بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



میری شادی اور مولانا جنتروی

(افسانہ)

از قلم: محمد زکی حیدری



مجھے میری خالہ کی بیٹی بتول پسند تھی، وہ گاؤں میں رہتی تھی، لڑکی مذھبی تھی صوم و صلاۃ کی پابند اور گاؤں کے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتی تھی. جب میں نے امی سے اس دلچسپی کا اظہار کیا تو امی اور ابو نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ وہ گاؤں کی لڑکی ہے اور ہم شہر کے، وہ شہر کے ماحول میں "ایڈجسٹ" نہیں کر پائے گی. بھرحال امی ماں تھی، ماں اولاد کی خوشی کیلئے سب کچھ کر گذرتی ہے لہٰذا وہ مان گئیں لیکن ابا کو منانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا. امی اور ایک مہربان چاچو کی مدد سے بڑی محنت کے بعد ابا اس شرط پر راضی ہوئے کہ ماہر علم ابجد و علم جفر مولانا فصیح رضا جنتروی صاحب قبلہ سے ابجد کا حساب کروائیں گے، اگر حساب ٹھیک بیٹھا تو رشتہ ہوگا ورنہ نہیں. میں نے سوچا میری نیت صاف ہے ابجد کے اعداد میرے حق میں ہی آئیں گے. بالقصہ ابجد کا حساب ہوا، مولانا جنتروی صاحب نے لڑکی کا نام پوچھا تو لڑکی کے دو نام تھے شناختی کارڈ میں فرزانہ اور گھر میں بتول! ابا نے سوچا کہ اصلی نام تو کارڈ والا ہی ہے سو وہ ہی نام مولانا کو بتادیا. ابجد کا حساب لگایا گیا تو مولانا جنتروی صاحب نے کہا کہ "اوہ ہو ہو! یہ حساب تو بلکل صحیح نہیں بیٹھ رہا، صرف رنج و الم و مصائب ہوں گے بیٹے کی زندگی میں" ابا جو پہلے ہی اس رشتے سے راضی نہیں تھے انہیں تو جیسے منہ مانگی مراد مل گئی، کہنے لگے بیٹا جنتروی صاحب علم جفر و ابجد پہ مسلط ہیں، ان کا حساب کتاب کبھی نہیں چونکا لہٰذا یہ شادی نہیں ہو سکتی.

میں ایک بار پھر چاچو کے پاس گیا. چاچو ان چیزوں پہ کم اعتقاد رکھتے تھے اور ان کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ وہ اگلے شخص کی کمزوری پکڑ کر اسے قائل کرنے کے سارے گر جانتے تھے، لہٰذا انہوں نے ابو سے کہا "بھائی فرزانہ تو ایسے ہی اسکولی نام ہے، اسکولی ناموں میں بھلا کیسی برکت! جب کہ اصل نام تو بتول ہے. اور بتول بڑا مبارک نام ہے، بھائی آپ نے فرزانہ نام کو منتخب کرکے بتول جیسے بابرکت نام کو رد کیا ہے، اب آپ ہی بتائیے ابجد کے حساب میں خاک برکت ہوگی. آپ جنتروی صاحب سے کہیں کہ بتول کے نام سے ابجد کا حساب لگا کر بتائیں کہ جوڑا کیسا رہے گا." چاچا کی بات میں وزن تھا لہٰذا ابا نے سوچا واقعی بتول جیسے اسم مبارک کو رد کرکے انہوں کچھ اچھا نہیں کیا. اگلے دن وہ دوبارہ جنتروی صاحب کے پاس پہنچے اور بتول کے اسم سے ابجد کا حساب لگانے کی مانگ کی. اس بار اللہ (ج) کے فضل سے ابجد کا حساب ٹھیک آیا. لہٰذا ایک ہی لڑکی جو ایک نام سے میرے لیئے تباہی کا باعث بن رہی تھی دوسرے نام سے رحمت کا فرشتہ بن گئی.

