی جواب دیئے. آخر میں پادری کو غصہ آگیا، اپنے چیلوں سے کہنے لگا کہ تم نے اس شخص کو بلوا کر مجھے رسوا کیا ہے جب تک میں زندہ ہوں تم میری شکل نہ دیکھو گے. یہ کہہ کر وہ ناراض ہو کر جانے لگا.

حوالہ: دلائل الامامہ (ص ۱۰۵-۱۰۷)

حجـــاج بن یوسف کے دماغ کی بتی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



حجـــاج بن یوسف کے دماغ کی بتی



حجاج بن یوسف حافظ قرآن تھا. اسے پتہ چلا کہ عراق کا بوڑھا فقیہ یحیٰ بن یعمر اپنی کتب میں حسنین (ع) کو "یابن رسول اللہ" لکھتا ہے. حجاج نے حکم دیا اس بوڑھے کو ذرا دربار میں پیش کرو. اسے میں سبق سکھاتا ہوں. یحی کو پابند رسن حجاج کی دربار میں پیش کیا گیا. حجاج نے کہا یحی بن یعمر بتاؤ کیا وجہ ہے کہ تم حسنین (ع) کو رسول کا بیٹا کہتے ہو جب کہ قرآن کہتا ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم محمد تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے. (احزاب ۴۰)
یحی نے کہا میں انہیں اولاد فاطمہ (س) ہونے کی بنیاد پر ابن رسول کہتا ہوں. حجاج نے کہا یحی بن یعمر! اولاد باپ سے چلتی ہے ماں سے نہیں. یعمر نے کہا قرآن سے ثابت کرونگا. حجاج نے کہا اگر تم نے جواب دیا تو انعام دونگا اگر نہیں تو میں تمہیں قتل کرنے کا مجاز ہوں. یحی نے کہا قبول ہے مگر کیا تم حسنین (ع) کو اولاد پیغمبر نہیں مانتے؟
حجاج بولا نہیں. یحی نے کہا قرآن میں سورہ انعام کی آیت چوراسی پڑھو
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ *ذُرِّيَّتِہٖ* دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۴ۙ
 
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی *اور ان کی اولاد میں سے* داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں.

یحی نے کہا اس میں اولاد ابراھیم (ع) کی بات ہو رہی ہے نا؟
حجاج بولا جی! یحی نے کہا اگلی آیت پڑھو

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے.

یحی نے کہا عیسی (ع) کیسے اولاد ابراھیم (ع) ہے جب کہ ان کا تو باپ نہیں تھا...؟؟؟
تم کہتے ہو اولاد باپ سے چلتی ہے ... قرآن اگر عیسی (ع) کو بغیر باپ کے کئی پشتوں کے بعد بھی اولاد ابراہیم (ع) کہہ رہا ہے تو حسن و حسین (ع) تو رسول (ص) کے بہت قریب تھے وہ کیوں یابن رسول اللہ نہ کہلوائیں...

حجاج کے دماغ کی بتی :bulb:جل گئی اس نے کہا اسے آزاد کر دو، جانے دو. بعض روایات کے مطابق حجاج کو وعدے کے مطابق مجبور ہوکر اسےطانعام بھی دینا پڑا.

حوالہ: احتجاجات-ترجمه جلد چهارم بحار الانوار، ج‏۲، ص: ۱۴۵

ملتمس دعا: محمد زکی حیدری

آل سعود کو للکارنے والے حرم امام علی (ع) کی تعمیر تاریخ کے آئینے میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



*آل سعود کو للکارنے والے حرم امام علی (ع) کی تعمیر تاریخ کے آئینے میں*



تحریر: محمد زکی حیدری



ایک سرپھرے شخص کو فیکٹری مالک نے نوکری سے نکال دیا، وہ سر پھرا ہفتے میں ایک دو بار رات کو چوری چھپے فیکٹری مالک کے گھر کے سامنے رفع حاجت کرکے بھاگ جاتا تھا، ایک دن پکڑا گیا جب اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ کام کیوں کرتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ میں فیکٹری مالک کو بتانا چاہتا ہوں کہ رازق اللہ (ج) کی ذات ہے تم نے مجھے نوکری سے نکال دیا تو میں بھوکا نہیں مر رہا. آج بھی مجھے اللہ (ج) رزق دے رہا ہے.

آپ شاید تعجب کریں کہ آٹھ شوال یوم انہدام جنت البقیع ہے اور مجھ کوڑ مغز کو کیا ہوا کہ میں حرم امیر المومنین (ع) کی تاریخ لکھنے بیٹھ گیا. میں بھی سر پھرا ہوں، شیعان حیدر کرار کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مایوس نہ ہوں اور سعودی ملعونوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے ایک جنت البقیع کو منہدم کیا تو کیا اہل بیت (ع) کا نام مٹ جائے گا؟ ہر گز نہیں. یہ لو پڑھو کیسے ایک مخفی قبر آج کروڑوں کی زیارت گاہ ہے.

امیر کائنات (ع) کی قبر کے بارے میں یہ تو واضح امر ہے کہ ان کی قبر مدت دراز تک مخفی رہی، پھر ایک قصہ ہارون رشید کا ملتا ہے کہ وہ شکار پہ تھا کہ اس کے شکاری کتوں نے کچھ ہرنوں کا پیچھا کیا جب وہ ہرن ایک مقام پر پہنچی تو شکاری کتے آگے نہ جا سکے، اس پر ہاروں رشید نے تحقیق کی تو اسے پتہ چلا یہ امیر المومنین (ع) کی قبر ہے. بعض کے بقول امام جعفر (ع) کے اشارے سے معلوم ہوا بھرحال ہمارا اصل موضوع حرم کی تعمیر ہے.

جب امیر المومنین (ع) کی قبر مبارک مشخص ہوئی تو اس وقت نشان کے طور پر کچھ سیاہ پتھر اس پر رکھے گئے. قبر مبارک پر باقائدہ ایک عمارت کی تعمیر کا کام 283 ھجری میں موصل (عراق) کے حاکم ابوالہیجاء نے شروع کیا، اس نے ایک عظیم الشان مزار بنایا جس کے ہر طرف دروازے تھے، اس کے علاوہ بہترین فرش اور اعلی قسم کے پردوں سے بارگاہ اقدس کو مزین کیا.

عضدالدولہ دیلمی، جو آل بوّیہ کا مشہور حاکم تھا، نے سال 356 ھجری میں حرم کی مزید توسیع کی اور امیر المومنین (ع) کی قبر پہ ضریح بنوائی. یہاں سے بعض افراد نے حرم کے اطراف میں اپنے گھر بنانا شروع کیئے اور نجف ایک چھوٹے سے شہر کی صورت افقِ دنیا پر نمودار ہوا.

خواجه رشید الدین فضل اللّه ہمدانی جو کہ ہلاکو خان کا وزیر تھا، نے 744 نے آب فرات کے پانی کو نجف و کوفہ کی طرف ایک نہر کی صورت جاری کروایا.
آٹھویں ھجری میں ھندوستان کے دو حاکمین بنام امیر فیروز اور امیر احمد اول نے بہت زیادہ نذرات حرم کیلئے وقف کیں اور اس شہر کے مشہور شخصیات کو بڑے احترام و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے. اور کہا جاتا ہے کہ ھندوستان کے ہی ایک مسلمان راجہ نے نہر کھدوائی تھی جو کہ نجف کو سیراب کرتی تھی.
یوسف عادل شاه نے سال 868
ھجری میں بیماری سے شفا پانے کیلئے ایک خطیر رقم حرم کو وقف کی.

صفوی دور حکومت میں حضرت امیر (ع) کے حرم کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ 914 ھجری میں شاہ اسماعیل کی توسط سے شروع ہوا اور شیعہ عالم دین شیخ بہائی کے دیئے ہوئے نقشوں کی مدد سے حرم کا صحن تعمیر ہوا اور صفوی دور میں یہ تعمیر و تزین اور نقد رقوم کے وقف کرنے کا سلسلہ بنا وقفے سے جاری رہا. جمادی الثانی سال 914 ھجری میں جب شاه اسماعیل صفوی زیارت امام حسین(ع) کے بعد نجف آئے تو علی (ع) کے حرم کیلئے خطیر رقم اور اہداف پیش کیئے اور تمام اوراق کو ریشمی قالینوں سے مزین کیا اور روشنی کیلئے سونے کی قندیلیں نصب کروائیں.

