نمرود اِن ٹینشن

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحيم

 
💀💀 نمرود اِن ٹینشن 💀💀

 

مترجم: محمد زکی حیدری


بین النھرین (۱) کے نام سے معروف سرزمین پر بابل نامی ایک خوبصورت اور گنجان آباد شہر واقع تھا جہاں ایک ظالم بادشاہ نمرود ولد کوش بن حام حکومت کیا کرتا تھا. بابل بت پرستی، انحرافات و فساد کا گڑھ تھا. هوس بازی، شراب خوری، جوا، جنسی گندگی، مالی فسادات اور ہر قسم کی معاشری قباحتیں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں. معاشرہ سخت طبقاتی نظام کے زیر تسلط تھا جس میں دو طبقات نمایاں تھے: حاکم و محکوم.
بت پرست حاکم کہ جس جس کی زندگی سراپا ظلم، فساد اور انحرافات کا نمونہ تھی، بابل کی عوام پر حکومت کرتا تھا. ھر طرف ظلم و زیادتی کا گھپ اندھیرا چھایا تھا اور گناہ کی فراوانی نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا. ہر شریف انسان شب ظلمت کے خاتمے و سحر سعادت کا منتظر تھا.
نمرود نہ فقط بابل بلکہ کچھ اور علائقوں پر بھی حکومت کرتا تھا. یہ ہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا تھا: اس زمین پر چار افراد نے حکومت کی ہے جس میں سے دو عادل، حضرت سلیمان (ع) اور ذوالقرنین. اور دو ظلم: نمرود و بخت النصر(2) تھے.

اللہ (ج) نے بابل والوں پر نظر کرم فرمائی اور ارادہ کیا کہ
ایک نیک و صالح رھبر ان کی جانب بھیجے جو انہیں جہالت، بت پرستی، ظلم و استبداد کے چنگل سے آزاد کروائے اور نمرود کے طاغوتی پنجوں سے انہیں رہائی بخشے. یہ نیک و صالح رہبر ابراھیم (ع) تھے جنہوں نے ابھی اس دنیا میں آنکھ بھی نہ کھولی تھی.
حضرت ابراھیم (ع) کا چاچا آزر نہ فقط ایک بت پرست تھا بلکہ نمرود کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا. اس کے علاوہ وہ ایک ماہر نجومی و ستارہ شناس بھی تھا جو حلقۂ مشیران نمرود میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا. آزر نے اپنے علم نجوم کو بروئے کار لاتے ہوئے پیشنگوئی کی کہ اس سال ایک بچہ پیدا ہوگا جو نمرود کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنے گا. اس نے اپنی یہ پیشنگوئی نمرود کی خدمت میں پیش کردی.

عجیب بات یہ کہ خود نمرود نے بھی اس رات خواب دیکھا کہ ایک ستارہ آسمان پر نمودار ہوا ہے جس کی روشنی کے سامنے چاند و سورج کی روشنی بھی ماند پڑ گئی. جب نمرود نیند سے جاگا تو اس نے تعبیر کرنے والوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خواب بیان کیا، ان سب نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ بہت جلد ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں اس کی حکومت کا خاتمہ ہوگا.

نمرود خواب کی تعبیر اور آزر کی پیشنگوئی سن کر شدید خوفزدہ ہوگیا. اس نے کئی دوسرے معبران اور ستارہ شناس سے بھی مشاورت کی سب نے اسے یہ ہی بات کہی جس کی وجہ سے اس کا چین و آرام برباد ہو گیا.


🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺


1) بین دجلہ و فرات کے درمیاں، حالیہ عراق میں واقع
2) بحار الانوار، ج 12، ص 36

نام کتاب : داستانهای خواندنی از پیامبران اولواالعزم‏

مولف: محمد محمدی اشتهاردی‏.

 989199714873+

arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں تبدیلی شرعاً ناجائز ہے)

اللہ (ج) کا دوست

بسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

اللہ (ج) کا دوست

مترجم: محمد زکی حیدری

ابراہيم عليه ‏السلام جہاں تقوی، پارسائی اور حق گرائی میں اپنی مثال آپ تھے وہاں محنت و مشقت کرنے والے انسان بھی تھے.
کبھی فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے. ان کی زندگی کا ایک حصہ کھیتی باڑی اور چوپایوں کی دیکھ بھال میں گذرا اور اس پیشے میں انہوں نے ترقی بھی کی جس کے نتیجے میں وہ کچھ بھیڑوں کے مالک بن گئے.

کچھ فرشتوں نے اللہ (ج) سے کہا کہ ابراہیم (ع) کی تجھ سے محبت ان فراوان نعمتوں کی وجہ سے ہے جو تو نے اسے عطا کی ہیں.

اللہ (ج) نے چاہا کہ فرشتوں کو دکھا دے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ابراھیم (ع) اللہ (ج) کو حقیقی طور پر مانتا ہے. اللہ (ج) نے جبرئیل کو حکم دیا کہ "ابراہیم (ع) کے پاس جا کر میرا ذکر کرو"
جبرئیل ابراہیم (ع) کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ اپنی بھیڑیں چرانے میں مشغول ہیں. جبرئیل نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر کہا:

*سبُّوح قُدُّوس ربُّ الملائِكةِ و الرُّوحِ

پاک و منزہ ہے خدا فرشتوں اور روح کا!

ابراہیم (ع) نے جوں ہی اللہ (جَ) کا نام سنا تو ان پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی.

ابراھیم (ع) نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی اور ٹیلے پر کھڑے اس شخص کو دیکھا. اس سے جاکر پوچھا: "کیا تم تھے جس نے میرے دوست کا نام لیا؟"
اس نے کہا: "ہاں"
ابراہیم (ع) نے اس سے کہا: دوبارہ میرے دوست کا نام لو میں اپنی بھیڑوں کا ایک تہائی حصہ تمہیں ھدیہ کردوں گا.

اس نے کہا: 
سبُّوح قُدُّوس ربُّ الملائِكةِ و الرُّوحِ

ابراہیم (ع) کو یہ الفاظ سن کر اتنا لطف آرہا تھا جو قابل بیان نہیں. وہ اس شخص کے پاس گئے فرمایا: "ایک بار پھر اگر میرے دوست کا نام لو تو بھیڑوں کا آدھا حصہ تمہیں بخش دونگا"
اس شخص نے تیسری بار یہ الفاظ دہرائے.
اس بار ابراہیم (ع) نے فرمایا: ساری بھیڑیں تمہاری! بس ایک بار پھر سے میرے دوست کا نام لو.

