عجب!
اتنی سخت سزا

 

بھیا ذرا یہ سنیئے! جنگ تبوک روم کے بارڈر پر ہونی تھی، مدینہ سے یہ جگہ ۷۰۰ کلومیٹر دور ہے، حکم ہوا رسول (ص) کا چلو تو اصحاب نکل پڑے.... ۷۰۰ کلومیٹر دور مدینہ سے... اب یہ اعلان جب ہوا تو اس وقت ذرا سا فصلوں کی کٹائی یا شاید کھجور کے پک کر اترنے کا وقت تھا سو کچھ افراد نے رسول (ص) سے عرض کی کہ اجازت ہو تو ہم ایک دو دن بعد نکلیں لیکن آئیں گے ضرور... رسول (ص) نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے!

ان میں سے تین افراد
کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع، اور ھلال بن امیہ روز سوچتے آج نہیں کل جائیں گے یہ سوچتے سوچتے دن گذر گئے یہ گئے نہیں. اتفاق سے تبوک کی جنگ ہوئی ہی نہیں بس محاصرہ تھا سو کچھ دن بعد رسول (ص) بخیر و عافیت مدینہ لوٹ آئے لوگ استقبال کیلئے آئے تو یہ تین لوگ بھی آئے یعنی کعب، مرارہ اور ھلال... رسول (ص) نے ان سے بات تک نہ کی اور اعلان کیا کوئی ان سے بات نہ کرے...
بیویوں نے کہا یا رسول (ص) ہمارے لیئے کیا حکم ہے فرمایا تم بھی ان سے بات نہ کرو...
بھیا اب ذرا سوچیئے دکان پر جاؤ دکان والا بات نہ کرے ، دوست بات نہ کریں، عزیز، احباب حتی بیوی بچے بھی دیکھ کر منہ پھیر لیں... کتنا مشکل ہو جاتا ہے جینا... یہ تین لوگ پچھتاوے کی حالت میں پاگلوں کی طرح مدینے میں اس طرح پھرتے رہے جیسے اجنبی!
کیوں؟
کیونکہ *وعدہ کیا تھا* نبھایا نہیں...
سو اپنی زندگی میں دیکھ لیں کہیں ہم کعب، مرارہ اور ھلال کی طرح تو نہیں... جس چیز کو ہم چھوٹا سمجھتے ہیں قرآن و رسول (ص) اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں... ہم لوگوں کو "ٹوپیاں" (ہم کراچی والوں کی مروجہ زبان میں دھوکہ دینا یا وعدہ کرکے مکرجانا) کراکے فخر کرتے ہیں لیکن یہ قصہ پڑھ کر "ٹوپی کرانے" والوں کی سزا کا پتہ چلتا ہے.

(یہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۸ کی تفسیر میں قصہ ہے اس آیت میں ان تین کی طرف ہی اشارہ ہے)

الاحقر: محمد زکی حیدری