سال 1042 ھجری میں شاه صفی صفوی زیارت امیر مؤمنین(ع) سے مشرف ہوئے، اور اس نے حرم کو مزید توسیع دینے کا کام کروایا کیونکہ حرم زائرین کی بڑی تعداد کیلئے کافی نہ تھا. اور اس کے حکم سے فرات سے ایک وسیع و عمیق نہر کھودی گئی جو نجف تک پانی پہنچاتی تھی.

نادر شاه افشار سال 1156 ھجری میں جب زیارت حرم امیرالمؤمنین(ع) کیلئے آیا تو اس نے نجف میں اقامت کے دوران حکم دیا کہ صفوی دور میں جو سبز رنگ کی کاشی کام شیخ بہائی کے توسط سے گنبذ پر انجام پایا تھا، کو اتار دیا جائے اور اسے سونے سے بنایا جائے. اس کے علاوہ نادر شاہ نے ایک خطیر رقم بھی حرم کو وقف کی اور ایسے بیش بہا تحائف دیئے جو اب تک حرم میں موجود ہیں. صحنوں کی عالیشان تعمیر کا زیادہ تر کام بھی نادر شاہ کے دور میں ہوا. ایوان العلماء کہ جس میں بہت سے بزرگ دفن ہیں، پر کاشی کا کام بھی نادر شاہ نے کروایا.

آغا محمد خان قاجار نے سال 1211 ھجری میں حرم کو چاندی کی ضریح بنوا کر پیش کی، فتح علی شاه نے سال 1236 ھجری میں حرم کا مزید تعمیراتی کام کروایا. سال 1262 ھجری میں عباس قلی خان، وزیر محمد شاه قاجار نے دوسری چاندی کی ضریح حرم پاک کو پیش کی.

اس کے علاوہ آج تک حرم امیر المومنین (ع) کا تعمیراتی کام جاری و ساری ہے اور یہ عظیم حرم سعودی شیخوں کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جس دن جنت البقیع بھی اس طرح شان شوکت سے کرہ ارض پر ابھرے گا. ان شاء اللہ

مقتل حسین ابو مخنف مستند ہے؟

سوال: کیا اصلی مقتل ابی مخنف مفقود ہو گئی ہے ؟ اور اب جو ہمارے پاس مقتل حسین ابو مخنف سے ایک کتاب منسوب کی جاتی ہے وہ اصلی نہیں..؟

 

جواب : جی ہاں محدث نوری علیہ رحمہ لولو مرجان کے صفحہ نمبر ۱۵۰ پر لکھتے ہیں
افسوس ہے کہ اصل متقل جو بے عیب اور درست تھی وہ آج دسترس میں نہیں ہے اور موجودہ مقتل کو جسے اس مقتل سے نسبت دی جاتی ہے وہ کچھ ایسے غلط و شیعہ اصول کے منافی مطالب پر مشتمل ہے جنہیں دانا دشمن اور نادان دوستوں نے اپنے مضموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اس میں ڈال دیا ہے. اس لیئے یہ (جدید مقتل) اعتماد و اعتبار کھو بیٹھا ہے اور اس کے منفردات پر ذرا بھی اطمنان و اعتبار نہیں کیا جاسکتا(۱)

صاحب نفس المھموم مقدمے میں لکھتے ہیں
ابو مخنف لوط بن یحیی بن سعید ازدی غامدی شیخ و موجہ محدثان کوفہ میں سے تھے اور اس کی روایت مورد اطمینان ہے ......
آخر میں مقتل ابو مخنف کے بارے میں لکھتے ہیں:
طبری سے رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طبری نے جو متقل حسین کے بارے میں لکھا اس کا بہت بڑا حصہ بلکہ سارا کچھ مقتل ابو مخنف سے لیا ہے. اور ہم جب طبری کے منقولات اور اس مقتل، جو ابو مخنف سے منسوب کیا جاتا ہے، کے منقولات کو غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقتل اصل مقتل (ابو مخنف) نہیں ہے اور کسی اور مورخ قابل اعتماد کی لکھی ہوئی بھی نہیں ہے. (۲)


(۱) در کربلا چہ گذشت، (ترجمہ نفس المہموم، ص ۲۹ مقدمہ مولف

(۲) لولو مرجان، محدث نوری ص ۱۵۰

مقرر کرنا میرے اختیار میں نہیں

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

جانشین مقرر کرنا میرے اختیار میں نہیں
 
رسول (ص) ابھی مکہ میں تھے اور قریش آپ (ص) کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے. وہ دور آپ (ص) کیلئے بہت سخت اور دشوار تھا.
حرام مہینوں میں وہ لوگ رسول (ص) کو اتنا تنگ نہیں کرتے تھے یعنی جسمانی تکالیف نہیں دیتے لیکن آپ کے خلاف تبلیغ جاری رکھتے.

رسول اکرم صلی اللّه علیه و آله وسلم ھمیشہ اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے تھے جب لوگ میدان عرفات یا بازار عکاظ میں جمع ہوتے تھے. (اس دور میں بھی حج تھا لیکن زور شور سے نہیں)
رسول (ص) مختلف قبیلوں کے لوگوں میں جایا کرتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتے.
روایت ہے کہ:
وہاں ابوجھل سایے کی طرح رسول (ص) کے پیچھے چلتا
اور جو جو آنحضرت (ص) فرماتے یہ کہتا محمد (ص) جھوٹ بول رہا ہے اس کی بات پر دھیان مت دو.
ایک قبیلے کا سردار بہت عاقل و فہیم تھا جب اس نے رسول (ص) کی بات سنی تو وہ رسول (ص) کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ بندہ (محمد) اگر میرے قبیلے کا ہوتا تو لاکلت به العرب یعنی میں عرب کو کھا جاتا. مطلب اسے آپ (ص) کی قابلیت نے اتنا متاثر کیا. بھرحال اس شخص نے آپ (ص) سے کہا: میں اور میری قوم تمہارے دین پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں لیکن ہماری ایک شرط ہے وہ یہ کہ تمہارے انتقال کے بعد تمہاری جانشینی کیلئے مجھے یا میرے قبیلے کے کسی فرد کو مقرر کرو.
رسول (ص) نے فرمایا:
میرے بعد میرا جانشین کون ہوگا یہ میرے اختیار میں نہیں اللہ (ج) کے اختیار میں ہیں.
یہ روایت اھل سنت برادران کی کتاب میں بھی نقل ہوئی ہے

حوالہ جات:

امامت ، مجموعه آثار، ج 4 ص 879 و 880.
حکایتها و هدایتها در آثار شهید مطهری - محمد جواد صاحبی

 


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺

بیبی خدیجہ (س) و حضرت ابوطالب (ع) کی جنازہ نماز کس نے پڑھائی؟

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

*بیبی خدیجہ (س) و حضرت ابوطالب (ع) کی جنازہ نماز کس نے پڑھائی؟


تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری

 

ہاں تو بھئی کس نے پڑھائی؟ بولے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ظاہر سی بات ہے رسول (ص) کے ہوتے اور کس نے پڑھائی ہوگی.
ایک بڑی داڑھی والے اپنے علم کے جوہر دکھاتے ہوئے کہا حضرت بیبی خدیجہ (س) کی تو میں مانتا ہوں کہ رسول (ص) نے پڑھائی ہوگی مگر ابوطالب تو ہمارے یہاں مسلمان ہی نہیں.
لو جی! شیعہ وہابی مناظرہ شروع...
ان کو لڑنے دیں، آئیے ھم کتابیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتی ہیں:

رسول (ص) کے مدینہ پہنچنے سے ایک ماہ قبل بـراءبـن مـعرور (رض)نامی انصاری مدینہ میں انتقال فرما گئے، یہ بڑے معزز صحابی تھے، بیعیت عقبہ میں ان کا اہم کردار تھا. جوں ہی رسول (ص) مدینے آئے تو انہیں پتہ چلا کہ براء (رض) کا انتقال ہوگیا رسول (ص) ان کی قبر پر گئے اور نماز ادا کی یہ *پہلی جنازہ نماز تھی* یعنی اس سے قبل نماز جنازہ کا حکم ہی نہیں آیا تھا. شریعت محمدی کا حصہ ہی نہ تھی.