اس شخص نے پھر سے وہ الفاظ کہے.
ابراہیم (ع) نے کہا اب میرے پاس اور کچھ نہیں رہا سوائے میرے جسم کے، سو مجھے اپنی غلامی میں لے لو اور مزید ایک بار میرے دوست کا ذکر کرو.
اس شخص نے اللہ (ج) کا ذکر کیا.
ابراہیم (ع) نے اس شخص سے کہا اب مجھے اور ان بھیڑوں کو تم اپنا سمجھو.

تب جبرئیل (ع) نے اپنا تعارف کروایا اور کہا: میں جبرئیل ہوں، مجھے تمہارا کچھ نہیں چاہیئے لیکن یہ سچ ہے کہ تم نے اللہ (ج) سے دوستی کے سارے مراحل طے کر لیئے ہیں سو تمہارا حق ہے کہ اللہ (ج) تمہیں اپنا خلیل (سچا و پکا دوست) قرار دے


 اقتباس از معراج السعادة،ص 491

 

+989199714873

arezuyeaab.blogfa.com

(اس پیغام کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی شرعی طور ناجائز ہے)

امام موسی کاظم(ع) نے علی بن یقطین کو ھارون رشید کی وزارت قبول کرنے کو کیوں کہا؟؟*

 


🌺🌺🌺🌺🌺🌺

امام موسی کاظم(ع) نے علی بن یقطین کو ھارون رشید کی وزارت قبول کرنے کو کیوں کہا؟
جاسوسی کیلئے یا شیعوں کی مادی ضروریات پوری کرنے کیلئے؟
🌹🌹🌹🌹
تحقیق: آیت اللہ مکارم شیرازی (زید عمرہ)

مترجم:محمد زکی حیدری
🌹🌹🌹🌹🌹

علی بن یقطین کے والد عباسی حکومت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے. علی بن یقطین نے کوفہ میں پرورش پائی اور امام موسی کاظم (ع) کے حلقۂ تلامذہ میں رہ کر آپ (ع) کے خاص شاگردوں میں سے قرار پائے.

بقول علماء علم رجال و مورخین کے علی بن یقطین امام موسی کاظم (ع) کے ہونہار شاگردوں اور وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے امام کاظم (ع) سے بہت زیادہ کسب فیض کیا اور کثیر مقدار میں احادیث نقل کی ہیں جب کہ امام جعفر (ع) سے بھی ایک حدیث نقل کی ہے.(۱)

اپنے والد کی طرح سیاسی و اجتماعی اثر رسوخ رکھتے تھے، اس کے علاہ علم رجال کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے. ان کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
1- ما سیل عنه الصادق(علیه ‏السلام) من الملاحم.(۲)
2- مناظره الشّاک بحضرته.(۳)
3- مسائل جو انہوں نے امام کاظم(علیه ‏السلام) سے سیکھے تھے.(۴)

علی بن یقطین اپنے اجتماعی وسیاسی اثر و رسوخ کے باعث شیعوں کیلئے ایک بہت بڑی امید و پناہگاہ سمجھے جاتے تھے.
على بن یقطین نے امام موسی کاظم (ع) کی موافقت سے ھارون کی وزارت کی پیشکش قبول کی.(۵)

اس کے بعد علی بن یقطین نے متعدد بار اس عہدے سے مستعفی ہونے کا ارادہ کیا مگر ھر بار امام (ع) انہیں اس امر سے منع فرماتے. امام (ع) کا انہیں استعفی دینے سے روکنا حفظ جان و مال و حقوق شیعان عصر اور ان کی تحریک کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے تھا.(۶)

*امام (ع) نے یہ وزارت قبول کرنے کی تاکید کرتے ہوئے علی بن یقطین سے فرمایا*
*"میں تمہیں تین چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں تم مجھے صرف ایک بات کی ضمانت دو. جن تین باتوں کی تمہیں میں ضمانت دیتا ہوں وہ یہ ہیں*
*۱. تلوار کے وار سے (دشمن کے ہاتھوں) نہیں مارے جاؤ گے.*
۲. *کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوگے.*
۳. *کبھی قیدی نہیں بنو گے*.
*اور ایک چیز جس کی ضمانت میں تم سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شیعہ نے تم سے کسی بھی کام کیلئے رجوع کیا تم اس کی بھرپور مدد کروگے اور اس کا احترام کروگے. علی بن یقطین نے وعدہ کیا تو امام (ع) نے بھی انہیں مذکورہ بالا تین باتوں کی ضمانت دی.(۷)*


امام (ع) نے اس ضمن میں فرمایا: تمہارا مقام، تمہارے بھائیوں (شیعوں) کیلئے موجب عزت ہے اور امید ہے کہ تمہارے ذریعے اللہ (ج) ماضی کے نقصانات کا ازالہ کرے گا اور مخالفت کے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرے گا.
مختصراً یہ کہ علی بن یقطین اپنے وعدے سے وفادار رہے. اور جب تک اس عہدے پر فائز رہے شیعوں کیلئے ایک مضبوط قلعے اور پناھگاہ کی مانند رہے. علی ان سخت حالات میں شیعوں کی حفاظت اور استحکام کیلئے لوازمات مہیا کرنے کیلئے بڑے بڑے منصوبے بنایا کرتے تھے. علی بن یقطین امام موسی کاظم (ع) کے وہ سچے ساتھی تھے جنہوں نے مشکل حالات اور شیعوں کے سخت مخالف ھارون رشید کا اعتماد جیتا تھا اور اس کے دربار میں وزارت حاصل کی تھی. وہ شیعوں کی حمایت اور مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کرتے. *خصوصاً مالی حالات بہتر بنانے کے مواقع! وہ اپنے مال کا خمس ( جو کہ عموماً ایک خطیر رقم ہوا کرتی، یہ مبلغ بعض اوقات ایک لاکھ درھم سے لیکر تین لاکھ درھم تک ہوا کرتا)* (۸) ساتویں امام (ع) کی خدمت اقدس میں پیش کیا کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان پر ان ہی کا حق ہے.

