میری شادی اور مولانا جنتروی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



میری شادی اور مولانا جنتروی

(افسانہ)

از قلم: محمد زکی حیدری



مجھے میری خالہ کی بیٹی بتول پسند تھی، وہ گاؤں میں رہتی تھی، لڑکی مذھبی تھی صوم و صلاۃ کی پابند اور گاؤں کے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتی تھی. جب میں نے امی سے اس دلچسپی کا اظہار کیا تو امی اور ابو نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ وہ گاؤں کی لڑکی ہے اور ہم شہر کے، وہ شہر کے ماحول میں "ایڈجسٹ" نہیں کر پائے گی. بھرحال امی ماں تھی، ماں اولاد کی خوشی کیلئے سب کچھ کر گذرتی ہے لہٰذا وہ مان گئیں لیکن ابا کو منانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا. امی اور ایک مہربان چاچو کی مدد سے بڑی محنت کے بعد ابا اس شرط پر راضی ہوئے کہ ماہر علم ابجد و علم جفر مولانا فصیح رضا جنتروی صاحب قبلہ سے ابجد کا حساب کروائیں گے، اگر حساب ٹھیک بیٹھا تو رشتہ ہوگا ورنہ نہیں. میں نے سوچا میری نیت صاف ہے ابجد کے اعداد میرے حق میں ہی آئیں گے. بالقصہ ابجد کا حساب ہوا، مولانا جنتروی صاحب نے لڑکی کا نام پوچھا تو لڑکی کے دو نام تھے شناختی کارڈ میں فرزانہ اور گھر میں بتول! ابا نے سوچا کہ اصلی نام تو کارڈ والا ہی ہے سو وہ ہی نام مولانا کو بتادیا. ابجد کا حساب لگایا گیا تو مولانا جنتروی صاحب نے کہا کہ "اوہ ہو ہو! یہ حساب تو بلکل صحیح نہیں بیٹھ رہا، صرف رنج و الم و مصائب ہوں گے بیٹے کی زندگی میں" ابا جو پہلے ہی اس رشتے سے راضی نہیں تھے انہیں تو جیسے منہ مانگی مراد مل گئی، کہنے لگے بیٹا جنتروی صاحب علم جفر و ابجد پہ مسلط ہیں، ان کا حساب کتاب کبھی نہیں چونکا لہٰذا یہ شادی نہیں ہو سکتی.

میں ایک بار پھر چاچو کے پاس گیا. چاچو ان چیزوں پہ کم اعتقاد رکھتے تھے اور ان کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ وہ اگلے شخص کی کمزوری پکڑ کر اسے قائل کرنے کے سارے گر جانتے تھے، لہٰذا انہوں نے ابو سے کہا "بھائی فرزانہ تو ایسے ہی اسکولی نام ہے، اسکولی ناموں میں بھلا کیسی برکت! جب کہ اصل نام تو بتول ہے. اور بتول بڑا مبارک نام ہے، بھائی آپ نے فرزانہ نام کو منتخب کرکے بتول جیسے بابرکت نام کو رد کیا ہے، اب آپ ہی بتائیے ابجد کے حساب میں خاک برکت ہوگی. آپ جنتروی صاحب سے کہیں کہ بتول کے نام سے ابجد کا حساب لگا کر بتائیں کہ جوڑا کیسا رہے گا." چاچا کی بات میں وزن تھا لہٰذا ابا نے سوچا واقعی بتول جیسے اسم مبارک کو رد کرکے انہوں کچھ اچھا نہیں کیا. اگلے دن وہ دوبارہ جنتروی صاحب کے پاس پہنچے اور بتول کے اسم سے ابجد کا حساب لگانے کی مانگ کی. اس بار اللہ (ج) کے فضل سے ابجد کا حساب ٹھیک آیا. لہٰذا ایک ہی لڑکی جو ایک نام سے میرے لیئے تباہی کا باعث بن رہی تھی دوسرے نام سے رحمت کا فرشتہ بن گئی.

مجھے خوشی تھی کہ پہلا مرحلہ بخوبی گذر گیا. میرے گھر والے جب رشتہ لینے گئے تو لڑکی والے بیچارے شریف تھے، انہوں نے ہاں کردی اور کہا کہ ہماری بیٹی آپ کی بیٹی ہے جب چاہیں نکاح کریں. ابو نے کہا کہ بھئی مولانا جنتروی صاحب سے مل کر جنتری دیکھیں گے کہ کون سی تاریخ مبارک ہے اس دن نکاح رکھ دیں گے. چاچو یہ بات سن کر مسکرا کر مجھے دیکھنے لگے، ہم دونوں دل ہی دل میں جنتروی صاحب کو کوس رہے تھے. خیر اب ابا حضور جب جنتروی صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے ستاروں کا حساب کتاب لگا کر کہا کہ اس وقت زھرہ عقرب میں گھسا ہوا ہے لہٰذا ایک ماہ تک شادی کرنا لڑکے کیلئے خطرہ کا باعث ہے. ابا نے گھر آکر کہا کہ ایک ماہ تک نکاح کی بات بھی نہیں ہوگی گھر میں! لہٰذا شادی کا سارا جوش و خروش ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا.

ایک ماہ بعد جب ابا نے مولانا جنتروی صاحب کے در پہ دستک دی تو معلوم ہوا کہ موصوف عمرہ، کربلا و شام کی زیارات پر گئے ہوئے ہیں، جب لوٹیں گے تو ہی کچھ ہوگا. ہم نے ابا سے کہا کہ لازمی نہیں جنتروی صاحب ہی جنتری دیکھ کر تاریخ دیں یہ کام تو کوئی بھی مولانا صاحب کر سکتے ہیں، مگر ابا کی جنتروی صاحب سے عقیدت تھی لہٰذا وہ ٹس سے مس نہ ہوئے. ہم سب چپ چاپ منتروی صاحب کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے.
ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب جنتروی صاحب آئے تو ان کی طبیعت ایسی ناساز ہوئی کہ وہ چارپائی تک ہی محصور ہو کر رہ گئے. اور اتنے میں محرم و صفر کا مہینہ آن پہنچا لہٰذا سوا دو ماہ پھر صبر کے میٹھے پھل کے انتظار میں گذارنے پڑے.

ربیع الاول کی دس تاریخ کو ابا نے جنتروی صاحب کے پاس جاکر نکاح کے دن کے بارے میں پوچھا تو موصوف نے جنتری دیکھ کر تین چار دن نحس بتا کر ایک دن مبارک بتایا لیکن یہ بھی تاکید کی کہ اگر اس دن نکاح نہ کیا تو اگلے کچھ دن پھر شادی بیاہ کیلئے نحس ہیں. بھرحال چار ماہ بعد آخر میرے نکاح کی مبارک تاریخ مل ہی گئی. لیکن اب امی نے مسئلہ کھڑا کر دیا کہا کہ بھئی نکاح نہیں پہلے منگنی ہوگی. چاچو اور میں چاہتے تھے کہ منگنی کے ساتھ ساتھ ہی نکاح ہو جائے. جب بحث نے طول پکڑا تو ابا فرمانے لگے "بھئی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جنتروی صاحب سے استخارہ دکھواتے ہیں کہ نکاح کریں یا منگنی" پھر جنتروی صاحب!!! بالقصہ ابا ایک بار پھر جنتروی صاحب کے یہاں گئے کہ قبلہ استخارہ دیکھ دیجیئے. جنتروی صاحب نے بتایا کہ منگنی کیلئے استخارہ بہت برا آیا ہے البتہ نکاح کیلئے بہتر آیا ہے. لہٰذا یہ طے پایا کہ ۹ رجب المرجب کو نکاح ہوگا. گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، نکاح کے جوڑے، زیورات اور دیگر لوازمات کا انتظام ہونے لگا اور یہ قرار پایا کہ ۹ رجب المرجب کو ہم لڑکی والوں کے گاؤں جا کر نکاح کی رسم انجام دیں گے. میں نے پچھلے چار پانچ ماہ میں پہلی بار سکھ کا سانس لیا تھا کہ شکر ہے دیر آید درست آید نکاح تو ہونے جا رہا ہے.

گھر میں نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں، بھانجی بھتیجیوں نے ہاتھوں پر مہندی کے نت نئے ڈزائن بنوا لیئے تھے، میں نے مہنگے کڑتے کو دبئی سے منگوائے ہوئے اعلی معیار و گراں قیمت پرفیوم سے معطر کر رکھا تھا کہ 6 رجب کو علی الصبح گاؤں سے فون آیا کہ لڑکی کی دادی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں. لہٰذا ۹ رجب کو نکاح کی مٹھائی کھانے کی بجائے ہم مرحومہ کے سوئم کی بریانی کھا رہے تھے اور سوچ رہے تھے ابا پھر کب جنتروی صاحب کے ہاں جائیں گے.

سنگ دل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سنگ دل



از قلم: محمد زکی حیدری


یونیورسٹی کے جوان لڑکے لڑکیاں محبوب کی بے وفائی پہ روتے ہیں، سوچتے ہیں کہ اتنا عرصہ ساتھ گذارا پھر کسی اور سے شادی کرلی، ایک انسان کیسے اتنا *سنگ دل* ہو سکتا ہے!
ماں باپ روتے ہیں کہ اولاد پوچھتی نہیں، جن کے لیئے کل خون پسینہ ایک کیا وہ آج ایسے *سنگ دل* بن گئے کہ حال تک نہیں پوچھتے!
بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کی شکایت کرتا ہے کہ میرا خون میرا بھائی، کل جسے پڑھا لکھا کر بڑا کیا وہ آج بیوی کی باتوں میں آکر میرے ساتھ ایسا کر رہا ہے. کتنا *سنگ دل* ہے!
بہن کہتی ہے بھائیوں نے ابا کی وراثت آپس میں بانٹ لی بہن کو محروم کردیا کتنے *سنگدل* ہیں بھائی!
مزدور کو شکایت ہے کہ اس کا مالک اس کی تنخواہ صحیح سے نہیں دیتا، اور گھر میں بیماری ہو تو چھٹی نہیں دیتا. ایسا *سنگ دل* مالک!
مریض کو ڈاکٹر سے شکایت کہ یہ ڈاکٹر جن کا پیشہ مسیحانہ ہے لیکن فیس لیتے وقت ایسے *سنگدل* کہ مجال کسی غریب غربے کا لحاظ کریں!
پڑوسی سے ایک پھوٹی کوڑی قرضے کی امید نہیں *سنگدل* پڑوسی!
دکاندار ادھار نہیں دیتا *سنگدل* ! مطلبی دوست *سنگدل*؛ مالک مکان *سنگدل*؛ زمیندار *سنگدل* وکیل *سنگدل*؛ سیاستدان *سنگدل*...

لیکن میں کہتا ہوں یہ ساری سنگ دلیاں کچھ بھی نہیں ہیں بھیا!
جی! یہ پاک و ھند ہے! سنگدلی کا پوچھنا ہے تو سندھ کی حاملہ گلوکارہ ثمینہ سندھو کے لواحقین سے پوچھیئے کہ جس بیچاری کو کچھ دن قبل کھڑے ہو کر ٹھمکے نہ لگانے کی وجہ سے اسٹیج پر گولی مار دی گئی!
سنگدلی کا پوچھنا ہے تو پاکستانی ۹ سالہ زینب کے والدین سے پوچھیئے کہ جن کی پھول سی زینب سے جنسی زیادتی کر کے مار دیا گیا.
سنگدل انسان پہچاننا ہے تو ھندوستان جائیے، اس ۸ سالہ آصفہ کے والدین سے پوچھیئے کہ جس کے ساتھ کئی درندوں نے مل زیادتی کی اور مردہ حالت میں پھینک کر چلے گئے..

چھوڑیئے صاحب! یقین مانیئے جن سے میں اور آپ سنگدلی کی شکایت کرتے ہیں وہ ثمینہ، زینب اور آصفہ کے قاتلوں سے بڑے سنگدل نہیں. ہمارے ساتھ تو ذرا بھی سنگدلی نہیں ہوئی بھیا. سنگدل... پتھر دل... ابھی ہمیں ملے ہی نہیں، شکر کریں!

طفیل چاچو سے طفیل قاتل تک

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



طفیل چاچو سے طفیل قاتل تک



تحریر: محمد زکی حیدری



"میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا" اس نے نجی ٹی-وی چینل کے صحافی سے کہا تو صحافی جیل سے باہر آکر رپورٹ دی "ناظرین! کراچی کے علائقے قصبہ کالونی سے تعلق رکھنے والے طفیل نامی اس درندہ صفت باپ سے ہم نے جب پوچھا کہ اس نے کس وجہ سے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور پھول سے بچوں کو قتل کیا تو انسانیت کے نام پر بدنما داغ اس ظالم نے ہم سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا، البتہ اس شیطان صفت انسان کی طرز گفتار سے لگ رہا تھا کہ اسے کوئی پشیمانی نہیں ہے. کیمرہ مین عادل قریشی کے ساتھ...."

اس قصے کو بیس سال گذر گئے، اخبار اور ٹی-وی کے صحافی ان بیس برسوں میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود طفیل کا منہ کھلوانے میں ناکام رہے تھے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ اس نے اپنی بیوی زبیدہ اور جوان بیٹی شازیہ اور دو بچوں کو ماردیا. پولیس نے بھی ہر حربہ استعمال کیا مگر اس نے اپنی خاموشی کا روزہ نہ توڑا.

ایک دن جب وہ مرنے والا تھا تو اس نے جیلر سے کہا کہ "سید مجتبیٰ سے کہیں مجھ سے مل لے" سید مجتبی اس کے پڑوسی تھے اور جس اسکول کے باہر طفیل چاٹ اور گولے گنڈے کا ٹھیلا لگاتا تھا، اس اسکول میں سید مجتبی پڑھاتے تھے. طفیل عرف "طفیل چاچو" اسکول کے غریب بچوں کو مفت چاٹ اور گول گنڈے کھلانے وجہ سے ہر دل عزیز تھا. لیکن خدا جانے اس رات اس پہ کیسا شیطان سوار ہوا کہ اس نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو مار کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا.

سید مجتبی وہ واحد انسان تھا جو پچھلے بیس برس سے مسلسل جیل میں آکر طفیل سے ملا کرتا. شاید یہ ہی وجہ تھی کہ آج بھی طفیل نے اسے بلایا.
جیل کی موٹی سلاخوں کے پیچھے نحیف سا انسان، دور سے دیکھو تو ایسا لگتا جیسے سوکھے درخت کے پتلے سے تنے پر کسی نے شلوار قمیض لٹکا رکھی ہو. داڑھی بڑی، بال بکھرے ہوئے، آنکھیں دھنسی ہوئیں، پچکے ہوئے گال، یہ جیل کی ایک کوٹھڑی کے کونے میں بیٹھا ہوا طفیل ہے! سید مجتبی آکر سلاخوں کے سامنے بیٹھ گئے. حال احوال پوچھا تو طفیل کہنے لگا "شاہ جی حال احوال کا وقت نہیں ہے، مجھے پتہ ہے میں مزید زندہ نہیں رہوں گا، آپ نے ہمیشہ ایک مہربان پڑوسی کی طرح میری مدد کی، میں نے اس کا شکریہ ادا کرنے کیلئے بلایا ہے آپ کو" اس نے سید مجتبی کی طرف دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا.
"ارے طفیل! اللہ تمہیں لمبی عمر دے بھائی یہ کیسی احمقانہ باتیں ہیں" سید نے سلاخوں سے اپنے ہاتھ اندر ڈال کر اس کے ہاتھوں کو نیچے کیا.
" شاہ جی آپ تو پڑھے لکھے ہو، مجھے یہ بتاؤ کہ جب تقدیر ہی کالی ہو تو ایسے لوگوں کو اللہ میاں اپنی ماں کے پیٹ میں ہی کیوں نہیں مار دیتا، ایسے بد نصیب جنم ہی کیوں لیتے ہیں" طفیل آج حد سے زیادہ افسردہ تھا، آج پہلی بار اس نے کچھ بولا تھا.
"صرف تقدیر ہی نہیں ہوتی تدبیر بھی ہوتی ہے طفیل بھائی، جو کہ اللہ نے انسان کو دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی زندگی کو سنوارے"
"سنوارنا! شاہ جی زندگی سنوارنا کسے کہتے ہیں؟ میرا باپ میں نے دیکھا نہیں، بوڑھی ماں نے گھروں میں کام کر کر کے مجھے پالا، بڑا ہوا تو سر گاڑی پیر پہیہ کرکے شادی کی، زبیدہ غریب تھی گھروں میں کام کرتی تھی. ہم نے مل کر تین بچوں کو پالا، بچپن سے شازیہ بھی ماں کی طرح گھروں میں کام کرنے لگی. شاہ جی آپ سے جھوٹ نہیں ایک دن ایسا آیا کہ ہم سب نے رات کا کھانا تک نہ کھایا تھا، گھر میں کچھ بھی نہ تھا. مجھے آج بھی میرے ننہے شوکی (شوکت) کا وہ جملہ یاد ہے اس دن پورا چاند تھا، وہ کھلے آسمان تلے چارپائی پہ میرے سینے پہ لیٹا تھا، چاند کو دیکھ کر کہنے لگا بابا چاند روٹی جیسا کیوں لگتا ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا شاہ جی، سوائے اس کے کہ اسے گلے لگا کر چوم لوں. اور اکرم! میرا بچہ .... درزی، گیراج، حتی کہ پکوڑے بیچے میرے معصوم نے. میرے بچے کے کھیلنے کودنے کے دن تھے شاہ جی، وہ بچہ تھا لیکن کسی نے اس پہ رحم نہ کیا کسی نے پانے سے مارا، کسی نے ماں کی گالی دی، کسی نے بہن کی، کسی نے... "
اس کی آنکھ بھر آئی وہ چپ ہوگیا. اپنے حلق کو حرکت دی جیسے غم کو نگل لینا چاہتا ہو. تھوڑی دیر تک جیل کی کوٹھڑی میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی. سسکتے ہوئے طفیل نے پھر سے بولنا شروع کیا.
" شاہ جی! قسم سے سارا دن مار و گالیاں کھا کھا کر شام کو جب میرا بچہ گھر لوٹتا تھا تو اگلے دن کام پہ جانے کا دل ہی نہیں کرتا تھا اس کا، کہتا تھا بابا مجھے نہیں جانا بس، مجھے اسکول جانا ہے سب بچے اسکول جاتے ہیں میں بھی! لیکن بچہ تھا مگر خوددار! جب دیکھتا کہ اس سے پہلے اس کی ماں محلے کے گھروں میں کام پہ جاتی ہے تو اس سے گھر میں نہیں بیٹھا جاتا تھا... شاہ جی..." وہ چپ ہو گیا.
"بولو چپ مت رہو دل ہلکا کرلو طفیل بھائی" سید مجتبی نے اسے کہا.
"شاہ جی! آپ تو جانتے ہیں میرا بارہ سال کا دانی (دانیال) سرکاری ھسپتال میں کیسے تڑپ تڑپ کر مرا، آپ کے سوا کسی نے میری مدد نہ کی تھی، آپریشن کیلئے ڈاکٹروں نے دو لاکھ روپے مانگے تھے، میں نے دانی کی جان بچانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھائیں، کسی نے میری مدد نہ کی، کوئی کیوں مدد کرتا بھلا، آخر میں مسکین ٹھیلے والا اور دو لاکھ... دانی کو تو مرنا ہی تھا اس کا لعنتی باپ غریب جو تھا... میرے بچے نے ماں کے سرہانے جان دی لیکن شاہ جی زبیدہ دلیر تھی، وہ صبر کا پہاڑ تھی روئی نہیں، گھر آ کر بچوں سے کہنے لگی بیٹا! اللہ (ج) کو جو پسند ہوتا ہے اسے وہ اپنے پاس بلا لیتا ہے، دانی اللہ کو پسند تھا اللہ نے کہا تم میرے پاس آجاؤ، اب وہ خوبصورت باغ میں ہوگا، وہاں آئس کریم، اچھے کپڑے، اور ہاں دانی کو سائیکل کا شوق تھا نا اب اللہ اسے نئی ہارن والی چھوٹی سائیکل بھی دے گا تم سو جاؤ دیکھنا رات میں دانی خواب میں آئے گا، سائیکل دیکھنا کتنی اچھی ہے اس کی... شاہ جی رات ہوئی تو زبیدہ سمجھی کہ میں سو گیا ہوں لیکن میں نے چادر سے منہ نکال کر دیکھا تو وہ دانی کی فوٹو سامنے رکھ کر اکڑوں بیٹھے زار و قطار رو رہی تھی...!"

یہ سن کر سید مجتبی بھی آنسو روک نہ سکے اور اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈال رومال نکالا اور آنسو پونچھنے لگے.
"شاہ جی! میں نے ٹھیلا لگایا، اور اس طرح بچوں کا پیٹ پالتا تھا. میری جوان بیٹی شازیہ شادی کے لائق ہوئی تو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ نہیں ہو رہا تھا. جوان بیٹی جن گھروں میں کام کرنے جاتی وہاں کئی قسم کے لوگ، جوان بیٹی پہ گندی نظریں ڈالتے وہ اپنی ماں سے حال دل کرتی... اس لیئے شادی کی فکر نے میری اور زبیدہ کی نیدیں حرام کر رکھی تھیں..."
یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا.
"بولو طفیل سن رہا ہوں جو کہنا ہے کہو مجھے اپنا بھائی سمجھو"
"شاہ جی!...." وہ "شاہ جی" کہہ کر دوبارہ چپ ہوگیا، شاید اسے بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی.
سید نے دوبارہ اصرار کیا تو وہ سسکتے ہوئے کہنے لگا " شاید زبیدہ کو یقین ہو گیا تھا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جو حال دانی کا ہوا وہ ہی شازیہ کا ہوگا. اس کی شادی کبھی نہیں ہو پائے گی، سو اس دن شام کو جب میں کام سے واپس لوٹا تو بیوی کچھ زیورات لے آئی اور لاکر کہا کہ طفیل اب شازیہ کا رشتہ ہوجائے گا، اب ہماری بٹیا اپنے سسرال جا پائے گی، میں نے جہیز کا انتظام کر لیا ہے. لیکن شاہ جی جب میں نے پوچھا کہ زیور کہاں سے لائی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے دوبارہ پوچھا یہ سونا کہاں سے لائی، اس نے جواب نہیں دیا. اور روتی رہی. بار بار پوچھنے پر بھی وہ خاموشی سے گردن جھکائے روتی رہی. میں نے کہا تم نے چوری تو نہیں کی مالکوں کی؟ اگر ایسا ہے تو یہ مجھے قبول نہیں، میری ماں نے محنت مزدوری کر کے مجھے پالا ہے، اور میں نے بھی ساری زندگی تجھے اور بچوں کو ایک نوالہ بھی حرام کا نہیں کھلایا. وہ کہنے لگی... شاہ جی!!!"
ایک بار پھر وہ چپ ہوگیا اور اس بار اپنی گردن اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ ڈال کر زارو قطار رونے لگا.
"طفیل بھائی صبر کرو" سید نے اسے دلاسہ دیا.
طفیل نے گردن اٹھائی، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، کہنے لگا
"شاہ جی! میری بیوی میرے پاؤں پہ گر گئی، روتے ہوئے کہنے لگی شازیہ کی عزت کیلئے میں اپنی عزت بیچ چکی ہوں، مجھے معاف کردینا طفیل لیکن شازیہ..."
طفیل کی سسکیاں اسے اپنی بات جاری رکھنے میں مانع ہو رہی تھیں. لیکن آج شاید بیس سال سے خاموش آتش فشاں پھٹا تھا لہٰذا اس نے اپنی قمیض کے دامن سے آنسو پونچھ کر پھر سے بولنا شروع کیا.
"شاہ جی! زبیدہ نے جسم فروشی شروع کر دی تھی، اس کی بات سن کر میں مرگیا. وہ رات کبھی نہیں بھولوں گا. ساری رات سوچتا رہا کہ کل اگر شازیہ کی اس جہیز سے شادی ہو بھی جائے تو وہ کیسے جی پائے گی، اسے ایک دن تو پتہ چلنا ہی ہے. زبیدہ نے شازیہ کا گھر بسانے کیلئے عزت بیچی مگر میں جانتا تھا اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں تھا... شاہ جی! میں نے ایسی زندگی پر لعنت بھیجی، جس میں شازیہ اور زبیدہ اس معاشرے میں گھٹ گھٹ کر جیئیں. مجھے یقین تھا کہ کل شازیہ کو بھی اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے ماں کی طرح جسم فروشی کرنی پڑے گی کیونکہ یہ دنیا اگر غریب کی مدد کرتی تو میرا دانی آج جوان ہوتا اور میری بیوی کو جسم فروشی نہ کرنی پڑتی، اس دنیا میں غریب کیلئے ذلت کے سوا کچھ نہیں. اسی وجہ سے میں نے انہیں ہمیشہ کیلئے سکون کی نیند سلا دی. میں زندہ رہا تاکہ ساری زندگی تڑپ تڑپ کر مروں، مجھے سکون کی موت نہیں مرنا تھا، مجھے روز روز مرنا تھا اور پچھلے بیس برس سے میں ھر روز مرتا ہوں، شاہ جی میں نے اس لیئے خود کو زندہ رکھا، یہ ہی میری سزا ہے میں اپنے دانی اور شازیہ کے لیئے کچھ نہ کر سکا..."
تھوڑی دیر کیلئے جیل کی کوٹھڑی میں خاموشی چھا گئی اور اس کے بعد سید مجتبی آنکھوں میں آنسو لیئے جانے لگے اور طفیل اپنی گردن جھکا کر روتا رہا.
اگلے دن میڈیا پہ خبر چلی "درندہ صفت انسان جس نے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور دو ننہے بیٹوں کو بیہمانہ طریقے قتل کیا تھا طویل عرصے تک جیل میں رہنے کے بعد آج سینٹرل جیل کراچی کی کوٹھڑی میں واصل جہنم ہو گیا"

جشن زھرا (س) منانے کی سزا... ایس ایس پی خیرپور کو دعوت آزادی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


جشن زھرا (س) منانے کی سزا!

