آزمائش

آزمائش

 

تمہاری جنس کی عورتیں

تمہاری جنس کی عورتیں

 

اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کرو

اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کرو

ولایت، ولی اور موالی

 

 

ولایت، ولی اور موالی

تحریر: محمد زکی حیدری



بھیا بات ہے پہچان کی، سونے کی پہچان لوہار کو نہیں، لوہے کی سونار کو نہیں! اسی طرح الفاظ کی پہچان بھی کسی کسی کو ہوتی ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لفظ ولایت کو ہی لے لیجئے، کسی عام پینڈو سے پوچھیں گے تو وہ اس کی معنٰی کرے گا پردیس کی، بیرون ملک کو "ولایت" کہتے ہیں، بھئی چودھری صاحب کا بیٹا ولایت گیا ہے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے! اسی طرح اس سے اگر ولی کا معلوم کریں گے تو وہ آپ کو پڑوس میں جو درگاہ میں دفن بزرگ ہستی ہے، اس کی طرف اشارہ کرے گا اور موالی کی معنی پوچھیں گے تو وہ آپ کو کسی ڈیرے پر لے جائے گا، جو لوگ نشہ آور چیزوں کے عادی ہوں گے، وہ دکھا دے گا کہ جی ان سے ملیئے، یہ موالی ہیں۔ الطاف چرسی، اس موالی کا نام ہے صدیق بھنگی، اور وہ کونے میں آفیم کا موالی مشتاق پاؤڈری وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ ہے عام، محدود و بالائی و ظاہری و سطحی نگاہ سے چیزوں کا نظارہ کرنا، ایک زاویے سے چیز کو دیکھنا، جو عام ہو۔ ان کی روح سے پردہ نہ اٹھانا، سرسری نگاہ کرنا، انگریزی میں کہتے "سپرفیشل لک" Superficial look))۔۔۔  یہ اس طرح ہے جیسے کتاب کی جلد کو دیکھ کر اس کا تکہ لگانا، اندازہ لگانا کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوگا اور یہ ہے عام آدمی کی عادت! عاقل کبھی جلد سے کتاب کا اندازہ نہیں لگاتا، اس کی نظر الگ ہے، ایک باشعور انسان جس طرح سے چیزوں کو لیتا ہے تو اس کا زاویہ ہی الگ ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو عام انسان کو محض ایک معمولی سی چیز نظر آرہی ہوتی ہے، وہ اسے غیر معمولی بنا کر پیش کر دیتا ہے۔

اسلام میں ولایت کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں، کیا ہے ولایت کہ جس نے اسلام کی دو شاخیں بنا دیں، سنی شیعہ! آخر ہے کیا ولایت؟ ہم تو بھیا اسے بیرون ملک سمجھتے ہیں۔ نہیں! ولایت ایک ملک نہیں، ولایت ایک جہان ہے، اگر اس کی روح سے پردہ اٹھاؤ تو معلوم ہو۔ اچھا بھئی اب بتا بھی دیں کہ ولایت کسے کہتے ہیں؟ ولایت کا مطلب ہے، اپنی مرضی ولی کو سونپ دینا، اپنے آپ کو اٹھا کر ولی کو پیش کردینا، اپنے آپ کو سونپ دینا، ولی کے سپرد کر دینا کہ صاحب اب میری سوچ بھی تمہاری مرضی کے مطابق، میری گفتار، میرا کردار، میرا عمل، میری حرکات، میری سکنات سب تمہاری مرضی سے ہوں گی، میری مرضی میں نے تمہیں دے دی! یہ ہوئی ولایت! اچھا آپ نے مرضی دی آپ بن گئے موالی، جس کو مرضی سونپی آپ نے وہ بن گیا ولی یا مولا! اب آئیں موالیوں کا تعارف کرواتا ہوں میں آپ کو۔ سب سے پہلا موالی اسلام میں ہے محمد (ص)! پہلا موالی جس نے اپنے مولا اللہ (ج) کو اپنی مرضی سونپ دی، جا کر اپنی مرضی اللہ (ج) کی گود میں ڈال دی کہ لو جو تمہاری مرضی وہ میری، تم مولا میں موالی!

اچھا محمد (ص) کو موالی بنتے دیکھا تو علی (ع) بھی صحبت میں آ کر موالی بن گئے! دیکھئے صحبت کے اثر میں موالی بننے کا نیا انداز! موالی کا دوست موالی۔۔۔ اپنی مرضی لی اور لے جاکر  محمد (ص) کی گود میں ڈال دی کہ لو میری مرضی اب نہیں، اب سے تمہاری مرضی! ولایت کا نشہ، علی (ع) نامی یہ موالی چور ہے ولایت محمدی  کے نشے میں۔ محمد (ص) نے کہا ایسے نہیں چلے گا ثابت کرکے دکھاؤ، زبانی دعویٰ کافی نہیں، ثابت کرو کہ واقعی موالی بن گئے ہو، تب دنیا کو بتاؤں گا، تب سند دوں گا موالی کی، جب اس موالی نے حقیقی موالی بن کر دکھا دیا تو قبل اس کے کہ محمد (ص) اسے سند دیتے بڑے مولا اللہ (ج) نے اپنے محمد (ص) نامی موالی کو آواز دی کہ اے محمد! اپنے موالی کا اعلان کر دو، اگر نہیں کیا تو سمجھو تم نے موالی ہونے کا حق ادا نہیں کیا ۔۔۔ محمد (ص) نے ہاتھ اٹھا کر کہا دیکھو، جس جس کا میں مولا ہوں، اس کا میرا یہ موالی علی (ع) مولا ہے! علی (ع) موالی تھے، غدیر کے دن مولا بن گئے۔ یہ ہے غدیر!

