آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔۔امام محمد باقر (ع) کا ذریعہ معاش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 4


امام محمد باقر (ع) کا ذریعہ معاش



حضرت امام باقر(ع) موقوفات امام علی (ع) کے سرپرست و متولی تھے اور لوگوں کے امام ہونے کے باوجود اپنی محنت مزدوری سے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے تھے. وہ چاہتے تو گھر بیٹھ کر کھا سکتے تھے مگر پھر بھی وہ کام کرتے تھے.

اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ایک ہی روایت کافی ہوگی.
روایت ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: محمد بن منکدر نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ امام زین العابدین (ع) کے بعد کوئی بڑی شخصیت اس دنیا میں موجود ہو، اس وقت تک کہ جب میں ان کے بیٹے محمد بن علی (امام باقر) سے ملا. میں نے سوچا میں انہیں نصیحت کروں مگر اس نے مجھے نصیحت کر دی. محمد بن منکدر کے دوستوں نے کہا وہ بھلا کیسے؟ منکدر نے کہا: ایک دن جب موسم بہت گرم تھا میں مدینہ کے اطراف میں گیا تو مجھے محمد بن علی ملے جو کہ دو دوسرے افراد کے ساتھ تھے، اور اس موسم میں مدینے سے باہر کام کیلئے نکلے تھے. مجھے تعجب ہوا کہ قریش کا یہ بوڑھا شخص اس موسم میں اور اس حال میں دنیاداری کیلئے مدینے سے باہر آیا ہے. لہٰذا میں نے سوچا اسے نصیحت کروں.
میں اس کے پاس گیا سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا جب کہ پسینے سے شرابور تھا. میں نے کہا اللہ (ج) تمہیں ھدایت دے یہ کیا طریقہ ہے، قریش کا بوڑھا شخص اتنے گرم موسم میں دنیا کی تلاش میں ہے اگر اس حالت میں تمہاری موت ہوگئی تو اللہ (ج) کو کیا منہ دکھاؤ گے؟
محمد بن علی (امام باقر) نے جواب دیا: اگر اس حال میں مجھے موت آجائے تو میں اطاعت الہٰی میں مرا. میں اس کام کے ذریعے اپنے اور اپنے خاندان کو تم اور تم جیسے دیگر انسانوں کی محتاجی سے بچاتا ہوں. میں اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ جب میں گناہ کرنے میں مشغول ہوں اور مجھے موت آجائے. کام کرتے موت آنا عبادت کرتے ہوئے مرنے کے مترادف ہے.
میں نے اس سے کہا: اللہ (ج) تم پر رحم کرے تم نے درست فرمایا. میں نے سوچا تمہیں نصیحت کروں مگر تم نے مجھے نصیحت کردی.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام باقر (ع) بھی محنت مزدوری کرتے تھے.

حوالہ:
وسايل الشيعه ج 12 ص 9 باب 4 ح 1 كتاب التجاره، ابواب مقدمہ)

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔امام جعفر صادق (ع)

سم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 5



امام جعفر صادق (ع) کا ذریعہ معاش




زراعـــــــت



امام صادق(ع) بھی امام باقر (ع) کی طرح اگرچہ متولي و سرپرستِ موقوفات علي و فاطمه عليہم السلام تھے مگر پھر بھی ذاتی طور پر بیلچہ ہاتھ میں لیئے کھیتی باڑی کرتے دکھائی دیتے تھے. اس کے علاوہ مضاربہ (انویسٹمنٹ) کے ذریعے تجارت سے پیسہ کماتے تھے.
عبدالاعلی کہتا ہے: ایک دن اطراف مدینہ میں شدید گرم موسم میں راستے میں مجھے امام جعفر (ع) ملے، میں نے عرض کی: قربان جاؤں آپ اتنے عظیم مرتبے پر فائز ہیں اس کے باوجود اس شدید گرمی میں کیوں اپنے آپ کو زحمت میں ڈال رہے ہیں.؟
امام (ع) نے فرمایا: اے عبدالاعلی! میں یہاں کام کرنے آیا ہوں، تاکہ حلال رزق کما کر عوام کی محتاجی سے بچوں. (۱)


ابو عمرو شيبانی کہتا ہے: ایک دن میں نے گرمی کے موسم میں امام صادق (ع) کو دیکھا کہ بیلچہ ہاتھ میں لیئے، چہرے کو ایک موٹے کپڑے سے لپیٹے ہوئے، اپنے باغ میں کام کر رہے تھے اور پسینہ بہا رہے تھے. میں نے عرض کی: آپ پر قربان جاؤں بیلچہ مجھے دیں میں آپ کی جگہ کام کروں. امام (ع) نے جواب دیا: مجھے یہ بات پسند ہے کہ انسان اپنے گذارے کیلئے خود گرمی کے موسم میں کام کرنے کا مزہ چکھے. (۲)

ابو بصير فرماتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے سنا آپ نے فرمایا: میں اپنے بعض باغات میں کام کرتا ہوں اور پسینہ بہاتا ہوں جب کہ بہت سے ایسے افراد ہیں جو میرے لیئے یہ کام کر سکتے ہیں مگر میں خود یہ کام کرتا ہوں کہ اللہ (ج) گواہ رہے کہ میں اپنا رزق حلال کمانے کیلئے خود کوشش کر رہا ہوں. (۳)


تـــجــــــارت

محمد بن عذافر اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
امام صادق (ع) نے 1700 دینار میرے والد کو دیئے اور فرمایا: اس سے تجارت کرو. مزید فرمایا: میں منافع کی لالچ نہیں رکھتا بس چاہتا ہوں کہ اللہ (ج) دیکھ لے کہ میں رزق حلال کی تلاش میں ہوں. میرے والد فرماتے ہیں: میں نے یہ 1700 دینار امام (ع) سے لے کر تجارت کی اور 100 دینار منافع لاکر امام (ع) کی خدمت میں پیش کیا. امام (ع) خوش ہوئے اور فرمایا کہ اسے بھی سرمایہ گذاری میں لگا دو اور مزید تجارت کرو.
میرے والد امام (ع) کے سرمایہ سے تجارت کیا کرتے اور اسی دوران ان کا انتقال ہوا. اور امام (ع) کا پیغام آیا کہ ہمارے 1800 دینار عمر بن یزید کو دے دیئے جائیں. (۴)

یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) کسب رزق حلال کیلئے کھیتی باڑی کے علاوہ تجارت بھی کیا کرتے تھے.

 نــــکتـــــہ

ان باتوں پہ نعرے تو نہیں لگیں گے مگر ان پر عمل کر کے ہماری زندگی کو چار چاند ضرور لگ جائیں گے

حــــــوالے:
۱- وسائل الشیعہ ج 12 ص 10 ح 2
۲- ایضا، ص 23 ح 7 باب 9
۳- ایضا، ص23 ح 8
۴- ایضا، ص 26 باب 11 ح اول)،

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔ امام موسی کاظم اور امام رضا (ع)۔۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 6



امام موسیٰ کاظم (ع) کا ذریعہ معاش



امام موسی کاظم (ع) گوکہ ایک طویل مدت تک اسیر رہے آپ کے خاندان کی کفالت خفیہ طور پر امام (ع) کے شیعوں کی طرف سے ہوتی تھی مگر روایات میں ہمیں ملتا ہے کہ آپ (ع) بھی اپنے اجداد کی سنت پر چلتے ہوئے خود کام کیا کرتے تھے.
علی بن ابی حمزه فرماتے ہیں:
امام موسی کاظم (ع) اپنی زمینوں میں کام کر رہے تھے اور پسینہ بہا رہے تھے میں نے جا کر عرض کی کہ آپ کے دوست کہاں ہیں (کہ آپ خود کام کر رہے ہیں) امام (ع) نے فرمایا: اے علی! مجھ بہتر لوگوں نے زمینوں میں کھیتی باڑی کی ہے. علی نے کہا: قربان جاؤں آپ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ فرمایا: رسول اللہ (ص)، علی (ع) اور میرے اجداد. اور کھیتوں میں کام کرنا انبیاء، ان کے اوصیاء اور صالحین کی سنت ہے. (۱)

ابن مغیث قرظی لکھتے ہیں: آفت زدہ زمینیں امام (ع) کے توسط سے سنواری جاتیں، غریبوں کی اطلاعات کی جمع آوری کا کام جو سب سے پہلے علی (ع) نے کیا، امام موسی کاظم (ع) نے اسے توسیع دی. آپ بدخواہ اور عیب جوئی کرنے والوں کو محنت و سخاوت اور عفو و درگذر سے شرمندہ کیا کرتے تھے.(۲)



امام رضا (ع) کا ذریعہ معاش



امام رضا(ع) ایک بہترین دانشور، طبیب اور کسان تھے. آمدنی کے لحاظ سے اقتصاد کے ماہر تھے. عرفہ کے دن اپنا سارا مال انفاق کر دیا کرتے، ہمیشہ ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرنے کی فکر میں رہتے. اپنا مال انہیں بخش دیتے اور ہمیشہ لوگوں کو تجارت و کاشتکاری کی ترغیب دلاتے اور نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے مدد کرتے. (۳)

حــــــوالے:

۱- همان، ص 23 ج 6، باب 9
۲- مجلہ معارف/مہر ۱۳۶۹ بخش مدیریت زمان
۳- حلیه الأبرار و مجلہ معارف/مہر ۱۳۶۹ بخش مدیریت زمان

میری شادی اور مولانا جنتروی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



میری شادی اور مولانا جنتروی

(افسانہ)

از قلم: محمد زکی حیدری



مجھے میری خالہ کی بیٹی بتول پسند تھی، وہ گاؤں میں رہتی تھی، لڑکی مذھبی تھی صوم و صلاۃ کی پابند اور گاؤں کے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتی تھی. جب میں نے امی سے اس دلچسپی کا اظہار کیا تو امی اور ابو نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ وہ گاؤں کی لڑکی ہے اور ہم شہر کے، وہ شہر کے ماحول میں "ایڈجسٹ" نہیں کر پائے گی. بھرحال امی ماں تھی، ماں اولاد کی خوشی کیلئے سب کچھ کر گذرتی ہے لہٰذا وہ مان گئیں لیکن ابا کو منانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا. امی اور ایک مہربان چاچو کی مدد سے بڑی محنت کے بعد ابا اس شرط پر راضی ہوئے کہ ماہر علم ابجد و علم جفر مولانا فصیح رضا جنتروی صاحب قبلہ سے ابجد کا حساب کروائیں گے، اگر حساب ٹھیک بیٹھا تو رشتہ ہوگا ورنہ نہیں. میں نے سوچا میری نیت صاف ہے ابجد کے اعداد میرے حق میں ہی آئیں گے. بالقصہ ابجد کا حساب ہوا، مولانا جنتروی صاحب نے لڑکی کا نام پوچھا تو لڑکی کے دو نام تھے شناختی کارڈ میں فرزانہ اور گھر میں بتول! ابا نے سوچا کہ اصلی نام تو کارڈ والا ہی ہے سو وہ ہی نام مولانا کو بتادیا. ابجد کا حساب لگایا گیا تو مولانا جنتروی صاحب نے کہا کہ "اوہ ہو ہو! یہ حساب تو بلکل صحیح نہیں بیٹھ رہا، صرف رنج و الم و مصائب ہوں گے بیٹے کی زندگی میں" ابا جو پہلے ہی اس رشتے سے راضی نہیں تھے انہیں تو جیسے منہ مانگی مراد مل گئی، کہنے لگے بیٹا جنتروی صاحب علم جفر و ابجد پہ مسلط ہیں، ان کا حساب کتاب کبھی نہیں چونکا لہٰذا یہ شادی نہیں ہو سکتی.

میں ایک بار پھر چاچو کے پاس گیا. چاچو ان چیزوں پہ کم اعتقاد رکھتے تھے اور ان کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ وہ اگلے شخص کی کمزوری پکڑ کر اسے قائل کرنے کے سارے گر جانتے تھے، لہٰذا انہوں نے ابو سے کہا "بھائی فرزانہ تو ایسے ہی اسکولی نام ہے، اسکولی ناموں میں بھلا کیسی برکت! جب کہ اصل نام تو بتول ہے. اور بتول بڑا مبارک نام ہے، بھائی آپ نے فرزانہ نام کو منتخب کرکے بتول جیسے بابرکت نام کو رد کیا ہے، اب آپ ہی بتائیے ابجد کے حساب میں خاک برکت ہوگی. آپ جنتروی صاحب سے کہیں کہ بتول کے نام سے ابجد کا حساب لگا کر بتائیں کہ جوڑا کیسا رہے گا." چاچا کی بات میں وزن تھا لہٰذا ابا نے سوچا واقعی بتول جیسے اسم مبارک کو رد کرکے انہوں کچھ اچھا نہیں کیا. اگلے دن وہ دوبارہ جنتروی صاحب کے پاس پہنچے اور بتول کے اسم سے ابجد کا حساب لگانے کی مانگ کی. اس بار اللہ (ج) کے فضل سے ابجد کا حساب ٹھیک آیا. لہٰذا ایک ہی لڑکی جو ایک نام سے میرے لیئے تباہی کا باعث بن رہی تھی دوسرے نام سے رحمت کا فرشتہ بن گئی.

مجھے خوشی تھی کہ پہلا مرحلہ بخوبی گذر گیا. میرے گھر والے جب رشتہ لینے گئے تو لڑکی والے بیچارے شریف تھے، انہوں نے ہاں کردی اور کہا کہ ہماری بیٹی آپ کی بیٹی ہے جب چاہیں نکاح کریں. ابو نے کہا کہ بھئی مولانا جنتروی صاحب سے مل کر جنتری دیکھیں گے کہ کون سی تاریخ مبارک ہے اس دن نکاح رکھ دیں گے. چاچو یہ بات سن کر مسکرا کر مجھے دیکھنے لگے، ہم دونوں دل ہی دل میں جنتروی صاحب کو کوس رہے تھے. خیر اب ابا حضور جب جنتروی صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے ستاروں کا حساب کتاب لگا کر کہا کہ اس وقت زھرہ عقرب میں گھسا ہوا ہے لہٰذا ایک ماہ تک شادی کرنا لڑکے کیلئے خطرہ کا باعث ہے. ابا نے گھر آکر کہا کہ ایک ماہ تک نکاح کی بات بھی نہیں ہوگی گھر میں! لہٰذا شادی کا سارا جوش و خروش ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا.

ایک ماہ بعد جب ابا نے مولانا جنتروی صاحب کے در پہ دستک دی تو معلوم ہوا کہ موصوف عمرہ، کربلا و شام کی زیارات پر گئے ہوئے ہیں، جب لوٹیں گے تو ہی کچھ ہوگا. ہم نے ابا سے کہا کہ لازمی نہیں جنتروی صاحب ہی جنتری دیکھ کر تاریخ دیں یہ کام تو کوئی بھی مولانا صاحب کر سکتے ہیں، مگر ابا کی جنتروی صاحب سے عقیدت تھی لہٰذا وہ ٹس سے مس نہ ہوئے. ہم سب چپ چاپ منتروی صاحب کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے.
ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب جنتروی صاحب آئے تو ان کی طبیعت ایسی ناساز ہوئی کہ وہ چارپائی تک ہی محصور ہو کر رہ گئے. اور اتنے میں محرم و صفر کا مہینہ آن پہنچا لہٰذا سوا دو ماہ پھر صبر کے میٹھے پھل کے انتظار میں گذارنے پڑے.

ربیع الاول کی دس تاریخ کو ابا نے جنتروی صاحب کے پاس جاکر نکاح کے دن کے بارے میں پوچھا تو موصوف نے جنتری دیکھ کر تین چار دن نحس بتا کر ایک دن مبارک بتایا لیکن یہ بھی تاکید کی کہ اگر اس دن نکاح نہ کیا تو اگلے کچھ دن پھر شادی بیاہ کیلئے نحس ہیں. بھرحال چار ماہ بعد آخر میرے نکاح کی مبارک تاریخ مل ہی گئی. لیکن اب امی نے مسئلہ کھڑا کر دیا کہا کہ بھئی نکاح نہیں پہلے منگنی ہوگی. چاچو اور میں چاہتے تھے کہ منگنی کے ساتھ ساتھ ہی نکاح ہو جائے. جب بحث نے طول پکڑا تو ابا فرمانے لگے "بھئی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جنتروی صاحب سے استخارہ دکھواتے ہیں کہ نکاح کریں یا منگنی" پھر جنتروی صاحب!!! بالقصہ ابا ایک بار پھر جنتروی صاحب کے یہاں گئے کہ قبلہ استخارہ دیکھ دیجیئے. جنتروی صاحب نے بتایا کہ منگنی کیلئے استخارہ بہت برا آیا ہے البتہ نکاح کیلئے بہتر آیا ہے. لہٰذا یہ طے پایا کہ ۹ رجب المرجب کو نکاح ہوگا. گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، نکاح کے جوڑے، زیورات اور دیگر لوازمات کا انتظام ہونے لگا اور یہ قرار پایا کہ ۹ رجب المرجب کو ہم لڑکی والوں کے گاؤں جا کر نکاح کی رسم انجام دیں گے. میں نے پچھلے چار پانچ ماہ میں پہلی بار سکھ کا سانس لیا تھا کہ شکر ہے دیر آید درست آید نکاح تو ہونے جا رہا ہے.

