جنہیں اپنے ہی بھول جائیں
جنہیں اپنے ہی بھول جائیں
تحریر: محمد زکی حیدری
توپچی نے توپ کو سلطان کے محل پر تان رکھا ہے، سب کے چہروں کا رنگ فک کہ خدا ہی خیر کرے! نہ جانے اس توپچی کو کیا ہوا ہے، ایک لحظے کی دیر ہے، ادھر اس نے ڈور کھینچی اور ادھر سلطان کا محل تباہ اور پھر کیا ہوگا یہ سوچ کر سب پریشان! بالآخر سلطان نے اپنا خاص ایلچی بھیجا جس نے پوچھا کہ اس نے توپ کو طبق فرمان اس مولوی کے گھر پر داغنے کی بجائے محل پر کیوں تان رکھا ہے، اس گستاخی کے کیا معانی ہیں. بڑی عاجزی لیکن اعتماد سے توپچی نے جواب دیا "بیشک مجھے کسی اور کے گھر پہ گولا پھینکنے کا حکم ملا تھا لیکن میں نہیں چاہتا کہ 'دین کے بادشاہ' کا گھر برباد ہو، اگر ہو تو ساتھ میں 'دنیا کے بادشاہ' کا گھر بھی برباد ہو" سلطانِ اودہ، نصیر الدین کو توپچی کے جملے نے شرمسار کیا اور اس نے اس بزرگ عالم دین کے گھر کو توپ سے اڑانے کا حکم واپس لے لیا.
کون تھے یہ عالم دین؟ کیا جرم تھا ان کا؟ یہ تھے آیت اللہ فقیہ ہند سید دلدار حسین نقوی غفران المآب المعروف سلطان العلماء. اور ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سلطان نصیر الدین کے ایک ناجائز فتوے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا تھا اور سلطان نے ان کے گھر کو توپ سے اڑانے کا حکم جاری کردیا.
آپ کہیں گے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں. جی افسوس کہ جنہوں نے سرزمین ہندوستان سے صرف یہ لیا ہو کہ بھئ لکھنو میں جو بڑا امام باڑہ ہے اسے ۵۰ لاکھ دے کر آصف الدولہ نے اس طرح بنوایا کہ ایک کونے میں تیلی جلاؤ تو اس طولانی بارگاہ کہ دوسرے کونے تک تیلی جلنے کی آواز صاف سنائ دیتی ہے، یا پھر یہ کہ بڑے امام باڑے میں بھول بھلیاں ہے، یا پھر جنوں والا تاریک دالان، پنجہ شریف... اچھا شخصیات کو یاد کرنے بات آئے تو ہم نے صدر جہاں بیگم نے فیض آباد میں بڑا امام باڑہ بنوایا، آصف الدولہ کی ماں بہو بیگم نے ایک لاکھ نقدی کربلا میں حرم کیلئے بیجھی، آصف الدولہ نے کوفہ سے نجف تک نہر بنوائی...علمی حلقے کی بات کریں تو میر تقی میر سے لے کر جون ایلیا تک کے نام، ان کی کتب، ان کے کلام کے نمونے بھی پیش کر جاتے ہیں... حاکم، امراء، شعرا، عمارتیں و امام باڑے و علم و شبیہاں و ضریحاں و بزرگ خواتین و حضرات کے مولا (ع) کے عشق میں دیئے ہوئے ھدیے... میں ہر گز ان کے خلاف نہیں، مولا انہیں ضرور اجر دیں گے. لیکن عرض کہ ہم اس سے بھی اہم باب کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں، جو ان تمام ابواب کا سرچشمہ ہے اور وہ باب ہے "فقہاء و علماء ہندوستان"
ہمیں نہیں پتہ کہ یہ سید اولاد زھرا (س) بنام سید ابوالقاسم حائری نے "لوامع التنزیل" نامی ایک تفسیر لکھی جس کے بارے میں عظیم ایرانی مرجع آیت اللہ مرعشی نجفی نے فرمایا تھا کہ اگر یہ چھپتی تو اس کی جلدیں بحارالانوار کی ۱۱۰ جلدوں سے بھی تجاوز کر جاتیں، ہمیں علم نہیں کہ جب اودہ پر امجد شاہ کو حکومت ملی تو اس نے کہا میں کیسا حاکم، حکومت امام مہدی (عج) کی ہونی چاہیئے، لھذا اس نے حکومت آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کو پیش کردی اور قبلہ ولی فقیہ بنے اور امجد علی شاہ وزیر اعظم. ساری ریاست کے سنی شیعہ اپنے فقہی و سماجی و قانونی و اقتصادی و... امور کے سلسلے میں سلطان العلماء کی محضر میں پیش ہوتے اور وہ بخوبی ان کے مسائل حل فرما دیا کرتے. ہمیں یہ نہیں پتہ کہ انگلستان کی استعماری حکومت کو اس بزرگ کے ایک فتوائے جہاد کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا؛ جدید اسلحے سے لیس انگریزی فوج کو شیعوں نے ایک سال تک اودہ سے دور دھکیلے رکھا، ولی فقیہ سے ظالم کب جیت پاتا ہے، لھذا متعدد بار اس مجتہد عظیم کی فوج نے انگریز کو لکھنو اور اودہ سے دور بھگایا. لیکن آخر کچھ غداروں کی وجہ سے انگریز کامیاب ہوا، تاراجی شروع ہوئ، امجد شاہ کنبے سمیت قید ہوئے، ظلم و ستم کے مدنظر علماء نے کربلا کا رخ کیا لیکن سلطان العلماء نے آًخر تک سرزمین ہند سے ساتھ نبھایا اور اسی مٹی میں سکون کی نیند سو گئے.
یہ ہندوستان کے بحر بیکرانِ علم سے ایک قطرہ تھا جو میں نے لیا ابھی ۱۵۰ کتب کے مولف شہید ثالث قاضی آیت اللہ نور اللہ شوستری کا ذکر رہتا ہے کہ جنہیں بادشاہ وقت نے لاہور کا قاضی مقرر کرنا چاہا تو متعصب اہل سنت نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ قاضی صاحب تو شیعہ ہیں، فقہ حنفی کے مسائل پر کیسے فتوا دیں گے جس پر قاضی صاحب نے فرمایا میں نے فقہ جعفریہ کے علاوہ موجودہ چار نامور فقہیں پڑھی ہوئی ہیں،حنفی آیا تو فقہ حنفی سے؛ شافعی آیا تو شافعی سے؛ حنبلی آیا تو فقہ امام حنبل سے؛ مالکی مسلک سے مسئلہ آیا تو مالکی مسلک کے قانون کے مطابق جواب دونگا. ابھی ۷۰ کتابیں لکھنے والے شہید رابع مرزا کامل دہلوی کا ذکر رہتا ہے، ابھی غفران المآب کے بیٹوں حسن، حسین مہدی کے علمی کارناموں کا ذکر باقی ہے، ابھی کنتوری خاندان کے مجتھدین بشمول ناصر الملت کا تعارف باقی ہے، ابھی لاہور کے حائری خاندان اجتہاد کا ذکر باقی ہے ابھی ابھی ابھی...
سفینہ چاہیئے اس بحر بیکران کیلئے.
افسوس! ہم پاک و ہند کے جوان نجف و قم و شام و لبنان و ... کے علماء کی سوانح حیات تو پڑھتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی اپنی زمین سے تعلق رکھنے والے آیت اللہ کی سوانح حیات کے بارے میں پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے. اسی لئے کہتے ہیں جنہیں اپنے ہی بھول جائیں تو غیروں سے کیا گلا...
www.fb.com/arezuyeaab