علی بن یقطین کا بیٹا نقل کرتا ہے کہ: امام موسی کاظم (ع) کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی یا کوئی مشکل پیش آتی تو میرے والد صاحب کو خط لکھا کرتے کہ فلاں چیز میرے لیئے خرید کر بھیجو یا فلاں کام ھشام بن حکم کے ھاتھوں کروادو. البتہ ھشام کی قید صرف حساس مسائل میں ہی لگاتے. (۹)

امام موسی کاظم (ع) جب عراق گئے تو علی بن یقطین نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میری حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے (یعنی کس عہدے پر ہوں اور کس قسم کے لوگوں درمیان زندگی گزارنی پڑ رہی ہے). امام (ع) نے فرمایا اللہ (ج) کے اپنے نیک بندے کو ظالموں کے درمیان بھیجتا ہے تاکہ وہ نیک بندوں کی حمایت و حفاظت کرے اور تم ان خدا کے محبوب بندوں میں سے ایک ہو .(۱۰)
جب دوسری مرتبہ علی نے عباسیوں سے ملحق ہونے کے متعلق امام (ع) سے پوچھا تو امام (ع) نے فرمایا: "اگر ناگذیر ہے تو *یاد رکھو کہ شیعوں کے مال کی حفاظت کرنا.*
علی نے امام (ع) کی ھدایات لیں اور پھر اسی طرح بظاھر *شیعوں سے مال (ٹیکس وغیرہ) وصول کرتا لیکن یہ سارا مال چھپ کر انہی کو واپس لوٹا دیا کرتا*.(۱۱)

اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ھارون کی حکومت اسلامی حکومت نہیں تھی کہ ایک مسلمان پر اس کے قوانین کی پابندی واجب ہو. اصل حکومت تو امام (ع) کا حق تھا سو علی بن یقطین شیعوں کا سارا مال امام (ع) کے حوالے کردیا کرتے.
علی بن یقطین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ھر سال متعدد افراد کو اپنی نیابت میں خانہ خدا کی زیارت کو بھیجا کرتے *اور ان میں سے ھر ایک کو دس سے بیس ھزار درھم دیا کرتے*.(۱۲)
ان چند افراد کی تعداد ھر سال ۱۵۰ کے لگ بھگ ہوتی یا پھر کسی سال یہ تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ افراد تک جا پہنچتی.(۱۳)
حج جیسے فریضے کی اسلام میں اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علی بن یقطین کے اس عمل سے ان کی تقوی و پرھیزگاری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
لیکن اتنی کثیر تعداد میں وہ بھی اتنی خطیر رقم دے کر لوگوںِ کو حج پر بھیجنا اپنی جگہ علی کیلئے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا تھا. اگر ہم ان حج پر جانے والے افراد کی تعداد اور ان کو دی جانے والی رقم کا تخمینہ لگائیں مثلا: بلفرض سال میں دو سو افراد اور ان میں سے ہر ایک کو ملنے والی رقم کو دس ھزار درھم فرض کریں تو بھی یہ بیس لاکھ درھم تک کی رقم بنتی ہے. عجیب بات یہ کہ یہ رقم ھرسال خرچ ہوتی تھی اس رقم کا کچھ حصہ علی بن یقطین اپنے حصے سے دیا کرتے اور باقی کا حصہ زکوات، خمس، صدقات، ھدیہ جات وغیرہ سے بنتا. یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اندازے کے مطابق علی بن یقطین کی آمدنی لاکھوں درھم ہونی چاہیئے کہ ان اخراجات کو پورا کرسکیں.
شیعہ علماء میں سے صرف شیخ بھائی نے اس سوال پر روشنی ڈالی ہے اور فرمایا کہ:
مجھے لگتا ہے کہ امام (ع) نے علی بن یقطین کو مسلمانوں کے خراج اور بیت المال میں تصرف کی اجازت دے رکھی تھی اور *علی اس مال سے اجرتِ حج کے عنوان سے شیعوں کی مالی مدد کیا کرتے* تاکہ دشمن کو شک نہ ہو.(۱۴)
لہٰذا یہ نیابتی حج پر لوگوں بھیجنے کا پروگرام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علی بن یقطین چلا رہے تھے *تاکہ شیعوں کی مالی معاونت کو یقینی بنایا جا سکے*. اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ان نائبینِ حج میں کچھ ایسے شیعہ بزرگ بھی شامل تھے جو اس وقت امام موسی کاظم (ع) کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے مثلاً «عبدالرحمن بن حجاج» و «عبدالله بن یحیى کاهلى»(۱۵) یہ لوگ امام (ع) کی دوستی کی وجہ سے حکومتی وظائف سے محروم تھے(۱۶)

علی بن یقطین کے بزرگوں کو حج پر بھیجنے کی دوسری بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بزرگ دوسرے فرقوں کے علماء سے میل جول پیدا کریں اور مناظروں کی مدد سے تشیع تبلیغ ہو.

-----------------------------------------------------------------

 

حوالہ جات:

(۱). نجاشى، فهرست اسماء مصنفى الشيعه، قم، مكتبه الداورى، ص 195.
(۲).امام صادق(عليه‏ السلام) کی پیشنگوئیاں مستقبل کے حوادث و فتنوں کے بارے میں اور اس بارے میں ان سے کیئے سوالات کے جوابات میں.
(۳). مناظره با يكى از شكّاكان در حضور امام.
(۴). شيخ طوسى، الفهرست، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 234.

(۵). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
(۶). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلامیّه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158. (۷). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 136؛ طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
(۸). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
(۹). ایضا، ص 269.
(۱۰). ایضا، ص 433.
(۱۱). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158.

(۱۲). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
(۱۳). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 437 و 434.
(۱۴). مامقانى، تنقيح المثال، تهران، انتشارات جهان، ج 2، ص 317.
(۱۵). عبدالرحمن بن حجاج نے امام صادق و امام كاظم(عليهما‏السلام) سے بھی کسب فیض کیا، پاک و مشھور و ممتاز شيعہ شخصيات میں سے ایک تھے (نجاشى، فهرست اسما مصنفى الشيعه، قم، مكتبه الداورى، ص 65، مامقانى، عبداللّه، تنقيح المقال تهران، انتشارات جهان، ص 141)

چھٹے امام (ع) ان سے فرمایا کرتے: اے عبدالرحمن! مدینے کے لوگوں سے علمی گفتگو و بحث کیا کرو کیونکہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ شیعوں میں تجھ جیسے عالم موجو ہوں.
(اردبيلى، جامع الرواه، منشورات مكتبه آيه الله العظمى المرعشى النجفى، ج 1، ص 447؛ طوسى، همان كتاب، ص 442).

