درگذر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
در گذر
تحریر: الاحقر محمد زکی حیدری
بنگلادیش کے ایک دانشور شاید مولانا بھاشانی نے کہا تھا کہ اقوام دو قسم کی ہوتی ہیں: ظالم یا مظلوم. میں نے کرہ ارض پر بسنے والی جن چند اقوام کی تاریخ پڑھی اس تناظر میں مرحوم مولانا کی یہ بات سولہ آنے سچ معلوم ہوتی ہے مگر ۱۹۴۷ع میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والی ریاست ھندوستان کے ٹوٹنے کا بعد وجود میں آنے والے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑے یعنی پاکستان کی تاریخ کو دیکھتا ہوں تو مجھے ظالم تو نظر آتا ہے مگر مظلوم نہیں! ظالم تو ظلم کر رہا ہے مگر جس پر وہ ظلم کر رہا ہے، اسے میں کیا نام دوں اس سوال کے جواب سوچتے سوچتے مجھے یہ تحریر لکھنی پڑی.
میں نے اس ملک کی تاریخ کو دیکھا کہ ایک وردی والے نے مادر ملت کو انتخابات میں دھاندلی کر کے ایک طرف کردیا اور خود حکومت میں آگیا. قائد اعظم ایک پنکچر ہوجانے والی ایمبولینس میں دنیا سے گئے. اس قوم نے اس ظلم پہ کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا. شاید پہلی بار ظلم تھا سو *درگذر* کر لیا گیا. اس کے بعد جمہوریت و اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں دوسرا وردی والا آتا ہے، فیلڈ مارشل کے عہدے پہ فائز یہ شخص واقعی اسلامی ملک کے سربراہ بننے کی تمام تر "خصوصیات" اپنی شخصیت میں رکھتا تھا. شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رفیع رضا نے شہید بھٹو کے بارے میں اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ ہم آمریکی فوجیوں و حکمرانوں کی شاھانہ ضیافت میں تھے، سارے شرفاء اپنی اہلیاؤں کے ساتھ آئے ہوئے تھے، شراب و شباب کی اس محفل میں اچانک آمریکی صدر (یا شاید کسی جنرل) کی نظر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل کی بیوی کے جسم پر پڑتی ہے اور وہ اس کے جسم سے نازیبا حرکات کرنے لگتا ہے لیکن سبز ھلالی پرچم کا محافظ اپنی بیوی کو اس حال میں دیکھ کر چپ رہتا ہے. ہم نے یہ سب اور ون یونٹ وغیرہ کے بارے میں *درگذر* کیا اور آج بھی اس صدر کا نام یاد رکھا ہوا ہے کیونکہ اس کے دور میں مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی.
اس کے بعد دوسرے وردی والے صاحب آئے ان کی آنکھیں لال رہتی تھی، شراب کے نشے میں اتنے دھت رہتے کہ ایک دن کسی ملک کے دورے پر جہاز کو مجبوراً گھنٹوں آسمان میں رہنا پڑا کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نشے ٹوٹیں اور وہ ہوش میں آئیں پھر لینڈ کرے تاکہ استقبال کیلئے آئی ہوئی عوام کو ہمارے صدر کے مذھبی ہونے پہ شک نہ ہو . یہ وہ ہی جنرل ہیں جنہوں نے شہید بھٹو کو ڈھاکہ مذاکرات کیلئے بھیج کر پیچھے ڈھاکہ میں فوج اتاردی تاکہ شہید بھٹو اور مجیب الرحمٰن کو ایک ساتھ اپنی طاقت دکھا سکے، ایک تیر دو شکار! اس کے بعد بنگالیوں کا خون بہایا گیا، ہم نے سوچا کہ شاہین بنگالی چوزوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے لیکن مکافات عمل یہ ہوا کہ ہماری سپاہ کے شاہین، بنگالی مسلمانوں کے خون سے آلودہ اپنی وردیاں پہنے آمریکا کی خیرات کا انتظار کرتے رہے لیکن نہ خیرات آئی نہ بنگال واپس آیا. مگر ہم نے ۱۹۶۵ع کی جنگ میں فتح کو یاد کر کے اس ظلم سے بھی *درگذر* کیا.
