عیسٰی (ع)، ایمانٹ اور آناہیتا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*عیسیٰ (ع)، ایمانٹ اور آناہیتا*
از قلم: محمد زکی حیدری
( Valentine's Day special )
وہ یونانی تھا، اس کا مرحوم باپ لکڑہار تھا، ترکے میں اکلوتے بیٹے کیلئے وراثت کے طور پر صرف کلہاڑی و درانتی و لکڑھاری سے مربوط کچھ دیگر اشیاء چھوڑیں، جنہیں اس نے لیا اور اپنے مرحوم والد کی طرح ھر روز صحراء کی جانب جاکر لکڑیاں و جھاڑیاں جمع کرکے شہر لاکر بیچتا. آلاتِ لکڑھاری کے علاوہ اس کے گھر میں اس کی ماں تھی، جو اس کا سب سے بڑا اثاثہ تھی. وہ ماں سے بے حد پیار کرتا تھا شاید اسی وجہ سے اسے ایمانٹ (Emant) پکارا جاتا تھا یعنی عاشق!
بہار جوں ہی آتی تو صحرائی چشموں کے گرد خوبصورت سبز گھاس اگ آتی جو ھر دیکھنے والے کو اس بوڑھی عورت کا سا عکس پیش کرتی جس نے اپنے نحیف و ضعیف بدن پر سبز رنگ کا انمول ھیرا پہن رکھا ہو. صحرا کے خشک بدن پر یہ سبز گھاس صحراء کے حسن کو چار چاند لگا دیتی. ایسی ہی بہار کے موسم میں ایک دن جب آسمان پہ کالی گھٹائیں چھائیں تھیں، ھلکی ھلکی بوندا باندی صحراء کے خشک جسم کو بڑے پیار سے راحت بخش ٹھنڈ پہنچا رہی تھی، پانی کے چشموں میں بھورے بادلوں کے عکس، نخلستان کے سبز درخت اور ان میں پرندوں کے چہچہانے نے صحراء کو جنت بنا دیا تھا، جس سے لطف اندوز ہونے کیلئے شہر کی عوام تو عوام ساکنان کاخ نے بھی صحراء کا رخ کیا. ایمانٹ کیلئے یہ معمول کی بات تھی سو وہ اپنے کام میں مگن رہا. اتنے میں بادشاہ کا کاروان وہاں سے گذرا جو شاید صحراء کے فطرتی حسن سے محذوذ ہونے کیلئے آیا تھا اس کاروان کے زرق و برق، قیمتی موتیوں سے مزیں پالکیاں، خوبصورت گھوڑے و شاندار لباس میں ملبوس کنیزیں بھی ایمانٹ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہیں تھیں، لیکن اتنے میں کسی عورت کے چیخنے کی آواز نے اسے کاروان کی طرف متوجہ کیا.
ایمانٹ نے دیکھا کہ رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس ان کنیزوں نے کسی چیز کو گھیر رکھا ہے. کاروان رکا، بادشاہ سلامت بھی جلدی جلدی ان کی طرف بڑھے، ایمانٹ بھی آگے بڑھا، دیکھا کہ ایک شہزادی زمین پر بیٹھی اپنے پیر کو ہاتھ سے پکڑ کر رو رہی ہے.
"شہزادی آناھیتا! میری بچی دشمن کو کیا ہوا ہے؟" بادشاہ نے شہزادی سے پوچھا. ایک کنیز نے بادشاہ کو بتایا کہ شہزادی نے بارش سے نم ٹھنڈی ریت پر چہل قدمی کی ضد کی اور ہم نے مجبورا انہیں پالکی سے اتارا، شہزادی کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے ہم نے آپ سے یہ بات چھپائی لیکن اب ریت میں چھپا کوئی کانٹا شہزادی کو چب گیا ہے سو ہم نے جلدی سے رمال باندھ دیا."