*عبدالله بن يحيى كاهلى امام (ع) کی نظر میں خاص احترام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ امام (ع) نے متعدد بار علی بن یقطین سے فرمایا: کاھلی اور اس کے خاندان کی کفالت کی ضمانت تم دو میں تمہیں بھشت کی ضمانت دیتا ہوں.*
(طوسى، همان كتاب، ص 402)

علی بے بھی امام (ع) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کاھلی کے خاندان کی تاعمر کفالت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی چھپ چھپ کر ھر لحاظ سے مدد کی.
(طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 448).
(۱۶). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 435.


arezuyeaab.blogfa.com

فال حافظ (رح) دیکھنے کا طریقہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

فال حافظ (رح) دیکھنے کا طریقہ (انٹرنیٹ سے)

 

۱. اس لنک پر کلک کریں
http://www.1doost.com/hafez/omen/

۲. اب اس بزرگوار کی روح کی خوشی کیلئے ایک بار سورہ فاتحہ اور صلوات پڑھیں.

۳. اب اپنے ذھن وہ مسئلہ سوچیں جس کیلئے فال دیکھنا ہے مسئلے کو ذھن میں رکھتے ہوئے یہ نیت کریں

*اے حافظ شیرازی!*
*آپ ھر راز کے رازدان ہو. آپ کو اللہ (ج) اور اپنی شاخِ نبات کی قسم میرے حق میں جو بھتر ہے وہ مجھے بتا دیں اور میری مراد پوری کروائیں.*

۴. پھر *نمایش فال* پر کلک کریں


اب آپ کے سامنے ایک غزل آئے گی اور اس کے نیچے تعبیر ہوگی.
یہ تعبیر کسی *اچھی طرح* فارسی جاننے والے سے ترجمہ کروائیں

اگر آپ کو لگے کہ فال سے متفق ہیں تو *شکر الحمدللہ* کہیں.


واالسلام
ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

گھوڑے کی نعل گھر کے دروازے پر لٹکانا!

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

گھوڑے کی نعل گھر کے دروازے پر لٹکانا!

مقرر: آیت اللہ جوادی آملی

مترجم: محمد زکی حیدری

اگلے زمانے میں لوگ اپنے گھروں، دکانوں وغیرہ کے دروازے پر (خیر و برکت کی نیت سے) گھوڑے کی نعل لگایا کرتے تھے. اور اس پر عقیدہ رکھتے تھے جب کہ اس کی حقیقت سے آگاہ نہ تھے.

اس منحوس رسم کی شروعات ہوتی ہے کربلا سے! امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد عمر بن سعد ملعون کے حکم پر اس کے کچھ گھوڑ سواروں نے اپنے گھوڑوں کو نئی نعلیں لگائیں اور ان گھوڑوں کو شہداء کے اجسام مطھر پر دوڑایا. جس کی وجہ سے شہداء کے سینہ اور پشت نرم ہوکر رہ گئے.
جب یہ گھوڑے کوفہ پہنچے تو کچھ لوگوں نے ان نعلوں کو چوما اور اسے متبرک جان کر اپنے گھروں کے دروازے پر لگا دیا.

مدتوں بعد *ابو ریحان البیرونی* جیسے بزرگوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا اور عوام کو آگاہ کیا مگر افسوس کے یہ رسم ہم سے پچھلے پچاس سال تک بھی نظر آتی رہی. جو چیز منحوس ترین چیز تھی اسے ہی متبرک سمجھا جاتا رہا.
لیکن مساجد، امام بارگاہ کے بننے اور ذمہ دار علماء کی کاوشوں سے اس منحوس رسم کا خاتمہ ہوا.

رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
جب امت اسلام میں بدعات نفوذ پذیر ہونے لگیں تو ایک عالم کو چاہیئے کہ علم کے ہتھیار سے اس کا مقابلہ کرے وگرنہ اللہ (ج) اور اس کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں.

«إذا ظهرت البدع فى أُمّتى، فليظهر العالم علمه و إلاّ فعليه لعنة الله و الملائكة و النّاس أجمعين»
(بحار الأنوار، ج54، ص234)


*+989199714873*

arezuyeaab.blogfa.com


(اس پورے پیغام کے متن میں تبدیلی غیر شرعی کام ہے)

جعفر "جذباتی" اور فاتحہ خوانی

جعفر "جذباتی" اور فاتحہ خوانی

از قلم: محمد زکی حیدری

 

سید جعفر حسین جعفری پہرسری! بھارت میں واقع سادات کے مشہور گاؤں پہر سر سے تعلق رکھتے ہیں. ان کے آبا و اجداد آزادی کے بعد پہرسر سے کراچی کے علائقے لیاقت آباد میں آکر قیام پذیر ہوئے لیکن لیاقت آباد میں شیعہ سنی فسادات سے تنگ آکر ان کے بزرگ انچولی آگئے. اس وقت جعفر میاں ابھی چھوٹے تھے. انچولی میں جعفر میاں نے امروہیوں سے جتنی مار کھائی اتنی شاید ہی کسی نے کھائی ہو. وجہ کیا تھی؟ "جذبات" جی ہاں! جعفر میاں جھوٹ نہیں سن سکتے تھے، وہاں سے کسی نے جھوٹ بولا یہاں سے جعفر میاں کی چھری جیسی زبان چلنا شروع! جھوٹ پر جعفر میاں کا پارہ بہت جلد چڑھ جایا کرتا. یہی وجہ تھی کہ محلے میں جعفر میاں کا نام جعفر "جذباتی" پڑ گیا.