 

(محترم ایس ایس پی خیرپور صاحب کو دعوتِ آزادی)

 

ظالم ڈرپوک ہوتا ہے چاہے کسی بھی دور میں ہو، اس کی رعیہ میں چار خسرے کسی جگہ جمع ہوکر صرف گھپے ہی ماریں تو بھی اسے وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ چار خسرے میری حکومت کو گرانے کیلئے جمع ہوئے ہیں. یہ ڈر فرعون سے لے کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں تک آپ کو ملے گا.

خسرے تو خسرے ہوتے ہیں لیکن سوچیئے ظالم کی حکومت ہو اور مقاومتی اقدار رکھنے والے و اپنا سر حسین (ع) پہ قربان کرنے والے و لبوں پہ لبیک یا حسین (ع) اور دل میں محبت آئمہ (ع)- وہ آئمہ (ع) جن میں سے ھر ایک شہید ہوا ہو، رکھنے والے شیعان حیدر کرار ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ظالم کی کیا حالت ہوگی!

یہ ہی حالت خیرپور ضلع کے ایک ظالم وڈیرے کی ہوئی، فرعون کی طرح خواب دیکھنے والے اس ظالم نے خیرپور میں منعقد جشن زھرا (س) کو پبلک پراپرٹی کا بلا جواز استعمال کرنے کے جھوٹے الزام میں زبردستی معطل کروا کر جشن کا سارا سامان قبضے میں لے لیا. اس کے دو تین دن بعد ھفتے کی صبح مدرسہ امام علی (ع) کنب کے پرنسپال مولانا محمد نقی حیدری صاحب کو اس جشن منعقد کرنے کے سلسلے میں اپنے مدرسے سے علی الصبح گرفتار کر لیا گیا.

اس سارے عمل میں اہم بات یہ ہے کہ آج پانچوان دن ہے مولانا محمد نقی حیدری سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ان کے والدین چار دن سے خیرپور میں ہیں لیکن "قانون کے رکھوالے" اتنے ڈرے سہمے سے ہیں کہ ایک مولانا، مسجد کے پیش امام کو اس طرح قید رکھا ہے کہ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں.

میرے بھائی تو آزاد ہو جائیں گے لیکن بندہ حقیر اس تحریر کے ذریعے ایس ایس پی خیرپور کو عرض کرتا ہے کہ جناب آپ نے جب ایم ڈبلیو ایم کے وفد سے معذرت کی اور اقرار کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، پھر ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو ایک مولانا سے ایسا کیا خوف ہے کہ آپ ان کے والدین سے نہ مولانا کی ملاقات کروا رہے ہیں نہ فون پر رابطہ!

ایس ایس پی صاحب آپس کی بات ہے ویسے، اتنا اختیار رکھنے کے باوجود بھی آپ "کسی" کے سامنے اتنے مجبور ہیں تو میرا یہ ہی مشورہ ہے کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی.

آپ کی ایم ڈبلیو ایم کے وفد سے معذرت مجھے بتاتی ہے کہ آپ غیرتمند انسان ہیں کیونکہ معذرت کرنا باوقار و غیرتمند و با مروت و دلیر انسان کا خاصہ ہے ...
مگر مجھے جب پتہ چلا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان تمام اعلی اقدار کے باوجود آپ مجبور ہیں، آپ قیدی ہیں، "کسی" کی قید میں ہیں! میرے بھائی تو کل یا پرسوں ان شاء اللہ قید سے رہا ہوجائیں گے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بڑے بھائی بھی قید سے رہا ہوں، "کسی" کی قید سے آزاد ہوکر اللہ (ج) کی آزاد دنیا میں سانس لیں! اللہ (ج) نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے صاحب، اللہ (ج) کے نوکر بن جائیں، آزاد ہو جائیں، یہ وردی اگر زنجیروں سے آزاد ہو تو ہی وردی ہے! پتہ نہیں مجھے آپ جیسا باوقار و اعلی اقدار کا مالک انسان اس وردی میں کیوں قیدی نظر آتا ہے، خود ہی کو پابند سلاسل کر رکھا ہے آپ نے! مشہور فلسفی روسو نے کہا تھا

 

_Man is born free but everywhere he is in chains!_

It seems to me that you too, unfortunately my dear sir, are in shackles and chains, lets break these shackles, ALLAH jj is the absolute sustainer, i assure you, blieve me sir you would recieve both spritual and temporal remunerations once you resigned from the service of "someone" and apply for Allah jj's service!

You may charge me for disgracing a CSP! You may! and i would love to be charged for inviting you to the realm of absolute freedom! The realm of ALLAH jj!
You can charge me but let me clear myself that i am not talking to you, but to your conscinces, to your hidden values my dear sir, and its not a crime i guess!

Release of my brother is not imporatant for me, whats more important for me now is your realease, your freedom, so that oneday your garaceful family and children may raise their heads with pride and say "our Abu was ALLAH jj's servant not "someone's"!

Death keeps no calender dear sir nor it leaves any human being untouched by its frightening fingers. Lets pray everyone of us dies free and serving ALLAH JJ.

ALLAH JJ bless you and your family!

Duagoo!
Muhammad Zakki Haidery

Younger brother of (imprisoned) Mollana Muhammad Naqi Haidery

مجھ کو استاد کہتے ہیں اھل نظر

Ustad sibte jaffar

بسم اللہ الرحمن الرحیم


*مجھ کو استاد کہتے ہیں اھل نظر*
(شھیداستاد )

تحریر: محمد زکی حیدری


"کیا استاد استاد لگا رکھا ہے استاد کہتے کسے ہیں کچھ پتہ بھی ہے، بس جو آئے اسے استاد کہہ دیا، تم لوگ..." میں نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا "بس کردو..." جب وہ چپ ہوا تو میں نے کہا 18مارچ شہید استاد سبط جعفر (رح) کی برسی ہے اس مناسبت سے میں تحریر لکھوں گا اور آپ کو بتاؤنگا کہ استاد کہتے کس کو ہیں.

استاد کیا ہوتا ہے؟ کاش انہیں علم ہوتا!!!
مسلمان جس کا نبی محمد (ص) جیسا ہو. اگر استاد کی تعریف نہ سمجھے تو حیف ہے، بقول مرحوم جوش ملیح آبادی (رح) کہ "عرب کی سی جہالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لیئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کہلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کہتے ہیں"
محمد (ص) نے ہمیں سکھایا کہ استاد اسے کہتے ہیں جو اپنی معنوی تعلیمات میں زمان و مکان کی قید سے مبرا ہو، استاد وہ ہے جس کی کلاس روم چار دیواری نہیں بلکہ معاشرہ ہو، معاشرے کے عام افراد اس کے شاگرد ہوں، اس کی ھر حرکت و سکون میں معنوی و عملی دروس ہوں۔ استاد کتاب نہیں لکھتا افراد کی زندگی لکھتا ہے، استاد افراد و اقوام کی تقدیریں بدلتا ہے. اگر ہم شیعان حیدر کرار اپنے آئمہ (ع) کہ زندگی کا غور سے جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ ان کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی اور وہ شیعوں کیلئے نمونہ عمل تھے یعنی نہ فقط استاد بلکہ عملی نمونہ، آئیڈیل و رول ماڈل بھی تھے۔ اسی طرح ہم ان آئمہ (ع) کے وارثین علماء کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی نہ صرف نظریاتی استاد تھے بلکہ عملی استاد تھے۔ استاد وہ ہی ہوتا ہے جو ھر آن و ھمہ وقت استاد ہو نہ فقط کلاس کے اندر!

میں جب، بغیر مبالغے کے، استاد شہید سبط جعفر (رح) کی زندگی کو آئمہ (ع) کے دیئے نمونہ عمل پر رکھ کر پرکھتا ہوں تو مجھے شہید استاد انہی استادوں کی سیرت پر چلتے نظر آتے ہیں۔ ولایت سے عشق کی بات آئے تو شہید استاد سبط جعفر (رح) جب بھی پڑھتے محفل کو ولایت کے پھولوں سے سجا کر رکھ دیتے، تقویٰ کی بات کریں تو استاد شہید کا چہرا مبارک دیکھ لیں، معنویت کے رنگ سے عیاں ہے کہ نماز شب پڑھا کرتے تھے، آئمہ (ع) روٹیوں کی بوریاں لے لے جاکر غریبوں کو کھلاتے تو استاد نے بھی اسی نمونہ عمل کا اتباع کرتے ہوئے کراچی و مضافات کے بہت سے یتیم و مساکین کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھا. استاد نہ فقط رحمدل بلکہ ایک انتہائی خوش طبع انسان تھے، یاور زیدی بھائی نے حقیر کو بتایا کہ استاد عید پرعیدی کے لفافے بناتےاور ھرایک کے ہاں خود چل کر دینے جایا کرتے۔ کیا اس فعل کے تانے بانے کسی امام معصوم سے نہیں ملتے؟ اور خوش طبع ہونے کی بات آتی ہے تو یاور بھائی ہی نے بتایا کہ یہ جو عیدی کے لفافے بنتے تھے ان پہ استاد فقط وصول کنندہ کا نام نہیں بلکہ ھر شخص کا ایک خاص مزاحیہ لقب بھی لکھا کرتے، بقول یاور زیدی بھائی کہ میں چونکہ غسل و تدفین و
تلقین کے امور میں مصروف رہا کرتا تو میرے لفافے پہ لکھا ہوتا "یاور عباس زیدی غسال العلماء آیت اللہ تلقینی!"
قناعت کی بات آئے تو شہید استاد نے اتنے بڑے افسر ہونے کے باوجود پروٹوکول تو کنار گاڈی تک رکھنا پسند نہ کی ایک خستہ حال موٹرسائیکل لے کر پورے کراچی کی محافل میں شرکت کیا کرتے۔ انقلاب کی بات ہو تو آپ امام خمینی (رض) کی برسی پہ اپنے مخصوص کلام کے ساتھ ظاہر ہوکر انقلاب سے محبت کا ثبوت دیتے نظر آتے، اجر رسالت میں محبت اھلبیت مانگنے والے محمد (ص) کے اس فرزند سید سبط جعفر زیدی پر زیادہ نیاز لینے کا الزام بھلا کوئی کیسے لگا سکتا ہے کہ جب حلقۂ احباب میں مشہور ہو کہ سبط جعفر
یعنی بغیر لفافے کے بڑا شاعر بننے والا!

متقی، عاشق ولایت، انقلابی، محب مساکین، یاور یتیمان، خوش طبع، قناعت پسند، طمع سے پاک... علی (ع) کے قول کہ جیو ایسے کہ جب تک زندہ رہو لوگ تم سے ملنے کے مشتاق رہیں اور جب مرو توتم پر گریہ کریں، کا بے نظیر نمونہ....

کیا لکھ کر کیا لکھوں اب تو کمبخت آنکھیں بھی استاد کے یاد کی تاب نہ لاسکیں، گستاخ آنسو بھر آئے آنکھ میں!!!
بس اتنا سا سوال ہے کہ جناب کون سا ایسا پہلو رہ گیا زندگی کا کہ جس کے بارے میں استاد شہید کی زندگی سے ہمیں علمی و عملی دروس نہ ملتے ہوں؟ اگر ان کی زندگی کے ھر پہلو سے اطاعت اساتیذ معصوم یعنی آئمہ (ع) کی خوشبو آتی ہے تو پھر میں یہ کیوں کہوں کہ شہید استاد سبط جعفر صرف سوزخوانوں کے استاد تھے، نہیں! استاد سبط جعفر ھر انسان کے استاد تھے.

 

 

مالک، کتے اور ڈی پیاں!

بسم اللہ الرحمن الرحیم


مالک، کتے اور ڈی پیاں!

از قلم: محمد زکی حیدری۔

 

لو بھئی چاچا آمریکا نے اپنے کتوں سے کہا بس کرو عراق چھوڑ دو۔ ہمارا خرچہ بہت ہوگیا۔۔۔ کچھ اور سوچتے ہیں۔
پلان چینج!!!

پلان تو چینج ہوا لیکن یہ کتے جو اس پلان کا حصہ تھے کدھر جاویں گے؟ 🤔
بھئی کیا مطلب کدھر جاویں گے،
ترکی جاویں گے اور کدھر!
ھر کتا جب ھڈی ملنا بند ہو تو اپنے مالک کو ہی کاٹتا ہے!
جیسے طالبان نے پاکستان کو!
داعش کو ھڈی ترکی فوج سے ملتی تھی سو وہیں جا کر گند مچاویں گے!
کچھ مساجد میں پھٹیں گے! کچھ ٹارگٹ کلنگ کریں گے اور کچھ۔۔۔

اووووور پھر!!!

اور پھر ترکی کی فوج آپریشن مرد عضب و درد الفساد شروع کرے گی کیونکہ انہیں دھشتگردوں سے "سخت نفرت" ہے۔

اور ترکی کی قوم واٹس ایپ و فیسبوک ڈی پیوں پر انہی ظالم فوجیوں کی تصاویر رکھے گی جن کے پالے ہوئے کتوں کے ہاتھوں عراق و شام میں ھزاروں معصوم مسلمانوں کا خون بہا۔۔۔

اور جو بھی لکھاری یا بلاگر ترک قوم کو ھوش کے ناخن لینے کا کہے گا کہ *سوچو تمہیں کون ما رہا ہے* تو وہ بلاگر گم ہوجائے گا۔ قوم اسے غدار کہے گی کہ اتنی معصوم فوج کیخلاف لکھا اور پھر صوفے پہ ٹیک لگا کر رموٹ سے ترکی حکومت کے زیر اثر چلنے والے میڈیا کا ایک چینل لگا کر مرد غضب اور درد الفساد آپریشن کی اپ ڈیٹ لیگی اور کہے گی!
ترک فوج کو سلام!!!

محبت کی تلوار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

🗡 *محبت کی تلوار* 🗡


مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بت پرست بدؤوں سے محبت کر کے ان کے قلوب میں بتوں کیلئے نفرت بھر دی. قرآن نے اس کی گواہی دی کہ محمد (ص) تم اگر ان سے بداخلاقی سے پیش آتے تو یہ تم سے دور ہو جاتے. (آل عمران آیت ۱۵۹)

اس سنت پر عمل کرتے ہوئے نائیجیریہ میں ایک عالم شیخ ابراھیم زکزاکی نے اھل سنت برادران کو اپنے دل میں جگہ دے کر ان کے دلوں میں دشمن زھرا (س) کیلئے نفرت بھر دی.
اگر ہم بھی مسلمانان عالم کے قلوب میں دشمن زھرا (س) کیلئے نفرت بھرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے قلوب میں اھلسنت افراد کی محبت و عزت ڈالنی ہوگی.


الاحقر محمد زکی حیدری

جارج گورا اور پرویز سانولہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جارج گورا اور پرویز سانولہ

 

بیرونی ملک سے آئے ایک گورے جارج نے اپنے دوست پرویز سانولے کے گھر میں شہد کی مکھیاں پالیں، جب مکھیوں نے چھتا بنالیا تو ایک دن ایک مکھی نے جارج کو ڈنک ماردیا.
جارج کو غصہ آیا اس نے کہا تیرے گھر میں جو میں نے مکھیوں کا چھتا بنایا تھا اس سے ایک مکھی نے مجھے ڈنک مارا ہے.
پرویز سانولے نے کہا تو پھر؟
گورا بولا چل شہد کی مکھیوں کے چھتے پہ پتھر مارتے ہیں نہ رہے گا چھتا نہ رہیں گی مکھیاں.
جارج گورا ایک پتھر مار کر اپنے وطن بھاگ گیا پرویز سانولے کے بچے اب تک مکھیوں سے ڈنک کھا رہے ہیں.

منجانب: ادارۃ تحفظ "وفادار دوستی" حیات (رجسٹرڈ) کراچی، پیارا پاکستان

عیسٰی (ع)، ایمانٹ اور آناہیتا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*عیسیٰ (ع)، ایمانٹ اور آناہیتا*

 

از قلم: محمد زکی حیدری


(  Valentine's Day special  )


وہ یونانی تھا، اس کا مرحوم باپ لکڑہار تھا، ترکے میں اکلوتے بیٹے کیلئے وراثت کے طور پر صرف کلہاڑی و درانتی و لکڑھاری سے مربوط کچھ دیگر اشیاء چھوڑیں، جنہیں اس نے لیا اور اپنے مرحوم والد کی طرح ھر روز صحراء کی جانب جاکر لکڑیاں و جھاڑیاں جمع کرکے شہر لاکر بیچتا. آلاتِ لکڑھاری کے علاوہ اس کے گھر میں اس کی ماں تھی، جو اس کا سب سے بڑا اثاثہ تھی. وہ ماں سے بے حد پیار کرتا تھا شاید اسی وجہ سے اسے ایمانٹ (Emant) پکارا جاتا تھا یعنی عاشق!

بہار جوں ہی آتی تو صحرائی چشموں کے گرد خوبصورت سبز گھاس اگ آتی جو ھر دیکھنے والے کو اس بوڑھی عورت کا سا عکس پیش کرتی جس نے اپنے نحیف و ضعیف بدن پر سبز رنگ کا انمول ھیرا پہن رکھا ہو. صحرا کے خشک بدن پر یہ سبز گھاس صحراء کے حسن کو چار چاند لگا دیتی. ایسی ہی بہار کے موسم میں ایک دن جب آسمان پہ کالی گھٹائیں چھائیں تھیں، ھلکی ھلکی بوندا باندی صحراء کے خشک جسم کو بڑے پیار سے راحت بخش ٹھنڈ پہنچا رہی تھی، پانی کے چشموں میں بھورے بادلوں کے عکس، نخلستان کے سبز درخت اور ان میں پرندوں کے چہچہانے نے صحراء کو جنت بنا دیا تھا، جس سے لطف اندوز ہونے کیلئے شہر کی عوام تو عوام ساکنان کاخ نے بھی صحراء کا رخ کیا. ایمانٹ کیلئے یہ معمول کی بات تھی سو وہ اپنے کام میں مگن رہا. اتنے میں بادشاہ کا کاروان وہاں سے گذرا جو شاید صحراء کے فطرتی حسن سے محذوذ ہونے کیلئے آیا تھا اس کاروان کے زرق و برق، قیمتی موتیوں سے مزیں پالکیاں، خوبصورت گھوڑے و شاندار لباس میں ملبوس کنیزیں بھی ایمانٹ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہیں تھیں، لیکن اتنے میں کسی عورت کے چیخنے کی آواز نے اسے کاروان کی طرف متوجہ کیا.
ایمانٹ نے دیکھا کہ رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس ان کنیزوں نے کسی چیز کو گھیر رکھا ہے. کاروان رکا، بادشاہ سلامت بھی جلدی جلدی ان کی طرف بڑھے، ایمانٹ بھی آگے بڑھا، دیکھا کہ ایک شہزادی زمین پر بیٹھی اپنے پیر کو ہاتھ سے پکڑ کر رو رہی ہے. 
"شہزادی آناھیتا! میری بچی دشمن کو کیا ہوا ہے؟" بادشاہ نے شہزادی سے پوچھا. ایک کنیز نے بادشاہ کو بتایا کہ شہزادی نے بارش سے نم ٹھنڈی ریت پر چہل قدمی کی ضد کی اور ہم نے مجبورا انہیں پالکی سے اتارا، شہزادی کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے ہم نے آپ سے یہ بات چھپائی لیکن اب ریت میں چھپا کوئی کانٹا شہزادی کو چب گیا ہے سو ہم نے جلدی سے رمال باندھ دیا." 
طبیب بلایا گیا اور اس نے شہزادی کو طبی امداد دی اور رومال اتار کر دور پھینکا اور اچھے طریقے سے پٹی کر دی. پھر شہزادی پالکی میں بیٹھ گئی. کاروان جانے لگا لیکن ایمانٹ کو اس شہزادی نے بہت متاثر کیا. سفید لباس میں ملبوس شہزادی کی نیلی آنکھیں اور لمبے ہاتھ جن میں اس نے سفید و لعل پھول تھام رکھے تھے، سب اس کے ذھن کے پردوں پر کسی فلم کی مانند چل رہا تھا. لیکن آناہیتا! وہ سوچنےگا کہ یہ کوئی عبرانی یا یونانی نام نہیں، اس نے یہ نام پہلی بار سنا تھا، اس کا مطلب کیا ہے؟ 
ان سب سوالات نے اس کے تمرکز کو اپنے کام سے ھٹا دیاتھا. اس کا دھیان اب کام پر نہیں تھا سو وہ تھوڑی سی لکڑیاں جو اس نے جمع کی تھی لیکر گھر کی طرف جانے لگا لیکن اس سے قبل وہ خون آلود رومال اٹھا لیا اور شام کو وہ ایک دانا کے پاس گیا اور اس سے آناہیتا کا مطلب پوچھا اس نے اسے بتایا کہ یہ ایرانی نام ہے بادشاہ کی بیوی ایرانی تھی اس نے اپنی بیٹی کا نام آناہیتا رکھا جس کا مطلب ہے پانی کی دیوی! 
ایمانٹ کو لگا کہ اس نے واقعی دیوی دیکھی ہے جو اس کے ذہن پہ سوار ہوگئی ہے. اسے نام بہت اچھا لگا صحراء کی تپتی ریت و چلچلاتی دھوپ میں کام کرنے والے کو کسی بھی چیز میں پانی یا پانی کا نام موجود ہو، بہت پسند ہوتا ہے. ایمانٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا.

آناہیتا پانی کی دیوی! جو خشک زمینوں کو سرسبز کردیتی ہے، کسان کے بچوں کے چہرے پہ مسکان کی وجہ بنتی ہے، پانی کی دیوی جو آسمان سے زمین مکینوں کیلئے پانی بھیجتی ہے، مہمان آتا ہے تو اسے سب سے پہلے پانی دیا جاتا ہے، جاتے وقت بھی پانی پی کر نکلتا ہے، کسی بھی چیز کی صفائی کیلئے پانی، جسم میں پانی، صحراء کو جنت بناتی ہے، پانی نہ ہوتا تو کیا ہوتا، نہ غنچے بنتے، نہ کلیاں کھلتیں، نہ لکڑی کا وجود ہوتا، نہ میرے والد کا ذریعہ معاش اور نہ میں... شکر ہے کہ پانی کی دیوی ہے نہیں تو پانی کون بھیجتا، کتنی مہربان ہوگی وہ دیوی آناہیتا! ایمانٹ کی طینت میں عشق تھا سو جب وہ رات کو سویا تو اسے صرف اس دیوی کی پوجا کرنے کی سوچ ذھن میں آرہی تھی. آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلتی تو وہ کسی برتن میں پانی ڈال کر گھنٹوں پانی کو دیکھتا رہتا، کھانا کم کھاتا پانی زیادہ پیتا، جس صحراء کے چشمے کی طرف وہ صرف پانی پینے جایا کرتا تھا اب ان ہی چشموں کے کنارے بیٹھ کر اس کے دن کا زیادہ وقت گذرتا وہ پانی کو دیکھتا رہتا اور اس دیوی آناہیتا کو یاد کرتا. آناہیتا کی تاروں کی مانند چمکدار نیلی آنکھیں، بلند قد ، سفید نورانی لباس، لمبے ہاتھ اور ان میں سفید و لال و پیلے پھول!

ایمانٹ کی ماں اپنے اکلوتے لعل کی اس حالت سے پریشان و مضطر تھی کہ ایک دن اس کے دروازے پہ کسی نے دستک دی. وہ باہر گئی تو دیکھا ایک کمزور و نحیف سا لیکن نورانی چہرے والا اجنبی ہے. اس اجنبی نے کہا کہ وہ مسافر ہے ایک دو رات کیلئے تھکن اتارنے کے بعد سفر شروع کرے گا کیا اسے اس گھر میں جگہ مل سکتی ہے. عورت اسے گھر میں لے آئی یہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ (ج) کے نبی حضرت عیسی (ع) تھے. عیسی (ع) نے گم سم بیٹھے ایمانٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ کون ہے. عورت بولی میرا بیٹا ہے. فرمایا کیا اسے کوئی مرض لاحق ہوگیا ہے؟ عورت بولی جی ہاں مسافر! میرے بیٹے کو ایسی بیماری ہوگئی ہے کہ اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں. پھر اس نے عیسی (ع) پورا ماجرا سنا دیا. 
حضرت عیسی (ع) نے جوان سے کہا اے جوان! بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ 
ایمانٹ نے کہا: جی ہاں! 
عیسی (ع) نے فرمایا اٹھو اور ابھی بادشاہ کے دربار میں جاؤ، کوئی بھی تمہارا راستہ روکے تو اسے کہنا تمہیں صرف بادشاہ سے بات کرنی ہے بس! 
ایمانٹ کے باطن کو ان نبوی الفاظ نے جوش و توانائی دے دی، وہ عاشق تھا عاشق کیلئے صرف ایک پیار و محبت کا تشویقی لفظ کافی ہوتا ہے اور وہ توپ کی طرح جس چیز سے ٹکراتا ہے اسے بوچھاڑ کر رکھ دیتا ہے. اب ایمانٹ کے وجود میں وہی بارود بھر گیا تھا.

