فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فـــاتـــح مناظرۂ زاریہ
ازقلم: محمد زکی حیدری
جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے، بہت سے فاتحین مناظرہ کے نام سنے اور ان کی مناظرے کی کتب پڑھیں. فلاں شیعہ عالم نے فلاں شہر میں مناظرہ جیتا و فاتح قرار پایا، پھر دوسرے پھر تیسرے شہر کے فاتح کا ذکر، پھر ان مناظروں کو کتابی صورت میں منظر عام پر لایا جاتا، جس پر موٹے حروف میں فاتح کا نام و القابات و... لیکن آج تک میں نے یہ نہیں سنا کہ فلاں شہر میں اس فاتح کی فتح کے بعد اس شہر کے کوئی ھزار دو سنی یا دیوبندی افراد شیعہ ہوگئے یا پھر کسی سنی فاتح مناظرہ کی توسط سے شیعہ تبدیل ہو کر سنی ہوئے ہوں. محرم کی مجالس میں ہم نے مناظرے نما مجالس سنی، بڑے بڑے وکلائے زھرا (س) منبر پر آئے لیکن ہمارے کان یہ خبر سننے کو ترستے رہے کہ پاکستان کے فلاں شہر میں مناظرے کے نتیجے میں ایک دو ھزار سنی شیعہ ہوگئے... البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان نام نہاد وکلائے زھرا (س)، جن کی فصل حقیقی علمائے مناظرہ سے جدا ہے، کے طرز خطابت سے سنی-شیعہ مخلوط مجالس ناپید ہونے لگیں، کل ہمارے ساتھ بیٹھ کر حسین (ع) کو رونے والے آج ہمارے عزاخانوں میں آنے سے کتراتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا مناظرہ نہ ہو، علمائے مناظرہ نے اپنے مکتب کا دفاع بخوبی کیا ہے، یہ بزرگ بڑی زحمتیں اٹھاتے ہیں اور ان کی نیک نیتی پہ رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں مگر ان مناظروں کے ثمرات محدود نہیں ہونے چاہیئیں تھے، جتنی توانائی صرف ہوتی ہے اس لحاظ سے اس کے نتائج عوامی سطح پر بھی ظاہر ہونے چاہیئیں تھے، بیشک مناظرہ ہو مگر عوامی سطح پر نتیجہ خیز ہو، تبدیلی نظر آئے اور مناظرہ تعمیر کرنے والا ہو، تفریق کرنے والا نہیں. اب یہ کیسے ہوتا ہے اس کا جواب عرض کر رہا ہوں.
ایک مناظری ہے جو انقلاب اسلامی و خمینی (رح) سے متاثر ہو کر شیعہ ہوتا ہے اور ۱۹۹۰ع میں اپنے ملک نائجیریہ میں اپنی تحریک اسلامی کا باقائدہ آغاز کرتا ہے ، نہ اس نے مناظرے کیئے، نہ اس کے مناظرے کی کوئی ضخیم کتاب اس کے نام و القابات کے ساتھ منظر عام پر آئی اور نہ ہی اسے وکیل زھرا (س) و فاتح فلاں شہر کے القابات سے نوازا گیا. اس نے اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر نائیجریہ کے شہر زاریہ میں عزاخانہ بنایا اور عوام کو دعوت دے کر دروس دینے کا سلسلہ شروع کیا. کچھ نہ کیا! کچھ بھی نہیں! صرف عوام کے سامنے حقائق رکھے، لیکن اخلاق کے ساتھ! اخلاق و پیار و محبت و احترامِ انسانیت و مسلک و مقدساتِ مسلک کے پھولوں کی مہک سے نائجیریہ کے مالکیوں اور وہابیوں کو اس شخص نے ایسا منقلب کیا کہ وہ سب اس کے غلام بنتے چلے گئے، وہ مکتب تشیع کے حقائق کو اپنے بہترین اخلاق و احترام کے غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سامنے رکھتا گیا اور عوام سوچ و فکر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتی ہوئی جوق در جوق حق کی منزل کو پاتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیس بتیس سال کے قلیل عرصے میں نائجیریہ کہ جہاں بمشکل ایک سؤ شیعہ پائے جاتے تھے، وہاں ڈیڑھ کروڑ مالکی و وہابی شیعہ ہو گئے.
جی یہ کوئی اور نہیں بلکہ بوڑھے حبشی مولانا، اولاد حضرت بلال (رض) شیخ ابراھیم زکزاکی (حفظہ اللہ) ہی ہیں. آج اربعین پہ سب سے بڑا مجمع عراق کے بعد نائیجیریہ میں ہوتا ہے. اس کے علاوہ آج حزب اللہ نائیجریہ کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے. شیخ زکزاکی کے اخلاق کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ اپنے شہید بیٹے کا جنازہ پڑھا رہے تھے تو ان ہی کی اقتداء میں کھڑے وہابی علماء اشک بہا رہے تھے. یہ علمائے اھلسنت شیعہ تو نہیں ہوئے مگر شیخ کے عشق میں گرفتار ہوئے بغیر نہ رہ سکے.
میں سوچتا ہوں ہم ایسی فتح حاصل کیوں نہیں کر پائے؟ کیوں ہم نے مناظری تو پیدا کیئے مگر معشوقِ عوام نہیں؟
پھر سوچتا ہوں شاید اس لیئے کہ *ہم نے ہمیشہ مناظرے جیتنے کی کوشش کی دل جیتنے کی نہیں!!!* ہم نے مخالفین کے عقیدے رد تو کر لیئے مگر ان کو اپنے عقیدے پہ نہ لاسکے. کیا شیخ زکزاکی (حفظہ اللہ) کوئی آسمان سے اترے تھے کہ انہوں نے جو کردکھایا وہ ہم نہیں کر سکتے؟ مگر افسوس کہ ہم نہ کر پائے! بس تو جب ہم یہ نہ کر پائے تو ہمیں حق نہیں کہ اپنے آپ کو فاتح کہلوائیں. حقیقی فاتح کہلانے کا حق ایک ہی شخص کو ہے جس نے قلوب فتح کیئے اور وہ فاتح زاریہ ہے!
+ نوشته شده در پنجشنبه نوزدهم فروردین ۱۴۰۰ ساعت 16:36 توسط محمد زکی حیدری
|
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.