آئمـــــہ (ع) کی آمدنی کے ذرائع۔۔۔۔امام محمد باقر (ع) کا ذریعہ معاش
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ایک بات یاد رکھیں کہ علی (ع) (چونکہ وہ خلیفہ تھے اور بقول ان کے حاکم کو رعیہ کے غریب ترین فرد کی مانند جینا چاہیئے) کے علاوہ تمام آئمہ (ع) اچھا کھاتے تھے، اچھا پہنتے تھے، اور زمانے کی اچھی سواری سے استفادہ کرتے تھے. البتہ اس سے مراد فضول زرق و برق نہیں ہے. اس کی دوسری وجہ معاشرے کا معیار زندگی کا ترقی کرنا ہے علی (ع) کے دور میں معاشرے کا رہن سہن و معیار زندگی کچھ اور تھا اور باقی آئمہ (ع) کا کچھ اور. لہٰذا یہ بھی ایک سبب تھا کہ آئمہ (ع) کا رہن سہن الگ نظر آتا ہے.
امام موسی کاظم (ع) کا لباس
امام (ع) کے لباس کے حوالے سے شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید نے جو بات بیان کی وہ یہ ہے کہ آپ (ع) اور امام رضا (ع) صوفیاء کی طرح اونی لباس پہنتے تھے جو کہ بہت ہی سادہ ہوتا تھا. (۱)
ابی الحدید کا دعوا تھا کہ امام کاظم (ع) مالی لحاظ سے مستحکم تھے مگر فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے. مگر ابی الحدید کا یہ دعوا دیگر کثیر روایات سے متضاد ہے کہ جن میں آپ (ع) اچھا لباس پہنے ہوئے پیش کیئے گئے ہیں. مثال:
يونس کہتا ہے: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے نیلے رنگ کا طيلسان (کملی یا گون جو آج بھی جج اور یونیورسٹی کے گریجویٹ پہنتے ہیں) میں زیب تن دیکھا. (۲)
سليمان بن رشيد اپنے والد سے نقل کرتا ہے كہ میں نے ابوالحسن(علیه السلام) کو دیکھا کہ انہوں نے سیاہ رنگ دراعہ(جبہ جس کا اگلا حصہ کھلا ہو) اور نیلے رنگ کا طیلسان پہن رکھا تھا.(۳)
محمدبن علی روایات کرتے ہیں: ابوالحسن(علیه السلام) کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سر پہ قلنسوه (دراز ٹوپی جو بنی امیہ اور عباسی دور میں رائج تھی) پہنی ہوئی تھی اور ایک کوٹ پہنے ہوئے تھے.(۴)
امام موسی کاظم (ع) کی سواری
امام (ع) کی سواری کے متعلق ملتا ہے کہ آپ مختلف جانور سواری کیلئے استعمال کرتے تھے مگر کثرت سے خچر کا ذکر ملتا ہے کیونکہ خچر اس دور کی متوسط سواری سمجھی جاتی تھی.
جب ھارون رشید حج سے واپس آیا تو مدینہ کی مشہور شخصیات اس کے استقبال کیلئے گئیں، امام (ع) بھی ان کے ساتھ تھے اور خچر پہ سوار تھے. ربیع نے امام (ع) کے پاس جا کر کہا: یہ کیسی سواری ہے کہ جس پہ سوار ہو کر خلیفہ وقت کے استقبال کو آیا جائے؟ (اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ استقبال کیلئے کسی مہنگی و مجلل سواری پر آتے) امام (ع) نے فرمایا: خچر ایسی سواری ہے جس کا سوار نہ تکبر محسوس کرتا ہے نہ فقیری و ذلت، بلکہ یہ دونوں کے درمیان بہترین اعتدال ہے. (۵)
حمّاد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے امام كاظم(علیه السلام) کو دیکھا کہ وہ مرو سے واپس آ رہے تھے اور خچر پہ سوار تھے (۶)
امام موسی کاظم (ع) کا مکان
امام (ع) کے مکان کے متعلق کچھ زیادہ روایات نہیں ملتی، ایک دو روایات پیش خدمت ہیں.