وہ بادشاہ کے دربار میں گیا تو اسے دربانوں نے روک دیا. اس نے اسرار کیا تو ایک دربان نے بادشاہ سے جاکر کہا کہ ایک کمزور و دبلا پتلا سا جوان آیا ہے کہتا ہے میں اپنا کام صرف بادشاہ کو بتاؤں گا اور کسی کو نہیں. بادشاہ نے کہا اسے پیش کیا جائے. ایمانٹ نے بادشاہ سے کہا میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں. بادشاہ نے سوچا شاید یہ کسی کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہے. تو بولا کس کیلئے ہاتھ مانگنے آئے ہو؟. ایمانٹ نے پلک جھپکتے میں جواب دیا اپنے لیئے! 
سارے دربار میں ایک لحظے کیلئے قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی اتنے میں ایک سپاہی نے ایمانٹ پر حملہ کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے اشارے سے اسے روک دیا. 
اب بادشاہ نے ایمانٹ سے کہا: بیشک بادشاہ زادی کی بھی شادی ایک دن ہوتی ہے تم حق رکھتے ہو، لیکن کیا تم جانتے ہو بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے کیلئے تمہیں مہر ادا کرنا ہوگا کیا تم مہر ادا کر پاؤ گے؟ 
ایمانٹ نے کہا: کتنا مہر ہے؟. 
بادشاہ نے کہا: ایک پیالا نایاب جواہرات سے بھرا ہوا. 
ایمانٹ نے دربار چھوڑا. بادشاہ نے ماموران کو حکم دیا کہ یہ لڑکا جب بھی آئے تو اسے آنے دیا جائے. 
ایمانٹ نے یہ ساری باتیں گھر جا کر حضرت عیسی (ع) کی خدمت میں بیان کی. عیسی (ع) نے فرمایا: ایک پیالہ لو اور اسے کنکریوں سے بھر کر میرے پاس لاؤ. اس نے حکم کی تعمیل کی اور پیالا لاکر عیسیٰ (ع) کے سامنے رکھ دیا. عیسی (ع) نے فرمایا اب اس پر کپڑا ڈالو، اس نے پیالے پہ کپڑا ڈال کر ڈھک دیا. 
تھوڑی دیر بعد عیسی (ع) نے حکم دیا اب کپڑا ھٹاؤ. 
جب ایمانٹ نے کپڑا ھٹایا تو دیکھا پیالا جواہرات سے بھرا ہے. عیسی (ع) نے کہا لے جاکر بادشاہ کو دو. 
بادشاہ نے جب یہ جواہرات دیکھے تو حیران رہ گیا کہ اس کے خزانے میں ایک بھی اس قسم کا نایاب ھیرا نہ تھا. اس نے ایمانٹ سے پوچھا: اے جوان! کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہے تمہارے؟ 
ایمانٹ نے کہا نہیں. 
بادشاہ نے کہا: تم کام کیا کرتے ہو؟ 
ایمانٹ نے کہا: صحراء میں لکڑھاری! 
بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ ضرور صحراء میں اسے کوئی دفینہ ہاتھ لگا ہے سو کہنے لگا: اے جوان سچ سچ بتاؤ ورنہ ابھی ایک اشارہ دونگا جلاد تمہاری گردن اڑا دیگا! جلاد کا سن کر ایمانٹ نے کہا کہ بادشاہ سلامت حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیرے جواہرات نہیں بلکہ ہمارے گھر کے آنگن کی کنکریاں ہیں. ایک اجنبی مسافر ہمارے یہاں آیا ہے اس نے کنکروں کو موتی بنا دیا. 
بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ نبی اللہ کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں سو ایمانٹ سے کہنے لگا: اے جوان! اس بزرگ سے جاکر کہو کہ اگر ایک بار اپنے قدم میرے محل سے پھیر کر جائے تو میری جان، میری بیوی، میری بیٹی، میری زندگی میرا محل سب اس کا. 
حضرت عیسی (ع) کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ محل میں آئے. بادشاہ نے تواضع کا مظاہرہ کیا. حضرت عیسی (ع) نے بادشاہ سے کہا کہ اپنی بیٹی کی شادی اس جوان سے کردو. 
جوان کو بادشاہ دولہے کا لباس پہنایا گیا، کچھ دیر بعد عقد حضرت عیسی (ع) نے پڑھا اور اگلے دن دھوم دھام سے ولیمے کی تیاریاں ہونے لگی. 
اسی رات بادشاہ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مرگیا. شادی کی تقریبات ملتوی ہو گئیں. بادشاہ کی جانشینی کیلئے شرفاء و وزراء کا اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ چونکہ بادشاہ کا کوئی بیٹا نہ تھا سو اس کے داماد کو ہی تاج پہنایا جائے. سو وہ لکڑھار عاشق اب نہ صرف آناہیتا کا مالک بن گیا بلکہ پوری سلطنت پر اس کی حکمرانی ہو گئی. 

اگلے دن عیسی (ع) نے جانے کی تیاری کی تو ایمانٹ نے ان سے پوچھا: کہاں جا رہے ہیں یہ محل و مکان چھوڑ کر. تم نے مجھے یہ سب دیا کیسے ممکن ہے کہ جب میں اتنی خوشحال زندگی گذار رہا ہوں اور پھر تم اجبنی مسافر کی طرح بھٹکتے رہو؟
عیسی (ع) نے جواب دیا: میری منزل دور ہے.
ایمانٹ کے شدید اسرار کے باوجود بھی جب عیسی (ع) نہ مانے تو ایمانٹ نے کہا: اے سبزی جات کھا کھا کر اپنے بدن کا رنگ سبز کر دینے والے! ایسا کیا راز ہے تمہاری زندگی میں کہ اگر پتھر پر ہاتھ رکھو تو ھیرا بن جائے؟ بادشاہ تمہارے قدم بوسی کے مشتاق ہیں؟
عیسی (ع) نے جواب نہ دیا فرمایا تم اپنی سلطنت و معشوقہ سنبھالو تمہیں کیا کام ان سوالوں سے.
لیکن ایمانٹ نے ضد کی تو عیسی (ع) نے مسکرا کر کہا: *اے عاشق! یہ دنیا کتنی بے وفا ہے، اس تخت و محل کی بیوفائی دیکھو کہ کل یہ ایک جدی پشتی بادشاہ کی ملکیت تھی اور آج ایک لکڑھارے کی ملکیت! جو کل اس محل میں سوتا تھا آج خاک میں سوتا ہے اور تم کل خاک پہ سوتے تھے آج محل میں! ایسی بے وفا دنیا و زندگی سے وفا کیسی جو عارضی ہو. میں نے اپنی زندگی آخرت کیلئے وقف کردی، مجھے اس دنیا سے کچھ امید نہیں کیونکہ جب یہ امیدوں پہ پورا نہیں اترتی تو سوائے پشیمانی و دکھ کے کچھ نہیں ملتا. یہ تخت کل چھن جائے گا اور تم پھر خاک پہ سو گے.*
یہ سن کر ایمانٹ نے کہا تھوڑی دیر رکیئے. وہ اپنے محل میں گیا اور کچھ دیر بعد لکڑھاری کے لباس میں ملبوس کندھے پہ کلہاڑی، ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے ہاتھ میں آناہیتا کا ہاتھ تھامے عیسیٰ (ع) کے پیچھے چلنے لگا.


(قصص الانبیاء سے مقتسَب)
*_ arezuyeaab.blogfa.com_*

بھولے ہاتھیوں کا قتل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بھولے ہاتھیوں کا قتل

تحریر: سیدہ عفت زھراء کاظمی

 

خوبصورت و معدنی وسائل سے مالا ایک جنگل تھا جس میں شیر نہیں رہتے تھے! کیونکہ وہاں کے بہت سے جانور جنگل کے باہر رھنے والے خون خوار شکاریوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور شیر چونکہ ہمیشہ ان شکاریوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے اور انہیں جنگل میں کھل کر آنے جانے کی اجازت نہ دیتے سو شکاریوں نے بھیڑیوں اور لومڑیوں کے ساتھ مل کر کئی شیروں کو راستے ھٹا دیا اور جنگل پر بھیڑیوں کی حکومت قائم کرکے لومڑیوں کو جنگل کی وزارت اطلاعات پر مامور کردیا. اب جنگل میں خوف و ھراس کی حکومت تھی بھیڑیئے آزاد و مطلق المعنان اختیارات کے مالک تھے، بیرونی شکاری جو کہتے بھیڑیئے ان کی بات پر لبیک کہتے، رہی سہی کسر جنگل کے ذرائع ابلاغ یعنی لومڑیاں پوری کردیتیں. بھیڑیوں کے خلاف کسی کو چوں کرنے کی اجازت تک نہ ہوتی جو ذرا سی شکایت کرتا، وہ گم کردیا جاتا، یا پھر سارا جنگل اس پہ ملامت کرتا کیونکہ جنگل کے ذرائع ابلاغ لومڑیوں کے ہاتھ میں تھے اور لومڑیاں سیاہ کو سفید و سفید کو سیاہ بنا کر پیش کرنے میں اپنا نظیر نہیں رکھتی تھیں. لومڑیاں بھیڑیون کی کامل مطیع تھیں.

امن پسند ہاتھیوں نے جب جنگل کا یہ حال دیکھا تو سوچا کہ ان کی نسلی بقا اسی امر میں ہے کہ وہ متحد رہیں، کیونکہ ایک تو وہ تعداد میں کم ہیں، دوسری بات یہ کہ حکومت بھی بھیڑیوں کی ہے. سو جنگل کے سارے ھاتھیوں نے مل کر سوچا کہ ہمارے خلاف بھیڑیئے کچھ بھی کریں لیکن ہم متحد رہیں گے. اتنے میں بھیڑیوں کی حکومت نے ھاتھیوں کے خلاف ایک قانون کی منظوری دی جو کہ ھاتھیوں کی آزادی اور جنگل کے مجوزہ آئین کے منافی تھا. ھاتھیوں نے مل کر بھیڑیوں کے خلاف احتجاج کیا. اور اپنی بات منوا لی. یہ کامیابی اتنی بڑی تھی کہ بیرونی شکاریوں تک یہ بات جا پہنچی اور انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں یہ ھاتھی پڑوس والے جنگل کی طرح مل کر انقلاب برپا نہ کردیں کیونکہ پاس والے جنگل میں ھاتھیوں نے مل کر بھیڑیوں سے پورا جنگل خالی کروا کر اپنی عادل حکومت قائم کر لی تھی. سو اب شکاری سر جوڑ کر بیٹھے کہ ھاتھیوں کی طاقت کیسے ختم کی جائے. انہیں پتہ چلا کہ ھاتھیوں کا وہ قائد جس کی وجہ سے انہوں نے کامیاب دھرنا دیا تھا وہ تو چل بسا لیکن ایک اور اس سے بھی خطرناک ھاتھی قائد بن گیا ہے. اور ھر جگہ ھاتھی تو ہاتھی، ھرنوں، خرگوشوں، چوہوں، گورخروں اور دیگر جانوروں کو بھی بھیڑیوں کی حکومت کے خلاف متحد کر رہا ہے. آخرکار بیرونی شکاریوں نے اس کا حل نکال لیا انہوں نے بھیڑیوں سے کہا کہ ہاتھیوں کے اس قائد کو ھٹا دو اور اس کی جگہ تم اپنے ایک ھاتھی کو بٹھا دو جو ھو تو ھاتھی لیکن طابع ہمارے ہو.
لہٰذا ایک دن جنگل کے ہاتھیوں کو خبر ملی کہ ان کا دلیر رھنما مارا گیا. بیرونی شکاریوں کی سازش کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اب صرف یہ کرنا تھا کہ ایک ایسے ہاتھی کو اس کی جگہ لانا تھا جو ھو تو ہاتھی لیکن خصوصیات میں بلکل اس سے الگ ہو. لہذا ھاتھیوں کا اجلاس ہوا اور انہوں نے بیرونی شکاریوں، بھیڑیوں اور لومڑیوں کی سازش نہ سمجھی اور ایک ایسے ہاتھی کو سردار بنا دیا جس کے بعد ہاتھیوں کو بھیڑیوں کے چنگل سے بچانے والا کوئی نہ رہا. *بھولے ہاتھی یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ جب بیڑھیئے کسی دلیر جانور کو راستے سے ھٹاتے ہیں تو اس کی جگہ ایک ایسا ڈرپوک جانور بٹھاتے ہیں جو انہیں تنگ نہ کرے، نہ کچھ کہے نہ ان کے مظالم پہ آواز اٹھائے نہ دوسروں کو آواز اٹھانے دے. یہ بات بھولے ھاتھیوں میں سے کچھ ہاتھیوں نے چِلا چِلا کر کہی کہ جناب اس ھاتھی سے بہتر و قابل ہاتھی موجود ہیں مگر بھولے ہاتھی صرف ظاہر دیکھ رہے تھے اور ھاتھیوں کے لبادے میں موجود بھیڑیوں کے نمائندے شکاریوں کی سازش کا دوسرا مرحلہ بھی اپنے نام کر گئے.*

یہ بھیڑیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی، اب وہ کھل کر امن پسند ہاتھیوں پہ مظالم ڈھانے لگے، ہاتھیوں کو سزائیں دی گئیں، ہاتھیوں کے خلاف غیر عادلانہ قوانین بنے، ہاتھیوں کو جنگل سے نکالنے کی دھمکیاں دی گئی، لیکن ھاتھیوں کا سردار چپ رہا.
پھر ھاتھیوں کا قتل شروع ہوا کیونکہ بیرونی شکاری کو پاس والے جنگل میں ھاتھیوں کا انقلاب گلے میں پڑ گیا تھا سو وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی ھاتھی ایسا ہو جو کل ان کیلئے مسئلہ بنے. بیرونی شکاری حکم دیتے رہے، *لومڑیاں اپنی ذرائع ابلاغ و چالاکی سے جنگل کو ھاتھیوں کے قتل سے بے خبر رکھتی رہیں* اور ہاتھیوں کا سردار حسب معمول چپ رہا.

اس خوبصورت جنگل میں آج بھی ہاتھیوں کو قتل کیا جا رہا ہے. نر، مادہ، کمسن، پیرسن ھر قسم کے ہاتھی قتل ہو رہے ہیں. لیکن بڑے ہاتھی کو پرواہ نہیں. اب ہاتھیوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ واقعی بھولے ہیں کہ سردار کو پہچاننے میں مغالطے کا شکار ہوئے. لیکن اب پچھتائے کیا کیجے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!

siz_kazmi@gmail.com

درگذر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


در گذر

تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری


بنگلادیش کے ایک دانشور شاید مولانا بھاشانی نے کہا تھا کہ اقوام دو قسم کی ہوتی ہیں: ظالم یا مظلوم. میں نے کرہ ارض پر بسنے والی جن چند اقوام کی تاریخ پڑھی اس تناظر میں مرحوم مولانا کی یہ بات سولہ آنے سچ معلوم ہوتی ہے مگر ۱۹۴۷ع میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والی ریاست ھندوستان کے ٹوٹنے کا بعد وجود میں آنے والے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑے یعنی پاکستان کی تاریخ کو دیکھتا ہوں تو مجھے ظالم تو نظر آتا ہے مگر مظلوم نہیں! ظالم تو ظلم کر رہا ہے مگر جس پر وہ ظلم کر رہا ہے، اسے میں کیا نام دوں اس سوال کے جواب سوچتے سوچتے مجھے یہ تحریر لکھنی پڑی.

میں نے اس ملک کی تاریخ کو دیکھا کہ ایک وردی والے نے مادر ملت کو انتخابات میں دھاندلی کر کے ایک طرف کردیا اور خود حکومت میں آگیا. قائد اعظم ایک پنکچر ہوجانے والی ایمبولینس میں دنیا سے گئے. اس قوم نے اس ظلم پہ کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا. شاید پہلی بار ظلم تھا سو *درگذر* کر لیا گیا. اس کے بعد جمہوریت و اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں دوسرا وردی والا آتا ہے، فیلڈ مارشل کے عہدے پہ فائز یہ شخص واقعی اسلامی ملک کے سربراہ بننے کی تمام تر "خصوصیات" اپنی شخصیت میں رکھتا تھا. شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رفیع رضا نے شہید بھٹو کے بارے میں اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ ہم آمریکی فوجیوں و حکمرانوں کی شاھانہ ضیافت میں تھے، سارے شرفاء اپنی اہلیاؤں کے ساتھ آئے ہوئے تھے، شراب و شباب کی اس محفل میں اچانک آمریکی صدر (یا شاید کسی جنرل) کی نظر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل کی بیوی کے جسم پر پڑتی ہے اور وہ اس کے جسم سے نازیبا حرکات کرنے لگتا ہے لیکن سبز ھلالی پرچم کا محافظ اپنی بیوی کو اس حال میں دیکھ کر چپ رہتا ہے. ہم نے یہ سب اور ون یونٹ وغیرہ کے بارے میں *درگذر* کیا اور آج بھی اس صدر کا نام یاد رکھا ہوا ہے کیونکہ اس کے دور میں مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی.

اس کے بعد دوسرے وردی والے صاحب آئے ان کی آنکھیں لال رہتی تھی، شراب کے نشے میں اتنے دھت رہتے کہ ایک دن کسی ملک کے دورے پر جہاز کو مجبوراً گھنٹوں آسمان میں رہنا پڑا کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نشے ٹوٹیں اور وہ ہوش میں آئیں پھر لینڈ کرے تاکہ استقبال کیلئے آئی ہوئی عوام کو ہمارے صدر کے مذھبی ہونے پہ شک نہ ہو . یہ وہ ہی جنرل ہیں جنہوں نے شہید بھٹو کو ڈھاکہ مذاکرات کیلئے بھیج کر پیچھے ڈھاکہ میں فوج اتاردی تاکہ شہید بھٹو اور مجیب الرحمٰن کو ایک ساتھ اپنی طاقت دکھا سکے، ایک تیر دو شکار! اس کے بعد بنگالیوں کا خون بہایا گیا، ہم نے سوچا کہ شاہین بنگالی چوزوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے لیکن مکافات عمل یہ ہوا کہ ہماری سپاہ کے شاہین، بنگالی مسلمانوں کے خون سے آلودہ اپنی وردیاں پہنے آمریکا کی خیرات کا انتظار کرتے رہے لیکن نہ خیرات آئی نہ بنگال واپس آیا. مگر ہم نے ۱۹۶۵ع کی جنگ میں فتح کو یاد کر کے اس ظلم سے بھی *درگذر* کیا.

پھر شہید بھٹو عرف "اسلام دشمن" اقتدار میں آیا مولویوں نے مصلے بچھالیئے کہ اس "دجال" سے اس "مذھبی" قوم کی جان چھوٹے، مولویوں کی دعا اللہ تعالی کو بھی پسند نہ آئی اللہ (ج) نے ان مولویوں کیلئے ایسا "مسیحا" بھیجا کہ جس نے پاکستان کو داڑھی و بندوق والی مخلوق بنانے کی فیکٹری بنا دیا. دور دور تک صرف لمبی داڑھیاں اور کلاشنکوف نظر آتی تھی. روس کی دشمنی و آمریکا کی غلامی میں یہ "مجاھد اسلام" اتنا آگے بڑھ گیا کہ بھٹو کی شہادت تو کنار، اردن کے بادشاھ حسین بن طلال کے سر پر تاج سجائے رکھنے کیلئے ان صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں اور یہ "بلیک سیپٹمبر" آج بھی اس مجاھد اسلام کے "جہاد" کی یاد دلاتا ہے کہ جس کے بارے میں اس وقت کے فلسطینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ہمارا پوری زندگی میں اتنا خون نہیں بہایا جتنا ضیاء الحق نے سیپٹمبر میں بہایا. مولویوں کا یہ مسیحا خود تو ملعون بن کر جہاز حادثے میں مر گیا مولویوں کو بھی تاقیامت ملعون کرگیا.
ہم نے سب دیکھا اور *درگذر* کیا کیونکہ وہ مرگیا ہے اب اللہ (ج) جانے وہ جانے!

پھر ایک اور جنرل صاحب آئے، آئین توڑا، مرضی کی ترمیمیں کی، افغان مسلمانوں کا خون بہانے کیلئے بلاوجہ اپنے ہوائی اڈے غیروں کو دیئے اور اس ساری آمریکی خدمت کے سلے میں ملنے والا طالبان کے خودکش حملوں، بم دھماکوں، اور ٹارگٹ کلنگ کا تحفہ عوام کو دے کر خود بیرون ملک آسائش کیلئے چلے گئے. عجب بات یہ ہے کہ غیروں پہ اتنے مہربان اس جنرل نے اپنے ہی ملک کے بلوچ لوگوں سے کہا ہم تمہیں ایسی جگہ سے ماریں گے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا. یہ شجاع و دلیر و ملک کے رکھوالے جنرل صاحب کو آج بھی ہم یاد کرتے ہیں کیونکہ وہ زرداری کی جمہوری حکومت سے بہتر تھا. ہمارے یہاں معیارات یہ ہی رہ گئے ہیں کہ سانپ بھیڑیئے سے بہتر ہے کیونکہ بھیڑیا مارتا ہے تو بہت خون نکلتا ہے، جب کہ سانپ ڈستا ہے تو موت آسانی سے ہوجاتی ہے، اتنی تکلیف نہیں ہوتی!

وہ چلے گئے پیچھے وردی والوں کے مارشل لاء کیلئے اس قوم کو تڑپتا چھوڑ گئے. ان کی اور مارشل لاء کی یاد نے اس عوام کو غم سے نڈھال کر رکھا تھا سو پچھلے دنوں ریٹائر ہونے والے چیف صاحب نے جوں ہی منصب سنبھالا تو اس قوم نے اس نئے چیف صاحب کی وہ عزت و تکریم کی کہ باقائدہ ان کے عشق میں مجنوں دکھائی دی. جیسے ایک عاشق اپنے معشوق کی ساری غلطیاں بھول جاتا ہے اس طرح یہ قوم یہ بھی بھول گئی کہ یہ وہ ہی صاحب تھے جنہوں نے ضرب عضب کیلئے پارلیامنٹ کی اجازت لیئے بغیر فوج کو آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا، جو کہ ایک غیر آئینی اقدام تھا. یہ بھی نہ سوچا کہ بیشک آرڈر آمریکا کا ہی چلتا ہے لیکن آپس میں تو مشاورت کر لیں، کیا پارلیامنٹ بیچاری آمریکا جیسے "عزیز" و "دوست صمیمی" کی بات ٹھکرا دیتی؟ وہ تو اچھا ہوا فوج دوپہر کو بیرکوں سے نکلی اور شام کو جھٹ سے پارلیامنٹ کا ھنگامی اجلاس بلا کر پھٹ سے اس آپریشن کی منظوری کا بل پاس کر کے پارلیامنٹ نے اپنی عزت بچا لی ورنہ چیف صاحب نے تو...! بھرحال قوم کو یہ بات شاید یاد نہیں، اسے جیسے ہی پتہ چلا کہ ضرب عضب نامی آپریشن ہونے جارہا ہے تو وہ واٹس ایپ اور فیسبوک کی ڈی پیاں تبدیل کرکے اس چیف کو خراج تحسین پیش کرنے لگی، عشق اسے کہتے ہیں! عشاق نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی کہ جس گندگی کا صفایہ کرنے کی بات آج یہ وردی والے صاحب کر رہے ہیں انہیں کل تک دودہ دلیہ بھی انہی کے ہم منصب کھلاتے رہے. حکم ہوتا ہے بناؤ تو بناتے ہیں، حکم ہوتا ہے مٹاؤ تو مٹاتے ہیں. *البتہ عوام کو بنانے کا نہیں پتہ ہوتا کیونکہ میڈیا "معصوم" وردی والوں پر کبھی انگلی نہیں اٹھاتا سو جب یہ گندگی ان "معصوموں" کے ہاتھوں بن رہی ہوتی ہے تب میڈیا نہیں دکھاتا لیکن جب یہ ہی لوگ گندگی صاف کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں تو میڈیا بھرپور کوریج دیتا ہے.*
پھر اسی چیف کی فوج کے بارے میں مستند انگریزی و اردو اخباروں نے لکھا کہ ان چیف صاحب کی فوج اسرائیل و آمریکا کی افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لے گی، ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہم اسرائیل کو ملک ہی نہیں مانتے تو فوج کی مشترکہ مشقیں کیسے؟. ہم قادری صاحب کا انقلاب اور عمران خان کی امپائر کی انگلی کے پیچھے ایک بہت بڑی "معجزانہ" طاقت کے کارفرما ہونے کی کھوج لگانا بھی بھول گئے.
یہ سب کچھ بھولتے بھولتے یہاں تک آگئے کہ اسلام کے اس "دھشتگرد-مخالف ھیرو" جس کے عشق میں یہ قوم فریفتہ تھی اور شیعہ حضرات تو اس کی تعریف کیئے نہ تھکتے تھے، اچانک سعودی عرب جا کر فوجی خدمات دینے لگ گیا.
سعودی عرب تو "شریف" ملک ہے "اسلامی غیرت" سے سرشار ہے سو شاید ہماری قوم حسب معمول ریٹائرڈ چیف کے اس اقدام پر یہ کہہ کر *درگذر* کرے کہ وہاں جنرل صاحب یمن میں پھنسی ہوئی سعودیہ کی نااھل فوج کو نکالنے نہیں بلکہ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار نے ریٹائرمنٹ کے بعد حرمین شریفین اور مکہ و مدینہ کے پرنور ماحول میں زندگی گذار کر جنت کمانے کا سوچا ہے.
اب آپ ہی بتائیے یہ قوم ان وردی والوں سے *درگذر* کیوں کرتی ہے؟ ان کی تاریخ سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کو اپنا رکھوالا کیوں سمجھتی ہے؟
ڈر کی وجہ سے؟ منافقت کی وجہ سے؟ یا اپنی جہالت کی وجہ سے؟

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


بچپن سے سنتے آ رہے ہیں

ازقلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

*رسول (ص)* نے فرمایا بھائی بات سنو بت وت خدا نہیں، اللہ (ج) ایک ہے بس بت پرست چھوڑ دو!
*بولے* یہ کیا بات ہوئی ہم بچپن سے باپ دادا سے سنتے آ رہے ہیں بت خدا ہیں!

