عابس شاکری پر قمعہ زنی کا الزام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

🔪🔪🔪 قمعہ زنی کرنے والے برادران کا ایک اور جھوٹ🔪🔪🔪

تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری

 

بندہ حقیر برادران سے عرض کر چکا کہ آپ بیشک زنجیر زنی کریں، قمعہ زنی کریں، مہندی نکالیں، جو آپ کے مرجع تقلید نے اجازت دی ہے وہ کرنا ہے تو کریں. میں روکنے کا حق نہ رکھتا ہوں، نہ میں نے کبھی کسی کو روکا ہے، نہ روکوں گا (ان شاء اللہ)

لیکن 🙏🏽 خدا کا واسطہ غلط روایات و آیات پیش مت کیا کریں کہ ہم یہ کام اس لیئے کرتے ہیں کہ فلاں آیت یا روایت میں لکھا ہے. یہاں میں آپ کا راستہ روکوں گا.

اب ایک اور خیانت کی ہے آپ نے، *اس مندرجہ ذیل روایت کو بدل کر اس میں جھوٹ ڈال کر آپ نے سوشل میڈیا پر چلایا ہے.... کیا آپ کا سر اس تحریر کو پڑھ کر شرم سے جھک نہ جائے گا جب میں دو منٹ میں ثابت کردونگا کہ اصل روایت کیا ہے اور آپ نے کیا کیا "مرچ مصالحہ" ڈالا ہے*

یہ روایت ہے جو آپ نے "نمک مرچ"ڈال کر عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے سوشل میڈیا پر چلائی ہے
👇🏽👇🏽👇🏽

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺑﺲ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺷﺒﯿﺐ ﺷﺎﮐﺮﯼ ﺟﺐ کربلا میں ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ کی سمت ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮئے ﺗﻮ ﯾﺰﯾﺪﯼ ﻟﺸﮑﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ہر ﺳﻤﺖ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﻮﺍ - ﺗﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺑﺲ شبیب شاکری ﻧﮯ ﺍپنی ﺗﻠﻮﺍﺭ کو ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﻟﮩﻮ ﻟﮩﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
" ﺣﺐ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﺍﺟﻨﻨﯽ "
میں حسین کی محبت میں دیوانہ ہو گیا ہوں.
حوالہ جات:
لھوف، ابن طاووس صفحہ ۳۲۰ ، مقتل الحسین عبدالرزاق، المقرم صفحہ ۲۵۱، نفس المھموم ، شیخ عباس قمی انتشارات دار محجۃ البیضا صفحہ ۲۵۵، مقتل ابی مخنف صفحہ ۲۸۳


اور یہ ہے اصل روایت👇🏽👇🏽👇🏽

ثم قال عابس بن أبي شبيب : يا أبا عبد الله أما والله ما أمسى على ظهر الأرض قريب ولا بعيد أعز علي ولا أحب إلي منك ، ولو قدرت على أن أدفع عنك الضيم والقتل بشئ أعز علي من نفسي ودمي لفعلته ، السلام عليك يا أبا عبد الله ، أشهد الله أني علي هديك وهدي أبيك ثم مشى بالسيف مصلتا نحوهم وبه ضربة على جبينه .

ترجمہ:
اس کے بعد عابس بن ابی شبیب خدمت سید الشهداء میں پیش ہوئے اور فرمایا: یا ابا عبد اللہ! خدا کی قسم روئے زمین پر دور دور تک یا قریب میں آپ سے زیادہ عزیز یا محبوب مجھے کوئی بھی نہیں ہے. اگر ممکن ہوتا تو اپنی جان اور اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز چیز آپ پر قربان کر دیتا کہ آپ اس مشکل و شہادت سے بچ سکتے. سلام ہو آپ پر اے ابا عبداللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں آپ کی اور آپ کے والد کی راہ ہر ہوں. پھر وہ *برھنہ شمشیر* کے ساتھ ان کی (دشمنوں) کی طرف بڑھا *اس حال میں کہ ان کی 'پیشانی پر زخم کا نشان تھا* (۱)

اصل جملہ ہے کہ ان کی پیشانی پر نشان تھا بعض نے لکھا ہے کیونکہ عابس (ع) نے نماز کے وقت امام حسین (ع) کی حفاظت کی تھی اس دوران ان کی پیشانی پر چوٹ لگی تھی اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ صفین کا زخم تھا. کیونکہ عابس (ع) خود اپنی زبان سے ☝🏾اوپر فرما چکے وہ علی (ع) کے ساتھ تھے.
*بات تھی پیشانی پر زخم کی اور اسے بدل کر قمعہ زنی کہہ دیا*

یا اللہ (ج) ان برادران کو عقل دے!

تو "میں امام حسین (ع) کے عشق میں پاگل ہوگیا ہوں" کا کیا چکر ہے؟؟؟🤔

بھئی بات یہ ہے کہ ابی مخنف کی مقتل تو ہوگئی گم، بندہ حقیر اپنی بتی جلاؤ سلسلے میں یہ عرض کر چکا. اب اس کی روایات ہم طبری وغیرہ سے لیتے ہیں. طبری نے جو لکھا ہے وہ یہ ہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا.

اب اس سے آگے بحار میں علامہ مجلسی نے اس میں اضافہ کیا ہے فرماتے ہیں:
عابس نے رجز پڑھا اور دشمن کو للکارا کہ میں ہوں عابس شیروں کا شیر... تم میں سے کوئی مرد ہے تو آئے، عابس نے ۲۰۰ یزیدیوں کو دھول چٹا دی تو سارے لشکر والے ان پر پتھراؤ کرنے لگے.
عابس (ع) نے جوش میں آکر زرہ اتار دی اور سر سے آہنی ٹوپی بھی اتار دی اور دشمن سے جوشیلے انداز میں لڑنے لگے.
ربیع کہتا ہے جب میں نے یہ حال دیکھا تو اس سے کہا : عابس تمہیں ڈر نہیں لگتا اتنی گرم جنگ ہو رہی ہے اور تم نے زرہ بھی پھینک دی اور...الخ
*عابس (ع) نے کہا: جو چیز (تکلیف) دوست کی طرف سے دوست پر پڑے وہ آسان ہے*.(۲)


اچھا! اب یہاں ایرانی ذاکروں نے بھی غلط روایت پڑھی ہے اور پڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ عابس (ع) کا یہ حال دیکھ کر ربیع نے کہا : عابس تم پاگل تو نہیں ہوگئے تو اس نے ربیع کے جواب میں کہا:
حب الحسین اجننی
حسین کے عشق نے مجھے پاگل کردیا ہے!!!
یہ جملہ ایرانی ذاکروں میں بہت مشہور ہے لیکن اس کی کوئی سند نہیں ملی مجھے. بھر حال جیسا کہ آپ نے دیکھا ابی مخنف کی روایت جو تاریخ طبری میں لکھی ہے وہ مختصر ہے اس میں پیشانی پر نشان کی بات ہے کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ نشان عابس (ع) نے خود مارا.
اس کے بعد علامہ مجلسی کی روایت بھی ملتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں.

*ثابت ہوا کہ اس روایت سے دور دور تک یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جناب عابس شاکری (ع) نے اپنے سر پر قمعہ ماری.*


💡💡 بتی مفت مشورہ💡💡

قمعہ زنی و زنجیر زن برادران اگر آپ کسی مرجع کی تقلید کر لیتے اور ان روایات کے چکروں میں نہ پڑتے تو نہ میں تمہاری بات کو رد کر پاتا نہ آپ کو روایتیں تبدیل کرنی پڑتی. لیکن عقل ہو تو!
آپس کی بات ہے تقلید کر لیں، جو پوچھے کیوں قمعہ زنی کرتے ہو بولو میرے مرجع تقلید نے کہا ہے جا کر اس سے پوچھو کیوں اجازت دی، مجھ سے بحث مت کرو ختم بات!

حوالہ:

(۱) ابوجعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک-تاریخ الطبری، ج ۵، ص: ۴۴۴ ؛ لوط بن یحیی ابومخنف، ص۱۵۵

(۲) بحار الانوار ج 45 ص 29

 

غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا کیوں کہا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


🤔🤔 غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا کیوں کہا گیا 🤔🤔

 

....وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ

(حجرات ۱۲)

ترجمہ:
تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے


بھائی یہ غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے کیوں تشبیہ دی گئی؟

آقای محسن قرآئتی نے فرمایا:
ایک
کیونکہ زندہ انسان وہ ہے جو موجود و حاضر ہوتا ہے لہذا جو غیر حاضر ہو وہ ایسے ہے جیسے مردہ!

دوسرا
زندہ انسان کا گوشت کاٹا جائے تو اس جگہ پر پھر سے گوشت بن جاتا ہے لیکن مردے کا گوشت کاٹ لو تو وہ گوشت پھر سے اس کے بدن پہ نہیں بنتا.

یعنی آپ نے جب کسی کی غیبت کی تو اس کی عزت کا ایک ایسا ٹکڑا اس کی شخصیت سے کاٹ دیا جو دوبارہ نہیں بن سکتا.
عزت واپس نہیں آتی جیسے مردے کا گوشت واپس نہیں آتا اس لیئے اسے مردے کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی.

اچھا👌🏽👌🏽👌🏽

بولے ایسا کیوں ہے کہ میں ستر اَسی سال محنت کر کے اعمال بجا لاؤں اور ایک بار غیبت کروں تو سارے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں؟

جواب دیا اس لیئے کہ جس کی تم عزت تباہ کر رہے ہو اس نے بھی ستر اسی سال کی محنت سے یہ عزت بنائی ہے.

 

arezuyeaab.blogfa.com

رسمی عزادار و رزمی عزادار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

رسمی عزادار و رزمی عزادار


جو لوگ سڑکوں پر حسین (ع) حسین (ع) کرنے والوں کو رسمی عزادار کہتے ہیں اور رزمی عزادار صرف انہیں کہتے ہیں جو سر پر لبیک یا حسین (ع) کی پٹی باندھ کر انقلابی ترانے سنتے ہیں، یہ ایک اور مثال ہے ان کے سامنے کہ یہ قادیانی کربلا کے خلاف کیا کیا کہہ رہا ہے.!!!
ذاکر نائیک، وہابی، سلفی، قادیانی سب مل کر حسین (ع) کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں مگر عزادار و عزاداری نے ان سب کی کوششوں کو ناکام بنا دیا...

💡صرف مدرسے میں کربلا کی بحث کو رکھا جاتا تو غدیر و مباہلہ و سقیفہ کی طرح آج حسین (ع) کو بھی بھلا دیا جاتا یا پھر انہیں نعوذباللہ اسلام کو نقصان دینے والا کہا جاتا اور ان پر لعنت کی جاتی، اور یزید کو اسلام بچانے والا کہا جاتا...💡

جنہیں آپ رسمی عزادار کہتے ہیں سب سے بڑے رزمی عزادار ہیں ہی وہ... ہتھیار الگ ہیں بس، اگر کسی گاؤں دیہات میں ڈھول پر بھی یا حسین (ع) یا حسین (ع) کیا جاتا ہے تو بھی وہ یہ بتاتے جا رہے ہیں دنیا کو کہ حسین (ع) مظلوم تھے یزید ظالم....

آج اگر کسی سنی کا باپ بھی اپنے بیٹے کا نام یزید نہیں رکھتا تو وہ اس وجہ سے کہ عزاداروں نے یزید کو عزاداری کر کر کے بلکل بدنام کر دیا ہے.... *اس عزادار کو اپنا سپاہی بنا لیں* سارے شیعہ انقلابوں میں عزاداری و عزادار کا بہت بڑا کردار ہے.... امام خمینی (رض) نے فرمایا "ہمارے پاس جو کچھ ہے محرم و صفر کی عنایت کردہ ہے"
💡💡 *بتی افسوس*💡💡

*ہم نے اپنے پاکستان میں شیعہ انقلاب کی شروعات ہی عزادار و عزاداری پر تنقید سے کی ہے کہ فلاں رسمی عزادار ہے اصل عزاداری تو رزمی عزادار ہیں..*
اب اللہ (ج) خیر کرے!!!
الاحقر محمد زکی حیدری

حزب اللہ کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حزب اللہ کیا ہے...

