حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حجاب اتارنے پر تُلی ہوئی اپنی منہ بولی بہن فرح موسوی کے نام پیغام
فرح میری پیاری بہن اور دوست! بفضل خدا تمہاری برسوں پرانی خواہش پوری ہوئی، تمہاری شادی لندن میں ہوگئی، اللہ (ج) تمہیں اپنے امیر خاوند کے ساتھ خوش رکھے. تم نے اپنے ای-میل میں لکھا ہے کہ تم نے حجاب سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس متعلق میری رائے معلوم کرنا چاہتی ہو، اور تم نے استدلال بھی کیا ہے، جس میں مُلا پہ خوب بھڑاس نکالتے ہوئے حسب معمول اس کے کرتوتوں کو اسلام کے گلے میں ڈال کر تم نے اپنی چادر اتارنے کا بہانا تلاش کرنے کی ناکام کوشش بھی بخوبی کی ہے. اب جب تم نے میری رائے جاننے کا کہا ہی ہے تو اس موضوع پہ کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں. تم اتنا تو جانتی ہو کہ میں مُلا سے اتنی ہی نفرت کرتا ہوں جتنی نام نہاد پاکستانی لبرلز سے! لہٰذا میری باتوں کو اسی کراچی یونیورسٹی والے زکی کی بات سمجھ کر سننا، البتہ عمل کرنے نہ کرنے پر بیشک اختیار رکھتی ہو.
پیاری بہن! آج تم مغرب کی "آزادی" کے چکر میں اپنی چادر اتارنے پہ تلی ہوئی ہو. اور اسلام کی تاریخ سے چند مثالیں پیش کر کے اسے عورت کا دشمن کہہ رہی ہو. اب جب بات تواریخ کی ہے تو یاد رہے کہ مغرب کی تاریخ بھی عورت کے معاملے میں دودھ سے دھلی ہوئی نہیں ہے. چار صدیاں پیچھے جاؤ مغرب عورت کو یورپ کے پادریوں کی سرپرستی میں چڑیل و جنی (witch) کہہ کر زندہ جلاتے ہوئے ملے گا. اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمس پنجم نے تو حد کردی، یہ بدبخت ڈینمارک سے اپنی نئی نویلی دلہن کو لیئے بذریعہ بحری جہاز اسکاٹ لینڈ آرہا تھا کہ شمالی بیروِک نامی شہر کے قریب بحری جہاز کو سمندری طوفان نے گھیر لیا اور اسے واپس ڈینمارک لوٹنا پڑا. اس وہمی و خرافاتی فکر رکھنے والے انسان نے سمجھا کہ یہ طوفان شمالی بیروک کی چڑیلوں (witches) کی کارستانی ہے لہٰذا ستر سے زائد عورتوں کو شک کی بنیاد پر چڑیل سمجھتے ہوئے اذیت دے کر زندہ جلا دیا گیا. اسکاٹ لینڈ جاؤ گی تو شاہی محل کے باہر صدر دروازے پر ان سینکڑوں معصوم عورتوں کی یادگار کے طور نصب تختی ملے گی. اس کے علاوہ وِچز ویل (Witches Well) کے بارے میں بھی مطالعہ کر سکتی ہو. یہ شکنجے اور زندہ جلا دینا صرف اسکاٹ لینڈ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ تین صدیوں تک پورے یورپ میں رائج تھا. نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد بھی تمہارا حال مغربی معاشرے میں یہ ہی رہا، جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہو کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ مغرب نے اٹھارویں صدی میں تمہیں کام کرنے اور اپنی ذاتی ملکیت رکھنے کا حق دیا ورنہ تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق بھی حاصل نہ تھا. وہ بھی خیر سگالی کی نیت سے نہیں بلکہ اس لیئے کہ صنعتی انقلاب آیا، صنعتکاروں کو وافر مقدار میں مزدور درکار تھے اور تم صنعتکاروں کو مرد سے ذرا سستی پڑتی تھی اور معاشرے کا ستم دیدہ طبقہ ہونے کے ناطے تم سے مرد کی نسبت بغاوت کا خطرہ بھی کم تھا. مختصراً یہ کہ تمہارا استحصال بڑا ہی آسان تھا.
