بھائی "یوم الدین" کیا ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
گھر کے عمر رسیدہ بزرگوں سے رابطے کیلئے انہیں کی-پیڈ والا موبائل دلواتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ جب گھنٹی بجے تو اس بٹن کو دباؤ گے تو آواز آئے گی. لیکن ایک عاقل و پڑھے لکھے نوجوان کو والدین اینڈروئڈ فون دلواتے ہیں کیونکہ اسے موبائل صرف کالز کرنے کیلئے درکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دوسرے بہت سے کام بھی لیتا ہے.
اللہ (ج) نے ہمیں بوڑھا و ان پڑھ نہیں سمجھا کہ ایک کتاب دے دی کہ جس کی بس تلاوت ہی کرنی ہے. نہیں! اللہ (ج) نے ہمیں عاقل و پڑھا لکھا و باشعور سمجھا اس لیئے *ملٹی فنکشنل قرآن* عطا کیا. قرآن کی تلاوت بیشک اپنی جگہ ثواب کی حامل ہے لیکن قرآن صرف ایک فنکشن یعنی تلاوت کیلئے نہیں ہے اس کی آیات کو سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے ھر شعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ملٹی فنکشنل ہے.
اب آپ ہی بتائیے جس کے پاس اینڈروئڈ موبائل ہو اور وہ اسے صرف ٹیکسٹ میسج اور کال کیلئے استعمال کرے، ہم اسے بیوقوف کہیں مگر جو شخص قرآن کو صرف تلاوت کیلئے استعمال کرے اسے...؟ لہٰذا *اس رمضان المبارک میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا*.
سم اللہ الرحمٰن الرحیم
جاپان کے ڈاکٹر ایموٹو (emoto) نے کتاب لکھی ہے The Hidden Messages in Water (پانی میں مخفی پیغامات). اس نے ثابت کیا کہ پانی پر بھی اچھے و برے الفاظ کا اثر ہوتا ہے. یہ ثابت کرنے کیلئے اس نے کیا یہ کہ پانی کی کرسٹلائن بناوٹ پہ تحقیق کی. اس نے شیشے کی بوتلیں لیں،ان میں پانی بھرا اور ان میں سے کچھ پر اچھے الفاظ کی پرچی چسپاں کی، مثلاً ایک پہ محبت، دوسرے پہ امن، تیسری بوتل پہ دوستی وغیرہ اور کچھ دوسری بوتلوں پر برے الفاظ مثلاً جنگ، نفرت، خون ریزی وغیرہ کی پرچیاں لگا دیں. پھر اس نے پانی کو فریز کرنے کے بعد ہائے اسپیڈ فوٹوگرافی کے ذریعے ان بوتلوں میں موجود پانی کے کرسٹلز کی بناوٹ کا تجزیہ کیا تو وہ دنگ رہ گیا. اس نے دیکھا کہ جن بوتلوں پر اچھے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز کی شکل منظم ہے بلکہ کچھ تو بڑی خوبصورت شکلوں میں منظم پائے گئے. لیکن اس کے برعکس جن بوتلوں پر برے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز بلکل بکھرے اور غیر منظم شکل میں ملے. (کرسٹلز کیا ہوتے ہیں ای موٹو صاحب کی تحقیق سے لی گئی کچھ تصاویر تحریر کے آخر میں ملاحظہ ہوں)
اس نے ثابت کیا کہ ہمارے جسم میں ستر سے پچہتر فیصد پانی ہے اگر ہمارے سامنے اچھے نام لیئے جائیں تو وہ ہمارے اندر مثبت طور اثرانداز ہوتے ہیں اور اگر برے نام لیئے جائیں تو ہماری طبیعت ہو جسم پر برا اثر ہوتا ہے!
میرا سلام ہے ای موٹو پر، اس نے وہ کام کیا جو ہم مسلمانوں کو کرنا چاہیئے تھا کیونکہ ہمارے قرآن کی شروعات ہی بسم، اسم سے یعنی نام سے شروع ہوتی ہے. اور اس کے بعد اسمائے الٰہی رحمٰن و رحیم... ہم نے کبھی غور نہ کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن میں ہر سورہ اللہ (ج) کے اسماء سے ہی شروع ہو رہی ہے. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم... ہر سورہ کے شروع میں کیوں؟ ہم نے نہ سوچا. اب اس جاپانی نے یہ تحقیق کر کے ہمیں دکھایا کہ دیکھو مسلمانو! قرآن میں "بسم" میں اسم اور اس کے بعد اللہ و رحمٰن و رحیم کیسے معجزے ہیں. پانی کی شکل و صورت پر یہ نام اثر انداز ہوتے ہیں. اس لیئے قرآن کی ہر سورہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے کہ تمہارے جسم میں موجود کرسٹلز کِھل اٹھیں اور تمہاری طبیعت ھدایت لینے کیلئے بہترین حالت میں آجائے.
کمال کی بات یہ ہے کہ سورہ توبہ میں بسم اللہ سے شروعات نہیں، کیونکہ اس کی شروع میں اللہ (ج) نے جنگ و جدل کی بات ہے لہٰذا یہ موضوع بسم اللہ سے سازگار نہیں تو بسم اللہ نہیں آئی. اسی ضمن میں حضرت علی (ع) کا قول بھی ملتا ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کیوں سورہ توبہ میں بسم اللہ سے ابتداء نہیں ہوئی؟ آپ نے فرمایا: لانھا امان و براء ۃ نزلت بالسیف
بسم اللّٰہ امان ہے اور سورۂ برائت (توبہ) تلوار لے کر نازل ہوا ہے۔۔(محاسن التاویل ۸: ۱۲۱)
دیکھیئے پرفیکشن! دیکھیئے پِرسِیشن! افلا یتدبرون القرآن پھر کیوں قرآن میں تدبر نہیں کرتے. تدبر کرو، معجزے ملیں گے. علی (ع) نے وصیت میں فرمایا مسلمانوں قرآن کو نہ چھوڑنا کہیں ایسا نہ ہو اغیار قرآن کو سمجھنے میں تم پر سبقت لے جائیں.