حسن بن زیارت نقل کرتا ہے کہ میں امام موسی کاظم (ع) کے گھر گیا تو آپ ایک ایسے کمرے میں تھے جو پردے اور قالین سے آراستہ تھا لیکن جب دوسرے دن گیا تو انہیں ایسے کمرے میں پایا کہ جس میں ریت اور سنگریزوں کے سوا کچھ نہ تھا. مجھے حیرت ہوئی تو آپ (ع) نے فرمایا:کل جو کمرہ تم نے دیکھا وہ میری بیوی کا کمرہ تھا
(۷)
محمّد بن عيسی ابراهيم بن عبدالحميد سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام كاظم(علیه السلام) کے ہاں گیا تو جس کمرے میں آپ (ع) نماز پڑھتے تھے، اس میں کھجور سے بنی ایک ٹوکری، قرآن اور تلوار جو دیوار پہ لٹک رہی تھی، کے علاوہ کچھ نہیں تھا.(۸)
معمّر بن خداد کہتا ہے: امام كاظم(علیه السلام) نے ایک مکان خریدا اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس میں رہے اور فرمایا: تمہارا مکان چھوٹا اور تنگ تھا. غلام نے کہا: وہ میرے والد کا گھر تھا اس لیئے میں اسی مکان میں رہ رہا تھا. امام (ع) نے فرمایا: اگر تمہارا والد بیوقوف تھا تو لازم نہیں تم بھی اس کی طرح ہو. (۹)
ثابت ہوا کہ امام (ع) رہائش کیلئے چھوٹا مکان پسند نہیں فرماتے تھے.
حــــوالــــــــہ جـــــات:
۱- ابن ابي الحديد، شرح نہج البلاغہ، قم، كتابخانہ آية اللّه مرعشي نجفي، 1404ق، ج 15، ص273
۲-محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61
۳-عزيزاللّه عطاردي، مسند الامام الكاظم(ع)، مشهد، كنگره جهاني امام رضا(ع)، 1409ق، 3، ص49
۴- محمّد مناظر احسن، زندگي اجتماعي در حكومت عبّاسيان، ترجمه مسعود رجب نيا، تهران، علمي ـ فرهنگي، 1369، ص61.
۵- شيخ مفيد، الارشاد، قم، آل البيت، 1416ق، ج ۲ ص ۲۳۴
۶- محمدبن يعقوب كليني، فروع کافی، ج 8، ص86
۷- عزيزاللّه عطاردي، ایضا، ج 3، ص28.
۸- محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 48، ص100
۹- محمدبن يعقوب كليني، ایضا، ج 6، ص525
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
"میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا" اس نے نجی ٹی-وی چینل کے صحافی سے کہا تو صحافی جیل سے باہر آکر رپورٹ دی "ناظرین! کراچی کے علائقے قصبہ کالونی سے تعلق رکھنے والے طفیل نامی اس درندہ صفت باپ سے ہم نے جب پوچھا کہ اس نے کس وجہ سے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور پھول سے بچوں کو قتل کیا تو انسانیت کے نام پر بدنما داغ اس ظالم نے ہم سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا، البتہ اس شیطان صفت انسان کی طرز گفتار سے لگ رہا تھا کہ اسے کوئی پشیمانی نہیں ہے. کیمرہ مین عادل قریشی کے ساتھ...."
اس قصے کو بیس سال گذر گئے، اخبار اور ٹی-وی کے صحافی ان بیس برسوں میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود طفیل کا منہ کھلوانے میں ناکام رہے تھے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ اس نے اپنی بیوی زبیدہ اور جوان بیٹی شازیہ اور دو بچوں کو ماردیا. پولیس نے بھی ہر حربہ استعمال کیا مگر اس نے اپنی خاموشی کا روزہ نہ توڑا.
ایک دن جب وہ مرنے والا تھا تو اس نے جیلر سے کہا کہ "سید مجتبیٰ سے کہیں مجھ سے مل لے" سید مجتبی اس کے پڑوسی تھے اور جس اسکول کے باہر طفیل چاٹ اور گولے گنڈے کا ٹھیلا لگاتا تھا، اس اسکول میں سید مجتبی پڑھاتے تھے. طفیل عرف "طفیل چاچو" اسکول کے غریب بچوں کو مفت چاٹ اور گول گنڈے کھلانے وجہ سے ہر دل عزیز تھا. لیکن خدا جانے اس رات اس پہ کیسا شیطان سوار ہوا کہ اس نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو مار کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا.