*علی (ع)* نے فرمایا دیکھو نبی (ص) نے اپنا جانشین مجھے بنایا تھا تو تم نے کیوں چنا؟
*بولے* یہ کیسے بھلا ہم تو بچپن سے سن و دیکھ رہے ہیں کہ بزرگ بابا ہی قبیلے کا قائد بنتا ہے. جیئے ابوبکر!

*زہراء (س)* نے کہا فدک میری وراثت ہے
*بولے* ھھ! یہ کیسے، ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ عورت کا ملکیت میں حصہ وصہ نہیں ہوتا!

*حسن (ع)* نے فرمایا معاویہ صلح کرنا چاہتا ہے
*بولے* ہم بچپن سے بنی ھاشم و بنی امیہ کی دشمنی سنتے آ رہے ہیں صلح کیسی

*حسین (ع)* نے فرمایا میں یزید کی بعیت نہیں کرونگا
بولے یہ بھلا کیسے ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ جس کی سارے بعیت کریں اس کی ہمیں بھی کرنی چاہیئے.

*امام مہدی (عج)* نے کہا میرے بعد دینی مسائل کا حل علماء سے لینا
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ *صرف* امام معصوم کی پیروی!

*ارے بھائی* بیبی صغری (س) کربلا میں تھی مدینہ میں بیمار نہیں.
*بولے* یہ بھلا کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ وہ مدینہ میں تھی.

*بھائی* جناب قاسم (ع) کی شادی بھلا جنگ کے دوران کیسے ہو سکتی ہے
*بولے* ہم بچپن سے مہندی نکال رہے ہیں.

*ارے میاں* خلیفوں پہ سرعام لعنت مت کرو نفرت پھیلتی ہے میڈیا کا دور ہے. دشمن شیعہ سنی فساد کراتا ہے.
بولے ہم بچپن سے کرتے آ رہے ہیں

ارے بھائی *کل یوم عاشورا کل عرض کربلا* ایک شاعر کا قول ہے. معصوم (ع) نے تو فرمایا لا یوم کیومک یا ابا عبداللہ.
تیرے دن (عاشورا) جیسا *کوئی بھی* دن نہیں اے حسین!
تو ہر دن کیسے عاشورا ہوگیا
*بولے* ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں.

برادر اویس قرنی (رض) کے دانت شہید کرنے والا واقعہ شیعہ کتب میں نہیں ملتا
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ دانت توڑے!

پیارے بھیا اس دور میں زنجیر زنی و آگ کا ماتم مت کرو میڈیا اسے تمہارے خلاف استعمال کرتا ہے
شیعیت بدنام ہوتی ہے
*بولے* ہم بچپن سے کرتے آ رہے ہیں.


بھیا سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہو سکتا ہے.
*بولے* یہ کیسے ہم تو بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ سیدزادی کا نکاح غیرسید سے حرام ہے.

میاں نماز اور عزاداری ساتھ ساتھ چلاؤ.
*بولے* ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں عزادار حسین (ع) جہنم میں جائے گا ہی نہیں.

*موت....*
قبر میں منکر نکیر آ گئے سوال ہوگا من ربک، من دینک، من کتابک، من رسولک...
*بولیں گے* ہم تو بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ ہمارے استقبال کیلئے 14 معصوم گفٹس لے کر کھڑے ہوں گے کہ ہم عزادار تھے.... یہاں تو حساب کتاب بھی ہے...
کاش ہم واپس جا سکتے اور سنی سنائی پہ یقین نہ کرتے.


وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے *اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں* اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں
*(سورہ انعام آیت 27)*

 

💡💡 *بتی مشورہ*💡💡

 

*ابھی بھی وقت ہے حقیقی دیندار بن جائیں، جس طرح ولایت علی (ع) کا انکاری قبر میں علی (ع) کو نہ پائے گا اسی طرح بے عمل انسان بھی امام علی (ع) کو قبر میں نہ پائے گا.*

*arezuyeaab.blogfa.com*

حزب اللہ کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حزب اللہ کیا ہے...

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

حزب اللہ یعنی ولی فقیہ کے عاشقوں کا گروہ
حزب اللہ یعنی بصیرت
حزب اللہ یعنی با تقوی نوجوان
اور
حزب اللہ یعنی عوام سڑک پر ہے تو حزب اللہ بھی سڑک پر...
حزب اللہ یعنی عوام کو دشمن مارے تو حزب اللہ بھی ماری جائے
حزب اللہ یعنی عوام ڈنڈے کھائے تو حزب اللہ بھی ڈنڈے کھائے
حزب اللہ یعنی عوام کے حق میں حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال
حزب اللہ یعنی حکومت مخالف مظاہرے
اور
حزب اللہ یعنی بیروزگار شیعہ جوان کیلئے ٹریننگ سینٹر بنانا
حزب اللہ یعنی جوانوں کو عسکری تربیت دینا
مریضوں کیلئے ھسپتال بنانا
مساجد بنانا
شہداء کے خاندانوں کی خیر خبر لینا
عوام کے دکھ درد میں شریک ہونا
اور
حزب اللہ یعنی سمیر قنطار کمیونسٹ کو اپنا شیعہ سمجھ کر اس کا دفاع کرنا...
حزب اللہ یعنی سنیوں اور مسیحیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان کے دکھ بانٹنا...

*حزب اللہ یعنی پہلے مجھے زخم آئے پھر عوام کو*
*حزب اللہ یعنی عوام میں رچ بس جانا ان کے دل میں اتر جانا..*
اور
پھر
*الیکش لڑنا* اور اپنا متقی، پرھیز گار امیدوار کھڑا کرنا اور پارلیامینٹ میں اتنا مضبوط ہوجانا کہ جب پوری دنیا کہے کہ حزب اللہ تو دھشتگرد تنظیم ہے تو جمہوریہ لبنان کا وزیر اعظم کہے ہم کیسے حزب اللہ کو دھشتگرد کہیں یہ تنظیم *ہماری پارلیامنٹ* کا حصہ ہے!!!
👇🏽👇🏽👇🏽
*حزب اللہ یعنی عوام کے دل میں جگہ بنا کر پارلیامنٹ مین جگہ بنانا اور سیاسی و عسکری طاقت حاصل کر کے لبنان کے, ساری دنیا کے مظلوموں کا دفاع کرنا.*

کیا *جمہوریہ لبنان* میں حزب اللہ کامیاب ہے تو *اسلامی جمہوریہ پاکستان* میں ایسی تنظیم نہیں بن سکتی؟
جی بن سکتی ہے!

کیسے؟

اس تحریر کے شروعات میں طریقہ لکھا ہے.

arezuyeaab.blogfa.com

یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے!

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

دوست نے پوچھا تمہارا پسندیدہ شیعہ لیڈر کون ہے؟ میں نے کہا وہ جو عوام کی مشکلات میں اس کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو، دنیا کے کامیاب و سچے لیڈر وہ ہی کہلائے جو مشکل گھڑی میں عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے. کیا پاکستان میں اس سے زیادہ مشکل گھڑی ہو سکتی ہے کہ قوم کی عورتوں اور بچوں کو دشمن اپنی گولیوں سے چھلنی کر رہا ہو؟
میرا قائد، میرا لیڈر، میرا سردار وہ عالم دین ہے جس نے دوسرے بزرگ علماء کو فون کر کے کہا کہ قبلہ آجائیں ایک جگہ جمع ہوں، لیڈر بیشک آپ ہی بن جائیں، میں نے "اپنی" لیڈری چھوڑی، "اپنا" نظریہ چھوڑا، سب کچھ چھوڑا لیڈر بھی آپ بنیں، نظریہ بھی آپ کا ہو، لیکن خدا را اب آئیں متحد ہو کر دشمن سے مل کر جنگ کریں!
*وہ ہے میرا لیڈر جو تمام شیعہ عمائدین، علماء، خطباء، زاکرین، انجمنوں کے ٹرسٹیز، پروفیسرز، وکلاء، سول سوسائٹی، صحافی، شعراء، نوحہ خوانوں کے پاس چل کر جائے اور انہیں کہے کہ آؤ ایک جگہ جمع ہوں اور کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں...*

اس وقت قوم کا قتل علماء کے آپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور یاد رکھیں اس تفرقے میں جو جو ملوث ہیں، جس جس نے اپنی ڈیڑہ انچ کی مسجد الگ بنا رکھی ہے اور *دوسرے کی مسجد میں نہیں جاتا ان میں سے ہر ایک سے اس قتل کا سوال ہوگا.*

مجھے پتہ ہے بعض لوگ جب خود کچھ نہیں کر سکتے تو سارا الزام عوام پر ڈال دیتے ہیں. یہ خواص کی عادت رہی ہے کہ عوام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، آج بھی ایک گروہ و اس کے خواص کہتے ہیں کہ یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے رزمی نہیں، یہ لوگ عزاداری کرتے ہیں لیکن کسی کام کے نہیں، یہ صرف مجلس میں واہ واہ کرنے والے اور نیاز کھانے والے ہیں، یہ کوفی، یہ بزدل، یہ سیکیولر (بے دین).... لیکن میں ان خواص سے پوچھتا ہوں کیا یہ قوم وہ ہی "رسمی" عزادار و ماتمی قوم نہیں جس نے مفتی جعفر حسین کی آواز پر لبیک کہا اور یک مشت و متحد ہوکر ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا نے دیکھا اور مانا کہ حسینی مطلب غیرت سے جینا!
کیا یہ وہ نیاز کھانے والی و مجالس میں واہ واہ کرنے والی قوم نہیں ہے جس نے شہید قائد عارف حسین الحسینی کا ساتھ دیا اور اپنا سب کچھ قائد پہ قربان کردیا اتنی حد تک کہ دشمن اس قوم کو ایک طاقت میں بدلتا دیکھ ڈر گیا کہ اگر یہ قوم اسی طرح ترقی کرتی رہی تو فقہ جعفریہ نافذ کر دیگی پاکستان میں! اور اس ڈر سے اس غیرتمند قوم کے غیرتمند لیڈر کو شہید کر دیا.

کیا یہ وہ ہی رسمی عزادار قوم نہیں جس نے حال ہی میں آپ علماء کو متحد دیکھا تو پاکستان کی ساری سڑکیں بلاک کردیں اور رئیسانی حکومت گرا دی.؟
آپ نے اتحاد کیا قوم نے لبیک کہا، جب جب اس قوم کو اچھے لیڈروں نے بلایا یہ قوم میدان میں آئی تو اب بتائیے رسمی عزادار قوم ہے یا آپ ؟ مسئلہ آپ میں ہے یا قوم میں؟

آج بھی! کیا یہ رسمی عزاداری کرنے والی قوم نہیں جو مساجد و امام بارگاہوں و جلوسوں میں بموں سے اڑائی جاتی ہے لیکن پھر بھی اپنے بچوں سمیت مساجد و امام بارگاہوں و جلوسوں میں جا کر یا حسین یا حسین کرتی ہے؟
*کیا اس رسمی عزادار قوم کے بیٹے بیبی زینب (س) کے حرم کا دفاع کر کے شہید نہیں ہو رہے؟* *آپ نے کتبے رزمی عزادار بھیجے اپنے مدرسے سے؟ چلیں بھیجے نہیں تو خیر آپ نے ان شہداء کی کوئی خیر خبر لی؟ ان کے خاندانوں کی خیر خبر لی کبھی؟* اگر نہیں تو کیا آپ ایک رسمی لیڈر نہیں ہوئے؟ دوسروں کو رسمی عزادار کہنے والے خود کو دیکھیں قوم کی اس حالت میں وہ صرف باتوں کی رسم تو نہیں ادا کر رہے؟ رزم کہاں ہے؟ کیا آپ کے "رزمیانہ فلسفے" میں یہ چیز نہیں کہ اپنے ملک کے شہداء یا شہداء کے خاندانوں کی خیر خبر لی جائے؟. کتنے شہید ہو رہے ہیں کتنے جنازوں میں گئے ہیں آپ؟ کیا خواص کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ عوام ، جس کی عزتوں پر دشمن ہاتھ ڈال رہا وہ اور وہ اس راہ میں نہتی، تن و تنہا کھڑی ہو، کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھنے کی بجائے اسے ہی مورد الزام ٹھہرائیں کہ یہ قوم تو کوفی ہے، بزدل ہے، رسمی عزادار ہے، بس مجلس و نیاز کے پیچھے ہے...!!!

خواص سے گذارش ہے کہ اگر قوم کو حل دینے کیلئے آپ اپنی انا کو ایک طرف نہیں رکھ کر آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو کھوکھلے آپ ہو، رسمی عزادار آپ ہو، میدان سے باہر آپ ہو، عوام پہلے سے مایوس ہے اسے ایسے منفی القابات نہ دیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، رسمی لیڈر وہ ہی ہے جو عوام کی مشکلات میں میدان میں نظر نہ آئے، رزمی لیڈر وہی ہے جو مشکل میں عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو، کوفی وہ ہی ہے جو میدان میں نظر آنے کے وقت گھر میں نظر آئے.

🙏🏽 *آپ علماء متحد ہو کر، مسائل کا حل لے کر میدان میں آؤ اور پھر قوم میدان چھوڑ کر چلی جائے تب اسے رسمی عزادار، کوفی، سیکیولر کہیں ورنہ حق نہیں رکھتے آپ ایسا کہنے کا. خدارا قوم کی حوصلہ شکنی نہ کریں! اور آپ کو رسمی عزادار و رزمی عزادار کا فرق دیکھنا ہے تو پہلے اپنے گھر میں گن مین و باڈی گارڈز کے سائے میں رہنے والے اپنے بچوں کو دیکھئے، اور پھر پاکستان کی سڑکوں پر حسین (ع) کے عزاداروں کو اپنے اور اپنے بچوں کے خون میں لت پت دیکھیئے اور سوچیئے رزم کون ادا کر رہا ہے رسم کون!*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

میں جذباتی ہی صحیح!

میں جذباتی ہی صحیح!

 

تحریر: سیدہ عفت زہراء کاظمی 

(28 Muharam 2016. One day after Nazimabad (Khi) majlis firing)

امی کہتی ہیں کچھ خاص پہر ہوتے ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے اور کالی زبان والا شخص کبھی کسی کیلئے دعا کرے تو وہ دعا الٹی ہوکر قبول ہوتی ہے. میری امی کی باتوں پہ میں ھنستی ہوں لیکن جب پاکستان کے حالت دیکھتی ہوں تو لگتا ہے امی کی باتیں سچ ہیں. لمبی داڑھی والے کچھ حضرات نے نعرہ لگایا "کشمیر بنے گا پاکستان" شاید ان کی زبان کالی تھی کہ کشمیر پاکستان تو نہ بنا پاکستان کشمیر بن گیا. ھر طرف خون اور لاشے... اب تو یہ دھشتگرد اتنے بے حیا ہوگئے ہیں کہ عورتوں پر گولیاں چلاتے ہیں. ان کی نا مردی ثابت کرنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ بچوں اور عورتوں پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے. کراچی میں شیعہ مسلک کے لوگوں کو تو بڑی آسانی سے مارتے ہیں اس طرح جیسے مرغیاں ہوں، ویسے شیعہ علماء و قائدین نے بھی ہمیشہ شیعہ کو مرغی ہی بناکر پیش کیا ہے، تقاریر میں یہ جملہ بڑے جوش و جذبے سے سنائی دیتا ہے کہ ہمیں مارنے والو یاد رکھو ہم حلال جانور ہیں جتنا بھی مارو ہم ختم نہ ہوں گے تم حرام جانور ہو تم ھر روز کم ہوتے جاؤ گے ہم کم نہیں ہوں گے. یہ مجمعے سے نعرے سننے کیلئے بہت اچھا نکتہ ہے، عوام نعرے میں مصروف ہوجاتی ہے یہ بھی نہیں سوچتی کہ یہ نعرہ لگوا کر علماء بہت ساری ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں سے اٹھا کر دور پھینک دیتے ہیں. یعنی ذاکری نکتے بتا کر واہ واہ کروا کر، یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ مرتے رہو. کوئی "شہادت ہماری میراث ہے" کہہ کر شیعوں کو مرتے رہنے پر اکتفاء کی تلقین کر کے چلا جاتا ہے تو کچھ یہ کہتے ہیں کہ دیکھو صاحب ٹارگٹ کلنگ تو آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی شیعہ تو تب سے مر رہے ہیں! مطلب یہ کوئی اتنی بڑی اور نئی بات نہیں یعنی ہم نے آئمہ (ع) کی زندگی کی اتنی ورق گردانی کی ہے کہ اپنے پڑوسی شیعہ کے مرنے کی اور اس کی موت پر ہمارے چپ رہنے کی دلیل
بھی آئمہ (ع) کی زندگی سے نکال لائے!

چلیں علمائے کرام و اہل قلم ہمیں یہ نہ ہی بتائیں کہ یہ خونریزی کب و کیسے بند ہوگی لیکن اتنا تو بتانا ان کا فرض ہے کہ یہ جو سارا نزلہ ہم پر گرا ہے یہ بھارت کے شیعوں پر کیوں نہیں گرتا؟ وہاں روز شیعوں کی مسجد و امام بارگاہ میں دھماکے کیوں نہیں ہوتے. آپ کہیں گے وہاں طالبان نہیں ہیں، یعنی ہمیں طالبان و اس قسم کے دہشتگرد مار رہے ہیں، ٹھیک ہے قبول! اب یہ بتائیے یہ طالبان سب سے زیادہ پاکستان میں ہی کیوں دھماکے اور خونریزی کرتے ہیں؟ کیا ان کے آبا و اجداد کو ہم پاکستانیوں نے مارا تھا اس لیئے؟ آپ کہیں گے نہیں. تو کیوں؟ *یہ کون سوچے گا کہ ہم کیوں مر رہے ہیں*. *اس کیوں کا جواب نہ میڈیا دیتا ہے نہ اہل قلم*... کیونکہ جس کی غلطی کا خمیازہ یہ قوم بھگت رہی ہے وہ بہت طاقتور ہے کوئی اس کے خلاف چوں بھی نہیں بول سکتا. سب کو جاب اور جان پیاری ہے. کون پوچھے کہ صاحب طالبان کس نے بنائے؟ پاکستان کے کس پاکیزہ ادارے نے اسے دلیہ کھلا کر بڑا کیا. آپ شاید یہ کہیں کہ وہ دور الگ تھا. چلیں ہم یہ پوچھتے ہیں کہ افغانستان سے پہلے کتنے دھشتگرد پاکستان میں آ کر کاروائیاں کرتے تھے؟ 9\11 سے پہلے پاکستان میں کیوں دھماکے نہیں ہوتے تھے؟ آپ کہیں گے کہ آمریکا نے افغانستان میں آپریشن کیا اس لیئے. صاحب آپریشن آمریکا نے کیا بدلہ ہم سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ آپ کہیں گے کہ ہم نے آمریکا کا بھرپور ساتھ دیا. اچھا تو یہ بات ہے یعنی آپ نے اپنے اڈے و فوج آمریکا کو دیئے کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے؟
آپ کہیں گے جی ہاں! مجبوری تھی آمریکا کی پارلیامنٹ میں ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کر رکھا تھا جس سے ہمیں آمریکا فنڈ (خیرات) دیتا تھا ہم اس کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے، اسی پریسلر امیڈمنٹ میں لکھا ہے کہ آمریکا جس جس ملک کو خیرات دے رہا ہے یا جو جو آمریکا کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں کل اگر آمریکا جیسے "شریف" ملک پر کوئی آنچ آئی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے. نہیں تو خیرات کو قرض کا نام دے کر واپسی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے. سو ہم مجبور تھے. ہمیں آمریکا کی مدد کرنی تھی. ہم نے کی، آمریکا تو افغانستان سے دور تھا سو نزلہ اس تک تو نہیں پہنچ سکتا تھا پاکستان قریب تھا سو نزلہ پاک افغان بارڈر سے رینگتا ہوا پورے ملک میں پھیل گیا اور اسی نزلے نے ہمارا خون بہایا. ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کی اس کی سادہ سی اردو تشریح کچھ یوں کی جائے تو غلط نہ ہوگا:
*پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ! اس پاک وطن کے حکمران ہونے کے ناطے میں پریسلر امیڈمنٹ پر دستخط کرتا ہوں اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آمریکا جہاں بھی مظلوموں کا خون بہائے گا میرا ملک اس کا ساتھ دیگا، اور آمریکا کا اس ظلم میں ساتھ نبھانے کیلئے مجھے اپنے ملک کی گلیاں خون آلود دیکھنی پڑیں تو بھی مجھے فرق نہیں پڑے گا. مجھے آمریکا کے مفاد کیلئے لڑی جانے والی افغان جنگ کا نزلہ قبول ہے، کل جتنے بھی افغان دھشتگرد افغان جنگ کے انتقام کے طور پر کراچی سے کوئٹہ تک بم دھماکے کریں اور اس کے نتیجے کتنے بھی لوگ مریں لیکن مجھے اپنے کیئے ہوئے وعدے سے ہٹا نہیں سکتے*

ہم ان کے فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں جنہیں معلوم تھا کہ آمریکا کے مفادات کی جنگ میں حصہ لیکر دھشتگردوں کو آمریکا کیلئے مارنے کا سارا نزلہ ہم پر گرے گا، اور ہمارے معصوم بچے مارے جائیں گے پھر بھی انہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا. مجھے یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ وہ لوگ ہمارے محافظ تھے اور ہیں. شاید آپ مجھے جذباتی کہیں، اگر حقیقت لکھنا جذباتی ہونے کے مترادف ہے تو میں جذباتی ہی صحیح!

خیرُو سائیں المعروف "خیرو خر مغز"

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خیرُو سائیں المعروف "خیرو خر مغز"

تحریر: محمد زکی حیدری

 

رکن قومی اسیمبلی پیر سائیں عبدالکریم شاہ ڈھیٹانی عشقبندی گادی نشین درگاہ لُٹیاری شریف کا سندہ میں بہت بڑا نام تھا. والد ترکے میں درگاہ کی گدی اور بہت بڑی جاگیر چھوڑ گئے تھے، اس لیئے انہوں نے نہ خود تعلیم حاصل کرنے کی زحمت کی نہ بچوں کی تعلیم پر دھیان دیا. اپنے بزرگوں کے عقیدے کہ پیر مرشد کی بیٹی کا کفو کوئی انسان نہیں ہوسکتا، مرشد کی بیٹی کا کفو صرف قرآن ہے، پر عمل کرتے ہوئے تینوں بیٹیوں کے نکاح قرآن سے کروا کر انہیں ساری زندگی حویلی کی دیواروں میں قید کردیا. پیر صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے نورِچشمِ پدر پیر سید خیرمحمد عرف خیرو سائیں تھے. خیرو سائیں ذھنی لحاظ سے ذرا کند تھے بلکہ ایسا کہیئے عقل سے پیدل تھے اور توتلے بھی تھے سن بلوغت پار کر گئے لیکن توتلا پن نہ گیا، اب کسی اور کی اولاد ہوتے تو انہیں پاگل کہا جاتا لیکن آپ تو ٹھہرے پیر سائیں کے بیٹے سو کس کی مجال کہ پاگل کہنے کی گستاخی کرتا. ان کی احمقانہ حرکتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں سندھی زبان میں "پہتل" یعنی "پہنچا ہوا" کہا کرتے تھے. باپ اپنے اس نور چشم کو "خیرو سائیں" بلاتے، اس لیئے حویلی میں بھی انہیں "خیرو سائیں" یا "خیرو بابا" پکاراجاتا. اور حویلی میں خیرو سائیں کچھ بھی کرلیں انہیں کوئی اف تک نہ کہہ پاتا.