جی میرے آقا یہ ہی ہوا ڈاکٹر ای موٹو بازی لے گیا ہم نے قرآن کو دم درود، ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے، اور تعویذ یا مردوں کو بخشنے کیلئے ہی سنبھال رکھا ہے ...
میرے سنی شیعہ بھائیوں! قرآن قرآن قرآن! رمضان ربیع القرآن ہے. یہ مبارک مہینہ قرآن کی بہار کہلاتا ہے اس قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے گا فر فر عربی پڑھ کر گھر مت چلے جائیے گا، ہم نے قرآن کو بھلا دیا یہ ہی وجہ ہے سورہ فرقان آیت ۳۰ میں رسول اللہ (ص) کی شکایت ملتی ہے کہ:
وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً
اے میرے پرودگار بیشک میری قوم نے قرآن کو بھلا دیا تھا.
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*اس مسج کو پڑھنے کا بعد ھنسیئے گا مت البتہ رونے کی اجازت ہے*
ایک برادر نے کہا ہے یہ قرآن تو کچھ نہیں قرآن کا مطلب ہے علی (ع)!
میں سن کر 😳😳 ہوگیا.
میں نے پوچھا دلیل کیا ہے؟
فرمایا سورہ یونس کی آیت نمبر ۳۷
کیونکہ اس آیت شروعات میں لکھا ہے
*وماکان ھذا القرآن*
یہ قرآن وہ نہیں.
یعنی ثابت ہوا کہ یہ قرآن وہ قرآن نہیں وہ قرآن علی (ع) کی ذات ہے...
😀
میں نے یہ نہیں کہا کہ علی (ع) ہی کیوں محمد (ص) کیوں نہیں.
خیر
میں آپکو سورہ یونس کی آیت نمبر ۳۷ اور ۳۸ *مکمل* بھیجتا ہوں آپ پڑھیں اور دیکھیں کہ بات کیا ہو رہی ہے اور ہمارے بھولے دوست ذاکروں سے سن کر کیسے قرآن سمجھتے ہیں.
👇🏽
*وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ* أَنْ يُفْتَرَىٰ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے
آیت ۳۷
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، “اگر تم اپنے اس الزام میں سچّے ہو تو ایک سُورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بُلا لو"
آیت ۳۸
قرآن کے "افترا" کی بات ہے دونوں آیات میں... اور ہم اسے کہاں سے کہاں لے گئے...
ماکان ھذا القرآن
یہ وہ قرآن نہیں...
ہم سے اتنا نہیں ہوتا کہ ذاکر جو آیات بتاتا ہے قرآن کھول کر اس کی اگلی پچھلی آیات کا نیٹ سے اردو ترجمہ پڑھ لیں.
التماس دعا
الاحقر محمد زکی حیدری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*قرآنی الفاظ کا فرق*
💡مسکین اور فقیر💡
فقیر وہ ہے جو کما تو رہا ہے لیکن اس کی ضرورت پوری نہیں ہورہی.
فقیر کسی سے مانگتا نہیں.
*مسکین* وہ ہے جو ذریعۂ معاش نہیں رکھتا. یعنی نوکری وغیرہ نہیں. مسکین، لوگوں سے مانگتا ہے.
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🙏🏼 خطیب صاحبان ذرا ادھر بھی نگاہ کریں 🙏🏼
قُل لا أَسئَلُكُم عَلَیهِ أَجراً إِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربى
میں تم سے اس کا اجر نہیں مانگتا سوائے میرے اقربا کی محبت کے.
شوری ۲۳
بچپن سے اجر رسالت کی یہ آیت سنتے آ رہے ہیں، ھر خطیب نے منبر سے ہمیں اس آیت کی مختلف طریقوں سے تفسیر بتا کر نعرے لگوائے... بیشک یہ آیت ہم محبان اھلبیت (ع) کے سر کا تاج ہے. اھلبیت سے محبت بیشک اجر رسالت میں سے ہے.
لیکن صرف یہ بتا کر عوام کو خوش کردینا کہ محبت ہی کافی ہے اور عمل کی کم ہی تلقین کرنے والے خطیبوں کیلئے عرض ہے کہ اجر رسالت کی 👇🏽 یہ آیت بھی قرآن میں موجود ہے.
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
اِن سے کہہ دو کہ " *میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے*
سورہ فرقان آیت ۵۷
شاید یہ اجر ذرا عمل مانگتا ہے اس لیئے اس بیچاری آیت کو مولوی و خطیب اجر رسالت کی ردیف میں شامل نہیں کرتے...
میں نے کل قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہوئے اس آیت کو دیکھا تو یہ بات ذھن میں آئی....
اھلبیت (ع) سے محبت عمل کے ساتھ ساتھ یہ ہے مکلم اجر رسالت!
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
arezuyeaab.blogfa.com
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🙏🏼 خطیب صاحبان ذرا ادھر بھی نگاہ کریں 🙏🏼
قُل لا أَسئَلُكُم عَلَیهِ أَجراً إِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربى
میں تم سے اس کا اجر نہیں مانگتا سوائے میرے اقربا کی محبت کے.
شوری ۲۳
بچپن سے اجر رسالت کی یہ آیت سنتے آ رہے ہیں، ھر خطیب نے منبر سے ہمیں اس آیت کی مختلف طریقوں سے تفسیر بتا کر نعرے لگوائے... بیشک یہ آیت ہم محبان اھلبیت (ع) کے سر کا تاج ہے. اھلبیت سے محبت بیشک اجر رسالت میں سے ہے.