گھر میں نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں، بھانجی بھتیجیوں نے ہاتھوں پر مہندی کے نت نئے ڈزائن بنوا لیئے تھے، میں نے مہنگے کڑتے کو دبئی سے منگوائے ہوئے اعلی معیار و گراں قیمت پرفیوم سے معطر کر رکھا تھا کہ 6 رجب کو علی الصبح گاؤں سے فون آیا کہ لڑکی کی دادی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں. لہٰذا ۹ رجب کو نکاح کی مٹھائی کھانے کی بجائے ہم مرحومہ کے سوئم کی بریانی کھا رہے تھے اور سوچ رہے تھے ابا پھر کب جنتروی صاحب کے ہاں جائیں گے.

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع ۔۔۔امام علی نقی (ع)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




آئمہ (ع) اور نعرے نہ لگنے والی باتیں

آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع


قسط 8: (آخری قسط)



امام علی نقی (ع) کے ذرائع آمدنی



اب تک جو آئمہ (ع) کے ذرائع آمدنی ہم نے پیش کیئے ہیں ان میں سے ایک اہم ذریعہ وہ نقدی تحفے بھی ہیں جو آئمہ (ع) کو ملتے تھے. امام علی نقی (ع) کے بارے میں ان ھدایا کی بہت سی روایات ملتی ہیں. یہ تحائف نہ فقط شیعہ یا مسلمانوں بلکہ دیگر ادیان کے لوگوں کی طرف سے بھی موصول ہوتے تھے اور آئمہ (ع) انہیں قبول کر لیا کرتے تھے.

متوکل عباسی کی والدہ کی نذر

روایات میں ملتا ہے کہ متوکل شدید بیمار ہو گیا. اس کی والدہ نے نذر کی کہ اگر متوکل کو شفا ملی تو وہ امام علی نقی (ع) کو دس ھزار دینار دے گی. لہٰذا جب اسے شفا ملی تو اس نے امام (ع) کو نقدی بھیج دی. (۱)

نصرانی کی نذر


ابی منصور موصلي نقل كرتا ہے کہ يوسف بن يعقوب نصراني كاتبنيز کہ جسے متوکل نے بلوایا تھا اور وہ اس بات سے ڈرا ہوا تھا لہٰذا اس نے نذر کی کہ اگر متوکل کے خشم سے محفوظ رہا تو امام علی نقی (ع) کو سؤ دینار دیگا. اور ایسا ہی ہوا اور اس نے امام (ع) کی خدمت میں نذر پوری کی. (۲)

ابراهيم بن مہزيار خيران، خادم امام نقی (ع) تھے، نے امام (ع) سے طرسوس (شام کا ایک شہر) کی طرف سے آنے والا آٹھ درھم کا تحفہ قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوال کیا (ایسا لگتا ہے کہ تحفہ دینے والا مسیحی تھا) تو آپ (ع) نے انہیں اس قسم کے تحائف و دیگر چیزیں قبول کرنے کی اجازت دی اور فرمایا "رسول اللہ (ص) نصرانی و یہودیوں کے تحائف بھی رد نہیں کیا کرتے تھے. (۳)



حوالہ جات:
۱- کليني، همان، ج1، ص499؛ ابن شهرآشوب، همان، ج4، ص.415
۲- نباطي بياضي، همان، ج2، ص203.
۳- شيخ طوسي، اختيار معرفة الرجال کشي، ص610؛ شيخ حر عاملي، همان، ج17، ص292.


امام حسین عسکری (ع) نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ عباسیوں کے قلعہ و فوجی مراکز میں نظر بند ہو کر گذاری لہٰذا ان کی ذرائع آمد کے متعلق بندہ کو کچھ خاص اطلاع نہیں ملی.

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن۔۔۔ قسط اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن


قسط اول


ایک بات یاد رکھیں کہ علی (ع) (چونکہ وہ خلیفہ تھے اور بقول ان کے حاکم کو رعیہ کے غریب ترین فرد کی مانند جینا چاہیئے) کے علاوہ تمام آئمہ (ع) اچھا کھاتے تھے، اچھا پہنتے تھے، اور زمانے کی اچھی سواری سے استفادہ کرتے تھے. البتہ اس سے مراد فضول زرق و برق نہیں ہے. اس کی دوسری وجہ معاشرے کا معیار زندگی کا ترقی کرنا ہے علی (ع) کے دور میں معاشرے کا رہن سہن و معیار زندگی کچھ اور تھا اور باقی آئمہ (ع) کا کچھ اور. لہٰذا یہ بھی ایک سبب تھا کہ آئمہ (ع) کا رہن سہن الگ نظر آتا ہے.

امام موسی کاظم (ع) کا لباس

امام (ع) کے لباس کے حوالے سے شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید نے جو بات بیان کی وہ یہ ہے کہ آپ (ع) اور امام رضا (ع) صوفیاء کی طرح اونی لباس پہنتے تھے جو کہ بہت ہی سادہ ہوتا تھا. (۱)
ابی الحدید کا دعوا تھا کہ امام کاظم (ع) مالی لحاظ سے مستحکم تھے مگر فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے. مگر ابی الحدید کا یہ دعوا دیگر کثیر روایات سے متضاد ہے کہ جن میں آپ (ع) اچھا لباس پہنے ہوئے پیش کیئے گئے ہیں. مثال:
يونس کہتا ہے: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے نیلے رنگ کا طيلسان (کملی یا گون جو آج بھی جج اور یونیورسٹی کے گریجویٹ پہنتے ہیں) میں زیب تن دیکھا. (۲)
سليمان بن رشيد اپنے والد سے نقل کرتا ہے كہ میں نے ابوالحسن(علیه السلام) کو دیکھا کہ انہوں نے سیاہ رنگ دراعہ(جبہ جس کا اگلا حصہ کھلا ہو) اور نیلے رنگ کا طیلسان پہن رکھا تھا.(۳)

محمدبن علی روایات کرتے ہیں: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سر پہ قلنسوه (دراز ٹوپی جو بنی امیہ اور عباسی دور میں رائج تھی) پہنی ہوئی تھی اور ایک کوٹ پہنے ہوئے تھے.(۴)


امام موسی کاظم (ع) کی سواری

امام (ع) کی سواری کے متعلق ملتا ہے کہ آپ مختلف جانور سواری کیلئے استعمال کرتے تھے مگر کثرت سے خچر کا ذکر ملتا ہے کیونکہ خچر اس دور کی متوسط سواری سمجھی جاتی تھی.

جب ھارون رشید حج سے واپس آیا تو مدینہ کی مشہور شخصیات اس کے استقبال کیلئے گئیں، امام (ع) بھی ان کے ساتھ تھے اور خچر پہ سوار تھے. ربیع نے امام (ع) کے پاس جا کر کہا: یہ کیسی سواری ہے کہ جس پہ سوار ہو کر خلیفہ وقت کے استقبال کو آیا جائے؟ (اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ استقبال کیلئے کسی مہنگی و مجلل سواری پر آتے) امام (ع) نے فرمایا: خچر ایسی سواری ہے جس کا سوار نہ تکبر محسوس کرتا ہے نہ فقیری و ذلت، بلکہ یہ دونوں کے درمیان بہترین اعتدال ہے. (۵)

حمّاد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے امام كاظم(علیه السلام) کو دیکھا کہ وہ مرو سے واپس آ رہے تھے اور خچر پہ سوار تھے (۶)

امام موسی کاظم (ع) کا مکان

امام (ع) کے مکان کے متعلق کچھ زیادہ روایات نہیں ملتی، ایک دو روایات پیش خدمت ہیں.

حسن بن زیارت نقل کرتا ہے کہ میں امام موسی کاظم (ع) کے گھر گیا تو آپ ایک ایسے کمرے میں تھے جو پردے اور قالین سے آراستہ تھا لیکن جب دوسرے دن گیا تو انہیں ایسے کمرے میں پایا کہ جس میں ریت اور سنگریزوں کے سوا کچھ نہ تھا. مجھے حیرت ہوئی تو آپ (ع) نے فرمایا:کل جو کمرہ تم نے دیکھا وہ میری بیوی کا کمرہ تھا
(۷)

محمّد بن عيسی ابراهيم بن عبدالحميد سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام كاظم(علیه السلام) کے ہاں گیا تو جس کمرے میں آپ (ع) نماز پڑھتے تھے، اس میں کھجور سے بنی ایک ٹوکری، قرآن اور تلوار جو دیوار پہ لٹک رہی تھی، کے علاوہ کچھ نہیں تھا.(۸)

معمّر بن خداد کہتا ہے: امام كاظم(علیه السلام) نے ایک مکان خریدا اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس میں رہے اور فرمایا: تمہارا مکان چھوٹا اور تنگ تھا. غلام نے کہا: وہ میرے والد کا گھر تھا اس لیئے میں اسی مکان میں رہ رہا تھا. امام (ع) نے فرمایا: اگر تمہارا والد بیوقوف تھا تو لازم نہیں تم بھی اس کی طرح ہو. (۹)
 
ثابت ہوا کہ امام (ع) رہائش کیلئے چھوٹا مکان پسند نہیں فرماتے تھے.


حــــوالــــــــہ جـــــات:
۱- ابن ابي ‏الحديد، شرح نہج ‏البلاغہ، قم، كتابخانہ آية اللّه مرعشي نجفي، 1404ق، ج 15، ص273
۲-محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61
۳-عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق، 3، ص49
۴- محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61.
۵- شيخ مفيد، الارشاد، قم، آل‏ البيت، 1416ق، ج ۲ ص ۲۳۴
۶- محمدبن يعقوب كليني، فروع کافی، ج 8، ص86
۷- عزيزاللّه عطاردي، ایضا، ج 3، ص28.
۸- محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 48، ص100
۹- محمدبن يعقوب كليني، ایضا، ج 6، ص525
 

بڑا آسان ہے کاظم کہہ دینا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



بڑا آسان ہے کاظم کہہ دینا



از قلم: محمد زکی حیدری

 



امام موسیٰ کاظم (ع) کو ہم نے کہہ دیا وہ کاظم تھے، غصہ پی جانے والے... ہم نے کہہ دیا اور گذر گئے یہ نہ سوچا کہ کاظمی ہونے کا مطلب غصہ پینے والا ضرور ہے مگر دکھ برداشت کرنے والے نہیں...
جب ایک شریف امام کے پیروکار اسے تنہا چھوڑ دیں اور اس بے وفائی کی وجہ سے حاکم وقت اسے قید و بند کی صعوبتیں دے تو اس درد کو برداشت کرنے کیلئے کاظمی ہونا مددگار ثابت نہیں ہوتا...
جب ایک شریف باپ، کہ جس کے گھر میں جوان بیٹیاں ہوں اور حکومتی کارندے اس کے گھر پہ منڈلاتے رہیں تو وہاں پر کاظمی ہونے سے رنج و الم میں کمی نہیں آتی...
سوچیئے تو ذرا! دل تھام کر سوچیں! آج کل کسی باپ کی ایک جوان بیٹی ہو تو اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے، تو جس شریف انسان کی ۱۹ یا ۲۳ جوان بیٹیاں جو کہ ہر جوان لڑکی کی طرح شادی کی خواھش رکھتی ہوں اور ان کا باپ ان کے ارمان پورے نہ کر پائے تو وہاں کاظمی ہونا کام نہیں آتا...
جب ایک معصوم ابن معصوم کو جیل میں بند کر کے اس کال کوٹھڑی میں عرب کی بدکار عورت کو بھیجا جائے اور یہ خبر عوام میں پھیلائی جائے تو اس اہانت پر کاظمی ہونا کسی کام نہیں آتا...
جب معلوم ہو کہ ایک عابد و زاھد و متقی و پرھیزگار شخص غنا و موسیقی سے نفرت کرتا ہے تو اسے عیسی بن جعفر کے گھر میں نظر بند کر کے وہاں پہ رقص و غنا کی آوازوں سے اسے اذیت دی جائے تو اس درد کو برداشت کرنے کیلئے صفت کاظمی کسی کام کی نہیں...
اور...
مجھے نہیں معلوم یہ روایت کتنی مستند ہے مگر ایک دو ایرانی سائیٹس پر نظر سے گذری...
ذرا دل تھام کر پڑھیئے گا عباسی دور میں ابوالعَتاہیہ نامی ایک ایرانی تھا لیکن عربی زبان میں شاعری کرتا تھا. ابوالعتاہیہ ایک عرصے سے ہارون الرشید کے دربار میں نہیں گیا تھا لیکن ایک دن ھارون رشید کے کہنے پر جعفر برمکی انہیں ھارون کی دربار میں لے آیا. ابوالعتاہیہ سے کہا گیا کہ شعر پڑھو. اس نے اشعار سے ھارون رشید کو خوش کردیا. جب ھارون اشعار سن کر بہت خوش ہوا تو ابوالعتاہیہ سے کہنے لگا مانگو جو مانگنا ہے. ابو العتاہیہ کہنے لگا ہارون! نہ مال چاہیئے نہ منصب! میرے مولا کب سے تیری قید میں ہیں، مدینے میں ان کے بچے ان کے منتظر ہیں. اگر دے سکتے ہو تو میرے مولا (ع) کی آزادی کا حکم دے دو. ھارون نے اس کی بات مان لی، آزادی نامہ لے کر یہ عاشقِ امام (ع) دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے تیزی سے قیدخانے کی طرف جا رہا ہے کہ اس نے آج رسول اللہ (ص) و زہراء (س) کا دل خوش کیا ہے، جب قیدخانے پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ چار لوگ ایک جنازہ لے کر آرہے ہیں. سوال کرتا ہے کہ یہ کس کا جنازہ ہے.... جواب ملتا ہے کہ شیعوں کے ساتویں امام کا...

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن (قسط 2)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں

امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن



قسط 2



امــــام موســـی کاظم (ع) کی غـــذا

امام موسی کاظم (ع) کی غذا کے بارے جو روایات ملتی ہیں ان سے امام (ع) کا غذا کے انتخاب و مصرف میں احتیاط و اعتدال؛ وقت غذا کی اہمیت اور مختلف غذاؤں کے فوائد آشکار ہوتے ہیں.

گـــــــوشــــــت

لقانی کہتے ہیں: میں نے امام كاظم(علیه السلام) کو مکہ میں دیکھا کہ انہوں ایک شخص کو گائے کا گوشت لینے بھیجا. پھر امام (ع) نے اس گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں سوکھنے کیلئے ڈال دیا تاکہ اس سے وقفے وقفے سے استفادہ کیا جا سکے..(۱)

محمّدبن بكر کی روایت میں بھی ملتا ہے کہ کہا جب میں مالی مدد کیلئے امام (ع) کے کھیتوں میں گیا تو آپ نے مجھے ٹکڑے ٹکڑے شدہ خشک گوشت پیش کیا. (۲)

ســــــــلاد

موفق مدينی اپنے والد سے نقل کرتا ہے کہ ایک دن امام کاظم (ع) کی خدمت میں گیا، امام (ع) نے مجھے دوپہر کا کھانا پیش کیا. جب دسترخوان بچھایا گیا تو اس پر سبزی (فارسی میں سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزی کو سبزی خوردنی کہتے ہیں) موجود نہیں تھی. امام (ع) نے کھانا شروع نہ کیا. اپنے غلام سے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ جس دسترخوان پر سبزی نہ ہو تو میں اس دسترخوان پر کھانا نہیں کھاتا. پھر آپ (ع) نے غلام سے سبزی لانے کو کہا اور سبزی لایا تو امام (ع) نے کھانا شروع کیا(۳)

مـــــــچھـــلـــــی

معتب کہتے ہیں: ایک دن امام کاظم (ع) نے مجھے حکم دیا کہ میرے لیئے تازہ مچھلی کا انتظام کرو کیونکہ میرا حجامت (cupping) کا ارادہ ہے. معتب کہتا ہے میں نے مچھلی خریدی اور امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا. امام (ع) نے فرمایا: اس میں سے تھوڑا حصہ پکاؤ اور کچھ حصے سے کباب بناؤ. پھر امام (ع) نے دوپہر و رات کا کھانا اسی سے تناول فرمایا (۴)

یونس بن یعقوب کہتا ہے: میں نے امام کاظم (ع) کو دیکھا کہ وہ گندنے (ایک قسم کی سبزی) کو پانی میں دھو کر کھا رہے تھے. (۵)
اس کے علاوہ بہت سی ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام (ع) کے دسترخوان پر سلاد اور پھل اکثر موجود ہوتے تھے.

روٹـــــی کا احترام
فضل بن یونس کہتے ہیں:
ایک دن امام کاظم (ع) کا مہمان تھا، جب کھانا لایا گیا تو غلام نے روٹی کو برتن کے نیچے رکھا ہوا تھا. امام (ع) نے جب یہ دیکھا تو فرمایا: روٹی کا احترام کرو اور اسے برتن کے نیچے نہ رکھا کرو پھر غلام کو حکم دیا کہ روٹی کو برتن کے نیچے سے ہٹا لے (۶)

مـــــــیٹھـــا

موسی بن بکر کہتے ہیں: امام کاظم (ع) اکثر اوقات سونے سے قبل مٹھائی (دیسی مٹھائی) تناول فرمایا کرتے. اور فرمایا کرتے: کسی کے پاس دس درھم ہوں اور وہ اس سے مٹھائی خریدے تو اس نے اسراف نہیں کیا.(۷)
اور فرمایا نحنُ نحبُّ الحلو ہم مٹھائی پسند کرتے ہیں (۸)

ڈنــــــــر کی اہــــمیت

روایت ہے کہ امام (ع) رات کا کھانا کھائے بغیر کبھی نہیں سوئے حتی ایک نوالہ ہی کیوں نہ ہو لیکن رات کا کھانا ترک نہیں کیا کرتے تھے. اور فرماتے اِنَّه قوّةٌ لِلجسمِ بیشک اس سے جسم کو طاقت ملتی ہے (۹)



حوالہ جات:
۱- عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق، ج ۳، ص ۶۸
۲- محمدباقر مجلسي، بحار الانوار، ج 48، ص102
۳- . عزيزاللّه عطاردي، ایضا، ج 3، ص81
۴- ایضا ص 77
۵- محمدبن يعقوب كليني، فروع كافي، ج 6، ص341.
۶- ایضا، ص304 ص64
۷-  ایضا ص64
۸- ایضا
۹-ایضا، ص 288.