خیرو سائیں بچپن سے ہی کچھ عجیب و غریب عادات کے مالک تھے، ویسے تو اکثر امراء کی اولاد کا یہ ہی حال ہوتا ہے لیکن خیرو سائیں انوکھے پن میں اپنی مثال آپ تھے. اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ کو اسکول جانے کا شوق ہوا، کلاس میں استاد نے بتایا کہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے یہ سائنسی ترقی کی عظیم مثال ہے. یہ سن کر خیرو سائیں نے استاد سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے انسان چاند پر تو گیا سورج پر نہیں؟ استاد نے سائیں کو مؤدبانہ طریقے سے سمجھایا کہ سورج کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے، اتنا زیادہ کہ تپش زمین تک بھی آجاتی ہے، اس لیئے جانا ممکن نہیں. سائیں تو تھے ہی عقلمند سو توتلی سندھی میں بولے "گڑمی آ تہ پو ڑات جو چھو نتھا وجن" یعنی دن میں سورج کی تپش ہوتی ہے تو پھر رات کو کیوں نہیں جاتے. یہ سننا تھا کہ کلاس کے سارے لڑکے ھنسنے لگے، سائیں کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ دوبارہ اسکول کی طرف مڑ کر بھی دیکھیں، سو وہ دن ان کے مختصر تعلیمی کیریئر کا اختتامی دن تھا.

خیرو سائیں کا ماننا تھا کہ وہ دنیا کا ھر کام کر سکتے ہیں. اور اگر کسی نے کہہ دیا کہ خیرو سائیں یہ کام آپ کے بس کی بات نہیں تو خیرو سائیں اس کام کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑ جاتے. کبھی کبھار حویلی کے نوکر چاکر جو انہیں اپنی زبان میں "خیرو خر مغز" کہا کرتے تھے، خیرو سائیں کو جان بوجھ کر کسی کام کیلئے کہہ دیتے کہ خیرو سائیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں. یہ سننا ہوتا خیرو سائیں کہتے میں یہ کام کر کے رہوں گا، اور پھر حویلی کے نوکر بیٹھ کر تماشہ دیکھتے.

ابھی عید الاضحی ہی کی بات ہے کہ نوکروں کو شرارت سوجھی، بندوق لے کر خوشی میں دو چار فائر کیئے. خیرو سائیں دیکھ رہے تھے. اتنے میں ایک نے بندوق خیرو سائیں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا خیرو سائیں آپ فائر کریں گے.؟ اس سے قبل کہ خیرو سائیں جواب دیتے ایک شرارتی نوکر نے کہا "اڑے بابا چھوڑو کہاں خیرو سائیں اور کہاں بندوق، یہ سائیں کے بس کا کام نہیں ہے بابا!" یہ سن کر خیرو سائیں غصے سے لال ہوگئے. آنکھوں میں خون بھر آیا، کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھ کر اس گستاخ نوکر کو گھورتے رہے، پھر اس سے نظریں ھٹائیں، تیزی سے بندوق کی طرف لپکے، توتلی سندھی زبان میں نوکر سے کہا "لوڈ کڑ ما فائڑ کندم!" (لوڈ کرو میں فائر کروں گا). کلف شدہ کاٹن کی کشادہ شلوار، بھاری بھرکم جسم اور ورثے میں ملے ہوئے آٹے کی بوری نما پیٹ کو سنبھال کر خیرو سائیں نے سامنے ایک کبوتر کو بندوق سے نشانہ بنایا، فائر ہوا لیکن کبوتر قہقہے لگاتا ہوا اڑ گیا اور فائر کرتے وقت جس برے طریقے سے بندوق نے خیرو سائیں کو جھٹکا دیا تھا اسے دیکھ کر نوکر اپنی ھنسی نہ روک سکے. نشانہ چوکنے کا غم اور مضحقانہ ھنسی نے خیرو سائیں کی خاندانی غیرت کو للکارا، بندوق نوکر کو دے کر پھر سے لوڈ کرنے کا حکم دیا، بالقصہ تقریبا آدھا درجن پرندوں کا ناکام نشانہ لینے کے بعد خیرو سائیں کو یاد آیا کہ ان کے دادا مرحوم بھی آسمانی شکار میں کمزور تھے لھذا اب ورثے میں ملے نقائص کو لے کر بدنام ہوتے رہنا بھلا کہاں کی عقلمندی تھی، سو انہوں نے زمین پر دس بیس فیٹ دور بیٹھے ایک کتے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا. لیکن کتا بھی خیرو سائیں سے زیادہ خوشقسمت نکلا اور گولی سے بچ کر دم دباکر بھاگ نکلا. سائیں کے موٹے گالوں سے پسینے کے بدبودار قطرے ٹپکنے لگے، چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی، قمیض کے بٹن بھی کھول دیئے.
متعدد بار شکار کی مختلف کوششوں میں کارتوس ضایع کرنے کے بعد بلآخر بنگلے کی ایک چار پائی کے ساتھ ایک مرغا باندھا گیا اور صرف چند بالشت کے فاصلے سے خیرو سائیں کو کہا گیا کہ فائر کریں، لیکن جب سائیں گولی چلا چکے تو لوگوں نے فرش پر گولی کے نشان کے ساتھ مرغے کو صحیح و سالم کک کک کک کرتے دیکھا. اس کے بعد خیرو سائیں نے بندوق کو کی والدہ کو سندھی میں فحش گالی دی اور پھینک کر چل دیئے.

خیرو سائیں کی زندگی بھی عشق سے خالی نہ تھی. سید تھے، ان کیلئے سادات لڑکیوں کی کب کمی تھی لیکن سائیں کو ھندو بھیِل ذات کی چوڑیاں بیچنے والی ایک لڑکی پسند آگئی، "عشق کیا کھوتی سے تو پری کیا چیز ہے"، اس بھیِلن کا نام پاروتی تھا. اب سائیں خیرو کوئی چیز پسند کریں اور وہ انہیں نہ ملے یہ بھلا کیسے ممکن تھا. بھیل تو غریب ھندو تھے ان کی کیا مجال کہ سائیں کو منع کریں، لہذا بھیِلن پاروتی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا گیا اور چونکہ سائیں خیر محمد شاہ کی زوجیت میں آئیں تھیں تو یہ بھیلن پاروتی اب سیدہ مریم زوجہ پیر سید خیر محمد شاہ بن گئیں اور اس کی گود سے ایک سال بعد ایک نوجوان سید سائیں کمال شاہ پیدا ہوئے.

خیرو سائیں کی زندگی اسی طرح "عاقلانہ" و "شاہانہ" حرکتیں کرتے کرتے اس موڑ پر پہنچی جہاں ان کے والد کا انتقال ہوا اور ایک جم غفیر تعزیت کرنے پہنچا، جب مرحوم کی جانشینی کی "پگ" پہنانے کی بات آئی تو کچھ لوگ خیرو سائیں کے ذھنی توازن کی وجہ سے سوچ رہے تھے کہ شاید ان کی بجائے مرحوم کے چھوٹے بیٹے کو "پگ" پہنائی جائے لیکن جب والد کی وصیت پڑھی گئی تو اس میں تاکید کے ساتھ لکھا تھا کہ میری ساری ملکیت بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے لیکن درگاہ کی گدی نشینی اور سیاسی جانشینی صرف و صرف میرے بڑے صاحبزادے خیر محمد شاہ عرف خیرو سائیں کے حوالے ہے. لہذا میرے انتقال کے بعد میری جگہ میرے حلقے میں رکن قومی اسیمبلی کے امیدوار پیر خیرمحمد شاہ ہوں گے اور میں عوام سے امید کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے بزرگ پیروں سے مذھبی و سیاسی میدان فیض حاصل کیا اسی طرح پیر خیر محمد شاہ سے بھی فیض حاصل کر کے بزرگوں کی روایتِ فیض رسانی کو برقرار رکھیں گے.

 

arezuyeaab.blogfa.com

میں میں ہوں!

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

 

میں میں ہوں!

 

ازقلم: محمد زکی حیدری

یہ قوم شہید قائد عارف حسینی (رض) کے بعد ایک بڑے عرصے سے مر کھپ رہی تھی، اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا. ٹارگٹ کلنگ ہوئی قائدین چپ، رینجرز شیعہ نوجوانوں کو لے جاتی سب چپ، بم دھماکے چپ...
عوام علماء پر تنقید کیا کرتی کہ کوئی نہیں بولتا سب چپ ہیں. کوئی نکلتا ہی نہیں ظلم کے خلاف، سب عالم دین بس اپنی اپنی تنظیم کو چمکانے میں لگے ہیں. عوام تنقید کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک عالم دین نے بھوک ھڑتال کردی ... "میں" نے جب یہ سنا تو تنقید کے بند باندھ دیئے، کہا یہ سراسر بے وقوفی ہے، اس سے کیا ہوگا کچھ فرق نہیں پڑے گا، قوم کے ایک "استاد" جو قرآن و سیرت آئمہ (ع) کا وسیع علم رکھتے تھے، نے اس بھوک ہڑتال کو کسی بیوہ عورت کی طرح رونے پیٹنے سے تشبیہ دی. اور اشارتاً فرمایا کہ یہ قرآن و سیرت اہلبیت (ع) کی سراسر مخالفت ہے، یہ قوم کو ذلیل کرنے والا کام ہے، کچھ کو کچھ سمجھ نہ آیا بولے "یہ بندہ پہلے لاشوں کی سیاست کر چکا ہے اب دوبارہ میڈیا پر آکر سستی شہرت کمانے کیلئے سب کر رہا ہے"

بھوک ھڑتال سے پہلے ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی لیکن بھوک ہڑتال کے بعد ٹارگٹ کلنگ کی کوئی خبر نہ آئی. اسے بھی "میں" نے کہا یہ اتفاق ہوگا، بھوک ھڑتال کی وجہ سے نہیں.
بھوک ہڑتال کے بعد ذیابطیس کے مریض اس عالم دین کی طبیعت خراب ھوگئی، بے حد کمزور ہوگئے، ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا لیکن شہید قائد (رض) کی برسی پر یہ جسمانی طور کمزور عالم دین پھر عوام کے سامنے آیا کہا کہ مجھے خطاب کرنا ہے. دوستوں نے سمجھایا لیکن نہ مانے، کمزوری کی حالت میں تقریر کی، "میں" نے کہا میڈیا کو دکھانے کیلئے ڈرامہ کیا ہے اس نے"

پھر ایران کے بارڈر تفتان سے مسلسل زائرین کی شکایتیں آتیں کہ بھئی ظلم ہے ہمارے ساتھ ہم غریب ہیں امیر لوگ جہاز میں بیٹھ کر اپنے مولا (ع) کی حاضری دینے چلے جاتے ہیں ہم غریب اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ہوائی جہاز سے جائیں، لیکن جب ہم زمینی راستے سے جاتے ہیں تو ۱۵ ۱۵ دن کوئٹہ و تفتان میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس پر سیکورٹی اہلکاروں کا نازیبا رویہ،رشوت، اہانت، کرائیوں میں تین گنا اضافہ، بس والوں کی بدتمیزی، نہ رنے کی جگہ ، نہ پینے کا پانی، نہ ٹوائلٹ کا انتظام... کوئی عالم دین، کوئی قائد، کوئی اہم شخصیت مڑ کر دیکھنے نہیں آئی. سب جہاز میں بیٹھ کر دنیا میں جاتے ہیں اور اخبار میں پاکستانی ملت تشیع کی نمائندگی کا راگ آلاپ کر، تصاویر بنوا کر آجاتے ہیں. شاید ان کے جہاز آسمان میں بہت اونچائی پر ہوتے ہیں اس لیئے ہم زمین والے انہیں کیڑے مکوڑے ہی نظر آتے ہیں. اب وہ دن پتہ نہیں کب آئے گا کہ کوئی قائد، نمائندہ ولی فقیہ یا نظام ولایت کی بات کرنے والا کوئی "استاد" جہاز کو چھوڑ کر ہماری طرح زمینی سفر کریگا اور ہماری حالت دیکھے گا. تاکہ اسے پتہ چلے کہ امیرالمومنین و آئمہ (ع) کبھی اپنے شیعوں کی تکلیف میں ان سے کنارہ کش نہ رہے.
لیکن انہیں کیا پڑی کہ آئیں، ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر بصیرت کی باتیں کرنے والوں کو کیا پڑی کہ کوئٹہ سے پیدل تفتان جائیں جہاں عام زائرین بھی کونوائے و سخت حفاظتی پروٹوکول میں جاتے ہیں، اور جب ان کی بسیں شہروں سے گذرتی ہیں تو شہروں میں ایف.سی کرفیو نافذ کر دیتی ہے تاکہ کوئی دھشتگرد کاروائی نہ کرے. اور اوپر سے یہ مینگل کا علائقہ، یہ اس رئیسانی کا علائقہ جس کی کرسی شیعوں کے ایک دھرنے نے چھین لی تھی. یہ کالعدم سپاہ صحابہ کا گڑھ جہاں نہ فقط ھر جگہ سپاہ صحابہ کے پرچم آویزاں نظر آتے ہیں بلکہ کچھ روز قبل کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں اس تنظیم کا بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں شیعہ کافر کے نعرے ہی نہیں بلکہ اسٹیج سے شیعہ کافر کے ترانے و تقاریر بھی کی گئیں. اس کے علاوہ یہ قوم پرست بلوچ جو پنجابی کا سنتے ہی آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، کا بھی گڑھ... یعنی شیعہ جائے تو بھی سامنے دشمن، پنجابی جائے تو بھی سامنے دشمن. اس حال میں کسی پنجابی شیعہ قائد یا "استاد" کو کیا پڑی کہ کوئٹہ سے تفتان زمینی راستے سے جائے!

لیکن ایک شیعہ اور پنجابی عالم دین نے سوچا کہ میرے عزادار میری قوم کی غریب مائیں، بہنیں، بچے، بزرگ جو جہاز سے میرے مولا (ع) کی زیارت کو نہیں جا سکتے، میں ان پر خلوص زواروں کی خیر خبر لینے جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے.
یہ وہی عالم دین تھے جس نے "میرے" بقول لاشوں پر سیاست کی اور پھر میڈیا کو دکھانے لیئے بھوک ھڑتال کی. اس عالم دین کو سب نے جب کہا کہ قبلہ یہ تو خودکشی ہے تو فرمایا: جان کا فائدہ ہی کیا اگر حسین (ع) پر فدا نہ ہو. احباب نے بہت اسرار کیا کہ نہ جائیں لیکن وہ نہ مانے. آخری حربہ دوستوں نے یہ استعمال کیا کہ ان سے کہا قبلہ استخارہ دیکھ لیں قرآن سے. جب استخارہ دیکھا تو آیا "رب ابراھیم پر توکل کر کہ چلے جائیں."

یہ عالم دین جب تفتان پہنچا تو حسین (ع) کے غریب زوار جو جہاز سے جانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور خود کو اب تک یتیم سمجھ رہے تھے، ایف.سی، پولیس، رینجرز، فوجیوں کے دشنام سن سن کر تنگ آگئے تھے، کے قلوب کو ایک سکون سا ملا، انہیں یقین ہو گیا کہ سارے جہاز والے لیڈر ایک جیسے نہیں ہوتے. ان میں کوئی زمین پر آکر ہمارے درد کا مداوا کرنے والا بھی موجود ہے.

بہرحال وہ لیڈر ان تمام خطرات کے باوجود دھشتگردوں کے گڑھ میں اپنی قوم کی داد رسی کرنے پہنچے، بااختیار اداروں اور اشخاص سے مذاکرات کیئے. ان کی طرف سے پاکستان ہاؤس کی تعمیر و توسیع کی یقین دھانی اور دیگر امور پر یقین دھانی کرائی گئی لیکن مجھے اس بار سمجھ نہیں آرہی کہ اس عالم دین کے اس اقدام کو "میں" کیا نام دوں، اگر کہتا ہوں لاشوں پر سیاست کی ہے تو یہ لاشوں کا مسئلہ نہیں، اگر کہتا ہوں میڈیا پر آکر شہرت کمانے کی کوشش ہے تو یہ جلسہ تو ہے نہیں کہ میڈیا کوریج دے، "میں" اس بار اس پر بیواہ عورت کی طرح رونے پیٹنے کا بھی الزام نہیں لگا سکتا، "میں" اسے قوم کو ذلیل کرنے کا الزام بھی نہیں لگا سکتا، "میں" اس بار اس عالم دین کو شہید قائد کے جانشین کا گستاخ بھی نہیں کہہ سکتا، "میں" اس بار اس عالم دین کی تنظیم پر کسی کے سر سے عمامہ گرانے کا الزام بھی نہیں لگا سکتا .. "میں" پریشان ہو گیا ہوں کہ اس عالم دین کے اس اقدام کو کیسے بیان کروں کہ جس سے اس عالم دین سے مخالفت کی آگ جو میرے کلیجے میں لگی ہے، ٹھنڈی ہو سکے. لیکن آپ فکر نہ کریں "میں" میں ہوں کچھ نہ کچھ الزام لگا ہی دونگا.

جعفر جذباتی اور سنی مولوی

جعفر جذباتی اور سنی مولوی

 

از قلم: محمد زکی حیدری



آج جمعہ تھا سو جعفر جذباتی صاحب نے غسل جمعہ کیا اور نماز جمعہ ادا کی. جعفر جذباتی ویسے بھی نمازی ہیں، ماتمی تو اس سے بھی زیادہ ہیں، محرم میں زنجیر زنی کر کے خون کا پرسہ بھی دیتے ہیں. جذباتی کے زنجیروں کا دستہ ایسا تھا کہ کراچی کے بڑے بڑے ماتمیوں کے اس سے پسینے چھوٹ جاتے تھے. یگانہ سید عزادار تھا. جمعے کو عموماً جذباتی صاحب چھٹی کرتے ہیں، مگر آج جمعے کے بعد انہوں نے کسی بندے کو سامان دینا تھا سو جمعہ پڑھ کر انہوں نے دکان کھولی تھی. سگرٹ سلگائی کرسی پر براجمان ہوکر اس شخص کا انتظار کرنے لگے. ایک گھنٹے بعد سوچا اب کیا انتظار کرنا، شٹر نیچے کیا جانے ہی لگے تھے کہ سامنے سے ان کے محلے کے طفیل چچا موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے نظر آئے. اس نے سوچا طفیل چچا انچولی جا رہے ہوں گے اس لیے زور سے آواز لگائی "طافو چچا!!!"
طافو پر چڑتے ہیں طفیل میاں، کئی بار جذباتی کو اپنے منہ نصیحت بھی کر چکے کہ بزرگوں کے نام بگاڑنا تم ایسے ھونہار کو زیب نہیں دیتا مگر جذباتی صاحب کب کسی کی سنتے ہیں. بالقصہ طفیل میاں نے اس کی آواز سن کر موٹرسائیکل روک دی لیکن مڑ کر ایسی گندی نظروں سے جذباتی کو دیکھا کہ گویا جذباتی گٹر سے نکل کر آ رہا ہو.
" چچا کدھر؟" اس نے سگرٹ سڑک پر پھینکتے پوچھا
"میں گھر نہیں جا رہا" چچا نے غصے سے جان چھڑانے کے انداز میں جواب دیا.
"کاہے چچا؟ تو کدھر جا رہے ہیں"
چچا نے سوچا جھنم وھنم بول دیں لیکن جانتے تھے جذباتی منہ پھٹ ہے. سو بولے: "میلاد میں جا رہا ہوں"
"اچھا زبردست! میں بھی چلتا ہوں جمعہ ہے کوئی کام وام نہیں لائیں مجھے دیں بائیک میں چلاؤں"
"ارے سنی دوست کے ہاں ہے تم کیا..."
"بے چچا تو میں کوئی یہودی ہوں! کیا میلاد میں میں نہیں جاسکتا"
مرتا کیا نہ کرتا طفیل میاں نے موٹرسائیکل کا ھینڈل جذباتی کے حوالے کیا اور خود نا چاہتے ہوئے بھی پیچھے کھسک گئے.
میلاد برادران اھل سنت کا تھا اور مولانا وعظ فرما رہے تھے. طفیل میاں اور جذباتی بھی جاکر بیٹھ گئے.
"آقا صلواہ وسلام نے فرمایا علی ردی (رضی) اللہ عنہ علم کا شہر ہیں اور میں علم کا دروازہ بھئی سمجھیئے تو آقا کیا فرما رہے ہیں... دروازہ وہ ہے جہاں سے شہر میں گھسنے والے کا دو بار گذر ہوتا ہے گویا مدینے والی سرکار فرما رہے ہیں جبرئیل جب آتے ہیں تو بھی علی ردی (رضی) اللہ عنہ سے ملتے ہیں اور جاتے ہیں تو بھی.... "
پورے مجمعے نے مل کر کہا سبحان اللہ!!! اتنے میں جذباتی جو جوش آیا زور سے بولا "نعرہ حیدری" سنی مجمعے نے جواب تو بیشک دیا مگر سمجھ گئے کہ کوئی شیعہ بھی موجود ہے محفل میں. کچھ پر یہ خالی نعرے حیدری کچھ گراں سا گذرا سو انہوں نے جذباتی کو ترچھی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا گویا کہہ رہے ہوں رک بیٹا اگلے نکتے پہ ہمارا نعرہ سنیو.
مولانا تو سنی تھے بیچارے ایک تعریف علی (ع) کی بیان کی پھر خلفاء کی تعریف میں رقم اللسان ہوئے بولے "حضرت سیدبا عثمان غنی ردی اللہ تعالی نے اپنا سارا گھر اسلام کی خاطر لٹا دیا" یہ کہنا تھا تو ایک لمبی داڑھی والا اٹھا گلا پھاڑ کر یکے بعد دیگرے نعرے لگانا شروع کر دیئے "نعرے تکبیر..." نعرے رسالت... ، نعرے حیدری.... اور آخر میں نعرہ لگایا نعرے تحقیق ... حق چار یار!!!

اب جذباتی دل ہی دل میں پیچ و تاپ کھائے جا رہے ہیں. لیکن مجبوری تھی نعرہ تو لگنا تھا لگ گیا.
مولانا کا جذباتی خطاب اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری تھا، لیکن اب پھولوں کی سیج جذباتی جیسے زنجیر زن شیعہ کو کانٹوں کا بستر لگنے لگی لیکن خیر.. مولانا نے فرمایا "اب حضرت سیدنا عمر ردی اللہ کی تعریف سنیئے آقا صلات و سلام نے فرمایا اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو عمر ردی اللہ تعالی عنہ ہوتے"
یہ سن کر جذباتی پر قبض کی سی کیفیت طاری ہوگئی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے بول دیا کہ "مولانا اگر نبی ہوتا تو عمر ہوتا پھر آپ ابوبکر کو پہلا خلیفہ کیوں مانتے ہو عمر کو مانو"
مولوی کے طوطے اڑ گئے، ادھر ادھر سے آوازیں آنے لگیں "یہ کون ہے"
"بھائی چپ رہو" جذباتی بولا " بھئی سوال عالم سے نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے"
"ابے کون ہے نکالو اسے، ہے کون یہ... "
طفیل میاں نے اسے سمجھایا، ہاتھ جوڑے، حضرت علی (ع) کی قسم دی کہ چپ ہو جاؤ.
تب جاکر کہیں چپ ہوئے مسٹر جعفر جذباتی.
مولانا کو تو موقع ملا سو اس نے پھر خلفاء کی تعریفیں شروع کیں. پانچ دس منٹ تک تو جذباتی سنتا رہا پھر اچانک سے اٹھا، یہ دیکھ کر مولوی کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی کیونکہ جذباتی کی شکل غصے سے بڑی وحشتناک ہوگئی تھی. سب کے چہرے کا رنگ فک کہ خدا ہی خیر کرے.
لیکن جذباتی نے ادھر ادھر دیکھا چپ کر کے دروازے سے باہر آئے اپنےمنہ بڑبڑاتے ہوئے سگرٹ جلائی اور بس اسٹاپ کی طرف چل دیئے.

سیاسی جذباتی بچے!

سیاسی جذباتی بچے!

 

بچے تو بچے ہوتے ہیں جب تک انہیں زبردستی کلائی سے پکڑ کر، گود میں بٹھا کر، گال پر پپی دے کر نہ سمجھایا جائے تب تک نہیں سمجھتے.