لیکن صرف یہ بتا کر عوام کو خوش کردینا کہ محبت ہی کافی ہے اور عمل کی کم ہی تلقین کرنے والے خطیبوں کیلئے عرض ہے کہ اجر رسالت کی 👇🏽 یہ آیت بھی قرآن میں موجود ہے.
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
اِن سے کہہ دو کہ " *میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے*
سورہ فرقان آیت ۵۷
شاید یہ اجر ذرا عمل مانگتا ہے اس لیئے اس بیچاری آیت کو مولوی و خطیب اجر رسالت کی ردیف میں شامل نہیں کرتے...
میں نے کل قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہوئے اس آیت کو دیکھا تو یہ بات ذھن میں آئی....
اھلبیت (ع) سے محبت عمل کے ساتھ ساتھ یہ ہے مکلم اجر رسالت!
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
arezuyeaab.blogfa.com
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🤔🤔 غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا کیوں کہا گیا 🤔🤔
....وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ
(حجرات ۱۲)
ترجمہ:
تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے
بھائی یہ غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے کیوں تشبیہ دی گئی؟
آقای محسن قرآئتی نے فرمایا:
ایک
کیونکہ زندہ انسان وہ ہے جو موجود و حاضر ہوتا ہے لہذا جو غیر حاضر ہو وہ ایسے ہے جیسے مردہ!
دوسرا
زندہ انسان کا گوشت کاٹا جائے تو اس جگہ پر پھر سے گوشت بن جاتا ہے لیکن مردے کا گوشت کاٹ لو تو وہ گوشت پھر سے اس کے بدن پہ نہیں بنتا.
یعنی آپ نے جب کسی کی غیبت کی تو اس کی عزت کا ایک ایسا ٹکڑا اس کی شخصیت سے کاٹ دیا جو دوبارہ نہیں بن سکتا.
عزت واپس نہیں آتی جیسے مردے کا گوشت واپس نہیں آتا اس لیئے اسے مردے کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی.
اچھا👌🏽👌🏽👌🏽
بولے ایسا کیوں ہے کہ میں ستر اَسی سال محنت کر کے اعمال بجا لاؤں اور ایک بار غیبت کروں تو سارے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں؟
جواب دیا اس لیئے کہ جس کی تم عزت تباہ کر رہے ہو اس نے بھی ستر اسی سال کی محنت سے یہ عزت بنائی ہے.
arezuyeaab.blogfa.com
بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم
سبحان اللہ اور سلطنت
روایت ہے کہ: نبی حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام اپنی سواری میں ایک جگہ سے گذرے. پرندے ان پر سایہ افگن تھے اور ان کے دائیں اور بائیں فرشتے اور انسان ان کی خدمت کیلئے ساتھ چل رہے تھے.
راوی کہتا ہے: سلیمان علیہ سلام جب بنی اسرائیل کے ایک عبادت گذار شخص کے قریب پہنچے تو اس عابد نے کہا : داؤد کے بیٹے کے خدا کی قسم! خدا نے تمہیں ایک بہت ہی بڑی سلطنت عطا کی ہے.
حضرت سلیمان علیہ سلام نے اس سے فرمایا:
*ایک سبحان اللہ جو کسی مومن کے نامہ اعمال میں لکھی جائے، اس چیز سے بہتر ہے جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے، کیونکہ جو چیز مجھے دی گئی ہے وہ ایک دن ختم ہو جانی ہے لیکن اللہ (ج) کا ذکر ہمیشہ رہنے والا ہے*
حوالہ:
راه روشن، ج 5، ص 490
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری
+989199714873
arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
صدقہ اور پپو پکوڑے والا
میرے پڑوس میں پپو پکوڑے والا رہتا ہے کہتا ہے یہ مولوی لوگ تو بس باتیں بناتے ہیں کہ *صدقہ* دے دو بلا ٹلے گی، برکت ہوگئی، *پیسہ گھوم کر واپس تمہاری ہی جیب میں آئے گا*... بھئی ہم دیکھ رہے ہیں فقیر کو دس روپئے دیئے تو ہماری جیب سے پیسے کم ہی ہوئے مشکل بڑھی کم تو نہیں ہوئی. مولوی الٹی بات کرتے ہیں.
😏
میں نے کہا پپو بھائی سانس تو لے لو! میں آپ کو مثال دے کر سمجھاتا ہوں کہ کیسے صدقہ بلائیں دور کرتا ہے اور کیسے وہی صدقہ واپس جیب میں آتا ہے.
بولے اچھا!
میں نے کہا دیکھیں! میرے بھانجے کی سالگرہ تھی میں نے آپ کو جمعے کی صبح ایک ھزار روپیہ دیا اڈوانس، کہ پپو بھائی یہ رکھ لو میں شام کو کنفرم کرونگا کہ اگر سالگرہ ہوئی تو آپ اس ھزار کے پکوڑے و سموسے بنا دیجئے گا. ٹھیک؟
اب آپ جمعے دن مسجد سے نکلے تو باہر آپ کے بیٹے ببلو کو ٹیوشن پڑھانے والے *ماسٹر بشیر* ملے، ان کی فیس نہیں دی تھی آپ نے، سو آپ نے وہ میرا دیا ہوا ھزار روپیہ ماسٹر بشیر کو دے دیا.