مجھے خوشی تھی کہ پہلا مرحلہ بخوبی گذر گیا. میرے گھر والے جب رشتہ لینے گئے تو لڑکی والے بیچارے شریف تھے، انہوں نے ہاں کردی اور کہا کہ ہماری بیٹی آپ کی بیٹی ہے جب چاہیں نکاح کریں. ابو نے کہا کہ بھئی مولانا جنتروی صاحب سے مل کر جنتری دیکھیں گے کہ کون سی تاریخ مبارک ہے اس دن نکاح رکھ دیں گے. چاچو یہ بات سن کر مسکرا کر مجھے دیکھنے لگے، ہم دونوں دل ہی دل میں جنتروی صاحب کو کوس رہے تھے. خیر اب ابا حضور جب جنتروی صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے ستاروں کا حساب کتاب لگا کر کہا کہ اس وقت زھرہ عقرب میں گھسا ہوا ہے لہٰذا ایک ماہ تک شادی کرنا لڑکے کیلئے خطرہ کا باعث ہے. ابا نے گھر آکر کہا کہ ایک ماہ تک نکاح کی بات بھی نہیں ہوگی گھر میں! لہٰذا شادی کا سارا جوش و خروش ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا.

ایک ماہ بعد جب ابا نے مولانا جنتروی صاحب کے در پہ دستک دی تو معلوم ہوا کہ موصوف عمرہ، کربلا و شام کی زیارات پر گئے ہوئے ہیں، جب لوٹیں گے تو ہی کچھ ہوگا. ہم نے ابا سے کہا کہ لازمی نہیں جنتروی صاحب ہی جنتری دیکھ کر تاریخ دیں یہ کام تو کوئی بھی مولانا صاحب کر سکتے ہیں، مگر ابا کی جنتروی صاحب سے عقیدت تھی لہٰذا وہ ٹس سے مس نہ ہوئے. ہم سب چپ چاپ منتروی صاحب کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے.
ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب جنتروی صاحب آئے تو ان کی طبیعت ایسی ناساز ہوئی کہ وہ چارپائی تک ہی محصور ہو کر رہ گئے. اور اتنے میں محرم و صفر کا مہینہ آن پہنچا لہٰذا سوا دو ماہ پھر صبر کے میٹھے پھل کے انتظار میں گذارنے پڑے.

ربیع الاول کی دس تاریخ کو ابا نے جنتروی صاحب کے پاس جاکر نکاح کے دن کے بارے میں پوچھا تو موصوف نے جنتری دیکھ کر تین چار دن نحس بتا کر ایک دن مبارک بتایا لیکن یہ بھی تاکید کی کہ اگر اس دن نکاح نہ کیا تو اگلے کچھ دن پھر شادی بیاہ کیلئے نحس ہیں. بھرحال چار ماہ بعد آخر میرے نکاح کی مبارک تاریخ مل ہی گئی. لیکن اب امی نے مسئلہ کھڑا کر دیا کہا کہ بھئی نکاح نہیں پہلے منگنی ہوگی. چاچو اور میں چاہتے تھے کہ منگنی کے ساتھ ساتھ ہی نکاح ہو جائے. جب بحث نے طول پکڑا تو ابا فرمانے لگے "بھئی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جنتروی صاحب سے استخارہ دکھواتے ہیں کہ نکاح کریں یا منگنی" پھر جنتروی صاحب!!! بالقصہ ابا ایک بار پھر جنتروی صاحب کے یہاں گئے کہ قبلہ استخارہ دیکھ دیجیئے. جنتروی صاحب نے بتایا کہ منگنی کیلئے استخارہ بہت برا آیا ہے البتہ نکاح کیلئے بہتر آیا ہے. لہٰذا یہ طے پایا کہ ۹ رجب المرجب کو نکاح ہوگا. گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، نکاح کے جوڑے، زیورات اور دیگر لوازمات کا انتظام ہونے لگا اور یہ قرار پایا کہ ۹ رجب المرجب کو ہم لڑکی والوں کے گاؤں جا کر نکاح کی رسم انجام دیں گے. میں نے پچھلے چار پانچ ماہ میں پہلی بار سکھ کا سانس لیا تھا کہ شکر ہے دیر آید درست آید نکاح تو ہونے جا رہا ہے.

گھر میں نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں، بھانجی بھتیجیوں نے ہاتھوں پر مہندی کے نت نئے ڈزائن بنوا لیئے تھے، میں نے مہنگے کڑتے کو دبئی سے منگوائے ہوئے اعلی معیار و گراں قیمت پرفیوم سے معطر کر رکھا تھا کہ 6 رجب کو علی الصبح گاؤں سے فون آیا کہ لڑکی کی دادی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں. لہٰذا ۹ رجب کو نکاح کی مٹھائی کھانے کی بجائے ہم مرحومہ کے سوئم کی بریانی کھا رہے تھے اور سوچ رہے تھے ابا پھر کب جنتروی صاحب کے ہاں جائیں گے.