اونٹنی اور انسان
اونٹنی اور انسان
تحریر: محمد زکی حیدری
ذی صدوق بہت خوبصورت تھی، اس کے حسن و جمال کے چرچے پوری بستی میں عام تھے، یہی وجہ تھی کہ مصدع بن مھرج جیسا جوان بلند قد و قامت اور چٹان مثل جسم رکھنے کے باوجود ذی صدوق کے سامنے موم بن گیا، ھر عاشق کی طرح مصدع نے بھی محبوبہ کو ہمیشہ کیلئے اپنا بنانے کیلئے بڑے بڑے دعوے کیئے لیکن ذی صدوق کی صرف ایک ہی شرط تھی، وہ یہ کہ مصدع اگر قبیلے کی فلاں اونٹنی کو مار کر اس کے قدموں میں ڈال دے تو ذی صدوق ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کی! ایک اونٹنی کی بھلا مصدع جیسے طاقتور انسان کی نظروں میں اوقات ہی کیا تھی. مصدع اپنے دوست قدار سے ملا اور مزید سات افراد کی جماعت بنا کر ذی صدوق کی شرط پوری کرنے چل دیا. اونٹنی کو پاتے ہی مصدع نے تیر چلایا جس نے اس بے زبان کے پیر کو چیر کرکھ دیا، اونٹنی لڑکھڑانے کے بعد زمین بوس ہوئی، قدار نے لپک کر اس کے شکم پر تیز دھار خنجر سے وار کیئے، اور اونٹنی قید حیات سے آزاد ہوئی.
یہ نو لوگ اس مردہ اونٹنی کو لے کر بستی میں آئے تو ایک جم غفیر جمع ہوگیا، بستی کا صالح نامی ایک بزرگ شخص غم سے نڈھال، اس مجمعے کی طرف آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچانا، تم نے اسے قتل کر کے عذاب کو دعوت دی! اب تین دن گھر میں رہو اس کے بعد تم پر سخت عذاب نازل ھوگا. ایک نے دور سے صالح کو آواز دی "صالح! جس نے اس اونٹنی کو مارا ہے اسی پر عذاب آئے گا ہم نے تو تمہاری اونٹنی کو کچھ نہ کیا تھا."
صالح نے جو جواب دیا اس کی عکاسی قرآن کی یہ آیت کرتی ہے:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو (بلکہ سب اس کے گھیرے میں، جو خاموش رہے وہ بھی) اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے (انفال ۲۵)
آج صالح (ع) نہیں ہیں! حالات بدل گئے، کل کی ذی صدوق اپنے مہریہ میں اونٹنی کا خون مانگتی تھی لیکن آج شاید انسان کا! کل ظالم مصدع و قدار نے اونٹنی کا خون زمین کو پلایا آج کے مصدع اور قدار انسان کا...
ہاں البتہ کچھ چیزیں نہیں بدلیں کل ۹ لوگ قتل کرتے تھے اور لاکھوں افراد پر مشتمل عوام خاموش رہتی تھی، آج بھی ایسا ہی ہے، کل ایک معصوم صالح (ع) اس خاموشی پر گریاں نظر آئے آج ایک معصوم امام زمانہ (عج)!!!
میں کیسے اس آیت کو کہوں کہ یہ آیت بدل گئی! نہیں قرآن تاقیامت رہے گا، آج بھی جو خاموش ہے اس کیلئے یہی ہے جو اس دور کے خاموش رہنے والوں کیلئے، کیا میں یہ مان لوں کہ وہ اللہ (ج) جو اونٹنی کے خون پہ خاموش رہنے والوں کو عذاب دیتا ہے وہ انسان کے خون پہ خاموش رہنے والوں کو سلام کریگا اور انہیں کوئی سزا نہیں ملے گی؟
میری اور آپ کی نظروں میں پچھلے ھفتے شہادت پانے والے شہید پروفیسر عابد رضا اور شہید ایڈوکیٹ نجم الحسن یا کل کے دو کراچی کے جوان ہاشم اور علی سجاد کی سڑک پہ پڑی خون آلود لاشیں شاید روز کا معمول ہوں لیکن اس پرودگار کیلئے ایسا نہیں ہے! آج ہم اس مسجد میں نماز پڑھ رہیں ہیں جس کی بنیادوں میں ہمارے بھائیوں کا خون ناحق ہے، ان بازاروں سے افطار کا سامان لاتے ہیں جن بازاروں میں ہمارے اپنے مومن بھائیوں کے جسم کے اعضاء بکھیرے جا چکے ہیں، ہم ان سڑکوں ہر عزاداری کرتے ہیں جن پر ہمارے شہداء کا خون ابھی تازہ ہے...
ہر طرف خون ہی خون ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ ہماری آنکھوں پر پردے ہیں، ہم نے خود ڈال رکھے ہیں، ہم نے کسی لیڈر کی محبت کا پردہ، کسی نے روزگار کے بہانے کا پردہ، کسی نے گھریلو مجبوری کا پردہ، کسی نے... سب نے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے... لیکن اللہ (ج) کو ان پردوں کا علم تھا، اسی لیئے ھر دور میں ان پردوں کو چاک کرنے والا رکھا. ہماری آنکھوں سے پردے چاک کرنے والا آئے گا، کہیں ایسا نہ ہو اس وقت ہم بھی صدا دیں "اے! مہدی ہم نے تو تیرے شیعوں کو مارنے میں مدد نہ کی، مارا تو فلاں لشکر، فلاں سپاہ، فلاں فلاں نے" اور مہدی کا جواب سورہ انفال کی ۵۲ ویں آیت ہوـ
www.fb.com/arezuyeaab
.
arezuyeaab.blogfa.com