پھر شہید بھٹو عرف "اسلام دشمن" اقتدار میں آیا مولویوں نے مصلے بچھالیئے کہ اس "دجال" سے اس "مذھبی" قوم کی جان چھوٹے، مولویوں کی دعا اللہ تعالی کو بھی پسند نہ آئی اللہ (ج) نے ان مولویوں کیلئے ایسا "مسیحا" بھیجا کہ جس نے پاکستان کو داڑھی و بندوق والی مخلوق بنانے کی فیکٹری بنا دیا. دور دور تک صرف لمبی داڑھیاں اور کلاشنکوف نظر آتی تھی. روس کی دشمنی و آمریکا کی غلامی میں یہ "مجاھد اسلام" اتنا آگے بڑھ گیا کہ بھٹو کی شہادت تو کنار، اردن کے بادشاھ حسین بن طلال کے سر پر تاج سجائے رکھنے کیلئے ان صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں اور یہ "بلیک سیپٹمبر" آج بھی اس مجاھد اسلام کے "جہاد" کی یاد دلاتا ہے کہ جس کے بارے میں اس وقت کے فلسطینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ہمارا پوری زندگی میں اتنا خون نہیں بہایا جتنا ضیاء الحق نے سیپٹمبر میں بہایا. مولویوں کا یہ مسیحا خود تو ملعون بن کر جہاز حادثے میں مر گیا مولویوں کو بھی تاقیامت ملعون کرگیا.
ہم نے سب دیکھا اور *درگذر* کیا کیونکہ وہ مرگیا ہے اب اللہ (ج) جانے وہ جانے!
پھر ایک اور جنرل صاحب آئے، آئین توڑا، مرضی کی ترمیمیں کی، افغان مسلمانوں کا خون بہانے کیلئے بلاوجہ اپنے ہوائی اڈے غیروں کو دیئے اور اس ساری آمریکی خدمت کے سلے میں ملنے والا طالبان کے خودکش حملوں، بم دھماکوں، اور ٹارگٹ کلنگ کا تحفہ عوام کو دے کر خود بیرون ملک آسائش کیلئے چلے گئے. عجب بات یہ ہے کہ غیروں پہ اتنے مہربان اس جنرل نے اپنے ہی ملک کے بلوچ لوگوں سے کہا ہم تمہیں ایسی جگہ سے ماریں گے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا. یہ شجاع و دلیر و ملک کے رکھوالے جنرل صاحب کو آج بھی ہم یاد کرتے ہیں کیونکہ وہ زرداری کی جمہوری حکومت سے بہتر تھا. ہمارے یہاں معیارات یہ ہی رہ گئے ہیں کہ سانپ بھیڑیئے سے بہتر ہے کیونکہ بھیڑیا مارتا ہے تو بہت خون نکلتا ہے، جب کہ سانپ ڈستا ہے تو موت آسانی سے ہوجاتی ہے، اتنی تکلیف نہیں ہوتی!
