رومـــی بــمقابلہ چیــــنی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رومـــی بــمقابلہ چیــــنی
مثنوی میں مولانا رومی نے نظم کی صورت ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے سامنے چینی اور رومی پیش ہوئے، جب بات نقاشی (پینٹنگ) کی نکلی تو چینیوں نے دعوا کیا کہ ان جیسا نقاش دنیا میں موجود نہیں. رومی بیشک نقاشی سے نا آشنا تھے مگر دعوا کیا کہ وہ دنیا میں سب سے اچھے نقاش ہیں، بادشاہ نے کہا تم دونوں کو جو چیز چاہیئے تمہیں فراہم کی جائے گی تم لوگ نقاشی کرو فیصلہ ہم کریں گے. چینی پینٹرز نے کہا ہمیں رنگ چاہیئے اور فلاں فلاں نقاشی کا سامان. رومیوں نے کہا ہمیں رنگ نہیں چاہیئیں بس ہماری تین شرائط ہیں. بادشاہ نے کہا کیا شرائط؟ رومیوں نے کہا ایک یہ کہ جس جگہ چینی نقاشی کریں گے ہماری نقاشی کی جگہ عین ان کے سامنے ہو. دوسرا یہ کہ چینی نہ ہمارا کام دیکھیں گے نہ ہم ان کا. تیسری شرط یہ کہ ہم دونوں کے کام کرنے کی جگہ کے درمیان پردہ حائل ہو.
بادشاہ نے شرائط قبول کیں چینی ایک دیوار پہ نقاشی کرنا شروع ہوئے. ادھر رومی جو نقاشی سے بلکل نا آشنا تھے نے صیقل (قلعی کرنے کی دھات جو چیزوں کو چمکانے کے کام آتی ہے) اٹھایا اور دیوار کو شیشے کی طرح چمکا دیا. مقرر وقت ختم ہونے پر بادشاہ نے چینیوں کی نقاشی دیکھی تو حیران رہ گیا کیا ہی کمال کے نقش و نگار بنائے گئے تھے. پھر سوچا کہ چلیئے اب رومیوں کا کام دیکھتے ہیں. رومیوں نے کہا بادشاہ سلامت آپ پردے کے سامنے کھڑے ہوں، سب کھڑے ہوئے اور رومیوں نے جھٹ سے جو پردہ کھینچا تو جو جو چینیوں کی نقاشی تھی وہ سارے نقش و نگار سامنے کی دیوار پہ چمکنے لگے. کیونکہ رومیوں نے دیوار کو صیقل سے قلعی کر کے شیشہ بنا دیا.
یہاں مولانا رومی فرماتے ہیں صاف و پاک دل انسان بھی اس قلعی شدہ صاف شیشے نما دیوار کی طرح ہے، اس نے اپنے نفس کو صیقل کر کے شیشہ بنا دیا ہوتا ہے اور اللہ (ج) کی ساری صفات اس کے وجود سے ٹکرا کر ہم تک پہنچتی ہیں اور اسی لیئے انہیں مظہر صفات خداوندی کہا جاتا ہے.
*خلیفہ* کا مقصد یہ ہی ہے، سارے انبیاء اور آئمہ (ع) اصل میں وہ صاف شفاف صیقل شدہ شیشہ نما دیواریں ہیں کہ جن سے اللہ (ج) کی تمام تر صفات ٹکرا کر ہمیں نظر آتی ہیں. ہم کھردری دیواریں ہیں، ہمارے نفس نے گناہ کیئے ہیں اس لیئے ہمارے نفس کی دیوار اتنی شفاف نہیں کہ صفات خداوند متعال اس سے ٹکرا کر عوام تک پہنچیں. مگر محمد (ص) کو دیکھیئے ذات اقدس الہٰی کے سامنے صیقل شدہ دیوار ہیں کہ جس سے صفات خدا ٹکرا کر ہم تک پہنچتی ہیں.
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً
اللہ (ج) نے ملائکہ سے کہا میں زمین پہ خلیفہ بنانے جا رہا ہوں. یعنی آدم (ع) نامی پاک شیشہ بنانے جا رہا ہوں جو میری صفات کا آئینہ ہوگا.
قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ
فرشتوں نے کہا یہ تو زمین میں فساد و خونریزی کرے گا. فرشتے سمجھ رہے تھے کہ اللہ (ج) کوئی پرانی دیوار، کھردری دیوار بنانے جا رہا ہے. لہٰذا اللہ (ج) نے فرمایا
إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے. تمہیں کیا پتہ کہ میں ایسے ایسے شیشے بنانے جا رہا ہوں کہ جن کے کردار سے دنیا کے لوگوں کو میرے صفات کی کرن نظر آئے گی. تمہیں کیا پتہ کہ میں محمد (ص) و علی (ع) و فاطمہ (س) و حسنین (ع) بنانے جا رہا ہوں کہ جنہیں دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ جب مظہر صفات خدا ایسا ہے تو خود خدا کیسا ہوگا.
با تشکر از حجت الاسلام محمد رضا رنجبر
+ نوشته شده در پنجشنبه نوزدهم فروردین ۱۴۰۰ ساعت 1:58 توسط محمد زکی حیدری
|