ٹھیک؟
ماسٹر بشیر نے جاکر *جمن دودھ والے* کو یہ ھزار روپیہ دیا کیونکہ اس نے ایک ماہ سے دودہ کے پیسے نہیں دیئے تھے. اور جمن دودہ والے نے بیوی کے علاج کیلئے پچھلے ماہ آپ سے ایک ھزار ادھار لیا تھا سو اسے جب یہ ھزار روپیہ ملا تو اس نے آپ کو آکر یہ ھزار دے دیا کہ یہ لیں پپو بھائی. اور جب یہ ھزار آپ کی جیب میں آیا تب تک شام ہو چکی تھی میں نے آپ کو فون کیا کہ پپو بھائی سالگرہ کا پروگرام ملتوی ہوگیا مجھے یہ ھزار واپس چاہیئے.
یہ ھزار جمعے کی صبح میری جیب سے نکلا اس نے آپ کا قرض اتارا، ماسٹر بشیر کا قرض اتارا، جمن دودہ والے کا قرض اترا اور واپس میری ہی جیب میں آگیا.
*یہ ایک ھزار ختم بھی نہیں ہوا اور تین بندوں کے قرض کی ادائیگی بھی کر دی یعنی ان کے سر سے قرض کی بلا بھی ٹال دی.*
اب سمجھے آپ؟
پیسہ اگر میں اپنی جیب میں رکھتا تو کیا ان تین لوگوں کے قرضے اترتے؟
نہیں!
سو پیسے کو گھمائیں تاکہ لوگوں کی مشکلات حل ہوں اسے جیب میں قابو کر کے نہ رکھیں.
قرآن کیا کہتا ہے:
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اگر اپنے صدقات علانیہ (سرعام) دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے
(بقرہ آیت ۲۷۱)
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
از طرف: الاحقر محمد زکی حیدری
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
بھیا یہ آیت پڑھیئے گا ذرا اس میں کون سی بڑی بات کردی اللہ (ج) نے. فرماتا ہے غیب کا علم سارا میرے پاس ہے.بھئی بیشک لیکن ہم الٹراساؤنڈ کر کے بتا سکتے ہیں کہ رحم مادر میں کیا ہے کل لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی. اور یہ درختوں کے پتے گرنے کا پتہ ہونا کون سی بڑی بات ہے یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے خزاں کے موسم میں پتے گرتے ہیںتو جب ہمیں پتہ ہے تو اللہ (ج) کیوں فرماتا ہے کہ صرف میں جانتا ہوں اور کسی کو نہیں? معلوم؟*
ارے پڑھیں تو!! میں جھوٹ تھوڑی بول رہا ہوں.
لیجئے
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ
اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو خشک و ترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے
(انعام آیت ۵۹)
کیا کریں اب 🤔
بھئی بات یہ ہے کہ قرآن مجید ایک کتاب ہے جس میں اشارے ہیں اور عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے پورا چِٹھا کھولنا لازمی نہیں سو ہم تو ٹھہرے کوڑ مغز لیکن جب علماء سے پوچھا گیا تو مسئلہ ہی حل ہوگیا.
بولے مُنے آپ جو الٹراساؤنڈ کرتے ہو اس میں بیشک آپ کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ اللہ دتا ہے یا رضیہ. لیکن اللہ (ج) جب کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ رحم میں مادر میں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ کل کردار کے لحاظ سے کیسا ہوگا، یہ کل ایدھی بنے گا، یا الطاف یا زرداری، ظالم بنے گا یا مظلوم، عاشق بنے گا یا معشوق، نیٹی جھیٹی پل کے نیچے بیٹھ کر صمد بونڈ کا نشہ کریگا یا مسجد میں با جماعت فجر نماز پڑھے گا.
لڑکی جو ماں کے پیٹ میں ہے کل کراچی یونیورسٹی میں جاکر کسی کار والے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے جایا کریگی یا شریف ماں باپ کے عزت کی رکھوالی بنے گی.
کیا یہ الٹرا ساؤنڈ بتا سکتا ہے؟
ہر گز نہیں!!!
اچھا پتے خزاں میں جھڑتے ہیں لیکن کون سا پھنے خان ہے جو یہ بتائے کہ اس سال پاکستان میں کتنے پتے گریں گے، ھر پتہ کتنے دن درخت سے جڑا رہے گا اس کے بعد گرے گا. کوئی فگر و تعداد تو ہوگی نا کہ کتنے پتے کب اور کس وقت گرتے ہیں تو وہ فگر آپ بتا سکتے ہو؟
ھرگز نہیں!!!
اس لیئے اللہ (ج) کہتا ہے صرف ہم جانتے ہیں اور کوئی نہیں.
قربان جاؤں میں کریم رب پر...
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ویسے آپس کی بات ہے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ قرآن مجید شب قدر میں نازل ہوا... تو پھر بار بار جبرئیل (ع) وحی لے کر آتے تھے وہ کیا تھا؟🤔
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری
برادران اھل سنت اور ہم شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن رمضان المبارک میں نازل ہوا کیونکہ قرآن مجید کی صاف آیت ہے جو اس بات کی گواہ ہے
شَهرُ رَمَضانَ الَّذِی اُنزِلَ فیهِ القُرءانُ (بقره / 185)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا.
*تو بھائی ہوگیا تو ہو گیا پھر جبرئیل (ع) بار بار کیا لے کر آرہے تھے؟*
اصل میں بات یہ کہ نزول قرآن کے بارے میں دو بڑے اور ایک چھوٹا نظریہ ہے:
بعض علماء کا کہنا ہے کہ پورا کا پورا قرآن ایک ہی دفعہ میں قلب رسول (ص) پرنازل ہوا یا پھر آسمان پر نازل ہوا ایک ہی دفعہ میں اور پھر گاہے بہ گاہے رسول (ص) پر آیات نازل ہوتی رہیں. یہ ہے *نزول دفعی*
دوسرے کہتے نہیں قرآن مختلف وقتوں میں نازل ہوتا رہا. یعنی جیسی صورتحال ہوتی تھی اس کے مطابق جبرئیل (ع) اللہ (ج) کا پیغام لے کر نازل ہوتے تھے. اس نزول کی قسم کو کہتے ہیں *نزول تدریجی*
اس کے علاوہ چند علماء ایسے ہیں جن کا ماننا ہے کہ بیشک قرآن لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا تھا مگر ھر سال! یعنی ھر سال رمضان میں اس سال کے بارے میں ساری آیات نازل ہو جایا کرتی تھیں اور پھر اگلے رمضان اگلے سال کی.