موالی!!! کیا سمجھتے ہو موالیوں کو، دنیا کو جینا سکھا گئے! انسانیت کو انسانیت سکھا گئے اور حضور اب آپ ہی کہیئے کتنا جاہل ہوگا وہ انسان جو کہے کہ جس شخص نے ان موالیوں کی پالنا کی وہ کافر! محمد (ص) اور علی (ع) جیسے موالیوں کو جس ابو طالب (ع) نے پال کر بڑا کیا، اسی ابو طالب کو (نعوذباللہ) کافر کہتا ہے یہ! یہی تو جھگڑا ہے!!!  ذرا غور فرمائیں یہ وہی جاہل پینڈو، یہ وہی جاہل دیہاتی ہے، یہ وہی جاہل بدو ہے، جس نے 1400 سال پہلے الفاظ  کو بالائی سطح سے، سرسری نگاہ اور سپر فیشلی دیکھنا شروع کیا تھا، اس وقت اس نے ابو طالب (ع) کو (نعوذباللہ)  کافر کہا کیونکہ اس کے پاس لفظ ایمان کی معانی صرف زبانی اقرار تھی۔۔۔ اور آج اس کی اولاد ہے کہ الفاظ پر سرسری نگاہ ڈال کر ان کی معانی کرتی ہے، ولایت کو بیرون ملک سمجھتی ہے، موالی کو نشئی اور مست ملنگ کو ولی کہتی ہے۔۔۔

خیر وہ تو ٹھہرا جاہل! علی (ع) کو مولا ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہم، کیا ہم اس سے الگ ہیں؟ کیا ہم حقیقی موالی ہیں؟؟؟ ہم نے موالی ہونے کا حق ادا کیا؟ دعویٰ کرتے ہیں موالی ہونے کا، قسم کھا کر بتائیں کہ کیا ہم نے اپنی مرضیاں علی (ع) کی گود میں ڈالیں؟ ہم نے اٹھا کر خود علی (ع) کے سامنے پیش کیا کہ مولا یہ لیجئے میری مرضی آپ کی خدمت میں، جو آپ کہیں میں کروں گا، میری کوئی مرضی نہیں، لایئے یہ قرآن، لایئے یہ نہج البلاغہ، ان میں جو جو آپ کی مرضی  درج ہے، میں اسی پر عمل پیرا ہوں گا، میں کچھ  نہیں بس آپ کا جو حکم! آپ کی مرضی سے نوکری کروں گا، سود والی نوکری نہیں کروںگا، آپ کہیں گے رشوت نہیں تو مولا نہیں، آپ کی مرضی سے شادی کروں گا۔

اخلاق دیکھوں گا لڑکی میں، دولت نہیں، جہیز کی شرط نہیں رکھوں گا لڑکی والوں سے! آپ کی مرضی کے مطابق اولاد کی تربیت کروں گا، نہیں گانے نہیں، انڈین چینلز نہیں، موسیقی نہیں، اولاد کو نمازی متقی بناؤں گا، شہید عارف حسین الحسینی، شہید  محمد علی نقوی کے قصے سناؤں گا، عزادار بناؤں گا، بیٹے کو شہید سبط جعفر زیدی، بیٹی کو بنت الہدیٰ بناؤں گا، مولا بس آپ کی مرضی، میں آپ کا موالی۔۔۔ !!! ایسا کیا ہم نے عزیزو؟ ایسا نہیں کیا تو خود کو جب موالی سمجھیں تو اس کی معانی بھی وہی لیں، جو اس جاہل نے لئے کہ موالی مطلب نشئی، اور یاد رہے، یہ وہی ہے جس کا باپ علی (ع) کے باپ کو کافر کہتا تھا۔ تو بھیا اب ہم نے کون سا موالی بننا ہے، جو علی (ع) کی نظر میں موالی ہو یا جو اس جاہل عام آدمی کی نظر میں موالی ہو۔ فیصلہ ہم پر ہے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab

یہ کیسا باپ ہے!

 

یہ کیسا باپ ہے!

تحریر:محمد زکی حیدری

 

جناب کہتے ہیں کہ قدیم مصر میں ایک شخص تھا، اس نے شادی کی مگر اسے اولاد نہیں ہوئی بیوی اچھی خاصی مالدار تھیں اما صاحب اولاد ہونے میں اپنے شوہر کی مدد نہ کرپانے کی بات کو لیکر بڑی مشوش رہتی، آخر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ مصر کے بادشاہ کی طرف سے دی ہوئی ایک کنیز جو اس کے گھر کے کام کاج کرتی ہے، کو اپنے شوہر کو بخش دے اور اس سے عقد کر کے وہ صاحب اولاد ہو جائے، لہذا اس خاتون نے ایسا ہی کیا ور اپنی کنیز اپنے شوہر کو بخش دی، جب عقد ہوا تو بہت جلد اس کنیز سے اس شخص کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس شخص کی زندگی میں تو خوشیوں کی بہار سی آگئی مگر وہاں اس کی مالدار بیوی نے حکم جاری کیا کہ اس کنیز کو بمع اس کے بیٹے کسی دور افتادہ مقام پر چھوڑ آئے کیونکہ وہ ان دونوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتیں!عجب! اس شخص نے بجائے انکار کے اپنے نومولود اور بیوی کو لیا اور مصر سے دور ایک سنسان، سنگریلی بے آب و گیاہ زمین پر چھوڑنے کی غرض سے سفر شروع کیا۔ مقام مقصود پر پہنچ کر اس شخص نے اپنے نومولود اور بیوی کو اس ویرانے میں اتارا اور جب خود سواری سے اترنا چاہا تو اسے اپنی بیوی کی بات یاد آئی، اس کی بیوی نے اس شخص کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ سواری سے اترے بغیر واپس مصر آجائے لھذا اس شخص نے ایسا ہی کیا بغیر اترے واپس جانے لگا۔ نومولود بچے کی ماں نے آہ بکا کی اور لاکھ جتن کئے کہ آپ ہمیں یہاں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں، میں تو میں اس نومولود کا کیا قصور کہ اس موت کی گھاٹی میں سسک سسک کر جان دے، دامن گیر ہوئی، سواری کی رقاب تھام لی کہ نہیں جانے دے گی۔ اس شخص نے اس عورت کی ایک بھی نہ سنی اور واپس مصر کوچ کیا۔ اللہ اکبر یه کیسا باپ ہے!