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

حزب اللہ یعنی ولی فقیہ کے عاشقوں کا گروہ
حزب اللہ یعنی بصیرت
حزب اللہ یعنی با تقوی نوجوان
اور
حزب اللہ یعنی عوام سڑک پر ہے تو حزب اللہ بھی سڑک پر...
حزب اللہ یعنی عوام کو دشمن مارے تو حزب اللہ بھی ماری جائے
حزب اللہ یعنی عوام ڈنڈے کھائے تو حزب اللہ بھی ڈنڈے کھائے
حزب اللہ یعنی عوام کے حق میں حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال
حزب اللہ یعنی حکومت مخالف مظاہرے
اور
حزب اللہ یعنی بیروزگار شیعہ جوان کیلئے ٹریننگ سینٹر بنانا
حزب اللہ یعنی جوانوں کو عسکری تربیت دینا
مریضوں کیلئے ھسپتال بنانا
مساجد بنانا
شہداء کے خاندانوں کی خیر خبر لینا
عوام کے دکھ درد میں شریک ہونا
اور
حزب اللہ یعنی سمیر قنطار کمیونسٹ کو اپنا شیعہ سمجھ کر اس کا دفاع کرنا...
حزب اللہ یعنی سنیوں اور مسیحیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان کے دکھ بانٹنا...

*حزب اللہ یعنی پہلے مجھے زخم آئے پھر عوام کو*
*حزب اللہ یعنی عوام میں رچ بس جانا ان کے دل میں اتر جانا..*
اور
پھر
*الیکش لڑنا* اور اپنا متقی، پرھیز گار امیدوار کھڑا کرنا اور پارلیامینٹ میں اتنا مضبوط ہوجانا کہ جب پوری دنیا کہے کہ حزب اللہ تو دھشتگرد تنظیم ہے تو جمہوریہ لبنان کا وزیر اعظم کہے ہم کیسے حزب اللہ کو دھشتگرد کہیں یہ تنظیم *ہماری پارلیامنٹ* کا حصہ ہے!!!
👇🏽👇🏽👇🏽
*حزب اللہ یعنی عوام کے دل میں جگہ بنا کر پارلیامنٹ مین جگہ بنانا اور سیاسی و عسکری طاقت حاصل کر کے لبنان کے, ساری دنیا کے مظلوموں کا دفاع کرنا.*

کیا *جمہوریہ لبنان* میں حزب اللہ کامیاب ہے تو *اسلامی جمہوریہ پاکستان* میں ایسی تنظیم نہیں بن سکتی؟
جی بن سکتی ہے!

کیسے؟

اس تحریر کے شروعات میں طریقہ لکھا ہے.

arezuyeaab.blogfa.com

نوجوان دماغ کی بتی جلاؤ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡 نوجوان دماغ کی بتی جلاؤ💡


ہر پاکستانی عالم بزرگ چاہتا ہے کہ اتحاد ہو مگر اس چاہت میں ایک چاہت یہ بھی ہے کہ سارے میرے پاس چل کر آئیں. اتحاد مطلب سب میرے پلیٹ فارم پر آجائیں کیونکہ میں صحیح ہوں. جو نہیں آرہا وہی اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ ہے....

چھوڑیئے یارو!😏
بہت لکھ چکا, اب میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں جوانوں سے، میرے دوستوں سے جو بوکھلائے ہیں، جو اپنی عامیانہ اصطلاح میں *مولویوں کے اختلافات سے تنگ آگئے ہیں*.

میں آپ سے مخاطب ہوں میرے دوستو!
آپ جوان جو زیارت عاشورا کا جملہ *يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَكُمْ فَأَفُوز*َ  پڑھ کر کہتے ہو کاش میں کربلا میں ہوتا تو....
کربلا کیا ہوتی ہے؟ وہی نا جس میں کثیر تعداد میں وردی والے ہوں اور مظلوم پر یلغار ہو؟
وہی نا کہ جس میں چادر محفوظ نہ ہو؟ جوان و بوڑھے قتل ہوں؟
تو کراچی کو دیکھ لو آپ کی خواتین پہ گولیاں چل رہی ہیں، کربلا میں شریفوں کو ہتھکڑیاں لگی کراچی میں دیکھ لیں کیا ہوا، کربلا میں بوڑھوں پہ تیر برسائے گئے کراچی میں گولیاں، کربلا میں جوانوں کو بے رحمی سے شہید کیا گیا کراچی میں بھی!
اچھا کربلا میں چھ ماہ کے ننھے پر تیر چلا تو کراچی کی ننھی شیر خوار بھی پچھلے سال اسی طرح شہید ہوئی... آپ آج خاموش ہو تو ۱۴۰۰ پہلے والی کربلا تو اس سے بھی مشکل تھی تو یہ کہنا کہ اس وقت میں ہوتا تو...
ہوتے تو ....؟؟؟


*اب آپ کہیں گے کہ ہم کیا کریں کس لیڈر کا ساتھ دیں یہاں تو بہت سے قائد ہیں!*

یہ بات درست ہے مگر معقول عذر نہیں،

*میں سمپل ٹوٹکہ بتاتا ہوں* ہمارے پاس چار بزرگ ہیں آپ ان سب کو خوش کر سکتے ہیں، دو بزرگ آپ سے کوئی بڑی جدوجہد نہیں چاہتے، سستے میں کام ہو جائے گا. جی ہاں ان میں سے *ایک بزرگ* یوم انہدام جنت البقیع پر ہی نظر آتے ہیں آپ ان سے کہہ دیں کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جنت البقیع از سر نو تعمیر ہونا چاہیئے ختم بات!
باقی رہ گئے *دوسرے بزرگ* تو وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کو ملت کا قائد مانا جائے آپ کہہ دیں قائد آپ ہیں تو وہ آپ کو مزید زحمت نہیں دیں گے.
*ختم بات!*

باقی رہ گئے دو جو بہت زیادہ فعال ہیں لیکن ایک میں ایک چیز مسنگ ہے دوسرے میں دوسری!
*اور ہمارا جوان ان دو بزرگوں کی طرف دیکھ رہا ہے مگر اسے سمجھ نہیں آرہی کس طرف جائے*🤔

کیسے بھلا؟
دیکھئے بھائی! ایک وہ بزرگوار ہیں جنہوں نے بہت بڑا حوزہ کھول رکھا ہے نوجوانوں کی فکری تربیت، ولایت فقیہ کا تعارف، کربلا کا حقیقی تعارف بہت زبردست طریقے سے پیش کرتے ہیں. علمی میدان میں بہت اچھی کاوشیں ہیں. ان کے پاس مسائل کے حل کیلئے *لانگ ٹرم پلان* ہے یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی تربیت ہو، باشعور ہو اور پھر یہ نظام جمہوریت ختم ہو اور نظام ولایت فقیہ نافذ کیا جائے. یہ مسائل کا حل ہے. لیکن ان کے پاس فی الوقت عوام کے مسائل کا حل نہیں *شارٹ ٹرم پلان* نہیں!
بھیا صرف لانگ ٹرم پلان سے کام نہیں چلتا. آپ صرف تربیت کرتے رہیں اور باہر عوام مرتی رہے آپ ان کے ساتھ کھڑے نظر نہ آئیں تو یہ ھر گز انقلاب کی راہ ہموار نہیں کرسکتا. بھر حال کہنے کا مقصد کہ یہ بزرگ تھیوری تو بڑی اچھی دے رہے ہیں مگر عملی میدان میں عوام کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے.
💡 *تھیوری ہے پریکٹیکل نہیں*
💡 *لانگ ٹرم پلان ہے شارٹ ٹرم پلان نہیں.*

دوسرے فعال بزرگ ہیں وہ ماشاء اللہ بہت فعال ہیں جلسے، جلوس، دھرنے، بھوک ہڑتال کرتے نظر آتے ہیں، میدان عمل میں نظر آتے ہیں لیکن ان کی تنظیم نوجوان کو مستقل طور اپنے آغوش میں سنبھالے رکھنے میں ناکام رہی ہے. شاید اس طرف نوجوان کو معارف اسلامی، علمی سرگرمیاں، فکری رشد و ترقی کے اسباب نہیں نظر آئے. دوسری بات ان بزرگ کی تنظیم میں *شارٹ ٹرم پلان* تو باقائدہ نظر آتا ہے مگر *لانگ ٹرم پلان* کاغذ پر تو نظر آتا ہے مگر تنظیم منظم طور اس کا تعاقب کرتی نظر نہیں آتی.
💡 *یعنی عمل ہے علمی شعبے کا فقدان*
*شارٹ ٹرم پلان ہے لانگ ٹرم منظم طور نہیں*.

ان دو بزرگوں کی فعالیت میں اس فرق نے ملت کے جوان کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے وہ عملی میدان بھی چاہتا ہے علمی بھی! کبھی سوچتا ہے اِدھر جاؤں، کبھی ادھر

*مگر جوان دوستو!!!*

کیا اس کو بہانا بنا کر جوان اپنے کندھوں پر پڑی ملت کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا؟
ھر گز نہیں!
برادران آپ کی بات حق ہے کہ بیشک ان دو بزرگوں کو مل بیٹھ کر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہیئے جس میں علم و عمل کا ایک مناسب امتزاج ہو؟ لیکن
*اگر بزرگ یہ کام نہیں کر سکتے تو آپ جوان تو کرسکتے ہیں نا؟ کیوں ایسا نہیں ہو سکتا کہ چار اچھی چیزیں ایک بزرگ سے لیں اور چار دوسرے بزرگ سے اور اس طرح علم و عمل کا میدان دونوں آباد رہیں؟*

اس کی شروعات سوشل میڈیا سے کریں ایک گروپ بنائیں جس میں دونوں نظریئے کے قائل جوان آئیں، نیت ہو باہمی اتفاق و اتحاد سے مسائل کا حل سوچنا. اس گروپ میں کسی کی کردار کشی کرنے کی بجائے دونوں بزرگوں کے نظریئے کو ملا کر خود اپنی کردار سازی کی جائے اور عوام کے ساتھ مظاہروں اور احتجاج میں بھی شرکت کی جائے اور علمی معارف سے بھی آشنائی حاصل کی جائے. آپ کے لیڈر وہ ہی رہیں آپ کو حوزے والے بزگ منع نہیں کریں گے احتجاجی مظاہرے یا دھرنے میں جانے سے اور نہ ہی مظاہرا کرنے والے بزرگ درس سننے سے. *شخصیت پرستی کو ایک طرف رکھ کر اپنی شخصیت بنائیں*

*حزب اللہی جوان صرف وہ نہیں جو عوام مشکل میں ہو اور وہ کتابیں پڑھنے اور درس سننے میں مصروف ہو*
*حزب اللہی جوان وہ بھی نہیں جو صرف سڑک پر چلاتا نظر آئے اور فکری لحاظ سے صفر ہو*

حزب اللہی مظاہرے بھی کرتا ہے، الیکشن بھی لڑتا ہے، نماز شب بھی پڑھتا ہے، فکری لحاظ سے بھی بابصیرت ہوتا ہے ولی فقیہ کا عاشق بھی ہوتا ہے. بندوق بھی اٹھاتا ہے کتاب بھی!

جوانوں! اگر آپ اپنی انا ختم کر کے متحد نہیں ہو سکتے تو حق نہیں رکھتے کہ علماء پر تنقید کریں. علماء مل نہیں بیٹھتے تو آپ کیوں نہیں! اگر نہیں تو یہ مت کہو کہ اے کاش میں بھی ہوتامیدان کربلا میں!

arezuyeaab.blogfa.com

توحید مفضل قسط 6 (سر کو سخت کیوں بنایا)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے 👂🏾👂🏾
*توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...*

قسط 6⃣

🤔🤔 سر کو اتنا سخت کیوں بنایا؟🤔🤔

انسان کے سر کو اگر کھولا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے کتنی تہوں کی مدد سے بنایا گیا ہے. اس کے اندر مغز رکھا گیاہے.
انسان کا مغز (جو پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے) بہت نازک ہے اس کیلئے انسان کے سر کو سخت کھوپڑی سے بنایا گیا ہے. یہ سخت کھوپڑی اس لیئے ہے کہ چوٹ لگنے کی صورت میں مغز پر اثر نہ ہو. پھر اس کھوپڑی پر *بال* اگائے تاکہ سردی و گرمی کا اثر مغز تک نہ پہنچے.

💡💡💡 *بتی نکتہ*💡💡💡


ہم سمجھتے ہیں کہ کھوپڑی کی ایک ہی ھڈی ہے لیکن ایسا نہیں انسان کی کھوپڑی ۲۲ الگ ھڈیوں سے بنی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں.
کھوپڑی کو دیکھیں تو اس میں سوراخ نظر آتے ہیں یہ مختلف رگوں کے گذرنے کیلئے ہیں.