*تو بھائی جب مدینے میں پہلی جنازہ نماز پڑھی گئی، اس سے قبل نماز جنازہ کا حکم ہی نہ تھا تو مکہ میں انتقال پانے والے جناب ابوطالب (ع) اور بیبی خدیجہ (س) کی جنازہ نماز کیسے ہوسکتی ہے.*

ہاں البتہ!

مـجـلسـى رحـمه الله بحار میں فرماتے ہیں: نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ (س) کا انتقال ہوا اور وہ حجون میں دفن ہوئیں. رسـول خـدا صـلى الله عـلیـه و آله و سـلم ان کی قبر میں داخـل ہوئے مگر ان دنوں ابھی نماز جنازہ تشریع نہ ہوئی تھی: ولم یكن یومئذ سنة الجنازة و الصـلاة عـلیـهـا على هذا (۱) آنحضرت (ص) نے جناب ابوطالب علیہ السلام اور جناب یاسر و جناب سـمـیـہ دونوں شـهـداء اسلام کی جنازہ نماز بھی نہیں پڑھی تھی.
یعقوبى لکھتا ہے: جب جناب ابوطالب (ع) دنیا سے رحلت فرما گئے تو رسـول الله (ص) بہت غمزدہ ہوئے، اس وقت اپنے ہاتھ کو چار مرتبہ جناب ابوطالب (ع) کی پیشانی کے دائیں طرف اور تین مرتبہ بائیں طرف گھمایا اور فرمایا: میرے عزیز چاچا محترم! آپ نے بچپن میں میری تربیت کی اور یتیمی میں میری کفالت کی اور جب بڑا ہوا تو میرا ساتھ دیا. اللہ (ج) اس کا اجر آپ کو عطا فرمائے(۲) 

۱) بحارالانوار، ج 19، ص 21
۲) تاریخ یعقوبی ج 2 ص 21؛

*اس کے علاوہ*

 *مناقب ابن شهر آشوب، ج 1، ص 150

*شرح نهج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 14، ص 76

🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)

نمرود اِن ٹینشن

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحيم

 
💀💀 نمرود اِن ٹینشن 💀💀

 

مترجم: محمد زکی حیدری


بین النھرین (۱) کے نام سے معروف سرزمین پر بابل نامی ایک خوبصورت اور گنجان آباد شہر واقع تھا جہاں ایک ظالم بادشاہ نمرود ولد کوش بن حام حکومت کیا کرتا تھا. بابل بت پرستی، انحرافات و فساد کا گڑھ تھا. هوس بازی، شراب خوری، جوا، جنسی گندگی، مالی فسادات اور ہر قسم کی معاشری قباحتیں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں. معاشرہ سخت طبقاتی نظام کے زیر تسلط تھا جس میں دو طبقات نمایاں تھے: حاکم و محکوم.
بت پرست حاکم کہ جس جس کی زندگی سراپا ظلم، فساد اور انحرافات کا نمونہ تھی، بابل کی عوام پر حکومت کرتا تھا. ھر طرف ظلم و زیادتی کا گھپ اندھیرا چھایا تھا اور گناہ کی فراوانی نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا. ہر شریف انسان شب ظلمت کے خاتمے و سحر سعادت کا منتظر تھا.
نمرود نہ فقط بابل بلکہ کچھ اور علائقوں پر بھی حکومت کرتا تھا. یہ ہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا تھا: اس زمین پر چار افراد نے حکومت کی ہے جس میں سے دو عادل، حضرت سلیمان (ع) اور ذوالقرنین. اور دو ظلم: نمرود و بخت النصر(2) تھے.

اللہ (ج) نے بابل والوں پر نظر کرم فرمائی اور ارادہ کیا کہ
ایک نیک و صالح رھبر ان کی جانب بھیجے جو انہیں جہالت، بت پرستی، ظلم و استبداد کے چنگل سے آزاد کروائے اور نمرود کے طاغوتی پنجوں سے انہیں رہائی بخشے. یہ نیک و صالح رہبر ابراھیم (ع) تھے جنہوں نے ابھی اس دنیا میں آنکھ بھی نہ کھولی تھی.
حضرت ابراھیم (ع) کا چاچا آزر نہ فقط ایک بت پرست تھا بلکہ نمرود کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا. اس کے علاوہ وہ ایک ماہر نجومی و ستارہ شناس بھی تھا جو حلقۂ مشیران نمرود میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا. آزر نے اپنے علم نجوم کو بروئے کار لاتے ہوئے پیشنگوئی کی کہ اس سال ایک بچہ پیدا ہوگا جو نمرود کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنے گا. اس نے اپنی یہ پیشنگوئی نمرود کی خدمت میں پیش کردی.

عجیب بات یہ کہ خود نمرود نے بھی اس رات خواب دیکھا کہ ایک ستارہ آسمان پر نمودار ہوا ہے جس کی روشنی کے سامنے چاند و سورج کی روشنی بھی ماند پڑ گئی. جب نمرود نیند سے جاگا تو اس نے تعبیر کرنے والوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خواب بیان کیا، ان سب نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ بہت جلد ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں اس کی حکومت کا خاتمہ ہوگا.

نمرود خواب کی تعبیر اور آزر کی پیشنگوئی سن کر شدید خوفزدہ ہوگیا. اس نے کئی دوسرے معبران اور ستارہ شناس سے بھی مشاورت کی سب نے اسے یہ ہی بات کہی جس کی وجہ سے اس کا چین و آرام برباد ہو گیا.


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺


1) بین دجلہ و فرات کے درمیاں، حالیہ عراق میں واقع
2) بحار الانوار، ج 12، ص 36

نام کتاب : داستانهای خواندنی از پیامبران اولواالعزم‏

مولف: محمد محمدی اشتهاردی‏.

 989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)

امام موسی کاظم(ع) نے علی بن یقطین کو ھارون رشید کی وزارت قبول کرنے کو کیوں کہا؟؟*

 


🌺🌺🌺🌺🌺🌺

امام موسی کاظم(ع) نے علی بن یقطین کو ھارون رشید کی وزارت قبول کرنے کو کیوں کہا؟
جاسوسی کیلئے یا شیعوں کی مادی ضروریات پوری کرنے کیلئے؟
🌹🌹🌹🌹
تحقیق: آیت اللہ مکارم شیرازی (زید عمرہ)

مترجم:محمد زکی حیدری
🌹🌹🌹🌹🌹

علی بن یقطین کے والد عباسی حکومت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے. علی بن یقطین نے کوفہ میں پرورش پائی اور امام موسی کاظم (ع) کے حلقۂ تلامذہ میں رہ کر آپ (ع) کے خاص شاگردوں میں سے قرار پائے.