سنگ دل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سنگ دل



از قلم: محمد زکی حیدری


یونیورسٹی کے جوان لڑکے لڑکیاں محبوب کی بے وفائی پہ روتے ہیں، سوچتے ہیں کہ اتنا عرصہ ساتھ گذارا پھر کسی اور سے شادی کرلی، ایک انسان کیسے اتنا *سنگ دل* ہو سکتا ہے!
ماں باپ روتے ہیں کہ اولاد پوچھتی نہیں، جن کے لیئے کل خون پسینہ ایک کیا وہ آج ایسے *سنگ دل* بن گئے کہ حال تک نہیں پوچھتے!
بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کی شکایت کرتا ہے کہ میرا خون میرا بھائی، کل جسے پڑھا لکھا کر بڑا کیا وہ آج بیوی کی باتوں میں آکر میرے ساتھ ایسا کر رہا ہے. کتنا *سنگ دل* ہے!
بہن کہتی ہے بھائیوں نے ابا کی وراثت آپس میں بانٹ لی بہن کو محروم کردیا کتنے *سنگدل* ہیں بھائی!
مزدور کو شکایت ہے کہ اس کا مالک اس کی تنخواہ صحیح سے نہیں دیتا، اور گھر میں بیماری ہو تو چھٹی نہیں دیتا. ایسا *سنگ دل* مالک!
مریض کو ڈاکٹر سے شکایت کہ یہ ڈاکٹر جن کا پیشہ مسیحانہ ہے لیکن فیس لیتے وقت ایسے *سنگدل* کہ مجال کسی غریب غربے کا لحاظ کریں!
پڑوسی سے ایک پھوٹی کوڑی قرضے کی امید نہیں *سنگدل* پڑوسی!
دکاندار ادھار نہیں دیتا *سنگدل* ! مطلبی دوست *سنگدل*؛ مالک مکان *سنگدل*؛ زمیندار *سنگدل* وکیل *سنگدل*؛ سیاستدان *سنگدل*...

لیکن میں کہتا ہوں یہ ساری سنگ دلیاں کچھ بھی نہیں ہیں بھیا!
جی! یہ پاک و ھند ہے! سنگدلی کا پوچھنا ہے تو سندھ کی حاملہ گلوکارہ ثمینہ سندھو کے لواحقین سے پوچھیئے کہ جس بیچاری کو کچھ دن قبل کھڑے ہو کر ٹھمکے نہ لگانے کی وجہ سے اسٹیج پر گولی مار دی گئی!
سنگدلی کا پوچھنا ہے تو پاکستانی ۹ سالہ زینب کے والدین سے پوچھیئے کہ جن کی پھول سی زینب سے جنسی زیادتی کر کے مار دیا گیا.
سنگدل انسان پہچاننا ہے تو ھندوستان جائیے، اس ۸ سالہ آصفہ کے والدین سے پوچھیئے کہ جس کے ساتھ کئی درندوں نے مل زیادتی کی اور مردہ حالت میں پھینک کر چلے گئے..

چھوڑیئے صاحب! یقین مانیئے جن سے میں اور آپ سنگدلی کی شکایت کرتے ہیں وہ ثمینہ، زینب اور آصفہ کے قاتلوں سے بڑے سنگدل نہیں. ہمارے ساتھ تو ذرا بھی سنگدلی نہیں ہوئی بھیا. سنگدل... پتھر دل... ابھی ہمیں ملے ہی نہیں، شکر کریں!

امــــام موســـی کاظم (ع) کی زینت و آرائش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



آئمہ (ع) اور نعرہ نہ لگنے والی باتیں
امــــام موسی کاظم (ع) کا رہن سہن

آخری قسط



امــــام موســـی کاظم (ع) کی زینت و آرائش



صفائی نصف ایمان ہے ہمارے آئمہ (ع) وقت کے لحاظ سے اچھے قسم کا لباس اور اس کے ساتھ دیگر تزین و آرائش کے لوازمات سے استفادہ کرتے تھے.

خــــــوشبــــوء
حسن بن جهم کہتے ہیں:
میں امام کاظم (ع) کے پاس گیا. آپ ایک صندوقچہ میرے لیئے لائے اس میں مشک تھی. مجھ سے فرمایا کہ لے لو. میں نے اس میں سے کچھ لیا لیکن آپ نے دوبارہ مجھے فرمایا کہ لے لو اور اپنے کپڑوں کو معطر کرو. میں نے دوبارہ اس میں سے کچھ لیا اور اپنے جامے پہ لگایا. پھر بھی امام نے فرمایا لے لو اور لباس کو معطر کرو. پھر فرمایا امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا: لا يأبي الكرامةَ الاّ حِمارٌ. سوائے گدھے کے کوئی بھی کرامت و مہربانی کو رد نہیں کرتا. میں نے سوال کیا: "کرامت" کیا ہے؟ فرمایا: عطر، پشتی اور چند چیزیں.(۱)

حسن بن جهم سے منقول ہے کہ امام كاظم(علیه السلام) کیلئے ایک صندوقچہ لایا گیا جس میں مشک اور عطر تھا اور وہ آبنوس (مضبوط لڑکی کی ایک قسم) سے بنا تھا جس میں عطر کی ڈبیاں رکھی ہوئیں تھیں جو خواتین کیلئے مختص تھیں.(۲)

کــــــنگھــــی

موسی بن بكر کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) کو دیکھا وہ عاج کی کنگھی سے اپنے بالوں کو کنگھا فرمارہے تھے. یہ کنگھی میں نے ان کیلئے خریدی تھی. (۳)

خضــــــــاب

حسن بن جھم نقل کرتے ہیں: میں امام موسی کاظم (ع) کے پاس گیا میں نے دیکھا کہ امام (ع) نے سیاہ رنگ کا خضاب لگا رکھا تھا. (۴)


انــــــگـــوٹھی

علی بن مہران فرماتے ہیں: امام (ع) کے پاس گیا اور دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پہن رکھی ہے جس کا نگینہ فیروزے کا ہے اور اس پر "للہ الملک" کا نقش موجود تھا. (۵)


حوالہ:
۱- محمدبن يعقوب كليني، فروع كافي، ج 6، ص۵۱۲
۲- ایضا، ص515
۳- ایضا ص488
۴- عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق ج 3، ص24
۵- محمدبن يعقوب كليني، ایضا، ج 6، ص 472.

تــــــم نــــہ دیکھو

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



تــــــم نــــہ دیکھو



شبانہ نے کہا تنگ آگئے مولیوں سے! پردہ پردہ پردہ! بھائی ہم آزاد ہیں، جیسا لباس پہنیں، مرد نہ دیکھیں، کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سر سے پاؤں تک عورت کو دیکھتے ہیں! ان کےگھر میں بہن بیٹی نہیں. ہم کیوں پردہ کریں، تــــــم دیکھـــــو ہی نہیں!

میں نے کہا جی جی! بات تو تمہاری صحیح ہے کہ مرد کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے، نا محرم کو دیکھنا حرام ہے مگر جو منطق تم پیش کر رہی ہو وہ دماغ کی بتی فیوز منطق ہے .

بولی وہ کیسے؟

میں نے کہا کل میں بھی رات دو بجے گھر میں بڑا سا ایکو ساؤنڈ لگا کر قرآن کی تلاوت چلاؤنگا کوئی پڑوسی اعتراض کرے تو کہوں گا تم اور تمہارے بچے اپنے کان بند کرلو! مجھے ہی کیوں کہتے ہو! میں آزاد ہوں، پورا محلہ مجھے ہی بولے جا رہا ہے اپنے کان بند نہیں کرسکتے...

یا پھر ھسپتال میں بیٹھ کر سگرٹ کے سٹے لگاؤں گا لوگوں نے اعتراض کیا تو کہوں گا میری مرضی تم نہ سونگھو! اپنی ناک بند رکھو! کیوں سانس لیتے ہو!

شبانہ تھوڑی چونک سی گئی اور کہا "ہممم. لیکن دیکھنے میں بھلا کیسا گناہ، دیکھنا بھی حرام ہے عورت کو، دیکھنے سے بھلا کیا ہو جاتا ہے.؟

میں نے کہا سانپ دیکھ کر دل کی دھڑکن تیز کیوں ہوجاتی ہے؟ طبیعت و احساسات میں تبدیلی کیوں آجاتی ہے. سڑک پہ انسانی خون دیکھ کر طبیعت کیوں خراب ہوتی ہے... ثابت ہوا کہ جذبات و احساسات کا دیکھنے سے بھی تعلق ہے. لہٰذا تم جوان لڑکیاں یہ مت کہو کہ ہم تنگ لباس پہنیں گی اور دیکھنے والے کو کچھ نہیں ہوگا. ہوگا! "طبیعت" خراب ہوگی جوانوں کی.


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

۵۹۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجیے: وہ اپنے اوپر چادر لپیٹا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

احزاب آیت ۵۹

بھائی "یوم الدین" کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




بھائی "یوم الدین" کیا ہے؟



دیکھیئے بھائی آج کل ہمیں کوئی مشکل پیش آئے تو اپنے رشتہ دار و فیملی و والدین و پیسہ و سفارش و جان پہچان یا کوئی اور جگاڑ لگا کر مشکل حل کروائی جا سکتی ہے. لیکن یوم الدین وہ دن ہے جس دن یہ سارے جگاڑ کسی کام نہ آئیں گے، اس دن مشکل سے صرف وہ بچے گا جس کے پاس "دین" ہوگا. اس دن معیار و اسٹینڈرڈ و کنڈیشن صرف ایک ہوگی: "دین"
اس لیئے اسے یوم الدین کہتے ہیں. وہ دن جس دن صرف دین کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا اور اس کا مالک کون ہوگا؟ اللہ (جل جلالہ)
مالک یوم الدین! .

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ
*اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد*
اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ
*سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کرآئے*

شعراء آیات ۸۸/۸۹

(البتہ یہ متعدد نظریات میں سے ایک نظریہ ہے. اور سادہ ہے اس لیئے بیان کیا)

حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 

حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام

 



فرح میری پیاری بہن اور دوست! بفضل خدا تمہاری برسوں پرانی خواہش پوری ہوئی، تمہاری شادی لندن میں ہوگئی، اللہ (ج) تمہیں اپنے امیر خاوند کے ساتھ خوش رکھے. تم نے اپنے ای-میل میں لکھا ہے کہ تم نے حجاب سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس متعلق میری رائے معلوم کرنا چاہتی ہو، اور تم نے استدلال بھی کیا ہے، جس میں مُلا پہ خوب بھڑاس نکالتے ہوئے حسب معمول اس کے کرتوتوں کو اسلام کے گلے میں ڈال کر تم نے اپنی چادر اتارنے کا بہانا تلاش کرنے کی ناکام کوشش بھی بخوبی کی ہے. اب جب تم نے میری رائے جاننے کا کہا ہی ہے تو اس موضوع پہ کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں. تم اتنا تو جانتی ہو کہ میں مُلا سے اتنی ہی نفرت کرتا ہوں جتنی نام نہاد پاکستانی لبرلز سے! لہٰذا میری باتوں کو اسی کراچی یونیورسٹی والے زکی کی بات سمجھ کر سننا، البتہ عمل کرنے نہ کرنے پر بیشک اختیار رکھتی ہو.

پیاری بہن! آج تم مغرب کی "آزادی" کے چکر میں اپنی چادر اتارنے پہ تلی ہوئی ہو. اور اسلام کی تاریخ سے چند مثالیں پیش کر کے اسے عورت کا دشمن کہہ رہی ہو. اب جب بات تواریخ کی ہے تو یاد رہے کہ مغرب کی تاریخ بھی عورت کے معاملے میں دودھ سے دھلی ہوئی نہیں ہے. چار صدیاں پیچھے جاؤ مغرب عورت کو یورپ کے پادریوں کی سرپرستی میں چڑیل و جنی (witch) کہہ کر زندہ جلاتے ہوئے ملے گا. اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمس پنجم نے تو حد کردی، یہ بدبخت ڈینمارک سے اپنی نئی نویلی دلہن کو لیئے بذریعہ بحری جہاز اسکاٹ لینڈ آرہا تھا کہ شمالی بیروِک نامی شہر کے قریب بحری جہاز کو سمندری طوفان نے گھیر لیا اور اسے واپس ڈینمارک لوٹنا پڑا. اس وہمی و خرافاتی فکر رکھنے والے انسان نے سمجھا کہ یہ طوفان شمالی بیروک کی چڑیلوں (witches) کی کارستانی ہے لہٰذا ستر سے زائد عورتوں کو شک کی بنیاد پر چڑیل سمجھتے ہوئے اذیت دے کر زندہ جلا دیا گیا. اسکاٹ لینڈ جاؤ گی تو شاہی محل کے باہر صدر دروازے پر ان سینکڑوں معصوم عورتوں کی یادگار کے طور نصب تختی ملے گی. اس کے علاوہ وِچز ویل (Witches Well) کے بارے میں بھی مطالعہ کر سکتی ہو. یہ شکنجے اور زندہ جلا دینا صرف اسکاٹ لینڈ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ تین صدیوں تک پورے یورپ میں رائج تھا. نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد بھی تمہارا حال مغربی معاشرے میں یہ ہی رہا، جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہو کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ مغرب نے اٹھارویں صدی میں تمہیں کام کرنے اور اپنی ذاتی ملکیت رکھنے کا حق دیا ورنہ تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق بھی حاصل نہ تھا. وہ بھی خیر سگالی کی نیت سے نہیں بلکہ اس لیئے کہ صنعتی انقلاب آیا، صنعتکاروں کو وافر مقدار میں مزدور درکار تھے اور تم صنعتکاروں کو مرد سے ذرا سستی پڑتی تھی اور معاشرے کا ستم دیدہ طبقہ ہونے کے ناطے تم سے مرد کی نسبت بغاوت کا خطرہ بھی کم تھا. مختصراً یہ کہ تمہارا استحصال بڑا ہی آسان تھا.
خیر یہ تو تھا مغرب کا گذشتہ کل! آج کیا ہے؟

دیکھو میری پیاری بہن! تم جانتی ہو کہ کراچی یونیورسٹی سے لیکر اب تک میں ایک فیمینسٹ سوچ رکھنے والا انسان ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی یہ مغرب تمہیں حیوان بنانے پہ تلا ہوا ہے. پوچھو کیسے؟ وہ ایسے کہ جانور عریاں ہوتا ہے، برہنگی حیوانی صفت ہے اور لباس پہننا انسانیت. تہذیب حیوان کیلئے نہیں انسان کیلئے ہے اور مغربی مرد اس بات سے بخوبی آگاہ ہے لہٰذا وہ تمہیں حیوان دیکھنا چاہتا اور خود کو انسان! اب تم کہو گی یہ کیسے؟ دیکھو تم لندن کے گوروں کی کسی بھی تقریب میں چلی جاؤ مرد تھری پیس میں ملبوس ملے گا تین آئٹم! پینٹ، شرٹ، کوٹ. حتی کہ اگر ٹائے ذرا سی بھی اِدھر اُدھر ہوئی تو یہ بات مغربی مرد کی اہانت کا باعث سمجھی جاتی ہے. اور اسی تقریب میں عورت نیم برہنہ!

واہ! بھائی اگر آزادی و تہذیب لباس اتارنے میں پنہان ہے تو مرد کو بھی چڈھی (نِکر) پہن کر آنا چاہیئے تقریب میں، لیکن ایسا نہیں ہوتا. مغربی دانشور "حجاب یعنی آزادی نسواں پہ ڈاکا" کے موضوع پہ سیمینار میں تھری پیس پہن کر جاتا ہے. کوئی اس کوڑ مغز سے پوچھے کہ بھئی آپ تو کہتے ہو جسم ڈھانپنا آزادی پر ڈاکا ڈالنا کے مترادف ہے تو پہلے تم خود کو ڈاکے سے آزاد کرواؤ. اتارو تھری پیس اور پہنو چڈھی!
نہیں! بس عورت کیلئے ہے یہ قانون، مرد اس سے مستثنی ہے. لو بھئی عورت اور مرد میں فرق آگیا؟ الزام مشرقیوں پہ لگاتے تھے کہ یہ جنسی امتیاز کے قائل ہیں جب کہ خود صاف صاف جنسی امتیاز (جینڈر ڈسکرمینیشن) کے مرتکب نظر آتے ہیں. عورت نیم برہنہ مرد تین تین کپڑوں میں!
اس کے علاوہ پستیِ تہذیب کی انتہا یہ ہے کہ ایک ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا جاتا ہے، مرد کو مرد سے نکاح کی اجازت دی جاتی ہے جب کہ اسی ملک میں عورت کو حجاب سے منع کرنے کا قانون پاس ہوتا ہے.
یہ ہے تمہارے مغربی مرشدوں کا فلسفہ فرح!