دوپہر کا وقت ہوا چاروں طرف آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ اور ان کے درمیاں گرم سنگریلی زمین پر ایک ماں اپنے نومولود کو گود میں لیئے موت کی منتظر ہے، دور دور تک انسان تو انسان پرند و چرند تک کا بھی کوئی نام و نشان نہیں، ماں پریشان، ماں حیران، ماں افسردہ، پہاڑیوں کے بیچ میں دوپہر کا سورج اپنی آب و تاب سے چمکنے لگا اور اس نے اس پتھریلی زمیں کو جہنم کے جیسا گرم کر دیا۔ جو تھوڑا سا پانی لائی تھی وہ ختم ہو چکا ، پستان میں دودہ کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں ، بچہ پیاس کے مارے چیخنے لگتا ہے! کیا کرے؟ سامنے ایک پہاڑی کی طرف دوڑتی ہے شاید کہیں کوئی پانی کا قطرہ میسر آجائے کہ نومولود کی حلق کو گیلا کر سکے مگر نہیں پہاڑ اور اس کے عقب میں بھی دور دور تک پہاڑہی پہاڑ، اتری اس پہاڑ سے، دوسرے پہاڑ کی جانب دوڑ لگائی لیکن مایوسی ۔۔۔! سمجھ گئی کہ اب اوپر والا ہی کچھ کرے تو کرے اس کے بس میں پانی کا انتظام کرنا ناممکن ہے! تھک ہارکے بیٹھ  گئی خود بھی پیاس کے مارے مرنے کو تھی کہ نومولود نے ایڑیاں رگڑیں اور یہ ادا خداوند متعال کو اتنی پسند آئی پانی کا چشمہ جاری ہوا۔۔۔

جی! آپ نے درست سمجھا میں کسی عام باپ کی ، کسی عام ماں کی، کسی عام نومولود کی نہیں بلکہ بت شکن حضرت ابراہیم (ع) اس کی مجاہدہ بیوی حضرت ھاجرہ (س) اور اسماعیل (ع) ہی کی بات بیان کر رہا ہوں۔ وہ سنگریلی زمین مکہ کی وادی تھی، اور بے اولاد زوجہء ابراہیم (ع) کا نام تھا سارہ (س)! بالقصہ اسماعیل (ع) کے اعجازنبوت سے زمزم جاری ہوا تو آس پاس کے پرندوں کے جھنڈ اس طرف آنے لگے، یہ دیکھ کر مکہ کے مضافات میں رہنے والے قبیلے جرہم کے کچھ لوگ اس طرف متوجہ ہوکر مکہ آئے اور بیبی (س) کی اجازت سے وہاں سکونت اختیار کی ، ہاجرہ (س) نے انہیں اپنی روداد سنائی، ابراہیم (ع) بھی کبھی کبھار ان کے یہاں سے چکر لگا لیا کرتے تھے۔

یہ ہے ھاجرہ (س)۔۔۔! اور دیکھیئے یہاں بیٹا سنِ بلوغت کو پہنچا وہاں سے وہی باپ جو اسے بچپن میں بیابان میں چھوڑ گیا تھا، چھری لے کر آگیا، بولا چلو بیٹا گردن کاٹنی ہے تمہاری! ارے۔۔۔! ہاجرہ (س) اٹھو دیکھو تو تمہارے شوہر کے کام! کوئی اور عورت ہوتی تو اٹھ کھڑی ہوتی کہتی کہ میاں دیا ہی کیا ہےتم نے؟ ہیں؟ تمہاری لاڈلی بیوی کے تو بچہ ہوا ہی نہیں، شکر کرو میں نے تمہارے  نرینہ اولاد جن کر دی، اور اس کا سلہ یہ دیا کہ ویرانے میں پھینک کر آ گئے؟ اور اب جب خون پسینہ بہا کر میں اسے پال پوس کر بڑا کیا تو آگئے کہ گردن کاٹنی ہے! بھیڑ بکری سمجھا ہے اسے؟ میرا لخت جگر ہے! ارے کرامتوں والا میرا لاڈلا جس کی کرامت سے چشمہ جاری ہوا اس کی گردن کاٹنے چلے ہو کیسے باپ ہو تم۔۔۔؟ لیکن نہیں! یہ ہاجرا (س) ہے! ظاہر کی نہیں باطن کی آنکھوں سے دیکھتی ہے، اللہ (ج) کا منتخب نبی جب کہہ رہا ہے تو بس! اللہ (ج) اور بس بات ختم! یہی وجہ تھی کہ اللہ (ج) نے بھی ہاجرہ (س) کو عزت بخشی کہ کوئی کتنا بھی بڑا پھنے خان ہو حج پر جائے گا تو اس ہاجرہ (س) کے قدموں پر قدم رکھ کر نہیں دوڑے گا حاجی نہیں کہلائے گا۔