بقول علماء علم رجال و مورخین کے علی بن یقطین امام موسی کاظم (ع) کے ہونہار شاگردوں اور وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے امام کاظم (ع) سے بہت زیادہ کسب فیض کیا اور کثیر مقدار میں احادیث نقل کی ہیں جب کہ امام جعفر (ع) سے بھی ایک حدیث نقل کی ہے.(۱)

اپنے والد کی طرح سیاسی و اجتماعی اثر رسوخ رکھتے تھے، اس کے علاہ علم رجال کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے. ان کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
1- ما سیل عنه الصادق(علیه ‏السلام) من الملاحم.(۲)
2- مناظره الشّاک بحضرته.(۳)
3- مسائل جو انہوں نے امام کاظم(علیه ‏السلام) سے سیکھے تھے.(۴)

علی بن یقطین اپنے اجتماعی وسیاسی اثر و رسوخ کے باعث شیعوں کیلئے ایک بہت بڑی امید و پناہگاہ سمجھے جاتے تھے.
على بن یقطین نے امام موسی کاظم (ع) کی موافقت سے ھارون کی وزارت کی پیشکش قبول کی.(۵)

اس کے بعد علی بن یقطین نے متعدد بار اس عہدے سے مستعفی ہونے کا ارادہ کیا مگر ھر بار امام (ع) انہیں اس امر سے منع فرماتے. امام (ع) کا انہیں استعفی دینے سے روکنا حفظ جان و مال و حقوق شیعان عصر اور ان کی تحریک کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے تھا.(۶)

*امام (ع) نے یہ وزارت قبول کرنے کی تاکید کرتے ہوئے علی بن یقطین سے فرمایا*
*"میں تمہیں تین چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں تم مجھے صرف ایک بات کی ضمانت دو. جن تین باتوں کی تمہیں میں ضمانت دیتا ہوں وہ یہ ہیں*
*۱. تلوار کے وار سے (دشمن کے ہاتھوں) نہیں مارے جاؤ گے.*
۲. *کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوگے.*
۳. *کبھی قیدی نہیں بنو گے*.
*اور ایک چیز جس کی ضمانت میں تم سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شیعہ نے تم سے کسی بھی کام کیلئے رجوع کیا تم اس کی بھرپور مدد کروگے اور اس کا احترام کروگے. علی بن یقطین نے وعدہ کیا تو امام (ع) نے بھی انہیں مذکورہ بالا تین باتوں کی ضمانت دی.(۷)*


امام (ع) نے اس ضمن میں فرمایا: تمہارا مقام، تمہارے بھائیوں (شیعوں) کیلئے موجب عزت ہے اور امید ہے کہ تمہارے ذریعے اللہ (ج) ماضی کے نقصانات کا ازالہ کرے گا اور مخالفت کے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرے گا.
مختصراً یہ کہ علی بن یقطین اپنے وعدے سے وفادار رہے. اور جب تک اس عہدے پر فائز رہے شیعوں کیلئے ایک مضبوط قلعے اور پناھگاہ کی مانند رہے. علی ان سخت حالات میں شیعوں کی حفاظت اور استحکام کیلئے لوازمات مہیا کرنے کیلئے بڑے بڑے منصوبے بنایا کرتے تھے. علی بن یقطین امام موسی کاظم (ع) کے وہ سچے ساتھی تھے جنہوں نے مشکل حالات اور شیعوں کے سخت مخالف ھارون رشید کا اعتماد جیتا تھا اور اس کے دربار میں وزارت حاصل کی تھی. وہ شیعوں کی حمایت اور مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کرتے. *خصوصاً مالی حالات بہتر بنانے کے مواقع! وہ اپنے مال کا خمس ( جو کہ عموماً ایک خطیر رقم ہوا کرتی، یہ مبلغ بعض اوقات ایک لاکھ درھم سے لیکر تین لاکھ درھم تک ہوا کرتا)* (۸) ساتویں امام (ع) کی خدمت اقدس میں پیش کیا کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان پر ان ہی کا حق ہے.

علی بن یقطین کا بیٹا نقل کرتا ہے کہ: امام موسی کاظم (ع) کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی یا کوئی مشکل پیش آتی تو میرے والد صاحب کو خط لکھا کرتے کہ فلاں چیز میرے لیئے خرید کر بھیجو یا فلاں کام ھشام بن حکم کے ھاتھوں کروادو. البتہ ھشام کی قید صرف حساس مسائل میں ہی لگاتے. (۹)

امام موسی کاظم (ع) جب عراق گئے تو علی بن یقطین نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میری حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے (یعنی کس عہدے پر ہوں اور کس قسم کے لوگوں درمیان زندگی گزارنی پڑ رہی ہے). امام (ع) نے فرمایا اللہ (ج) کے اپنے نیک بندے کو ظالموں کے درمیان بھیجتا ہے تاکہ وہ نیک بندوں کی حمایت و حفاظت کرے اور تم ان خدا کے محبوب بندوں میں سے ایک ہو .(۱۰)
جب دوسری مرتبہ علی نے عباسیوں سے ملحق ہونے کے متعلق امام (ع) سے پوچھا تو امام (ع) نے فرمایا: "اگر ناگذیر ہے تو *یاد رکھو کہ شیعوں کے مال کی حفاظت کرنا.*
علی نے امام (ع) کی ھدایات لیں اور پھر اسی طرح بظاھر *شیعوں سے مال (ٹیکس وغیرہ) وصول کرتا لیکن یہ سارا مال چھپ کر انہی کو واپس لوٹا دیا کرتا*.(۱۱)

اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ھارون کی حکومت اسلامی حکومت نہیں تھی کہ ایک مسلمان پر اس کے قوانین کی پابندی واجب ہو. اصل حکومت تو امام (ع) کا حق تھا سو علی بن یقطین شیعوں کا سارا مال امام (ع) کے حوالے کردیا کرتے.
علی بن یقطین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ھر سال متعدد افراد کو اپنی نیابت میں خانہ خدا کی زیارت کو بھیجا کرتے *اور ان میں سے ھر ایک کو دس سے بیس ھزار درھم دیا کرتے*.(۱۲)
ان چند افراد کی تعداد ھر سال ۱۵۰ کے لگ بھگ ہوتی یا پھر کسی سال یہ تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ افراد تک جا پہنچتی.(۱۳)
حج جیسے فریضے کی اسلام میں اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علی بن یقطین کے اس عمل سے ان کی تقوی و پرھیزگاری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
لیکن اتنی کثیر تعداد میں وہ بھی اتنی خطیر رقم دے کر لوگوںِ کو حج پر بھیجنا اپنی جگہ علی کیلئے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا تھا. اگر ہم ان حج پر جانے والے افراد کی تعداد اور ان کو دی جانے والی رقم کا تخمینہ لگائیں مثلا: بلفرض سال میں دو سو افراد اور ان میں سے ہر ایک کو ملنے والی رقم کو دس ھزار درھم فرض کریں تو بھی یہ بیس لاکھ درھم تک کی رقم بنتی ہے. عجیب بات یہ کہ یہ رقم ھرسال خرچ ہوتی تھی اس رقم کا کچھ حصہ علی بن یقطین اپنے حصے سے دیا کرتے اور باقی کا حصہ زکوات، خمس، صدقات، ھدیہ جات وغیرہ سے بنتا. یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اندازے کے مطابق علی بن یقطین کی آمدنی لاکھوں درھم ہونی چاہیئے کہ ان اخراجات کو پورا کرسکیں.
شیعہ علماء میں سے صرف شیخ بھائی نے اس سوال پر روشنی ڈالی ہے اور فرمایا کہ:
مجھے لگتا ہے کہ امام (ع) نے علی بن یقطین کو مسلمانوں کے خراج اور بیت المال میں تصرف کی اجازت دے رکھی تھی اور *علی اس مال سے اجرتِ حج کے عنوان سے شیعوں کی مالی مدد کیا کرتے* تاکہ دشمن کو شک نہ ہو.(۱۴)
لہٰذا یہ نیابتی حج پر لوگوں بھیجنے کا پروگرام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علی بن یقطین چلا رہے تھے *تاکہ شیعوں کی مالی معاونت کو یقینی بنایا جا سکے*. اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ان نائبینِ حج میں کچھ ایسے شیعہ بزرگ بھی شامل تھے جو اس وقت امام موسی کاظم (ع) کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے مثلاً «عبدالرحمن بن حجاج» و «عبدالله بن یحیى کاهلى»(۱۵) یہ لوگ امام (ع) کی دوستی کی وجہ سے حکومتی وظائف سے محروم تھے(۱۶)

علی بن یقطین کے بزرگوں کو حج پر بھیجنے کی دوسری بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بزرگ دوسرے فرقوں کے علماء سے میل جول پیدا کریں اور مناظروں کی مدد سے تشیع تبلیغ ہو.

-----------------------------------------------------------------

 

حوالہ جات:

(۱). نجاشى، فهرست اسماء مصنفى الشيعه، قم، مكتبه الداورى، ص 195.
(۲).امام صادق(عليه‏ السلام) کی پیشنگوئیاں مستقبل کے حوادث و فتنوں کے بارے میں اور اس بارے میں ان سے کیئے سوالات کے جوابات میں.
(۳). مناظره با يكى از شكّاكان در حضور امام.
(۴). شيخ طوسى، الفهرست، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 234.

