حق اور واہ واہ!

تحریر: محمد زکی حیدری

آج سے صدیوں پہلے جب یونان کے دانا بنام سقراط نے اپنی عوام کو عقل و دانائی کی باتیں بتائیں تو ان باتوں پر واہ واہ ہونے کی بجائے اسے زندان میں ڈال دیا گیا اور آخر اسی زندان میں اسے زھر کا پیالا پلا کر مار دیا گیا اس کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! اس کے بعد کاپرنیکس نامی ایک سائنسدان آیا اس نے اپنی عوام کو بتایا کہ دیکھو میاں یہ جو تمہیں پادری بتاتے ہیں کہ سورج زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سورج ساکن ہے زمیں اس کے گرد گھومتی ہے۔ اس بات پر بھی واہ واہ ہونے کی بجائے پادریوں نے اسے دین کا دشمن اور ملحد قرار دے کر اس کا گھر جلا دیا۔۔۔ حق تھا لیکن واہ واہ نظر نہیں آئی! اس کے بعد اس کا جزباتی شاگرد برونو اٹھا اس نے گلی گلی، کوچے کوچے میں جاکرلوگوں سے کہا کہ یہ پادری جھوٹے ہیں زمین گھومتی ہے سورج ساکن ہے۔ اسے بھی صعوبتیں برداشت کرنی پڑٰیں۔ حق تھا لیکن واہ واہ نظر نہیں آئی! یہی حال تمام پیغمبروں کا رہا عیسیٰ (ع) آئے وحدانیت کی بات کہی، حق تھا لیکن واہ واہ نہ ہوئی، عرب کی اندھیر نگری میں محمد (ص) نامی یتیم ھدایت کی مشعل لے کر آیا بات حق تھی لیکن واہ واہ کی بجائے معاشرتی بائکاٹ کیا گیا اور اسے شعب ابی طالب میں پتے کھانے پڑے، ھجرت کرنی پڑی، طائف کے بچوں سے پتھر کھانے پڑے، ساحر، مجنوں وغیرہ کے القاب برداشت کرنے پڑے۔۔۔ حق تھا مگر واہ واہ نظر نہیں آئی! محمد (ص) کے بعد جب اقتدار "جمہوریت دوست" افراد کے ہاتھ لگا تو عامر یاسر (ع) جیسے صحابیوں کو خلیفائے وقت کی غلطیوں کی نشاندہی پر زد و کوب کیا گیا، عمار (ع) کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! خلیفہ ثالث کے دور میں محمد (ص) کا سچا اور عادل سپاہی ابوذر(ع) آیا چلا چلا کر کہنے لگا یہ عیش و عشرت و اقربا پروری و خویش پروری امارت و بددیانتی پر مبنی اسلام خلفا کا ہے محمد (ص) کا نہیں اور ابوذر(ع) ربضہ کے ریگستان میں احتجاج کرتے ہوئے انتقال فرما گئے،  ابوذر(ع)  کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہ ہوئی! علی (ع) کا دور خلافت آیا عدل کے دریا بہائے گئے ، بیت المال میں شام سے آئی ہوئی ایک روٹی تک کے بھی ٹکڑے کر کے تقسیم کرکہ بیت المال کے خالی فرش پر جھاڑو لگوا کر نماز پڑھنے والے علی (ع) کی حق بات پر واہ واہ نہیں کی گئی بلکہ تیر و تبر سے اسکا استقبال کیا گیا ۔۔ یہاں بھی بات حق تھی لیکن واہ واہ نہیں ہوئی! آتے آتے تمام آئمہ (ع) ان کے اصحاب ان کے بعد آنے والے حق گو علماء و فقہاء سب کی بات حق تھی مگر واہ واہ نہیں ہوئی کسی کو سر میں کیلیں پیوست کرکے ، کسی کو تختہ دار پر لٹکا کر، کسی کا گھر جلا کر، کسی کو تلوار سے، کسوی کو زھر سے، کسی کو بندوق سے، کسی کو بم سے اڑایا گیا۔۔۔ ان سب نے حق کہا مگر واہ واہ نہیں ہوئی!

آپ انسانی تاریخ کے اوراق چھاں ماریں حق کہنے والا چاہے کسی بھی مذھب کا ہو، کسی بھی ازم کا ہو، کسی بھی نظریے کا پیروکار ہو عوام نے اس کی حق بات کی ہمیشہ مخالفت کی کبھی واہ واہ نہیں کی۔ آپکو حق اور واہ واہ ایک ساتھ مشکل سے ہی نظر آئیں گے سوائے ایک جگہ کے!  اور وہ ہے پاک و ہند میں ہونے والی مجالس عزا! اگر آپ نے "حق" اور "واہ واہ" کو بانہیں بانہوں میں ڈالے دیکھنا ہے تو آپ نہا دھو کر پاک و ہند کے کسی بھی امام بارگاہ میں چلے جائیں منبر پر ایک شخص مخصوص انداز میں گلا پھاڑ پھاڑ کر "حق" بات کہہ رہا ہوگا اور سامنے بیٹھے لوگ اسی جوش سے گلا پھاڑ پھاڑ کر "حق" بات پر واہ واہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اللہ کا ہم پاکستانی اور ہندوستانی علماء ، زاکریں اور خطباء کرام پر اتنا فضل و کرم ہے کہ شاید یہ رسول اللہ (ص) سے بھی اچھے انداز میں "حق" بیان کرتے ہیں کہ لوگ جھوم اٹھتے ہیں کیونکہ ہم نے آج تک کسی ضعیف یا مستند  روایت میں یہ تو ضرور سنا ہے کہ جب نبی (ص) بولا کرتے تھے تو لوگ اس طرح سنتے کہ جیسے ان کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو (کہ ذرا سا بھی ہلے تو پرندہ اڑ جائے گا) لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ نبی (ص) تقریر فرما رہے ہوں اور لوگ "واہ واہ بھئی کیا کہنے ہیں رسول آپ کے" یا پھر اگر نبی (ص) علی (ع)کے فضائل بیان کر رہے ہوں تو مجمعے سے کوئی عمار یاسر (ع)، سلمان (ع) یا ابوذر (ع) وغیرہ جیسا اٹھ کھڑا ہو اورگلا پھاڑ پھاڑ کر حیدر حیدر حیدر حیدر کہنا شروع کردیا ہو، یا پھر جذبات میں آکے کہہ دیا ہو "علی حق ہے یہی سچ ہے جو نعرہ نا مارے اس کی پیدائش میں شک ہے" یا پھر کبھی کسی صحابی نے جوش میں آکر یہ کہہ دیا ہو "جو حلالی ہے ہاتھ بلند کرکے نعرےےےےےےے رسالت" نہیں! تاریخ میں ہر گز ایسا نہ سنا نہ پڑھا ہم نے۔ "حق"کو سن کر جتنا پاک و ہند کی عوام کو خوشی ہوتی ہے اتنی شاید ہی کسی کو ہوتی ہو۔

