بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سنگ دل



از قلم: محمد زکی حیدری


یونیورسٹی کے جوان لڑکے لڑکیاں محبوب کی بے وفائی پہ روتے ہیں، سوچتے ہیں کہ اتنا عرصہ ساتھ گذارا پھر کسی اور سے شادی کرلی، ایک انسان کیسے اتنا *سنگ دل* ہو سکتا ہے!
ماں باپ روتے ہیں کہ اولاد پوچھتی نہیں، جن کے لیئے کل خون پسینہ ایک کیا وہ آج ایسے *سنگ دل* بن گئے کہ حال تک نہیں پوچھتے!
بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کی شکایت کرتا ہے کہ میرا خون میرا بھائی، کل جسے پڑھا لکھا کر بڑا کیا وہ آج بیوی کی باتوں میں آکر میرے ساتھ ایسا کر رہا ہے. کتنا *سنگ دل* ہے!
بہن کہتی ہے بھائیوں نے ابا کی وراثت آپس میں بانٹ لی بہن کو محروم کردیا کتنے *سنگدل* ہیں بھائی!
مزدور کو شکایت ہے کہ اس کا مالک اس کی تنخواہ صحیح سے نہیں دیتا، اور گھر میں بیماری ہو تو چھٹی نہیں دیتا. ایسا *سنگ دل* مالک!
مریض کو ڈاکٹر سے شکایت کہ یہ ڈاکٹر جن کا پیشہ مسیحانہ ہے لیکن فیس لیتے وقت ایسے *سنگدل* کہ مجال کسی غریب غربے کا لحاظ کریں!
پڑوسی سے ایک پھوٹی کوڑی قرضے کی امید نہیں *سنگدل* پڑوسی!
دکاندار ادھار نہیں دیتا *سنگدل* ! مطلبی دوست *سنگدل*؛ مالک مکان *سنگدل*؛ زمیندار *سنگدل* وکیل *سنگدل*؛ سیاستدان *سنگدل*...

لیکن میں کہتا ہوں یہ ساری سنگ دلیاں کچھ بھی نہیں ہیں بھیا!
جی! یہ پاک و ھند ہے! سنگدلی کا پوچھنا ہے تو سندھ کی حاملہ گلوکارہ ثمینہ سندھو کے لواحقین سے پوچھیئے کہ جس بیچاری کو کچھ دن قبل کھڑے ہو کر ٹھمکے نہ لگانے کی وجہ سے اسٹیج پر گولی مار دی گئی!
سنگدلی کا پوچھنا ہے تو پاکستانی ۹ سالہ زینب کے والدین سے پوچھیئے کہ جن کی پھول سی زینب سے جنسی زیادتی کر کے مار دیا گیا.
سنگدل انسان پہچاننا ہے تو ھندوستان جائیے، اس ۸ سالہ آصفہ کے والدین سے پوچھیئے کہ جس کے ساتھ کئی درندوں نے مل زیادتی کی اور مردہ حالت میں پھینک کر چلے گئے..

چھوڑیئے صاحب! یقین مانیئے جن سے میں اور آپ سنگدلی کی شکایت کرتے ہیں وہ ثمینہ، زینب اور آصفہ کے قاتلوں سے بڑے سنگدل نہیں. ہمارے ساتھ تو ذرا بھی سنگدلی نہیں ہوئی بھیا. سنگدل... پتھر دل... ابھی ہمیں ملے ہی نہیں، شکر کریں!