بیمار ماں کے بیٹے!

تحریر: محمد زکی حیدری

ایک گاؤں میں ایک بیوہ بوڑھیا رہا کرتی تھی اس کے تین بیٹے تھے، تینوں ماں کی خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں رہا کرتے تھے، لیکن دنیاوی چپکلشوں کی زد میں آکر ان کے درمیاں چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے لہذا انہوں نے الگ الگ گھر بنا لیئے اور ان میں سے ہر ایک نے ماں کو یہ تسلی دے کر چھوڑ دیا کہ میں تیرا خادم ہوں لیکن فلاں بھائی کی وجہ سے میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا.
ایک دن ماں بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے کہا آپریشن ہوگا تین لاکھ کا خرچہ ہے. اب ہر ایک بھائی غربت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ صرف ایک لاکھ تک انتظام کر سکتا تھا ہر ایک نے ماں سے کہا تم فلاں بھائی سے ایک ٹکہ بھی نہ لینا تم میری ماں ہو، تمہاری خدمت کرنا صرف میرا فرض ہے، تم بے فکر رہو میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے باقی دو لاکھ دوستوں سے لے لوں گا. دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں میں سے باری باری ماں کی خدمت میں پیش ہوکر یہی کہا کہ میرے پاس ایک لاکھ روپے ہے باقی کے دولاکھ دوستوں سے لے لوں گا. آپریشن کا دن آیا ماں کیلئے تین لاکھ جمع نہ ہوسکے اور وہ اس دنیا سے چلی گئی. فاتحہ خوانی پر تینوں بھائی ساتھ بیٹھے ایک بزرگ نے جب ان سے تین لاکھ جمع نہ کر پانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہانی سنا دی. بزرگ بولے تم تینوں کی جیب میں ایک ایک لاکھ تھا، جس طرح آج مل بیٹھے ہو اسی طرح دو دن قبل مل کر بیٹھتے اور اپنا ایک ایک لاکھ جمع کرواتے تو تین لاکھ بن جاتے اور آپ اس وقت ماں کی تعزیت لینے کی بجائے ماں کی دعائیں لے رہے ہوتے. یہ سن کر تینوں بھائی چپ ہوگئے!

یہی حال اب مجھے ہماری ماں یعنی ملت تشیع کے تین بیٹوں کا لگتا ہے، ماں بیماری میں مبتلا ہے روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے لیکن بڑے بیٹے فضل الرحمن کے ساتھ نظر آتے ہیں، دوسرے نمبر والے بیٹے قادری صاحب یا محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا صاحب کے ساتھ اور کل ہی ان کے ایک بزرگ نمائندے علامہ امین شہیدی صاحب ایک دویوبندی مدرسے میں بھی دیکھے گئے. اسی طرح تیسرے نمبر والے بیٹے بھی قابل احترام جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے. یہ اس ماں کے تینوں بیٹے دوستوں سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن افسوس کہ یہ تین بھائی خود ایک دوسرے کے ساتھ بہت کم نظر آتے ہیں. یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے.


ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اتحاد بین المسلمین بری چیز ہے نہیں! ہم جانتے ہیں کہ برادران اھل سنت ہمارے بھائی ہیں، جب ہم ہمارے علماء کو ان کےساتھ بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں قسم سے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے. پچھلے دنوں تین تصاویر آئی ہیں ایک میں قبلہ محترم استاد سید جواد نقوی صاحب محترم جناب مولانا طارق جمیل کے ساتھ نظر آئے، ایک تصویر میں محترم جناب صاحبزادہ حامد رضا اور محترم فیصل رضا عابدی صاحب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نظر آئے اور پھر محترم جناب قبلہ امین شہیدی صاحب اوکاڑہ کے دیوبندی عالم دین محترم مولانا فضل الرحمن اوکاڑی کے مدرسے اشرف المدارس میں نظر آئے. یہ تصاویر دیکھ کر دل خوش ہوا اللہ (ج) اتحاد کے ایسے مزید مناظر ہمیں دکھائے. ہم ان اھل سنت علماء کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں وہ ہمارے دل و جان میں ہیں، ان کا ہمارے اور ہمارے علماء کا ان کے یہاں جانا نعمت الہی ہے.
بیشک اتحاد بین المسلمین اہم فریضہ ہے لیکن جب اتحاد بین المومنین کی اشد ضرورت ہو، جب اتحاد بین المومنین نظر نہ آ رہا ہو تو کیا ایسے میں اتحاد بین المسلمین مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ جب نوبت یہاں تک آجائے کہ ملک میں شیعہ مرد تو مرد عورتوں پہ بھی گولیاں چلنے لگ جائیں، ھر گھر میں صف ماتم بچھی ہو، ایسے حال میں ہم شیعہ ایک دوسرے کو گلے لگانے کی بجائے پڑوسیوں سے مراسم استوار کرنے کی کوشش کریں اور تو اس کا نتیجہ سوائے عوامی مایوسی کے اور کچھ نہیں ہوگا. جب گھر میں ماں بیمار ہو تو دوستوں کے ساتھ دعوتیں نہیں کی جاتیں بلکہ ہنگامی بنیادوں پر تمام بہن بھائیوں کو بلا کر ماں کے علاج کا سوچا جاتا ہے.

شاید یہی وجہ ہے کہ اس ماں کے بڑے بیٹے کو اس بات کا احساس ہوا اور ماں عرف ملت تشیع کی خستہ حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے پچھلے دنوں کراچی میں انہوں نے ایک پروگرام رکھا جس میں ایم ڈبلیو ایم کے بزرگ علماء کو دیکھ کر کو مدعو کیا گیا تھا، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی، اتحاد بین المومنین کی مثال پیش کی گئی، اس پر میں نے قائد صاحب کو سلام پیش کیا تھاـ امید کرتا ہوں کہ اسی طرح بڑے بھائی ہونے کے ناطے اس روش کو مزید تقویت بخشتے ہوئے قائد صاحب اپنے چھوٹے بھائیوں کو کھانے پہ بلائیں گے، اور مجھے صد در صد یقین ہے کہ چھوٹے بھائی روگردانی نہیں کریں گے. یہ دعوت، اتحاد کی دعوت، بھائیوں کے یکجاء ہونے کی دعوت زخموں سے چور، مجروح ماں کے زخموں پہ مرہم کا کام کرے گی اور یہی اتحاد بین المسلمین کا مرھم ان شاء اللہ اس کے سارے زخم دھو دے گا. جب اپنی ماں صحتمند ہوجائے گی تو دوستوں کی دعوتیں کر لیں گے.


arezuyeaab.blogfa.com