بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡 💡


💠میں تقلید کیوں کروں💠

(قسط چہارم)

 

گذشتہ قسطوں میں مندرجہ ذیل باتیں دلائل سے ثابت ہوئیں (یاد کیجئے):

۱ *جانشینی لازمی ہے*
۲ *جانشین کتاب نہیں*
۳ *امام (ع) نے اپناجانشین ایک گروہ کو بنایا*.
۴ *امام زمانہ (عج) نے خود غیر معصومین کو اپنا جانشین بنایا*
۵. *وہ گروہ جس کی طرف امام زمانہ (عج) نے اشارہ کیا وہ علماء دین و فقہاء کا ہے*


اس کے بعد بتی اعتراض تھا:
💡💡بتی اعتراض 💡💡

کراچی کی ایک بہن نے جب میری یہ دلیل سنی تھی تو اعتراض کیا تھا کہ
*بھائی اب تک جو روایات آپ نے پیش کی ہیں ہمیں ان سے اختلاف نہیں ہمیں علماء سے روایت لینے میں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں مسئلہ ہے فتوا سے. یہ فتوا دینے کی اجازت مولانا کو کس نے دے دی. کیا ان جیسی "فتوا فیکٹری" آئمہ (ع) کے دور میں بھی تھی کیا فتوا دینے کی اجازت آئمہ (ع) نے دی ہے کسی عالم کو؟*

ٹھیک ہے بہن اللہ (ج) کا لاکھ لاکھ شکر کہ آپ نے یہ مان لیا کہ امام زمانہ (عج) کے بعد دینی مسائل کیلئے علماء ہی سے رجوع کیا جائے. یہ کہہ کر آپ نے ۸۰ فیصد مسئلہ تقلید حل کر دیا. رہ گئی یہ بات کہ کسی معصوم (ع) نے کسی کو فتوا دینے کی اجازت دی ہے یا نہیں. بلکل دی ہے! ایک نہیں بہت سے مقامات پر دی ہے. میں روایات سے ثابت کرونگا لیکن پہلے آپ کی ایک غلط فہمی دور کردوں.
سنی بھائی کہتے ہیں کہ جب کسی مسئلے کا جواب قرآن و حدیث سے سمجھ نہ آئے تو بندہ اپنا دماغ استعمال کرے اور جو اسے سمجھ میں آئے وہ کہہ دے. وہ اس عمل کو اجتہاد کہتے ہیں یعنی اپنا فتوا.
لیکن مکتب اہل بیت (ع) میں ایسے اجتہاد کو باطل کہا گیا ہے آئمہ (ع) کی اس قسم کے اجتہاد پر بہت سی روایات آئی ہیں اور ہمارے غیر مقلد برادران شرارتاً ان روایات کو شیعہ فقہاء کے اجتہاد کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں جس پر صرف ھنسا ہی جا سکتا ہے.😃
عرض کہ جب شیعہ فقیہ یا مرجع فتوا دیتا ہے تو وہ قرآن و حدیث اھلبیت (ع) سے استنباط کرتا ہے *اپنی طرف سے کچھ نہیں بول دیتا* سو فتوا کو یہ مت سمجھیں کہ مجتہد نے اپنے من کی بات کر دی .

*اب آئیے اصل بات پر...*


👇🏼👇🏾👇🏿👇👇🏻👇🏽👇🏾👇🏾
*معصوم (ع) کی طرف سے بعض اشخاص کو فتوا دینے کی اجازت دینا*
☝☝🏻☝🏼☝🏽☝🏾☝🏿☝🏻☝🏻


1⃣ *پہلی مثال سرکار مولا کائنات علی ابن ابی طالب (ع) کی زندگی سے*

نہج البلاغہ میں امیرالمومنین (ع) کے خطوط میں ملتا ہے آپ (ع) نے قشم بن عباس (رض) کو جو کہ ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کے حکمران تھے لکھا:

و اجلس لهم العصرین *فافت* (اور فتوا دو) المستفتی و علّم الجاهل و ذاکر العالم.