سید مجتبی وہ واحد انسان تھا جو پچھلے بیس برس سے مسلسل جیل میں آکر طفیل سے ملا کرتا. شاید یہ ہی وجہ تھی کہ آج بھی طفیل نے اسے بلایا.
جیل کی موٹی سلاخوں کے پیچھے نحیف سا انسان، دور سے دیکھو تو ایسا لگتا جیسے سوکھے درخت کے پتلے سے تنے پر کسی نے شلوار قمیض لٹکا رکھی ہو. داڑھی بڑی، بال بکھرے ہوئے، آنکھیں دھنسی ہوئیں، پچکے ہوئے گال، یہ جیل کی ایک کوٹھڑی کے کونے میں بیٹھا ہوا طفیل ہے! سید مجتبی آکر سلاخوں کے سامنے بیٹھ گئے. حال احوال پوچھا تو طفیل کہنے لگا "شاہ جی حال احوال کا وقت نہیں ہے، مجھے پتہ ہے میں مزید زندہ نہیں رہوں گا، آپ نے ہمیشہ ایک مہربان پڑوسی کی طرح میری مدد کی، میں نے اس کا شکریہ ادا کرنے کیلئے بلایا ہے آپ کو" اس نے سید مجتبی کی طرف دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا.
"ارے طفیل! اللہ تمہیں لمبی عمر دے بھائی یہ کیسی احمقانہ باتیں ہیں" سید نے سلاخوں سے اپنے ہاتھ اندر ڈال کر اس کے ہاتھوں کو نیچے کیا.
" شاہ جی آپ تو پڑھے لکھے ہو، مجھے یہ بتاؤ کہ جب تقدیر ہی کالی ہو تو ایسے لوگوں کو اللہ میاں اپنی ماں کے پیٹ میں ہی کیوں نہیں مار دیتا، ایسے بد نصیب جنم ہی کیوں لیتے ہیں" طفیل آج حد سے زیادہ افسردہ تھا، آج پہلی بار اس نے کچھ بولا تھا.
"صرف تقدیر ہی نہیں ہوتی تدبیر بھی ہوتی ہے طفیل بھائی، جو کہ اللہ نے انسان کو دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی زندگی کو سنوارے"
"سنوارنا! شاہ جی زندگی سنوارنا کسے کہتے ہیں؟ میرا باپ میں نے دیکھا نہیں، بوڑھی ماں نے گھروں میں کام کر کر کے مجھے پالا، بڑا ہوا تو سر گاڑی پیر پہیہ کرکے شادی کی، زبیدہ غریب تھی گھروں میں کام کرتی تھی. ہم نے مل کر تین بچوں کو پالا، بچپن سے شازیہ بھی ماں کی طرح گھروں میں کام کرنے لگی. شاہ جی آپ سے جھوٹ نہیں ایک دن ایسا آیا کہ ہم سب نے رات کا کھانا تک نہ کھایا تھا، گھر میں کچھ بھی نہ تھا. مجھے آج بھی میرے ننہے شوکی (شوکت) کا وہ جملہ یاد ہے اس دن پورا چاند تھا، وہ کھلے آسمان تلے چارپائی پہ میرے سینے پہ لیٹا تھا، چاند کو دیکھ کر کہنے لگا بابا چاند روٹی جیسا کیوں لگتا ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا شاہ جی، سوائے اس کے کہ اسے گلے لگا کر چوم لوں. اور اکرم! میرا بچہ .... درزی، گیراج، حتی کہ پکوڑے بیچے میرے معصوم نے. میرے بچے کے کھیلنے کودنے کے دن تھے شاہ جی، وہ بچہ تھا لیکن کسی نے اس پہ رحم نہ کیا کسی نے پانے سے مارا، کسی نے ماں کی گالی دی، کسی نے بہن کی، کسی نے... "
اس کی آنکھ بھر آئی وہ چپ ہوگیا. اپنے حلق کو حرکت دی جیسے غم کو نگل لینا چاہتا ہو. تھوڑی دیر تک جیل کی کوٹھڑی میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی. سسکتے ہوئے طفیل نے پھر سے بولنا شروع کیا.