*یہ بہترین نظام بنانے والا کریم رب ہے.... اسے یاد کریں نماز پڑھیں*


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

توحید مفضل قسط ۵ (حواس کیوں بنائے)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے👂🏾👂🏾
*توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...*

قسط 5⃣

🤔🤔 حواس کیوں بنائے؟

 

آنکھ کی جسم میں جگہ پر غور کریں کیسے اسے اوپر کی طرف قرار دیا تاکہ آنکھ ایک روشن مینار کی طرح ھر چیز کو اوپر سے دیکھ سکے (آنکھیں ٹانگوں کی جگہ ہوتیں تو مشکل ہوجاتی)

اور اگر اللہ (ج) صرف رنگ بنادیتا آنکھ نہ بناتا تو رنگوں کا بنانا ایک فضول کام کہلاتا یا پھر آنکھ ہوتی اور رنگ نہ ہوتے تو آنکھ کا بنانا ایک فضول کام کہلاتا.. (اللہ ج فضول کام نہیں کرتا)

اسی طرح اگر خوبصوت آوازیں ہوتیں اور کان نہ ہوتے تو آوازوں کا بنانا ایک فضول کام کہلاتا. اور کان ہوتے آوازیں نہ ہوتیں تو کان کا بنانا ایک فضول کام کہلاتا.
اچھا اگر روشنی نہ ہوتی تو رنگ نظر نہ آتے اور اگر ہوا (میڈیم) نہ ہوتی تو آوازیں کان تک نہ پہنچتیں (کیونکہ آواز کی لہروں کو ایک جگہ دوسری جگہ منقتل ہونے کیلئے میڈیم عرف وسیلہ درکار ہوتا ہے)
یعنی حواس بنائے اور ان کے مددگار وسائل بھی بنائے.


💡💡 بتی نکتہ💡💡

(اہم بات! سائنس کہتی ہے کہ سورج میں دو گیسز ایک دوسرے کا ساتھ مل کر آگ جلاتے ہیں، جس کی وجہ سے سورج ہمیں روشن نظر آتا ہے. *یاد رہے یہ گیسیں جب ایک دوسرے ملتی ہیں تو اتنا شور ہوتا ہے کہ وہ آپ کے کان پھاڑ سکتا ہے*.

😳 سچی؟؟

تو یہ شور ہمیں کیوں سنائی نہیں دیتا روشنی تو آتی ہے شور کیوں نہیں آتا زمین تک؟ 🤔

ہم نے پہلے عرض کیا کہ روشنی کی لہروں کو سفر کرنے کیلئے *وسیلہ* (میڈیم) درکار نہیں ہوتا جب کہ آواز کی لہروں کو سفر کرنے کیلئے *وسیلے* کی ضرورت ہوتی ہے. سو چونکہ *سورج اور زمین کے درمیاں ھوا موجود نہیں* اس لیئے وہ آواز (شور) ہمارے پاس نہیں پہنچتا ہم سکون سے رہتے ہیں. جب کہ روشنی کو کسی وسیلے کی ضرورت نہیں ہوتی سو وہ زمین پر پہنچ جاتی ہے اور ہم سکون سے جیتے ہیں.
یعنی یہ روشنی کی لہر کو وسیلے کا محتاج نہ بنانا اور آواز کی لہر کو وسیلے کا محتاج بنانے میں بھی *اللہ جل جلالہ* کی حکمت نمایاں ہے )


( *اگر باتیں دل پہ لگی ہیں تو* 🙏🏽 *خدا کا واسطہ نماز کی پابندی کرنا*)

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے!

از قلم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

دوست نے پوچھا تمہارا پسندیدہ شیعہ لیڈر کون ہے؟ میں نے کہا وہ جو عوام کی مشکلات میں اس کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو، دنیا کے کامیاب و سچے لیڈر وہ ہی کہلائے جو مشکل گھڑی میں عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے. کیا پاکستان میں اس سے زیادہ مشکل گھڑی ہو سکتی ہے کہ قوم کی عورتوں اور بچوں کو دشمن اپنی گولیوں سے چھلنی کر رہا ہو؟
میرا قائد، میرا لیڈر، میرا سردار وہ عالم دین ہے جس نے دوسرے بزرگ علماء کو فون کر کے کہا کہ قبلہ آجائیں ایک جگہ جمع ہوں، لیڈر بیشک آپ ہی بن جائیں، میں نے "اپنی" لیڈری چھوڑی، "اپنا" نظریہ چھوڑا، سب کچھ چھوڑا لیڈر بھی آپ بنیں، نظریہ بھی آپ کا ہو، لیکن خدا را اب آئیں متحد ہو کر دشمن سے مل کر جنگ کریں!
*وہ ہے میرا لیڈر جو تمام شیعہ عمائدین، علماء، خطباء، زاکرین، انجمنوں کے ٹرسٹیز، پروفیسرز، وکلاء، سول سوسائٹی، صحافی، شعراء، نوحہ خوانوں کے پاس چل کر جائے اور انہیں کہے کہ آؤ ایک جگہ جمع ہوں اور کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں...*

اس وقت قوم کا قتل علماء کے آپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور یاد رکھیں اس تفرقے میں جو جو ملوث ہیں، جس جس نے اپنی ڈیڑہ انچ کی مسجد الگ بنا رکھی ہے اور *دوسرے کی مسجد میں نہیں جاتا ان میں سے ہر ایک سے اس قتل کا سوال ہوگا.*

مجھے پتہ ہے بعض لوگ جب خود کچھ نہیں کر سکتے تو سارا الزام عوام پر ڈال دیتے ہیں. یہ خواص کی عادت رہی ہے کہ عوام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، آج بھی ایک گروہ و اس کے خواص کہتے ہیں کہ یہ قوم تو بس رسمی عزادار ہے رزمی نہیں، یہ لوگ عزاداری کرتے ہیں لیکن کسی کام کے نہیں، یہ صرف مجلس میں واہ واہ کرنے والے اور نیاز کھانے والے ہیں، یہ کوفی، یہ بزدل، یہ سیکیولر (بے دین).... لیکن میں ان خواص سے پوچھتا ہوں کیا یہ قوم وہ ہی "رسمی" عزادار و ماتمی قوم نہیں جس نے مفتی جعفر حسین کی آواز پر لبیک کہا اور یک مشت و متحد ہوکر ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا نے دیکھا اور مانا کہ حسینی مطلب غیرت سے جینا!
کیا یہ وہ نیاز کھانے والی و مجالس میں واہ واہ کرنے والی قوم نہیں ہے جس نے شہید قائد عارف حسین الحسینی کا ساتھ دیا اور اپنا سب کچھ قائد پہ قربان کردیا اتنی حد تک کہ دشمن اس قوم کو ایک طاقت میں بدلتا دیکھ ڈر گیا کہ اگر یہ قوم اسی طرح ترقی کرتی رہی تو فقہ جعفریہ نافذ کر دیگی پاکستان میں! اور اس ڈر سے اس غیرتمند قوم کے غیرتمند لیڈر کو شہید کر دیا.

کیا یہ وہ ہی رسمی عزادار قوم نہیں جس نے حال ہی میں آپ علماء کو متحد دیکھا تو پاکستان کی ساری سڑکیں بلاک کردیں اور رئیسانی حکومت گرا دی.؟
آپ نے اتحاد کیا قوم نے لبیک کہا، جب جب اس قوم کو اچھے لیڈروں نے بلایا یہ قوم میدان میں آئی تو اب بتائیے رسمی عزادار قوم ہے یا آپ ؟ مسئلہ آپ میں ہے یا قوم میں؟

آج بھی! کیا یہ رسمی عزاداری کرنے والی قوم نہیں جو مساجد و امام بارگاہوں و جلوسوں میں بموں سے اڑائی جاتی ہے لیکن پھر بھی اپنے بچوں سمیت مساجد و امام بارگاہوں و جلوسوں میں جا کر یا حسین یا حسین کرتی ہے؟
*کیا اس رسمی عزادار قوم کے بیٹے بیبی زینب (س) کے حرم کا دفاع کر کے شہید نہیں ہو رہے؟* *آپ نے کتبے رزمی عزادار بھیجے اپنے مدرسے سے؟ چلیں بھیجے نہیں تو خیر آپ نے ان شہداء کی کوئی خیر خبر لی؟ ان کے خاندانوں کی خیر خبر لی کبھی؟* اگر نہیں تو کیا آپ ایک رسمی لیڈر نہیں ہوئے؟ دوسروں کو رسمی عزادار کہنے والے خود کو دیکھیں قوم کی اس حالت میں وہ صرف باتوں کی رسم تو نہیں ادا کر رہے؟ رزم کہاں ہے؟ کیا آپ کے "رزمیانہ فلسفے" میں یہ چیز نہیں کہ اپنے ملک کے شہداء یا شہداء کے خاندانوں کی خیر خبر لی جائے؟. کتنے شہید ہو رہے ہیں کتنے جنازوں میں گئے ہیں آپ؟ کیا خواص کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ عوام ، جس کی عزتوں پر دشمن ہاتھ ڈال رہا وہ اور وہ اس راہ میں نہتی، تن و تنہا کھڑی ہو، کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھنے کی بجائے اسے ہی مورد الزام ٹھہرائیں کہ یہ قوم تو کوفی ہے، بزدل ہے، رسمی عزادار ہے، بس مجلس و نیاز کے پیچھے ہے...!!!

خواص سے گذارش ہے کہ اگر قوم کو حل دینے کیلئے آپ اپنی انا کو ایک طرف نہیں رکھ کر آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو کھوکھلے آپ ہو، رسمی عزادار آپ ہو، میدان سے باہر آپ ہو، عوام پہلے سے مایوس ہے اسے ایسے منفی القابات نہ دیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، رسمی لیڈر وہ ہی ہے جو عوام کی مشکلات میں میدان میں نظر نہ آئے، رزمی لیڈر وہی ہے جو مشکل میں عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو، کوفی وہ ہی ہے جو میدان میں نظر آنے کے وقت گھر میں نظر آئے.

🙏🏽 *آپ علماء متحد ہو کر، مسائل کا حل لے کر میدان میں آؤ اور پھر قوم میدان چھوڑ کر چلی جائے تب اسے رسمی عزادار، کوفی، سیکیولر کہیں ورنہ حق نہیں رکھتے آپ ایسا کہنے کا. خدارا قوم کی حوصلہ شکنی نہ کریں! اور آپ کو رسمی عزادار و رزمی عزادار کا فرق دیکھنا ہے تو پہلے اپنے گھر میں گن مین و باڈی گارڈز کے سائے میں رہنے والے اپنے بچوں کو دیکھئے، اور پھر پاکستان کی سڑکوں پر حسین (ع) کے عزاداروں کو اپنے اور اپنے بچوں کے خون میں لت پت دیکھیئے اور سوچیئے رزم کون ادا کر رہا ہے رسم کون!*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

توحید مفضل قسط ۴  (ماں کا دودہ)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 *دماغ کی بتی جلاؤ*💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے👂🏾👂🏾
*توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...*

قسط 4⃣

🤔🤔 ماں کا دودہ ہی کیوں ؟🤔

غور کریں آخر ماں کا دودہ ہی کیوں بچے کی غذا بنی؟

اس لیئے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دانت نہیں ہوتے (اور رگیں بھی ابھی بہت نازک ہوتی ہیں) اس لیئے اس کے بس کی بات نہیں کہ وہ سخت غذا چبا سکے یا نگل سکے. اس لیئے ایسا نظام رکھا گیا کہ جو بچہ آرہا ہے اس کیلئے اس کی مناسبت سے غذا کا انتظام اللہ (ج) پہلے ہی کر دیتا ہے.


*اچھا ایک مخصوص مدت کیلئے ہی ماں کا دودہ کیوں؟*

اس لیئے کہ اگر ساری زندگی ماں کا دودہ پیتا رہے گا تو طاقتور نہیں بن سکے گا. اس کے جسم کیلئے بہت ساری دوسری چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے

اس کے علاوہ اگر ایک بچہ ساری زندگی ماں کے دودہ کا محتاج ہوتا تو ماں ایک ہی بچے کی غذا دینے میں مشغول رہتی باقی بچوں کی تربیت و غذا کا انتظام نہ کر پاتی.


( *اگر باتیں دل پہ لگی ہیں تو* 🙏🏽 *خدا کا واسطہ نماز کی پابندی کرنا*)

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

غالی کے ایک اور جھوٹ  کا پردہ فاش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


😀 غالی و غیر مقلدین کے ایک اور جھوٹ کا پردہ فاش😀

جمع آوری: الاحقر محمد زکی حیدری

 

میں نے دماغ کی بتی جلاؤ کے ایک سلسلے *میں تقلید کیوں کروں* میں امام زمانہ (عج) کی ایک روایت پیش کی جس میں امام (عج) نے ھدایت کی کہ *میرے بعد حوادث کے سلسلے میں راویوں سے رجوع کرو*.. الخ

ایک ملنگ نے شاید فلی لوڈڈ بیڑی 🚬 پی کر میری تحریر پڑھی اور بول دیا کہ آیت اللہ خوئی (رض) و آیت اللہ گلپائگانی (رض) نے اسے روایت "رد" کیا ہے. یہ ان کا جھوٹ ہے. رد نہیں کیا رجال میں اس روایت کے دو راویوں سے نا آشنائی کا ذکر بیشک ہے لیکن اس سے یہ دونوں شخص مجہول نہیں ہو سکتے. یہ ثابت کرنا ہے. اور نیچے دلائل کے ساتھ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں روای اصول علم رجال کے مطابق ثقہ ہیں.

