جوانو! کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جوانو! کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟
از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری
میرا ایک دوست اچھا خاصہ یونیورسٹی کا پڑھا لکھا جوان، ملنگوں کی صحبت میں آکر ذاکر و خطیبوں کو ہی دین سمجھنے لگ گیا. اس کا موبائل مشہور خطیب ناصر ملتانی کی تقریروں سے بھرا ہوتا، کڑے وڑے پہنا بھی شروع کر دیئے تھے، پیروں میں بھاری بیڑی وغیرہ. جب ملتا ناصر ملتانی کی تعریفوں کے بند باندھ دیتا، اس کے بعد دوسرے ذاکروں کی تعریف! ایک دن برابر والے امام بارگاہ میں "بڑے پمفلیٹ والی" مجلس تھی. سارے مشہور خطیب و ذاکر آئے ہوئے تھے میرے اس دوست نے کہا "چل آج چل کر سن کہ فضائل کہتے کسے ہیں." میں نے سوچا چلو فارغ ہیں ہو ہی آتے ہیں.
بانی مجلس کا بیٹا میرے دوست کے ساتھ پڑھتا تھا سو ہمیں اس ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا جہاں سارے خطیب اور چھوٹے چھوٹے ذاکر اپنی مجلس کی باری آنے کے منتظر تھے.
میں نے سوچا میرے دوست کی عقل ٹھکانے لگانے کا آج اچھا موقع ہے. میں نے سامنے بیٹھے سب سے بڑے خطیب سے پوچھا: "علامہ صاحب ہم بچپن سے ایک حدیث سنتے ارہے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا "اِختِلافُ اُمَّتی رَحمَةٌ" میری امت کا اختلاف رحمت ہے.
یا بقول کچھ لوگوں کے علماء کا اختلاف رحمت ہے.
اس کا کیا مطلب ہے، رسول (ص) اختلاف کو رحمت کیوں کہہ رہے ہیں، کیا جس عالم دین کو رحمت چاہیئے وہ دوسرے عالم سے اختلاف کرے تب ہی مورد رحمت قرار پائے گا؟
سب میری طرف متوجہ ہوئے.
خطیب صاحب نے فرمایا: بھئی یہ اہلسنت کی حدیث ہے اھل تشیع اسے مستند نہیں مانتے. میں نے کہا میرے پاس سند ہے پیش کروں؟
خطیب نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا، اتنے میں دوسرا جناح ٹوپی اور سیاہ مفلر والا خطیب بولا دیکھیئے پہلی بات تو اس میں لفظ علماء سے مراد ہر وہ انسان ہے جو اھلبیت (ع) کے بارے میں علم رکھتا ہو لازم نہیں کہ وہ عمامے والا مولوی ہو.
میں نے کہا ٹھیک!
پھر انہوں نے فرمایا: اگر آپ غور کریں تو یہ حدیث تو اھلبیت (ع) کا علم رکھنے والوں یعنی علماء کی فضیلت بیان کر رہی ہے *کہ ذکر اھلبیت (ع) کرنے والے سرکار محمد (ص) کو اتنے پیارے ییں کہ ان کے اختلاف کو بھی رحمت کہا گیا ہے* یہ اختلاف تو افتخار ہے!!!
یہ سن کر وہاں بیٹھے باقی لوگ اور اس خطیب کے چیلے واہ واہ جیو جیو شاہ جی کرنے لگے.
میں نے مسکرا کر کہا: حدیث کی یہ تشریح جس امام (ع) نے کی ہے اس کا نام بتا سکتے ہیں آپ، کیونکہ عجیب بات ہے قرآن اتحاد کی بات کرتا ہے نبی (ص) اختلاف کو رحمت کہہ رہے ہیں...!!!
یہ کیسے ممکن ہے؟
اس پر ایک چیلا کہنے لگا "پاجی آپ شک کر رہے ہیں، شاہ جی نے اتنا اچھا جواب دیا ہے. اھلبیت (ع) کے فضائل پر شک کرنے والا معاویہ کی اولاد ہوتا ہے شک نہ کریں"
سارے ھنسنے لگے اتنے میں ایک بندہ آیا بڑے خطیب کو باعزت و احترام جلسے میں لے گیا، سارے اس کے پیچھے چل دیئے.