اب تمہارے اس اعتراضکا جواب جو تم نے لکھا ہے کہ اسلام عورت سے مشاورت کرنے سے منع کرتا ہے. دیکھو فرح مُلا کو چھوڑ کر قرآن پہ غور کرو مثلاً ملکہ سبا کی داستان پڑھو کہ جب اس نے اپنے دربار کے مرد شرفاء سے حضرت سلیمان (ع) کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مشاورت کی تو سب نے یہ کہا نَحْنُ أولُوا قُوَّةٍ وَ أولوا بَأسٍ شَدیدٍ وَالأمْرُ إلَیکِ فَانْظُری ماذا تَأمُری
ہم طاقتور اور شدید جنگجوہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔ (نمل ۳۳)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمارے پاس طاقتور فوج ہے، ہمیں سلیمان (ع) سے جنگ کرنی چاہیئے. لیکن ملکہ سبا نے جو فیصلہ لیا اس نے تمام عورتوں کا سر فخر سے اونچا کر دیا ملکہ نے کہا اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۝
بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔ (نمل ۳۴) پھر مردوں کے مشورے کو رد کرتے ہوئے کہا وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ
اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔ (نمل ۳۵)
دیکھیئے اللہ (ج) کو عورت کا یہ فیصلہ اتنا پسند آیا کہ اس نے قرآن میں اس کا ذکر کیا اور اسی کا نتیجہ ہوا کہ ملکہ سبا کا اختتام وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔ پر ہوا.
عورت کو ان چار پانچ آیات میں قرآن مجید جنگ کا مخالف و عاقل و بابصیرت و حقیقت پسند بنا کر پیش کر رہا ہے. اور ہمیں یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اگر وہ ملکہ سبا نامی عورت اپنے مرد شرفاء و وزراء کی بات مانتی تو کفر کی موت مرتی.

پھر قرآن پڑھو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم عرب کے معاشرے میں کیا تھی سورہ نحل کی آیت نمبر ۵۷ پڑھو وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَكَظِيْمٌ
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے.
اس دور میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر باپ کا رنگ سیاہ ہو جاتا تھا کہ ذلت کا ساماں آگیا گھر میں، لیکن اسی معاشرے میں کہ جو تمہیں سیاہی سمجھتا تھا محمد (ص) آتے ہیں اور قرآن لاتے ہیں اور تمہارے لیئے ایک سورہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا نام ہی "نور" رکھا جاتا ہے. دیکھو تو تمہاری قدر و قیمت جو معاشرہ تمہیں ذلت و سیاہی کا باعث سمجھتا تھا وہاں محمد (ص) تمہیں نور کہہ رہے ہیں. اور فرما رہے ہیں کہ خوشقسمت ہے وہ گھرانا جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو! پھر فرمایا گھر میں کوئی چیز لاؤ تو پہلے بیٹی کو دو. اپنی قدر دیکھو اللہ (ج) کے رسول (ص) کی نظروں میں! میں نے کہا کہ مغرب نے تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق نہیں دے رکھا تھا لیکن قرآن چودہ سو سال قبل ان جاہل بدوؤں سے کہہ رہا ہے تم اپنی بیٹیوں کو ملکیت سے حصہ دو! دیکھو فرح مُلا کو شاید علم نہ ہو مگر اسلام میں تمہارے فرائض میں سے یہ نہیں کہ تم گھر میں جھاڑو پوچا لگاؤ! ہر گز نہیں! حتی یہ بھی ہے کہ تم اگر چاہو تو اپنے ہی بچے کو دودہ پلانے کی اجرت بھی مرد سے لے سکتی ہو کیونکہ اسے میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے. اس کے علاوہ شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ تم اگر نوکری کرنا چاہو تو نہ صرف تمہیں نوکری کرنے کا حق حاصل ہے بلکہ جو کماؤ اس کمائی پر صرف و صرف تمہارا حق ہے، مرد تم سے پیسے کا مطالبہ نہیں کر سکتا. گھر کے معاملات میں قرآن مرد کو تم سے مشاورت کرنے کی تاکید کرتا ہے، تم سے رویہ کیسا ہو تو قرآن کہتا ہے و عاشروھنَّ بالمعروف ان سے اچھا برتاؤ کرو. اور جب جزا و سزا کی بات آتی ہے تو قرآن کہتا ہے تم میں سے مرد ہو یا عورت جو نیک کام کرے گا اللہ (ج) کے ہاں اس کا اجر ہے. اور نہ فقط یہ کہ مرد تم پر ولایت رکھتا ہے بلکہ بعض چیزوں میں قرآن نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے پہ ولایت رکھتی ہیں. (توبہ ۷۱)

اور فرح ایک بات یاد رکھو کہ اسلام میں جسم کی اہمیت نہیں روح کی ہے، تم جسم کے لحاظ سے بیشک نازک و نفیس ہو، مرد سے بایولوجیکلی کمزور ہو مگر روح میں تم میں اور مرد میں ذرا فرق نہیں. تمہارا روح بھی مرد کی طرح الروح من امر ربی کا مصداق ہے.

فرح! حقائق بہت زیادہ ہیں لکھنے پہ آؤ تو ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے، بس مدعا یہ ہے کہ تم عورتیں اپنے خیر خواہ و بدخواہ میں تفریق کی صلاحیت نہیں رکھتی اور تمہارا بھی قصور نہیں کیونکہ اس کمبخت مُلا نے عورت کے وہ حقوق بیان ہی نہیں کیئے جو محمد (ص) تمہارے لیئے بذریعہ وحی لے کر آئے لہٰذا تم مُلا کو دین سمجھ کر اپنے محسن محمد (ص) اور اس کے قرآن کو چھوڑ کر مغربی آقاؤں کو گلے لگا رہی ہو لیکن یاد رکھو یہ تہذیب نہیں تذلیل ہے.

خیر! میرا کام تھا تمہارے سامنے حقائق رکھنا ویسے تم اگر چاہو تو کسی بھی حُسن شناس سے یہ پوچھ سکتی ہو کہ تمہارا حقیقی حسن حجاب میں ہے یا بے حجابی میں! تمہیں جواب مل جائے گا.
اللہ (ج) کی رحمت کا سایہ ہو تم پر!

وعلیکم سلام
تمہارا بھائی محمد زکی حیدری
۲۵ اپریل ۲۰۱۸
قم المقدسہ. ایران

فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ



ازقلم: محمد زکی حیدری




جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے، بہت سے فاتحین مناظرہ کے نام سنے اور ان کی مناظرے کی کتب پڑھیں. فلاں شیعہ عالم نے فلاں شہر میں مناظرہ جیتا و فاتح قرار پایا، پھر دوسرے پھر تیسرے شہر کے فاتح کا ذکر، پھر ان مناظروں کو کتابی صورت میں منظر عام پر لایا جاتا، جس پر موٹے حروف میں فاتح کا نام و القابات و... لیکن آج تک میں نے یہ نہیں سنا کہ فلاں شہر میں اس فاتح کی فتح کے بعد اس شہر کے کوئی ھزار دو سنی یا دیوبندی افراد شیعہ ہوگئے یا پھر کسی سنی فاتح مناظرہ کی توسط سے شیعہ تبدیل ہو کر سنی ہوئے ہوں. محرم کی مجالس میں ہم نے مناظرے نما مجالس سنی، بڑے بڑے وکلائے زھرا (س) منبر پر آئے لیکن ہمارے کان یہ خبر سننے کو ترستے رہے کہ پاکستان کے فلاں شہر میں مناظرے کے نتیجے میں ایک دو ھزار سنی شیعہ ہوگئے... البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان نام نہاد وکلائے زھرا (س)، جن کی فصل حقیقی علمائے مناظرہ سے جدا ہے، کے طرز خطابت سے سنی-شیعہ مخلوط مجالس ناپید ہونے لگیں، کل ہمارے ساتھ بیٹھ کر حسین (ع) کو رونے والے آج ہمارے عزاخانوں میں آنے سے کتراتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا مناظرہ نہ ہو، علمائے مناظرہ نے اپنے مکتب کا دفاع بخوبی کیا ہے، یہ بزرگ بڑی زحمتیں اٹھاتے ہیں اور ان کی نیک نیتی پہ رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں مگر ان مناظروں کے ثمرات محدود نہیں ہونے چاہیئیں تھے، جتنی توانائی صرف ہوتی ہے اس لحاظ سے اس کے نتائج عوامی سطح پر بھی ظاہر ہونے چاہیئیں تھے، بیشک مناظرہ ہو مگر عوامی سطح پر نتیجہ خیز ہو، تبدیلی نظر آئے اور مناظرہ تعمیر کرنے والا ہو، تفریق کرنے والا نہیں. اب یہ کیسے ہوتا ہے اس کا جواب عرض کر رہا ہوں.

ایک مناظری ہے جو انقلاب اسلامی و خمینی (رح) سے متاثر ہو کر شیعہ ہوتا ہے اور ۱۹۹۰ع میں اپنے ملک نائجیریہ میں اپنی تحریک اسلامی کا باقائدہ آغاز کرتا ہے ، نہ اس نے مناظرے کیئے، نہ اس کے مناظرے کی کوئی ضخیم کتاب اس کے نام و القابات کے ساتھ منظر عام پر آئی اور نہ ہی اسے وکیل زھرا (س) و فاتح فلاں شہر کے القابات سے نوازا گیا. اس نے اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر نائیجریہ کے شہر زاریہ میں عزاخانہ بنایا اور عوام کو دعوت دے کر دروس دینے کا سلسلہ شروع کیا. کچھ نہ کیا! کچھ بھی نہیں! صرف عوام کے سامنے حقائق رکھے، لیکن اخلاق کے ساتھ! اخلاق و پیار و محبت و احترامِ انسانیت و مسلک و مقدساتِ مسلک کے پھولوں کی مہک سے نائجیریہ کے مالکیوں اور وہابیوں کو اس شخص نے ایسا منقلب کیا کہ وہ سب اس کے غلام بنتے چلے گئے، وہ مکتب تشیع کے حقائق کو اپنے بہترین اخلاق و احترام کے غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سامنے رکھتا گیا اور عوام سوچ و فکر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتی ہوئی جوق در جوق حق کی منزل کو پاتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیس بتیس سال کے قلیل عرصے میں نائجیریہ کہ جہاں بمشکل ایک سؤ شیعہ پائے جاتے تھے، وہاں ڈیڑھ کروڑ مالکی و وہابی شیعہ ہو گئے.

جی یہ کوئی اور نہیں بلکہ بوڑھے حبشی مولانا، اولاد حضرت بلال (رض) شیخ ابراھیم زکزاکی (حفظہ اللہ) ہی ہیں. آج اربعین پہ سب سے بڑا مجمع عراق کے بعد نائیجیریہ میں ہوتا ہے. اس کے علاوہ آج حزب اللہ نائیجریہ کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے. شیخ زکزاکی کے اخلاق کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ اپنے شہید بیٹے کا جنازہ پڑھا رہے تھے تو ان ہی کی اقتداء میں کھڑے وہابی علماء اشک بہا رہے تھے. یہ علمائے اھلسنت شیعہ تو نہیں ہوئے مگر شیخ کے عشق میں گرفتار ہوئے بغیر نہ رہ سکے.

میں سوچتا ہوں ہم ایسی فتح حاصل کیوں نہیں کر پائے؟ کیوں ہم نے مناظری تو پیدا کیئے مگر معشوقِ عوام نہیں؟
پھر سوچتا ہوں شاید اس لیئے کہ *ہم نے ہمیشہ مناظرے جیتنے کی کوشش کی دل جیتنے کی نہیں!!!* ہم نے مخالفین کے عقیدے رد تو کر لیئے مگر ان کو اپنے عقیدے پہ نہ لاسکے. کیا شیخ زکزاکی (حفظہ اللہ) کوئی آسمان سے اترے تھے کہ انہوں نے جو کردکھایا وہ ہم نہیں کر سکتے؟ مگر افسوس کہ ہم نہ کر پائے! بس تو جب ہم یہ نہ کر پائے تو ہمیں حق نہیں کہ اپنے آپ کو فاتح کہلوائیں. حقیقی فاتح کہلانے کا حق ایک ہی شخص کو ہے جس نے قلوب فتح کیئے اور وہ فاتح زاریہ ہے!

قرآن اور اینڈروئـــڈ موبائل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



قرآن اور اینڈروئـــڈ موبائل



گھر کے عمر رسیدہ بزرگوں سے رابطے کیلئے انہیں کی-پیڈ والا موبائل دلواتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ جب گھنٹی بجے تو اس بٹن کو دباؤ گے تو آواز آئے گی. لیکن ایک عاقل و پڑھے لکھے نوجوان کو والدین اینڈروئڈ فون دلواتے ہیں کیونکہ اسے موبائل صرف کالز کرنے کیلئے درکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دوسرے بہت سے کام بھی لیتا ہے.

اللہ (ج) نے ہمیں بوڑھا و ان پڑھ نہیں سمجھا کہ ایک کتاب دے دی کہ جس کی بس تلاوت ہی کرنی ہے. نہیں! اللہ (ج) نے ہمیں عاقل و پڑھا لکھا و باشعور سمجھا اس لیئے *ملٹی فنکشنل قرآن* عطا کیا. قرآن کی تلاوت بیشک اپنی جگہ ثواب کی حامل ہے لیکن قرآن صرف ایک فنکشن یعنی تلاوت کیلئے نہیں ہے اس کی آیات کو سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے ھر شعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ملٹی فنکشنل ہے.

اب آپ ہی بتائیے جس کے پاس اینڈروئڈ موبائل ہو اور وہ اسے صرف ٹیکسٹ میسج اور کال کیلئے استعمال کرے، ہم اسے بیوقوف کہیں مگر جو شخص قرآن کو صرف تلاوت کیلئے استعمال کرے اسے...؟ لہٰذا *اس رمضان المبارک میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا*.

 

طفیل چاچو سے طفیل قاتل تک

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



طفیل چاچو سے طفیل قاتل تک



تحریر: محمد زکی حیدری



"میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا" اس نے نجی ٹی-وی چینل کے صحافی سے کہا تو صحافی جیل سے باہر آکر رپورٹ دی "ناظرین! کراچی کے علائقے قصبہ کالونی سے تعلق رکھنے والے طفیل نامی اس درندہ صفت باپ سے ہم نے جب پوچھا کہ اس نے کس وجہ سے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور پھول سے بچوں کو قتل کیا تو انسانیت کے نام پر بدنما داغ اس ظالم نے ہم سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا، البتہ اس شیطان صفت انسان کی طرز گفتار سے لگ رہا تھا کہ اسے کوئی پشیمانی نہیں ہے. کیمرہ مین عادل قریشی کے ساتھ...."

اس قصے کو بیس سال گذر گئے، اخبار اور ٹی-وی کے صحافی ان بیس برسوں میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود طفیل کا منہ کھلوانے میں ناکام رہے تھے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ اس نے اپنی بیوی زبیدہ اور جوان بیٹی شازیہ اور دو بچوں کو ماردیا. پولیس نے بھی ہر حربہ استعمال کیا مگر اس نے اپنی خاموشی کا روزہ نہ توڑا.

ایک دن جب وہ مرنے والا تھا تو اس نے جیلر سے کہا کہ "سید مجتبیٰ سے کہیں مجھ سے مل لے" سید مجتبی اس کے پڑوسی تھے اور جس اسکول کے باہر طفیل چاٹ اور گولے گنڈے کا ٹھیلا لگاتا تھا، اس اسکول میں سید مجتبی پڑھاتے تھے. طفیل عرف "طفیل چاچو" اسکول کے غریب بچوں کو مفت چاٹ اور گول گنڈے کھلانے وجہ سے ہر دل عزیز تھا. لیکن خدا جانے اس رات اس پہ کیسا شیطان سوار ہوا کہ اس نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو مار کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا.