خیر یہ تو تھا مغرب کا گذشتہ کل! آج کیا ہے؟
دیکھو میری پیاری بہن! تم جانتی ہو کہ کراچی یونیورسٹی سے لیکر اب تک میں ایک فیمینسٹ سوچ رکھنے والا انسان ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی یہ مغرب تمہیں حیوان بنانے پہ تلا ہوا ہے. پوچھو کیسے؟ وہ ایسے کہ جانور عریاں ہوتا ہے، برہنگی حیوانی صفت ہے اور لباس پہننا انسانیت. تہذیب حیوان کیلئے نہیں انسان کیلئے ہے اور مغربی مرد اس بات سے بخوبی آگاہ ہے لہٰذا وہ تمہیں حیوان دیکھنا چاہتا اور خود کو انسان! اب تم کہو گی یہ کیسے؟ دیکھو تم لندن کے گوروں کی کسی بھی تقریب میں چلی جاؤ مرد تھری پیس میں ملبوس ملے گا تین آئٹم! پینٹ، شرٹ، کوٹ. حتی کہ اگر ٹائے ذرا سی بھی اِدھر اُدھر ہوئی تو یہ بات مغربی مرد کی اہانت کا باعث سمجھی جاتی ہے. اور اسی تقریب میں عورت نیم برہنہ!
واہ! بھائی اگر آزادی و تہذیب لباس اتارنے میں پنہان ہے تو مرد کو بھی چڈھی (نِکر) پہن کر آنا چاہیئے تقریب میں، لیکن ایسا نہیں ہوتا. مغربی دانشور "حجاب یعنی آزادی نسواں پہ ڈاکا" کے موضوع پہ سیمینار میں تھری پیس پہن کر جاتا ہے. کوئی اس کوڑ مغز سے پوچھے کہ بھئی آپ تو کہتے ہو جسم ڈھانپنا آزادی پر ڈاکا ڈالنا کے مترادف ہے تو پہلے تم خود کو ڈاکے سے آزاد کرواؤ. اتارو تھری پیس اور پہنو چڈھی!
نہیں! بس عورت کیلئے ہے یہ قانون، مرد اس سے مستثنی ہے. لو بھئی عورت اور مرد میں فرق آگیا؟ الزام مشرقیوں پہ لگاتے تھے کہ یہ جنسی امتیاز کے قائل ہیں جب کہ خود صاف صاف جنسی امتیاز (جینڈر ڈسکرمینیشن) کے مرتکب نظر آتے ہیں. عورت نیم برہنہ مرد تین تین کپڑوں میں!
اس کے علاوہ پستیِ تہذیب کی انتہا یہ ہے کہ ایک ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا جاتا ہے، مرد کو مرد سے نکاح کی اجازت دی جاتی ہے جب کہ اسی ملک میں عورت کو حجاب سے منع کرنے کا قانون پاس ہوتا ہے.
یہ ہے تمہارے مغربی مرشدوں کا فلسفہ فرح!
اب تمہارے اس اعتراضکا جواب جو تم نے لکھا ہے کہ اسلام عورت سے مشاورت کرنے سے منع کرتا ہے. دیکھو فرح مُلا کو چھوڑ کر قرآن پہ غور کرو مثلاً ملکہ سبا کی داستان پڑھو کہ جب اس نے اپنے دربار کے مرد شرفاء سے حضرت سلیمان (ع) کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مشاورت کی تو سب نے یہ کہا نَحْنُ أولُوا قُوَّةٍ وَ أولوا بَأسٍ شَدیدٍ وَالأمْرُ إلَیکِ فَانْظُری ماذا تَأمُری
ہم طاقتور اور شدید جنگجوہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔ (نمل ۳۳)
یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمارے پاس طاقتور فوج ہے، ہمیں سلیمان (ع) سے جنگ کرنی چاہیئے. لیکن ملکہ سبا نے جو فیصلہ لیا اس نے تمام عورتوں کا سر فخر سے اونچا کر دیا ملکہ نے کہا اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۰ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ
بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔ (نمل ۳۴) پھر مردوں کے مشورے کو رد کرتے ہوئے کہا وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ
اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔ (نمل ۳۵)
دیکھیئے اللہ (ج) کو عورت کا یہ فیصلہ اتنا پسند آیا کہ اس نے قرآن میں اس کا ذکر کیا اور اسی کا نتیجہ ہوا کہ ملکہ سبا کا اختتام وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔ پر ہوا.
عورت کو ان چار پانچ آیات میں قرآن مجید جنگ کا مخالف و عاقل و بابصیرت و حقیقت پسند بنا کر پیش کر رہا ہے. اور ہمیں یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اگر وہ ملکہ سبا نامی عورت اپنے مرد شرفاء و وزراء کی بات مانتی تو کفر کی موت مرتی.
پھر قرآن پڑھو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم عرب کے معاشرے میں کیا تھی سورہ نحل کی آیت نمبر ۵۷ پڑھو وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَكَظِيْمٌ
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے.
