بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خیرُو سائیں المعروف "خیرو خر مغز"

تحریر: محمد زکی حیدری

 

رکن قومی اسیمبلی پیر سائیں عبدالکریم شاہ ڈھیٹانی عشقبندی گادی نشین درگاہ لُٹیاری شریف کا سندہ میں بہت بڑا نام تھا. والد ترکے میں درگاہ کی گدی اور بہت بڑی جاگیر چھوڑ گئے تھے، اس لیئے انہوں نے نہ خود تعلیم حاصل کرنے کی زحمت کی نہ بچوں کی تعلیم پر دھیان دیا. اپنے بزرگوں کے عقیدے کہ پیر مرشد کی بیٹی کا کفو کوئی انسان نہیں ہوسکتا، مرشد کی بیٹی کا کفو صرف قرآن ہے، پر عمل کرتے ہوئے تینوں بیٹیوں کے نکاح قرآن سے کروا کر انہیں ساری زندگی حویلی کی دیواروں میں قید کردیا. پیر صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے نورِچشمِ پدر پیر سید خیرمحمد عرف خیرو سائیں تھے. خیرو سائیں ذھنی لحاظ سے ذرا کند تھے بلکہ ایسا کہیئے عقل سے پیدل تھے اور توتلے بھی تھے سن بلوغت پار کر گئے لیکن توتلا پن نہ گیا، اب کسی اور کی اولاد ہوتے تو انہیں پاگل کہا جاتا لیکن آپ تو ٹھہرے پیر سائیں کے بیٹے سو کس کی مجال کہ پاگل کہنے کی گستاخی کرتا. ان کی احمقانہ حرکتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں سندھی زبان میں "پہتل" یعنی "پہنچا ہوا" کہا کرتے تھے. باپ اپنے اس نور چشم کو "خیرو سائیں" بلاتے، اس لیئے حویلی میں بھی انہیں "خیرو سائیں" یا "خیرو بابا" پکاراجاتا. اور حویلی میں خیرو سائیں کچھ بھی کرلیں انہیں کوئی اف تک نہ کہہ پاتا.

خیرو سائیں بچپن سے ہی کچھ عجیب و غریب عادات کے مالک تھے، ویسے تو اکثر امراء کی اولاد کا یہ ہی حال ہوتا ہے لیکن خیرو سائیں انوکھے پن میں اپنی مثال آپ تھے. اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ کو اسکول جانے کا شوق ہوا، کلاس میں استاد نے بتایا کہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے یہ سائنسی ترقی کی عظیم مثال ہے. یہ سن کر خیرو سائیں نے استاد سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے انسان چاند پر تو گیا سورج پر نہیں؟ استاد نے سائیں کو مؤدبانہ طریقے سے سمجھایا کہ سورج کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے، اتنا زیادہ کہ تپش زمین تک بھی آجاتی ہے، اس لیئے جانا ممکن نہیں. سائیں تو تھے ہی عقلمند سو توتلی سندھی میں بولے "گڑمی آ تہ پو ڑات جو چھو نتھا وجن" یعنی دن میں سورج کی تپش ہوتی ہے تو پھر رات کو کیوں نہیں جاتے. یہ سننا تھا کہ کلاس کے سارے لڑکے ھنسنے لگے، سائیں کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ دوبارہ اسکول کی طرف مڑ کر بھی دیکھیں، سو وہ دن ان کے مختصر تعلیمی کیریئر کا اختتامی دن تھا.

خیرو سائیں کا ماننا تھا کہ وہ دنیا کا ھر کام کر سکتے ہیں. اور اگر کسی نے کہہ دیا کہ خیرو سائیں یہ کام آپ کے بس کی بات نہیں تو خیرو سائیں اس کام کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑ جاتے. کبھی کبھار حویلی کے نوکر چاکر جو انہیں اپنی زبان میں "خیرو خر مغز" کہا کرتے تھے، خیرو سائیں کو جان بوجھ کر کسی کام کیلئے کہہ دیتے کہ خیرو سائیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں. یہ سننا ہوتا خیرو سائیں کہتے میں یہ کام کر کے رہوں گا، اور پھر حویلی کے نوکر بیٹھ کر تماشہ دیکھتے.