" شاہ جی! قسم سے سارا دن مار و گالیاں کھا کھا کر شام کو جب میرا بچہ گھر لوٹتا تھا تو اگلے دن کام پہ جانے کا دل ہی نہیں کرتا تھا اس کا، کہتا تھا بابا مجھے نہیں جانا بس، مجھے اسکول جانا ہے سب بچے اسکول جاتے ہیں میں بھی! لیکن بچہ تھا مگر خوددار! جب دیکھتا کہ اس سے پہلے اس کی ماں محلے کے گھروں میں کام پہ جاتی ہے تو اس سے گھر میں نہیں بیٹھا جاتا تھا... شاہ جی..." وہ چپ ہو گیا.
"بولو چپ مت رہو دل ہلکا کرلو طفیل بھائی" سید مجتبی نے اسے کہا.
"شاہ جی! آپ تو جانتے ہیں میرا بارہ سال کا دانی (دانیال) سرکاری ھسپتال میں کیسے تڑپ تڑپ کر مرا، آپ کے سوا کسی نے میری مدد نہ کی تھی، آپریشن کیلئے ڈاکٹروں نے دو لاکھ روپے مانگے تھے، میں نے دانی کی جان بچانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھائیں، کسی نے میری مدد نہ کی، کوئی کیوں مدد کرتا بھلا، آخر میں مسکین ٹھیلے والا اور دو لاکھ... دانی کو تو مرنا ہی تھا اس کا لعنتی باپ غریب جو تھا... میرے بچے نے ماں کے سرہانے جان دی لیکن شاہ جی زبیدہ دلیر تھی، وہ صبر کا پہاڑ تھی روئی نہیں، گھر آ کر بچوں سے کہنے لگی بیٹا! اللہ (ج) کو جو پسند ہوتا ہے اسے وہ اپنے پاس بلا لیتا ہے، دانی اللہ کو پسند تھا اللہ نے کہا تم میرے پاس آجاؤ، اب وہ خوبصورت باغ میں ہوگا، وہاں آئس کریم، اچھے کپڑے، اور ہاں دانی کو سائیکل کا شوق تھا نا اب اللہ اسے نئی ہارن والی چھوٹی سائیکل بھی دے گا تم سو جاؤ دیکھنا رات میں دانی خواب میں آئے گا، سائیکل دیکھنا کتنی اچھی ہے اس کی... شاہ جی رات ہوئی تو زبیدہ سمجھی کہ میں سو گیا ہوں لیکن میں نے چادر سے منہ نکال کر دیکھا تو وہ دانی کی فوٹو سامنے رکھ کر اکڑوں بیٹھے زار و قطار رو رہی تھی...!"
یہ سن کر سید مجتبی بھی آنسو روک نہ سکے اور اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈال رومال نکالا اور آنسو پونچھنے لگے.
"شاہ جی! میں نے ٹھیلا لگایا، اور اس طرح بچوں کا پیٹ پالتا تھا. میری جوان بیٹی شازیہ شادی کے لائق ہوئی تو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ نہیں ہو رہا تھا. جوان بیٹی جن گھروں میں کام کرنے جاتی وہاں کئی قسم کے لوگ، جوان بیٹی پہ گندی نظریں ڈالتے وہ اپنی ماں سے حال دل کرتی... اس لیئے شادی کی فکر نے میری اور زبیدہ کی نیدیں حرام کر رکھی تھیں..."
یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا.
"بولو طفیل سن رہا ہوں جو کہنا ہے کہو مجھے اپنا بھائی سمجھو"
"شاہ جی!...." وہ "شاہ جی" کہہ کر دوبارہ چپ ہوگیا، شاید اسے بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی.
سید نے دوبارہ اصرار کیا تو وہ سسکتے ہوئے کہنے لگا " شاید زبیدہ کو یقین ہو گیا تھا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جو حال دانی کا ہوا وہ ہی شازیہ کا ہوگا. اس کی شادی کبھی نہیں ہو پائے گی، سو اس دن شام کو جب میں کام سے واپس لوٹا تو بیوی کچھ زیورات لے آئی اور لاکر کہا کہ طفیل اب شازیہ کا رشتہ ہوجائے گا، اب ہماری بٹیا اپنے سسرال جا پائے گی، میں نے جہیز کا انتظام کر لیا ہے. لیکن شاہ جی جب میں نے پوچھا کہ زیور کہاں سے لائی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے دوبارہ پوچھا یہ سونا کہاں سے لائی، اس نے جواب نہیں دیا. اور روتی رہی. بار بار پوچھنے پر بھی وہ خاموشی سے گردن جھکائے روتی رہی. میں نے کہا تم نے چوری تو نہیں کی مالکوں کی؟ اگر ایسا ہے تو یہ مجھے قبول نہیں، میری ماں نے محنت مزدوری کر کے مجھے پالا ہے، اور میں نے بھی ساری زندگی تجھے اور بچوں کو ایک نوالہ بھی حرام کا نہیں کھلایا. وہ کہنے لگی... شاہ جی!!!"
