بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ


کربلا میں کیا ہوا

(مقتل کی مستند کتب سے)

(قسط 16)

 
مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے لوگوں کا امام (ع) کو منع کرنا

 

فردق کہتا ہے ساٹھ ھجری سال کو میں اپنی ماں کے ساتھ حج کیلئے مکہ گیا. جب میں مکہ پہنچنے والا تھا تو میں نے ایک قافلے کو مکہ سے خارج ہوتے دیکھا. میں نے پوچھا یہ قافلہ کس کا ہے بولے حسین ابن علی (ع) کا ہے. میں ان کی خدمت حاضر ہوا کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا بات ہے کہ سب مکے کی طرف آ رہے ہیں آپ مکہ سے جا رہے ہیں. آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خدا کی قسم مجھ سے اس طرح کبھی کسی نے تعارف نہیں لیا تھا. میں نے کہا میں عرب ہوں. فرمایا: بتاؤ کوفہ کے لوگ میرے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں. میں نے عرض کی کہ ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں آپ کے خلاف. امام (ع) فرمایا سب کچھ اللہ (ج) کے اختیار میں ہے. اس کے بعد میں نے انہیں دعا دی خداحافظی کی اور ہم جدا ہوئے.
جب آگے گئے تو یحی بن سعید بن عاص کچھ لوگوں کے ساتھ امام (ع) کے پاس پہنچے اور انہیں واپس لوٹنے کو کہا امام (ع) نے ان کی بات نہ مانی اور وہ واپس چلے گئے.
امام (ع) یمن کے ایک قافلے سے ملے ان سے کچھ اونٹ کرائے پر لیئے. اونٹ والوں سے فرمایا کہ اگر تم لوگ ہمارے ساتھ عراق چلو تو ہم تمہیں کرایہ بھی دیں گے خدمت بھی کریں گے. اگر نہیں تو آپ اختیار رکھتے ہیں کہ آدھے سفر سے لوٹ آئیں، ہم آپ کو وہاں تک کا کرایہ ادا کریں گے. لہذا کچھ اونٹ والے آپ (ع) کے ساتھ چلے.

شیخ مفید (رض) کے بقول اس موقع پر حضرت عبداللہ کے دو بیٹے عون و محمد (ع) بھی آپ کے کاروان کے ساتھ ملے. اور اپنے والد کا خط پیش کیا جس میں جناب عبداللہ (رح) نے امام (ع) کو یہ سفر ترک کرنے کامشورہ دیا تھا.

🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
حوالے: 
۱. لہوف سید ابن طاؤس ترجمہ دکتر عقیقی ص: 79

۲. ارشاد شیخ مفید ص:415 سے 417 ترجمہ فارسی محمد باقر بن حسین ساعدی

۳.فارسی ترجمہ نفس المھموم، محدث عباس قمی (در کربلا چہ گذشت) ص215 سے 217

 

💠💠💠💠💠💠💠💠
*التماس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری*
💠💠💠💠💠💠💠💠