(۵). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
(۶). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلامیّه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158. (۷). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 136؛ طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
(۸). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
(۹). ایضا، ص 269.
(۱۰). ایضا، ص 433.
(۱۱). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158.

(۱۲). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
(۱۳). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 437 و 434.
(۱۴). مامقانى، تنقيح المثال، تهران، انتشارات جهان، ج 2، ص 317.
(۱۵). عبدالرحمن بن حجاج نے امام صادق و امام كاظم(عليهما‏السلام) سے بھی کسب فیض کیا، پاک و مشھور و ممتاز شيعہ شخصيات میں سے ایک تھے (نجاشى، فهرست اسما مصنفى الشيعه، قم، مكتبه الداورى، ص 65، مامقانى، عبداللّه، تنقيح المقال تهران، انتشارات جهان، ص 141)

چھٹے امام (ع) ان سے فرمایا کرتے: اے عبدالرحمن! مدینے کے لوگوں سے علمی گفتگو و بحث کیا کرو کیونکہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ شیعوں میں تجھ جیسے عالم موجو ہوں.
(اردبيلى، جامع الرواه، منشورات مكتبه آيه الله العظمى المرعشى النجفى، ج 1، ص 447؛ طوسى، همان كتاب، ص 442).

*عبدالله بن يحيى كاهلى امام (ع) کی نظر میں خاص احترام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ امام (ع) نے متعدد بار علی بن یقطین سے فرمایا: کاھلی اور اس کے خاندان کی کفالت کی ضمانت تم دو میں تمہیں بھشت کی ضمانت دیتا ہوں.*
(طوسى، همان كتاب، ص 402)

علی بے بھی امام (ع) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کاھلی کے خاندان کی تاعمر کفالت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی چھپ چھپ کر ھر لحاظ سے مدد کی.
(طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 448).
(۱۶). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 435.


arezuyeaab.blogfa.com

حضرت موسی علیہ السلام کی شادی!

حضرت موسی علیہ السلام کی شادی!

 

مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

سورج ابھی زرد ہی تھا کہ ایک جوان، خستہ و بے حال اپنے خاک آلود لباس میں ایک کنویں کے پاس پہنچا، بھاری بھرکم ڈول کو کنویں میں پھینکا ڈول پانی سے ٹکرایا "شلاپ" کی اس مدھر آواز نے جوان کی جان میں جان ڈال دی، بڑی جدوجہد کر کے اس نے ڈول کو باہر کھینچا.
پانی پینا ہی تھا کہ اسے دور سے کتوں کے بھونکنے، دنبوں کی گھنٹیوں اور ایک مدھر سا ساز سنائی دیا.
یہ چوپان تھے جو اپنے جانوروں کو پانی پلانے کویں پر آگئے لیکن تھکن کی وجہ سے کسی نے اس جوان کو سلام نہ کیا. انہوں نے ڈول کو پھینکا اور تین افراد نے مل کر اس ڈول کو کھینچا تاہم اس جوان پر ذرا بھی دھیان نہ دیا.
جوان آٹھ دن پیدل چلنے کی وجہ سے تھکن محسوس کر رہا تھا. آٹھ دن کی مسلسل دوڑ! کہ کہیں اس کا تعاقب کرنے والے دشمن اسے پکڑ نہ لیں.

موسی (ع) نامی اس جوان کی نیت کسی کی جان لینا نہ تھی اس مڈبھیڑ میں موسی (ع) نے تو صرف حق کا ساتھ دیتے ہوئے اور مظلوم کو نجات دلانے کی غرض سے ظالم کے سینے پر ایک مکا مارا تھا جس سے وہ زمین بوس ہوا اور اسی وقت مرگیا.
موسی (ع) کا گھیرا تنگ ہوا تو انہوں نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر دشمن کے ہاتھ لگ گئے تو وہ اسے جان سے مارنے میں دیر نہیں کریں گے. لھذا انہوں وہ نے شہر چھوڑا اور آٹھ دن و رات مسلسل سفر کرتے ہوئے اس شہر آن پہنچے کہ جہاں کے لوگ ایسے بے مروت ہیں کہ ایک اجنبی جوان کو دیکھ کر سلام دعا بھی نہیں کرتے.

بالقصہ یہ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے بیٹھ گئے کہ اتنے میں سامنے سے اسے کچھ لڑکیاں دنبوں کے ایک بڑے ریوڑ کے ساتھ نظر آئیں جو کہ بڑی جدوجہد کر رہی تھیں کہ ان کے جانور کنویں کی جانب نہ جانیں پائیں. موسی (ع) نے یہ منظر دیکھا تو آگے بڑھ کر ان لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ کیوں دنبوں کو پانی نہیں پلانا چاہتیں. جس پر لڑکیوں نے جواب دیا
"ہم تب تک جانوروں کو پانی نہیں پلائیں جب تک کنویں پر نامحرم چوپان موجود ہیں"
یہ سن کر اس جوان کے ذھن میں ایک سوال آیا کہ کیا ان کے والد نہیں ہیں جو یہ کام انجام دے سکیں.
قبل اس کے کہ یہ سوال وہ اپنے لبوں تک لاتے، لڑکیوں نے کہا: ہمارے بابا بوڑھے ہوگئے ہیں اب وہ توان نہیں رکھتے کہ اس کام کو انجام دیں. یہ سن کر اس جوان کو بہت دکھ ہوا اس نے کنویں پر موجود چوپانوں کی جانب نگاہ کی اور دنبوں کا ریوڑ لے کر اس طرف چل دیا.

غیرت اس جوان پر حاوی ہوگئی جس کی وجہ سے اب وہ اپنی تھکن بھول چکا تھا اور جوش میں ڈول کو نیچے پھینکا اور اکیلے ہی ڈول کو اوپر کھینچ کر جانوروں کو سیرآب کیا.
لڑکیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح اس مہربان جوان کا شکریہ بجا لائیں لھذا وہ اپنا ریوڑ لے کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئیں.

جوان دوبارہ تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور دبے ہونٹوں دعا کی " یا اللہ (ج) ہر وہ نیکی میری طرف بھیج جس کی مجھے ضرورت ہے"

لڑکیاں گھر پہنچی، ان کے ابا ان کے انتظار میں تھے، ابھی بستر سے اٹھے بھی نہ تھے کہ انہیں اپنی بیٹیوں کے آنے کی خبر ملی. لڑکیاں خوشی خوشی اپنے والد کے پاس گئیں
"میری پیاری بیٹیو آج جلدی گھر لوٹ آئیں"
لڑکیوں نے مسکرا کر اپنے والد کو بتایا:
ایک نیک دل جوان نے ہم پر مہربانی کی ہم سے جانور لیئے اور انہیں پانی پلایا"

شعیب (ع) نامی اس بوڑھے باپ نے تعجب کیا: یا اللہ (جَ) یہ با مروت جوان کون ہے جو اس سر زمین مدائن پر آیا ہے. یہ سوچ کر انہوں نے اپنی بیٹی کو حکم دیا کہ بیٹی اس جوان سے جاکر کہو کہ میرے بابا نے تمہیں بلایا ہے تاکہ تمہیں اس کام کی اجرت دیں.

لڑکی کنویں پر آئی جوان اسی طرح درخت کے نیچے بیٹھا تھا. لڑکی اس کے قریب گئی اور کہا میرے بابا آپ کو اجرت دینا چاہتے ہیں.
جوان نے اپنے آپ سے کہا: عجیب بندہ ہے! اتنا انصاف پسند ہے کہ ایک دو ڈول کھینچنے کی مزدوری بھی نظر انداز نہیں کرتا.
وہ گھر پہنچا. شعیب (ع) بڑی گرم جوشی سے اس کے استقبال کو آگے آئے اور کہا: "خوش آمدید نوجوان!"
کھانے کا دسترخوان پہلے ہی بچھایا جا چکا تھا. بھوکے جوان کی نظریں جب کھانے پر پڑیں تو سوچا یہ وہ دعا پوری ہوئی ہے کہ جو اس نے درخت کے نیچے مانگی تھی کہ " یا اللہ (ج) تیری خیر کا محتاج ہوں."