میری ماؤں، بہنو! اللہ (ج) اپنے بندوں کو آزماتا ہے،آپ جب تکلیف میں ہوں تو ھاجرہ (س) کو یاد کریں، ہاجرہ (س) اور اس کے نومولود کا عکس اپنے ذہن میں لائیں، بیابان کو یا د کریں، پتھریلی، تپتی زمین و تنہائی و بے سر و سامانی۔۔۔! اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو آپ کے اندر استقامت و صبر پیدا ہوگا آپکو آپکی تکلیف ناچیز محسوس ہوگی اور دوسری بات یہ کہ اس تکلیف کے بعد آنے والے  الہٰی انعامات کی امید آپ کے اندر پیدا ہوگی، کیا ایسا ہو سکتا ہے اللہ (ج) آزمائے اور اس آزمائش میں کامیابی پر انعام سے نہ نوازے؟ نہیں ایسا نہیں ہوتا لہٰذا آج اگر آپ کو اپنی زندگی مکہ کی سی گرم وادی کی طرح محسوس ہو رہی ہے پھر بھی آپ اللہ (ج) سے پر امید ہیں، تویقین جانئے کہ اللہ (ج) آپ کی زندگی میں زم زم جاری کرنے والا ہے، آپ کے قدموں کے نشانات پر دنیا بھر کے انسانوں کو چلانے والا ہے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab

arezuyeaab.blogspot.com

یار دشمن پلیز!

 

یار دشمن پلیز!

تحریر: محمد زکی حیدری

شیعان دنیا شھادت "دے" رھے هیں اور پاکستان کے شیعوں سے دشمن زبردستی شھادت "لے" رھا هے. مقاومت کی ایک تحریک کے زیر سایه میدان میں دشمن کے خلاف شعار حق بلند کرتے هوئے مرنا الگ بات هے مسجد میں نماز پڑھتے یا بازار میں اپنا کاروبار کرتے هوئے مرنا الگ بات هے. وه الگ بات هے که شھید بیشک دونوں هیں (اس فقرے کو ضرور ذھن میں رکھیں).

هم نے کوئی عسکری تنظیم نھیں بنائی, هم نے سید حسن نصرالله کی طرح دشمن کو کبھی یه نھیں کها که تم نے همارے 2 مارے تو هم چار ماریں گے... نھیں هم نے ایسا نھیں کها نه همارا ایسا کهنے کا کوئی پروگرام هے. همارا لڑنے کا یا اپنے شھداء کا بدله لینے کا کوئی پروگرام نھیں, همارا لڑنے کا جنگ کرنے کا کوئی موڈ نھیں هے (شاید کوئی کهے که همارا شھید هونے کا بھی کوئی موڈ نھیں هے) هم نے کربلا سے ایسی ٹائم ضایع کرنے والی چیزیں نھیں لیں, یا ایسے قول کو علمی جامه نھیں پهنایا که ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بھتر, هم نے کربلا سے عزاداری لے لی وه بھی اتنی اچھی که خود استعمار کی ایجنٹ ظالم حکومت همیں گلیاں و سڑکیں  صاف کر کے دیتی هے که لو عزاداری کرو, بجلی بھی کوشش کرتی هے که بلاتعطل فراهم کرے, وردی والے بھی دیتی هے که کرو عزاداری. هماری عزاداری سے هم نے کبھی ایسا پیغام نھیں دیا که جس سے لگے که هم ظلم کے خلاف کوئی بھت بڑا لائحه عمل رکھتے هیں, هم نے ایسا کچھ بھی نھیں کیا لیکن پھر بھی هم مسجد میں جاتے هیں بمب پھٹتا هے شھید هوجاتے هیں, دکان پے بیٹھے کاروبار کر رھے ھیں بمب پھٹتا هے شھید. ..

 

یار دشمن پلیز! کیا هم ایرانی قوم هیں؟؟؟

کیا هم نے حزب الله (لبنان) بنائی ؟؟؟

کیا هم نے حزب الله (نائیجریا)  کی طرح کوئی تنظیم بنائی؟؟؟

کیا هم شریف لوگوں نے انصارالله طرز کی کوئی تنظیم, یا عراقی مقتدی صدر کی جیش المھدی طرز کی کوئی تنظیم بنائی یا کبھی شیخ نمر کی طرح همارے کسی لیڈر نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولا؟

چلو سب چھوڑو یه بتاؤ کیا هم متحد هیں? همارے تو قائدین بھی چار هیں, یار کسی بے وقوف سے بھی پوچھو تو وه آپ کو بتائے گا که همارے کسی طرز عمل یا تحریک سے یه ثابت نھیں هوتا که هم لڑنے کا یا مر مٹنے کا کوئی اراده رکھتے هیں. هم تو صرف اپنے لیڈروں کی شھادت پے باھر نکلتے هیں یار کیا اب اتنا بھی حق نھیں همیں...

یار اتنا تو بھائی بندی میں چلتا هے دنیا کو بھی منه دکھانا هے اب اتنا بھی نھیں کریں گے تو لیڈری کو زنگ لگ جائے گا. چلو اگر آپ کو یه بھی نھیں پسند تو اس پے بھی هم سوچیں گے جیسے حال هی میں هم نے ایک ریلی ملتوی کی هے انشاء الله آگے بھی ھر قسم کا تعاون کریں گے ... یار دشمن بھائی هم غریب شریف لوگ هیں یار پلیز یار  همیں چھوڑ دو همیں نا مارو پلیز.

 

www.fb.com/arezuyeaab

هم سب سے آگے تھے!