سید مجتبی وہ واحد انسان تھا جو پچھلے بیس برس سے مسلسل جیل میں آکر طفیل سے ملا کرتا. شاید یہ ہی وجہ تھی کہ آج بھی طفیل نے اسے بلایا.
جیل کی موٹی سلاخوں کے پیچھے نحیف سا انسان، دور سے دیکھو تو ایسا لگتا جیسے سوکھے درخت کے پتلے سے تنے پر کسی نے شلوار قمیض لٹکا رکھی ہو. داڑھی بڑی، بال بکھرے ہوئے، آنکھیں دھنسی ہوئیں، پچکے ہوئے گال، یہ جیل کی ایک کوٹھڑی کے کونے میں بیٹھا ہوا طفیل ہے! سید مجتبی آکر سلاخوں کے سامنے بیٹھ گئے. حال احوال پوچھا تو طفیل کہنے لگا "شاہ جی حال احوال کا وقت نہیں ہے، مجھے پتہ ہے میں مزید زندہ نہیں رہوں گا، آپ نے ہمیشہ ایک مہربان پڑوسی کی طرح میری مدد کی، میں نے اس کا شکریہ ادا کرنے کیلئے بلایا ہے آپ کو" اس نے سید مجتبی کی طرف دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا.
"ارے طفیل! اللہ تمہیں لمبی عمر دے بھائی یہ کیسی احمقانہ باتیں ہیں" سید نے سلاخوں سے اپنے ہاتھ اندر ڈال کر اس کے ہاتھوں کو نیچے کیا.
" شاہ جی آپ تو پڑھے لکھے ہو، مجھے یہ بتاؤ کہ جب تقدیر ہی کالی ہو تو ایسے لوگوں کو اللہ میاں اپنی ماں کے پیٹ میں ہی کیوں نہیں مار دیتا، ایسے بد نصیب جنم ہی کیوں لیتے ہیں" طفیل آج حد سے زیادہ افسردہ تھا، آج پہلی بار اس نے کچھ بولا تھا.
"صرف تقدیر ہی نہیں ہوتی تدبیر بھی ہوتی ہے طفیل بھائی، جو کہ اللہ نے انسان کو دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی زندگی کو سنوارے"
"سنوارنا! شاہ جی زندگی سنوارنا کسے کہتے ہیں؟ میرا باپ میں نے دیکھا نہیں، بوڑھی ماں نے گھروں میں کام کر کر کے مجھے پالا، بڑا ہوا تو سر گاڑی پیر پہیہ کرکے شادی کی، زبیدہ غریب تھی گھروں میں کام کرتی تھی. ہم نے مل کر تین بچوں کو پالا، بچپن سے شازیہ بھی ماں کی طرح گھروں میں کام کرنے لگی. شاہ جی آپ سے جھوٹ نہیں ایک دن ایسا آیا کہ ہم سب نے رات کا کھانا تک نہ کھایا تھا، گھر میں کچھ بھی نہ تھا. مجھے آج بھی میرے ننہے شوکی (شوکت) کا وہ جملہ یاد ہے اس دن پورا چاند تھا، وہ کھلے آسمان تلے چارپائی پہ میرے سینے پہ لیٹا تھا، چاند کو دیکھ کر کہنے لگا بابا چاند روٹی جیسا کیوں لگتا ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا شاہ جی، سوائے اس کے کہ اسے گلے لگا کر چوم لوں. اور اکرم! میرا بچہ .... درزی، گیراج، حتی کہ پکوڑے بیچے میرے معصوم نے. میرے بچے کے کھیلنے کودنے کے دن تھے شاہ جی، وہ بچہ تھا لیکن کسی نے اس پہ رحم نہ کیا کسی نے پانے سے مارا، کسی نے ماں کی گالی دی، کسی نے بہن کی، کسی نے... "
اس کی آنکھ بھر آئی وہ چپ ہوگیا. اپنے حلق کو حرکت دی جیسے غم کو نگل لینا چاہتا ہو. تھوڑی دیر تک جیل کی کوٹھڑی میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی. سسکتے ہوئے طفیل نے پھر سے بولنا شروع کیا.
" شاہ جی! قسم سے سارا دن مار و گالیاں کھا کھا کر شام کو جب میرا بچہ گھر لوٹتا تھا تو اگلے دن کام پہ جانے کا دل ہی نہیں کرتا تھا اس کا، کہتا تھا بابا مجھے نہیں جانا بس، مجھے اسکول جانا ہے سب بچے اسکول جاتے ہیں میں بھی! لیکن بچہ تھا مگر خوددار! جب دیکھتا کہ اس سے پہلے اس کی ماں محلے کے گھروں میں کام پہ جاتی ہے تو اس سے گھر میں نہیں بیٹھا جاتا تھا... شاہ جی..." وہ چپ ہو گیا.
"بولو چپ مت رہو دل ہلکا کرلو طفیل بھائی" سید مجتبی نے اسے کہا.
"شاہ جی! آپ تو جانتے ہیں میرا بارہ سال کا دانی (دانیال) سرکاری ھسپتال میں کیسے تڑپ تڑپ کر مرا، آپ کے سوا کسی نے میری مدد نہ کی تھی، آپریشن کیلئے ڈاکٹروں نے دو لاکھ روپے مانگے تھے، میں نے دانی کی جان بچانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھائیں، کسی نے میری مدد نہ کی، کوئی کیوں مدد کرتا بھلا، آخر میں مسکین ٹھیلے والا اور دو لاکھ... دانی کو تو مرنا ہی تھا اس کا لعنتی باپ غریب جو تھا... میرے بچے نے ماں کے سرہانے جان دی لیکن شاہ جی زبیدہ دلیر تھی، وہ صبر کا پہاڑ تھی روئی نہیں، گھر آ کر بچوں سے کہنے لگی بیٹا! اللہ (ج) کو جو پسند ہوتا ہے اسے وہ اپنے پاس بلا لیتا ہے، دانی اللہ کو پسند تھا اللہ نے کہا تم میرے پاس آجاؤ، اب وہ خوبصورت باغ میں ہوگا، وہاں آئس کریم، اچھے کپڑے، اور ہاں دانی کو سائیکل کا شوق تھا نا اب اللہ اسے نئی ہارن والی چھوٹی سائیکل بھی دے گا تم سو جاؤ دیکھنا رات میں دانی خواب میں آئے گا، سائیکل دیکھنا کتنی اچھی ہے اس کی... شاہ جی رات ہوئی تو زبیدہ سمجھی کہ میں سو گیا ہوں لیکن میں نے چادر سے منہ نکال کر دیکھا تو وہ دانی کی فوٹو سامنے رکھ کر اکڑوں بیٹھے زار و قطار رو رہی تھی...!"

یہ سن کر سید مجتبی بھی آنسو روک نہ سکے اور اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈال رومال نکالا اور آنسو پونچھنے لگے.
"شاہ جی! میں نے ٹھیلا لگایا، اور اس طرح بچوں کا پیٹ پالتا تھا. میری جوان بیٹی شازیہ شادی کے لائق ہوئی تو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ نہیں ہو رہا تھا. جوان بیٹی جن گھروں میں کام کرنے جاتی وہاں کئی قسم کے لوگ، جوان بیٹی پہ گندی نظریں ڈالتے وہ اپنی ماں سے حال دل کرتی... اس لیئے شادی کی فکر نے میری اور زبیدہ کی نیدیں حرام کر رکھی تھیں..."
یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا.
"بولو طفیل سن رہا ہوں جو کہنا ہے کہو مجھے اپنا بھائی سمجھو"
"شاہ جی!...." وہ "شاہ جی" کہہ کر دوبارہ چپ ہوگیا، شاید اسے بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی.
سید نے دوبارہ اصرار کیا تو وہ سسکتے ہوئے کہنے لگا " شاید زبیدہ کو یقین ہو گیا تھا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جو حال دانی کا ہوا وہ ہی شازیہ کا ہوگا. اس کی شادی کبھی نہیں ہو پائے گی، سو اس دن شام کو جب میں کام سے واپس لوٹا تو بیوی کچھ زیورات لے آئی اور لاکر کہا کہ طفیل اب شازیہ کا رشتہ ہوجائے گا، اب ہماری بٹیا اپنے سسرال جا پائے گی، میں نے جہیز کا انتظام کر لیا ہے. لیکن شاہ جی جب میں نے پوچھا کہ زیور کہاں سے لائی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے دوبارہ پوچھا یہ سونا کہاں سے لائی، اس نے جواب نہیں دیا. اور روتی رہی. بار بار پوچھنے پر بھی وہ خاموشی سے گردن جھکائے روتی رہی. میں نے کہا تم نے چوری تو نہیں کی مالکوں کی؟ اگر ایسا ہے تو یہ مجھے قبول نہیں، میری ماں نے محنت مزدوری کر کے مجھے پالا ہے، اور میں نے بھی ساری زندگی تجھے اور بچوں کو ایک نوالہ بھی حرام کا نہیں کھلایا. وہ کہنے لگی... شاہ جی!!!"
ایک بار پھر وہ چپ ہوگیا اور اس بار اپنی گردن اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ ڈال کر زارو قطار رونے لگا.
"طفیل بھائی صبر کرو" سید نے اسے دلاسہ دیا.
طفیل نے گردن اٹھائی، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، کہنے لگا
"شاہ جی! میری بیوی میرے پاؤں پہ گر گئی، روتے ہوئے کہنے لگی شازیہ کی عزت کیلئے میں اپنی عزت بیچ چکی ہوں، مجھے معاف کردینا طفیل لیکن شازیہ..."
طفیل کی سسکیاں اسے اپنی بات جاری رکھنے میں مانع ہو رہی تھیں. لیکن آج شاید بیس سال سے خاموش آتش فشاں پھٹا تھا لہٰذا اس نے اپنی قمیض کے دامن سے آنسو پونچھ کر پھر سے بولنا شروع کیا.
"شاہ جی! زبیدہ نے جسم فروشی شروع کر دی تھی، اس کی بات سن کر میں مرگیا. وہ رات کبھی نہیں بھولوں گا. ساری رات سوچتا رہا کہ کل اگر شازیہ کی اس جہیز سے شادی ہو بھی جائے تو وہ کیسے جی پائے گی، اسے ایک دن تو پتہ چلنا ہی ہے. زبیدہ نے شازیہ کا گھر بسانے کیلئے عزت بیچی مگر میں جانتا تھا اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں تھا... شاہ جی! میں نے ایسی زندگی پر لعنت بھیجی، جس میں شازیہ اور زبیدہ اس معاشرے میں گھٹ گھٹ کر جیئیں. مجھے یقین تھا کہ کل شازیہ کو بھی اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے ماں کی طرح جسم فروشی کرنی پڑے گی کیونکہ یہ دنیا اگر غریب کی مدد کرتی تو میرا دانی آج جوان ہوتا اور میری بیوی کو جسم فروشی نہ کرنی پڑتی، اس دنیا میں غریب کیلئے ذلت کے سوا کچھ نہیں. اسی وجہ سے میں نے انہیں ہمیشہ کیلئے سکون کی نیند سلا دی. میں زندہ رہا تاکہ ساری زندگی تڑپ تڑپ کر مروں، مجھے سکون کی موت نہیں مرنا تھا، مجھے روز روز مرنا تھا اور پچھلے بیس برس سے میں ھر روز مرتا ہوں، شاہ جی میں نے اس لیئے خود کو زندہ رکھا، یہ ہی میری سزا ہے میں اپنے دانی اور شازیہ کے لیئے کچھ نہ کر سکا..."
تھوڑی دیر کیلئے جیل کی کوٹھڑی میں خاموشی چھا گئی اور اس کے بعد سید مجتبی آنکھوں میں آنسو لیئے جانے لگے اور طفیل اپنی گردن جھکا کر روتا رہا.
اگلے دن میڈیا پہ خبر چلی "درندہ صفت انسان جس نے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور دو ننہے بیٹوں کو بیہمانہ طریقے قتل کیا تھا طویل عرصے تک جیل میں رہنے کے بعد آج سینٹرل جیل کراچی کی کوٹھڑی میں واصل جہنم ہو گیا"

قرآن اور اینڈروئـــڈ موبائل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



قرآن اور اینڈروئـــڈ موبائل

 



گھر کے عمر رسیدہ بزرگوں سے رابطے کیلئے انہیں کی-پیڈ والا موبائل دلواتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ جب گھنٹی بجے تو اس بٹن کو دباؤ گے تو آواز آئے گی. لیکن ایک عاقل و پڑھے لکھے نوجوان کو والدین اینڈروئڈ فون دلواتے ہیں کیونکہ اسے موبائل صرف کالز کرنے کیلئے درکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دوسرے بہت سے کام بھی لیتا ہے.

اللہ (ج) نے ہمیں بوڑھا و ان پڑھ نہیں سمجھا کہ ایک کتاب دے دی کہ جس کی بس تلاوت ہی کرنی ہے. نہیں! اللہ (ج) نے ہمیں عاقل و پڑھا لکھا و باشعور سمجھا اس لیئے *ملٹی فنکشنل قرآن* عطا کیا. قرآن کی تلاوت بیشک اپنی جگہ ثواب کی حامل ہے لیکن قرآن صرف ایک فنکشن یعنی تلاوت کیلئے نہیں ہے اس کی آیات کو سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے ھر شعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ملٹی فنکشنل ہے.

اب آپ ہی بتائیے جس کے پاس اینڈروئڈ موبائل ہو اور وہ اسے صرف ٹیکسٹ میسج اور کال کیلئے استعمال کرے، ہم اسے بیوقوف کہیں مگر جو شخص قرآن کو صرف تلاوت کیلئے استعمال کرے اسے...؟ لہٰذا *اس رمضان المبارک میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا*.

قرآن کو معجزہ کہتے ہو تو ثابت کرو کیسے؟

سم اللہ الرحمٰن الرحیم



قرآن کو معجزہ کہتے ہو تو ثابت کرو کیسے؟



تحریر: محمد زکی حیدری



جاپان کے ڈاکٹر ایموٹو (emoto) نے کتاب لکھی ہے The Hidden Messages in Water (پانی میں مخفی پیغامات). اس نے ثابت کیا کہ پانی پر بھی اچھے و برے الفاظ کا اثر ہوتا ہے. یہ ثابت کرنے کیلئے اس نے کیا یہ کہ پانی کی کرسٹلائن بناوٹ پہ تحقیق کی. اس نے شیشے کی بوتلیں لیں،ان میں پانی بھرا اور ان میں سے کچھ پر اچھے الفاظ کی پرچی چسپاں کی، مثلاً ایک پہ محبت، دوسرے پہ امن، تیسری بوتل پہ دوستی وغیرہ اور کچھ دوسری بوتلوں پر برے الفاظ مثلاً جنگ، نفرت، خون ریزی وغیرہ کی پرچیاں لگا دیں. پھر اس نے پانی کو فریز کرنے کے بعد ہائے اسپیڈ فوٹوگرافی کے ذریعے ان بوتلوں میں موجود پانی کے کرسٹلز کی بناوٹ کا تجزیہ کیا تو وہ دنگ رہ گیا. اس نے دیکھا کہ جن بوتلوں پر اچھے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز کی شکل منظم ہے بلکہ کچھ تو بڑی خوبصورت شکلوں میں منظم پائے گئے. لیکن اس کے برعکس جن بوتلوں پر برے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز بلکل بکھرے اور غیر منظم شکل میں ملے. (کرسٹلز کیا ہوتے ہیں ای موٹو صاحب کی تحقیق سے لی گئی کچھ تصاویر تحریر کے آخر میں ملاحظہ ہوں)

اس نے ثابت کیا کہ ہمارے جسم میں ستر سے پچہتر فیصد پانی ہے اگر ہمارے سامنے اچھے نام لیئے جائیں تو وہ ہمارے اندر مثبت طور اثرانداز ہوتے ہیں اور اگر برے نام لیئے جائیں تو ہماری طبیعت ہو جسم پر برا اثر ہوتا ہے!

میرا سلام ہے ای موٹو پر، اس نے وہ کام کیا جو ہم مسلمانوں کو کرنا چاہیئے تھا کیونکہ ہمارے قرآن کی شروعات ہی بسم، اسم سے یعنی نام سے شروع ہوتی ہے. اور اس کے بعد اسمائے الٰہی رحمٰن و رحیم... ہم نے کبھی غور نہ کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن میں ہر سورہ اللہ (ج) کے اسماء سے ہی شروع ہو رہی ہے. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم... ہر سورہ کے شروع میں کیوں؟ ہم نے نہ سوچا. اب اس جاپانی نے یہ تحقیق کر کے ہمیں دکھایا کہ دیکھو مسلمانو! قرآن میں "بسم" میں اسم اور اس کے بعد اللہ و رحمٰن و رحیم کیسے معجزے ہیں. پانی کی شکل و صورت پر یہ نام اثر انداز ہوتے ہیں. اس لیئے قرآن کی ہر سورہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے کہ تمہارے جسم میں موجود کرسٹلز کِھل اٹھیں اور تمہاری طبیعت ھدایت لینے کیلئے بہترین حالت میں آجائے.

کمال کی بات یہ ہے کہ سورہ توبہ میں بسم اللہ سے شروعات نہیں، کیونکہ اس کی شروع میں اللہ (ج) نے جنگ و جدل کی بات ہے لہٰذا یہ موضوع بسم اللہ سے سازگار نہیں تو بسم اللہ نہیں آئی. اسی ضمن میں حضرت علی (ع) کا قول بھی ملتا ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کیوں سورہ توبہ میں بسم اللہ سے ابتداء نہیں ہوئی؟ آپ نے فرمایا: لانھا امان و براء ۃ نزلت بالسیف 
بسم اللّٰہ امان ہے اور سورۂ برائت (توبہ) تلوار لے کر نازل ہوا ہے۔۔(محاسن التاویل ۸: ۱۲۱)

دیکھیئے پرفیکشن! دیکھیئے پِرسِیشن! افلا یتدبرون القرآن پھر کیوں قرآن میں تدبر نہیں کرتے. تدبر کرو، معجزے ملیں گے. علی (ع) نے وصیت میں فرمایا مسلمانوں قرآن کو نہ چھوڑنا کہیں ایسا نہ ہو اغیار قرآن کو سمجھنے میں تم پر سبقت لے جائیں.
جی میرے آقا یہ ہی ہوا ڈاکٹر ای موٹو بازی لے گیا ہم نے قرآن کو دم درود، ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے، اور تعویذ یا مردوں کو بخشنے کیلئے ہی سنبھال رکھا ہے ...

میرے سنی شیعہ بھائیوں! قرآن قرآن قرآن! رمضان ربیع القرآن ہے. یہ مبارک مہینہ قرآن کی بہار کہلاتا ہے اس قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے گا فر فر عربی پڑھ کر گھر مت چلے جائیے گا، ہم نے قرآن کو بھلا دیا یہ ہی وجہ ہے سورہ فرقان آیت ۳۰ میں رسول اللہ (ص) کی شکایت ملتی ہے کہ:
وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً

اے میرے پرودگار بیشک میری قوم نے قرآن کو بھلا دیا تھا.