بوڑھے نے جوان سے حال احوال دریافت کیا اور پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.
جوان نے یہ رویہ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی اور اس نے اپنی روداد سنادی . شعیب (ع) نے بڑے تحمل سے کہا: ڈرو مت! تم یہاں محفوظ ہو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں.

موسی (ع) آرام کرنے کی تیاری کرنے لگے تا کہ اس سکون والے ماحول میں ھفتے بھر کی تکھن اتار سکیں. پورے گھر پر خاموشی چھا گئی کہ یہ بندہ خدا آرام کر سکے.
وہی شعیب (ع) کی بیٹی جو اپنے والد و موسی (ع) کے مابین واسطہ بنی تھی نے اپنے بابا کی خدمت میں زانوئے ادب خم کیئے اور فرمایا:
" بابا یہ جوان طاقتور و نیک اور ایمان دار ہے اسے اپنے یہاں نوکر رکھ لیں کہ ہمارے کام کاج میں مدد کرے."

شعیب (ع) کی آنکھوں میں ایک چمک نے تجلی ماری لیکن اسے تعجب ہوا کہ اس کی بیٹی کو کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ جوان ایماندار اور شریف ہے. لھذا انہوں نے بڑے پیار سے بیٹی سے پوچھا:
" بیٹا تم نے اس کے ڈول کھینچنے سے اس کی طاقت کا اندازہ لگایا مگر اس کی ایمانداری اور شرافت کا اندازہ تم نے کیسے لگایا؟"
بیٹی نے باپ کو دیکھتے ہوئے کہا: اس بات سے کہ اس نے ہم لڑکیوں کے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی اس کام کے بدلے کچھ مانگا اور نہ ہی ہمیں دیکھ کر اس پر کوئی اثر ہوا"

موسی (ع) ابھی بستر آرام سے اٹھنے ہی نہ پائے تھے کہ شعیب (ع) نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کی بات کی. شرم سے موسی (ع) کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا
اور اس کی خاموشی سے شعیب (ع) نے اندازہ لگا لیا اور ان کا دل خوشی سے بھر گیا کہ موسی (ع) اس کے داماد بن گئے.

www.fb.com/arezuyeaab

سوال: کیا علی (ع) نے خلفاء کے پیچھے (اقتداء میں) نماز ادا کی؟

سوال: کیا علی (ع) نے خلفاء کے پیچھے (اقتداء میں) نماز ادا کی؟


۱. عقلی جواب

عاقل جب کسی مسئلے کو دیکھتا ہے تو لازم ہے اس کے پس پردہ و پیش پردہ حالات و واقعات کا جائزہ لے. علی (ع) کے نبی (ص) کے بعد اگر کوئی حالات کا مطالعہ فرمائے تو معلوم ہوگا کہ علی (ع) پچیس سال اتحاد کی خاطرخاموش رہے. اس دوران ولایت جسی عظیم و گرانقدر چیز کو بھی ہاتھ سے دے بیٹھے. اپنی زوجہ پر مظالم برداشت کیئے اور بھی سختیاں برداشت کی تو کیا یہ علی (ع) اتحاد کو بچانے کیلئے و معاشرۂ اسلام کو فتنہ سے بچانے کیلئے نماز میں خلیفوں کے پیچھے نہیں کھڑے ہو سکتے؟ کیا اس کم قیمت اس چھوٹی چیز کی امید نہیں رکھی جا سکتی جب کہ علی (ع) نے اتحاد کی راہ میں اس سے بھی بڑی و گرانقدر چیزیں قربان کردیں. بیشک علی (ع) ان خلفاء کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرتے تھے لیکن نیت فرادہ کی کیا کرتے جیسا کہ مندرجہ ذیل نقلی دلائل سے ثابت ہے.

۲.نقلی جواب

تفسیرقمی میں لکھا ہے: *«حضر المسجد و وقف خلف ابى بکر و صلّى لنفسه»* امام علی(علیه السلام) مسجد میں حاضر ہوا کرتے اور ابوبکر کے پیچھے کھڑے ہوتے لیکن نماز اپنی پڑھتے (فرادہ کی نیت سے)

تفسير القمي، ج2، ص 158و 159؛

اور یہ ہی روایت تفسیر نور الثقلین میں

تفسير نور الثقلين، ج4، ص188


*اس کے علاوہ احتجاج طبرسى میں بھی یہ روایت آئی ہے*
: «و حضر المسجد و صلّى خلف ابی بکر»،

«امام علی(علیه السلام) مسجد میں آتے تھے اور ابوبکر کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے »

اس میں *صلی للنفسه* نہیں مذکور.
مطلب یہ روایت کہنا چاہتی ہے کہ علی (ع) نے ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی نیت بھی اس کی اقتداء کی کی.

لیکن یہاں احتجاج طبرسی کی سند میں مسئلہ ہے کہ
اس روایت کی سند مرسل ہے

(مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جس میں روایت کرنے والا بلا واسطہ کسی ایسے شخص سے روایت کرے جو اس کے زمانے کا نہ ہو جیسے طبرسی خود حماد بن عیسی کے دور کے نہیں سو انہوں نے ڈائریکٹ ان سے روایت کی ہے اس لیئے طبرسی کی روایت کو مرسل مانا جائے گا)
کیونکہ تفسیر قمی میں و نور الثقلین میں اس روایت کے راویوں میں بلکل تسلسل ہے اور راوی کچھ اس طرح ہیں:
صاحب تفسیر قمی اپنے والد ابراهیم بن هاشم سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے عثمان بن عیسی سے اور انہوں نے حماد بن عیسی سے اور انہوں نے امام صادق(علیه السلام) سے یہ روایت نقل کی ہے. *سو ہم تفسیر قمی کی روایت کو درست مانتے ہیں کہ پڑھی لیکن فرادہ کی نیت سے.*

حوالہ
الاحتجاج، ج1، ص126.


🌹 *اس معاملے میں مراجع و علماء کیا فرماتے ہیں*


🖋 سید مرتضی اعلم الھدی نے اپنی کتاب تلخيص الشافي کی جلد 2، ص 158 پر بھی بات لکھی ہے لیکن انہوں نے بھی یہ فرمایا اتحاد کی نیت سے امیر المومنین (ع) ان کی اقتدا فرماتے تھے.

🖋 شہید مطھری اپنی کتاب امامت و رھبری صفحہ ۲۰ پر فرمایا کہ امام علی علیہ السلام ان کی اقتداء میں (فرادہ نیت سے) نماز پڑھا کرتے تھے.

🖋 ایت اللہ مکارم شیرازی کی ویب سائٹ پر بھی اس بات کی تائید موجود ہے

لنک : http://makarem.ir/main.aspx?lid=0&mid=254044&typeinfo=23&catid=23879


*اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب میں اس بات کی تائید موجود ہے.*

۱. الشيعة وأهل البيت ص 61.

۲. تفسير القمي: 2/ 158، 159،

۲. تفسير نور الثقلين: 4/188.
.
۳.الأنساب للسمعاني:3/95،

۴. دار الجنان ـ بيروت و6/170، نشر محمد أمين دمج - بيروت - 1400 هـ

۵. النوادر ص 129،

۶. وسائل الشيعة (آل البيت)، ج 8، ص 301، ح 10726.

۷ وسائل الشيعة (آل البيت)، ج 8، ص 299.

۸. بحار الأنوار، ج 100، ص 375.

۹. قرب الاسناد ص 114، ج 7.