هم سب سے آگے تھے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 

جو سبقت کرنے والے هیں ان کی عزت ھوا کرتی هے. قرآن نے بھی یه کها هے. لیکن صرف اس صورت میں جب  سبقت لینے والا اس سبقت پر باقی رهے.  انقلاب اسلامی ایران بقول امام خمینی (رح) "یک انفجار نور بود"  یعنی نور کا ایک دھماکه تھا انقلاب اسلامی.

امام کی مثال عجیب هے, نور کا چراغ کهه دیتے, نور کی مشعل کهه دیتے, نور کا مینار کهه سکتے تھے لیکن عجیب سا لفظ استعمال کیا انفجار "دھماکه". میری ناقص سوچ کے مطابق شاید امام نے یه لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکه جب دھماکه ھوتا هے تو چیزیں بھکرتی هیں. کیمیکل بم کا دھماکه هوتا هے تو کیمیکل و ذرات دور دور تک بکھر جاتا هے. اسی طرح نور کا دھماکه هوگا تو نور پھیلے گا گویا امام عندیه دے رھے هیں که یه مت سمجھو که یه انقلاب صرف ایران تک محدود رھے گا یه ایک انفجار نور هے, نور کا دھماکه هے جس کی وجه سے پوری دنیا میں نور دور دور تک پھیلے گا.

هم پاکستانی خوشنصیب تھے که امام کے فرزند شھید عارف حسین الحسینی نے ساری دنیا کےممالک سے پهلے, ساری دنیا کے مذھبی شیعه رھنماؤں پر سبقت لیتے هوئے امام کے لفظ "انفجار" کی عملی تشریح کی. ایک عظیم جدوجھد کا آغا کیا پاکستان میں که دشمن حیران ره گیا. هم نے سب سے پهلے نور انقلاب اسلامی کی کرنوں کو اپنے ملک میں پهیلتے دیکھا, هم سست نھیں تھے, هم سب سے چست تھے وهاں انقلاب ایران آیا یهان سے همارے شھید نے طبل جنگ بجایا. هم سابقون میں سے تھے.

أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ

بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں (مومنون 21)

قرآن نے سابقون یعنی سبقت حاصل کرنے والوں کی تعریف کی. یه همارا کل تھا....

آج هم نائجیریا سے پیچھے هیں, عراق سے پیچھے هیں, شام سے پیچھے هیں, لبنان سے پیچھے هیں, یمن سے پیچھے هیں, بحرین سے پیچھے هیں حتی که اب ھندوستان و آذربائیجان جیسے ممالک بھی هم سے سبقت لئے جا رھے ھیں.

هم آگے کیوں تھے , همیں آگے لے کر کون چل رها تھا, همیں گھر سے نکال کر ساری دنیا پر سبقت دلانے والا کون تھا ایک ساده سا غریب عمامے والا... اور اب سوچئے همیں پشت پے ڈالنے والا, اس دوڑ میں همین دنیا سے پیچھے دھکیلنے والا کون هے. ؟؟؟

 آج هم هیں ریوڑ چرواھے کے بغیر, کشتی نا خدا کے بغیر... کشتی کے مسافر جتنے بھی منزل کے عاشق هوں, جتنے بھی منزل سے وفادار هوں, منزل پر پھنچنے کیلئے بے تاب هوں لیکن اگر ناخدا میٹھی نیند کے خراٹے لے رها هو تو مسافر کچھ نھیں کرسکتے سوائے اس کے که چیخیں چلائیں, ناخدا کو خدا کا واسطه دے که کهیں که بھت هوا اب تو جاگ جاؤ. وه کشتیاں جن پر همیں سبقت حاصل تھی منزل کے کتنے قریب هیں, باقرالنمر کے سعودی عرب والی کشتی هم سے آگے نکل گئی, زکزاکی کی کشتی منزل کے قریب هے, لبنان والی کشتی منزل کو پهنچ گئی, یمن والی کشتی, شام, عراق.... اور هم هیں که سب سے آگے تھے مگر سب سے پیچھے ره گئے. اب هم سابقون نھیں. شھید عارف حسینی مرحوم کا دیا هوا عظیم لقب هم نے گنوا دیا.

 

www.fb.com/arezuyeaab

هم ایک ھستی کو بھول تو نهیں گئے!

 

هم ایک ھستی کو بھول تو نهیں گئے!

تحریر: محمد زکی حیدری

 

مجالس میں اھل بیت (ع) کی کریمی کا سن کر کبھی کبھار میرا دل کرتا هے که میں ایک عالم دین کو دعوت دوں اور انهیں عرض کروں که مولانا صاحب! بات یه هے هم پوری زندگی الله (ج) کے عاشقوں کا سنتے رهے ذرا همیں بتائیں همارے معشوقوں کا معشوق (ج) کیسا هے... کیسا هے وه (ج) که جو نافرمانوں کو بھی اپنی نعمات سے نوازتا هے. کیسا هے وه جس نے محمد (ص) کو بنایا ... علی (ع) کو بنایا ... اتنی فکر کیوں هے اسے هماری ... همیں کهتا هے نماز پڑھو بھت بھت بھت کهتا هے!  هم نهیں مانتے لیکن گھر جاتے هیں کھانا همارے لئے تیار رکھا هوتا هے. رزق بند نهیں کرتا!

مولانا صاحب همیں اس کا ذکر سنائیں جس نے همارے باپ کے نطفے کے ایک قطرے میں موجود کروڑوں جرثوموں سے صرف ایک کو منتخب کیا , جو هماری مادر کے رحم میں گیا اور هم پیدا هوئے اور باقی جرثوموں کو ضایع کردیا.