ایک بار پھر وہ چپ ہوگیا اور اس بار اپنی گردن اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ ڈال کر زارو قطار رونے لگا.
"طفیل بھائی صبر کرو" سید نے اسے دلاسہ دیا.
طفیل نے گردن اٹھائی، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، کہنے لگا
"شاہ جی! میری بیوی میرے پاؤں پہ گر گئی، روتے ہوئے کہنے لگی شازیہ کی عزت کیلئے میں اپنی عزت بیچ چکی ہوں، مجھے معاف کردینا طفیل لیکن شازیہ..."
طفیل کی سسکیاں اسے اپنی بات جاری رکھنے میں مانع ہو رہی تھیں. لیکن آج شاید بیس سال سے خاموش آتش فشاں پھٹا تھا لہٰذا اس نے اپنی قمیض کے دامن سے آنسو پونچھ کر پھر سے بولنا شروع کیا.
"شاہ جی! زبیدہ نے جسم فروشی شروع کر دی تھی، اس کی بات سن کر میں مرگیا. وہ رات کبھی نہیں بھولوں گا. ساری رات سوچتا رہا کہ کل اگر شازیہ کی اس جہیز سے شادی ہو بھی جائے تو وہ کیسے جی پائے گی، اسے ایک دن تو پتہ چلنا ہی ہے. زبیدہ نے شازیہ کا گھر بسانے کیلئے عزت بیچی مگر میں جانتا تھا اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں تھا... شاہ جی! میں نے ایسی زندگی پر لعنت بھیجی، جس میں شازیہ اور زبیدہ اس معاشرے میں گھٹ گھٹ کر جیئیں. مجھے یقین تھا کہ کل شازیہ کو بھی اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے ماں کی طرح جسم فروشی کرنی پڑے گی کیونکہ یہ دنیا اگر غریب کی مدد کرتی تو میرا دانی آج جوان ہوتا اور میری بیوی کو جسم فروشی نہ کرنی پڑتی، اس دنیا میں غریب کیلئے ذلت کے سوا کچھ نہیں. اسی وجہ سے میں نے انہیں ہمیشہ کیلئے سکون کی نیند سلا دی. میں زندہ رہا تاکہ ساری زندگی تڑپ تڑپ کر مروں، مجھے سکون کی موت نہیں مرنا تھا، مجھے روز روز مرنا تھا اور پچھلے بیس برس سے میں ھر روز مرتا ہوں، شاہ جی میں نے اس لیئے خود کو زندہ رکھا، یہ ہی میری سزا ہے میں اپنے دانی اور شازیہ کے لیئے کچھ نہ کر سکا..."
تھوڑی دیر کیلئے جیل کی کوٹھڑی میں خاموشی چھا گئی اور اس کے بعد سید مجتبی آنکھوں میں آنسو لیئے جانے لگے اور طفیل اپنی گردن جھکا کر روتا رہا.
اگلے دن میڈیا پہ خبر چلی "درندہ صفت انسان جس نے اپنی بیوی، جوان بیٹی اور دو ننہے بیٹوں کو بیہمانہ طریقے قتل کیا تھا طویل عرصے تک جیل میں رہنے کے بعد آج سینٹرل جیل کراچی کی کوٹھڑی میں واصل جہنم ہو گیا"
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
گھر کے عمر رسیدہ بزرگوں سے رابطے کیلئے انہیں کی-پیڈ والا موبائل دلواتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ جب گھنٹی بجے تو اس بٹن کو دباؤ گے تو آواز آئے گی. لیکن ایک عاقل و پڑھے لکھے نوجوان کو والدین اینڈروئڈ فون دلواتے ہیں کیونکہ اسے موبائل صرف کالز کرنے کیلئے درکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دوسرے بہت سے کام بھی لیتا ہے.