طبیب بلایا گیا اور اس نے شہزادی کو طبی امداد دی اور رومال اتار کر دور پھینکا اور اچھے طریقے سے پٹی کر دی. پھر شہزادی پالکی میں بیٹھ گئی. کاروان جانے لگا لیکن ایمانٹ کو اس شہزادی نے بہت متاثر کیا. سفید لباس میں ملبوس شہزادی کی نیلی آنکھیں اور لمبے ہاتھ جن میں اس نے سفید و لعل پھول تھام رکھے تھے، سب اس کے ذھن کے پردوں پر کسی فلم کی مانند چل رہا تھا. لیکن آناہیتا! وہ سوچنےگا کہ یہ کوئی عبرانی یا یونانی نام نہیں، اس نے یہ نام پہلی بار سنا تھا، اس کا مطلب کیا ہے؟
ان سب سوالات نے اس کے تمرکز کو اپنے کام سے ھٹا دیاتھا. اس کا دھیان اب کام پر نہیں تھا سو وہ تھوڑی سی لکڑیاں جو اس نے جمع کی تھی لیکر گھر کی طرف جانے لگا لیکن اس سے قبل وہ خون آلود رومال اٹھا لیا اور شام کو وہ ایک دانا کے پاس گیا اور اس سے آناہیتا کا مطلب پوچھا اس نے اسے بتایا کہ یہ ایرانی نام ہے بادشاہ کی بیوی ایرانی تھی اس نے اپنی بیٹی کا نام آناہیتا رکھا جس کا مطلب ہے پانی کی دیوی!
ایمانٹ کو لگا کہ اس نے واقعی دیوی دیکھی ہے جو اس کے ذہن پہ سوار ہوگئی ہے. اسے نام بہت اچھا لگا صحراء کی تپتی ریت و چلچلاتی دھوپ میں کام کرنے والے کو کسی بھی چیز میں پانی یا پانی کا نام موجود ہو، بہت پسند ہوتا ہے. ایمانٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا.
آناہیتا پانی کی دیوی! جو خشک زمینوں کو سرسبز کردیتی ہے، کسان کے بچوں کے چہرے پہ مسکان کی وجہ بنتی ہے، پانی کی دیوی جو آسمان سے زمین مکینوں کیلئے پانی بھیجتی ہے، مہمان آتا ہے تو اسے سب سے پہلے پانی دیا جاتا ہے، جاتے وقت بھی پانی پی کر نکلتا ہے، کسی بھی چیز کی صفائی کیلئے پانی، جسم میں پانی، صحراء کو جنت بناتی ہے، پانی نہ ہوتا تو کیا ہوتا، نہ غنچے بنتے، نہ کلیاں کھلتیں، نہ لکڑی کا وجود ہوتا، نہ میرے والد کا ذریعہ معاش اور نہ میں... شکر ہے کہ پانی کی دیوی ہے نہیں تو پانی کون بھیجتا، کتنی مہربان ہوگی وہ دیوی آناہیتا! ایمانٹ کی طینت میں عشق تھا سو جب وہ رات کو سویا تو اسے صرف اس دیوی کی پوجا کرنے کی سوچ ذھن میں آرہی تھی. آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلتی تو وہ کسی برتن میں پانی ڈال کر گھنٹوں پانی کو دیکھتا رہتا، کھانا کم کھاتا پانی زیادہ پیتا، جس صحراء کے چشمے کی طرف وہ صرف پانی پینے جایا کرتا تھا اب ان ہی چشموں کے کنارے بیٹھ کر اس کے دن کا زیادہ وقت گذرتا وہ پانی کو دیکھتا رہتا اور اس دیوی آناہیتا کو یاد کرتا. آناہیتا کی تاروں کی مانند چمکدار نیلی آنکھیں، بلند قد ، سفید نورانی لباس، لمبے ہاتھ اور ان میں سفید و لال و پیلے پھول!
ایمانٹ کی ماں اپنے اکلوتے لعل کی اس حالت سے پریشان و مضطر تھی کہ ایک دن اس کے دروازے پہ کسی نے دستک دی. وہ باہر گئی تو دیکھا ایک کمزور و نحیف سا لیکن نورانی چہرے والا اجنبی ہے. اس اجنبی نے کہا کہ وہ مسافر ہے ایک دو رات کیلئے تھکن اتارنے کے بعد سفر شروع کرے گا کیا اسے اس گھر میں جگہ مل سکتی ہے. عورت اسے گھر میں لے آئی یہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ (ج) کے نبی حضرت عیسی (ع) تھے. عیسی (ع) نے گم سم بیٹھے ایمانٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ کون ہے. عورت بولی میرا بیٹا ہے. فرمایا کیا اسے کوئی مرض لاحق ہوگیا ہے؟ عورت بولی جی ہاں مسافر! میرے بیٹے کو ایسی بیماری ہوگئی ہے کہ اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں. پھر اس نے عیسی (ع) پورا ماجرا سنا دیا.