اب چند دن قبل ہی کا واقعہ ہے کسی کے یہاں فوتگی ہوگئی، جعفر جذباتی کے دوست شبر نے اسے کہا فلاں دوست کے ابا کا انتقال ہو گیا ہے چلو فاتحہ کرکے آجاتے ہیں. محرم کے دن تھے جذباتی کو کام دھندا تو تھا نہیں سو بولا "سگرٹ پلا پہلے، پھر چلتے ہیں" نکڑ والی کیبن سے سگرٹ لی اور شبر کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئے. وہاں پہنچے تو مرحوم کا بیٹا پہلے اتنا نہیں رو رہا تھا لیکن جیسے ہی شبر جیسے دوست پر نظر پڑی تو اس کے غم نے جوش مارا، زوردار دھاڑ مار کر بولا "ارے شبر یار میں یتیم ہوگیا ابا چلے گئے، ابا ہمیں کس کے سہارے چھوڑ گئے... آہ!!!"
جذباتی چپ چاپ یہ منظر دیکھ رہا تھا اور کمرہ جس میں وہ بیٹھے تھے، کا نظارہ کر رہا تھا. دیوار پر مرحوم کی لگی تصویر کو دیکھ کر وہ کچھ سوچنے لگا. ایسا جیسے اس نے مرحوم کو کہیں دیکھا ہو.
جب اس لڑکے کا رونا کم ہوا تو شبر نے تفصیل پوچھی کہ مرحوم کا انتقال پرملال کیسے ہوا. بیٹے نے اپنے مرحوم باپ سے عشق کی داستان زور زور سے سنانا شروع کی تاکہ آس پاس بیٹھے لوگ سمجھیں کہ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار بیٹا تھا، اور اس نے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے مرحوم کا علاج کروایا مگر پھر بھی وہ چل بسے. "ارے شبر بھیا کیا بتاؤں آغا خان، جناح، لیاقت نیشنل ، کراچی تو کراچی اسلام آباد تک... کہاں کہاں نہ لے گیا ابا کو علاج کیلئے لیکن پھر بھی ابا ہم سے روٹھ گئے"
شبر نے اسے دلاسہ دیا. جذباتی جو اس وقت تک چپ تھا، کے ذھن میں سوال آیا اور اس نے مرحوم کے بیٹے کی طرف منہ کر کے کہا "وہ... بھیا آپ سے بات پوچھنی تھی"
"جی بولیں"
"یہ جعفر میرا دوست پڑوسی...."
شبر نے چاہا کہ جعفر جذباتی کا تعارف کروائے مگر جذباتی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مرحوم کے بیٹے سے پوچھا" بھیا لالو کھیت دس نمبر میں ستار کیبن والے کے پاس آپ کے والد صاحب بیٹھا کرتے تھے؟"
پہلے تو مرحوم کا بیٹا چونک گیا کہ ستار کیبن والے کو یہ اجنبی بندہ کیسے جانتا ہے. لیکن پھر استعجاب سے جواب دیا
"جی! وہ چچا عبدالستار ابا کے بچپن کے دوست ہیں، روز ابا کو میں ہی ان کے ڈراپ کر آتا تھا گاڑی میں..."
"ڈراپ؟؟؟ لیکن بھیا وہ تو ویگن سے اترتے تھے، اور شام میں چچا ستار کی اسکوٹر کے پیچھے بیٹھ کر ہر روز ان ہی کے ساتھ جایا کرتے تھے"
"وہ اصل میں..."
مرحوم کے بیٹے کے طوطے اڑ گئے. جذباتی نے بات جاری رکھی
"میں چچا ستار کی کیبن کے سامنے ویلڈنگ پر کام کرتا ہوں لالو کھیت دس نمبر میں، آپ کے ابا کی تصویر دیکھی تو یاد آیا... " اس کے بعد جذباتی نے شبر کی طرف رخ کیا اور کہنے لگا "اچھا شبر ایک دن پتہ ہے کیا ہوا، میں چچا ستار کی کیبن پر سگرٹ لینے گیا تو اپنا تو تجھے پتہ ہے کھاتہ تھا چچا کے پاس، سگرٹ لی اور چچا سے کہا میرے کھاتے میں لکھ دو ستارچچا. تب چچا کے برابر میں بیٹھے ہوئے اس بوڑھے نے گردن جھکا کر ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کھاتہ....!"
"جعفر تم کیا کہنا چاہ رہے ہو" شبر نے جعفر کی بات کاٹتے ہوئے کہا
"ابے سن تو لو!"
جذباتی نے پھر بولنا شروع کیا " اس بوڑھے میاں نے گردن جھکا کر آہ بھری اور بولا کھاتہ!!! میں سمجھا نہیں لیکن چچا نے اسے جو کہا اس سے اندازہ ہوا کہ اصل کہانی کیا ہے. چچا ستار اسے کہہ رہے تھے تمہارا میں نے بہت کھایا ہے یاد ہے میرے یہاں کھانے کے واندے تھے اور تم لا لا کر مجھے کھلاتے، اس وقت میں بیروزگار تھا تیری نوکری تھی آج تیرے ناصالح بیٹے تجھے پیسہ نہیں دیتے تو کیا ہوا، تیرا یہ یار جب تک زندہ ہے، تو اس کی ہر چیز اپنی سمجھ کیبن کی پان بیڑی کو ادھار کہہ کر مجھے شرمندہ مت کر اور پتہ ہے...."
"بس کر جعفر رہنے دے لوگ سن رہے..."
شبر نے جذباتی کے پیر پر چپ کے سے دبایا تاکہ وہ چپ ہو. مگر جذباتی جب جذبات میں آتا تو مجال کوئی اسے چپ کرا پاتا سو اس نے بات جاری رکھی
"یہ بوڑھے میاں دوپہر سے شام تک چچا ستار کی کیبن پر بیٹھتے، چچا ٹفن میں جو کھانا لاتے یہ دونوں اکثر وہی کھانہ کھاتے. ایک دن چچا کی کیبن پر رش تھا تو انہوں نے میرے ہاتھ میں کچھ پیسے تھمائے اور دوائیوں کی پرچی بھی، بولے جا کر پاس والے اسٹور سے دوائی لے آ... انگریزی اتنی نہیں آتی مجھے مگر اس پر قادر علی نام پڑھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ چچا ستار کی دوائیاں نہیں ہیں... اب پتہ چلا شبر کہ وہ بوڑھے میاں تمہارے اس دوست کے والد صاحب تھے. یقین نہیں آتا جس بیٹے کا اتنا بڑا بنگلہ ہو، گاڑی ہو، اس کے والد کسی کیبن سے پان بیڑی ادھار پر لیتے اور دوائیاں ... "
"شبر یہ کون جاہل ہے ... " مرحوم کے بیٹے نے حاضرین کے سامنے اپنی عزت بچانے کی غرض سے شور مچانا شروع کردیا تاکہ خود کو سچا اور جذباتی کو جھوٹا ثابت کرے. لیکن جذباتی نے بھی شور کا جواب شور سے دیا "ابے جاہل تم جیسے پڑھے لکھے ہوتے ہیں، ہم ان پڑھ تم سے اچھے ہیں، میرا باپ زندہ ہے ویلڈنگ کر کر کے اندھا ہوگیا ہے لیکن کسی کا محتاج نہیں پان بیڑی کیلئے، اس کا ویلڈر بیٹا زندہ ہے اسے کھلانے کیلئے. اپنے پاس ڈگری نہیں ہے اور ہاں اپن لعنت بھیجتے ہیں ایسی ڈگری اور نوکری پر جو باپ کو کسی اور کا محتاج کر دے... " مرحوم کے بیٹے نے جذباتی کو گریبان سے پکڑ لیا "ابا کو بھکاری کہتا ہے تیری ماں کی ..."
مرحوم کے بیٹے نے جب جذباتی کا گریبان پکڑا تو جذباتی جیسے ویلڈر کا سخت ہاتھ اس نرم چمڑی والے افسر کی ناک پر پڑا اور اسے خون آنا شروع ہوگیا یہ دیکھ کر مرحوم کے بھتیجے اور صاحب کے محافظ مل کر جذباتی کی دھلائی کرنے لگے. شبر اور دیگر حاضرین نے کھینچ تان کر جذباتی کو بمشکل کمرے سے باہر نکالا اور دروازہ بند کردیا. شبر جذباتی کو دھکے وکے اور گالیاں دیتا ہوا بائیک تک لایا اور بائیک چالو کی. جذباتی نے سگرٹ نکالنے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا مگر پتہ چلا ہاتھا پائی میں سگرٹ کا پیکٹ وہیں گر گیا تھا، سو وہ اپنی پھٹی قمیض کے دامن سے اپنے منہ کا پسینہ اور زخموں کو صاف کرتا ہوا شبر کے پیچھے بائیک پر بیٹھ گیا. اور شبر بڑبڑاتا ہوا بائیک چلانے لگا.