یعنی نماز ظہر و عصر کے وقت لوگوں کے درمیان بیٹھو اور *فافت* فتوا دو
ان کو جو فتوا لینے آئیں اور جو نہیں جانتے انہیں علم دو اور جو عاقل ہیں انہیں یاد دلاؤ. (۱)


2⃣ *دوسری مثال سرکار امام جعفر صادق (ع) کی زندگی سے*

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک اصحابی ابان ابن تغلب (رض) جو کہ فقہاء میں سے ایک تھے کو فرمایا:
اجلس فی مسجد المدینة و *افت* (فتوا دو) للناس فانّی احبّ ان یری فی شیعتی مثلک .

مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کیلئے *فتوے* دو، کیونکہ مجھے پسند ہے کہ
میرے اصحاب میں تم جیسے لوگ مجھے نظر آئیں. (۲)

3⃣ *تیسری مثال بھی سرکار امام جعفر صادق (ع) کی زندگی سے ہی*

امام صادق علیہ السلام نے معاذ بن مسلم نحوی سے فرمایا:
بلغنی انک تقعد فی الجامع *فتفتی* للنّاس قلت نعم واردت ان اسئلک عن ذلک قبل ان اخرج انّی اقعد فی المسجد فیجیئنی الرّجل فیسألنی عن الشیی ء فاذا عرفته بالخلاف لکم اخبرته بما یفعلون و یجیئنی الرّجل اعرفه بمودّتکم وحبکم فاخبره بما جاء عنکم و یجیئنی الرّجل لااعرفه ولاادری من هو فاقول جاء عن فلان کذا وجاء عن فلان کذا فادخل قولکم فیما بین ذلک فقال لی اصنع کذا فانی کذا اصنع.

میں نے سنا ہے کہ تم شہر کی جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو *فتوے* دیتے ہو. میں نے کہا: جی ہاں! میں نے بھی یہ سوچ رکھا تھا کہ اس سے قبل کہ میں آپ سے خداحافظی کروں، چاہتا تھا کہ یہ بات آپ سے پوچھوں. میں لوگوں کے دینی مسائل کے جواب دینے کیلئے مسجد میں بیٹھتا ہوں، جب مجھے پتہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا آپ کا مخالف ہے، تو اسے وہ جواب دیتا ہوں جو عام طور پر رائج طریقہ ہے، اور جب معلوم ہو کہ سوال کرنے والا آپ کا محب ہے تو اسے وہ جواب دیتا ہوں جو آپ سے مجھ تک پہنچا ہے اور جب مجھے پتہ نہ ہو کہ سوال کرنے والا آپ کا محبت ہے یا مخالف تو میں آپ کے نظریئے کو دوسروں کے نظریئے کے ساتھ ملاکر پیش کرتا ہوں. کیا میں صحیح کر رہا ہوں؟
امام علیہ السلام فرمایا:
اسی طرح عمل کیا کرو کیونکہ میں خود بھی اسی طرح کرتا ہوں. (۳)

ایسی کئی مثالیں امام رضا (ع) و دیگر آئمہ (ع) کی زندگی سے دے سکتا ہوں.


💡💡فتوا فارمولہ💡💡

*شیعہ مراجع فتوا=*
*قرآن+ اہلبیت*✔

*سنی مفتی فتوا=*
*قرآن+سنت صحابہ+مولوی کے من کی بات*❌

حوالے:
(۱) سید رضی، نهج البلاغہ، خط نمبر 67، فیض الاسلام، نشر آفتاب تهران.

(۲) شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ج 18، باب 11، حدیث نمبر 34

(۳) یہ ہی کتاب یہ ہی باب حدیث نمبر 35


💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

+989199714873
arezuyeaab.blogfa.com
💡💡💡💡💡💡💡💡💡