اللہ (ج) نے ہمیں بوڑھا و ان پڑھ نہیں سمجھا کہ ایک کتاب دے دی کہ جس کی بس تلاوت ہی کرنی ہے. نہیں! اللہ (ج) نے ہمیں عاقل و پڑھا لکھا و باشعور سمجھا اس لیئے *ملٹی فنکشنل قرآن* عطا کیا. قرآن کی تلاوت بیشک اپنی جگہ ثواب کی حامل ہے لیکن قرآن صرف ایک فنکشن یعنی تلاوت کیلئے نہیں ہے اس کی آیات کو سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے ھر شعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ملٹی فنکشنل ہے.
اب آپ ہی بتائیے جس کے پاس اینڈروئڈ موبائل ہو اور وہ اسے صرف ٹیکسٹ میسج اور کال کیلئے استعمال کرے، ہم اسے بیوقوف کہیں مگر جو شخص قرآن کو صرف تلاوت کیلئے استعمال کرے اسے...؟ لہٰذا *اس رمضان المبارک میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا*.
سم اللہ الرحمٰن الرحیم
جاپان کے ڈاکٹر ایموٹو (emoto) نے کتاب لکھی ہے The Hidden Messages in Water (پانی میں مخفی پیغامات). اس نے ثابت کیا کہ پانی پر بھی اچھے و برے الفاظ کا اثر ہوتا ہے. یہ ثابت کرنے کیلئے اس نے کیا یہ کہ پانی کی کرسٹلائن بناوٹ پہ تحقیق کی. اس نے شیشے کی بوتلیں لیں،ان میں پانی بھرا اور ان میں سے کچھ پر اچھے الفاظ کی پرچی چسپاں کی، مثلاً ایک پہ محبت، دوسرے پہ امن، تیسری بوتل پہ دوستی وغیرہ اور کچھ دوسری بوتلوں پر برے الفاظ مثلاً جنگ، نفرت، خون ریزی وغیرہ کی پرچیاں لگا دیں. پھر اس نے پانی کو فریز کرنے کے بعد ہائے اسپیڈ فوٹوگرافی کے ذریعے ان بوتلوں میں موجود پانی کے کرسٹلز کی بناوٹ کا تجزیہ کیا تو وہ دنگ رہ گیا. اس نے دیکھا کہ جن بوتلوں پر اچھے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز کی شکل منظم ہے بلکہ کچھ تو بڑی خوبصورت شکلوں میں منظم پائے گئے. لیکن اس کے برعکس جن بوتلوں پر برے الفاظ کی پرچی لگی تھی ان کے کرسٹلز بلکل بکھرے اور غیر منظم شکل میں ملے. (کرسٹلز کیا ہوتے ہیں ای موٹو صاحب کی تحقیق سے لی گئی کچھ تصاویر تحریر کے آخر میں ملاحظہ ہوں)
اس نے ثابت کیا کہ ہمارے جسم میں ستر سے پچہتر فیصد پانی ہے اگر ہمارے سامنے اچھے نام لیئے جائیں تو وہ ہمارے اندر مثبت طور اثرانداز ہوتے ہیں اور اگر برے نام لیئے جائیں تو ہماری طبیعت ہو جسم پر برا اثر ہوتا ہے!
میرا سلام ہے ای موٹو پر، اس نے وہ کام کیا جو ہم مسلمانوں کو کرنا چاہیئے تھا کیونکہ ہمارے قرآن کی شروعات ہی بسم، اسم سے یعنی نام سے شروع ہوتی ہے. اور اس کے بعد اسمائے الٰہی رحمٰن و رحیم... ہم نے کبھی غور نہ کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن میں ہر سورہ اللہ (ج) کے اسماء سے ہی شروع ہو رہی ہے. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم... ہر سورہ کے شروع میں کیوں؟ ہم نے نہ سوچا. اب اس جاپانی نے یہ تحقیق کر کے ہمیں دکھایا کہ دیکھو مسلمانو! قرآن میں "بسم" میں اسم اور اس کے بعد اللہ و رحمٰن و رحیم کیسے معجزے ہیں. پانی کی شکل و صورت پر یہ نام اثر انداز ہوتے ہیں. اس لیئے قرآن کی ہر سورہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے کہ تمہارے جسم میں موجود کرسٹلز کِھل اٹھیں اور تمہاری طبیعت ھدایت لینے کیلئے بہترین حالت میں آجائے.