حضرت عیسی (ع) نے جوان سے کہا اے جوان! بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟
ایمانٹ نے کہا: جی ہاں!
عیسی (ع) نے فرمایا اٹھو اور ابھی بادشاہ کے دربار میں جاؤ، کوئی بھی تمہارا راستہ روکے تو اسے کہنا تمہیں صرف بادشاہ سے بات کرنی ہے بس!
ایمانٹ کے باطن کو ان نبوی الفاظ نے جوش و توانائی دے دی، وہ عاشق تھا عاشق کیلئے صرف ایک پیار و محبت کا تشویقی لفظ کافی ہوتا ہے اور وہ توپ کی طرح جس چیز سے ٹکراتا ہے اسے بوچھاڑ کر رکھ دیتا ہے. اب ایمانٹ کے وجود میں وہی بارود بھر گیا تھا.
وہ بادشاہ کے دربار میں گیا تو اسے دربانوں نے روک دیا. اس نے اسرار کیا تو ایک دربان نے بادشاہ سے جاکر کہا کہ ایک کمزور و دبلا پتلا سا جوان آیا ہے کہتا ہے میں اپنا کام صرف بادشاہ کو بتاؤں گا اور کسی کو نہیں. بادشاہ نے کہا اسے پیش کیا جائے. ایمانٹ نے بادشاہ سے کہا میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں. بادشاہ نے سوچا شاید یہ کسی کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہے. تو بولا کس کیلئے ہاتھ مانگنے آئے ہو؟. ایمانٹ نے پلک جھپکتے میں جواب دیا اپنے لیئے!
سارے دربار میں ایک لحظے کیلئے قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی اتنے میں ایک سپاہی نے ایمانٹ پر حملہ کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے اشارے سے اسے روک دیا.
اب بادشاہ نے ایمانٹ سے کہا: بیشک بادشاہ زادی کی بھی شادی ایک دن ہوتی ہے تم حق رکھتے ہو، لیکن کیا تم جانتے ہو بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے کیلئے تمہیں مہر ادا کرنا ہوگا کیا تم مہر ادا کر پاؤ گے؟
ایمانٹ نے کہا: کتنا مہر ہے؟.
بادشاہ نے کہا: ایک پیالا نایاب جواہرات سے بھرا ہوا.
ایمانٹ نے دربار چھوڑا. بادشاہ نے ماموران کو حکم دیا کہ یہ لڑکا جب بھی آئے تو اسے آنے دیا جائے.
ایمانٹ نے یہ ساری باتیں گھر جا کر حضرت عیسی (ع) کی خدمت میں بیان کی. عیسی (ع) نے فرمایا: ایک پیالہ لو اور اسے کنکریوں سے بھر کر میرے پاس لاؤ. اس نے حکم کی تعمیل کی اور پیالا لاکر عیسیٰ (ع) کے سامنے رکھ دیا. عیسی (ع) نے فرمایا اب اس پر کپڑا ڈالو، اس نے پیالے پہ کپڑا ڈال کر ڈھک دیا.
تھوڑی دیر بعد عیسی (ع) نے حکم دیا اب کپڑا ھٹاؤ.
جب ایمانٹ نے کپڑا ھٹایا تو دیکھا پیالا جواہرات سے بھرا ہے. عیسی (ع) نے کہا لے جاکر بادشاہ کو دو.
بادشاہ نے جب یہ جواہرات دیکھے تو حیران رہ گیا کہ اس کے خزانے میں ایک بھی اس قسم کا نایاب ھیرا نہ تھا. اس نے ایمانٹ سے پوچھا: اے جوان! کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہے تمہارے؟
ایمانٹ نے کہا نہیں.
بادشاہ نے کہا: تم کام کیا کرتے ہو؟
ایمانٹ نے کہا: صحراء میں لکڑھاری!
بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ ضرور صحراء میں اسے کوئی دفینہ ہاتھ لگا ہے سو کہنے لگا: اے جوان سچ سچ بتاؤ ورنہ ابھی ایک اشارہ دونگا جلاد تمہاری گردن اڑا دیگا! جلاد کا سن کر ایمانٹ نے کہا کہ بادشاہ سلامت حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیرے جواہرات نہیں بلکہ ہمارے گھر کے آنگن کی کنکریاں ہیں. ایک اجنبی مسافر ہمارے یہاں آیا ہے اس نے کنکروں کو موتی بنا دیا.
بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ نبی اللہ کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں سو ایمانٹ سے کہنے لگا: اے جوان! اس بزرگ سے جاکر کہو کہ اگر ایک بار اپنے قدم میرے محل سے پھیر کر جائے تو میری جان، میری بیوی، میری بیٹی، میری زندگی میرا محل سب اس کا.
حضرت عیسی (ع) کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ محل میں آئے. بادشاہ نے تواضع کا مظاہرہ کیا. حضرت عیسی (ع) نے بادشاہ سے کہا کہ اپنی بیٹی کی شادی اس جوان سے کردو.
جوان کو بادشاہ دولہے کا لباس پہنایا گیا، کچھ دیر بعد عقد حضرت عیسی (ع) نے پڑھا اور اگلے دن دھوم دھام سے ولیمے کی تیاریاں ہونے لگی.
اسی رات بادشاہ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مرگیا. شادی کی تقریبات ملتوی ہو گئیں. بادشاہ کی جانشینی کیلئے شرفاء و وزراء کا اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ چونکہ بادشاہ کا کوئی بیٹا نہ تھا سو اس کے داماد کو ہی تاج پہنایا جائے. سو وہ لکڑھار عاشق اب نہ صرف آناہیتا کا مالک بن گیا بلکہ پوری سلطنت پر اس کی حکمرانی ہو گئی.
اگلے دن عیسی (ع) نے جانے کی تیاری کی تو ایمانٹ نے ان سے پوچھا: کہاں جا رہے ہیں یہ محل و مکان چھوڑ کر. تم نے مجھے یہ سب دیا کیسے ممکن ہے کہ جب میں اتنی خوشحال زندگی گذار رہا ہوں اور پھر تم اجبنی مسافر کی طرح بھٹکتے رہو؟
عیسی (ع) نے جواب دیا: میری منزل دور ہے.
ایمانٹ کے شدید اسرار کے باوجود بھی جب عیسی (ع) نہ مانے تو ایمانٹ نے کہا: اے سبزی جات کھا کھا کر اپنے بدن کا رنگ سبز کر دینے والے! ایسا کیا راز ہے تمہاری زندگی میں کہ اگر پتھر پر ہاتھ رکھو تو ھیرا بن جائے؟ بادشاہ تمہارے قدم بوسی کے مشتاق ہیں؟
عیسی (ع) نے جواب نہ دیا فرمایا تم اپنی سلطنت و معشوقہ سنبھالو تمہیں کیا کام ان سوالوں سے.
لیکن ایمانٹ نے ضد کی تو عیسی (ع) نے مسکرا کر کہا: *اے عاشق! یہ دنیا کتنی بے وفا ہے، اس تخت و محل کی بیوفائی دیکھو کہ کل یہ ایک جدی پشتی بادشاہ کی ملکیت تھی اور آج ایک لکڑھارے کی ملکیت! جو کل اس محل میں سوتا تھا آج خاک میں سوتا ہے اور تم کل خاک پہ سوتے تھے آج محل میں! ایسی بے وفا دنیا و زندگی سے وفا کیسی جو عارضی ہو. میں نے اپنی زندگی آخرت کیلئے وقف کردی، مجھے اس دنیا سے کچھ امید نہیں کیونکہ جب یہ امیدوں پہ پورا نہیں اترتی تو سوائے پشیمانی و دکھ کے کچھ نہیں ملتا. یہ تخت کل چھن جائے گا اور تم پھر خاک پہ سو گے.*
یہ سن کر ایمانٹ نے کہا تھوڑی دیر رکیئے. وہ اپنے محل میں گیا اور کچھ دیر بعد لکڑھاری کے لباس میں ملبوس کندھے پہ کلہاڑی، ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے ہاتھ میں آناہیتا کا ہاتھ تھامے عیسیٰ (ع) کے پیچھے چلنے لگا.
(قصص الانبیاء سے مقتسَب)
*_ arezuyeaab.blogfa.com_*