www.arezuyeaab.blogfa.com

فطرت کیا ہے؟

 

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم

 

بھئی یہ فطرت کیا ہے؟ جس کو دیکھو فطرت فطرت... ہے کیا چیز یہ فطرت؟

🤔

سادہ سی بات ہے!
دیکھیئے صاحب! عدم کا مطلب ہے کچھ نہ ہونا، کچھ بھی نہ ہونا، کوئی چیز موجود نہ ہو اسے عدم کہتے ہیں.... انسان پہلے موجود نہیں تھا عدم تھا. پھر یہ عدم کے پردے "چیر" کر باہر نکلا یعنی وجود میں آیا. اس "چیرنے" کو عربی میں *فَطَر* کہتے ہیں اور فطر سے فطرت کا لفظ بنا. فطر مطلب چیرنا (عموما کپڑے کو)

بھائی یہ کیا بات ہوئی! اس طرح تو گائے بھی عدم میں تھی پھر وجود میں آئی کیا اسے بھی فطرت کہیں گے؟؟ جب کہ ہم جانتے ہیں جانور کی فطرت نہیں ہوتی 😏

نہیں!

جناب بات یہ ہے کہ ھر مخلوق ایک خاص کیفیت میں کچھ مخصوص عادات و حرکات و سکنات و خصوصیات اپنے اندر لے کر وجود میں آتی ہے یہ سب خدا اس کے اندر ڈال کر پھر اسے پیدا کرتا ہے.
الریڈی انجیکٹڈ already injected یعنی پہلے سے ڈلی ہوئی ہوتی ہیں مخلوق اپنی محنت سے انہیں حاصل نہیں کرتی بلکہ یہ الریڈی انجیکٹڈ ہوتی ہیں.
گاڈ گفٹڈ!!!
جیسے جمادات کی بات کریں تو پتھر کے اندر سختی اللہ (ج) ڈال کر اسے خلق کرتا ہے. پانی میں نمی اللہ (ج) ڈال کر اسے خلق کرتا ہے.
حیوانات میں آ جائیں تو بچے کا ماں تھنوں میں دودہ کیلئے منہ مارنا اللہ (ج) کی طرف سے ہے، ماں کے آس پاس رہنا یہ خاصیت اللہ (ج) نے اس میں ڈال رکھی ہے.

انسان بھی اسی طرح کی خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے

تو کیا ان سب خصوصیات کو فطرت کہیں گے؟🤔

نہیں.

تین اصطلاحات ہیں!
غیرجاندار کی ان خصوصیات کے مجموعے کو *طبیعت* کہتے ہیں
حیوان جو خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے ان کے مجموعے کو *غریزہ* کہتے ہیں

اور
انسان جو جو خصوصیات لے کر پیدا ہوا اسے *فطرت* کہتے ہیں....
پتھر کی سختی اس کی فطرت نہیں نہ غریزہ. یہ اس کی *طبیعت* میں ہے. کوئی کہے پانی کی فطرت میں نمی ہے تو یہ جملہ غلط ہے اسے کہنا چاہیئے پانی کی *طبیعت* میں نمی ہے. پتھر کی طبیعت میں سختی ہے.

حیوان کی فطرت میں مامتا ہے !!!!
نہیں یہاں لفط فطرت نہیں *غریزہ* استعمال ہوگا

🌹فطرت کا لفظ صرف انسان کیلئے ہے. 🌹

*سوال*
*ان تینوں میں فرق کیا ہے؟*

فرق ہے *آگاہی* کا. طبیعت سے غریزہ زیادہ آگاہ تر چیز ہے یعنی اپ ڈیٹڈ ہے. اور فطرت ان دونوں سے زیادہ اپڈیٹڈ ہے.

نکتہ: امام علی (ع) نے نھج البلاغہ میں فرمایا :
 "کلمة الاخلاص هی الفطرة"
یعنی کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ) فطرت ہے.

یعنی اللہ (ج) جس طرح پتھر میں سختی، پانی میں نمی، حیوان میں مامتا ڈال کر اسے خلق کرتا ہے اسی طرح انسان کی فطرت میں *صرف ایک* معبود یعنی اللہ (ج) کی عبودیت بھی ڈال کر بھیجتا ہے. فطرت اللہ (ج) کی ڈالی ہوئی خصوصیات کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ایک خاصیت ہے اللہ (ج) کو واحد معبود ماننا.
ہم سب کی فطرت میں اللہ (ج) اپنی وحدانیت "انجیکٹ inject" کر کے بھیجتا ہے.