میرا دوست بھی مجھ پہ تحقیر آمیز لہجے میں ھنستا رہا. جب جلسہ ختم ہوا اور میں اور میرا دوست گھر لوٹنے لگے تو میں نے *جیب سے موبائل نکالا اس حدیث کی تشریح کے بارے میں سوال ایک مرجع تقلید کی ویب سائیٹ پر ڈال دیا*. شام کو جواب آیا دیکھا تو کچھ اس طرح کی تشریح آئی.
عربی زبان میں لفظ "اختلاف" کے معانی بہت ہیں جیسے: جانشین، کسی کے بعد آنا، کسی کو پشت سے پکڑنا وغیرہ ان میں سے ایک ہے *آمد و رفت* یا آنا جانا.
جیسے قرآن سورہ آل عمران کی آیت ۱۹۰ میں فرمایا ہے :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ *وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ* لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
ترجمہ:
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں.
اب اس حدیث پیغمبر (ص) میں اختلاف کی معنی آمد ورفت کی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا میری امت کا ایک دوسرے کے ساتھ آمد و رفت رکھنا رحمت ہے.
اس کے علاوہ پرانے دور میں لوگ رسول (ص) کے پاس علمی سوالات پوچھنے آیا کرتے تھے اور بعد میں اپنے علائقے میں جاکر یہ دین کی باتیں عوام کو بتاتے تھے. اس علماء اور امت کے حصول علم کیلئے رسول (ص) کی بارگاہ میں *آمد و رفت* کو اختلاف کہا گیا ہے. امام جعفر صادق (ع) نے بھی اس حدیث میں موجود لفظ اختلاف کی ایسی ہی تفسیر کی ہے (۱)
میں نے وہ جواب اپنے دوست کو واٹس ایپ کردیا
کہ دیکھو جب علم نہ ہو تو یہ ہوتا ہے یعنی تفرقۂ امت کو رحمت سمجھ لیا جاتا ہے اور اسے رسول (ص) سے منسوب کیا جاتا ہے. (نعوذ باللہ)
سو آپ جوانوں سے بھی دست بستہ گذارش ہے کہ جنہیں نہ عربی آتی ہے نہ انہوں نے عربی پڑھی ہے، صرف سنے سنائے فضائل یاد کر کے واہ واہ والی مجلس پڑھتے ہیں، ان کے جھانسے میں نہ آئیں. ایک بانی مجلس جو ایک خطیب کو لاکھوں روپے دے اور وہ اتحاد کے داعی رسول (ص) کو ایک منٹ میں تفرقے کا داعی بنا دے، (نعوذباللہ) تو اس اہانت کو پھیلانے میں بانی مجلس بھی شامل ہے اور ہم جو سن کر واہ واہ کرتے ہیں وہ بھی شامل ہیں. یہ لوگ منبر رسول(ص) پر بیٹھ کر رسول (ص) کی اہانت کرتے ہیں اور بانی مجلس کی جیب بھی خالی کر جاتے ہیں نہ دینی فائدہ نہ دنیاوی. لہٰذا اب سوچیں، فکر کریں. فضائل کے نام پہ اھانت قبول کر کے آپ کون سی جنت کما رہے ہیں. سوچیں! *دماغ کی بتی جلائیں قبل اس کے کہ ہماری قبر پہ اگربتی جلے*. انٹرنیٹ کا دور ہے تقریبا ھر مرجع تقلید کی ویب سائیٹ پر اردو میں سوال جواب کی سہولت موجود ہے تو ہم کیوں نہ اس سے استفادہ کریں، کیا ہم دین حاصل کرنے کیلئے اتنا بھی نہیں کرسکتے؟
حوالہ: (۱) وسائل الشیعة 18/101
*_arezuyeaab.blogfa.com_*