قرآن، آئینہ اور دیوار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



قرآن، آئینہ اور دیوار



گلاب کا غنچہ جب زمین سے پھوٹ کر نکلتا ہے تو اس وقت اس میں نہ خوشبو ہوتی ہے نہ وہ رنگت. اسے کِھل کر گلاب بننے اور خوشبو پیدا کرنے کیلئے ھوا و روشنی درکار ہوتی ہے.
آیات قرآن بھی غنچے کی مانند ہیں بظاہر تو بس عربی کے الفاظ ہیں لیکن جب انہیں "فہم" کی روشنی لگتی ہے تو یہ کھِل اٹھتے ہیں اور پھر جب ان پر "عمل" کی ھوا چلتی ہے تو یہ انسان کی زندگی میں گلاب کی مانند بن جاتی ہیں اور زندگی کو خوشبو سے بھر دیتی ہیں.



ســــــــــــــورہ



بڑے عجیب راز ہیں قرآن کے! غور فرمائیں تو اس کے ہر باب کو "سورہ" کہا گیا ہے. "سور" عربی میں اس مضبوط دیوار کو کہا جاتا ہے جو قدیم زمانے میں ایک شہر کے گرد بنائی جاتی تھی. یہ دیوار اس شہر کو دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھتی تھی.
قرآن کے ہر باب کو شاید اسی وجہ سورہ کہا گیا ہے کہ یہ انسان کی زندگی کو شیطان کے حملے سے پناہ میں رکھتی ہیں.
 


آیــــــــات



ہم ہر روز آئینہ دیکھتے ہیں!
کیا ہم آئینے کا رنگ یا اس کے چوگرد لگے لکڑی یا پلاسٹک کے بارڈر کو دیکھتے ہیں؟ یا پھر آئینہ اس لیئے دیکھتے ہیں کہ وہ صاف ہے یا نہیں؟
*نہیں! ہم آئینے کو نہیں بلکہ آئینے میں اپنا حلیہ دیکھتے ہیں*. آئینہ ہمیں ہمارا چہرہ دکھاتا ہے.
یہ ساری مخلوقِ خدا بھی آئینۂ خدا ہے، ہر چیز اپنے خالق عظیم ہونے دلیل ہے. *گلاب در اصل آئینے کی طرح اللہ (ج) کی خلقت کی دلیل پیش کر رہا ہوتا ہے* مگر ہم اسے نہیں دیکھتے، جن کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں انہیں اس گلاب میں اللہ (ج) کی خلقت کارفرما نظر آتی ہے نہ کہ صرف ایک پھول! اسی طرح یہ زمین و آسمان، دن و رات، چرند و پرند، کھیت و کھلیان، چشمے و سمندر و صحراء... سب آیات الہٰی ہیں، آئینۂ خلقتِ خدا ہیں. اسی لیئے قرآن نے فرمایا إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ *لَآيَاتٍ* لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں *صاحبان عقل* کے لیے نشانیاں ہیں.
(آل عمران آیت ۹۰)

صاحبان عقل کیلئے! جن کے عقل کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں وہ آسمانوں و زمین کو عام نگاہ سے نہیں دیکھتے ایک آئینۂ الہٰی کے طور پر دیکھتے ہیں.


باتشکر: حجت الاسلام محمد رضا رنجبر
ملتمس دعا: محمد زکی حیدری

قرآن، ایکس-رے، ہیڈلائٹس اور نوٹ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



قرآن، ایکس-رے، ہیڈلائٹس اور نوٹ



ایکس-رے رپورٹ میں جسم کے نقائص دیکھنے کی لیئے ڈاکٹر ایکس-رے رپورٹ کو بلب کے سامنے رکھ کر دیکھتا ہے، اس طرح اسے مریض کے جس عضو میں *نــقــــــص* ہوتا ہے واضح طور پر نظر آجاتا ہے. یہ روشنی و نور کا وسیلہ بتاتا ہے جسم میں کہاں نقص ہے تاکہ اس کا علاج کیا جا سکے.

اسی طرح نوٹ کو دیکھیں، ہم نوٹ کے *نقلی اور اصلی* ہونے کا پتہ بھی ایک ایسی مشین کے ذریعے لگاتے ہیں کہ جو لائٹ یعنی نور کی مدد سے کام کرتی ہے. اگر یہ مشین بول دے کہ یہ نوٹ جعلی ہے تو پھر چاہے اسٹیٹ بینک کا گورنر ہی کیوں نہ کہہ دے کہ یہ نوٹ صحیح ہے لیکن کوئی نہیں مانے گا.

گاڑی کو دیکھیں اگر اس کی ھیڈ لائٹس کام نہ کریں تو وہ سوار کو تاریک راستوں سے گذار کر *منزل* پر نہیں پہنچا سکتی بلکہ ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے منزل کی بجائے وہ مسافر قبر تک پنچ سکتا ہے.

یہ تمام اور دیگر سینکڑوں دنیاوی کام نــــور کی مدد سے انجام پاتے ہیں. اسی لیئے اللہ (ج) نے قرآن کے بارے میں فرمایا
*وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا*
اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔
(سورہ نساء آیت ۱۷۴)

یعنی اس نور قرآن کی مدد سے ہم اپنی شخصیت کے نقائص سے آگاہ ہوتے ہیں یہ ہماری شخصیت کی ایکس-رے رپورٹ ہے، اسی قرآن کی مدد سے اصلی و جعلی عقائد میں فرق چیک کیا جاتا ہے. اس کے علاوہ حدیث کے درست یا غلط ہونے کو چیک کرنے کا بھی ایک طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا قرآن سے موازنہ کیا جائے قرآن کے مخالف ہے تو اس حدیث کو دیوار پہ مارو!
یہ قرآن ہماری زندگی میں ہیڈلائٹ کی طرح ہے کہ جو ہمیں تاریک راستوں میں صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے اور گمراہی سے بچا کر ہمیں کمال و سعادت کی منزل تک پہنچاتا ہے.

باتشکر: حجت الاسلام محمد رضا رنجبر
ملتمس دعا: محمد زکی حیدری

جنــت، پــادری اور امام محمد باقـــر (ع)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



جنــت، پــادری اور امام محمد باقـــر (ع)



امام محمد باقر (ع) دمشق میں اپنے فرزند کے ساتھ ایک جگہ سے گذرے اور دیکھا کہ خلیفہ وقت ھشام بن عبدالملک کے محل کے سامنے جم غفیر موجود ہے. امام نے معلوم کیا یہ کون لوگ ہیں اور کیوں یہاں جمع ہیں. جواب ملا کہ یہ سارے عیسائی پادری ہیں اور آج سب سے بڑا پادری (پاپ) آکر ان سے خطاب کرے گا یہ سب اس کے دیدار کیلئے جمع ہیں. امام بھی خاموشی سے آکر اس مجمعے میں بیٹھ گئے. تھوڑی دیر بعد ایک نہایت ہی کمزور، بوڑھا سا سفید ریش شخص لوگوں کے جھرمٹ میں آتا دکھائی دیا. جب اس پادری کی امام کے چہرے پہ نگاہ پڑی تو کہا:
*پــــادری:* تم ہم عیسائیوں میں سے ہو یا مسلمان؟
*امــــام:* مسمان ہوں.
*پـــادری:* ان کے علماء میں سے ہو یا نادان افراد میں سے؟
*امـــام:* نادان افراد میں سے نہیں ہوں!
*پـــادری:* پہلے میں سوال کروں یا آپ؟
*امـــام:* اگر چاہیں تو آپ سوال کر سکتے ہیں.
*پـــادری:* *تم مسلمان کس بنیاد پر یہ دعوا کرتے ہو کہ اہل بہشت کھاتے ہیں، پیتے ہیں مگر انہیں رفع حاجت کی ضرورت پیش نہیں آتی؟ کیا ایسی مثال دنیا کی زندگی میں بھی دے سکتے ہو؟*
*امـــام:* جی! اس دنیا میں اس کی روشن مثال رحم مادر ہے کہ جس میں بچہ کھاتا پیتا ہے مگر رفع حاجت نہیں کرتا.
*پـــادری:* تم نے تو کہا تھا کہ تم مسلمانوں کے علماء میں سے نہیں ہو پھر ایسا جواب کہاں سے لائے؟
*امـــام:* میں نے ایسا نہیں کہا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ میں نادان افراد میں سے نہیں!
*پـــادری:* *تم لوگ کس بنیاد پر یہ دعوا کرتے ہو کہ جنت کے میوے اور نعمتیں جتنا استعمال کرو ختم نہیں ہوں گے. کیا اس دنیا سے ایسی کسی چیز کی مثال پیش کر سکتے ہو؟*
*امـــام:* جی! اس دنیا میں چراغ کا شعلہ اس کی مثال ہے. ایک جلتے ہوئے چراغ کے شعلے سے ھزاروں چراغ جلا لو مگر وہ شعلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اس میں ذرا بھی کمی نہیں آتی.

پادری نے جو سوال کیئے امام نے منطقی جواب دیئے. آخر میں پادری کو غصہ آگیا، اپنے چیلوں سے کہنے لگا کہ تم نے اس شخص کو بلوا کر مجھے رسوا کیا ہے جب تک میں زندہ ہوں تم میری شکل نہ دیکھو گے. یہ کہہ کر وہ ناراض ہو کر جانے لگا.

حوالہ: دلائل الامامہ (ص ۱۰۵-۱۰۷)

حجـــاج بن یوسف کے دماغ کی بتی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



حجـــاج بن یوسف کے دماغ کی بتی



حجاج بن یوسف حافظ قرآن تھا. اسے پتہ چلا کہ عراق کا بوڑھا فقیہ یحیٰ بن یعمر اپنی کتب میں حسنین (ع) کو "یابن رسول اللہ" لکھتا ہے. حجاج نے حکم دیا اس بوڑھے کو ذرا دربار میں پیش کرو. اسے میں سبق سکھاتا ہوں. یحی کو پابند رسن حجاج کی دربار میں پیش کیا گیا. حجاج نے کہا یحی بن یعمر بتاؤ کیا وجہ ہے کہ تم حسنین (ع) کو رسول کا بیٹا کہتے ہو جب کہ قرآن کہتا ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم محمد تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے. (احزاب ۴۰)
یحی نے کہا میں انہیں اولاد فاطمہ (س) ہونے کی بنیاد پر ابن رسول کہتا ہوں. حجاج نے کہا یحی بن یعمر! اولاد باپ سے چلتی ہے ماں سے نہیں. یعمر نے کہا قرآن سے ثابت کرونگا. حجاج نے کہا اگر تم نے جواب دیا تو انعام دونگا اگر نہیں تو میں تمہیں قتل کرنے کا مجاز ہوں. یحی نے کہا قبول ہے مگر کیا تم حسنین (ع) کو اولاد پیغمبر نہیں مانتے؟
حجاج بولا نہیں. یحی نے کہا قرآن میں سورہ انعام کی آیت چوراسی پڑھو
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ *ذُرِّيَّتِہٖ* دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۴ۙ
 
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی *اور ان کی اولاد میں سے* داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں.

یحی نے کہا اس میں اولاد ابراھیم (ع) کی بات ہو رہی ہے نا؟
حجاج بولا جی! یحی نے کہا اگلی آیت پڑھو

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے.

یحی نے کہا عیسی (ع) کیسے اولاد ابراھیم (ع) ہے جب کہ ان کا تو باپ نہیں تھا...؟؟؟
تم کہتے ہو اولاد باپ سے چلتی ہے ... قرآن اگر عیسی (ع) کو بغیر باپ کے کئی پشتوں کے بعد بھی اولاد ابراہیم (ع) کہہ رہا ہے تو حسن و حسین (ع) تو رسول (ص) کے بہت قریب تھے وہ کیوں یابن رسول اللہ نہ کہلوائیں...

حجاج کے دماغ کی بتی :bulb:جل گئی اس نے کہا اسے آزاد کر دو، جانے دو. بعض روایات کے مطابق حجاج کو وعدے کے مطابق مجبور ہوکر اسےطانعام بھی دینا پڑا.

حوالہ: احتجاجات-ترجمه جلد چهارم بحار الانوار، ج‏۲، ص: ۱۴۵

ملتمس دعا: محمد زکی حیدری

شیعہ، احسن تقویم اور کـــتا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



شیعہ، احسن تقویم اور کـــتا


ازقلم: محمد زکی حیدری



کل ایک مولائی کی تحریر نظر سے گذری، موصوف نے خود کو اہل بیت (ع) کا کتا کہنے کے حق میں کتے کے ایسے فضائل تحریر کیئے تھے کہ میں نے کتے پالنے والوں کے منہ سے بھی ایسے فضائل نہیں سنے. فـــضائلِ کتـــا! اور ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ بعض منبر والوں کی تقریر ہی اصحاب کہف کے کتے پر ہوتی ہے. شیعہ منبر سے جب بھی اصحاب کہف کا ذکر سنا تو کتے کی وجہ سے ہی سنا، گویا کتا اصحاب کہف کے پیچھے نہیں تھا اصحاب کہف کتے کے پیچھے تھے (معاذاللہ). اصحاب کہف کی پارسائی و جہاد و توکل و شجاعت و استقامت سب کچھ چھوڑ کر بس کــــتا ہی یاد رہا.

شاید آپ یہ کہیں کہ میں آپ کے خود کو سگ علی یا کلب علی کہنے کا مخالف ہوں. نہیں نہیں *آپ کی مرضی ہے صاحب! آپ خود کو علی (ع) کتا کہو، بلی کہو خچر کہو یا گدھا. میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات مان لیں کہ یہ تواضع و انکسار کا طریقہ سیرت معصومین (ع) نہیں.* ہمارے پاس آئمہ (ع) کی دعائیں موجود ہیں ان دعاؤں میں آئمہ (ع) نے خود کو اللہ (ج) کے سامنے انکساری سے پیش کیا ہے. دعائے کمیل میں علی (ع) فرماتے انا عبد الذلیل الحقیر المسکین.. اے اللہ میں تیرا حقیر و ذلیل و مسکین بندہ... مناجات مسجد کوفہ دیکھئے مولای یا مولای انت العزیز و انا ذلیل... انت االاعلی و اناالحقیر...
دعا عرفہ اٹھا لیں کیسے مولا حسین (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں خود کو حقیر ثابت کر رہے ہیں کہ فابْتَدَعْتَ خَلْقى مِنْ مَنِىٍّ يُمْنى تم نے میری ابتداء نطفہ سے کی وَاَسْكَنْتَنى فى ظُلُماتٍ ثَلاثٍ بَيْنَ لَحْمٍ وَدَمٍ وَجِلْدٍ، پھر تین قسم کے تاریک پردوں گوشت و خون و چمڑے میں مجھے رکھا.
صحیفہ سجادیہ کی دعائیں دیکھیں امام سجاد (ع) کیسے تواضع و انکساری کا مظاہرہ کر رہے ہیں *لیکن مقام انسانیت، جو نایاب مقام اللہ (ج) نے انسان کو بخشا ہے اس سے خود کو خارج نہیں کیا. تواضع و انکساری مقام انسانیت میں رہتے ہوئے کی ہے، خود کو نوع انسانیت سے گرا کر کے کسی نجس جانور سے تشبیہ نہیں دی*



بــــتی ســـوال



اگر آئمہ (ع) نے تواضع و انکساری کرتے وقت خود کو کسی نجس جانور سے نسبت نہیں دی تو آج ہم خود کو جانور کیوں کہتے پھریں؟ کیا تواضع و انکساری کیلئے سیرت آئمہ (ع) کافی نہیں؟ شاید کوئی کہے کہ بھئی شہباز قلندر نے خود کو کتا کہا تھا. جی تو بسم اللہ آپ قلندر کی پیروی کریں ہم اللہ (ج) کے بھیجے ہوئے ہادیوں کی.
قرآن میں دعائیں ہیں انبیاء کی، کسی نبی نے خود کو کسی جانور سے نسبت نہیں دی جب کوئی نبی، کوئی امام، کسی صحابی مثلاً سلمان، مقداد، ابوذر، عمار، میثم تمار نے خود کو علی (ع) کتا کہا ہو تو لا کر دکھا دیں.

چودہ معصوم ہادی ہمارے گھر کے ہر فرد کو انسان بنانے آئے، ان کی محبت انسان کو *احسن تقویم* بنا دیتی ہے لیکن ہم ایسے بدنصیب نکلے کہ ان کی محبت میں کتا کہلوانا پسند کیا.