۱۰ وسائل الشيعة (آل البيت)، ج 8، ص 366،

۱۱. وسائل الشيعة (الإسلامية)، ج 5، ص 430، جامع أحاديث الشيعة، ج 6، ص 503


ملتمس دعا
الاحقر محمد زکی حیدری

🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦
*اس قسم کے سوالات کے جوابات اور مزید مقالاجات کیلئے میرا بلاگ دیکھیئے*

arezuyeaab.blogfa.com


🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦

کمیل بن زیاد نخعی کون تھے؟

دوست نے سوال کیا ہے کمیل بن زیاد نخعی کون تھے جن کو امام علی (ع) نے مشہور دعا نصیحت جو دعاء کمیل کے نام سے مشہور ہے؟

 

جواب: عرض کرتا چلوں کہ میں عالم دین نہیں اما چونکہ کمیل بن زیاد کے بارے میں میں نے کتاب نفس المہموم تالیف شیخ محدث عباس قمی رح میں پڑھا ہے لہذا اسی سے جواب دونگا.

کمیل بن زیاد نخعی کی عمر ابھی ۱۸ سال تھی کہ پیغمبر اکرم (ص) اس دنیا سے چلے گئے. کمیل علی (ع) کے اہم ساتھیوں میں سے تھے، اہل سنت نے انہیں ثقہ (سچا قابل اعتماد) راوی مانا ہے.

آپ جنگ صفین میں امام علی (ع) کے ساتھ تھے. 

کہتے ہیں کہ حجاج نے ھیثم سے پوچھا کہ بتاؤ کمیل آج کل.کہاں ہے؟

ھیثم نے کہا وہ بوڑھا ھوگیا ہے گھر تک ہی محدود ہے.

بولا اسے بلا لاؤ، کمیل آئے حجاج نے کہا: بولو تم نے  عثمان کے ساتھ کیا کیا؟ کمیل بولے عثمان نے مجھے تھپڑ مارا تھا میں نے قصاص کا مطالبہ کیا جب وہ راضی ہوا تو میں نے اسے معاف کردیا.

 دوسری روایت میں ہے کہ حجاج نے انہیں بلا کر کہا کہ تم نے عثمان کو قتل کیا، اس کی گردن کاٹی اور پھر حکم دیا کہ اس کی گردن کاٹ دو. کمیل نے فرمایا میری عمر کے اب گنتی کے دن رہ گئے ہیں میرے مولا (ع) نے مجھے بتا دیا تھا کہ تم ہی مجھے قتل کرو گے، سو جلدی کرو جو کرنا ہے.

اس وقت کمیل ۹۰ سال کے تھے. 

یاد رہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ علی (ع) کے وفادار صحابی قنبر (رض) کو بھی اس حجاج لعین نے شہید کیا.

 

اس کی مزید تفصیل ارشاد مفید میں آئی ہے لیکن جب وقت ملے گا تو ارشاد مفید کو بھی دیکھ لوں گا ان شاء اللہ.

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

www.fb.com/arezuyeaab

جنہیں اپنے ہی بھول جائیں

جنہیں اپنے ہی بھول جائیں

تحریر: محمد زکی حیدری

توپچی نے توپ کو سلطان کے محل پر تان رکھا ہے، سب کے چہروں کا رنگ فک کہ خدا ہی خیر کرے! نہ جانے اس توپچی کو کیا ہوا ہے، ایک لحظے کی دیر ہے، ادھر اس نے ڈور کھینچی اور ادھر سلطان کا محل تباہ اور پھر کیا ہوگا یہ سوچ کر سب پریشان! بالآخر سلطان نے اپنا خاص ایلچی بھیجا جس نے پوچھا کہ اس نے توپ کو طبق فرمان اس مولوی کے گھر پر داغنے کی بجائے محل پر کیوں تان رکھا ہے، اس گستاخی کے کیا معانی ہیں. بڑی عاجزی لیکن اعتماد سے توپچی نے جواب دیا "بیشک مجھے کسی اور کے گھر پہ گولا پھینکنے کا حکم ملا تھا لیکن میں نہیں چاہتا کہ 'دین کے بادشاہ' کا گھر برباد ہو، اگر ہو تو ساتھ میں 'دنیا کے  بادشاہ' کا گھر بھی برباد ہو" سلطانِ اودہ، نصیر الدین کو توپچی کے جملے نے شرمسار کیا اور اس نے اس بزرگ عالم دین کے گھر کو توپ سے اڑانے کا حکم واپس لے لیا. 

 کون تھے یہ عالم دین؟ کیا جرم تھا ان کا؟ یہ تھے آیت اللہ فقیہ ہند سید دلدار حسین نقوی غفران المآب المعروف سلطان العلماء. اور ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سلطان نصیر الدین کے ایک ناجائز فتوے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا تھا اور سلطان نے ان کے گھر کو توپ سے اڑانے کا حکم جاری کردیا.

 آپ کہیں گے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں. جی افسوس کہ جنہوں نے سرزمین ہندوستان سے صرف یہ لیا ہو کہ بھئ لکھنو میں جو بڑا امام باڑہ ہے اسے ۵۰ لاکھ دے کر آصف الدولہ نے اس طرح بنوایا کہ ایک کونے میں تیلی جلاؤ تو اس طولانی بارگاہ کہ دوسرے کونے تک تیلی جلنے کی آواز صاف سنائ دیتی ہے، یا پھر یہ کہ بڑے امام باڑے میں بھول بھلیاں ہے، یا پھر جنوں والا تاریک دالان، پنجہ شریف... اچھا شخصیات کو یاد کرنے بات آئے تو ہم نے  صدر جہاں بیگم نے فیض آباد میں بڑا امام باڑہ بنوایا، آصف الدولہ کی ماں بہو بیگم نے ایک لاکھ نقدی کربلا میں حرم کیلئے بیجھی، آصف الدولہ نے کوفہ سے نجف تک نہر بنوائی...علمی حلقے کی بات کریں تو میر تقی میر سے لے کر جون ایلیا تک کے نام، ان کی کتب، ان کے کلام کے نمونے بھی پیش کر جاتے ہیں... حاکم، امراء، شعرا، عمارتیں و امام باڑے و علم و شبیہاں و ضریحاں و بزرگ خواتین و حضرات کے مولا (ع) کے عشق میں دیئے ہوئے ھدیے... میں ہر گز ان کے خلاف نہیں، مولا انہیں ضرور اجر دیں گے. لیکن عرض کہ ہم اس سے بھی اہم باب کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں، جو ان تمام ابواب کا سرچشمہ ہے اور وہ باب ہے "فقہاء و علماء ہندوستان"

ہمیں نہیں پتہ کہ یہ سید اولاد زھرا (س) بنام سید ابوالقاسم حائری نے "لوامع التنزیل" نامی ایک تفسیر لکھی جس کے بارے میں عظیم ایرانی مرجع آیت اللہ مرعشی نجفی نے فرمایا تھا کہ اگر یہ چھپتی تو اس کی جلدیں بحارالانوار کی ۱۱۰ جلدوں سے بھی تجاوز کر جاتیں، ہمیں علم نہیں کہ جب اودہ پر امجد شاہ کو حکومت ملی تو اس نے کہا میں کیسا حاکم،  حکومت امام مہدی (عج) کی ہونی چاہیئے، لھذا اس نے حکومت آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کو پیش کردی اور قبلہ ولی فقیہ بنے اور امجد علی شاہ وزیر اعظم. ساری ریاست کے سنی شیعہ اپنے فقہی و سماجی و قانونی و اقتصادی و... امور کے سلسلے میں سلطان العلماء کی محضر میں پیش ہوتے اور وہ بخوبی ان کے مسائل حل فرما دیا کرتے. ہمیں یہ نہیں پتہ کہ انگلستان کی استعماری حکومت کو اس بزرگ کے ایک فتوائے جہاد کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا؛ جدید اسلحے سے لیس انگریزی فوج کو شیعوں نے ایک سال تک اودہ سے دور دھکیلے رکھا، ولی فقیہ سے ظالم کب جیت پاتا ہے، لھذا متعدد بار اس مجتہد عظیم کی فوج نے انگریز کو لکھنو اور اودہ سے دور بھگایا. لیکن آخر کچھ غداروں کی وجہ سے انگریز کامیاب ہوا، تاراجی شروع ہوئ، امجد شاہ کنبے سمیت قید ہوئے، ظلم و ستم کے مدنظر علماء نے کربلا کا رخ کیا  لیکن سلطان العلماء نے آًخر تک سرزمین ہند سے ساتھ نبھایا اور اسی مٹی میں سکون کی نیند سو گئے.