 

*سوال فطرت انسانی میں اگر وحدانیت ڈال کر بھیجی گئی ہے تو اتنے لوگ اللہ (ج) کی وحدانیت کے قائل کیوں نہیں؟*

اس کا جواب کل ان شاء اللہ

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

*arezuyeaab.blogfa.com*

احسن تقویم کیا ہے

Salam zaki bhae ye ahsan e taqweem kia h quran me aya h hum ne insan ko ahsan taqweem pe paida kia. Roshne dalain.

 بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم


وعلیکم السلام برادر !

سورہ والتین کی آیت نمبر ۴ میں اللہ (جَ) فرماتا ہے :
قَد خَلَقنَا الإِنسانَ في أَحسَنِ تَقويمٍ

ترجمہ
بیشک ہم نے انسان کو بہترین ترکیب میں بنایا.

کسی نے تقویم کو ترکیب کہا، کسی نے نظم، کسی نے کیفیت، کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ لیکن عرض کہ جو بندہ حقیر کا مطالعہ ہے اس کی روشنی میں مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرونگا.
بھئی دیکھیئے !
جس طرح حکیم مختلف ترکیبیں استعمال کر کے ایک دوائی بناتا ہے کہ جس کے اندر ھر جڑی بوٹی کی اس طرح مناسب مقدار موجود ہوتی ہے کہ دوائی بہترین بن جاتی ہے. اسی حکیم کی مختلف دوائیاں بنائی ہوئی ہوتی ہیں مگر ایک دوائی کی ترکیب وہ ایسی رکھتا ہے جس پر اسے فخر ہوتا ہے اور اسے جب بھی اپنی بہترین دوائیوں کی مثال دینی ہوتی ہے تو وہ اپنی اس دوائی کی مثال دیتا ہے. انگلش میں اسے کہتے ہیں Master piece. لہذا اللہ (ج) نے بھی کئی چیزیں خلق کی مگر ان میں سے چند اہم ہیں:

جمادات
نباتات
حیوانات
فرشتے
انسان

ان میں سے ہر ایک کی ترکیب اللہ (ج) نے کیا رکھی غور کیجئے!
جمادات حرکت نہیں کرسکتے جان بھی نہیں رکھتے.
بھئی پتھر جمادات میں سے ہے نا کیا اس میں جان ہے؟ نہیں! اچھا بھلا حرکت کر سکتا ایک جگہ سے دوسری جگہ ؟ نہیں! سو اس کی ترکیب ناقص!
نباتات میں آجائیں! جان ہے، لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت نہیں کر سکتے. ترکیب ناقص!
اچھا حیوانات میں جان بھی ہے، حرکت بھی کر سکتے ہیں، شہوت بھی ہے بھئی یہ تو کامل ترکیب والے مان لو ! بولے نہیں اس کی ترکیب میں عقل نہیں ہے.
اچھا فرشتے میں عقل بھی ہے، جان بھی، حرکت بھی اسے مانو گے؟ بولے نہیں فرشتے میں شہوت نہیں! ترکیب ناقص!
آتے آتے بات آئی انسان پر جب اس مخلوق کو دیکھا گیا تو اس کی ترکیب میں جان بھی ہے، حرکت بھی، شہوت بھی اور عقل بھی ... یہی وجہ ہے کہ اس مخلوق کیلئے ہی اللہ (ج) نے فرمایا ہم نے انسان کو بھترین ترکیب میں بنایا.
اور اس کی ترکیب سب سے بہترین ہے اس لیئے اس پر ذمہ داری بھی سب سے زیادہ اور اگر یہ اچھا ہو تو اشرف الخلوقات اگر برا ہو تو شر الدواب یعنی جانور سے بھی بدتر.

البتہ یہ ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ بعج مفسرین نے احسن تقویم کو ظاہری ، جسمانی بناوٹ پر تطبیق نہیں کیا ان کے بقول اس کی عرفانی و باطنی تفسیر ہے. بھرحال وہ ایک الگ موضوع ہے.

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

*arezuyeaab.blogfa.com*

حضرت موسی علیہ السلام کی شادی!

حضرت موسی علیہ السلام کی شادی!

 

مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری

 

سورج ابھی زرد ہی تھا کہ ایک جوان، خستہ و بے حال اپنے خاک آلود لباس میں ایک کنویں کے پاس پہنچا، بھاری بھرکم ڈول کو کنویں میں پھینکا ڈول پانی سے ٹکرایا "شلاپ" کی اس مدھر آواز نے جوان کی جان میں جان ڈال دی، بڑی جدوجہد کر کے اس نے ڈول کو باہر کھینچا.
پانی پینا ہی تھا کہ اسے دور سے کتوں کے بھونکنے، دنبوں کی گھنٹیوں اور ایک مدھر سا ساز سنائی دیا.
یہ چوپان تھے جو اپنے جانوروں کو پانی پلانے کویں پر آگئے لیکن تھکن کی وجہ سے کسی نے اس جوان کو سلام نہ کیا. انہوں نے ڈول کو پھینکا اور تین افراد نے مل کر اس ڈول کو کھینچا تاہم اس جوان پر ذرا بھی دھیان نہ دیا.
جوان آٹھ دن پیدل چلنے کی وجہ سے تھکن محسوس کر رہا تھا. آٹھ دن کی مسلسل دوڑ! کہ کہیں اس کا تعاقب کرنے والے دشمن اسے پکڑ نہ لیں.

موسی (ع) نامی اس جوان کی نیت کسی کی جان لینا نہ تھی اس مڈبھیڑ میں موسی (ع) نے تو صرف حق کا ساتھ دیتے ہوئے اور مظلوم کو نجات دلانے کی غرض سے ظالم کے سینے پر ایک مکا مارا تھا جس سے وہ زمین بوس ہوا اور اسی وقت مرگیا.
موسی (ع) کا گھیرا تنگ ہوا تو انہوں نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر دشمن کے ہاتھ لگ گئے تو وہ اسے جان سے مارنے میں دیر نہیں کریں گے. لھذا انہوں وہ نے شہر چھوڑا اور آٹھ دن و رات مسلسل سفر کرتے ہوئے اس شہر آن پہنچے کہ جہاں کے لوگ ایسے بے مروت ہیں کہ ایک اجنبی جوان کو دیکھ کر سلام دعا بھی نہیں کرتے.