یہ ہی حال ان بچوں کا تھا جب علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے بھوک ھڑتال شروع کی تھی یہ بچے اس بھوک ھڑتال کو ذلالت کہہ رہے تھے. بیشک تنقید ہم نے بھی کی کہ راجہ صاحب نے اچانک سے اعلان کیا بھوک ھڑتال کا، بغیر کسی کیمپین کے. لیکن ذلالت نہ کہا. آج جب ایک خبر آئی کہ نثار چودھری اپنی باتوں سے مُکر گیا جن کی اس نے راجہ صاحب کو یقین دھانی کروائی تھی. تو سب سے زیادہ خوشی ان سیاسی جذباتی بچوں کو ہوئی ہے. انہوں نے تحریریں لکھنا شروع کردی ہیں کہ راجہ صاحب نے قوم کو ذلیل کر دیا، دیکھا نثار چودھری مُکر گیا ہم نے کہا تھا بھوک ھڑتال مت کرو ...!!! کچھ فائدہ نہیں ملنے والا...!!!

دیکھا آپ نے کتنی بچگانہ اور cute سی باتیں ہیں ان کی

گویا ان کے بقول اُس دشمن کے خلاف دھرنا و بھوک ھڑتال ہو جو متقی، پرھیزگار اور وعدے کا پابند ہو. جب پکا یقین ہوجائے کہ حکمران ہماری شرطیں قبول کرے گا تب ہی اس کے سامنے شرائط رکھیں ورنہ چپ رہیں.
یہ بسیجی بچے اگر امام حسن (ع) کے دور میں ہوتے تو امام حسن (ع) سے کہتے "دیکھا مُکر گیا معاویہ، کردیا نہ قوم کو ذلیل جب پتہ تھا معاویہ ظالم ہے وعدہ کر کے مکر جائے گا تو کیا فائدہ صلح کی شرائط لکھنے کا " اور تاریخ گواہ ہے امام (ع) کو یہ الفاظ کہے بھی گئے امام حسن (ع) کو "یا مذل المومنین" (مومنوں کو ذلیل کروانے والا) کہا گیا.
وہ بھی جذباتی بچے تھے آج بھی ....
یہ امام حسین (ع) سے بھی کہتے کہ مت جائیں اپنی بہن بیٹیاں اسیر کروائیں گے جب پتہ ہے یزید ظالم ہے تو کیوں جا رہے ہیں اس کے سامنے. جب سید سجاد (ع) مدینہ لوٹتے تو یہ جذباتی انقلابی انہیں بھی یہ کہتے "دیکھا ہم نے کہا تھا نہ یزید ظالم ہے کسی چیز کا لحاظ نہیں کرتا اب کروا دیا نا قوم کو ذلیل"

یہ بھوک ھڑتال کو ذلالت کہنے والے بہت پرانے ہیں ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وقت کے امام سے بھی خود کو زیادہ دین کا درد رکھنے والا سمجھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ آج رھبر معظم کسی کے بارے میں کچھ نہ کہیں لیکن یہ اسے ایم آئی سکس کا مجتھد کہنے میں دیر نہیں لگاتے.
اللہ (ج) سے دعا ہے کہ ان جذباتی جوانوں کو جذبات کے ساتھ عقل بھی عطا کرے. یہ آپ کو جہاں بھی ملیں انہیں گلے لگا کر گال پر پپی دے کر بات سمجھائیے گا. ٹافی بھی آپ کے جیب میں ہو تو کیا ہی خوب ہو!

الاحقر: محمد زکی حیدری

غیب کا ہاتھ !

بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم

غیب کا ہاتھ !

(سیدہ عفت زھراء کاظمی)

 

مقامِ استعجاب ہے! مرزا غالب نے بھی کیا خوب کہا: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا... ایک وقت تھا کہ ایک بندہ اشارہ کرتا تھا پورا کراچی بند ہوجایا کرتا تھا صرف اس کی چھتر چھایا میں چلنے والا نائن زیرو ہی کھلا ہوتا،.مگریہ کیا آج حالات ایسے ہوگئے کہ پورا کراچی کھلا ہے اور صرف نائن زیرو بند ہے...

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ 'نصیر'
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی.

لیکن ہم عوام ....ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج یہ بے سر و سامان انسان کل بھی ایک سڑک چھاپ تھا... اسے کس نے اتنا طاقتور بنا دیا تھا؟ اللہ کو چھوڑیں کسی اور زاویے سے سوچیں...
کون ہے جس نے اسے اتنی طاقت دی کہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا یہ سڑک چھاپ اتنی ترقی کر گیا کہ جب لندن سے اپنی عجیب آواز میں تقریر کیا کرتا تھا تو پورے پاکستان کا میڈیا یرغمال ہوجاتا تھا... اس کی پوری تقریر براہ راست نشر ہوتی مجال کہ کوئی چینل اس دوران وقفہ بھی دے...

ایم کیو ایم کا اب کیا ہوگا؟ یہ مت سوچیں، اس کا کوئی نیا نام آجائے گا مارکیٹ میں! آپ بے فکر رہیں، یہ کام آپ کا نہیں ہے یہ کام کرنے والے آپ کو ایک نیا تحفہ دینے کا سوچ چکے ہوں گے، وہ ہماری خواری کی ہی تو تنخواہ لیتے ہیں... لیکن یہ ہیں کون؟؟؟
اتنے طاقتور کہ چار پہر میں سڑک چھاپ کو بادشاہ بنادیں
کون ہیں؟؟؟
چلیں بالفرض ان کا نام "غیب کا ہاتھ" رکھ لیتے ہیں. جی تو جناب یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے کہ جس سڑک چھاپ کے سر پر بھی رکھ دیا جائے تو وہ بھی پورے پاکستان کے میڈیا کو تین تین گھنٹے یرغمال بنا سکتا ہے... کسی کی مجال کہ چوں بھی کرے... وہ سڑک چھاپ اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ میڈیا پر آکر بولتا ہے کہ "سائیز تم بتاؤ بوری ہم بنائیں گے..." پھر بھی کوئی ادارہ اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ اس پر "غیب کا ہاتھ" تھا. لیکن جب یہ ہاتھ اٹھا تو اس کے ہاتھوں کا پلا بچہ کراچی میں اسے شرابی پاگل کہتا سنائی دیا،
اتنا کمزور ہوجاتا ہے بندہ جب سر سے "غیب کا ہاتھ" اٹھ جائے.

پاکستان میں یہ ہاتھ جس پر ہوتا ہے وہ کبھی لانڈھی میں سرعام بیٹھ کر شیعوں کو کافر کہتا ہے اور ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کہتا ہے ایسا کام کروں گا کہ سنی شیعہ سے ہاتھ بھی نہ ملائے گا. مگر اسے کوئی ادارہ کچھ نہیں کہہ سکتا. کیونکہ "غیب کا ہاتھ" اس کے سر پر ہے. اسلام آباد کے مدرسے کا ایک مُلا داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی کیونکہ اس مدرسے کی بنیاد ڈالنے والوں پر بھی شاید "غیب کا ہاتھ" تھا.
میڈیا بھی نہیں جانتا کہ "غیب کا ہاتھ" کیا ہے، جسں نے عمران خان کو اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے سامنے آکر "امپائر کی انگلی" کی بات کیا کرتا تھا.
کسی میڈیا چینل، کسی کالم نگار، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ اس انگلی کا مطلب کیا ہے!!!
کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس ملک میں جو بھی اچانک طاقتور ہو کر اس طرح کی باتیں کر کے سب کو ڈراتا ہے اس پر "غیب کا ہاتھ" ہوتا ہے اور غیب سے کون ٹکرائے.
ملک ریاض بھتہ نہیں دیتا کسی کی مجال کے اتنے بڑے بلڈر سے کوئی بھتہ مانگے کسی کو نہیں پتہ کہ اس میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ ملک ریاض سے بھتہ نہیں لے سکتے، بھتہ خوروں سے پوچھیئے آپ کو بتائیں گے کہ اس پر "غیب کا ہاتھ" ہے.
ریمن ڈیوس آتا ہے بندے مارتا ہے چلا جاتا ہے. وہ کیسے آیا کیسے گیا کوئی نہیں جانتا کیونکہ غیب کا ہاتھ ہے. اسامہ ایبٹ آباد سے ملتا ہے لیکن تحقیق نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، سب چپ رہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ غیب....
بلوچستان سے قومپرست نوجوان اٹھا لیئے جاتے ہیں اور ان کی گلی سڑی لاش اس کے گاؤں کے قریب سڑک پر پھینک دی جاتی ہے اور یہی کچھ سندھی قومپرستوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن کون تحقیق کرے کون تفتیش! کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ "غیب کا ہاتھ" ملوث ہے.

ہم اس ملک کے حالات کا ذمہ دار سیاستدانون کو سمجھتے ہیں مگر یقین جانیئے انہیں بھی "غیب کے ہاتھ" کی ماننی پڑتی ہے نہیں تو ان کا سیاسی کیریئر تو جاوے ہی جاوے، جان بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے.

اب کوئی پوچھے کہ یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے تو ملک سدھارنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس "دیسی" غیب کے ہاتھ پر ایک اور "پردیسی" غیب کا ہاتھ ہے. جس کے سامنے یہ دیسی غیب کا ہاتھ بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے کچھ کچھ عرصہ قبل پارلیامنٹ میں کھڑے ہوکر یہی کہا تھا:
*This is not a _desi_ conspiracy, this is an international conspiracy"*
(یہ دیسی سازش نہیں ہے یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مجھے راستے سے ہٹانے والا یہ "دیسی" غیب کا ہاتھ نہیں، یہ "خارجی" غیب کا ہاتھ ہے.
سو آپ بے فکر رہیں آپ کی سیاست پر "غیب کا ہاتھ" ہے. اور جسے غیب والا رکھے اسے کون چکھے.

sizkazmi110@gmail.com

غیب کا ہاتھ !

بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم

غیب کا ہاتھ !

(سیدہ عفت زھراء کاظمی)

 

مقامِ استعجاب ہے! مرزا غالب نے بھی کیا خوب کہا: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا... ایک وقت تھا کہ ایک بندہ اشارہ کرتا تھا پورا کراچی بند ہوجایا کرتا تھا صرف اس کی چھتر چھایا میں چلنے والا نائن زیرو ہی کھلا ہوتا،.مگریہ کیا آج حالات ایسے ہوگئے کہ پورا کراچی کھلا ہے اور صرف نائن زیرو بند ہے...

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ 'نصیر'
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی.

لیکن ہم عوام ....ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج یہ بے سر و سامان انسان کل بھی ایک سڑک چھاپ تھا... اسے کس نے اتنا طاقتور بنا دیا تھا؟ اللہ کو چھوڑیں کسی اور زاویے سے سوچیں...
کون ہے جس نے اسے اتنی طاقت دی کہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا یہ سڑک چھاپ اتنی ترقی کر گیا کہ جب لندن سے اپنی عجیب آواز میں تقریر کیا کرتا تھا تو پورے پاکستان کا میڈیا یرغمال ہوجاتا تھا... اس کی پوری تقریر براہ راست نشر ہوتی مجال کہ کوئی چینل اس دوران وقفہ بھی دے...

ایم کیو ایم کا اب کیا ہوگا؟ یہ مت سوچیں، اس کا کوئی نیا نام آجائے گا مارکیٹ میں! آپ بے فکر رہیں، یہ کام آپ کا نہیں ہے یہ کام کرنے والے آپ کو ایک نیا تحفہ دینے کا سوچ چکے ہوں گے، وہ ہماری خواری کی ہی تو تنخواہ لیتے ہیں... لیکن یہ ہیں کون؟؟؟
اتنے طاقتور کہ چار پہر میں سڑک چھاپ کو بادشاہ بنادیں
کون ہیں؟؟؟
چلیں بالفرض ان کا نام "غیب کا ہاتھ" رکھ لیتے ہیں. جی تو جناب یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے کہ جس سڑک چھاپ کے سر پر بھی رکھ دیا جائے تو وہ بھی پورے پاکستان کے میڈیا کو تین تین گھنٹے یرغمال بنا سکتا ہے... کسی کی مجال کہ چوں بھی کرے... وہ سڑک چھاپ اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ میڈیا پر آکر بولتا ہے کہ "سائیز تم بتاؤ بوری ہم بنائیں گے..." پھر بھی کوئی ادارہ اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ اس پر "غیب کا ہاتھ" تھا. لیکن جب یہ ہاتھ اٹھا تو اس کے ہاتھوں کا پلا بچہ کراچی میں اسے شرابی پاگل کہتا سنائی دیا،
اتنا کمزور ہوجاتا ہے بندہ جب سر سے "غیب کا ہاتھ" اٹھ جائے.

پاکستان میں یہ ہاتھ جس پر ہوتا ہے وہ کبھی لانڈھی میں سرعام بیٹھ کر شیعوں کو کافر کہتا ہے اور ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کہتا ہے ایسا کام کروں گا کہ سنی شیعہ سے ہاتھ بھی نہ ملائے گا. مگر اسے کوئی ادارہ کچھ نہیں کہہ سکتا. کیونکہ "غیب کا ہاتھ" اس کے سر پر ہے. اسلام آباد کے مدرسے کا ایک مُلا داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی کیونکہ اس مدرسے کی بنیاد ڈالنے والوں پر بھی شاید "غیب کا ہاتھ" تھا.
میڈیا بھی نہیں جانتا کہ "غیب کا ہاتھ" کیا ہے، جسں نے عمران خان کو اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے سامنے آکر "امپائر کی انگلی" کی بات کیا کرتا تھا.
کسی میڈیا چینل، کسی کالم نگار، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ اس انگلی کا مطلب کیا ہے!!!
کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس ملک میں جو بھی اچانک طاقتور ہو کر اس طرح کی باتیں کر کے سب کو ڈراتا ہے اس پر "غیب کا ہاتھ" ہوتا ہے اور غیب سے کون ٹکرائے.
ملک ریاض بھتہ نہیں دیتا کسی کی مجال کے اتنے بڑے بلڈر سے کوئی بھتہ مانگے کسی کو نہیں پتہ کہ اس میں ایسی کون سی طاقت ہے کہ ملک ریاض سے بھتہ نہیں لے سکتے، بھتہ خوروں سے پوچھیئے آپ کو بتائیں گے کہ اس پر "غیب کا ہاتھ" ہے.
ریمن ڈیوس آتا ہے بندے مارتا ہے چلا جاتا ہے. وہ کیسے آیا کیسے گیا کوئی نہیں جانتا کیونکہ غیب کا ہاتھ ہے. اسامہ ایبٹ آباد سے ملتا ہے لیکن تحقیق نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، سب چپ رہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ غیب....
بلوچستان سے قومپرست نوجوان اٹھا لیئے جاتے ہیں اور ان کی گلی سڑی لاش اس کے گاؤں کے قریب سڑک پر پھینک دی جاتی ہے اور یہی کچھ سندھی قومپرستوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن کون تحقیق کرے کون تفتیش! کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ "غیب کا ہاتھ" ملوث ہے.

ہم اس ملک کے حالات کا ذمہ دار سیاستدانون کو سمجھتے ہیں مگر یقین جانیئے انہیں بھی "غیب کے ہاتھ" کی ماننی پڑتی ہے نہیں تو ان کا سیاسی کیریئر تو جاوے ہی جاوے، جان بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے.

اب کوئی پوچھے کہ یہ "غیب کا ہاتھ" اتنا طاقتور ہے تو ملک سدھارنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس "دیسی" غیب کے ہاتھ پر ایک اور "پردیسی" غیب کا ہاتھ ہے. جس کے سامنے یہ دیسی غیب کا ہاتھ بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے کچھ کچھ عرصہ قبل پارلیامنٹ میں کھڑے ہوکر یہی کہا تھا:
*This is not a _desi_ conspiracy, this is an international conspiracy"*
(یہ دیسی سازش نہیں ہے یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مجھے راستے سے ہٹانے والا یہ "دیسی" غیب کا ہاتھ نہیں، یہ "خارجی" غیب کا ہاتھ ہے.
سو آپ بے فکر رہیں آپ کی سیاست پر "غیب کا ہاتھ" ہے. اور جسے غیب والا رکھے اسے کون چکھے.

sizkazmi110@gmail.com

گھوڑے کی نعل گھر کے دروازے پر لٹکانا!

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

گھوڑے کی نعل گھر کے دروازے پر لٹکانا!

مقرر: آیت اللہ جوادی آملی

مترجم: محمد زکی حیدری

اگلے زمانے میں لوگ اپنے گھروں، دکانوں وغیرہ کے دروازے پر (خیر و برکت کی نیت سے) گھوڑے کی نعل لگایا کرتے تھے. اور اس پر عقیدہ رکھتے تھے جب کہ اس کی حقیقت سے آگاہ نہ تھے.

اس منحوس رسم کی شروعات ہوتی ہے کربلا سے! امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد عمر بن سعد ملعون کے حکم پر اس کے کچھ گھوڑ سواروں نے اپنے گھوڑوں کو نئی نعلیں لگائیں اور ان گھوڑوں کو شہداء کے اجسام مطھر پر دوڑایا. جس کی وجہ سے شہداء کے سینہ اور پشت نرم ہوکر رہ گئے.
جب یہ گھوڑے کوفہ پہنچے تو کچھ لوگوں نے ان نعلوں کو چوما اور اسے متبرک جان کر اپنے گھروں کے دروازے پر لگا دیا.

مدتوں بعد *ابو ریحان البیرونی* جیسے بزرگوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا اور عوام کو آگاہ کیا مگر افسوس کے یہ رسم ہم سے پچھلے پچاس سال تک بھی نظر آتی رہی. جو چیز منحوس ترین چیز تھی اسے ہی متبرک سمجھا جاتا رہا.
لیکن مساجد، امام بارگاہ کے بننے اور ذمہ دار علماء کی کاوشوں سے اس منحوس رسم کا خاتمہ ہوا.

رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
جب امت اسلام میں بدعات نفوذ پذیر ہونے لگیں تو ایک عالم کو چاہیئے کہ علم کے ہتھیار سے اس کا مقابلہ کرے وگرنہ اللہ (ج) اور اس کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں.

«إذا ظهرت البدع فى أُمّتى، فليظهر العالم علمه و إلاّ فعليه لعنة الله و الملائكة و النّاس أجمعين»
(بحار الأنوار، ج54، ص234)


*+989199714873*

arezuyeaab.blogfa.com


(اس پورے پیغام کے متن میں تبدیلی غیر شرعی کام ہے)

جعفر "جذباتی" اور فاتحہ خوانی

جعفر "جذباتی" اور فاتحہ خوانی

از قلم: محمد زکی حیدری

 

سید جعفر حسین جعفری پہرسری! بھارت میں واقع سادات کے مشہور گاؤں پہر سر سے تعلق رکھتے ہیں. ان کے آبا و اجداد آزادی کے بعد پہرسر سے کراچی کے علائقے لیاقت آباد میں آکر قیام پذیر ہوئے لیکن لیاقت آباد میں شیعہ سنی فسادات سے تنگ آکر ان کے بزرگ انچولی آگئے. اس وقت جعفر میاں ابھی چھوٹے تھے. انچولی میں جعفر میاں نے امروہیوں سے جتنی مار کھائی اتنی شاید ہی کسی نے کھائی ہو. وجہ کیا تھی؟ "جذبات" جی ہاں! جعفر میاں جھوٹ نہیں سن سکتے تھے، وہاں سے کسی نے جھوٹ بولا یہاں سے جعفر میاں کی چھری جیسی زبان چلنا شروع! جھوٹ پر جعفر میاں کا پارہ بہت جلد چڑھ جایا کرتا. یہی وجہ تھی کہ محلے میں جعفر میاں کا نام جعفر "جذباتی" پڑ گیا.

اب چند دن قبل ہی کا واقعہ ہے کسی کے یہاں فوتگی ہوگئی، جعفر جذباتی کے دوست شبر نے اسے کہا فلاں دوست کے ابا کا انتقال ہو گیا ہے چلو فاتحہ کرکے آجاتے ہیں. محرم کے دن تھے جذباتی کو کام دھندا تو تھا نہیں سو بولا "سگرٹ پلا پہلے، پھر چلتے ہیں" نکڑ والی کیبن سے سگرٹ لی اور شبر کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئے. وہاں پہنچے تو مرحوم کا بیٹا پہلے اتنا نہیں رو رہا تھا لیکن جیسے ہی شبر جیسے دوست پر نظر پڑی تو اس کے غم نے جوش مارا، زوردار دھاڑ مار کر بولا "ارے شبر یار میں یتیم ہوگیا ابا چلے گئے، ابا ہمیں کس کے سہارے چھوڑ گئے... آہ!!!"
جذباتی چپ چاپ یہ منظر دیکھ رہا تھا اور کمرہ جس میں وہ بیٹھے تھے، کا نظارہ کر رہا تھا. دیوار پر مرحوم کی لگی تصویر کو دیکھ کر وہ کچھ سوچنے لگا. ایسا جیسے اس نے مرحوم کو کہیں دیکھا ہو.
جب اس لڑکے کا رونا کم ہوا تو شبر نے تفصیل پوچھی کہ مرحوم کا انتقال پرملال کیسے ہوا. بیٹے نے اپنے مرحوم باپ سے عشق کی داستان زور زور سے سنانا شروع کی تاکہ آس پاس بیٹھے لوگ سمجھیں کہ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار بیٹا تھا، اور اس نے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے مرحوم کا علاج کروایا مگر پھر بھی وہ چل بسے. "ارے شبر بھیا کیا بتاؤں آغا خان، جناح، لیاقت نیشنل ، کراچی تو کراچی اسلام آباد تک... کہاں کہاں نہ لے گیا ابا کو علاج کیلئے لیکن پھر بھی ابا ہم سے روٹھ گئے"
شبر نے اسے دلاسہ دیا. جذباتی جو اس وقت تک چپ تھا، کے ذھن میں سوال آیا اور اس نے مرحوم کے بیٹے کی طرف منہ کر کے کہا "وہ... بھیا آپ سے بات پوچھنی تھی"
"جی بولیں"
"یہ جعفر میرا دوست پڑوسی...."
شبر نے چاہا کہ جعفر جذباتی کا تعارف کروائے مگر جذباتی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مرحوم کے بیٹے سے پوچھا" بھیا لالو کھیت دس نمبر میں ستار کیبن والے کے پاس آپ کے والد صاحب بیٹھا کرتے تھے؟"
پہلے تو مرحوم کا بیٹا چونک گیا کہ ستار کیبن والے کو یہ اجنبی بندہ کیسے جانتا ہے. لیکن پھر استعجاب سے جواب دیا
"جی! وہ چچا عبدالستار ابا کے بچپن کے دوست ہیں، روز ابا کو میں ہی ان کے ڈراپ کر آتا تھا گاڑی میں..."
"ڈراپ؟؟؟ لیکن بھیا وہ تو ویگن سے اترتے تھے، اور شام میں چچا ستار کی اسکوٹر کے پیچھے بیٹھ کر ہر روز ان ہی کے ساتھ جایا کرتے تھے"
"وہ اصل میں..."
مرحوم کے بیٹے کے طوطے اڑ گئے. جذباتی نے بات جاری رکھی
"میں چچا ستار کی کیبن کے سامنے ویلڈنگ پر کام کرتا ہوں لالو کھیت دس نمبر میں، آپ کے ابا کی تصویر دیکھی تو یاد آیا... " اس کے بعد جذباتی نے شبر کی طرف رخ کیا اور کہنے لگا "اچھا شبر ایک دن پتہ ہے کیا ہوا، میں چچا ستار کی کیبن پر سگرٹ لینے گیا تو اپنا تو تجھے پتہ ہے کھاتہ تھا چچا کے پاس، سگرٹ لی اور چچا سے کہا میرے کھاتے میں لکھ دو ستارچچا. تب چچا کے برابر میں بیٹھے ہوئے اس بوڑھے نے گردن جھکا کر ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کھاتہ....!"
"جعفر تم کیا کہنا چاہ رہے ہو" شبر نے جعفر کی بات کاٹتے ہوئے کہا
"ابے سن تو لو!"
جذباتی نے پھر بولنا شروع کیا " اس بوڑھے میاں نے گردن جھکا کر آہ بھری اور بولا کھاتہ!!! میں سمجھا نہیں لیکن چچا نے اسے جو کہا اس سے اندازہ ہوا کہ اصل کہانی کیا ہے. چچا ستار اسے کہہ رہے تھے تمہارا میں نے بہت کھایا ہے یاد ہے میرے یہاں کھانے کے واندے تھے اور تم لا لا کر مجھے کھلاتے، اس وقت میں بیروزگار تھا تیری نوکری تھی آج تیرے ناصالح بیٹے تجھے پیسہ نہیں دیتے تو کیا ہوا، تیرا یہ یار جب تک زندہ ہے، تو اس کی ہر چیز اپنی سمجھ کیبن کی پان بیڑی کو ادھار کہہ کر مجھے شرمندہ مت کر اور پتہ ہے...."
"بس کر جعفر رہنے دے لوگ سن رہے..."
شبر نے جذباتی کے پیر پر چپ کے سے دبایا تاکہ وہ چپ ہو. مگر جذباتی جب جذبات میں آتا تو مجال کوئی اسے چپ کرا پاتا سو اس نے بات جاری رکھی
"یہ بوڑھے میاں دوپہر سے شام تک چچا ستار کی کیبن پر بیٹھتے، چچا ٹفن میں جو کھانا لاتے یہ دونوں اکثر وہی کھانہ کھاتے. ایک دن چچا کی کیبن پر رش تھا تو انہوں نے میرے ہاتھ میں کچھ پیسے تھمائے اور دوائیوں کی پرچی بھی، بولے جا کر پاس والے اسٹور سے دوائی لے آ... انگریزی اتنی نہیں آتی مجھے مگر اس پر قادر علی نام پڑھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ چچا ستار کی دوائیاں نہیں ہیں... اب پتہ چلا شبر کہ وہ بوڑھے میاں تمہارے اس دوست کے والد صاحب تھے. یقین نہیں آتا جس بیٹے کا اتنا بڑا بنگلہ ہو، گاڑی ہو، اس کے والد کسی کیبن سے پان بیڑی ادھار پر لیتے اور دوائیاں ... "
"شبر یہ کون جاہل ہے ... " مرحوم کے بیٹے نے حاضرین کے سامنے اپنی عزت بچانے کی غرض سے شور مچانا شروع کردیا تاکہ خود کو سچا اور جذباتی کو جھوٹا ثابت کرے. لیکن جذباتی نے بھی شور کا جواب شور سے دیا "ابے جاہل تم جیسے پڑھے لکھے ہوتے ہیں، ہم ان پڑھ تم سے اچھے ہیں، میرا باپ زندہ ہے ویلڈنگ کر کر کے اندھا ہوگیا ہے لیکن کسی کا محتاج نہیں پان بیڑی کیلئے، اس کا ویلڈر بیٹا زندہ ہے اسے کھلانے کیلئے. اپنے پاس ڈگری نہیں ہے اور ہاں اپن لعنت بھیجتے ہیں ایسی ڈگری اور نوکری پر جو باپ کو کسی اور کا محتاج کر دے... " مرحوم کے بیٹے نے جذباتی کو گریبان سے پکڑ لیا "ابا کو بھکاری کہتا ہے تیری ماں کی ..."
مرحوم کے بیٹے نے جب جذباتی کا گریبان پکڑا تو جذباتی جیسے ویلڈر کا سخت ہاتھ اس نرم چمڑی والے افسر کی ناک پر پڑا اور اسے خون آنا شروع ہوگیا یہ دیکھ کر مرحوم کے بھتیجے اور صاحب کے محافظ مل کر جذباتی کی دھلائی کرنے لگے. شبر اور دیگر حاضرین نے کھینچ تان کر جذباتی کو بمشکل کمرے سے باہر نکالا اور دروازہ بند کردیا. شبر جذباتی کو دھکے وکے اور گالیاں دیتا ہوا بائیک تک لایا اور بائیک چالو کی. جذباتی نے سگرٹ نکالنے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا مگر پتہ چلا ہاتھا پائی میں سگرٹ کا پیکٹ وہیں گر گیا تھا، سو وہ اپنی پھٹی قمیض کے دامن سے اپنے منہ کا پسینہ اور زخموں کو صاف کرتا ہوا شبر کے پیچھے بائیک پر بیٹھ گیا. اور شبر بڑبڑاتا ہوا بائیک چلانے لگا.

www.arezuyeaab.blogfa.com

A man bites a dog!