ارے بھیا ہم تو چکرا گئے تین تین باتیں اب کس کی مانیں؟🤔
بھئی ڈریں مت! ویسے تو یہ بحث بہت طولانی ہے لیکن مجھے جو بات پسند آئی وہ شیخ مفید (علیہ رحمہ) کی ہے. شیخ مفید (علیہ رحمہ) نے ایک مثال میں پوری بات سمجھا دی، فرماتے ہیں :
"اگر ایک بڑے سے تالاب میں پانی جمع ہونا شروع ہو اور یہ پانی پہلی بار جمعے کے دن کو تالاب میں جانا شروع ہوا تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ سارا پانی جمعے کے دن ہی تالاب میں گیا.؟ جب کہ تالاب کو بھرنے میں بہت دن لگے. اسی طرح قرآن مجید مختلف مدتوں میں نازل ہوا مگر اس نزول کی *شروعات* لیلۃ القدر سے ہوئی.
لہذا شیخ مفید (علیہ رحمہ) کی بات سے واضح ہو گیا کہ قرآن مجید ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا اور سورہ قدر میں جو بات آئی ہے کہ "ہم نے قرآن کو قدر کی رات میں نازل کیا" یا سورہ دخان کی آیت ۳ اِنّا اَنزَلنـهُ فی لَیلَةٍ مُبـرَکَةٍ
بیشک ہم نے اسے (قرآن کو) مبارک رات میں نازل کیا. ان سے مراد یہ ہی ہے کہ قرآن کے نزول کی *شروعات* اس رات میں ہوئی نہ کہ پورا کا پورا قرآن اسی رات میں نازل ہوا.
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)
بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم
🐬 چلے تھے مچھلی پکڑنے بن گئے بندر🐒
تحقیق و تحریر: محمد زکی حیدری
وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ *مچھلیاں* سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے.
(سورہ اعراف آیت ۱۶۳)
فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ
ہم نے انہیں کہہ دیا کہ *بندر بن جاؤ* اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے
(سورہ بقرہ آیت ۶۵)
*ارے*😳
یہ کیا بات ہوئی بھائی ایک بستی والے مچھلیاں پکڑتے تھے ان کا پیشہ ہی ماہی گیری تھا، ماہی گیر روز روز مچھلی پکڑتا ہے، ہفتے کے دن پکڑ لی تو اللہ (ج) اتنا ناراض ہوا کہ انہیں بندر بنا دیا.
😳 *عجب*
بھئی یہ یوم سبت کا قانون کیا تھا کہ جس کی مخالفت پر اللہ (ج) نے اس قوم کو بندر بنا دیا؟ 🤔
ویسے آپس کی بات ہے اللہ (ج) خود ہی تو محنت مشقت کی تاکید کرتا ہے پھر کیا ھفتہ کیا اتوار کیا جمعہ .... ہفتے کو کوئی ماہی گیر کام پر جائے تو سزا کے طور پر بندر!!!
*چکر کیا ہے بھائی ...* 🤔
بھیا بات پوری سمجھیں! اصل میں بات یہ ہے کہ یہ حضرت داؤد (ع) کی قوم تھی، بحر احمر (Red sea) کے ساحل پر مچھلی کا شکار کر کے زندگی بسر کرتی تھی. اکثر لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا. (۱)
اب اللہ (ج) تو امتحان لیتا ہے اور امتحان کا تقاضہ بھی یہ ہوتا ہے کہ یا تو ایسی چیز قربان کرنے کا حکم دیتا یے جو سب سے پیاری ہو یا پھر کسی پسندیدہ کام سے روکتا ہے. جیسے ابراھیم (ع) کو حکم دیا کہ بیٹا قربان کرو، آدم (ع) سے کہا کہ فلاں درخت سے مت کھانا وغیرہ وغیرہ...
اب اس قوم کی پسندیدہ چیز تھی *مچھلی* سو اللہ (ج) نے انہیں حکم دیا کہ دیکھو بستی والو پورا ھفتہ مچھلیاں پکڑو مسئلہ نہیں ھفتہ (یوم سبت) کے دن مچھلیاں نہ پکڑنا. اس دن مچھلیوں کیلئے امن کا دن ہے.
یہ حکم اس لیئے دیا کہ اس دن مچھلیاں سطح سمندر پر آجایا کرتی تھیں باقی دنوں میں مچھلیاں سمندر کی گہرائی میں ہوا کرتی تھیں. اب ماہی گیر ھفتے کے دن دیکھتے کہ اتنی تعداد میں مچھلیاں وہ بھی گھر بیٹھے مل رہی ہیں یعنی ساحل پر تو ان سے رہا نہ گیا.
ان کے کچھ ماہی گیروں نے اللہ (ج) کے حکم کی نافرمانی کی اور مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا. یعنی امتحان میں فیل ہوئے.
اس بستی کے نیک لوگوں نے انہیں اس کام سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے.
اچھا دلچسپ بات یہ کہ ان میں سے کچھ بڑے چالاک نکلے وکلاء کی طرح!