*یہ ان کے جھوٹ کا مفصل جواب*

اصل روایت یہ ہے

ابن بابویہ ( شیخ صدوق)، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِصَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوبَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ یَعْقُوبَ قَالَ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعَمْرِیَّ أَنْ یُوصِلَ لِی کِتَاباً قَدْ سَأَلْتُ فِیهِ عَنْ مَسَائِلَ أَشْکَلَتْ عَلَیَّ فَوَرَدَ التَّوْقِیعُ بِخَطِّ مَوْلَانَا صَاحِبِ الزَّمَانِ ع أَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْهُ أَرْشَدَکَ اللَّهُ وَ ثَبَّتَکَ إِلَى أَنْ قَالَ وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَیْکُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ وَ أَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَمْرِیُّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَ عَنْ أَبِیهِ مِنْ قَبْلُ فَإِنَّهُ ثِقَتِی وَ کِتَابُهُ کِتَابِی (1)

حدیث کی سند کی تحقیق :
جیسا کہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کو شیخ صدوق نے محمد بن محمد عصام کلینی نام کے ایک شخص نے نقل کیا ہے۔ اور انہوں نے محمد بن یعقوب کلینی اور انہوں نے اسحاق بن یعقوب سے اور انہوں نے نائب امام زمان (عج) محمد بن عثمان سے نقل کیا ہے۔
شیخ صدوق: شیخ صدوق کے ثقہ ہونے اور ان کی جلالت میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ شیعوں کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں۔[2]
محمد بن محمد یعقوب عصام: ان کے بارے میں علم رجال کی کتابوں میں کسی قسم کی ستائش یا مذمت نہیں کی گئی ہے، اس لئے وہ ہمارے لئے مجہول ہیں۔
محمد بن یعقوب: ان کی وثاقت اور جلالت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی چار بڑی حدیثی کتابوں میں سے " کافی" نام سے ایک برتر کتاب ان کی ہی ہے۔[3]
اسحاق بن یعقوب: ان کے بارے میں بھی علم رجال کی کتابوں میں کوئی توصیف نہیں کی گئی ہے، اس لئے محمد بن محمد کے مانند مجہول ہیں۔
اس بنا پر اس روایت میں دو افراد، یعنی محمد بن محمد اور اسحاق بن یعقوب ہمارے لئے نا شناختہ اور مجہول ہیں۔
ان دو افرا کی وثاقت کے قرائن:
بعض قرائن مذکورہ دو افراد کی وثاقت کی حکایت کرتے ہیں ہم ذیل میں ان کی طر اشارہ کرتی ہیں:
الف) محمد بن محمد بن عصام شیخ صدوق کے مشائخ میں سے ہیں، شیخ صدوق کی مختلف کتابوں سے نقل کرکے جو روایتیں ان سے وسائل الشیعہ میں نقل کی گئی ہیں، انھیں شیخ صدوق، بلا واسطہ ان سے نقل کرتے ہیں اور ان تمام روایتوں میں محمد بن محمد بن عصام نے شیخ کلینی سے نقل کیا ہے۔ بہ الاظ دیگر اگر چہ وہ ایک مجہول شخص ہیں لیکن شیعوں کے دوبڑے محدثین ( کلینی اور شیخ صدوق) بالترتیب ان کے استاد و شاگرد تھے۔ اس بنا پر انھیں دو رجالی قاعدوں ،یعنی " اجازات کے مشائخ ثقہ ہوتے ہیں" اور " ایک شخص سے ثقات کا کثرت سےنقل کرنا اس شخص کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔"[4] کے پیش نظر انھیں ثقات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ب)    اسحاق بن یعقوب بھی کلینی کے مشایخ میں شامل تھے۔ انہوں نے ایک اہم کام ، جیسے امام زمان (عج) سے توقیعات کے صدور کے سلسلہ میں ان کی خبر پر اعتماد کیا ہے جو کام اس زمانہ میں ایک عام روایت نقل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ خود حضرت (عج) نے اس توقیع میں ان کے لئے دعائے خیر کی ہے۔ کتاب " کمال الدین" میں نقل کی گئ توقیع کے آخر میں امام زمان (عج) فرماتے ہیں: " السلام علیک یا اسحاق بن یعقوب وعلی من اتبع الھدی"۔[5]و[6] بعض لوگوں نے انھیں مرحوم کلینی کا بھائی جانا ہے۔[7]
اگر یہ پوچھا جائے کہ: کہاں معلوم کہ اسحاق بن یعقوب نے کوئی توقیع حاصل کی ہے، شائد انہوں نے اس دعا میں جھوٹ کہا ہو؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ کلینی نے،ان سے جویہ توقیع نقل کی ہے۔ مذکورہ بحث کے پیش نظر۔ قطعا انھیں قابل اعتماد جانتے تھے ورنہ ہرگز یہ اقدام نہ کرتے۔ اس توصیف کے پیش نظر اس روایت کی سند میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔[8] اس کے علاوہ اس زمانہ میں حضرت (عج) کی طرف سے کسی شخص کو خط بھیجنا بذات خود اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہے۔  [9]
بالفرض کوئی ان قرائن کوکسی وجہ سے قبول نہ کرے، تو اس کے علاوہ بھی شیعوں کے فقہ کی پوری تاریخ میں اس روایت پر علماء کی طرف سے اعتماد کے شواہد موجود ہیں۔
مرحوم صاحب جواہر اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" اس روایت کے مضمون پر علماء کے درمیان قولی اور عملی اجماع پایا جاتا ہے۔"[10]
فقہا نے بہت سی کتابوں میں، اس حدیث کی سند پر اعتراض کئے بغیر اپنے مباحث میں اس حدیث سے استادہ کیا ہے۔ ان دانشوروں میں مرحوم صاحب جواہر، شیخ اعظم مرتضی انصاری[11]، آقا رضا ہمدانی[12]، آیت اللہ سید محمد یزدی[13]، آیت اللہ میرزا محمد حسین نائنی[14]، آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی[15]وغیرہ شامل ہیں۔

*نتیجہ*
مندرجہ بالا ثبوتوں کی بنا پر یہ حدیث سند اور مضمون کے لحظ سے شیعہ علماء کے لئے قابل قبول اور قابل اتفاق قرار پائی ہے۔

 

👇🏽👇🏽👇🏽👇🏽👇🏽
حوالے:


[1] حر عاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعه، ج 27، ص 140،موسسه آل البیت، قم، 1409هجری، این روایت در کتاب کمال الدین و احتجاج طبرسی نیز آمده است.

[2] ۔ نجاشی،ابوالعباس، رجال نجاشی، حرف میم،ذیل نام محمد بن علی بن الحسین.

[3] ۔ رجال نجاشی، حرف میم، ذیل ترجمه محمد بن یعقوب.
[3] ۔ سبحانی ، جعفر، کلیات فی علم الرجال ، ص 333 و 353، موسسه نشر اسلامی، قم 1421.

[4] ۔ اس سلسلہ میں بعض دوسری توضیحات کا آیت اللہ ہادوی تہرانی کی کتاب " ولایت و دیانت" ص 100 پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

[5]۔ صدوق ،محمد بن علی، کمال الدین ، ج2، ص 458،دار الکتب الاسلامیه، قم ، 1395 قمری.

[6] ۔ هادوی تهرنی، مهدی،ولایت و دیانت،ص 99، انتشارات خانه خرد،قم، 1381،به نقل از قاموس الرجال مرحوم تستری.

[7]۔ ملاحظہ ہو: سید کاظم حائرى، ولایة الأمر فى عصر الغیبة، صص125 – 122، به نقل از سؤال 25 (سایت: 258).

[8] ۔  یہ مطلب کتاب " تحریر المقال فی کتاب الرجال، میں تو ثیق کے عمومی طریقوں میں سے ایک طریقہ کے عنوان سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو: مهدى هادوى تهرانى، تحریر المقال فى کلیات علم الرجال، صص111 - 109). به نقل از سؤال 25 (سایت: 258).

[9] ۔ نجفی، محمد حسن،جواهر الکلام، ج11، ص 90،دار احیاء الثراث العربی، بیروت،بی تا.

[10] ۔ انصاری، مرتضی، القضاء والشهادات،ص 70، کنگره جهانی شیخ انصاری،قم، 1415.

[11] ۔ همدانی، آقا رضا، مصباح الفقیه،ج14، ص 289، موسسه الجعفریه، قم ،1416.

[12] ۔ یزدی،سید محمد کاظم، تکملة عروه الوثقی، محمد حسین طباطبایی، ج 2، ص 6،بی جا، بی تا.

[13] ۔ ائینی، میرزا محمد حسین، المکاسب و البیع، ج2، ص 337، دفتر انتشارات اسلامی، قم ، 1413.

[14]  ۔ میلانی، سید محمد هادی ، محاضرات فی فقه الامامیه،ج 4، ص 277،موسسه طبع و نشر دانشگاه فردوسی مشهد، مشهد، 1395 قمری، وہ اس حدیث کے سند کے بارے میں کہتے ہیں: و هو ( اسحاق بن یعقوب) و إن لم یکن معروفا فی کتب الرجال، إلا أنه یظهر من التوقیع الشریف، و من أجوبة مسائله أنه کان من الشیعة الإمامیة، و له العلم و المعرفة و الجلالة...... ثم إن جهالة الراوی لا تضر فی المقام، لروایة الکلینی عنه، و تعدّد روایات المشایخ عن الکلینی عنه، و اشتهار هذا التوقیع، و العمل بمضمونه

 

کربلا میں کیا ہوا  قسط 19

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 19)

 
زھیر بن قین (ع) سے ملاقات

سید ابن طاؤس لکھتے ہیں: بنی فزارہ اور بجیلہ کے لوگوں سے نقل کیا گیا ہے کہ ہم زھیر بن قین کے ساتھ مکہ سے خارج ہوئے، اور حسین (ع) کے قافلے سے پیچھے تھے. چونکہ زھیر بن قین امام حسین (ع) سے ملنا نہیں چاہتے تھے اس لیئے جہاں حسین (ع) کا کارواں رکتا تو ہم بھی پیچھے رک جاتے تاکہ حسین (ع) کے قافلے سے فاصلے پر رہیں. لیکن ایک جگہ حسین (ع) نے اس طرح توقف کیا کہ ہم مجبور ہوئے کہ ان کے قریب توقف کریں.
ہم کھانا کھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور زھیر سے کہا حسین (ع) نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے اور فرمایا ہے مجھ سے ملنے آئیں.
یہ بات سن کر زھیر کے ہاتھ سے نوالہ گر گیا وہ سخت پریشان ہوا اور خیالوں میں اس طرح گم ہو گیا جیسے اس کے سر پرندہ بیٹھا ہو اور وہ اسے پکڑنا چاہتا ہو.
زھیر کی زوجہ (دیلم/دلہم) نے خوش ہوکر اسے کہا کہ پیغمبر کے بیٹے نے آپ کو طلب کیا ہے جاکر پوچھ تو لیں کہ کیا کہتے ہیں.
زھیر، حسین (ع) سے ملنے گئے اور تھوڑی دیر بعد خوش و خرم واپس لوٹے اور حکم دیا کہ خیموں کو نکال کر حسین (ع) کے خیموں کے قریب لگاؤ. بیوی سے کہا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں کیونکہ نہیں چاہتا کہ تم میرے ساتھ مشکلات جھیلو، اس نے بیوی کے مہریہ و حقوق ادا کر کے اسے اپنے چچازادوں کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے اپنے خاندان میں پہنچا دیں. زھیر کی بیوی نے روکر زھیر سے خداحافظی کی اور کہا کہ امید کرتی ہوں کہ قیامت کے دن جدِ حسین (ع) کے سامنے مجھے بھی یاد رکھو گے.
زھیر (ع) نے اصحاب سے فرمایا جس کو میرے ساتھ آنا ہے آ جائے نہیں تو میری یہ آخری ملاقات ہے.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 90 91

۲. نفس المہموم فارسی ترجمہ (در کربلا چہ گذشت) ص: 225 , 226

۳. ارشاد شیخ مفید 420 , 421


💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا قسط 18

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 18)

 
فرشتوں اور جنوں کی امام حسین (ع) کو پیشکش

 

سید ابن طاؤس لکھتے ہیں کہ شیخ مفید نے اپنی کتاب *مولد النبی و مولد الاوصیاء* میں امام جعفر (ع) سے نقل کیا ہے کہ جب امام حسین (ع) مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے تو فرشتوں کا ایک گروہ آیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے نانا (ص) کی بہت سی جنگوں میں مدد کی اور اللہ (ج) نے ہمیں آپ کی مدد کیلئے بھیجا ہے. امام (ع) نے فرمایا میری اور تمہاری ملاقات کربلا نامی سرزمین پر ہوگی وہاں پہنچ جاؤں تو تم آنا. فرشتوں نے کہا ہمیں آپ کا حکم ماننے پر مامور کیا گیا ہے اگر چاہیں تو ہم آپ کی حفاظت کریں. فرمایا نہیں.