یہ ہندوستان کے بحر بیکرانِ علم سے ایک قطرہ تھا جو میں نے لیا ابھی ۱۵۰ کتب کے مولف شہید ثالث قاضی آیت اللہ نور اللہ شوستری کا ذکر رہتا ہے کہ جنہیں بادشاہ وقت نے لاہور کا قاضی مقرر کرنا چاہا تو متعصب اہل سنت نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ قاضی صاحب تو شیعہ ہیں، فقہ حنفی کے مسائل پر کیسے فتوا دیں گے جس پر قاضی صاحب نے فرمایا میں نے فقہ جعفریہ کے علاوہ موجودہ چار نامور فقہیں پڑھی ہوئی ہیں،حنفی آیا تو فقہ حنفی سے؛ شافعی آیا تو شافعی سے؛ حنبلی آیا تو فقہ امام حنبل سے؛ مالکی مسلک سے مسئلہ آیا تو مالکی مسلک کے قانون کے مطابق جواب دونگا. ابھی ۷۰ کتابیں لکھنے والے شہید رابع مرزا کامل دہلوی کا ذکر رہتا ہے، ابھی غفران المآب کے بیٹوں حسن، حسین مہدی کے علمی کارناموں کا ذکر باقی ہے، ابھی کنتوری خاندان کے مجتھدین بشمول ناصر الملت کا تعارف باقی ہے، ابھی لاہور کے حائری خاندان اجتہاد کا ذکر باقی ہے ابھی ابھی ابھی...

سفینہ چاہیئے اس بحر بیکران کیلئے.

افسوس! ہم پاک و ہند کے جوان نجف و قم و شام و لبنان و ... کے علماء کی سوانح حیات تو پڑھتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی اپنی زمین سے تعلق رکھنے والے آیت اللہ کی سوانح حیات کے بارے میں پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے. اسی لئے کہتے ہیں جنہیں اپنے ہی بھول جائیں تو غیروں سے کیا گلا...

 

 www.fb.com/arezuyeaab

حضرت اویس قرنی (رض) کا اپنے دانت توڑنا... حقیقت کیا ہے؟

 


جنگ احد میں رسول اللہ (ص) دانت مبارک شہید ہونا اور اس کے بعد اویس قرنی (رض) کا اس بات کو سن کر اپنے تمام دانت توڑ دینے والی کہانی اور حقیقت!


تحریر : محمد زکی حیدری


حضور بات یہ ہے کہ ہم لوگ اہل سنت برادران کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ سنی کا مطلب ہے وہ جو سنی سنائی پر چلے۔ لیکن دیکھا جائے تو ہم خود سب سے بڑے سنی ہیں کہ جو ذاکر و مولوی نے مجلس میں بتا دیا اس پر چل پڑے۔ بات کی سند کیا ہے، کیا واقعی مستند کتب میں اس کا ذکر ہے؟ ان باتوں پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اس لیئے مولوی بول دے سورہ اعراف کی آیت 29 میں ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کی دلیل ہے ہم مان لیتے ہیں مجال کہ قرآن کھول کردیکھیں کہ دور دور تک اس آیت کا ہاتھ نہ ہاتھ کھولنے سے کوئی تعلق ہے!!! پھر زنجیر کے ماتم کی دلیل کے طور ہم قرآن کی سورہ یوسف آیت نمبر 31 میں مصری عورتوں کے اپنے ہاتھ کاٹنے والی بات کو دلیل بناتے ہیں جب کہ اگر قرآن کھول کر دیکھیں تو اگلی ہی آیت میں اللہ نے ان عورتوں کو مکار کہا ہوا ہے اور یوسف (ع) ان سے پناہ مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح ایک بات جو ہم بچپن سے بڑے زور شور سے سنتے ہوئے آ رہے ہیں کہ جناب جنگ احد میں نبی کریم (ص) کا ایک دانت شہید ہوا اور یہ خبر یمن کے ایک صحابی اویس قرنی (رض) تک پہنچی تو آپ نے اپنے سارے دانت توڑ دیئے اور خود کو عاشق رسول (ص) ثابت کیا واہ جی واہ!!! ہم نے داد دی جب کہ اس طرف نہ سوچا کہ نبی (ص) کا دانت شہید ہوگیا مطلب نبی (ص) عیبدار ہوگئے ۔۔ خیر۔ جناب آپ کے اس حقیر برادر نے جب اس بات کی تحقیق کی تو اسے مندرجہ ذیل روایات اور علماء کی آراء ملیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی سنی سنائی بات تھی جس کا مکتب کی مستند کتب میں کوئی ذکر تک نہیں۔
موثق (قابل اعتماد) حدیث پیش خدمت ہے جس سے ثابت پوتا ہے کہ رسول اللہ (ص ) کے دانت احد کے دن شہید ہی نہیں ہوئے تھے: أبي رحمه الله قال حدثنا سعد بن عبد الله عن أحمد بن محمد عن ابن فضال عن ابن بكير عن زرارة... زرارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام باقر (ع) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے دندان رباعیہ (اوپر کے چار دانت) ٹوٹ گئے تھے .
امام (ع) نے فرمایا : لوگ جھوٹ کہتے ہیں ، رسول اللہ (ص) صحیح و سالم دُنیا سے رخصت ہوئے لیکن چہرہ اقدس زخمی ہوا تھا .
آپ (ص) نے امام علی (ع) کو پانی لانے کے لئے بھیجا جناب امام علی (ع) سپر (چمڑے کی بنی ہوئی بغیر لکڑی کی ڈھال) میں پانی لائے .
حضرت رسول اللہ (ص) کو اس سے کراہت معلوم ہوئی کہ نوش فرمائیں ، لیکن اپنے چہرہ پاک کو اس سے دھویا. (1)
اس کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے جید عالم آیت اللہ العظمیٰ ﺣﺎﻓﻆ ﺑﺸﯿﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﺠﻔﯽ صاحب سے جب پوچھا گیا کہ اس واقعے کا ذکر کن کتب میں ہے تو انہوں نے جو جواب ارشاد فرمایا وہ مندرجہ ذیل ہے:
ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﺪ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ (2)
ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺠﻠﺴﯽ ( ﻉ ) ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ( ﺍﺣﺪ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ) ﺍﯾﮏ ﺯﺧﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ( ﺹ ) ﮐﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ( ﻉ ) ﮐﺎ ﻟﺐ ﺍﻗﺪﺱ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺖ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺭﻭﺍﯾﺘﻮﮞ ﺳﮯﻇﺎﮬﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ. (3)
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺟﻮ ﺷﯿﺦ ﻃﺒﺮﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻡ ﺍﻟﻮﺭﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺎﻡ ( ﻉ ) ﻧﮯ ﺩﻧﺪﺍﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺭﺍﻭﯼ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ( ﻉ ) ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ( ﺹ ) ﮐﮯ ﺩﻧﺪﺍﻥ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻣﺎﻡ ( ﻉ ) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﺍﻟﻠﮧ ،ﺭﺳﻮﻝ ( ﻉ ) ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻀﻮ ﻧﺎﻗﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺁﭖ ( ﺹ ) ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ( ﺹ ) ﮐﮯ ﺭﻭﺋﮯ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﻮ ﺯﺧﻤﯽ کر دیا تھا۔
جناب اب بتائیے کہ ہم کس دنیا میں ہیں ایک بات ہوتی کیا ہے اور ہم تک پہنچتی کس شکل میں ہے ۔ ہمیں سنی سنائی باتوں پر نہیں چلنا چاہیئے اللہ نے ہمیں مجتہدین کی صورت میں علم کے خزانے عطا کیئے ہیں تو کیوں ہم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے پھریں۔۔۔


معانی الاخبار // صدوق// ص 406// باب 429//حدیث 80
علامہ مجلسی (ر) نے اپنی کتاب "حیات القلوب " ، ج 2 میں اس کی سند کو موثق (قابل اعتماد) کہا ہے...
ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ // ﺹ 155 // ﻃﺒﻊ
ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ // ﺝ //2 ﺹ 579