کمال کی بات یہ ہے کہ سورہ توبہ میں بسم اللہ سے شروعات نہیں، کیونکہ اس کی شروع میں اللہ (ج) نے جنگ و جدل کی بات ہے لہٰذا یہ موضوع بسم اللہ سے سازگار نہیں تو بسم اللہ نہیں آئی. اسی ضمن میں حضرت علی (ع) کا قول بھی ملتا ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کیوں سورہ توبہ میں بسم اللہ سے ابتداء نہیں ہوئی؟ آپ نے فرمایا: لانھا امان و براء ۃ نزلت بالسیف
بسم اللّٰہ امان ہے اور سورۂ برائت (توبہ) تلوار لے کر نازل ہوا ہے۔۔(محاسن التاویل ۸: ۱۲۱)
دیکھیئے پرفیکشن! دیکھیئے پِرسِیشن! افلا یتدبرون القرآن پھر کیوں قرآن میں تدبر نہیں کرتے. تدبر کرو، معجزے ملیں گے. علی (ع) نے وصیت میں فرمایا مسلمانوں قرآن کو نہ چھوڑنا کہیں ایسا نہ ہو اغیار قرآن کو سمجھنے میں تم پر سبقت لے جائیں.
جی میرے آقا یہ ہی ہوا ڈاکٹر ای موٹو بازی لے گیا ہم نے قرآن کو دم درود، ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے، اور تعویذ یا مردوں کو بخشنے کیلئے ہی سنبھال رکھا ہے ...
میرے سنی شیعہ بھائیوں! قرآن قرآن قرآن! رمضان ربیع القرآن ہے. یہ مبارک مہینہ قرآن کی بہار کہلاتا ہے اس قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے گا فر فر عربی پڑھ کر گھر مت چلے جائیے گا، ہم نے قرآن کو بھلا دیا یہ ہی وجہ ہے سورہ فرقان آیت ۳۰ میں رسول اللہ (ص) کی شکایت ملتی ہے کہ:
وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً
اے میرے پرودگار بیشک میری قوم نے قرآن کو بھلا دیا تھا.
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*اگر رمضان میں شیطان قید ہوتا ہے تو گناہ کیوں؟*
تحریر: محمد زکی حیدری
رمضان آتے ہی پہلا سوال یہ ہی ہوتا ہے کہ صاحب رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے کہ رمضان میں شیطان قید ہو جاتا ہے تو جب مسٹر شیطان قید ہوتا ہے تو پھر ہم گناہ کیوں کرتے ہیں.
دیکھئے بھائی عرض یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) کی یہ حدیث ہم تک مکمل نہیں پہنچی، مکمل تو کیا اللہ (ج) بھلا کرے ہمارے سنی-شیعہ مولوی حضرات کا، انہوں رسول اللہ (ص) کے اس پورے خطبے سے صرف دو الفاظ ہی اٹھا کر ہمیں بتائے.
جی جی! پورا خطبہ ہے رسول اللہ (ص) کا جس کا نام ہے "خطبۂ شعبانیہ"... اور مولوی صاحبان نے جو دو الفاظ عوام کی نذر کیئے ہیں وہ یہ ہیں:
*وَالشَّیاطینَ مَغلولَةٌ*
اور شیطان مغلول (وہ شخص جس کی گردن میں لوہے کا طوق ڈال دیا گیا ہو) ہوگیا.
پورے خطبے میں سے صرف دو الفاظ! تو بھائی آپ ہی بتائیے ہمارا سر چکرائے گا نہیں تو اور کیا ہوگا!
خیر یہ تو ہوئی مولوی صاحبان کی بات، میں نے اس خطبے کو پڑھا ہے، یقین مانیئے دل چاہا کہ اس خطبے کے اردو ترجمے کے پینافلیکس بنوا کر پاکستان و ھندوستان کی ہر مسجد کے باہر آویزاں کروں، کمال کا خطبہ ہے رسول پاک (ص) کا. لیکن میں اس خطبے کا وہ حصہ نکال کر پیش کر رہا ہوں جو ہمارے سوال کا جواب ہے.