همیں آنکھیں دی ان میں 26 کروڑ آئی رسیپٹرز یعنی چھبیس کروڑ چھوٹے چھوٹے بلب لگے هوئے  هیں, اور انهیں دماغ کے ساتھ پتلی وائرنگ کے ذریعے جوڑ رکھا هے, هم سے کهتا هے اس کا بل کوئی نهیں ... کچھ نه دو ان بلبوں کا بل, بس ان آنکھوں سے فحشات نه دیکھنا لیکن هم نے تو دیکھے! مگر اس کے باوجود اس نے هماری آنکھوں کے بلب جلائے رکھے.

مولانا صاحب ! اپنی مجلس میں همیں بتائیں که آخر مختلف ذائقوں کا مزه لئے بغیر بھی تو زندگی ممکن تھی, پھر اس کریم رب نے هماری زبان کے اندر ھزاروں ٹیسٹ بڈز عرف ذائقه بتانے والے چھوٹے چھوٹے نوکدار نرم کانٹے  کیوں بنائے اور انهیں پوری زبان کی سطح پر اس طرح پھیلا دیا که جب میٹھی چیز زبان کو لگے تو مٹھاس بتانے والے یه بڈز حرکت میں آئیں اور جا کر دماغ کو بتائیں که اس چیز کا ذائقه میٹھا هے .. کیوں؟؟؟ کیا ضرورت تھی؟؟؟ ایک هی ذائقه هوتا تو کیا فرق پڑتا لیکن لگتا هے یه سب اس (ج) نے هماری محبت میں کیا ... کیوں پیار کرتا هے هم سے وه اتنا ... 

پھر ناک کو منه کے اوپر هی کیوں رکھا؟؟؟  ناک کو صرف سانس لینے کیلئے هی بنایا تھا تو کهیں بھی اسے رکھ دیتا منه کے اوپر هی کیوں. شاید اس لئے تا که قبل اس کے که زبان کسی گندی چیز کو رد کرے اور اس وقت تک زبان میں اس کثیف چیز کے جراثیم پھیل جائیں, ناک منه کے اوپر رکھ دی که ناک اس چیز کی بدبو سے هی اسے رد کردے. وه اتنا خیال کرتاهے که  اس کے بندے کے پیٹ میں ایسی چیز جائے جو خوش ذائقه بھی هو اور خوشبودار بھی هو, اگر ناک اس کھانے کی چیز کو قبول نه کرے اور  رد کردے تو منه میں جانے سے پهلے هی اس (ج) کا بنده وه چیز چھوڑ دے اور اسے کھا کر جو نقصان هو اس سے بچا رهے.

اس کے علاوه ناک میں کوئی چیز یا گرد و غبار کے ذرات چلے جائیں تو قبل اس کے که وه گندے ذرات اس (ج) کے بندے کے پهیپھڑوں میں داخل هوں اس کریم نے چھینک کا نظام رکھ دیا که چھینک سے وه غلاظت باهر نکل جائے پهیپهڑوں میں جا کر اس (ج) کے بندے کو ضرر نه دینے پائے...

 مولانا صاحب یه تو کچھ بھی نهیں زمین و آسمان میں اس نے جو جو همارے لئے نظام بنایا هے اتنا منظم نظام ... یه سب کیوں? جو اپنے نافرمانوں کو اتنی محبت دیتا هے, ان کیلئے اتنا عالیشان اھتمام کرتا هے دنیا میں, تو فرمانبرداروں کیلئے جو اس نے جنت بنا رکھی هے وه کیسی هوگی....

 همیں بتائیں مولانا صاحب! وه (ج) همیں کیوں اتنا پیار کرتا هے هم تو اس کی مانتے نهیں کیوں آخر همارے اندر ایسی کیا بات هے ؟ وه اتنا اچھا کیوں هے...

مولانا صاحب! همیں اس (ج) کا ذکر سنائیں اس (ج) نے کها هے که اسکے ذکر سے سکون ملتا هے اسی رب کی قسم یه سچ هے, لھذا همیں اس کریم رب کے بارے میں بتائیں کیونکه همیں لگتا هے که هم اس ھستی کو بھول گئے هیں.

 

www.fb.com/arezuyeaab

پاکستانی لڑکیاں نہ پڑھیں!!!

 

پاکستانی لڑکیاں نہ پڑھیں!!!

ھبہ عمار لکھتی ہیں: "جب میرے والد نے میری ماں کا ہاتھ مانگا تو انہوں نے میری ماں کو سور ہ آل عمران جو کہ انہوں نے حفظ کررکھی تھی مہریہ کے طور پر پیش کی اور جب میرے شوہر نے میرا ہاتھ مانگا تو میرے والد صاحب نے شرط رکھی کہ انہیں میرے مہریہ  کے طور پر قرآن کی ایک سورہ حفظ کرنی ہوگی!  اور اس وقت شادی نہیں ہوسکتی جب تک میرا یہ مہر مجھے مل نہ جائے۔ مجھے اختیار دیا گیا کہ اپنی پسند کی سورہ کا انتخاب کروں ، میں نے سورہ نور کا انتخاب کیا اس انتخاب کے کئی اسباب میں سے دو یہ تھے کہ اولاً تو اس سورہ میں تمام تر احکامات موجود تھے اور ثانیاً یہ کہ میرے خیال میں یہ سورہ حفظ کرنا ذرا مشکل بھی تھی۔
اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اپنے نئے آشیانے سجانے کی تمام تر مصروفیات میں میرے شوہر کے ہاتھ سے قرآن کا دامن نہ چھوٹا کیونکہ وہ مسلسل سورہ کو حفظ کرنے میں جٹے ہوئے تھے۔
شادی سے چند دن پہلے میرے ہونے والے خاوند میرے والد کے پاس آکر وہ سورہ سنانے لگے جو انہوں نے حفظ کی تھی، میرے والد نے انہیں خبردار کیا کہ اگر انہوں نے ایک بھی غلطی کی تو انہیں سورہ دوبارہ شروع سے پڑھنے پڑے گی۔ میرے ہونے والے شوہر نے بڑی مدھر آوز میں  نرم و شگفتہ لہجے میں سورہ نور پڑھنا شروع کی اور یہ ایک ایسا منظر تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی ۔ میں اور میری ماں بے چین نگاہوں سے ایک دوسرے کودیکھ کر مسکراتے ہوئے اس بات کے منتظر تھے کہ میرے خاوند کوئی غلطی کریں اور انہیں سورہ پھر سے پڑھنی پڑے تا کہ میرے ثواب میں اضافہ ہو۔
لیکن میرے خاوند- اللہ انہیں سلامت رکھے-  نے یہ سورہ بڑے شوق سے حفظ کی تھی لھذا ان سے ایک بھی غلطی نہیں ہوئی  اور جب انہوں سورہ سنا کر ختم کی تو میرے والد صاحب اٹھے اور انہیں گلے لگا کر کہا "آج میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہوں کیوں کہ تم نے میری شرط پوری کی اور اس کا مہریہ ادا کردیا ہے۔"