 

جنوں کا آنا

 

اس کے بعد جنوں کا ایک گروہ آیا اور کہا ہم شیعہ ہیں اور آپ کے ماننے والے ہیں، آپ حکم کریں تو ہم آپ کے دشمن کو نابود کردیں اور آپ اپنے وطن میں خوش رہیں. امام (ع) نے انہیں دعا دی اور فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ جس میں لکھا ہے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے" (آل عمران ۱۵۴) مدینہ میں رہنے کا فائدہ نہیں اگر میں گھر میں بیٹھا رہوں تو اللہ (ج) میرے وسیلے سے ظالم کو کیسے بے نقاب کرے گا. اور میری قبر میں کون سوئے گا؟ جب کہ اللہ (ج) نے جب سے اس زمین کو خلق کیا، اسے میرے لیئے انتخاب کیا اور اسے میرے اور میرے محبین کیلئے پناھگاہ قرار دیا.ان کے اعمال وہاں قبول ہوتے ہیں اور ان کی دعا وہاں مستجاب ہوتی ہے. میرے شیعہ وہاں آباد ہوں گے اور دنیا و آخرت میں امن سے رہیں گے. لیکن تم لوگ ہفتے کے دن جو عاشور کا دن ہے میرے پاس آنا
ایک اور روایت میں ہے کہ جمعے کے دن آخری پہر میں جب میں مارا جاؤں اور میرے ساتھ میرے اہلبیت و اپنوں میں سے کوئی نہ رہ جائے، اس دن میرے پاس آنا.
جنوں نے کہا آپ کے امر کی مخالفت گناہ نہ ہوتا تو ہم آپ کے دشمنوں کو نابود کردیتے. امام (ع) نے فرمایا خدا کی قسم ہمارے اندر انہیں مارنے کی طاقت تم سے زیادہ ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اتمام حجت ہو


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 83 85


💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

توحید مفضل قسط ۳

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے👂🏾👂🏾
توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...

قسط 3⃣

🤔🤔 اعضاء کے جوڑے کیوں، ہاتھ ایک ہوتا کیا کافی نہ تھا؟

🤔🤔

انسانی جسم پر غور کریں ھر عضو دوسرے عضو کے مطابق بڑھتا ہے (یعنی ایسا نہیں کہ ٹانگیں تیزی سے بڑی ہوتی جائیں اور ھاتھ آھستہ آھستہ بڑے ہوں)
ھر عضو جس نسبت سے پیدائش کے وقت تھا اسی نسبت سے بڑھتا ہے.
انسان اس طرح خلق کیا گیا ہے کہ صحیح طریقے سے کھڑا ہو سکے، بیٹھ سکے انسان کے کھڑے ہونے پر غور کریں اگر یہ جانوروں کی طرح چوپایہ ہوتا اور زمین پر جانور کی طرح چلتا تو وہ کوئی کام نہ کر پاتا جو اس وقت کر پاتا ہے.

 

🤔 دوہاتھ کیوں؟

 

انسان کا اگر ایک ہاتھ ہوتا تو وہ بہت سے کام انجام دینے سے قاصر رہتا. ترکھان (بڑھئی/کارپینٹر) اور معمار ہی کی مثال لے لیں ان کا ایک ہاتھ فلج ہوجاتا ہے تو یہ بیچارے گھر بیٹھ جاتے ہیں کسی کام کے نہیں رہتے.

( *اگر باتیں دل پہ لگی ہیں تو* 🙏🏽 *خدا کا واسطہ نماز کی پابندی کرنا*)

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

میں جذباتی ہی صحیح!

میں جذباتی ہی صحیح!

 

تحریر: سیدہ عفت زہراء کاظمی 

(28 Muharam 2016. One day after Nazimabad (Khi) majlis firing)

امی کہتی ہیں کچھ خاص پہر ہوتے ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے اور کالی زبان والا شخص کبھی کسی کیلئے دعا کرے تو وہ دعا الٹی ہوکر قبول ہوتی ہے. میری امی کی باتوں پہ میں ھنستی ہوں لیکن جب پاکستان کے حالت دیکھتی ہوں تو لگتا ہے امی کی باتیں سچ ہیں. لمبی داڑھی والے کچھ حضرات نے نعرہ لگایا "کشمیر بنے گا پاکستان" شاید ان کی زبان کالی تھی کہ کشمیر پاکستان تو نہ بنا پاکستان کشمیر بن گیا. ھر طرف خون اور لاشے... اب تو یہ دھشتگرد اتنے بے حیا ہوگئے ہیں کہ عورتوں پر گولیاں چلاتے ہیں. ان کی نا مردی ثابت کرنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ بچوں اور عورتوں پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے. کراچی میں شیعہ مسلک کے لوگوں کو تو بڑی آسانی سے مارتے ہیں اس طرح جیسے مرغیاں ہوں، ویسے شیعہ علماء و قائدین نے بھی ہمیشہ شیعہ کو مرغی ہی بناکر پیش کیا ہے، تقاریر میں یہ جملہ بڑے جوش و جذبے سے سنائی دیتا ہے کہ ہمیں مارنے والو یاد رکھو ہم حلال جانور ہیں جتنا بھی مارو ہم ختم نہ ہوں گے تم حرام جانور ہو تم ھر روز کم ہوتے جاؤ گے ہم کم نہیں ہوں گے. یہ مجمعے سے نعرے سننے کیلئے بہت اچھا نکتہ ہے، عوام نعرے میں مصروف ہوجاتی ہے یہ بھی نہیں سوچتی کہ یہ نعرہ لگوا کر علماء بہت ساری ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں سے اٹھا کر دور پھینک دیتے ہیں. یعنی ذاکری نکتے بتا کر واہ واہ کروا کر، یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ مرتے رہو. کوئی "شہادت ہماری میراث ہے" کہہ کر شیعوں کو مرتے رہنے پر اکتفاء کی تلقین کر کے چلا جاتا ہے تو کچھ یہ کہتے ہیں کہ دیکھو صاحب ٹارگٹ کلنگ تو آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی شیعہ تو تب سے مر رہے ہیں! مطلب یہ کوئی اتنی بڑی اور نئی بات نہیں یعنی ہم نے آئمہ (ع) کی زندگی کی اتنی ورق گردانی کی ہے کہ اپنے پڑوسی شیعہ کے مرنے کی اور اس کی موت پر ہمارے چپ رہنے کی دلیل
بھی آئمہ (ع) کی زندگی سے نکال لائے!

چلیں علمائے کرام و اہل قلم ہمیں یہ نہ ہی بتائیں کہ یہ خونریزی کب و کیسے بند ہوگی لیکن اتنا تو بتانا ان کا فرض ہے کہ یہ جو سارا نزلہ ہم پر گرا ہے یہ بھارت کے شیعوں پر کیوں نہیں گرتا؟ وہاں روز شیعوں کی مسجد و امام بارگاہ میں دھماکے کیوں نہیں ہوتے. آپ کہیں گے وہاں طالبان نہیں ہیں، یعنی ہمیں طالبان و اس قسم کے دہشتگرد مار رہے ہیں، ٹھیک ہے قبول! اب یہ بتائیے یہ طالبان سب سے زیادہ پاکستان میں ہی کیوں دھماکے اور خونریزی کرتے ہیں؟ کیا ان کے آبا و اجداد کو ہم پاکستانیوں نے مارا تھا اس لیئے؟ آپ کہیں گے نہیں. تو کیوں؟ *یہ کون سوچے گا کہ ہم کیوں مر رہے ہیں*. *اس کیوں کا جواب نہ میڈیا دیتا ہے نہ اہل قلم*... کیونکہ جس کی غلطی کا خمیازہ یہ قوم بھگت رہی ہے وہ بہت طاقتور ہے کوئی اس کے خلاف چوں بھی نہیں بول سکتا. سب کو جاب اور جان پیاری ہے. کون پوچھے کہ صاحب طالبان کس نے بنائے؟ پاکستان کے کس پاکیزہ ادارے نے اسے دلیہ کھلا کر بڑا کیا. آپ شاید یہ کہیں کہ وہ دور الگ تھا. چلیں ہم یہ پوچھتے ہیں کہ افغانستان سے پہلے کتنے دھشتگرد پاکستان میں آ کر کاروائیاں کرتے تھے؟ 9\11 سے پہلے پاکستان میں کیوں دھماکے نہیں ہوتے تھے؟ آپ کہیں گے کہ آمریکا نے افغانستان میں آپریشن کیا اس لیئے. صاحب آپریشن آمریکا نے کیا بدلہ ہم سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ آپ کہیں گے کہ ہم نے آمریکا کا بھرپور ساتھ دیا. اچھا تو یہ بات ہے یعنی آپ نے اپنے اڈے و فوج آمریکا کو دیئے کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے؟
آپ کہیں گے جی ہاں! مجبوری تھی آمریکا کی پارلیامنٹ میں ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کر رکھا تھا جس سے ہمیں آمریکا فنڈ (خیرات) دیتا تھا ہم اس کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے، اسی پریسلر امیڈمنٹ میں لکھا ہے کہ آمریکا جس جس ملک کو خیرات دے رہا ہے یا جو جو آمریکا کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں کل اگر آمریکا جیسے "شریف" ملک پر کوئی آنچ آئی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے. نہیں تو خیرات کو قرض کا نام دے کر واپسی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے. سو ہم مجبور تھے. ہمیں آمریکا کی مدد کرنی تھی. ہم نے کی، آمریکا تو افغانستان سے دور تھا سو نزلہ اس تک تو نہیں پہنچ سکتا تھا پاکستان قریب تھا سو نزلہ پاک افغان بارڈر سے رینگتا ہوا پورے ملک میں پھیل گیا اور اسی نزلے نے ہمارا خون بہایا. ہم نے پریسلر امیڈمنٹ سائن کی اس کی سادہ سی اردو تشریح کچھ یوں کی جائے تو غلط نہ ہوگا:
*پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ! اس پاک وطن کے حکمران ہونے کے ناطے میں پریسلر امیڈمنٹ پر دستخط کرتا ہوں اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آمریکا جہاں بھی مظلوموں کا خون بہائے گا میرا ملک اس کا ساتھ دیگا، اور آمریکا کا اس ظلم میں ساتھ نبھانے کیلئے مجھے اپنے ملک کی گلیاں خون آلود دیکھنی پڑیں تو بھی مجھے فرق نہیں پڑے گا. مجھے آمریکا کے مفاد کیلئے لڑی جانے والی افغان جنگ کا نزلہ قبول ہے، کل جتنے بھی افغان دھشتگرد افغان جنگ کے انتقام کے طور پر کراچی سے کوئٹہ تک بم دھماکے کریں اور اس کے نتیجے کتنے بھی لوگ مریں لیکن مجھے اپنے کیئے ہوئے وعدے سے ہٹا نہیں سکتے*

ہم ان کے فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں جنہیں معلوم تھا کہ آمریکا کے مفادات کی جنگ میں حصہ لیکر دھشتگردوں کو آمریکا کیلئے مارنے کا سارا نزلہ ہم پر گرے گا، اور ہمارے معصوم بچے مارے جائیں گے پھر بھی انہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا. مجھے یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ وہ لوگ ہمارے محافظ تھے اور ہیں. شاید آپ مجھے جذباتی کہیں، اگر حقیقت لکھنا جذباتی ہونے کے مترادف ہے تو میں جذباتی ہی صحیح!

توحید مفضل قسط ۲

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے 👂🏾👂🏾
توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...

قسط 2⃣

🤔🤔 *پیدائش کے وقت بچہ نہ روتا تو کیا ہوتا؟*🤔🤔

بچوں کی آنکھوں میں پیدائش کے وقت ایک ایسی رطوبت ہوتی ہے جو اگر آنکھ میں رہ جائے تو بچہ اندھا ہوسکتا ہے یا کئی اس قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے.
بچے کے رونے سے یہ رطوبت اس کے جسم نے خارج ہو جاتی ہے...