بـــــتی اہـــانت
آخری عرض یہ کہ آپ خود کو کتا کہہ کر معصوم کی اہانت کرتے ہیں. وہ ایسے کہ ابوہریرہ کا اصل نام عبدالرحمٰن ابن صخر تھا لیکن چونکہ بلیاں پالتا تھا تو اسے ابو ہریرہ کہا گیا مطلب بلیوں والا. "ابو" کا مطلب والا یا صاحب بھی ہے. اب اگر آپ خود کو علی (ع) کا کتا کہتے ہیں تو آپ کے بقول علی (ع) کتے پالنے والے ہیں، تو کیا علی (ع) کو (مــــــعاذاللہ) ابو کلاب (کتوں والا) کہا جائے؟ آپ تو غیر مسقیم طور پر علی (ع) کو یہ ہی لقب دے رہے ہیں.
اللہ (ج) ہمیں آئمہ (ع) کی سیرت پر عمل کر کے قرآنی اصطلاحات "احسن تقویم" و "اشرف المخلوقات" بننے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین

رومـــی بــمقابلہ چیــــنی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



رومـــی بــمقابلہ چیــــنی



مثنوی میں مولانا رومی نے نظم کی صورت ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے سامنے چینی اور رومی پیش ہوئے، جب بات نقاشی (پینٹنگ) کی نکلی تو چینیوں نے دعوا کیا کہ ان جیسا نقاش دنیا میں موجود نہیں. رومی بیشک نقاشی سے نا آشنا تھے مگر دعوا کیا کہ وہ دنیا میں سب سے اچھے نقاش ہیں، بادشاہ نے کہا تم دونوں کو جو چیز چاہیئے تمہیں فراہم کی جائے گی تم لوگ نقاشی کرو فیصلہ ہم کریں گے. چینی پینٹرز نے کہا ہمیں رنگ چاہیئے اور فلاں فلاں نقاشی کا سامان. رومیوں نے کہا ہمیں رنگ نہیں چاہیئیں بس ہماری تین شرائط ہیں. بادشاہ نے کہا کیا شرائط؟ رومیوں نے کہا ایک یہ کہ جس جگہ چینی نقاشی کریں گے ہماری نقاشی کی جگہ عین ان کے سامنے ہو. دوسرا یہ کہ چینی نہ ہمارا کام دیکھیں گے نہ ہم ان کا. تیسری شرط یہ کہ ہم دونوں کے کام کرنے کی جگہ کے درمیان پردہ حائل ہو.
بادشاہ نے شرائط قبول کیں چینی ایک دیوار پہ نقاشی کرنا شروع ہوئے. ادھر رومی جو نقاشی سے بلکل نا آشنا تھے نے صیقل (قلعی کرنے کی دھات جو چیزوں کو چمکانے کے کام آتی ہے) اٹھایا اور دیوار کو شیشے کی طرح چمکا دیا. مقرر وقت ختم ہونے پر بادشاہ نے چینیوں کی نقاشی دیکھی تو حیران رہ گیا کیا ہی کمال کے نقش و نگار بنائے گئے تھے. پھر سوچا کہ چلیئے اب رومیوں کا کام دیکھتے ہیں. رومیوں نے کہا بادشاہ سلامت آپ پردے کے سامنے کھڑے ہوں، سب کھڑے ہوئے اور رومیوں نے جھٹ سے جو پردہ کھینچا تو جو جو چینیوں کی نقاشی تھی وہ سارے نقش و نگار سامنے کی دیوار پہ چمکنے لگے. کیونکہ رومیوں نے دیوار کو صیقل سے قلعی کر کے شیشہ بنا دیا.

یہاں مولانا رومی فرماتے ہیں صاف و پاک دل انسان بھی اس قلعی شدہ صاف شیشے نما دیوار کی طرح ہے، اس نے اپنے نفس کو صیقل کر کے شیشہ بنا دیا ہوتا ہے اور اللہ (ج) کی ساری صفات اس کے وجود سے ٹکرا کر ہم تک پہنچتی ہیں اور اسی لیئے انہیں مظہر صفات خداوندی کہا جاتا ہے.

*خلیفہ* کا مقصد یہ ہی ہے، سارے انبیاء اور آئمہ (ع) اصل میں وہ صاف شفاف صیقل شدہ شیشہ نما دیواریں ہیں کہ جن سے اللہ (ج) کی تمام تر صفات ٹکرا کر ہمیں نظر آتی ہیں. ہم کھردری دیواریں ہیں، ہمارے نفس نے گناہ کیئے ہیں اس لیئے ہمارے نفس کی دیوار اتنی شفاف نہیں کہ صفات خداوند متعال اس سے ٹکرا کر عوام تک پہنچیں. مگر محمد (ص) کو دیکھیئے ذات اقدس الہٰی کے سامنے صیقل شدہ دیوار ہیں کہ جس سے صفات خدا ٹکرا کر ہم تک پہنچتی ہیں.
 
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

اللہ (ج) نے ملائکہ سے کہا میں زمین پہ خلیفہ بنانے جا رہا ہوں. یعنی آدم (ع) نامی پاک شیشہ بنانے جا رہا ہوں جو میری صفات کا آئینہ ہوگا.

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ
فرشتوں نے کہا یہ تو زمین میں فساد و خونریزی کرے گا. فرشتے سمجھ رہے تھے کہ اللہ (ج) کوئی پرانی دیوار، کھردری دیوار بنانے جا رہا ہے. لہٰذا اللہ (ج) نے فرمایا
إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے. تمہیں کیا پتہ کہ میں ایسے ایسے شیشے بنانے جا رہا ہوں کہ جن کے کردار سے دنیا کے لوگوں کو میرے صفات کی کرن نظر آئے گی. تمہیں کیا پتہ کہ میں محمد (ص) و علی (ع) و فاطمہ (س) و حسنین (ع) بنانے جا رہا ہوں کہ جنہیں دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ جب مظہر صفات خدا ایسا ہے تو خود خدا کیسا ہوگا.


با تشکر از حجت الاسلام محمد رضا رنجبر
 

امام حسن (ع) یعنی بصیرت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


امام حسن (ع) یعنی بصیرت


از قلم: محمد زکی حیدری



مرحوم خواجہ نصیرالدین طوسی (رض) نے ایک بڑا ہی منفرد کام کیا ہے، انہوں ہر امام (ع) کیلئے ایک مخصوص درود لکھی ہے، جب امام حسن (ع) پہ پہنچتے ہیں تو لکھتے ہیں السلام علی السید المجتبی و الامام المرتجی، صاحب الجود و المنن، دافع المحن والفتن؛ سلام ہو اس امام پر کہ جس کی زندگی جود و سخا و فتنوں کو مٹانے و ظلم کی مخالفت سے بھرپور ہے.

میرا سلام ہو مرحوم خواجہ (رض) کی باریک بینی پر! کمال کے الفاظ انتخاب کیئے ہیں. ہم ساری زندگی یہ سوچتے رہے کہ ظلم مخالف صرف امام حسین (ع) ہی تھے کہ کربلا میں یزید کے خلاف قیام کیا اور امام حسن (ع) صلح پسند مگر ایک برجستہ عالم و محقق کی نظر دیکھیئے امام حسن (ع) کو دافع المحن و الفتن قرار دے رہے ہیں.

یہ اس مشہور اعتراض کا جواب بھی ہے کہ جو بعض افراد کی طرف سے وجود مبارک امام حسن (ع) پر کیا جاتا ہے کہ کیا وجہ تھی علی (ع) نے جنگ کی، حسین (ع) نے جنگ کی جب کہ امام حسن (ع) نے جنگ نہ کی، اور پھر اپنی خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں کہ امام حسن (ع) ذرا ٹھنڈی طبیعت کے تھے، صوم و صلاۃ کو ترجیح دیتے تھے جنگ و جدل میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ. بھائی صاحب آپ نے امام حسن (ع) شخصیت کا مطالعہ ہی نہیں کیا وگرنہ ہر گز ایسا نہ کہتے. بھیا باطل کے خلاف جنگ صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتی، جنگ کا مقصد ہوتا ہے دشمن کے اہداف کو ناکام بنانا اور اپنے اہداف کا حصول! یہ خاموشی کے ہتھیار سے ہو تو علی (ع) جیسا امام پچیس سال خاموش رہ کر دشمن کے اہداف کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتا ہے، یہ ہدف اگر تلوار میان سے نکال کر پورا ہو رہا ہو تو حسین (ع) کربلا میں نظر آتے ہیں. اور اگر اس ہدف کی تکمیل صلح کی تلوار سے ہو تو امام حسن (ع) معاویہ کو بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں. ہر معصوم (ع) نے وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہتھیار کا انتخاب کیا.

اب شاید سوال ہو کہ بھئی کیسے امام حسن (ع) نے معاویہ کو بے نقاب کیا تو پہلے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ افسوس کہ ہمیں منبر سے عموماً آدھی بات بتائی جاتی ہے، کیونکہ مقصد نعرے لگوانا ہوتا ہے لہٰذا ہمیں صلح امام حسن (ع) کی کہانی کچھ اس طرح پیش کی گئی ہے کہ گویا امام حسن (ع) فرما رہے ہوں کہ بھئی مجھے جنگ ونگ نہیں کرنی لاؤ معاویہ صاحب صلح نامہ لاؤ میں دستخط کیئے دیتا ہوں! نہیں بھائی ایسا نہیں ہے!!!

امام حسن (ع) کو جب علم ہوا کہ معاویہ عراق پر چڑہائی کرنے کیلئے ۹۰ ہزار کا لشکر لیئے پیش قدمی کر رہا ہے تو امام (ع) نے عبید اللہ بن عباس کی سپہ سالاری میں ۴۰،۰۰۰ کا لشکر (با اختلاف تعداد لشکر) معاویہ کے خلاف بھیجا اور خود ایک لشکر کے ساتھ مدائن میں رکے کیونکہ ان پر جراح بن سنان نامی شخص نے اچانک حملہ کر کے ان کے پیر پر تلوار کی ایسی ضرب لگائی تھی کہ جو گوشت کو چیرتی ہوئی ہڈی تک جا پہنچی. اس وجہ سے امام (ع) لشکر سے جدا ہوکر سعد بن مسعود ثقفی کے گھر بستر تک محصور ہوگئے(۱) یہاں امام (ع) کو خبر ملی کہ *عبیداللہ بن عباس* کو معاویہ نے 10,0000درہم کی آفر کی اور وہ آٹھ ھزار ساتھیوں کے ساتھ معاویہ سے جا ملا. (۲)

اس کے بعد امام (ع) نے *کـــــندی* کو سپہ سالار بنا کر بھیجا وہ جب انبار نامی علائقے تک پہنچا تو معاویہ نے اپنے جاسوس کے ذریعے اسے 50،000 درہم اور شام کے مختلف علائقوں پر حکمرانی کی لالچ دے کر خرید لیا اور کندی اپنے کئی ساتھیوں سمیت معاویہ سے جا ملا.
اس کے بعد تیسرا لشکر امام (ع) نے *مـــــرادی* کی سپہ سالاری میں بھیجا مرادی کو بھی معاویہ نے خرید لیا. (۳)
یہ جنگ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ یہ ٹھنڈی طبیعت والا امام لگتا ہے آپ کو؟

اب امام (ع) کی بصیرت ملاحظہ ہو، ساتھی چھوڑ گئے، سپہ سالار خیانت کر گئے، جو باقی بچ گئے وہ سپہ سالاروں کی خیانت دیکھ دیکھ کر تھک گئے تھے، ان کے عزائم ڈھیلے پڑ گئے، معاویہ کا بہت بڑا لشکر عراق پہ قابض ہونے آ رہا ہے اور ایسے میں معاویہ کی طرف سے صلح نامہ آتا ہے. امام (ع) نے سوچا تلوار سے تو معاویہ بے نقاب نہ ہوا، اب اسی صلح نامے کے ذریعے ہی ساری دنیا کے سامنے معاویہ کو بے نقاب کریں لہٰذا آپ نے شرائط رکھ کر صلح نامہ معاویہ کو بھیجا. امام (ع) کو علم تھا کہ معاویہ کبھی صلح میں مذکور شرائط کو قبول نہیں کرے گا لیکن اگر معاویہ نے ان شرائط کو مان بھی لیا تو بھی امام (ع) کی کامیابی تھی کہ شیعوں کی جان و مال محفوظ ہوجائے گی اور معاویہ کے بعد یزید جیسا قبیح انسان منبر رسول (ص) پر نہ آ پائے گا. اور اگر وہ امام (ع) کی طرف سے پیش کردہ شرائط کی مخالفت کرتا ہے تو ساری دنیا کے سامنے اس کے امن پسند ہونے کے کھوکھلے دعوے کی قلعی کھل جائے گی اور یہ ہی ہوا معاویہ نے صلح کو ہاتھ میں لیا پڑھا اور اپنے پیروں تلے روند دیا. سب نے دیکھ لیا کہ معاویہ کی حقیقت کیا ہے.

یہ ہے بصیرت، یہ ہے فتنے کو مٹانے کا طریقہ، یہ ہے ظالم کو بے نقاب کرنے کا طریقہ، بصیرت یعنی حالات آپ کے بلکل مخالف ہوں لیکن آپ ایسی صورتحال میں بھی اپنی شخصیت کا لوہا منوائیں. اور امام حسن (ع) نے یہ بخوبی کر دکھایا.

حـــــوالــــے:
(۱) ارشاد مفید، فارسی ترجمہ ص 8 - 9. 
(۲) ایضاً ص 8 - 9. اور تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 191
(۳) آیت اللہ امین، اعیان الشیعه، ج 1، ص 569

گنــــــــاہ تھوڑا ســــــزا زیادہ کیــوں؟

سم اللہ الرحمٰن الرحیم



گنــــــــاہ تھوڑا ســــــزا زیادہ کیــوں؟


ســــــوال: بھائی برے سے برا انسان بھی زیادہ سے زیادہ ۹۰ یا ۱۰۰ سال گناہ کی زندگی گذارتا ہے. تو بھائی اسے ہمیشہ کیلئے کیوں جہنم میں رکھا جائے گا؟ کیا یہ عدالت ہے کہ گناہ سؤ سال اور سزا ھزاروں سال؟



مــــثالی جــــواب

 


اس سوال کا جواب بلکل سادہ ہے. چرسی تین سال منڈ کے چرس والی سگرٹ پیتا ہے اور اپنے پھیپھڑے آلودہ کر کے ٹی.بی کا شکار ہوجاتا ہے اب یہ پوری زندگی اذیت سے کھانستا رہے تو کیا وہ ڈاکٹر سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب میں نے تو صرف تین سال چرس پی تھی مجھے ساری زندگی پھیپڑوں کا درد و کھانسی کیوں؟

یا پھر مسٹر شوکت بندوق اٹھا کر مسٹر انور کو جان سے ماردے اور جب عدالت اسے عمر قید سنا دے تو مسٹر شوکت کہے کہ بھائی میں نے تو مسٹر انور کو دو منٹ میں مارا تھا ساری عمر سزا کیوں کاٹوں؟




علــــــمی جــــــواب
 


قرآن میں اللہ (ج) نے وعدہ کیا ہے کہ شرک کے علاوہ سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا

اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا.
(سورہ نساء آیت 48)

یعنی ھمیشہ کیلئے جہنم میں وہ رہے گا جو *جان بوجھ* کر حق کا انکار کرے، اللہ (ج) شریک ٹھہرائے. وہ ہی بدبخت جہنم میں رہے گا. باقی جو ہم جیسے ہیں وہ برزخ دوزخ میں کچھ دن رہیں گے تھوڑی بہت دھلائی ہوگی آخرکار جنت میں چلے جائیں.
لہٰذا ہمیشہ کیلئے جہنم میں فرعون جیسے ہوں گے کہ جو جانتے بھی ہیں کہ اللہ (ج) ہی معبود حقیقی و واحد ہے لیکن پھر بھی ضد سے کام لیا کرتے ہیں.
آج بھی اگر کوئی جانتا بھی ہو جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا پھر بھی ضد کرے تو بھیا ظاہر ہے وہ خود ہی اللہ (ج) سے جہنم مانگ رہا ہے تو ایسے کو جہنم میں ڈالنے پر اعتراض کیسا. ہے نا؟



خــــلاصہ



*اللہ (ج) ایسے لوگوں کو ہمیشہ جہنم میں رکھے گا کہ جنہیں ابدی زندگی بھی دے دی جائے تو بھی یہ حق کے منکر ہی رہیں گے ایمان نہیں لائیں گے. چونکہ ان کا کفر ابدی ہے تو سزا بھی ابدی*

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



 فرشتوں کا سجدہ نہ آدم (ع) کو تھا نہ اللہ (ج) کو



ہم میں سے بہت سے افراد اس مغالطے کا شکار ہیں کہ فرشتوں نے جو آدم (ع) کو سجدہ کیا تھا، وہ تھا تو اللہ (ج) کو ہی مگر حضرت آدم (ع) صرف قبلہ کی طرح تھے کہ ان کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا.

یہ بات درست نہیں ہے!!! اگر یہ سجدہ خدا کو ہوتا تو شیطان کبھی ایسا سجدہ کرنے سے انکار نہ کرتا کیونکہ وہ چھ ھزار سال اللہ (ج) کو سجدے کرتا رہا.

*تو کیا یہ سجدہ آدم (ع) نامی شخص کو تھا؟*
جواب: نہیں! :blush:
تو پھر؟

دیکھیئے ہر انسانی کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں.
ایک حقیقی ایک حقوقی.

مثال: مولانا شوکت حسین شربتی صاحب! شوکت صاحب کی حقیقی شخصیت یہ ہے کہ وہ شوکت حسین ولد رونق حسین ہیں بس، لیکن ان کی حقوقی شخصیت کیا ہے؟ عالم دین ہونا. اب جو ان کو جانتا بھی نہیں ہوگا وہ بھی انہیں دیکھ کر بڑے احترام سے پیش آئے گا کہ لمبی داڑھی، سر پہ ٹوپی یا عمامہ، ہاتھ میں تسبیح! مولانا صاحب ہیں. یہ احترام شوکت حسین ولد رونق حسین کا نہیں بلکہ عالم دین کا ہے. یہ عالم دین ہونا شوکت صاحب کی *شخصیت حقوقی* ہے. ورنہ ان کی شخصیتِ حقیقی تو محض شوکت حسین ولد رونق حسین ہی ہے.