 

A man bites a dog!

By: Muhammad Zakki Haidery

'News' is plural of 'new', so according to some intellectuals news is nothing but something new! All they want to state is that "when a dog bites a man, its not a news, but when a man bites a dog, it realy is a news." Keeping this meaning of news in mind our media, in particular, and western media in general has developed into themselves a neck of creating news by themselves in their own words, they seemed to be in search of finding a new news some thing like a news of a man biting a dog, and when they fail to find one -which occures in most of the cases- they try to make a man bite a dog!

This fact proves to be bright like a star when one comes across an article published in The Guardian. It, although, may not be a document of surprise for Pakistani people, since they are used to this nature of media, but what was more striking about this news of Guardin was its exact resemblance to what our media writes about the only Islamic government in the world i.e Islamic government of Iran.

The Guardian in one of its articles dated 31/07/2011 asserted that the Sunni Muslims in Iran were not allowed to offer their Eid Prayers in Tehran. Before digging deep into the question wether this news is based on reality or not, one should first have glance at religious freedom of Sunnis in Iran.

Islamic republic of Iran is predominantely a Shia country where almost 98% population belongs to the Shia school of Islam but segements of Sunni Muslims are found in southren part of the contry bordering Pakistan; province of Kurdistan, west Azerbaijan; Golistan and northern & southern parts of Khorasan. Starting with Sistan and Balochistan province, one can find Sunni mosques and even _madarisas_ in this area, an strange fact about this southren part is that the inhabitants are fanatic Sunnis called Deobandi in contrast to conventional Sunnis like Brelvis, who some how resemble to Shia Islam. *Sunnis not only have mosques in this province but have religious schools called _madarisas_ as well, this can be proved from the fact that Sunni Scholars from Pakistan have not only payed visits to these _mardarisas_ but have frequently shared religious information as well.*

In addition to this, moving on to the northern part the cities like of Gorgan, pockets of Sunni muslims are found *and what is special about this city is that it posseses a campus of Iran's largest Islamic University namely Al-Mustafa International University, this campus of Al-Mustafa Univeristy is especially for Sunni Muslim*, *where most of the students belong to Sunni school of thought.* This campus was brought into existance in order to facilitate the Sunni students with pyschological comfort in acquiring knowlege because other campuses of this University like Qom, Mashhad etc have majority of Shia students so the Sunni students would not be at ease in those campuses.

As far as Western Kurdish province named Kurdistan is concerned it is called the largest Sunni-populated segment of Iran, and like all other Sunni areas this area too enjoys absolute religious, social and political freedom. As Gorgan had a especialty in having a Sunni campus, this area too is unique in terms of the fact that the most of the street names are attribute to Sunni religious figures, *and it takes one to suprises when he passes by a street named after Hazrat Umar (r.a) the second caliph of Sunni school of Islam*
Moreover *Sunni Muslims are free to enrole their electorate, there is no limit for Sunni candidates in contrast to minorities who have limited reserved seats in Irani parliament.* This,too, is a testimony to the fact that Sunnis of Iran area enjoy political and religious freedom.

In a nutshell a few hours browsing on internet would reveal that the Sunni Muslims of Iran enjoy freedom in all spheres of there life, if it was not so they would have been up in arms, but fortunately for Iran and unfortunately for Pakistani and Western media the picture is totaly diffrent, we see no movment against Irani government on part of the Sunni Muslims.
It would be illogical to accept that a country which allows Sunnis to bulid mosques, madarisas; establishes a seperate campus of the country's largest university, would deprive them of Eid prayers in its capital. One with least of wit and wisdom would reject such allegation on the grounds that they do not coform to reality. The fact of the matter is that Tehran, like most of the cities of Iran, is packed with Shia population and there are hardly any Sunni muslims, so there are no Sunni mosques. But newspapers like Guardian seemed to be less satisfied with news like dog bitting a man so they want to decorate there paper with news of man bitting a dog!


_mzakki@yahoo.com_

بیداری کی ضرورت عوام کو ہے یا...؟

 

 بیداری کی ضرورت عوام کو ہے یا...؟

تحریر: محمد زکی حیدری

 

یا امام زمانہ (عج) آپ پر سلام ہو. میرا نام "پاکستانی شیعہ عوام" ہے. آپ کو میں اتنا نہیں جانتی لیکن شروع میں خطیبوں اور ذاکریں سے آپ کا نام سنا اور یہ بھی سنا کہ آپ غائب ہیں لیکن سنتے سب کچھ ہیں. لیکن بھرحال آپ سے اتنی کوئی خاص آشنائی نہ تھی لیکن جب آپ سنتے ہیں تو میں نے سوچا آپ کو اپنی کہانی سناؤں. میں مجلس تو ذاکر و خطیب کی سنتی تھی لیکن جب ۱۹۸۰ع میں مجھے زکوات آرڈیننس کے خلاف ایک شیعہ بزرگ مفتی نے اپنے حق کیلئے اسلام آباد جا کر دھرنا لگانے کا حکم دیا تو میں بڑے جوش سے گئی اور ایک آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا.

اس بزرگ مفتی کے انتقال کے بعد ایک سید عارف نامی عالم دین آئے، انہوں نے بھی مجھے جہاں بلایا میں اپنے جیب سے کرایہ کر کے ان کے جلسوں میں گئی، لاہور کا مینار پاکستان والے جلسے میں ہر طرف میں ہی نظر آرہی تھی. مجھے اس قائد سے بڑی امید تھی مگر اسے دشمن نے راستے سے ہٹا دیا، میں رونے لگی لیکن مجھے بتایا گیا کہ نہیں! رو مت اس سید کی جگہ ایک اور سید آیا ہے. میرا چہرا خوشی سے پھر کھل کھلا اٹھا.
میں خوش تھی اور عہد کر لیا کہ اُس شہید قائد کے جانشین ہونے کے ناطے یہ سید بھی مجھے جہاں بلائیں گے میں جاؤں گی اور میں نے اپنا فرض نبھایا میں نے اس قائد کے استقبال کیئے، بسوں میں لٹکتی رہی، نوکری سے چھٹی لیکر اپنے پیسوں سے موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈلوا کر ان کے جلسوں میں جاتی رہی لیکن پھر انہوں نے ایک ایسا کام کیا جو انہیں زیب نہیں دیتا تھا لیکن پھر بھی میں ان کی بات پر لبیک کہتی رہی. کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ قائد بھی میرا اسی طرح خیال رکھیں گے جس طرح شہید قائد عارف (رض) نے رکھا لیکن ایسا نہ ہوا. میرے اور ان کے درمیان دوری ہونے لگی. میں چپ ہوگئی.

اتنے میں اچانک ایک اور عمامے والے نے اپنی تنظیم کا اعلان کردیا، میں جانتی تھی کہ اتحاد ٹوٹا ہے، دو دو پلیٹ فارم میرے حق میں بھتر نہیں ہیں، لیکن میں نے عمامے کی لاج رکھی کیونکہ دعوت دینے والا شیعہ عالم تھا سو میں ان عالم کے جلسے میں بھی دل سے گئی. پھر اس عالم نے دھرنے کا کہا تو میں اپنے معصوم بچوں سمیت سخت سردی میں سڑکوں پر آئی اور پورا پاکستان جام کردیا.
مولا امام زمانہ (عج) اس کے بعد ان دو تنظیموں کی باھمی چپکلش شروع ہوگئی میں عمامے کی بھت عزت کرتی تھی لیکن ۲۰۱۳ کے الیکشن میں دو عمامے والوں کی تنظیمیں ایک دوسرے کے سامنے آگئیں میں بوکھلا گئی کہ کس طرف جاؤں. سچ یہ ہے کہ ان کی باھمی چپکلش دیکھ کر میرا دل ان دونوں سے بھر گیا.

اس کے بعد ایک دوسرے سید آئے ان کی تقریریں بہت اچھی تھی اور وہ میرے لیئے ایک نیا پروگرام لائے. مجھے منبر پاک کر کے دینے میں ان کی بہت خدمات ہیں اور ابھی بھی جاری ہیں لیکن مجھے ان سے شکایت ہے! وہ یہ کہ اکثر مجھے ڈھکے چھپے الفاظ میں کوفیوں سے تشبیہ دیتے ہیں، اور طعنہ دیتے ہیں کہ میں بے تربیت ہوں، بیدار بھی نہیں ہوں.

مولا آپ مجھے بتائیں میں نے کس عالم کا ساتھ نہ دیا مفتی جعفر حسین (رض) سے لیکر شہید عارف (رض)، موجودہ قائد سے لیکر نئی بننے والی تنظیم تک میں نے ساتھ دیا، ان علماء نے جب جب مجھے بلایا میں نے لبیک کہا. مجھے کافر کہا گیا، مجھے سڑکوں پر سونا پڑا، میں دھرنوں میں بیٹھی، لاٹھی چارج برداشت کیئے، اب میں پچھلے کئی سالوں سے بموں سے اڑائی جا رہی ہوں، چن چن کر ماری جا رہی ہوں. یہ سید میری خیر خبر تو نہیں لیتے الٹا مدرسے میں بیٹھ کر مجھے بے تربیت، سوئی ہوئی، غائب کہتے ہیں.
مولا (عج) میں آپ سے پوچھتی ہوں میں مرتی رہی، اور مر رہی ہوں، انہوں نے کبھی اپنی تقریر میں میرے مرنے یا مجھے ٹارگٹ کلنگ سے بچانے کی بات نہیں کی، کبھی چل کر میرے سر پر دلاسے کا ہاتھ رکھنے نہیں آئے، میں مر رہی ہوں یہ فلسطین کیلئے ریلی نکالتے ہیں میرے لیئے نہیں، میں مر رہی ہوں اور اس حال میں ان کا عمامے والا ایک بھائی بھوک ہڑتال پر بیٹھتا ہے اور یہ دو سید ایرانی علماء کی حمایت کے باوجود ان کی حمایت نہیں کرتے. *کیا چیز انہیں ھمدردانہ جملے کہنے سے روکتی ہے؟ تعصب یا انا پرستی؟ کیا ان دونوں سیدوں کا اخلاقی فرض نہ تھا کہ وہ اپنے برادر عالم کی کم از کم لفظی حمایت تو کرتے اگر انہوں نے اس اخلاقی قدر کی نفی کی ہے تو تربیت کی ضروت مجھے ہے یا ان کو؟

مولا اتحاد اہم ہے میں جانتی ہوں جب تک یہ علماء متحد نہیں ہوں گے تب تک میرا تحفظ ممکن نہیں.
*مولا (عج) مجھے یہ بتائیں یہ تینوں عمامے والے علماء کرام ایک دوسرے کو فون کر کے ایک جگہ مل بیٹھ کر میرے تحفظ کا حل کیوں نہیں سوچتے؟؟؟*
*انہیں مل بیٹھنے سے کیا چیز روکتی ہے؟*
*کیا یہاں بھی میری تربیت میں کمی ہے؟؟؟*
*کیا یہاں بھی میں بیدار نہیں ہوں؟؟؟*
*کیا یہاں بھی امت یعنی میں غائب ہوں*
مولا (عج) میں تو ھر وقت میدان میں ہوں دشمن کا نشانہ میں بنی ہوئی ہوں اور شکایت بھی مجھ سے کہ میں بیدار نہیں ہوں.

آخر میں عرض مولا (عج) *اگر مجھے بیداری کی ضرورت ہے، یا میں نے اپنی تین الگ الگ مسجدیں بنا رکھی ہیں تو آپ مجھے سرزنش کریں اگر نہیں تو ان سے کہیں متحد ہوں،* *اگر ان بزرگوں میں سے ایک بھی دوسرے سے مل بیٹھنے کو تیار نہیں تو شعور کی ضرورت کسے ہے مجھے یا... بصیرت کا فقدان مجھ میں ہے یا .... بیداری کی ضرورت کس کو ہے مجھے یا...؟

عورت، عاشق اور مُلا

 

عورت، عاشق اور مُلا

تحریر: محمد زکی حیدری

 

گاؤں کی عورتیں اور مرد پہاڑی کے قریب اپنی سرسبز فصلوں میں کام کر رہے تھے کہ دور سے بہار کی تیز بہار ہوا کو چیرتا ہوا ایک نوجوان ان کی طرف دوڑتا آتا دکھائی دیا اور گاؤں والوں کو آکر بتایا فاریہ سِمنانی کا وہ پاگل عاشق جو پہاڑی پر بیٹھ کر فاریہ کی مدح میں حافظ شیرازی (رح) کے اشعار پڑھا کرتا تھا، نے آج سِمنان- کہ جہاں فاریہ سِمنانی نے اپنا بچپنا گذارا تھا، جانے کا فیصلہ کیا ہے. یہ سن کر سب لوگ خداحافظی کیلئے گاؤں کے دروازے پر جمع ہوئے اور انہوں نے عاشق سے التجا کی کہ نہ جائے مگر وہ نہ مانا، اسے فاریہ کے بچپن سے مربوط ہر وہ جگہ دیکھنی تھی جہاں فاریہ کے قدموں کے نشان پڑے تھے. آخر گاؤں والوں نے اس سے کہا: اے عاشق ہم سب سنی مسلک کے ہیں لیکن ہم نے تمہیں ہمیشہ ایک نیک دل انسان پایا، بیشک تم شیعہ ہو مگر ہمیں کچھ اچھی باتیں اپنی یادگار کہ طور پر دے جاؤ. اس عاشق نے نیم کے ھرے بھرے درخت کے تنے پر ٹیک لگائی، تھوڑی دیر چپ رہا اور کہا " اللہ (ج) نے کسی کو سنی یا شیعہ نہیں بنایا ہم سب مسلمان پیدا ہوئے تھے. تم میرے اپنے ہو... میری گمشدہ فاریہ سمنانی تمہیں ملے تو اسے کہنا میں سِمنان میں ہوں..." عاشق کی یہ بات سن کر اس مجمعے سے ایک باریش مُلا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:" اس عورت کے عشق میں گرفتار مجنوں سے عقل و خرد کی باتوں کی کیسی امید، عورت کے عاشق کی عقل بھی عورت جیسی..."

یہ سن کر عاشق کے چہرے کا رنگ لال ہوگیا، یہ طیور گاؤں والوں نے پہلی بار مشاہدہ کیئے تھے سو سب اس ھیبت کی وجہ سے چپ ہوگئے، جب خاموشی چھاگئی تو عاشق نے بولنا شروع کیا.
"کاش تمہاری کانوں نے اللہ (ج) کے کلام کو سنا ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ *اللہ (ج) کے پاس جسموں کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یہ خاکی بدن کہ جس میں مرد و عورت الگ الگ ہیں اس بدن کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت ہے تو روح کی ہے اور روح میں عورت مرد کا کوئی فرق نہیں*، روح جیسی تمہارے اندر پھونکی گئی اسی طرح عورت کے اندر، "الروح من امر ربی" کا مصداق فقط تمہارا روح نہیں عورت کا روح بھی ہے! فرق جسمانیت کا ہے تم جسم دیکھتے ہو اس لیئے عورت تمہیں کمزور و ناتواں و نازک نظر آتی ہے مگر اللہ (ج) روح دیکھتا ہے، سارا کام روح کا ہے جسم اس کا ایک غلام ہے اگر اللہ (ج) نے عورت کو مرد سے کم درجے کا بنانا ہوتا تو جسم کی مانند روح میں بھی فرق رکھتا مگر نہیں روح کے لحاظ سے مرد و عورت کے یکساں ہیں."

ملا کے خلیفے نے آواز دی "اے جاہل مجنوں! کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اللہ (ج) فرماتا ہے الرجال قوامون علی النساء، مرد عورت پر حاکم ہے."
عاشق نے کہا:"اگر بقول تمہارے قرآن میں عادل اللہ (ج) مرد کو جنس کی بنیاد پر عورت سے افضل کہتا ہے تو کیا تم مریم و حاجرہ و خدیجہ و فاطمہ سے افضل ہو؟ ھرگز نہیں! تم نے اس آیت میں مرد کی معاشی سرپرستی کے مفہوم کو مرد کی عورت پر فوقیت و فضیلت سمجھ لیا یہ تمہاری مردانہ تفسیر ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں."

پھر اس عاشق نے اپنی جیب سے ایک پھول نکالا سامنے کھڑی ایک پانچ سالا بچی کے بالوں میں وہ پھول لگا کر کہا:" گاؤں والو! *عورت کی زندگی مرد پر احسان کے سوا کچھ نہیں اور مرد کی زندگی عورت سے احسان فراموشی کے سوا کچھ نہیں...*"
یہ کہہ کر عاشق چپ ہو گیا.

ایک جوان لڑکی نے آواز دی "اے عاشق! ہمیں اس کی تفصیل بتاؤ کیونکہ ہم اشاروں میں باتیں سمجھنے پر قادر نہیں."
عاشق نے ھرے بھرے کھیتوں سے آنے والی باد بہار کی طرف چہرا پھیر دیا، ٹھنڈی سانس لی اور کہا " احسان یعنی حق سے زیادہ عطا کرنا، مرد کا عورت پر حق نہیں کہ وہ اس کے لیئے گھر بار کا کام کرے اور اس کے بچے پالے لیکن پھر بھی عورت یہ کام کرتی ہےیہ اس کا احسان ہے اور مرد اس احسان کو عورت کا فریضہ سمجھ کر اس کی احسان فراموشی کرتا ہے، عورت مریم (س) کی صورت میں تکالیف برداشت کر کے عیسی (ع) کو پالتی ہے کہ مرد ہدایت پائیں، اور اسی قبیلے کے مرد اس احسان کے بدلے اس پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں، عورت راتوں کو جاگ کر مرد کے نطفے کو عظیم انسان بناتی ہے اور مرد سکون بھری نیند سوتے ہیں اور خواب میں جنت کی حوریں دیکھتے ہیں، عورت درد حمل کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے اور مرد کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بیٹی نہ پیدا ہوجائے، عورت بچے کے ولادت کی ساری تکالیف برداشت کرتی ہے مرد اس کے ساتھ اپنا نام لگا کر اسے خود سے منسوب کردیتا ہے..."

عاشق کی بات جاری ہی تھی کہ گاؤں کے مُلاں نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا:" تم بڑے مفسر ہو مجنوں! ذرا بتاؤ مرد کو قرآن نے کیوں اجازت دی ہے کہ وہ عورت کو مارے؟ *اتنا مارے کہ ہڈی نہ ٹوٹے لیکن بیشک مارے،* کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی... فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ وَ اضْرِبُوهُن...َّ؟؟؟"
اس بار عاشق نے اس کی طرف نگاہ نہ کی اور ٹکٹکی باندہ کر انہیں ہرے بھرے کھیتوں کی جانب دیکھتا رہا پھر اپنا منہ گاؤں والوں کی طرف پھیر کر کہا:"میرے عزیزو! کیا میں تم میں سے بوڑھی ترین عورت کو ایک غلطی کرنے پر اپنے رومال یا دانت صاف کرنے والے مسواک سے ماروں تو کیا تم اسے مارنا کہوگے یا دکھاوا؟"
گاؤں والے بولے: "اسے بھلا کوئی کیوں مارنا کہے گا."
عاشق نے کہا " تو بس! قرآن نے عورت کی غلطیوں پر مرد کو حکم دیا کہ وہ اسے نصیحت کرے، عورت نہ مانے تو بستر جدا کرے اور پھر بھی نہ مانے تو اپنا رومال لپیٹ کر یا مسواک سے اس طرح مارے کہ اس کے جسم پر نشان تک نہ پڑے، کیا اسے سزا کہو گے یا اظہار ناراضگی، کیا اس بات سے تمہیں عورت سے نفرت کی بو آتی کے یا ملا کی بات سے؟"

ایک عورت جس کی گود میں بچہ تھا بولی " اے عاشق! اللہ (ج) نے جنت میں مردوں کو حوریں دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن عورت کو کچھ نہیں کیا یہ عدل ہے؟" یہ بات سن کر عاشق مسکرایا اور مُلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"بہتر ہوگا اس کا جواب یہ مولانا دیں" ملا مزید پریشان ہوگیا اور چپ ہوگیا. پھر اس عورت نے یہی سوال عاشق سے پوچھا، عاشق نے کہا:" عربی میں حورا خوبصورت سیاہ آنکھوں والی عورت کو کہا جاتا ہے اور احور بڑی آنکھوں والے خوبصورت مرد کو، قرآن میں لفظ حور جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے، یہ لفظ حورا کا بھی جمع ہے اور اھور کا بھی... سو اللہ (ج) نے نے ایک لفظ "حور" میں ایسی کرامت رکھ دی کہ اس کی تلاوت عورت کرے تو اسے احور ملنے کی بشارت کے طورپر اور مرد پڑھے تو اسے جنت میں حوراء کی بشارت کے طور پر "

پھر عاشق اٹھا اور کہا:" لوگو! عورت سے محبت کرو، اس کی قدر کرو، وہ تم سے کچھ نہیں چاہتی سوائے احترام و محبت کے، رسول (ص) کو پسند ہے عورت، علی (ع) فاطمہ (س) کے ساتھ گھر کام کرتے تھے... تم میں اور ملا میں فرق ہونا چاہیئے اس نے اسلام کو عورت کی دشمنی کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے، اس لیئے اسے پورا دین عورت کے خلاف نظر اتا ہے مگر میں نے فاریہ سِمنانی کے عشق کا چشمہ لگا کر اس دین کو دیکھا ہے، اب یہ تم ہی سوچو مجھے عورت کے عشق نے ھدایت دی کے یا اس مولوی کو عورت کی نفرت نے؟"

یہ کہہ کر اس نے اپنی گٹھڑی اٹھائی اور جانے لگا، سب گاؤں والے تھوڑے سے فاصلے تک اس کے پیچھے پیچھے چلے، پھر سب نم آنکھوں سے اسے دیکھتے رہے اور وہ کچھ دیر بعد پھاڑوں کی اوٹ میں ان ھرے بھرے کھیتوں میں گم ہوگیا.

مجھے سب پتہ ہے کون کیا ہے !

