ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ارے میاں عمل کیئے جا رہے ہو کبھی سوچا ہے قبول بھی ہو رہے ہیں کہ بس کیئے جا رہے ہو؟؟؟
تحقیق و تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری
بھائی اللہ (ج) کے نام پہ قربان جاؤں، اس نے حکم دے دیئے یہ کرو وہ کرو، ہم گنہگاروں نے اپنی استطاعت کے مطابق اللہ (ج) کے احکام کی پیروی کی. اب ہمیں یہ کون بتائے کہ بھئی ہمارے یہ ٹوٹے پھوٹے اعمال قبول بھی ہو رہے ہیں کہ نہیں! کیونکہ
مولا علی (ع) نے فرمایا :
كُونُوا عَلي قَبُول الْعَمَلِ اَشَدَّ عِناية مِنكُم عَلَي الْعَمَل
*عمل کی قبولیت پر عمل سے بھی زیادہ دھیان دو*
(بحارالانوار، ج 71، ص 173 )
یعنی عمل کرنے کے چکر میں ہی مت پڑے رہو پہلے یہ تسلی کرلو کہ جس طریقے سے تم عمل کرنے چلے ہو اس طرح سے قبول بھی ہوگا کہ نہیں، اس بندے کی طرح نہ ہو کہ جس نے سنا کہ اللہ (ج) نے وعدہ کیا ہے کہ گناہ پر ایک سزا ملے گی، جب کہ نیکی پر دس برابر ثواب ملے گا سو اس مرد کے بچے نے بڑی چالاکی دکھائی، ایک دکان سے روٹی چوری کی دوسرے دکان سے انار چوری کیا اور لاکر فقیر کو دیا. فقیر بولا: یہ کیا چکر ہے؟
اس نے کہا دیکھ بھائی! اللہ (ج) نے کہا ہے ایک گناہ ایک سزا اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ثواب. اب میں نے دو چیزیں چوری کیں سو میرے گناہ ہوئے دو. جب کہ تجھے یہ دونوں چیزیں دے کر میں نے بیس نیکیاں کمائی ہیں.
ثابت ہوا اس کام سے مجھے ثواب زیادہ ہوا گناہ کم!
کیا ایسا ہی ہے؟؟؟
نہیں!
یہاں قرآن مجید پر غور کریں ھابیل و قابیل دونوں کو حکم ہوا کہ قربانی کرو مگر اللہ (ج) نے صرف ھابیل کی قربانی قبول کی قابیل کی نہیں.
کیوں؟
سورہ مائدہ کی آیت میں اللہ (ج) نے جواب دیا
إِنَّما يتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين
اللہ (ج) صرف متقیوں کے عمل قبول کرتا ہے.
یعنی اولین شرط یہ ہے کہ جو کرو اس میں *تقوی کا عنصر موجود ہو*
تقوی کیا ہے ... سمپل سی، سادہ سی تعریف : *خود کو گناہ سے بچانا*
یعنی عمل اس کا قبول جو خود کو گناہ سے بچائے...
ایک طرف سے چوری کرو دوسری طرف سے خیرات کرو تو بھیا اس میں تقوی کی شرط پوری نہیں ہورہی سو اجر زیرو! ❌
یہ ہی وجہ ہے کہ *امام جعفر صادق (ع) سے سوال ہوا مولا کیسے پتہ چلے کہ ہماری نمازیں قبول ہیں کہ نہیں؟*
امام (ع) نے زبردست معیار بتا دیا فرمایا:
(مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَعْلَمَ أَقُبِلَتْ صَلَاتُهُ أَمْ لَمْ تُقْبَلْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ مَنَعَتْهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ فَبِقَدْرِ مَا مَنَعَتْهُ قُبِلَتْ مِنْه)
جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا اس کی نمازیں قبول ہو رہی ہیں یا نہیں وہ یہ دیکھے کہ آیا اسے نماز گناہ سے دور کر رہی ہے یا نہیں. پس جتنی مقدار میں نماز نے اسے گناہ سے بچایا ہے اتنی ہی نماز قبول ہے (باقی نہیں)
(بحارالأنوارج 79 ص 198باب 1- فضل الصلاة و عقاب تاركها ...)
یہ بات ہے بھیا تقوی (گناہ سے دوری لازمی ہے) صرف عمل نہیں کرتے جانا.
قرآن پر غور کریں:
إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهي عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ. (عنكبوت، آيه 45)
*بیشک نماز فحاشی اور برائیوں سے بچاتی ہے.*
اگر یہ کہیں کہ نماز ہے ہی وہ جو برائیوں سے بچائے تو بے جا نہ ھوگا.
سو بھیا قرآن و اھلبیت (ع) نے پیمائش کا آلہ (Checking instrument) دے دیا جیسے درجہ حرارت تھرمامیٹر سے چیک کرتے ہو، بلڈ پریشر چیک کرتے ہو اسی طرح اعمال کی قبولیت کا پیمائش کا آلہ *تقوی عرف گناہوں سے دوری* ہے.
اب *نماز* کو اس آلے سے چیک کریں
*عزاداری* کو اس آلے سے
*روزے* کو اس آلے سے
*مجلس*، *خیرات*، *نیاز*... ھر چیز....
عمل کرتے جائیں چیک کرتے جائیں اگر گناہ سے دور ہو رہے ہو تو قبول، نہیں تو 🚨 خطرہ ہے!
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
989199714873+
arezuyeaab.blogfa.com
🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺🔺
(اس پیغام کے متن میں تبدیلی متقی انسان کی نشانی نہیں)
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.