لہذا فرشتوں سے آدم (ع) کی شخصیت حقیقی کو سجدہ نہیں کروایا گیا بلکہ شخصیت حقوقی یعنی آدم (ع) کے مقام خلافت و انسان کامل ہونے کو سجدہ کروایا گیا اور یہ منصب خلافت جاری ہے ہر کامل انسان اللہ (ج) کا خلیفہ ہے اور مسجود ملائکہ ہے. *سجدہ صرف آدم (ع) کی شخصیت حقیقی کو ہوتا تو بات آدم (ع) تک محدود رہتی، ان کے بعد کوئی مسجود ملائکہ نہ ہوتا* لیکن نہیں! اللہ (ج) نے مقام خلافت و مقام انسان کامل کو مسجود ملائکہ قرار دیا اب جب تک جس شخص کے پاس یہ مقام رہے گا وہ شخص مسجود ملائکہ ہوگا.

(اقتباس از دروس آیت اللہ جوادی آملی)

وما علینا الا البلاغ

ملتمس دعا: محمد زکی حیدری

ابو القاسم، امام المتقین (ع) اور امام المتعصبین (لعہ)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم




ابو القاسم، امام المتقین (ع) اور امام المتعصبین (لعہ)


تحریر: محمد زکی حیدری

 



حسن بن فضال اپنے والد صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) سے پوچھا رسول اللہ (ص) کو ابو القاسم کیوں کہا جاتا ہے. فرمایا کیونکہ آپ (ص) کے بیٹے کا نام قاسم تھا.
میں کہا یابن رسول اللہ (ص) کیا آپ مجھے اس لائق سمجھتے ہیں کہ اس کی مزید وضاحت مجھ سے بیان فرمائیں.
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ نبی (ص) نے فرمایا میں اور علی (ع) اس امت کے باپ ہیں؟
میں کہا: جی!
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) اپنی ساری امت بشمول علی (ع) کیلئے والد کا مقام رکھتے ہیں؟
میں نے کہا: جی!
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ علی (ع) جنت و جہنم تقسیم کرنے والے، ہیں؟
میں نے کہا: جی جانتا ہوں.
فرمایا: اسی وجہ سے انہیں قاسمِ (تقسیم کرنے والا) جنت و جہنم کا والد کہا گیا ہے. (۱)

یعنی امام رضا (ع) فرما رہے ہیں کہ علی (ع) جنت و جہنم کے قاسم (تقسیم کرنے والے) ہیں، اور علی (ع) نے چونکہ رسول (ص) کے ہاتھوں پرورش پائی اور دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد (ص) علی (ع) کے استاد بھی تھے اور استاد باپ کی جگہ ہوتا ہے اس لیئے محمد (ص) ابو القاسم یعنی جنت و جہنم تقسیم کرنے والے کے باپ قرار پائے.

کمال ہے علی (ع) کی ذات اقدس! جس زاویے سے دیکھو علی (ع) وجود مبارک محمد (ص) کا اٹوٹ جز نظر آتے ہیں. آپ دیکھیں ہر نبی کی ذریت اس کی اولاد سے چلی ہے مگر محمد (ص) کی ذریت علی (ع) سے جاری رہی. یہ علی (ع) ہیں کہ ان کی اولاد ہی یابن رسول اللہ کہلواتی ہے.


 *آپ امام المتقین (ع) کو مانتے ہو یا امام المتعصبین کو؟*:bulb:

علی (ع) امام المتقین ہیں آپ (ع) نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 192 میں شیطان کو "امام المتعصبین" تعصب کرنے والوں کا امام قرار دیا. شیطان نے آدم (ع) سے تعصب کیا. شیطان کا جرم کیا تھا؟ وہ اللہ (ج) *کو مانا* چھ ھزار سال سجدے کیئے مگر اللہ (ج) *کی نہیں مانی* کہ آدم (ع) کو سجدہ نہ کیا. شیطنت یہ ہی ہے کہ آپ *کسی کو* مانو مگر *اس کی* نہ مانو. آج کل افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے بعض شیعہ دوست علی (ع) *کو* مانتے ہیں مگر علی (ع) *کی* نہیں مانتے. یہ تو صاف صاف امام المتعصبین کی سیرت ہے. اب وہ اپنے دماغ کی بتی جلا کر سوچ لیں کہ وہ واقعی امام المتقین کے شیعہ ہیں یا امام المتعصبین کے!

حوالہ:
۱- بحارالانوار ج 16 ص 95

آل سعود کو للکارنے والے حرم امام علی (ع) کی تعمیر تاریخ کے آئینے میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



*آل سعود کو للکارنے والے حرم امام علی (ع) کی تعمیر تاریخ کے آئینے میں*



تحریر: محمد زکی حیدری



ایک سرپھرے شخص کو فیکٹری مالک نے نوکری سے نکال دیا، وہ سر پھرا ہفتے میں ایک دو بار رات کو چوری چھپے فیکٹری مالک کے گھر کے سامنے رفع حاجت کرکے بھاگ جاتا تھا، ایک دن پکڑا گیا جب اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ کام کیوں کرتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ میں فیکٹری مالک کو بتانا چاہتا ہوں کہ رازق اللہ (ج) کی ذات ہے تم نے مجھے نوکری سے نکال دیا تو میں بھوکا نہیں مر رہا. آج بھی مجھے اللہ (ج) رزق دے رہا ہے.

آپ شاید تعجب کریں کہ آٹھ شوال یوم انہدام جنت البقیع ہے اور مجھ کوڑ مغز کو کیا ہوا کہ میں حرم امیر المومنین (ع) کی تاریخ لکھنے بیٹھ گیا. میں بھی سر پھرا ہوں، شیعان حیدر کرار کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مایوس نہ ہوں اور سعودی ملعونوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے ایک جنت البقیع کو منہدم کیا تو کیا اہل بیت (ع) کا نام مٹ جائے گا؟ ہر گز نہیں. یہ لو پڑھو کیسے ایک مخفی قبر آج کروڑوں کی زیارت گاہ ہے.

امیر کائنات (ع) کی قبر کے بارے میں یہ تو واضح امر ہے کہ ان کی قبر مدت دراز تک مخفی رہی، پھر ایک قصہ ہارون رشید کا ملتا ہے کہ وہ شکار پہ تھا کہ اس کے شکاری کتوں نے کچھ ہرنوں کا پیچھا کیا جب وہ ہرن ایک مقام پر پہنچی تو شکاری کتے آگے نہ جا سکے، اس پر ہاروں رشید نے تحقیق کی تو اسے پتہ چلا یہ امیر المومنین (ع) کی قبر ہے. بعض کے بقول امام جعفر (ع) کے اشارے سے معلوم ہوا بھرحال ہمارا اصل موضوع حرم کی تعمیر ہے.

جب امیر المومنین (ع) کی قبر مبارک مشخص ہوئی تو اس وقت نشان کے طور پر کچھ سیاہ پتھر اس پر رکھے گئے. قبر مبارک پر باقائدہ ایک عمارت کی تعمیر کا کام 283 ھجری میں موصل (عراق) کے حاکم ابوالہیجاء نے شروع کیا، اس نے ایک عظیم الشان مزار بنایا جس کے ہر طرف دروازے تھے، اس کے علاوہ بہترین فرش اور اعلی قسم کے پردوں سے بارگاہ اقدس کو مزین کیا.

عضدالدولہ دیلمی، جو آل بوّیہ کا مشہور حاکم تھا، نے سال 356 ھجری میں حرم کی مزید توسیع کی اور امیر المومنین (ع) کی قبر پہ ضریح بنوائی. یہاں سے بعض افراد نے حرم کے اطراف میں اپنے گھر بنانا شروع کیئے اور نجف ایک چھوٹے سے شہر کی صورت افقِ دنیا پر نمودار ہوا.

خواجه رشید الدین فضل اللّه ہمدانی جو کہ ہلاکو خان کا وزیر تھا، نے 744 نے آب فرات کے پانی کو نجف و کوفہ کی طرف ایک نہر کی صورت جاری کروایا.
آٹھویں ھجری میں ھندوستان کے دو حاکمین بنام امیر فیروز اور امیر احمد اول نے بہت زیادہ نذرات حرم کیلئے وقف کیں اور اس شہر کے مشہور شخصیات کو بڑے احترام و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے. اور کہا جاتا ہے کہ ھندوستان کے ہی ایک مسلمان راجہ نے نہر کھدوائی تھی جو کہ نجف کو سیراب کرتی تھی.
یوسف عادل شاه نے سال 868
ھجری میں بیماری سے شفا پانے کیلئے ایک خطیر رقم حرم کو وقف کی.

صفوی دور حکومت میں حضرت امیر (ع) کے حرم کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ 914 ھجری میں شاہ اسماعیل کی توسط سے شروع ہوا اور شیعہ عالم دین شیخ بہائی کے دیئے ہوئے نقشوں کی مدد سے حرم کا صحن تعمیر ہوا اور صفوی دور میں یہ تعمیر و تزین اور نقد رقوم کے وقف کرنے کا سلسلہ بنا وقفے سے جاری رہا. جمادی الثانی سال 914 ھجری میں جب شاه اسماعیل صفوی زیارت امام حسین(ع) کے بعد نجف آئے تو علی (ع) کے حرم کیلئے خطیر رقم اور اہداف پیش کیئے اور تمام اوراق کو ریشمی قالینوں سے مزین کیا اور روشنی کیلئے سونے کی قندیلیں نصب کروائیں.

سال 1042 ھجری میں شاه صفی صفوی زیارت امیر مؤمنین(ع) سے مشرف ہوئے، اور اس نے حرم کو مزید توسیع دینے کا کام کروایا کیونکہ حرم زائرین کی بڑی تعداد کیلئے کافی نہ تھا. اور اس کے حکم سے فرات سے ایک وسیع و عمیق نہر کھودی گئی جو نجف تک پانی پہنچاتی تھی.

نادر شاه افشار سال 1156 ھجری میں جب زیارت حرم امیرالمؤمنین(ع) کیلئے آیا تو اس نے نجف میں اقامت کے دوران حکم دیا کہ صفوی دور میں جو سبز رنگ کی کاشی کام شیخ بہائی کے توسط سے گنبذ پر انجام پایا تھا، کو اتار دیا جائے اور اسے سونے سے بنایا جائے. اس کے علاوہ نادر شاہ نے ایک خطیر رقم بھی حرم کو وقف کی اور ایسے بیش بہا تحائف دیئے جو اب تک حرم میں موجود ہیں. صحنوں کی عالیشان تعمیر کا زیادہ تر کام بھی نادر شاہ کے دور میں ہوا. ایوان العلماء کہ جس میں بہت سے بزرگ دفن ہیں، پر کاشی کا کام بھی نادر شاہ نے کروایا.

آغا محمد خان قاجار نے سال 1211 ھجری میں حرم کو چاندی کی ضریح بنوا کر پیش کی، فتح علی شاه نے سال 1236 ھجری میں حرم کا مزید تعمیراتی کام کروایا. سال 1262 ھجری میں عباس قلی خان، وزیر محمد شاه قاجار نے دوسری چاندی کی ضریح حرم پاک کو پیش کی.

اس کے علاوہ آج تک حرم امیر المومنین (ع) کا تعمیراتی کام جاری و ساری ہے اور یہ عظیم حرم سعودی شیخوں کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جس دن جنت البقیع بھی اس طرح شان شوکت سے کرہ ارض پر ابھرے گا. ان شاء اللہ

رمضان میں شیطان قید ہوجاتا ہے تو گناہ کیوں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*اگر رمضان میں شیطان قید ہوتا ہے تو گناہ کیوں؟*

تحریر: محمد زکی حیدری


رمضان آتے ہی پہلا سوال یہ ہی ہوتا ہے کہ صاحب رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے کہ رمضان میں شیطان قید ہو جاتا ہے تو جب مسٹر شیطان قید ہوتا ہے تو پھر ہم گناہ کیوں کرتے ہیں.

دیکھئے بھائی عرض یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) کی یہ حدیث ہم تک مکمل نہیں پہنچی، مکمل تو کیا اللہ (ج) بھلا کرے ہمارے سنی-شیعہ مولوی حضرات کا، انہوں رسول اللہ (ص) کے اس پورے خطبے سے صرف دو الفاظ ہی اٹھا کر ہمیں بتائے.
جی جی! پورا خطبہ ہے رسول اللہ (ص) کا جس کا نام ہے "خطبۂ شعبانیہ"... اور مولوی صاحبان نے جو دو الفاظ عوام کی نذر کیئے ہیں وہ یہ ہیں:

*وَالشَّیاطینَ مَغلولَةٌ*
اور شیطان مغلول (وہ شخص جس کی گردن میں لوہے کا طوق ڈال دیا گیا ہو) ہوگیا.

پورے خطبے میں سے صرف دو الفاظ! تو بھائی آپ ہی بتائیے ہمارا سر چکرائے گا نہیں تو اور کیا ہوگا!

خیر یہ تو ہوئی مولوی صاحبان کی بات، میں نے اس خطبے کو پڑھا ہے، یقین مانیئے دل چاہا کہ اس خطبے کے اردو ترجمے کے پینافلیکس بنوا کر پاکستان و ھندوستان کی ہر مسجد کے باہر آویزاں کروں، کمال کا خطبہ ہے رسول پاک (ص) کا. لیکن میں اس خطبے کا وہ حصہ نکال کر پیش کر رہا ہوں جو ہمارے سوال کا جواب ہے.
آپ (ص) فرماتے ہیں:
أیُّهَا النّاسُ ، إنَّ أبوابَ الجِنانِ فی هذَا الشَّهرِ مُفَتَّحَةٌ ، فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُغلِقَها عَلَیکُم ، وأبوابَ النّیرانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یَفتَحَها عَلَیکُم ، 
*وَالشَّیاطینَ مَغلولَة*ٌ فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُسَلِّطَها عَلَیکُم
ترجمہ:
اے لوگو! بیشک اس ماہ (رمضان مبارک) میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اللہ (ج) سے دعا کرو کہ وہ تمہارے لیئے یہ دروازے بند نہ کرے، اور بیشک جہنم کے دروازے بند ہیں، اللہ (ج) سے دعا کرو کہ یہ تمہارے لیئے نہ کھلیں، اور شیطان مغلول کردیا گیا ہے، اللہ (ج) سے تقاضہ کریں کہ وہ تم پر حاوی نہ ہو. (۱)

لیجئے صاحب! بات صاف ہو گئی کہ رسول اللہ (ص) یہ نہیں فرما رہے کہ اللہ (ج) نے شیطان کو مغلول کردیا ہے اب جاؤ مسلمانوں عیش کرو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا. نہیـــــــں!
بلکہ آنحضرت (ص) فرما رہے ہیں کہ دیکھو میاں رمضان کا چاند دکھتے ہی رحمت و کرامت و بخشش و مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند، اگر تم نے کوتاہی و غفلت سے کام لیا تو یاد رکھو یہ بہشت کے دروازے بند اور جہنم کے دروازے کھل بھی سکتے ہیں. شیطان مغلول ہے مگر تم نے رمضان میں بھی اپنی دو نمبریاں و چار سو بیسیاں جاری رکھیں تو یہ شیطان تم پر حاوی بھی ہو سکتا ہے لہٰذا کیا کرو؟
فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُسَلِّطَها عَلَیکُم
اپنے رب سے دعا کرو کہ تم پر مسلط نہ ہو.

:bulb: *بــــــتی ســـوال*

یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھئی یہ بات تو دیگر مہینوں پر بھی صدق کرتی ہے، اچھا کرو گے تو اچھا، برا کرو گے تو برا!
جواب یہ ہے کہ اگر دوسرے مہینوں میں بھی کچھ ایسا ہوتا تو رسول اللہ (ص) ہر ماہ کے بارے میں ایسا فرماتے مگر اختصاص سے ذکرِ رمضان مبارک ثابت کرتا ہے کہ صرف اسی ماہ مبارک کا چاند دیکھ کر ہی اللہ (ج) یہ انتظام کرتا ہے کہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ایک نیا اسٹارٹ لیں.

*نیا اسٹارٹ* 🤔
بچوں کو کھیلتے دیکھا ہے نہ؟ تو ان میں سے جب کوئی چِیٹنگ کرتا ہے تو سارے مل کر اسے کہتے ہیں بھائی یہ تو چیٹنگ ہے، تم نے چیٹنگ کی ہے. گیم *دوبارہ سے اسٹارٹ* کرو! اور وہ چیٹر سے یہ بھی کہتے ہیں کہ دیکھو ہم گیم پھر سے شروع کر رہے ہیں اب چیٹنگ مت کرنا.
رسول اللہ (ص) کی رمضان کے بارے میں اس بات کا مفہوم بھی یہ ہی ہے کہ دیکھو مسلمانو اب *ری اسٹارٹ* ہے، جہنم کا دروازہ بند، بہشت کا اوپن، شیطان کو باندہ دیا. اوکے؟ اب ون... ٹو... تھری... گو... دیکھتے ہیں رمضان میں کون اپنے اعمال سے ان تنیوں کو اسی حالت میں برقرار رکھتا ہے یعنی جہنم کا دروازہ بند ہے تو بند رکھے، بہشت کا کھلا ہے تو کھلا رکھے، شیطان مغلول ہے تو اسے مغلول رکھے.
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ چِیٹنگ و گناہ چھوڑتے ہیں یا نہیں. اور یاد رکھیئے شاید یہ رمضان المبارک، یہ "ری-اسٹارٹ" ہمارے لیئے آخری بار ہو، اگلے *ری-اسٹارٹ* کیلئے پتہ نہیں ہم زندہ رہیں بھی کہ نہیں!

حوالہ:
(۱) شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیه السلام ج 1، ص 230 . اور اربعین شیخ بهائى ص 162