کیسے؟
وہ بولے بھئی دیکھو اللہ (ج) نے ھفتے کو ماہی گیری سے منع کیا ہے نا! ٹھیک ہے مسئلہ نہیں. ہم ھفتے کے دن شکار نہیں کریں گے. انہوں نے کیا کیا ایک چال چلی وہ یہ کہ ساحل سمندر پر بڑے بڑے حوض بنادیئے جن کے دروازے وہ ھفتے کی صبح کھول دیا کرتے مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہوتیں تو شام میں یہ لوگ ان کے دروازے بند کر دیا کرتے. اس طرح مچھلیاں ان حوضوں میں قید ہو جاتیں، یہ لوگ ھفتے کے دن تو ان مچھلیوں کو ہاتھ بھی نہ لگاتے البتہ اتوار کے دن ان کا خوب شکار کیا کرتے اور کہتے ہم نے تو اتوار کو شکار کیا ہے اللہ (ج) نے تو ھفتے کا منع کیا ہے (۲)
اللہ (ج) کو جلال آیا حکم دیا کہ جو اچھے لوگ ہیں وہ اس بستی سے نکل جائیں باقی جو ھفتے کے دن مچھلی کا شکار کرتے تھے ان پر عذاب نازل ہوا وہ بندر بن گئے اور بستی کے دروازے بند ہو گئے تاکہ وہ باہر نہ جا سکیں.
روایات میں ملتا ہے کہ برابر والی بستی کے لوگوں کو جب پتہ چلا تو وہ اس بستی کی دیواروں پر چڑھ کر ان مرد و عورتوں کو بندر کی شکل میں دیکھا کرتے، اور جو بندر شکل سے انہیں لگتا کہ یہ اس کا فلاںِ دوست ہے تو وہ ان بندروں سے پوچھتے کہ تم فلاں ہو؟.
اور وہ اشک بھری آنکھوں سے سر ھلا کر تائید کرتے.
تین دن بعد تیز آندھی چلی اور یہ بستی صفحۂ ھستی سے مٹ گئی. (۳)
سبت ھفتے کے دن کو کہتے ہیں اور جو لوگ اس قصے سے منسوب ہیں انہیں *اصحاب سبت* کہا جاتا ہے.
آج بھی ھفتے کا دن یہودیوں میں مذھبی دن کے طور پر رائج ہے اس دن چھٹی کی تاکید ہے.
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
حوالہ جات:
(۱)تفسیر کشاف، ج1، ص355
(۲) تفسیر برهان، ج2، ص42؛ یہ بات ابن عباس (رض) نے بھی تفسیر مجمع البیان میں آیت کے ذیل میں نقل کی ہے.
(۳) بحارالانوار، ج14، ص56
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)
بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم
بھئی یہ فطرت کیا ہے؟ جس کو دیکھو فطرت فطرت... ہے کیا چیز یہ فطرت؟
🤔
سادہ سی بات ہے!
دیکھیئے صاحب! عدم کا مطلب ہے کچھ نہ ہونا، کچھ بھی نہ ہونا، کوئی چیز موجود نہ ہو اسے عدم کہتے ہیں.... انسان پہلے موجود نہیں تھا عدم تھا. پھر یہ عدم کے پردے "چیر" کر باہر نکلا یعنی وجود میں آیا. اس "چیرنے" کو عربی میں *فَطَر* کہتے ہیں اور فطر سے فطرت کا لفظ بنا. فطر مطلب چیرنا (عموما کپڑے کو)
بھائی یہ کیا بات ہوئی! اس طرح تو گائے بھی عدم میں تھی پھر وجود میں آئی کیا اسے بھی فطرت کہیں گے؟؟ جب کہ ہم جانتے ہیں جانور کی فطرت نہیں ہوتی 😏
نہیں!
جناب بات یہ ہے کہ ھر مخلوق ایک خاص کیفیت میں کچھ مخصوص عادات و حرکات و سکنات و خصوصیات اپنے اندر لے کر وجود میں آتی ہے یہ سب خدا اس کے اندر ڈال کر پھر اسے پیدا کرتا ہے.
الریڈی انجیکٹڈ already injected یعنی پہلے سے ڈلی ہوئی ہوتی ہیں مخلوق اپنی محنت سے انہیں حاصل نہیں کرتی بلکہ یہ الریڈی انجیکٹڈ ہوتی ہیں.
گاڈ گفٹڈ!!!
جیسے جمادات کی بات کریں تو پتھر کے اندر سختی اللہ (ج) ڈال کر اسے خلق کرتا ہے. پانی میں نمی اللہ (ج) ڈال کر اسے خلق کرتا ہے.
حیوانات میں آ جائیں تو بچے کا ماں تھنوں میں دودہ کیلئے منہ مارنا اللہ (ج) کی طرف سے ہے، ماں کے آس پاس رہنا یہ خاصیت اللہ (ج) نے اس میں ڈال رکھی ہے.
انسان بھی اسی طرح کی خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے
تو کیا ان سب خصوصیات کو فطرت کہیں گے؟🤔
نہیں.
تین اصطلاحات ہیں!
غیرجاندار کی ان خصوصیات کے مجموعے کو *طبیعت* کہتے ہیں
حیوان جو خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے ان کے مجموعے کو *غریزہ* کہتے ہیں
اور
انسان جو جو خصوصیات لے کر پیدا ہوا اسے *فطرت* کہتے ہیں....
پتھر کی سختی اس کی فطرت نہیں نہ غریزہ. یہ اس کی *طبیعت* میں ہے. کوئی کہے پانی کی فطرت میں نمی ہے تو یہ جملہ غلط ہے اسے کہنا چاہیئے پانی کی *طبیعت* میں نمی ہے. پتھر کی طبیعت میں سختی ہے.
حیوان کی فطرت میں مامتا ہے !!!!