ابھی عید الاضحی ہی کی بات ہے کہ نوکروں کو شرارت سوجھی، بندوق لے کر خوشی میں دو چار فائر کیئے. خیرو سائیں دیکھ رہے تھے. اتنے میں ایک نے بندوق خیرو سائیں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا خیرو سائیں آپ فائر کریں گے.؟ اس سے قبل کہ خیرو سائیں جواب دیتے ایک شرارتی نوکر نے کہا "اڑے بابا چھوڑو کہاں خیرو سائیں اور کہاں بندوق، یہ سائیں کے بس کا کام نہیں ہے بابا!" یہ سن کر خیرو سائیں غصے سے لال ہوگئے. آنکھوں میں خون بھر آیا، کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھ کر اس گستاخ نوکر کو گھورتے رہے، پھر اس سے نظریں ھٹائیں، تیزی سے بندوق کی طرف لپکے، توتلی سندھی زبان میں نوکر سے کہا "لوڈ کڑ ما فائڑ کندم!" (لوڈ کرو میں فائر کروں گا). کلف شدہ کاٹن کی کشادہ شلوار، بھاری بھرکم جسم اور ورثے میں ملے ہوئے آٹے کی بوری نما پیٹ کو سنبھال کر خیرو سائیں نے سامنے ایک کبوتر کو بندوق سے نشانہ بنایا، فائر ہوا لیکن کبوتر قہقہے لگاتا ہوا اڑ گیا اور فائر کرتے وقت جس برے طریقے سے بندوق نے خیرو سائیں کو جھٹکا دیا تھا اسے دیکھ کر نوکر اپنی ھنسی نہ روک سکے. نشانہ چوکنے کا غم اور مضحقانہ ھنسی نے خیرو سائیں کی خاندانی غیرت کو للکارا، بندوق نوکر کو دے کر پھر سے لوڈ کرنے کا حکم دیا، بالقصہ تقریبا آدھا درجن پرندوں کا ناکام نشانہ لینے کے بعد خیرو سائیں کو یاد آیا کہ ان کے دادا مرحوم بھی آسمانی شکار میں کمزور تھے لھذا اب ورثے میں ملے نقائص کو لے کر بدنام ہوتے رہنا بھلا کہاں کی عقلمندی تھی، سو انہوں نے زمین پر دس بیس فیٹ دور بیٹھے ایک کتے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا. لیکن کتا بھی خیرو سائیں سے زیادہ خوشقسمت نکلا اور گولی سے بچ کر دم دباکر بھاگ نکلا. سائیں کے موٹے گالوں سے پسینے کے بدبودار قطرے ٹپکنے لگے، چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی، قمیض کے بٹن بھی کھول دیئے.
متعدد بار شکار کی مختلف کوششوں میں کارتوس ضایع کرنے کے بعد بلآخر بنگلے کی ایک چار پائی کے ساتھ ایک مرغا باندھا گیا اور صرف چند بالشت کے فاصلے سے خیرو سائیں کو کہا گیا کہ فائر کریں، لیکن جب سائیں گولی چلا چکے تو لوگوں نے فرش پر گولی کے نشان کے ساتھ مرغے کو صحیح و سالم کک کک کک کرتے دیکھا. اس کے بعد خیرو سائیں نے بندوق کو کی والدہ کو سندھی میں فحش گالی دی اور پھینک کر چل دیئے.

خیرو سائیں کی زندگی بھی عشق سے خالی نہ تھی. سید تھے، ان کیلئے سادات لڑکیوں کی کب کمی تھی لیکن سائیں کو ھندو بھیِل ذات کی چوڑیاں بیچنے والی ایک لڑکی پسند آگئی، "عشق کیا کھوتی سے تو پری کیا چیز ہے"، اس بھیِلن کا نام پاروتی تھا. اب سائیں خیرو کوئی چیز پسند کریں اور وہ انہیں نہ ملے یہ بھلا کیسے ممکن تھا. بھیل تو غریب ھندو تھے ان کی کیا مجال کہ سائیں کو منع کریں، لہذا بھیِلن پاروتی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا گیا اور چونکہ سائیں خیر محمد شاہ کی زوجیت میں آئیں تھیں تو یہ بھیلن پاروتی اب سیدہ مریم زوجہ پیر سید خیر محمد شاہ بن گئیں اور اس کی گود سے ایک سال بعد ایک نوجوان سید سائیں کمال شاہ پیدا ہوئے.

خیرو سائیں کی زندگی اسی طرح "عاقلانہ" و "شاہانہ" حرکتیں کرتے کرتے اس موڑ پر پہنچی جہاں ان کے والد کا انتقال ہوا اور ایک جم غفیر تعزیت کرنے پہنچا، جب مرحوم کی جانشینی کی "پگ" پہنانے کی بات آئی تو کچھ لوگ خیرو سائیں کے ذھنی توازن کی وجہ سے سوچ رہے تھے کہ شاید ان کی بجائے مرحوم کے چھوٹے بیٹے کو "پگ" پہنائی جائے لیکن جب والد کی وصیت پڑھی گئی تو اس میں تاکید کے ساتھ لکھا تھا کہ میری ساری ملکیت بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے لیکن درگاہ کی گدی نشینی اور سیاسی جانشینی صرف و صرف میرے بڑے صاحبزادے خیر محمد شاہ عرف خیرو سائیں کے حوالے ہے. لہذا میرے انتقال کے بعد میری جگہ میرے حلقے میں رکن قومی اسیمبلی کے امیدوار پیر خیرمحمد شاہ ہوں گے اور میں عوام سے امید کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے بزرگ پیروں سے مذھبی و سیاسی میدان فیض حاصل کیا اسی طرح پیر خیر محمد شاہ سے بھی فیض حاصل کر کے بزرگوں کی روایتِ فیض رسانی کو برقرار رکھیں گے.

 

arezuyeaab.blogfa.com