*بچے کے منہ سے پانی بہنا*

اسی طرح کا پانی بچے کے منہ سے بہتا ہے، جس سے ایسی رطوبتیں خارج ہو جاتی ہیں کہ جو اگر جسم میں موجود رہیں تو بہت نقصاندہ ثابت ہوں.

اس لیئے آپ دیکھتے ہیں کہ جس انسان کے جسم میں یہ رطوبتیں بہت زیادہ ہو جاتی ہیں وہ پاگل ہوجاتا ہے.

اس لیئے اللہ (ج) نے ایسا نظام رکھا ہے کہ یہ رطوبتیں بچپن میں ہی جسم سے خارج ہو جائیں تاکہ بدن سلامت رہے.

*اللہ (ج) کی اتنی تو مان لو کہ اسے نماز پڑھ کر یاد کرلیا کرو...*

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

توحید مفضل (قسط ۱)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 دھیان سے👂🏾👂🏾
توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...

قسط 1⃣

🤔🤔 کیا ہوتا اگر بچہ پیدائش کے وقت عاقل و ھوشیار ہوتا؟🤔🤔

 

اگر بچہ پیدائش کے وقت سے ہی عاقل اور باھوش پیدا ہوتا تو اس جہان کو اچانک سے دیکھ کر پریشان ہو جاتا....
اسی طرح اگر بچہ عقلمند پیدا ہوتا تو پیدائش کے مراحل میں ذلت محسوس کرتا کیونکہ دیکھتا کہ کیسے ننگا آیا ہے اور اسے کیسے کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپیٹا جا رہا ہے اور اس کی ماں اسے اٹھا کر گھومتی ہے (کیونکہ خود چل پھر نہیں سکتا) اور اسے گہوارے میں سلایا جاتا ہے.
یہ سب اس بچے کیلئے مشکل و پریشان کن ہو جاتا اور اسے ذھنی اذیت پہنچاتا. لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہ ہوتا کیونکہ اس کا جسم کمزور ہے اور یہ چیزیں اس کے جسم کی حفاظت کیلئے لازمی ہیں.
اسی طرح اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو آس پاس کے افراد کا اس سے بچوں کی طرح پیار کرنا اس پر گراں گذرتا.
دوسری بات یہ کہ اگر ھر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو والدین کے تربیت کی جو مٹھاس ہے وہ اسے نصیب نہ ہوتی اور والدین بھی اس مصلحت سے محروم رہتے جو تربیت اولاد میں ان کیلئے موجود ہے.

بچے کی خدمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ آج والدین بچے کی تربیت کا خیال رکھیں کل جب اس کے والدیں بوڑھے ہوں تو اولاد اسے سنبھالےاگر والدین کو تربیت کا موقع نہ دیا جاتا تو کل اولاد بھی ان کا خیال نہ رکھتی اور وہ تنہا رہ جاتے.

اور اگر بچہ پیدائش سے ہی عاقل و تربیت یافتہ ہوتا تو والدین سے اس کی محبت نہ ہوتی کیونکہ والدین نے اس کی تربیت ہی نہ کی ہوتی.
اور اگر ایسا ہوتامحرم سے نکاح میں بھی اسے کوئی شرم محسوس نہ ہوتی کیونکہ وہ بہن بھائی کے ساتھ پل کر بڑا ہوا ہی نہیں.

(یہ ہی وجہ ہے کہ *اللہ (جل جلالہ)* نے اس انسان کو عاقل پیدا نہیں کیا. ثابت ہوا یہ انسان ایک منصوبے و پلاننگ کی تحت پیدا ہوا ہے. اور وہ پیدا کرنے والا *اللہ (ج)* ہے)


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*+989199714873*

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

توحید مفضل  (تعارف کتاب)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡 دماغ کی بتی جلاؤ💡💡
👂🏾👂🏾 کان کھول کر 👂🏾👂🏾
*توحید مفضل (منسوب بہ امام جعفر علیہ سلام) کی بات سنو...*

 


📘📘 کتاب کا تعارف 📘📘

 

جناب بات کچھ اس طرح ہے کہ *مفضل بن عمر جعفی* نامی ایک صحابی و شاگردِ امام جعفر صادق (ع)، قبر رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں ایک ملحد ابن ابو العوجاء اور اس کے ساتھی مفضل کے پاس آئے رسول (ص) کو ایک چالاک اور زرنگ فلاسافر کہا اور بولے اللہ (ج) ہے ہی نہیں سب خود بخود وجود میں آیا ہے. مفضل کہتے ہیں یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا میں نے کہا: کیا تم لوگ کافر ہوگئے ہو.
انہوں نے کہا تم جعفر بن محمد کے شاگرد ہو، وہ تو اس انداز سے بات نہیں کرتے.
مفضل کہتے ہیں میں غمزدہ ہوکر امام جعفر (ع) کے پاس آیا اور عرض کی کہ یہ لوگ کہتے ہیں اللہ (ج) ہے ہی نہیں وغیرہ... امام (ع) نے فرمایا کل صبح قلم و کتاب لانا تمہیں حکمت کے راز بتاؤنگا. مفضل کہتا ہے میں چار نشستیں امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے مجھے بہت سی باتیں لکھوائیں اور میں نے لکھ لیں.
👇🏽👇🏽👇🏽
نوٹ: اس کتاب کے مواد کی تمام علماء نے تائید کی ہے کی اس میں جو لکھا ہے وہ قرآن و مکتب اہل بیت (ع) سے مطابقت رکھتا ہے
لیکن
اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ کتاب واقعی مفضل کو امام جعفر (ع) لکھوائی یا نہیں.
*سو ہم احتیاطاً یہ کہیں گے کہ یہ کتاب امام (ع) سے منسوب ہے. کتاب کی باتیں سب سچ ہیں، لیکن کیونکہ کنفرم نہیں کہ یہ امام (ع) کی کتاب ہے سو ہم اسے مفضل کی کتاب شمار کریں*

سید ابن طاؤس نے اپنے بیٹے کو سفارش کی کہ یہ کتاب پڑھو، علامہ مجلسی نے اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے، محدث عباس قمی اور شیخ انصاری نے اسے بہت اچھی کتاب کہا ہے.


🚩یہ تھا تعارف اس کتاب کا کل سے ہم اس کی پہلی قسط پیش کریں گے.
ان شاء اللہ🚩

 

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

تشریح

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


🚩🚩🚩تشریح🚩🚩🚩


میرے سلسلے کربلا میں کیا ہوا کی قسط نمبر ۱۷ میں امام (ع) کی مندرجہ ذیل عبارت شامل ہے:

حسین (ع) نے مکہ سے نکلتے وقت ایک کاغذ منگوایا اور اس پہ لکھا:
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم حسین بن علی کی طرف سے بنی ھاشم کیلئے. اما بعد جو کوئی ہمارے ساتھ آئے گا شہید ہوگا اور جس نے کوتاہی کی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا. والسلام*
یہ الفاظ ہیں کامیابی نہیں دیکھے گا

اس پر بہت سے مومنوں نے سوال کیا کہ اگر امام (ع) نے کہا کہ جس نے میرا ساتھ نہ دیا وہ کامیاب نہ ہوگا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس جس نے امام (ع) کا ساتھ نہ دیا وہ گنہگار ہیں؟
شیخ محدث قمی نے اس کا جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے:
دشمن اسلام سے جنگ دو قسم کی ہے ایک کامقصد ہوتا ہے دشمن پر غلبہ پانا اسے جہاد دفاعی کہتے ہیں. دوسری قسم کی جنگ وہ ہے جب آپ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے لیکن آپ اپنی جان نثار کرنے کیلئے جاتے ہیں، جیسے حضرت جعفر طیار (ع) نے جنگ موتہ میں کیا. اس جہاد کو جہاد استماتہ (موت کی طرف جانا) کہتے ہیں. اس میں جس کی توفیق ہو وہ جائے. اس کا اجر بہت زیادہ ہے لیکن جو نہ جائے اسے گناہ نہیں.
امام حسین (ع) کا جہاد جہادِ استماتہ تھا جس کے لیئے جانے والوں کا اجر بہت زیادہ ہے لیکن نہ جانے والوں پر گناہ نہیں.
سو امام حسین (ع) کے یہ کہنا کہ جس نے کوتاہی کی وہ *کامیابی نہیں دیکھے گا* کا مطلب وہ کامیابی ہے جو منتقم آل محمد حضرت مہدی (عج) کو اور ان کے ساتھیوں کو نصیب ہوگی وہ انہیں نصیب نہیں ہوگی


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴


فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص209

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۷

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 17)

 
محمد بن حنفیہ اور امام حسین (ع)

سید ابن طاؤس (رض) فرماتے ہیں امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہے کہ اس رات جس کے اگلے دن حسین (ع) مکہ سے کوفہ نکلنے والے تھے، محمد بن حنفیہ ان کے پاس آئے اور انہیں جانے سے منع کیا. امام حسین (ع) نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہیں یزید مجھے اللہ (ج) کے گھر میں قتل کرڈالے اور بیت اللہ کی بے حرمتی ہو.
حنفیہ بولے اگر ایسا ہے تو یمن کی جانب چلے جاؤ، یا بیابان میں چلے جاؤ (یعنی کوفہ نہ جاؤ). امام (ع) نے فرمایا ٹھیک ہے میں آپ کی بات پر سوچوں گا.
صبح امام حسین (ع) کوفہ جانے لگے تو محمد بن حنفیہ نے ان کی سواری کی لغام پکڑ لی بولے اے بھائی کیا تم نے مجھ سے رات وعدہ نہ کیا تھا کہ میرے مشورے پہ غور کرو گے، تو پھر کیوں عراق جا رہے ہو؟
امام (ع) نے فرمایا آپ کے جانے کے بعد رسول اللہ (ص) میرے پاس آئے اور فرمایا اے حسین عراق کی طرف جاؤ کیونکہ اللہ (ج) تمہیں شہید ہوتے دیکھنا چاہتا ہے.
محمد بن حنفیہ نے انا للہ.... پڑھا اور بولے اگر شہید ہونے جا رہے ہو تو خواتین کو ساتھ کیوں لے جا رہے ہو. فرمایا: مجھے رسول (ص) نے فرمایا *ان اللہ قد شاء ان یراھن سبایا* اللہ (ج) ان عورتوں کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے. یہ سنا تو محمد حنفیہ چلے گئے.
یعقوب کلینی (رض) اپنی کتاب *رسائل* میں حمزہ بن حمران سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مجلس میں امام صادق (ع) موجود تھے، مجھ سے فرمایا اے حمزہ ایک ایسی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں کہ آئندہ کبھی تم مجھ سے محمد بن حنفیہ کے بارے میں سوال نہ کروگے. اور وہ حدیث یہ ہے:
حسین (ع) نے مکہ سے نکلتے وقت ایک کاغذ منگوایا اور اس پہ لکھا:
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم حسین بن علی کی طرف سے بنی ھاشم کیلئے. اما بعد جو کوئی ہمارے ساتھ آئے گا شہید ہوگا اور جس نے کوتاہی کی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا. والسلام*


🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 81 و 83


2.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص99

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۶

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 16)

 
مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے لوگوں کا امام (ع) کو منع کرنا

 

فردق کہتا ہے ساٹھ ھجری سال کو میں اپنی ماں کے ساتھ حج کیلئے مکہ گیا. جب میں مکہ پہنچنے والا تھا تو میں نے ایک قافلے کو مکہ سے خارج ہوتے دیکھا. میں نے پوچھا یہ قافلہ کس کا ہے بولے حسین ابن علی (ع) کا ہے. میں ان کی خدمت حاضر ہوا کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا بات ہے کہ سب مکے کی طرف آ رہے ہیں آپ مکہ سے جا رہے ہیں. آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خدا کی قسم مجھ سے اس طرح کبھی کسی نے تعارف نہیں لیا تھا. میں نے کہا میں عرب ہوں. فرمایا: بتاؤ کوفہ کے لوگ میرے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں. میں نے عرض کی کہ ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں آپ کے خلاف. امام (ع) فرمایا سب کچھ اللہ (ج) کے اختیار میں ہے. اس کے بعد میں نے انہیں دعا دی خداحافظی کی اور ہم جدا ہوئے.
جب آگے گئے تو یحی بن سعید بن عاص کچھ لوگوں کے ساتھ امام (ع) کے پاس پہنچے اور انہیں واپس لوٹنے کو کہا امام (ع) نے ان کی بات نہ مانی اور وہ واپس چلے گئے.
امام (ع) یمن کے ایک قافلے سے ملے ان سے کچھ اونٹ کرائے پر لیئے. اونٹ والوں سے فرمایا کہ اگر تم لوگ ہمارے ساتھ عراق چلو تو ہم تمہیں کرایہ بھی دیں گے خدمت بھی کریں گے. اگر نہیں تو آپ اختیار رکھتے ہیں کہ آدھے سفر سے لوٹ آئیں، ہم آپ کو وہاں تک کا کرایہ ادا کریں گے. لہذا کچھ اونٹ والے آپ (ع) کے ساتھ چلے.