اس دور میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر باپ کا رنگ سیاہ ہو جاتا تھا کہ ذلت کا ساماں آگیا گھر میں، لیکن اسی معاشرے میں کہ جو تمہیں سیاہی سمجھتا تھا محمد (ص) آتے ہیں اور قرآن لاتے ہیں اور تمہارے لیئے ایک سورہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا نام ہی "نور" رکھا جاتا ہے. دیکھو تو تمہاری قدر و قیمت جو معاشرہ تمہیں ذلت و سیاہی کا باعث سمجھتا تھا وہاں محمد (ص) تمہیں نور کہہ رہے ہیں. اور فرما رہے ہیں کہ خوشقسمت ہے وہ گھرانا جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو! پھر فرمایا گھر میں کوئی چیز لاؤ تو پہلے بیٹی کو دو. اپنی قدر دیکھو اللہ (ج) کے رسول (ص) کی نظروں میں! میں نے کہا کہ مغرب نے تمہیں ذاتی ملکیت رکھنے کا حق نہیں دے رکھا تھا لیکن قرآن چودہ سو سال قبل ان جاہل بدوؤں سے کہہ رہا ہے تم اپنی بیٹیوں کو ملکیت سے حصہ دو! دیکھو فرح مُلا کو شاید علم نہ ہو مگر اسلام میں تمہارے فرائض میں سے یہ نہیں کہ تم گھر میں جھاڑو پوچا لگاؤ! ہر گز نہیں! حتی یہ بھی ہے کہ تم اگر چاہو تو اپنے ہی بچے کو دودہ پلانے کی اجرت بھی مرد سے لے سکتی ہو کیونکہ اسے میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے. اس کے علاوہ شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ تم اگر نوکری کرنا چاہو تو نہ صرف تمہیں نوکری کرنے کا حق حاصل ہے بلکہ جو کماؤ اس کمائی پر صرف و صرف تمہارا حق ہے، مرد تم سے پیسے کا مطالبہ نہیں کر سکتا. گھر کے معاملات میں قرآن مرد کو تم سے مشاورت کرنے کی تاکید کرتا ہے، تم سے رویہ کیسا ہو تو قرآن کہتا ہے و عاشروھنَّ بالمعروف ان سے اچھا برتاؤ کرو. اور جب جزا و سزا کی بات آتی ہے تو قرآن کہتا ہے تم میں سے مرد ہو یا عورت جو نیک کام کرے گا اللہ (ج) کے ہاں اس کا اجر ہے. اور نہ فقط یہ کہ مرد تم پر ولایت رکھتا ہے بلکہ بعض چیزوں میں قرآن نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے پہ ولایت رکھتی ہیں. (توبہ ۷۱)
اور فرح ایک بات یاد رکھو کہ اسلام میں جسم کی اہمیت نہیں روح کی ہے، تم جسم کے لحاظ سے بیشک نازک و نفیس ہو، مرد سے بایولوجیکلی کمزور ہو مگر روح میں تم میں اور مرد میں ذرا فرق نہیں. تمہارا روح بھی مرد کی طرح الروح من امر ربی کا مصداق ہے.
فرح! حقائق بہت زیادہ ہیں لکھنے پہ آؤ تو ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے، بس مدعا یہ ہے کہ تم عورتیں اپنے خیر خواہ و بدخواہ میں تفریق کی صلاحیت نہیں رکھتی اور تمہارا بھی قصور نہیں کیونکہ اس کمبخت مُلا نے عورت کے وہ حقوق بیان ہی نہیں کیئے جو محمد (ص) تمہارے لیئے بذریعہ وحی لے کر آئے لہٰذا تم مُلا کو دین سمجھ کر اپنے محسن محمد (ص) اور اس کے قرآن کو چھوڑ کر مغربی آقاؤں کو گلے لگا رہی ہو لیکن یاد رکھو یہ تہذیب نہیں تذلیل ہے.
خیر! میرا کام تھا تمہارے سامنے حقائق رکھنا ویسے تم اگر چاہو تو کسی بھی حُسن شناس سے یہ پوچھ سکتی ہو کہ تمہارا حقیقی حسن حجاب میں ہے یا بے حجابی میں! تمہیں جواب مل جائے گا.
اللہ (ج) کی رحمت کا سایہ ہو تم پر!
وعلیکم سلام
تمہارا بھائی محمد زکی حیدری
۲۵ اپریل ۲۰۱۸
قم المقدسہ. ایران
+ نوشته شده در پنجشنبه نوزدهم فروردین ۱۴۰۰ ساعت 16:40 توسط محمد زکی حیدری
|