مجھے سب پتہ ہے کون کیا ہے !

 تحریر: محمد زکی حیدری

 

ڈائینامائیٹ بنانے والے الفرڈ نوبل کے شاید وھم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پھاڑ توڑ کر راستے بنانے کیلئے اس کی انسان دوست ایجاد ایک دن جنگوں میں انسان کشی میں استعمال کی بنیاد بنے گی. اسلام میں بھی اسی طرح بہت ساری مثالیں ہیں جن کا وجود خیرسگالی پر مبنی ہے لیکن انسان نے اسے اپنے فائدے کیلئے غلط استعمال کیا. جیسے صلح حدیبیہ کو ظالم سے صلح کیلئے، تقیہ کو بزدلی کی ڈھال کے طور پر وغیرہ...

تاویل و تعلیل و توجیہہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کے ذھن میں موجود غلط فہمیاں دور کرنے کی نیت سے بنایا گیا لیکن آج کل اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے زور شور سے استعمال میں ہے. ہماری شیعہ قوم کے لیڈران تو لیڈران عوام بھی تاویل کے فن کی ماہر ہے. اگر کہو کہ میاں مر رہے ہو، قتل ہو رہے ہو، بموں سے اڑائے جا رہے ہو اس کا حل کیا ہے؟ بولے بھائی ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں جب لیڈر متحد نہ ہوں، ہر کسی کو اپنی پڑی ہے ہم تو تیار ہیں لیکن یہ رھبر ہیں کہ ظلم کے خلاف اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے، اب بھلا ہم بغیر رھبر و رھنماء کے کیا کرسکتے ہیں! تاویل!!! کچھ دن بعد پتہ چلا ایک بزرگ نے سوچا ٹارگٹ کلنگ کا حل ہے سنی برادران سے اتحاد، سو وہ مرتا کیا نہ کرتا کہ تحت سنیوں اور دیوبندیوں سے اتحاد کی کوشش میں جٹ گئے باقیوں کو دعوت دی آؤ ظلم کے اس حل میں میرا ساتھ دو، بولے ھہہ یہ کیا بات ہوئی دشمن کی گود میں جا کر بیٹھ گئے یہ ذلالت ہے ہم عزت دار لوگ ہیں. تاویل!!!

ایک بزرگ بولے اچھا بھلا ایسا کرو کہ دیکھو جو تمہارے اندر شیعیت کے لبادے میں چھپے تمہارے دشمن ہیں جو منبر پر جاکر ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ تمہارے قتل کا باعث بنتی ہیں چلو میری بات مانو ان کو مجالس و جشن میں بلانا چھوڑ دو، میں مفت میں اپنے طلاب تمہیں جشن و مجالس کیلئے فراھم کردوں گا جو پیسے لے کر جھوٹ بتانے کی بجائے پیسے لیئے بغیر سچ بتائیں گے. بولے لو جی! یہاں جو دو لفظ ایران سے پڑھ کر آجاتا ہے اسے بس عزاداری ہی ہر برائی کا سبب لگتی ہے بھائی فلاں تو عزاداری کے خلاف ہے ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکتے! تاویل!!!

اچھا بھائی ایک کام کرو احتجاج کرو، چیخو چلاؤ، گھر سے باہر نکلو دیکھو پچھلی بار بھی مل کر نکلے تھے تو کچھ ہوا تھا اس بار بھی بھلا نکلو احتجاج تو کرو، اور نہیں تو ظلم کے خلاف آواز تو اٹھاؤ ، میں بھوک ہڑتال میں بیٹھ رھا ہوں سب اگر میرا ساتھ دوگے تو ہم اس بار چپ رھنے والوں کی فہرست سے تو نکل جائیں گے! بولے چھوڑو یار یہ کل قادری کے ساتھ، عمران خان کے ساتھ تھا یہ اپنی لیڈری چمکانا چاہتا ہے اس کے پاس کیا حل ہوگا ہمارے مسائل کا! تاویل !!!

 

صورتحال یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر خاموش رہتا ہے تو اس کی اتنی برائیاں منظر عام پر نہیں آتیں جتنی اس وقت آتی ہیں جب وہ کچھ فعالیت دکھاتا ہے! جب بھی فعالیت کوئی دکھاتا ہے ہمارے لیڈران اور قوم تاویلات و توجیہات و تعلیلات کے توپوں میں دشنام کا بارود بھر کر چلانا شروع کر دیتی ہے! ٹارگٹ کلنگ کے موضوع پر اتنی کبھی تحریریں نہیں آئیں جتنی اب آ رہی ہیں وہ بھی اس لیئے نہیں کہ حل دیں بلکہ اس لیئے کہ جو لیڈر ظلم کے خلاف نکلا ہے اسے غلط ثابت کیا جائے! عجب ہے! چلو فرض کرو ایک بندہ یہودی ہے، مسلمان نہیں، اسے حسین (ع) کا بھی پتہ نہیں، اسے کچھ نہیں پتہ صرف اس لیئے سڑک پر احتجاج کیلئے بیٹھا ہے کہ کہتا ہے شیعوں پر ظلم بند کرو، تو کیا آپ کا اور میرا فرض نہیں بنتا اس کا ساتھ دیں؟ کیا اس وقت یہ تاویلات جائز ہوں گی کہ میاں یہ تو یہودی ہے، اس میں تو فلاں فلاں نقائص ہیں!!! اگر یہودی ظالم کے خلاف نکلے تو ہم اس کا سب کچھ بھول کر اس کے نعرے کا ساتھ دیتے ہیں تو اگر بلفرض ایک شیعہ جو نقائص سے بھرا ہے (بلفرض) تو کیا اس کے سارے نقائص بھول کر ہمیں اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیئے؟؟؟ میں انہیں مجاھد عالم دین مانتا ہوں لیکن بقول آپ کے بلفرض بلفرض وہ کرپٹ ہیں، رشوت لیتے ہیں، انھوں نے محلات بنا لیئے لاشوں کی سیاست سے... جو برا فرض کرنا ہے کر لو. اگر آپ کی نظر میں وہ کائنات کے سب سے بڑے گنھگار ہیں تو بھی کیا آپ ظلم کے خلاف ان کا ساتھ نہ دینے کی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟؟؟

*امام علی (ع) نے مالک اشتر سے فرمایا مالک! رات میں کسی کو گناہ کرتے دیکھو تو صبح اسے گنھگار کی حیثیت سے مت دیکھنا شاید رات سونے سے قبل اس نے توبہ کرلی ہو* اب بتائیے کوئی بہانہ رہ جاتا ہے؟

اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں صرف تاویلیں پیش کرنی آتی ہیں تاکہ گھر پر بیٹھے رہیں، ہم اپنی ذمہ داری سے روگردانی کا سہرا کسی اور کے گلے میں ڈال دینے کی کوشش میں رہتے ہیں ہم اور کہتے ہیں سارا قصور ان کا. اللہ (ج) نہ کرے کل ہمارے جوان بھائی کی لاش ہماری چوکھٹ پرآئے، اور اس کے خون کو دیکھ کر ہی ہمیں اندازہ ہو کہ جو ایک ہفتے سے بزرگ سڑک پر بیٹھا ہے وہ کتنا اچھا انسان ہے، لیکن اللہ (جَ) نہ کرے ایسا ہو، اللہ (ج) کرے اس سے قبل کے اپنوں کے خون کے چھینٹے ہمارے ضمیر کو بیدار کریں عقل و فہم ہمیں بیدار کرے اور ہم تمام خود ساختہ تاویلات و توجیہات پر لات مار کر مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے گھر سے نکلیں. وہ بزرگوار کئی دن سے بھوکے ہیں، تن و تنہا ہیں، ان کے لبوں پر ہمارے شہداء کی بات ہے... آخری عرض! اگر ہم توجیہات و تاویلات رکھتے ہیں تو اتنے مضبوط رکھیں کہ کل محشر کے دن ہمارا زھرا (س) اور شہداء پاکستان سے سامنا ہو تو ہم اپنی یہی توجیہات ان کے سامنے پیش کر پائیں اور وہ کہیں ٹھیک ہے تمہاری خاموشی واقعی جائز تھی! *_www.fb.com/arezuyeaab_*

بیمار ماں کے بیٹے!

تحریر: محمد زکی حیدری

ایک گاؤں میں ایک بیوہ بوڑھیا رہا کرتی تھی اس کے تین بیٹے تھے، تینوں ماں کی خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں رہا کرتے تھے، لیکن دنیاوی چپکلشوں کی زد میں آکر ان کے درمیاں چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے لہذا انہوں نے الگ الگ گھر بنا لیئے اور ان میں سے ہر ایک نے ماں کو یہ تسلی دے کر چھوڑ دیا کہ میں تیرا خادم ہوں لیکن فلاں بھائی کی وجہ سے میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا.
ایک دن ماں بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے کہا آپریشن ہوگا تین لاکھ کا خرچہ ہے. اب ہر ایک بھائی غربت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ صرف ایک لاکھ تک انتظام کر سکتا تھا ہر ایک نے ماں سے کہا تم فلاں بھائی سے ایک ٹکہ بھی نہ لینا تم میری ماں ہو، تمہاری خدمت کرنا صرف میرا فرض ہے، تم بے فکر رہو میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے باقی دو لاکھ دوستوں سے لے لوں گا. دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں میں سے باری باری ماں کی خدمت میں پیش ہوکر یہی کہا کہ میرے پاس ایک لاکھ روپے ہے باقی کے دولاکھ دوستوں سے لے لوں گا. آپریشن کا دن آیا ماں کیلئے تین لاکھ جمع نہ ہوسکے اور وہ اس دنیا سے چلی گئی. فاتحہ خوانی پر تینوں بھائی ساتھ بیٹھے ایک بزرگ نے جب ان سے تین لاکھ جمع نہ کر پانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہانی سنا دی. بزرگ بولے تم تینوں کی جیب میں ایک ایک لاکھ تھا، جس طرح آج مل بیٹھے ہو اسی طرح دو دن قبل مل کر بیٹھتے اور اپنا ایک ایک لاکھ جمع کرواتے تو تین لاکھ بن جاتے اور آپ اس وقت ماں کی تعزیت لینے کی بجائے ماں کی دعائیں لے رہے ہوتے. یہ سن کر تینوں بھائی چپ ہوگئے!

یہی حال اب مجھے ہماری ماں یعنی ملت تشیع کے تین بیٹوں کا لگتا ہے، ماں بیماری میں مبتلا ہے روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے لیکن بڑے بیٹے فضل الرحمن کے ساتھ نظر آتے ہیں، دوسرے نمبر والے بیٹے قادری صاحب یا محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا صاحب کے ساتھ اور کل ہی ان کے ایک بزرگ نمائندے علامہ امین شہیدی صاحب ایک دویوبندی مدرسے میں بھی دیکھے گئے. اسی طرح تیسرے نمبر والے بیٹے بھی قابل احترام جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے. یہ اس ماں کے تینوں بیٹے دوستوں سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن افسوس کہ یہ تین بھائی خود ایک دوسرے کے ساتھ بہت کم نظر آتے ہیں. یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے.


ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اتحاد بین المسلمین بری چیز ہے نہیں! ہم جانتے ہیں کہ برادران اھل سنت ہمارے بھائی ہیں، جب ہم ہمارے علماء کو ان کےساتھ بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں قسم سے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے. پچھلے دنوں تین تصاویر آئی ہیں ایک میں قبلہ محترم استاد سید جواد نقوی صاحب محترم جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے، ایک تصویر میں محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا اور محترم فیصل رضا عابدی صاحب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نظر آئے اور پھر محترم جناب قبلہ امین شہیدی صاحب اوکاڑہ کے دیوبندی عالم دین محترم مولانا فضل الرحمن اوکاڑی کے مدرسے اشرف المدارس میں نظر آئے. یہ تصاویر دیکھ کر دل خوش ہوا اللہ (ج) اتحاد کے ایسے مزید مناظر ہمیں دکھائے. ہم ان اھل سنت علماء کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں وہ ہمارے دل و جان میں ہیں، ان کا ہمارے اور ہمارے علماء کا ان کے یہاں جانا نعمت الہی ہے.
بیشک اتحاد بین المسلمین اہم فریضہ ہے لیکن جب اتحاد بین المومنین کی اشد ضرورت ہو، جب اتحاد بین المومنین نظر نہ آ رہا ہو تو کیا ایسے میں اتحاد بین المسلمین مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ جب نوبت یہاں تک آجائے کہ ملک میں شیعہ مرد تو مرد عورتوں پہ بھی گولیاں چلنے لگ جائیں، ھر گھر میں صف ماتم بچھی ہو، ایسے حال میں ہم شیعہ ایک دوسرے کو گلے لگانے کی بجائے پڑوسیوں سے مراسم استوار کرنے کی کوشش کریں اور تو اس کا نتیجہ سوائے عوامی مایوسی کے اور کچھ نہیں ہوگا. جب گھر میں ماں بیمار ہو تو دوستوں کے ساتھ دعوتیں نہیں کی جاتیں بلکہ ہنگامی بنیادوں پر تمام بہن بھائیوں کو بلا کر ماں کے علاج کا سوچا جاتا ہے.

شاید یہی وجہ ہے کہ اس ماں کے بڑے بیٹے کو اس بات کا احساس ہوا اور ماں عرف ملت تشیع کی خستہ حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے پچھلے دنوں کراچی میں انہوں نے ایک پروگرام رکھا جس میں ایم ڈبلیو ایم کے بزرگ علماء کو دیکھ کر کو مدعو کیا گیا تھا، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی، اتحاد بین المومنین کی مثال پیش کی گئی، اس پر میں نے قائد صاحب کو سلام پیش کیا تھاـ امید کرتا ہوں کہ اسی طرح بڑے بھائی ہونے کے ناطے اس روش کو مزید تقویت بخشتے ہوئے قائد صاحب اپنے چھوٹے بھائیوں کو کھانے پہ بلائیں گے، اور مجھے صد در صد یقین ہے کہ چھوٹے بھائی روگردانی نہیں کریں گے. یہ دعوت، اتحاد کی دعوت، بھائیوں کے یکجاء ہونے کی دعوت زخموں سے چور، مجروح ماں کے زخموں پہ مرہم کا کام کرے گی اور یہی اتحاد بین المسلمین کا مرھم ان شاء اللہ اس کے سارے زخم دھو دے گا. جب اپنی ماں صحتمند ہوجائے گی تو دوستوں کی دعوتیں کر لیں گے.


arezuyeaab.blogfa.com

زکی کی زکی سے بات!

زکی کی زکی سے بات!

 

تحریر: محمد زکی حیدری

کسے مارا؟ وکیل تھا؟ ہیں!!! میں نے تو سنا ہے امام بارگاہ کا متولی تھا، اور وہ جس کی لاش سڑک پہ پڑی تھی سنا ہے پروفیسر تھاــــ خیر چھوڑو جو بھی تھا یہ بتاؤ یہ متحدہ کے جو بھائی لوگ جدا ہوئے ان کا کیا بنے گا، ہاں اور یار یہ سنی کیا چاہتے ہیں؟ مُلا اسلام باد میں، ان کی دھلائی تو لگتا ہے ہوگی، کل بیان تھا چودھری نثار کا کہ میں ڈی چوک خالی کروا دوں گا، اور ہاں روحانی صاحب آئے ہوئے ہیں نواز شریف سے ملنے یار فیری سروس چل جائے دعا کرنا زیارت پہ جانا بڑا مشکل ہو گیا ہے، ابا بیچارے ھر سال جاتے تھے بائے روڈ پھر پیسے چھیننے لگے ایف سی والے، لیکن ہم پیسے دے کر بھی چلے جایا کرتے، اچھا خیر اپ ڈیٹ کرتے رہنا کہ متحدہ و رابطہ کمیٹی، چودھری نثار، روحانی صاحب اور نواز شریف و فیری اور گیس پائپ لائین و ....

زکی یہ تمہاری گفتگو ہے؟ تم جانتے بھی ہو کہ کل ہی دن دہاڑے ایک نہتے شیعہ وکیل کو چلتی موٹرسائیکل پر سب کے سامنے شہید کردیا گیا. تم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھا تھا نا کس مظلومیت سے وہ گرا تھا پھر بھی!!! اور زکی وہ تمہارے امام (ع) کے پیروکار شیعہ پروفیسر کی خون میں لت پت لاش نے بھی تم پہ اثر نہ کیا؟ یکے بعد دیگرے دو دانشور چھن گئے ...
زکی تم کیا ہو مجھے سمجھ نہیں آتا... اتنی سیاست میں دلچسپی لیکن حقیقت سے اتنا دور... دیکھو تمہارے گھر جو دودہ والا دودہ دینے آتا ہے دو اخباریں ساتھ لاتا ہے...
جس ملک کے اندر دودہ والا! زکی سن رہے ہونا؟ ایک دودہ والا! ایک دودہ بیچنے والا گاؤں کا بندہ بھی سیاست سے اتنی دلچسپی رکھتا ہو کہ ہر روز اخبار خریدتا ہو، ایک عام آدمی اتنی فکر رکھتا ہو، تو یار اس دودہ والے کی سیاسی بصیرت اور اس ملک کی سیاست تو آج کہاں سے کہاں ہوتی لیکن سچ یہ ہے کہ اس ملک میں پست ترین سیاستِ دنیا...! کیوں زکی؟

اچھا تم ہی بتاؤ اتنا سیاست کو پڑھتے ہو، اخبار صبح کی الگ شام کی الگ، میڈیا، تو تمہیں کتنی سیاسی بصیرت ملی میڈیا سے، جو جو اخبار بتاتے ہیں تمہارے کراچی والے سیاسی استاد اس کا وہ زاویہ تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جو کہ میڈیا نہیں بتاتا، تب تمہیں بات سمجھ آتی ہے کہ ہاں استاد کی بات میں منطق ہے! وہ اکثر کہتے ہیں زکی جو تم سمجھ رہے ہو ایسا ہے نہیں یہ دکھاوا ہے! تو پھر کیوں تم اس میڈیا اور اس سیاست سے تنگ نہیں آجاتے، مانتے بھی ہو کہ گند ہے، طاغوتی کیچڑ سے بھرے لوگوں کی پنچائت ہے اور کچھ نہیں! پھر بھی؟

ہاں شاید تمہیں پیاس ہے، جاننے کی پیاس، سیاست کے بارے میں، حالات کے بارے میں جاننے کی پیاس! ہاں یہ پیاس اچھی ہے، لیکن پیاس بجھانے کیلئے جس چشمے کا تم نے انتخاب کر رکھا ہے وہ غلط ہے! وہ نجس ہے! اس کا پانی پانی نہیں شراب ہے زکی، جس کے اندر نشہ ہے. جو پی پی کر تمہیں اس شراب کا نشہ ہوگیا ہے... ہاں یہ نشہ ہے میڈیا کا، میڈیا اسے فضول اسٹوریاں بناکر پیش کرتا ہے حقیقت کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے، تمہیں اس میں مزہ آتا ہے، اور اب تمہیں اس کی لت لگ گئی ہے، تمہاری صبح تب تک نہیں ہوتی جب تک یہ مصنوعی سیاسی اکھاڑے کے منحوس پاکستانی سیاستدانوں کی منحوس کشتی بازی نہ دیکھ لو! کیا ملتا ہے تمہیں یہ سوچ کر کہ کراچی کے بھائی کا کیا بنے گا، جو جدا ہوئے وہ کیا کریں گے، کراچی کے تخت پر کون بیٹھے گا، اسلام آباد سے ایک جھوٹے نے کون سا نیا جھوٹ بولا، سارا دن تم یہی سوچتے ہو.. کیوں؟ تمہیں کیا فائدہ ملتا ہے اس سے؟ سوچو نا، کیوں نہیں سوچتے؟ اس لئے نہیں سوچتے کیونکہ تم میڈیا کا نشہ کرتے ہو، نشے میں مبتلا ہو. جیسے چرسی ایک بار چرس پی لیتا ہے تو اسے لت لگ جاتی ہے تمہیں بھی لت لگ گئی ہے!
ہاں تو پھر اتنا جان لو زکی کہ جتنا فائدہ چرس ایک نشئی کو دیتی ہے، اتنا ہی سیاسی و بصیرتی فائدہ پاکستانی میڈیا تمہیں دیتا ہے. زکی سمجھو، ذرا دنیا پر نظر دوڑاؤ، کیوں کنویں کے مینڈک بن بیٹھے ہو اس میڈیا کے ہاتھوں، اس جھوٹے میڈیا کو کم سچ کو زیادہ ٹائم دو، سچ سنو سچ دیکھوـ

دیکھو تم اس نشے میں اتنے دھت ہو کہ اپنے ایک مومن بھائی کی لاش گرتے دیکھتے ہو مگر تمہیں اس کی فکر نہیں، تمہیں سیاسی منظرنامے پر آنے والی تبدیلی کی فکر ہے. جناب زکی یہ کس نے تمہیں اتنا بے حس کردیا تمہارے جذباتی و احساسی اقدار اتنے پست کیوں ہوگئے، یار تم سے تو ایسی امید نہ تھی، تم تو اتنے حساس ہو حسین (ع) کا نام سن کر رو پڑتے ہو، کہاں گئی وہ حساسیت! تم روز جنازے اٹھا رہے ہو لیکن ایک آنسو بھی نہیں بہتا اس طرح نظر انداز کرتے ہو کہ جائے ہوتا رہے شہید میری بلا سے!

دیکھو زکی! اپنے مسائل پر دھیان دو تم حسینی ہو، تمہارے مومن بھائی مسلسل ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں، شیعہ ایک جسم میں اعضا کی مانند ہیں ایک عضو کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہے...
اب بولو گے کیا کروں میں!!!
ہاں تم یہ کرو کہ قوم کی طرف دھیان دو پہلے شیعہ کے مسائل، پھر مسلمان کے، پھر عام انسان پھر... دھیان دو جس طرح منحوس سیاست پہ دھیان دیتے ہو اور اس کا تو کوئی نتیجہ نہیں ملتا کیونکہ منبع علم جھوٹ ہے، سو تم شیعوں کے نیوز سائٹس زیادہ دیکھو، سچ پتہ چلے گا تمہیں، تمہیں تو انگلش بھی آتی ہے پریس ٹی وی دیکھو! دنیا کے شیعہ کیسے جی رہے ہیں تمہیں معلوم ہو!
پھر سوچو ہم کیوں ان کی طرح نہیں، کیوں ہماری نہ چاردیواری، نہ عبادتگاہ، نہ جلوس، نہ دانشور، نہ عالم، نہ جوان نہ... کوئی بھی محفوظ نہیں؟ سوچو کہ دنیا کے شیعہ کی شہادت اور ہمارے شیعوں کی شہادت میں فرق کیا ہے، وہ اپنے حقوق کیلئے کچھ کرتے ہیں اس لیئے شہید ہوتے ہیں یا پھر شہادتوں کے بعد تحرک دکھاتے ہیں اور ہم صرف مرتے ہیں، تحرک دور دور تک نہیں نظر آتا، کیوں زکی؟ اور ہماری کشتی کے ناخدا اس قتل و غارت پر چپ کیوں ہیں؟ ان سے پوچھو کہ ان کے پاس پلان و لائحہ عمل کیا ہے اس قتل و غارت کو روکنے کیلئے، اگر ہے تو ان کا ساتھ دو اگر ان کے پاس لائحہ عمل نہیں تو سوچو یہ قائدین کس کام کے ہیں؟؟؟ تم بس یہ کام کرو دنیا کے شیعوں اور پاکستانی شیعوں میں فرق دیکھو، عوام کا فرق ہے یا قائدین کا، اتحاد عوام میں نہیں یا قائدین میں، اتحاد اس مشکل وقت میں بھی نہ وجود میں آیا تو کب... سوچو زکی!

زکی! میرے بھائی تم کیوں اپنوں کے قتل پر دھیان نہیں دیتے؟ کہیں ایسا تو نہیں تمہیں لاشے اٹھانے کی بھی لت لگ گئی ہے. سیاست کی لت، رسموں کی لت، اخبار کی لت، میڈیا کی لت، چپ رہنے کی لت اب یہ لاشے اٹھانے کی لت....!!! زکی اگر ایسی کوئی لت خدانخواستہ تمہیں لگی ہے تو میرے عزیز یہ لت ختم کرو، اس نشے سے باہر آؤ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کل تمہارے گھر کا کوئی پروفیسر عابد رضا، ایڈوکیٹ نجم الحسن، کوئی تمہارے گھر کا سبط جعفر، کوئی تمہارے گھر کا حسن عسکری و... خون میں لت پت تمہارے سامنے لایا جائے، اپنے نشے توڑو ہوش میں آؤ، میرے عزیز محمد زکی حیدری تم شیعہ ہو اس لئے دشمن کا ٹارگٹ ہو لہذا تم بھی انہیں ٹارگٹ رکھو! اپنے سارے نشے توڑ دو اس سے قبل کہ تمہارے گھر کے کسی فرد پر چلنے والی گولی کی آواز سے تمہارے نشے ٹوٹیں...

 

www.fb.com/arezuyeaab
.
arezuyeaab.blogfa.com

قدر