سیاسی جذباتی بچے!

 

بچے تو بچے ہوتے ہیں جب تک انہیں زبردستی کلائی سے پکڑ کر، گود میں بٹھا کر، گال پر پپی دے کر نہ سمجھایا جائے تب تک نہیں سمجھتے.

یہ ہی حال ان بچوں کا تھا جب علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے بھوک ھڑتال شروع کی تھی یہ بچے اس بھوک ھڑتال کو ذلالت کہہ رہے تھے. بیشک تنقید ہم نے بھی کی کہ راجہ صاحب نے اچانک سے اعلان کیا بھوک ھڑتال کا، بغیر کسی کیمپین کے. لیکن ذلالت نہ کہا. آج جب ایک خبر آئی کہ نثار چودھری اپنی باتوں سے مُکر گیا جن کی اس نے راجہ صاحب کو یقین دھانی کروائی تھی. تو سب سے زیادہ خوشی ان سیاسی جذباتی بچوں کو ہوئی ہے. انہوں نے تحریریں لکھنا شروع کردی ہیں کہ راجہ صاحب نے قوم کو ذلیل کر دیا، دیکھا نثار چودھری مُکر گیا ہم نے کہا تھا بھوک ھڑتال مت کرو ...!!! کچھ فائدہ نہیں ملنے والا...!!!

دیکھا آپ نے کتنی بچگانہ اور cute سی باتیں ہیں ان کی

گویا ان کے بقول اُس دشمن کے خلاف دھرنا و بھوک ھڑتال ہو جو متقی، پرھیزگار اور وعدے کا پابند ہو. جب پکا یقین ہوجائے کہ حکمران ہماری شرطیں قبول کرے گا تب ہی اس کے سامنے شرائط رکھیں ورنہ چپ رہیں.
یہ بسیجی بچے اگر امام حسن (ع) کے دور میں ہوتے تو امام حسن (ع) سے کہتے "دیکھا مُکر گیا معاویہ، کردیا نہ قوم کو ذلیل جب پتہ تھا معاویہ ظالم ہے وعدہ کر کے مکر جائے گا تو کیا فائدہ صلح کی شرائط لکھنے کا " اور تاریخ گواہ ہے امام (ع) کو یہ الفاظ کہے بھی گئے امام حسن (ع) کو "یا مذل المومنین" (مومنوں کو ذلیل کروانے والا) کہا گیا.
وہ بھی جذباتی بچے تھے آج بھی ....
یہ امام حسین (ع) سے بھی کہتے کہ مت جائیں اپنی بہن بیٹیاں اسیر کروائیں گے جب پتہ ہے یزید ظالم ہے تو کیوں جا رہے ہیں اس کے سامنے. جب سید سجاد (ع) مدینہ لوٹتے تو یہ جذباتی انقلابی انہیں بھی یہ کہتے "دیکھا ہم نے کہا تھا نہ یزید ظالم ہے کسی چیز کا لحاظ نہیں کرتا اب کروا دیا نا قوم کو ذلیل"

یہ بھوک ھڑتال کو ذلالت کہنے والے بہت پرانے ہیں ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وقت کے امام سے بھی خود کو زیادہ دین کا درد رکھنے والا سمجھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ آج رھبر معظم کسی کے بارے میں کچھ نہ کہیں لیکن یہ اسے ایم آئی سکس کا مجتھد کہنے میں دیر نہیں لگاتے.
اللہ (ج) سے دعا ہے کہ ان جذباتی جوانوں کو جذبات کے ساتھ عقل بھی عطا کرے. یہ آپ کو جہاں بھی ملیں انہیں گلے لگا کر گال پر پپی دے کر بات سمجھائیے گا. ٹافی بھی آپ کے جیب میں ہو تو کیا ہی خوب ہو!

الاحقر: محمد زکی حیدری