شیخ مفید (رض) کے بقول اس موقع پر حضرت عبداللہ کے دو بیٹے عون و محمد (ع) بھی آپ کے کاروان کے ساتھ ملے. اور اپنے والد کا خط پیش کیا جس میں جناب عبداللہ (رح) نے امام (ع) کو یہ سفر ترک کرنے کامشورہ دیا تھا.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 79

۲. ارشاد شیخ مفید ص:415 سے 417 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص215 سے 217

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا  قسط 15

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 15)

 

حسین (ع) کی مکہ سے کوفہ روانگی

حسین (ع) نے تین ذی الحج یا بعض کے مطابق آٹھ ذی الحج سن ساٹھ ھجری کو مکے سے کوفہ کیلئے سفر شروع کیا. انہیں ابھی مسلم (ع) کے شہادت کی خبر نہ ملی تھی. کیونکہ جس دن امام (ع) نے مکہ چھوڑا اسی دن مسلم (ع) شہید ہوئے. سید ابن طاؤس لکھتے ہیں امام (ع) نے مکہ چھوڑنے سے قبل عوام کے سامنے کھڑے ہو کر اللہ (ج) کی حمد و رسول (ص) کی تعریف کرنے کے بعد کے بعد یہ خطبہ پڑھا:
اب آدم کی اولاد پر موت اس طرح ڈالی جاچکی ہے، جس طرح کسی عورت کے گردن میں اس کا ہار ہوتا ہے. میں اپنے بزرگوں سے ملاقات کا مشتاق ہوں بلکل اسی طرح جس طرح یعقوب (ع) کو یوسف (ع) کے دیدار کا اشتیاق تھا. میری شہادت کیلئے زمین منتخب ہو چکی ہے. مجھے وہاں پہنچنا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ بیابان کے بھیڑیئے نواویس و کربلا نامی زمین کے درمیان میرے اعضاء کو چیر پھاڑ رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے بھوکے پیٹ بھر سکیں....
بے شک اس لکھے سے فرار ممکن نہیں. *جس جس چیز پر اللہ (ج) راضی ہے ہم اھلبیت (ع) بھی اس پر راضی ہیں*. ہم اللہ (ج) کی جانب سے پڑنے والی مشکلات پر صبر کریں گے اور اللہ (ج) سے اس صبر کا اجر لیں گے.ہم تو نبی (ص) کے جسم کے ٹکڑے ہیں اس سے جدا نہیں ہوسکتے اور بہشت میں ان کے ساتھ ہوں گے.....
ھر وہ شخص جو ہمارے راستے پر چل کر جان فدا کرنا چاہے اور شہادت و اللہ (ج) سے ملاقات سے راضی ہو وہ ہمارے ساتھ آ جائے. کیونکہ ہم ان شاء اللہ کل صبح سویرے مکہ سے نکل جائیں گے.

 

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:77& 79


2.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص 206 207

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠

کربلا میں کیا ہوا قسط ۱۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 14)


مسلم بن عقیل (ع) اور ھانی بن عروہ (ع) کی شہادت

 

ابن زیاد نے بکیر بن حمران ملعون کو بلایا، اس کو مسلم (ع) پر اس لیئے غصہ تھا کہ طوعہ کے گھر کے باہر لڑتے ہوئے اس نے مسلم (ع) کی تلوار سے چوٹ کھائی تھی. ابن زیاد نے بکیر کو حکم دیا کہ مسلم بن عقیل (ع) کو دارالامارہ کی چھت پر لے جائے اور قتل کردے. شیخ مفید و سید ابن طاؤس نے لکھا ہے کہ چھت پر جاتے وقت مسلم (ع) مسلسل تسبیح خدا بجا لا رہے تھے اور استغفار کر رہے تھے.
سید ابن طاؤس لکھتے ہیں کہ مسلم کو مارنے کے بعد بکیر پر ایک وحشت طاری ہوگئی وہ خوف سے بھاگتا ہوا چھت سے نیچے آیا. ابن زیاد نے پوچھا خوفزدہ کیوں ہو. بولا میں جب مسلم (ع) کو قتل کر رہا تھا تو میں نے اپنے برابر میں ایک سیاہ بدصورت انسان دیکھا جو اپنے ہاتھ کو کاٹ کاٹ کر کھا رہاتھا.
ابن زیاد نے کہا یہ مسلم کے قتل سے تم پر وحشت طاری ہوئی ہے.

❗ یہ بات یاد رہے کہ شیخ مفید رض نے خود اور محدث قمی نے مسعودی و طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلم (ع) کو قتل کے بعد چھت سے نیچے پھینکا گیا. لیکن سید ابن طاؤس نے بلا واسطہ اس بات کو نقل نہیں کیا بلکہ بلواسطہ نقل کیا ہے یعنی سید نے عبداللہ بن زبیر اسدی کے اشعار نقل کیئے ہیں جس میں مسلم (ع) چھت سے نیچے پھینکنے والی بات مذکور ہے.

*ھانی بن عروہ (ع) کی شہادت*

شیخ مفید کے بقول مسلم (ع) کی شہادت کے بعد محمد بن اشعث نے ابن زیاد سے سفارش کی کہ ہانی (ع) کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ اس کے قبیلے بنی مذحج والے اس کے مخالف ہو جائیں گے. ابن زیاد نے اس کی بات مان لی. لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور کہا ھانی (ع) کو بازار میں کے جاکر ماردو. ھانی (ع) کو اپنے قبیلے بنی مذحج پر فخر تھا لیکن آخری وقت میں وہ مذحج کو پکارتے رہے لیکن کوئی ان کی مدد کو نہ آیا. ان کے ہاتھ بندھے تھے لیکن انہوں نے جوش میں آ کر رسیوں سے اپنے ہاتھ آزاد کروا لیئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کوئی ہے جو مجھے تلوار، نیزہ، یا پتھر دے کہ میں اپنا دفاع کروں. لیکن اتنے میں دشمن کے سپاہیوں نے پھر سے انہیں گھیر لیا اور ابن زیاد کے رشید نامی ترک غلام نے ھانی کی گردن اڑا دی.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے:
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص:75اور 77

۲. ارشاد شیخ مفید ص:412 سے 414 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص151 سے 152

💠💠💠💠💠💠💠💠
التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری
💠💠💠💠💠💠💠💠

دماغ کی بتی جلاؤ ۱۷

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡دماغ کی بتی جلاؤ💡💡

(قسط 17 )

 
*جعلی مصائب والی تاریخی کتب کا تعارف...* 


📙کتاب: ناسخ التواریخ
تالیف: محمد تقی سپہر

 
یہ عالم دین قاجاریوں کے دور کے ہیں. 1285 میں حاکم محمد شاہ قاجار کے کہنے پر انہوں نے ۹ جلدی تاریخ لکھی. یہ صاحب خود ہی اپنی کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب اس طرح لکھی ہے کہ پڑھنے والے کو اس میں سب کچھ ملے. اس لیئے مجھے جو بھی واقعہ جہاں سے ملا میں نے اس کتاب میں لکھ دیا.
اس کتاب کی بھی خاص بات یہ ہے کہ اکثر روایات بحار الانوار، روضۃ الشھداء، منتخب طریحی اور مقتل ابو مخنف وغیرہ سے لی گئی ہیں.
اس کتاب نے بھی بیبی زینب (س) کا محمل سے سر ٹکرانا، بیبی صغری (س) کی بیماری، امام حسین (ع) اور گھوڑے کی دریاء پر گفتگو وغیرہ... نقل کی ہیں.

📢 *اس کتاب نے ایک اضافہ یہ کیا کہ لکھا اسیران اھلبیت (ع) کا قافلہ کوفہ سے شام جا رہا تھا تو اربعین آگیا اور اھلبیت (ع) کربلا اربعین منانے گئے*

💎💎💎 عزاداری💎💎💎
ہمارے ایک برادر ہیں ان کے مرحوم والد صاحب فرمایا کرتے تھے مجھے اپنے گھر کی عورتیں بیچنی پڑیں تو بھی بیچ کر عزاداری کرواؤنگا.


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡


ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

دماغ کی بتی جلاؤ قسط 16

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡دماغ کی بتی جلاؤ💡💡

(قسط 16)

 
*جعلی مصائب والی تاریخی کتب کا تعارف...* 


📙کتاب: الدمعۃ الساکبہ
تالیف: محمد باقر بھبانی ( متوفی 1285 ھ ق)

 
قبلہ محمد باقر بھبانی نے معصومین (ع) کی زندگی پر متعدد جلدی کتاب لکھی ہے. جس کی دو جلدیں عاشورہ کے لئے مختص ہیں. آپ فاضل دربندی صاحب (مولف اسرار الشھادہ جس کا تعارف ہو چکا) کے شاگردوں اور مریدوں میں سے ہیں، کتاب میں فاضل دربندی سے نقل کرتے ہوئے "قال فاضل" لکھ کر بات شروع کرتے ہیں.
تعجب تب ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بھبانی صاحب نے اپنی کتاب کیلئے روایات کن کتب سے لی ہیں. چند ایک کے نام ملاحظہ فرمائیں:
منتخب طریحی، بحار الانوار، مقتل ابو مخنف، تظلم الزھراء، نور العین فی مشھد الحسین وغیرہ...
اور سب سے زیادہ نقل منتخب و مقتل طریحی سے کیا ہے.😳

*صاحب دمعۃ الساکبہ جن کتب سے نقل کیا ہے ان کتب کا تعارف ہم کروا چکے کہ ان کتب کی حیثیت کیا ہے اور ان میں کیا کیا لکھا ہے. لھذا یہاں وہ روایات دوبارہ پیش کرنا فضول ہے سو اب آپ دماغ کی بتی💡 جلا کر خود ہی اندازہ سکتے ہیں*

شیخ محمود عراقی نے دارالسلام میں بھبانی صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ فارسی مقاتل مثلا روضہ الشھداء اور محرق القلوب وغیرہ ہاتھ میں لے کر مجلس پڑھتے تھے عربی سے کم واقفیت تھی.


💎💎💎 عزاداری💎💎💎
آیت اللہ جواد تبریزی ایام فاطمیہ میں پاوں ننگے کر کے جلوس میں جایا کرتے.


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡


ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے!

*کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے!*

از قلم: محمد زکی حیدری

(21 Muharam 1437)

 

ظفر صاحب چہلم پر شہر کے مرکزی چوک پہ سب سے سخت و شدید خونی پرسہ دیتے ہیں. ھر سال کی طرح اس سال بھی لاہور سے زنجیر کا نیا دستہ منگوایا ہے، اور کچھ ہی دیر بعد چوک پر جلوس پہنچے گا سو وہ دستے کو تیار کر رہے ہیں. ان کا بارہ سالہ بیٹا مہدی و پچیس سالہ بھتیجا مرتضی کھڑے دیکھ رہے ہیں.