مجھے علم ہے کہ میری یہ باتیں پڑھ کر میرے کچھ "حق پرست" دوست یہ تحلیل پیش کریں گے کہ میاں آپ تو ہر بات پہ شروع ہی ہوجاتے ہیں، آخر اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ اور بزرگ علماء نے فرمایا ہے کہ عزاداری ہر علائقے کی مروجہ رسومات کے لحاظ سے ہی منائی جائے لھٰذا محافل میں داد و دہش و صاحب منبر کی حوصلہ افزائی کیلئے نعرے وغیرہ لگانا تو پاک و ہند کی رسم رہی ہے۔ تو میرے ان دوستوں کا جواب میں نہیں دونگا صرف سیرت امام علی (ع) سے ایک قصہ نقل کروں گا جس سے ان کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی یہ دلیل کتنی قوی ہے۔

نہج البلاغہ میں موجود اس قصے کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے امام علی (ع) کو غیر مہذبانہ داد و دہش سے کتنی "محبت" تھی۔ امام علی (ع) جب شام جارہے تھے اور ان کا گذر انبار نامی علائقے سے ہوا اور انبار کے زمینداروں نے آپ سے ملاقات کی تو وہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر آئے اور آپ کے آگے آگے دوڑنے لگے (یہ دیکھ کر)  آپ (ع) نے فرمایا: "یہ کیا حرکت ہے جو تم نے کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ ہماری ایک "رسم" ہے جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم! اس (حرکت) سے تمہارے حکمرانوں  کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ تم دنیا میں اپنی جان کو "مشقت" میں ڈالتے ہو اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبخت ہو کر رہ جاؤ گے۔ اور یہ کتنے گھاٹے کی مشقت ہوگی کہ جس کے بعد سزا بھی بھگتنا پڑے۔ اور وہ "آرام" کتنا نفع بخش ہے جس سے دوزخ سے امان مل جائے۔[1]

لفظ "مشقت" اور "آرام" کو اپنے مجالس عزا میں موجود مجمعے پر صادر فرما کر اندازہ لگائیے کہ علی (ع) ہوتے تو ان کا آپ کے بارے میں کیا خیال ہوتا۔ منبر عظیم وسیلہء علم ہے کاش ہم اس سے مہذب طریقے سے علم لینا سیکھ لیں، جب علم اس کے کما حقہ طریقے سے لیں گے تو ہماری زندگیوں میں اس علم کی وجہ سے نکھار آئے گا خاص طور پر جب وہ علم ذکر اہل بیت (ع)،کہ جو مخزن علم ہیں ، سے مزین ہو۔ ہم کتنی مجالس سنتے ہیں اور ان سے ہمارے اخلاقی اقدار میں کتنی ترقی و تقویت  آئی یہ سوچنا آپ کا فرض ہے اور اگر ترقی و تقویت نہیں آئی تو اس کی وجہ تلاش کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔

تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے فطرت انسانی اس نوعیت کی نہیں کہ جب اس کے سامنے حق کہا جائے تو اسے اتنا میٹھا لگے کہ وہ جھومنا اور خوشی سے مست ہو کر چیخنا اور چلانا شروع ہوجائے۔ لھٰذا اب دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ جو سنتے ہیں وہ "حق" نہیں ہوتا یا پھر واقعی یہ فوق العادہ عوام اتنی حق پسند ہے کہ جب ان کے سامنے حق بیان کیا جائے تو جھومنے لگ جائے۔ ان دونوں باتوں میں سے کون سی سچ ہے یہ فیصلا میں نے ایسا "حق" سن کر "واہ واہ" کرنے والوں پر چھوڑا!

 

 



[1] نہج البلاغہ، مترجم الحاج ملک صادق علی عرفانی صاحب مطبوعہ لاہور ارشاد 37 ، ص: 824-825

اور اس مثال کو شخصیات کے مہذب طریقہ استقبال کی نفی کے طور پر اس لیئے استعمال نہیں کیا جاسکتا کہ مدینہ والوں نے نبی (ص) کا پرتکاب استقبال کیا تھا اور نبی (ص) چپ رہے، معصوم جس چیز کو دیکھ کر چپ رہے وہ سنت ہے لہٰذا علی (ع) سنت محمدی کے خلاف بات نہیں کرسکتے۔ بات مہذبانا طرزعمل کی ہے غور فرمایئے گا۔