انہوں نے مجھے کوئی مالی مہریہ نہیں دیا اور نہ ہی ہم نے کوئی بیش بہا سونا خریدا، انہوں نے مجھے اللہ کے نام اور آیات دینے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔ اب سوال یہ ہے میں سوچتی ہوں کہ میری بیٹی اپنے مہر کیلئے کون سی سورہ کا انتخاب کرے گی؟

ترجمہ از زبان انگلش : محمد زکی حیدری و آب

www.facebook.com/arezuyeaab

ھارون (ع)، علی (ع)، ہماری قوم کے باپ

ھارون (ع)، علی (ع)، ہماری قوم کے باپ

تحریر: محمد زکی حیدری

 

جناب موسیٰ گئے کوہ طور پر چالیس دن لگ گئے پیچھے اپنے بھائی ھارون (ع) کو چھوڑ گئے، عوام سامری کے جال میں پھنس کر بچھڑے کو پوجنے لگے، مسلمان سے مشرک ہوگئے لوگ! غور کیجیئے گا لوگ شرک پر اتر آئے، موسیٰ (ع) جب چالیس دن بعد آئے دیکھا ساری محنت پر پانی پھر چکا ہے جو دیندار تھے اب مشرک بن چکے ہیں، ھارون (ع)کو پکڑ لیا کہ یہ کیا کردیا؟ تمہیں میں نے ان کی حفاظت پر جانشین بناکر چھوڑا تھا یہ مشرک بن گئے اور تم ۔۔۔ ھارون (ع) کا جواب قرآن کی آیت ہے "قال یا ابن ام لا تاخذ بلحیتی والا برأسی أنی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل" (1) اے میرے بھائی! میری نہ داڑھی پکڑو نہ سر میں ڈرتا تھا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ " فرقت بین بنی اسرائیل" تم نے بنی اسرائیل کے اندر تفرقہ ڈال دیا، پھوٹ ڈال دی، ان کی وحدت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ۔ ثابت ہوا کہ ھارون (ع) لوگوں کو مشرک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن وحدت ، اتحاد کو خراب نہیں کر رہے۔ یہ وحدت کی اہمیت!

اس کی ایک جھلک علی (ع) کی زندگی میں ملتی ہے ، محمد (ص) کے قول کہ علی (ع) تمہیں مجھ سے وہ نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی کو سچا ثابت کرتے ہوئے تاریخ انسانیت میں محمد (ص) کے بعد دنیا کا عظیم ترین انسان علی (ع) 25 سال خاموش رہتا ہے! منبر رسول پر کوئی اور آکر بیٹھ گیا، عبائے خلافت کھینچ کران سے چھین لی گئی، بیوی کی ملکیت غصب ہوئی اور۔۔۔ لیکن خاموش! کیا علی (ع) نے ان پچیس سالوں میں کوئی پیغام نہیں دیا؟؟؟ سننے والوں نے ایک ایک پیغام سنا علی (ع) جن کی کانوں میں محمد (ص) کی طرف سے بیان کی جانے والی علی (ع) کے فضائل کی صداؤں کا انعکاس گونج رہا تھا انہوں نے ان پچیس سالوں کی خاموشی میں پچیس لاکھ پیغاماتِ وحدت سنے! علی (ع) کی خاموشی میں وحدت کے فصیح و بلیغ پیغامت پنہاں ہیں۔

ھارون (ع) نے ثابت کیا کہ شرک ہورہا ہو پھر بھی اتحاد بین المسلمیں تو دور اتحاد بین الناس کو بھی ملحوظ خاطر رکھ کر خاموش رہو، علی (ع) نے ثابت کیا کہ اتحاد بین المسلمین کی خاطر غاصبوں کی دربار میں جاکر ان کی مشکلات میں ان کی مدد کرو حتی کہ وہ خود کہنے پر مجبور ہو جائیں لولا علی۔۔۔! ھاں علی (ع) نے تلوار اٹھائی! مجبور ہوکر جب تلوار نکالی جب اس پر چارون طرف سے تیر و تبر کی یلغار ہوئی لیکن اپنے اور خلافت اسلامیہ کے دفاع میں تلوار میان سے باہر نکالنے سے قبل علی (ع) نے معاویہ جیسے شاطر ترین انسان سے بھی مذاکرات کی بات کی  اور اسے اپنے ایک خط میں لکھا "۔۔۔ و اقبل الی فی وفد من اصحابک" (2) اور اپنے مصاحبوں کا وفد لے کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ! یہ علی (ع) ہیں وحدت اسلامی کے علمبردار کہ معاویہ جیسے شاطرو چالاک وعیاش و غیر عادل و غیر منصف شخص سے بھی مذاکرات اور اتحاد چاہتے ہیں۔۔۔