*مرتضی*: چاچو! اس بار تو یہ زنجیر کا دستہ دیکھ کر ہی ڈر لگتا ہے، پچھلی بار والا اتنا خطرناک نہیں تھا یہ تو جسم چیر کر رکھ دے گا.
*ظفر*: زنجیر مجھے مارنی ہے تکلیف تجھے کیوں ہو رہی ہے. پرسہ دینا ہے جتنا تم لوگ عزاداری کی مخالفت کروگے ہم اور زور شور سے کریں گے.
*مہدی*: ابو کیا دین یہ ہے کہ ہماری مرضی ہم جو کریں؟
*ظفر*: تم چپ رہو! اس مرتضی کے ساتھ رہ کر تمہاری عادتیں بھی بگڑتی جا رہی ہیں، کل ہی تمہیں بتایا تھا کہ یہ سنت شہزادی زینب (س) ہے انہوں نے محمل سے سر ٹکرا کر خونی ماتم کیا.
*مرتضی* : اچھا چاچو! مطلب بیبی نے بادشاہ زادیوں کی طرح محمل میں سفر کیا. یعنی یزید کو اھلبیت (ع) کا اتنا احترام تھا. پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ بیبی بغیر پالان والے اونٹ پر رسن میں بندھی شام لائی گئیں؟
*ظفر*: تم ابھی چھوٹے ہو بیٹا، قرآن پڑھو سورہ یوسف (ع) کی آیت نمبر ۳۱ جب مصر کی عورتوں نے یوسف (ع) کے حسن کو دیکھا تو اپنے ہاتھ چھری سے کاٹ ڈالے. نبی کے عشق میں چھری چلانا جائز امام سرکار مولا حسین (ع) کے عشق میں نا جائز؟ حد ہے مقصری کی!
*مرتضی* : چاچو ایک منٹ!
مرتضی نے موبائل میں اردو قرآن کا ترجمہ کھولا، کچھ سرچ کیا اور اپنے چچا کو موبائل دکھاتے ہوئے بولا: یہ دیکھیں چاچو! آیت نمبر ۳۱ کے بعد والی دو تین آیات پڑھیں خود حضرت یوسف (ع) ان عورتوں کو مکار کہہ رہے ہیں اور ان سے پناہ مانگ رہے ہیں. چاچو مکار عورت کی سنت کو زینب (س) کی سنت کہتے ہیں، کیا یہ زینب (س) کی اہانت نہیں چاچو؟
*ظفر*: بیٹا! خامنہ ای کے مرید! تو جو بھی بول عزاداری نہ تیری چِک چِک سے رکے گی نہ تیرے رھبر خامنہ ای کے فتوے سے. اچھا چلو مجھے یہ بتاؤ یا خامنہ ای سے پوچھ کر بتاؤ، قرآن کی کس آیت میں لکھا ہے کہ خونی پرسہ حرام ہے؟
*مرتضی* : چاچو! سید علی خامنہ ای تو مرجع ہیں، مجھے ان کا نہیں پتہ لیکن میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ تمہاری ایک اچھی بات کا بھی دشمن غلط مطلب لے تو اسے ترک کردو یا بدل دو!
*ظفر*: ھاھاھا! یہ قرآن سے آج تک کسی نے حرام ثابت نہیں کیا تم بڑے مجتھد بن گئے ہو، آیت اللہ سید مرتضی رضوی. ھاھا!
مرتضی کے چچا قہقہے لگانے میں مصروف تھے کہ اتنے میں پھر موبائل میں قرآن کی آیت دکھاتے ہوئے مرتضی نے کہا: چاچو یہ پڑھیں *سورہ بقرہ آیت ۱۰۴، اس میں ہے کہ کفار لفظ راعنا (ہمیں مہلت دو) کو رعونہ (ہمیں بے وقوف بناؤ) سمجھ کر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اللہ (ج) نے آیت نازل کی کہ راعنا مت کہو انظرنا کہو! تاکہ مشرکوں کو دین کی اہانت و تمسخر کا موقع نہ ملے. چاچو آج آپ کی یہ خونی ماتم کی وڈیوز دنیا بھر میں جاتی ہیں، اسلام و تشیع کے دشمن مذاق اڑاتے ہیں، اہانت کرتے ہیں، کیا یہ وہی صورتحال نہیں جو قرآن کی سورہ بقرہ آیت ۱۰۴ میں بیان کی گئی ہے؟ کیا بدنامی کا سبب بننے والی اس رسم کو ترک نہیں کیا جاسکتا؟*
*ظفر*: کس بات کو کس سے ملا دیا ھنھ...
*مہدی*: ابو ایران و باقی ممالک میں تو شیعہ لوگ خون ہسپتال میں جمع کرواتے ہیں تاکہ خون کسی کے کام آئے.
*ظفر*: بیٹا تم سے کہا ہے نہ کہ بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے اور تمہاری ماں کو خون کی کمی والا مرض ہے ھر ماہ ایک بوتل خون لگتا ہے، سرکار مولا عباس (ع) کے کرم سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خون نہ ملے. *کوئی نہیں مرتا خون نہ ملنے سے* سب مقصروں کی باتیں ہیں!
اچھا اب میں جا رہا ہوں، مرتضی تم مہدی کو ساتھ لے کر اس کی امی کی دوائیاں اسے دے آنا اور کال مت کرنا میرا موبائل گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں پرسہ دینے!
یہ کہہ کر تینوں باہر نکلے ظفر صاحب اپنے دوست کے ساتھ چوک کی طرف گئے. مہدی اور مرتضی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر میڈیکل اسٹور جانے لگے.

میڈیکل اسٹور سے واپس ہی آرہے تھے کہ مہدی کو موٹر سائیکل چلانے کا شوق ہوا بولا: مرتضی بھائی مجھے بائیک چلانے دیں. مرتضی پیچھے بیٹھ گیا اور بولا: احتیاط سے چلانا! مستی مت کرنا. لیکن مہدی بچہ تھا اسے مستی سوجھی، گلی خالی دیکھی تو اچانک سے موٹرسائیکل کی رفتار بڑھا دی، ایک گلی سے اچانک تیز رفتار کار نکلی اور زور سے موٹر سائیکل سے ٹکرائی. مہدی کیونکہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا تو فٹ پاتھ پر دور جا کر گرا. مرتضی کو اتنی زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن مہدی کے سر پر گہری چوٹ آئی اور تیزی سے خون بہنے لگا اور وہ اسی وقت بے ھوش ہوگیا. لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈالا. مرتضی کو ھوش تھا اس نے دوستوں و رشتہ داروں کو فون گھمایا کہ فلاں ھسپتال پہنچو جلدی!
مہدی کو انتہائی نگھداشت میں رکھا گیا تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز نے کہا خون بہت بہہ چکا ہے بچہ کمزور ہے لہٰذا جلد از جلد خون کا انتظام کریں. ایک بوتل بلڈ بینک سے لی لیکن خون زیادہ درکار تھا اور مہدی کا بلڈ گروپ بھی او نیگیٹو تھا جو کہ نایاب تھا. مرتضی کے دوست اور کزن آئے کسی کا گروپ او نیگیٹو نہیں تھا، خاندان والے مہدی کی امی کیلئے خون دے دے کر اتنے تنگ آچکے تھے کہ اب ان سے خون مانگنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا. مرتضی کو یاد آیا کہ اس کے چچا ظفر کا بلڈ گروپ او نیگیٹو ہے سو اس نے اپنے کزن علی و اسد کو چاچو کی طرف بھیجا. وہ دونوں تیزی سے موٹر سائیکل پر سوار ہوئے اور چوک کی طرف چل دیئے. چوک پر جم غفیر موجود تھا، جلوس کیلئے سخت حفاظتی انتطامات کی وجہ سے پولیس موٹر سائیکل سواروں کو چوک سے پہلے ہی روک رہی تھی. علی و اسد نے موٹر سائیکل دور کھڑی کی اور تیزی سے چوک کی طرف بھاگنے لگے. وہ ھجوم کو چیرتے ہوئے، لوگوں کو دھکے دیتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے. چھریوں کی چھن چھن... عرق گلاب کی خوشبو اور یا حسین یا حسین کی مخصوص صدائیں بتا رہی تھیں کہ زنجیر زنی شروع ہو چکی ہے. علی حلقۂ ماتم کے بہت قریب پہنچ چکا تھا، اس نے اپنے چاچو ظفر کو ماتمیوں کے بیچ کھڑے ہو کر خوب زنجیر زنی کرتے دیکھا. اس نے حلقے میں جانا چاہا کہ ایک موٹے شخص نے اسے روک دیا. وہ اس سے چھڑا کر اندر گیا. چھریوں کی چھن چھن اور یا حسین یا حسین کی صدائیں، زمین پر دور دور تک خون کے چھینٹے ... علی گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اپنی ہتھیلیوں کے سہارے کسی چوپائے جانور کی طرح خود کو چھریوں سے بچاتا ہوا اپنے چاچو کے پاس پہنچا.
اس کا چہرا بھی خون کے قطروں سے لال ہوگیا.
آخرکار وہ اپنے چچا کے پیروں تک پہنچ گیا. اس نے بہت چلا چلا کر کہا چاچو! چاچو! لیکن چھریوں کی چھن چھن اور شور یا حسین یا حسین میں اس کی صدا گم ہوگئی. اس نے ظفر کی شلوار زور سے کھینچی. لیکن ظفر سمجھا شاید وہ اس سے دستہ چھیننے آیا ہے کہ بس کردو بہت ہوا پرسہ. سو اس نے علی کی طرف دھیان نہ دیا اور جوش میں یا حسین!!! ... یا عباس!!!...یا حسین!!! یا عباس!!! کی فلک شگاف صدائیں بلند کرتا ہوا اپنے پیٹھ کو تیز دھار چھریوں سے چھلنی کر رہا تھا. اس کی پیٹھ اور شلوار لال ہو چکی تھی. علی اب رونے لگا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا چاچو مہدی! چاچو مہدی کو بچالو! لیکن ظفر ہائے سکینہ ہائے پیاس...!!! ہائے سکینہ ہائے پیاس...!!! کہتے ہوئے اپنی پیٹھ پر زنجیر کے وار کر رہا تھا... چھریوں نے اس کے پیٹھ پر بڑے بڑے شگاف ڈال دیئے جن سے خون فواروں کی مانند بہہ رہا تھا. اچانک علی نے محسوس کیا اس کے چچا کے ماتم کی رفتار دھیمی پڑ گئی اس نے دیکھا کہ چچا کو چکر آ رہے ہیں. تھوڑی دیر بعد ظفر میاں زمین پر گر گئے امدادی جوان آئے اور انہیں اٹھا کر چوک پر لگے طبی امدادی کیمپ تک لے گئے. خون بہت بہہ رہا تھا کیمپ پر موجود ڈاکٹر نے مشورہ دیا ھسپتال لے جاؤ اسٹچز لگیں گے. ظفر کو ایمبولینس میں ڈالا گیا
علی بھی ایمبیولینس میں بیٹھا. ظفر کو انتہائی نگہداشت میں لے جایا گیا.
تھوڑی دیر بعد جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھاکہ ھسپتال اس کے دوست و احباب سے بھرا ہے اور سب رو رہے ہیں. اس نے تعجب سے رونے کی وجہ پوچھی تو کسی نے برابر میں رکھے بیڈ پر اس کے بیٹے مہدی کے جنازے کی طرف اشارہ کیا.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

دماغ کی بتی جلاؤ ... قسط ۱۵

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


💡💡دماغ کی بتی جلاؤ💡💡

(قسط 15)

 
جعلی مصائب والی تاریخی کتب کا تعارف...


📙کتاب: تظلم الزھراء من اھراق دماء آل العباء
تالیف:ملا رضی قزوینی ( 1134 ھ ق میں زندہ تھے)

 
ملا قزوینی کی اس کتاب کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں ملتی، یہ ایک ہی کتاب ہے جس کا ذکر ملتا ہے اور رجال میں اس شخص کو مجالس پڑھنے والا ایک *ذاکر* لکھا گیا ہے. اس نے اپنی کتاب میں لہوف ابن طاؤس کی طرز اپنائی ہے لہوف سے بعض روایات نقل کرنے کے ساتھ ساتھ کثرت سے بحار اور منتخب طریحی سے بھی روایات نقل کی ہیں. مولف نے اکثر روایات بحار الانوار سے لی ہیں. (ہم جانتے ہیں کہ بحار ایک ان سائیکلوپیڈیا ہے جس کی ھر روایت معتبر نہیں)
مرحوم واعظ خیابانی نے ان پر بہت تنقید کی ہے اور اس کتاب کی بہت سی روایات کو من گھڑت کہا ہے.

❗❗❗❗❗❗❗❗

اس کتاب کی کچھ جعلی روایات

❗❗❗❗❗❗❗❗

 

❌ بیبی فضہ اور شیر کا قصہ

❌امام حسین (ع) اور ان کے گھوڑے کی نہر فرات پر پہلے پانی پینے کے متعلق گفتگو کہ گھوڑا بولا پہلے آپ پیو، فرمایا میں نہیں تم پیو. آخر دونوں میں سے کسی نے بھی نہ پیا.


❌امام حسین (ع) نے دس ھزار یزیدی مارے.

❌ کربلا میں ظلم پر گھوڑوں کا رونا

❌بیبی فاطمہ صغری (س) کا قصہ کہ مدینہ میں بیمار تھیں

❌مسلم بن جصاص کی روایت کہ زینب (س) نے محمل سے سر ٹکرایا

❌اھلبیت (ع) شام سے کربلا واپس گئے

 

💎💎💎 عزاداری💎💎💎
آیت اللہ مرعشی نجفی کے متعلق بزرگ فرماتے ہیں جلوس میں شرکت کرتے اور ماتمی حلقے میں عزاداروں کے ساتھ ماتم کیا کرتے.


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

*_arezuyeaab.blogfa.com_*

💡💡💡💡💡💡💡💡💡