بالقصہ یہ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے بیٹھ گئے کہ اتنے میں سامنے سے اسے کچھ لڑکیاں دنبوں کے ایک بڑے ریوڑ کے ساتھ نظر آئیں جو کہ بڑی جدوجہد کر رہی تھیں کہ ان کے جانور کنویں کی جانب نہ جانیں پائیں. موسی (ع) نے یہ منظر دیکھا تو آگے بڑھ کر ان لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ کیوں دنبوں کو پانی نہیں پلانا چاہتیں. جس پر لڑکیوں نے جواب دیا
"ہم تب تک جانوروں کو پانی نہیں پلائیں جب تک کنویں پر نامحرم چوپان موجود ہیں"
یہ سن کر اس جوان کے ذھن میں ایک سوال آیا کہ کیا ان کے والد نہیں ہیں جو یہ کام انجام دے سکیں.
قبل اس کے کہ یہ سوال وہ اپنے لبوں تک لاتے، لڑکیوں نے کہا: ہمارے بابا بوڑھے ہوگئے ہیں اب وہ توان نہیں رکھتے کہ اس کام کو انجام دیں. یہ سن کر اس جوان کو بہت دکھ ہوا اس نے کنویں پر موجود چوپانوں کی جانب نگاہ کی اور دنبوں کا ریوڑ لے کر اس طرف چل دیا.

غیرت اس جوان پر حاوی ہوگئی جس کی وجہ سے اب وہ اپنی تھکن بھول چکا تھا اور جوش میں ڈول کو نیچے پھینکا اور اکیلے ہی ڈول کو اوپر کھینچ کر جانوروں کو سیرآب کیا.
لڑکیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح اس مہربان جوان کا شکریہ بجا لائیں لھذا وہ اپنا ریوڑ لے کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئیں.

جوان دوبارہ تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور دبے ہونٹوں دعا کی " یا اللہ (ج) ہر وہ نیکی میری طرف بھیج جس کی مجھے ضرورت ہے"

لڑکیاں گھر پہنچی، ان کے ابا ان کے انتظار میں تھے، ابھی بستر سے اٹھے بھی نہ تھے کہ انہیں اپنی بیٹیوں کے آنے کی خبر ملی. لڑکیاں خوشی خوشی اپنے والد کے پاس گئیں
"میری پیاری بیٹیو آج جلدی گھر لوٹ آئیں"
لڑکیوں نے مسکرا کر اپنے والد کو بتایا:
ایک نیک دل جوان نے ہم پر مہربانی کی ہم سے جانور لیئے اور انہیں پانی پلایا"

شعیب (ع) نامی اس بوڑھے باپ نے تعجب کیا: یا اللہ (جَ) یہ با مروت جوان کون ہے جو اس سر زمین مدائن پر آیا ہے. یہ سوچ کر انہوں نے اپنی بیٹی کو حکم دیا کہ بیٹی اس جوان سے جاکر کہو کہ میرے بابا نے تمہیں بلایا ہے تاکہ تمہیں اس کام کی اجرت دیں.

لڑکی کنویں پر آئی جوان اسی طرح درخت کے نیچے بیٹھا تھا. لڑکی اس کے قریب گئی اور کہا میرے بابا آپ کو اجرت دینا چاہتے ہیں.
جوان نے اپنے آپ سے کہا: عجیب بندہ ہے! اتنا انصاف پسند ہے کہ ایک دو ڈول کھینچنے کی مزدوری بھی نظر انداز نہیں کرتا.
وہ گھر پہنچا. شعیب (ع) بڑی گرم جوشی سے اس کے استقبال کو آگے آئے اور کہا: "خوش آمدید نوجوان!"
کھانے کا دسترخوان پہلے ہی بچھایا جا چکا تھا. بھوکے جوان کی نظریں جب کھانے پر پڑیں تو سوچا یہ وہ دعا پوری ہوئی ہے کہ جو اس نے درخت کے نیچے مانگی تھی کہ " یا اللہ (ج) تیری خیر کا محتاج ہوں."

بوڑھے نے جوان سے حال احوال دریافت کیا اور پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.
جوان نے یہ رویہ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی اور اس نے اپنی روداد سنادی . شعیب (ع) نے بڑے تحمل سے کہا: ڈرو مت! تم یہاں محفوظ ہو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں.

موسی (ع) آرام کرنے کی تیاری کرنے لگے تا کہ اس سکون والے ماحول میں ھفتے بھر کی تکھن اتار سکیں. پورے گھر پر خاموشی چھا گئی کہ یہ بندہ خدا آرام کر سکے.
وہی شعیب (ع) کی بیٹی جو اپنے والد و موسی (ع) کے مابین واسطہ بنی تھی نے اپنے بابا کی خدمت میں زانوئے ادب خم کیئے اور فرمایا:
" بابا یہ جوان طاقتور و نیک اور ایمان دار ہے اسے اپنے یہاں نوکر رکھ لیں کہ ہمارے کام کاج میں مدد کرے."

شعیب (ع) کی آنکھوں میں ایک چمک نے تجلی ماری لیکن اسے تعجب ہوا کہ اس کی بیٹی کو کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ جوان ایماندار اور شریف ہے. لھذا انہوں نے بڑے پیار سے بیٹی سے پوچھا:
" بیٹا تم نے اس کے ڈول کھینچنے سے اس کی طاقت کا اندازہ لگایا مگر اس کی ایمانداری اور شرافت کا اندازہ تم نے کیسے لگایا؟"
بیٹی نے باپ کو دیکھتے ہوئے کہا: اس بات سے کہ اس نے ہم لڑکیوں کے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی اس کام کے بدلے کچھ مانگا اور نہ ہی ہمیں دیکھ کر اس پر کوئی اثر ہوا"

موسی (ع) ابھی بستر آرام سے اٹھنے ہی نہ پائے تھے کہ شعیب (ع) نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کی بات کی. شرم سے موسی (ع) کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا
اور اس کی خاموشی سے شعیب (ع) نے اندازہ لگا لیا اور ان کا دل خوشی سے بھر گیا کہ موسی (ع) اس کے داماد بن گئے.

www.fb.com/arezuyeaab