نہیں یہاں لفط فطرت نہیں *غریزہ* استعمال ہوگا
🌹فطرت کا لفظ صرف انسان کیلئے ہے. 🌹
*سوال*
*ان تینوں میں فرق کیا ہے؟*
فرق ہے *آگاہی* کا. طبیعت سے غریزہ زیادہ آگاہ تر چیز ہے یعنی اپ ڈیٹڈ ہے. اور فطرت ان دونوں سے زیادہ اپڈیٹڈ ہے.
نکتہ: امام علی (ع) نے نھج البلاغہ میں فرمایا :
"کلمة الاخلاص هی الفطرة"
یعنی کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ) فطرت ہے.
یعنی اللہ (ج) جس طرح پتھر میں سختی، پانی میں نمی، حیوان میں مامتا ڈال کر اسے خلق کرتا ہے اسی طرح انسان کی فطرت میں *صرف ایک* معبود یعنی اللہ (ج) کی عبودیت بھی ڈال کر بھیجتا ہے. فطرت اللہ (ج) کی ڈالی ہوئی خصوصیات کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ایک خاصیت ہے اللہ (ج) کو واحد معبود ماننا.
ہم سب کی فطرت میں اللہ (ج) اپنی وحدانیت "انجیکٹ inject" کر کے بھیجتا ہے.
*سوال فطرت انسانی میں اگر وحدانیت ڈال کر بھیجی گئی ہے تو اتنے لوگ اللہ (ج) کی وحدانیت کے قائل کیوں نہیں؟*
اس کا جواب کل ان شاء اللہ
ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
*arezuyeaab.blogfa.com*
Salam zaki bhae ye ahsan e taqweem kia h quran me aya h hum ne insan ko ahsan taqweem pe paida kia. Roshne dalain.
بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم
وعلیکم السلام برادر !
سورہ والتین کی آیت نمبر ۴ میں اللہ (جَ) فرماتا ہے :
قَد خَلَقنَا الإِنسانَ في أَحسَنِ تَقويمٍ
ترجمہ
بیشک ہم نے انسان کو بہترین ترکیب میں بنایا.
کسی نے تقویم کو ترکیب کہا، کسی نے نظم، کسی نے کیفیت، کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ لیکن عرض کہ جو بندہ حقیر کا مطالعہ ہے اس کی روشنی میں مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرونگا.
بھئی دیکھیئے !
جس طرح حکیم مختلف ترکیبیں استعمال کر کے ایک دوائی بناتا ہے کہ جس کے اندر ھر جڑی بوٹی کی اس طرح مناسب مقدار موجود ہوتی ہے کہ دوائی بہترین بن جاتی ہے. اسی حکیم کی مختلف دوائیاں بنائی ہوئی ہوتی ہیں مگر ایک دوائی کی ترکیب وہ ایسی رکھتا ہے جس پر اسے فخر ہوتا ہے اور اسے جب بھی اپنی بہترین دوائیوں کی مثال دینی ہوتی ہے تو وہ اپنی اس دوائی کی مثال دیتا ہے. انگلش میں اسے کہتے ہیں Master piece. لہذا اللہ (ج) نے بھی کئی چیزیں خلق کی مگر ان میں سے چند اہم ہیں:
جمادات
نباتات
حیوانات
فرشتے
انسان
ان میں سے ہر ایک کی ترکیب اللہ (ج) نے کیا رکھی غور کیجئے!
جمادات حرکت نہیں کرسکتے جان بھی نہیں رکھتے.
بھئی پتھر جمادات میں سے ہے نا کیا اس میں جان ہے؟ نہیں! اچھا بھلا حرکت کر سکتا ایک جگہ سے دوسری جگہ ؟ نہیں! سو اس کی ترکیب ناقص!
نباتات میں آجائیں! جان ہے، لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت نہیں کر سکتے. ترکیب ناقص!
اچھا حیوانات میں جان بھی ہے، حرکت بھی کر سکتے ہیں، شہوت بھی ہے بھئی یہ تو کامل ترکیب والے مان لو ! بولے نہیں اس کی ترکیب میں عقل نہیں ہے.
اچھا فرشتے میں عقل بھی ہے، جان بھی، حرکت بھی اسے مانو گے؟ بولے نہیں فرشتے میں شہوت نہیں! ترکیب ناقص!
آتے آتے بات آئی انسان پر جب اس مخلوق کو دیکھا گیا تو اس کی ترکیب میں جان بھی ہے، حرکت بھی، شہوت بھی اور عقل بھی ... یہی وجہ ہے کہ اس مخلوق کیلئے ہی اللہ (ج) نے فرمایا ہم نے انسان کو بھترین ترکیب میں بنایا.
اور اس کی ترکیب سب سے بہترین ہے اس لیئے اس پر ذمہ داری بھی سب سے زیادہ اور اگر یہ اچھا ہو تو اشرف الخلوقات اگر برا ہو تو شر الدواب یعنی جانور سے بھی بدتر.
البتہ یہ ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ بعج مفسرین نے احسن تقویم کو ظاہری ، جسمانی بناوٹ پر تطبیق نہیں کیا ان کے بقول اس کی عرفانی و باطنی تفسیر ہے. بھرحال وہ ایک الگ موضوع ہے.
ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
*arezuyeaab.blogfa.com*
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*طاغوت لفظ کے معانی*
مترجم : محمد زکی حیدری
طاغوت» جس کا مادّه «طغى» و «طغو» ہے کہ معنى تجاوز یا اپنی مقرر کردہ یا معروف حد ، یا اعتدال سے بڑھ جانا ہے. راغب اصفہانی اسے گناہ میں حد سے کرنا کہتے ہیں.[1]
کچھ علماء کے بقول طاغوت صیغه مبالغه ہے؛ جیسے «ملکوت» و «جبروت» که مبالغۂ مالکیت و جباریت کو ظاہر کرتے ہیں. یہ لفظ اس تناظر میں استعمال ہوتا ہے جب کوئی چیز طغیان کا موجب بنے یعنی (حد سے تجاوز کرے) *جیسے معبود غیر خدا مثلاً بت، شیطان، جن اور بنی آدم کے رھبران ضلالت اور ہر وہ گروہ جس کی کامیابی سے خدا راضی نہ ہو*، یہ لفظ مذکر و مؤنث و مفرد و تثنیه و جمع، مساوی میں مساوی ہے اور تبدیل نہیں ہوتا.[2]
کچھ مفسران معتقد ہیں؛ طاغوت، جس کا ماده طغیان ہے، ایسا طغیان ہے جو *ھر اس خود خواہ و سرکش انسان یا گروہ کا خاصہ ہے جو عوامی آزادی اور عوام کے حقوق دینے کا مخالف ہو*
. موارد و اشخاص جو اس زمرے میں آتے ہیں وہ یہ ہیں: شیطان، کاهن، رھبران گمراهى، سرکشان انس و جن و نفس طغیانگر،.[3]
لذا طغیان، سرکشى و خروج از مسیر طبیعى و فطرى است.
*لھذا طغیان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے فطری یا مقرر کردہ راستے سے سرکشی اور خارج ہوجائے.*
طغیان آب، آن است که از بستر طبیعى و ساخته خود بیرون رود و آبادى و مزارع را ویران کند.
*پانی کا طغیان یہ ہے کہ اپنے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے اور فصلوں اور آبادیوں کو ویران کرے*
طغیان شخص بر خود، چیرگى خوى خودبینى و یا بعضى از قواى حیوانى است که فطریات و مواهب انسانى را فراگیرد.
ایک انسان کا خود پر طغیان یعنی خود غرضی یا دوسری ایسی حیوانی خصوصیات جو اس کے اندر پائی جاتی ہوں
طغیان بر خلق، سلطه جابرانه بر حقوق و مواهب آنها است که نتیجهاش به وجود آوردن فساد در زمین خواهد بود، چنانکه قرآن میفرماید:
*خلق پر طغیان کا مطلب ہے عوام کے حقوق پر زبردستی و جابرانہ طریقے سے قابض ہوناجس کا نتیجہ فساد ہو جیسے قرآن میں آیا ہے:*
«الَّذِینَ طَغَوْا فِی الْبِلادِ* فَأَکْثَرُوا فِیهَا الْفَسادَ»؛[4]
همان اقوامى که در شهرها طغیان کردند، و فساد فراوان در آنها به بار آوردند.
ترجمہ آیت:
*یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شہروں میں طغیان کیا (انہیں برباد کیا) اور بھت ہی زیادہ فساد برپا کیا*
منشأ طغیان، نفس و خواستههای نفسانی است که خود را به آنچه دارد بینیاز از خدا پندارد.
*خواھشات کا طغیان وہ ہے جو اس شخص جو اپنی نفسانی خواھشوں کا غلام بنادے اور اسے خدا سے بے نیاز کردے*
آنچیز میتواند بت مال باشد، یا قدرت و یا دانشى که وهم انگیز و غرورآور باشد
*چاہے وہ چیز بت ہو، مال ہو، اقتدار ہو یا علم جو کہ باعث غرور بنے*
.[5]
«کَلَّا إِنَّ الْإِنْسانَ لَیَطْغى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى؛[6]
چنین نیست (که شما میپندارید) به یقین انسان طغیان میکند، از اینکه خود را بینیاز ببیند!
ترجمہ ایت:
*ایسا نہیں (جیسا تم سوچتے ہو) بیشک انسان کا ظغیان کرتا ہے اور خود کو خدا سے بے نیاز سمجھ بیٹھتا ہے*
لذا هر مورد پرستشی غیر از خدا همه طاغوتاند، چه شیطان باشد یا بت و یا هر چیز دیگر ... طاغوت هر کسى نفس اماره او است که به بدى فرمان میدهد و انسان را از مسیر مستقیم به ضلالت و گمراهی میکشاند.
*لھذا خدا کے علاوہ ہر معبود طاغوت ہے چاہے وہ شیطان ہو، بت ہوں کچھ اور... ہر انسان کا طاغوت اس کا نفس امارہ ہے جو اسے گناہ اور برائی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو صراط مستقیم سے دور لے جاتا ہے*
[7]
حوالاجات:
[1]. راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق، داودی، صفوان عدنان، ص 520، دمشق، بیروت، دارالقلم، الدار الشامیة، چاپ اول، 1412ق.
[2]. مصطفوی، حسن، تفسیر روشن، ج 3، ص 323، تهران، مرکز نشر کتاب، چاپ اول، 1380ش؛ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 2، ص 344، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ق.
[3]. طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، ج 2، ص 20، تهران، شرکت سهامی انتشار، چاپ چهارم، 1362ش.
[4]. فجر، 11- 12.
[5]. پرتوی از قرآن، ص 207- 208.
[6]. علق، 6.
[7]. رشیدالدین میبدی، احمد بن ابی سعد، کشف الأسرار و عدة الأبرار، تحقیق، حکمت، علی اصغر، ج 1، ص 69، تهران، امیر کبیر، چاپ پنجم، 1371ش.
[8]. ابن حیون، نعمان بن محمد مغربى، دعائم الإسلام، محقق، مصحح، فیضى، آصف، ج 2، ص 530، قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام، چاپ دوم، 1385ق.
*پاکستانی تعریف: طاغوت مطلب جمہوریت* بس بات ختم ایک لفظ میں.
(نوٹ اس معنی کاحوالہ میرے پاس موجود نہیں)
پریشانی میں سکون

مال جمع کرنے والے

ہدایت کے بعد گمراہی نہ دینا

جو اللہ (ج) کے دین کی مدد کرتا ہے

ذرہ برابر نیکی