وہ چلے گئے پیچھے وردی والوں کے مارشل لاء کیلئے اس قوم کو تڑپتا چھوڑ گئے. ان کی اور مارشل لاء کی یاد نے اس عوام کو غم سے نڈھال کر رکھا تھا سو پچھلے دنوں ریٹائر ہونے والے چیف صاحب نے جوں ہی منصب سنبھالا تو اس قوم نے اس نئے چیف صاحب کی وہ عزت و تکریم کی کہ باقائدہ ان کے عشق میں مجنوں دکھائی دی. جیسے ایک عاشق اپنے معشوق کی ساری غلطیاں بھول جاتا ہے اس طرح یہ قوم یہ بھی بھول گئی کہ یہ وہ ہی صاحب تھے جنہوں نے ضرب عضب کیلئے پارلیامنٹ کی اجازت لیئے بغیر فوج کو آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا، جو کہ ایک غیر آئینی اقدام تھا. یہ بھی نہ سوچا کہ بیشک آرڈر آمریکا کا ہی چلتا ہے لیکن آپس میں تو مشاورت کر لیں، کیا پارلیامنٹ بیچاری آمریکا جیسے "عزیز" و "دوست صمیمی" کی بات ٹھکرا دیتی؟ وہ تو اچھا ہوا فوج دوپہر کو بیرکوں سے نکلی اور شام کو جھٹ سے پارلیامنٹ کا ھنگامی اجلاس بلا کر پھٹ سے اس آپریشن کی منظوری کا بل پاس کر کے پارلیامنٹ نے اپنی عزت بچا لی ورنہ چیف صاحب نے تو...! بھرحال قوم کو یہ بات شاید یاد نہیں، اسے جیسے ہی پتہ چلا کہ ضرب عضب نامی آپریشن ہونے جارہا ہے تو وہ واٹس ایپ اور فیسبوک کی ڈی پیاں تبدیل کرکے اس چیف کو خراج تحسین پیش کرنے لگی، عشق اسے کہتے ہیں! عشاق نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی کہ جس گندگی کا صفایہ کرنے کی بات آج یہ وردی والے صاحب کر رہے ہیں انہیں کل تک دودہ دلیہ بھی انہی کے ہم منصب کھلاتے رہے. حکم ہوتا ہے بناؤ تو بناتے ہیں، حکم ہوتا ہے مٹاؤ تو مٹاتے ہیں. *البتہ عوام کو بنانے کا نہیں پتہ ہوتا کیونکہ میڈیا "معصوم" وردی والوں پر کبھی انگلی نہیں اٹھاتا سو جب یہ گندگی ان "معصوموں" کے ہاتھوں بن رہی ہوتی ہے تب میڈیا نہیں دکھاتا لیکن جب یہ ہی لوگ گندگی صاف کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں تو میڈیا بھرپور کوریج دیتا ہے.*
پھر اسی چیف کی فوج کے بارے میں مستند انگریزی و اردو اخباروں نے لکھا کہ ان چیف صاحب کی فوج اسرائیل و آمریکا کی افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لے گی، ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہم اسرائیل کو ملک ہی نہیں مانتے تو فوج کی مشترکہ مشقیں کیسے؟. ہم قادری صاحب کا انقلاب اور عمران خان کی امپائر کی انگلی کے پیچھے ایک بہت بڑی "معجزانہ" طاقت کے کارفرما ہونے کی کھوج لگانا بھی بھول گئے.
یہ سب کچھ بھولتے بھولتے یہاں تک آگئے کہ اسلام کے اس "دھشتگرد-مخالف ھیرو" جس کے عشق میں یہ قوم فریفتہ تھی اور شیعہ حضرات تو اس کی تعریف کیئے نہ تھکتے تھے، اچانک سعودی عرب جا کر فوجی خدمات دینے لگ گیا.
سعودی عرب تو "شریف" ملک ہے "اسلامی غیرت" سے سرشار ہے سو شاید ہماری قوم حسب معمول ریٹائرڈ چیف کے اس اقدام پر یہ کہہ کر *درگذر* کرے کہ وہاں جنرل صاحب یمن میں پھنسی ہوئی سعودیہ کی نااھل فوج کو نکالنے نہیں بلکہ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار نے ریٹائرمنٹ کے بعد حرمین شریفین اور مکہ و مدینہ کے پرنور ماحول میں زندگی گذار کر جنت کمانے کا سوچا ہے.
اب آپ ہی بتائیے یہ قوم ان وردی والوں سے *درگذر* کیوں کرتی ہے؟ ان کی تاریخ سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کو اپنا رکھوالا کیوں سمجھتی ہے؟
ڈر کی وجہ سے؟ منافقت کی وجہ سے؟ یا اپنی جہالت کی وجہ سے؟
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.