قرآن، آئینہ اور دیوار
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قرآن، آئینہ اور دیوار
گلاب کا غنچہ جب زمین سے پھوٹ کر نکلتا ہے تو اس وقت اس میں نہ خوشبو ہوتی ہے نہ وہ رنگت. اسے کِھل کر گلاب بننے اور خوشبو پیدا کرنے کیلئے ھوا و روشنی درکار ہوتی ہے.
آیات قرآن بھی غنچے کی مانند ہیں بظاہر تو بس عربی کے الفاظ ہیں لیکن جب انہیں "فہم" کی روشنی لگتی ہے تو یہ کھِل اٹھتے ہیں اور پھر جب ان پر "عمل" کی ھوا چلتی ہے تو یہ انسان کی زندگی میں گلاب کی مانند بن جاتی ہیں اور زندگی کو خوشبو سے بھر دیتی ہیں.
ســــــــــــــورہ
بڑے عجیب راز ہیں قرآن کے! غور فرمائیں تو اس کے ہر باب کو "سورہ" کہا گیا ہے. "سور" عربی میں اس مضبوط دیوار کو کہا جاتا ہے جو قدیم زمانے میں ایک شہر کے گرد بنائی جاتی تھی. یہ دیوار اس شہر کو دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھتی تھی.
قرآن کے ہر باب کو شاید اسی وجہ سورہ کہا گیا ہے کہ یہ انسان کی زندگی کو شیطان کے حملے سے پناہ میں رکھتی ہیں.
آیــــــــات
ہم ہر روز آئینہ دیکھتے ہیں!
کیا ہم آئینے کا رنگ یا اس کے چوگرد لگے لکڑی یا پلاسٹک کے بارڈر کو دیکھتے ہیں؟ یا پھر آئینہ اس لیئے دیکھتے ہیں کہ وہ صاف ہے یا نہیں؟
*نہیں! ہم آئینے کو نہیں بلکہ آئینے میں اپنا حلیہ دیکھتے ہیں*. آئینہ ہمیں ہمارا چہرہ دکھاتا ہے.
یہ ساری مخلوقِ خدا بھی آئینۂ خدا ہے، ہر چیز اپنے خالق عظیم ہونے دلیل ہے. *گلاب در اصل آئینے کی طرح اللہ (ج) کی خلقت کی دلیل پیش کر رہا ہوتا ہے* مگر ہم اسے نہیں دیکھتے، جن کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں انہیں اس گلاب میں اللہ (ج) کی خلقت کارفرما نظر آتی ہے نہ کہ صرف ایک پھول! اسی طرح یہ زمین و آسمان، دن و رات، چرند و پرند، کھیت و کھلیان، چشمے و سمندر و صحراء... سب آیات الہٰی ہیں، آئینۂ خلقتِ خدا ہیں. اسی لیئے قرآن نے فرمایا إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ *لَآيَاتٍ* لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں *صاحبان عقل* کے لیے نشانیاں ہیں.
(آل عمران آیت ۹۰)
صاحبان عقل کیلئے! جن کے عقل کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں وہ آسمانوں و زمین کو عام نگاہ سے نہیں دیکھتے ایک آئینۂ الہٰی کے طور پر دیکھتے ہیں.
باتشکر: حجت الاسلام محمد رضا رنجبر
ملتمس دعا: محمد زکی حیدری
+ نوشته شده در پنجشنبه نوزدهم فروردین ۱۴۰۰ ساعت 16:27 توسط محمد زکی حیدری
|