آپ (ص) فرماتے ہیں:
أیُّهَا النّاسُ ، إنَّ أبوابَ الجِنانِ فی هذَا الشَّهرِ مُفَتَّحَةٌ ، فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُغلِقَها عَلَیکُم ، وأبوابَ النّیرانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یَفتَحَها عَلَیکُم ،
*وَالشَّیاطینَ مَغلولَة*ٌ فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُسَلِّطَها عَلَیکُم
ترجمہ:
اے لوگو! بیشک اس ماہ (رمضان مبارک) میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اللہ (ج) سے دعا کرو کہ وہ تمہارے لیئے یہ دروازے بند نہ کرے، اور بیشک جہنم کے دروازے بند ہیں، اللہ (ج) سے دعا کرو کہ یہ تمہارے لیئے نہ کھلیں، اور شیطان مغلول کردیا گیا ہے، اللہ (ج) سے تقاضہ کریں کہ وہ تم پر حاوی نہ ہو. (۱)
لیجئے صاحب! بات صاف ہو گئی کہ رسول اللہ (ص) یہ نہیں فرما رہے کہ اللہ (ج) نے شیطان کو مغلول کردیا ہے اب جاؤ مسلمانوں عیش کرو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا. نہیـــــــں!
بلکہ آنحضرت (ص) فرما رہے ہیں کہ دیکھو میاں رمضان کا چاند دکھتے ہی رحمت و کرامت و بخشش و مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند، اگر تم نے کوتاہی و غفلت سے کام لیا تو یاد رکھو یہ بہشت کے دروازے بند اور جہنم کے دروازے کھل بھی سکتے ہیں. شیطان مغلول ہے مگر تم نے رمضان میں بھی اپنی دو نمبریاں و چار سو بیسیاں جاری رکھیں تو یہ شیطان تم پر حاوی بھی ہو سکتا ہے لہٰذا کیا کرو؟
فَاسأَلوا رَبَّکُم ألاّ یُسَلِّطَها عَلَیکُم
اپنے رب سے دعا کرو کہ تم پر مسلط نہ ہو.
:bulb: *بــــــتی ســـوال*
یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھئی یہ بات تو دیگر مہینوں پر بھی صدق کرتی ہے، اچھا کرو گے تو اچھا، برا کرو گے تو برا!
جواب یہ ہے کہ اگر دوسرے مہینوں میں بھی کچھ ایسا ہوتا تو رسول اللہ (ص) ہر ماہ کے بارے میں ایسا فرماتے مگر اختصاص سے ذکرِ رمضان مبارک ثابت کرتا ہے کہ صرف اسی ماہ مبارک کا چاند دیکھ کر ہی اللہ (ج) یہ انتظام کرتا ہے کہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ایک نیا اسٹارٹ لیں.
*نیا اسٹارٹ* 🤔
بچوں کو کھیلتے دیکھا ہے نہ؟ تو ان میں سے جب کوئی چِیٹنگ کرتا ہے تو سارے مل کر اسے کہتے ہیں بھائی یہ تو چیٹنگ ہے، تم نے چیٹنگ کی ہے. گیم *دوبارہ سے اسٹارٹ* کرو! اور وہ چیٹر سے یہ بھی کہتے ہیں کہ دیکھو ہم گیم پھر سے شروع کر رہے ہیں اب چیٹنگ مت کرنا.
رسول اللہ (ص) کی رمضان کے بارے میں اس بات کا مفہوم بھی یہ ہی ہے کہ دیکھو مسلمانو اب *ری اسٹارٹ* ہے، جہنم کا دروازہ بند، بہشت کا اوپن، شیطان کو باندہ دیا. اوکے؟ اب ون... ٹو... تھری... گو... دیکھتے ہیں رمضان میں کون اپنے اعمال سے ان تنیوں کو اسی حالت میں برقرار رکھتا ہے یعنی جہنم کا دروازہ بند ہے تو بند رکھے، بہشت کا کھلا ہے تو کھلا رکھے، شیطان مغلول ہے تو اسے مغلول رکھے.
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ چِیٹنگ و گناہ چھوڑتے ہیں یا نہیں. اور یاد رکھیئے شاید یہ رمضان المبارک، یہ "ری-اسٹارٹ" ہمارے لیئے آخری بار ہو، اگلے *ری-اسٹارٹ* کیلئے پتہ نہیں ہم زندہ رہیں بھی کہ نہیں!
حوالہ:
(۱) شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیه السلام ج 1، ص 230 . اور اربعین شیخ بهائى ص 162