اب ذرا پاکستان کی شیعہ قیادت پر نظر گھماتے ہیں ایک تھے، ایک تنظیم تھی، ایک سیاسی پلیٹ فارم تھا، ایک نعرہ تھا، ایک پرچم تھا، ایک قائد تھا پھرکچھ نوجوان، کچھ بچے عقل کے کچے، ھوش سے زیادہ جوش سے کام لینے والے جوکبھی خود اپنے قائد پر جان قربان کرنے پر تلے ہوا کرتے تھے،جنہوں نے "قائد کے فرمان پرجان بھی قربان ہے" کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے خراب کردیئے، ایک دن ناراض ہو کر جوش میں آکر الگ تنظیم بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اتحاد کی دھجیاں اڑنے لگتی ہیں۔ بچوں نے بچپنا کیا مگر باپ خاموش ہے! علی (ع) جو اتحاد کی بحالی کو ملحوظ خاطر رکھ کر خاموش تھا اس کا وارث اتحاد کے بگڑنے پر خاموش ہے! ، ان جوشیلے بچوں نے مزید مایوس ہوکر الگ تنظیم بنا ڈالی تب بھی علی (ع) کا وارث خاموش ہے، جلسے کرنے لگے تب بھی علی (ع) کا وارث خاموش ہے،  اور بالاخر باقائدہ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تب وحدت کے علمبرادار علی (ع) کے وارث کی آنکھ کھلتی ہے اور افسوس! بجائے اس کے کہ علی (ع) کہ جس نے معاویہ جیسے قبیح ترین انسان کو بھی مذاکرات کی دعوت دی، کی سنت پر چلتے ہوئے ان بچوں شفقت کا ہاتھ رکھ کر ان کی شکایتوں کا ازالہ کرتے، باپ نے ان کے خلاف نفرت اگلنا شروع کردی۔

ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے جب ہمارے قائد صاحب کے چاہنے والے ہمارے برادران عزیز ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ ہمارے قائد صاحب بڑے با بصیرت ہیں اور مفاہمت کی صلاحیتیں تو ان کی شخصیت میں اتنی ہیں کہ کل تک کافر کافر شیعہ کافر کہنے والے بھی آج آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ماشا اللہ! اس کے ہم انکاری نہیں ہم خوش ہوتے ہیں جب سیاہ عمامے میں ہمارے قائد کے پیچھے یہ لوگ نماز ادا کرتے ہیں یہ بیشک آپ کی مفاھمتی صلاحیتوں کی بہت بڑی سند ہے لیکن کیا یہ مفاھمتی صلاحتیں صرف اتحاد بین المسلمیں کیلئے بروئے کار لائی جاسکتی ہیں اتحاد بین المومنین کیلئے نہیں؟ کیا مفاھمت پسندی و اصلاح پسندی وحدت پسندی و مذاکرات پسندی و گفت و شنید کے علمبردارپر قوم کے قائد ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی کہ پہلے اپنے گھر کے ناراض بچوں کو اپنے ساتھ لے پھر باھر جاکر لوگوں کو گلے لگائے؟ کیا ان بچوں کی شخصیت معاویہ سے بھی گئی گذری ہے؟ کیا ان کلیئے نبی (ص) نے عمار یاسر کی شہادت کا اشارہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ باغی گروہ ھے؟ کیا انہوں نے کسی معصوم کی بیعیت سے انکار کیا تھا؟ کیا ان بچوں نے کسی معصوم پر خلیفائے ثالث کے قتل کا الزام لگایا تھا؟ تو پھر ان سے مذاکرات کیوں نہیں؟ علی (ع) نے معاویہ کو لکھا وفد لے کر آؤ میرے پاس مذاکرات کریں، آپ علی (ع) کے وارث ہو قوم کو بتائیے کتنے خطوط لکھے اپنے بچوں کو کہ بیٹا آؤ اپنا وفد لیکر ، آؤ اپنے تحفظات بتاؤ، آؤ میں ہوں تمہارا باپ میں تم سے زیادہ بصیرت رکھتا ہوں، تجربہ رکھتا ہوں، میں بڑا ہوں تم جوش سے کام مت لو ہوش کے ناخن لو ۔ تنظیم گھر کی مثل ہے باپ کی ڈانٹ سے بیٹا گلی میں جاکر بیٹھ جاتا ہے تو شام کو اسی باپ کی محبت اسے گھر میں لاتی ہے اور ایک ہی دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتی ہے۔

کہاں ہے وہ ہارون (ع) کی وحدت کا درس لینےوالا کہ جو شرک سے زیادہ تفرقے کو قوم کیلئے خطرناک سمجھتا ہے؟ کہاں ہے علی (ع) جیسا باپ؟ وہ وحدت کا علمبردار باپ؟ وہ اتحاد کا دائی باپ؟ وہ بچوں کو آغوش میں سمیٹ کررکھنے والا باپ؟ وہ حقیقی وارث ھارون و محمد (ص)؟ کہاں ہے وہ قائد جو قوم کی کشتی سے گرنے والوں کا ہاتھ تھام کر انہیں پھر سے کشتی میں سوار کرے جیسے علی (ع) نے معاویہ کو اسلام کی کشتی سے گر کر باطل کے سمندر میں غرق ہونے سے بچانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تھا اور ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اس کی اصلاح ہو؟ کہاں ہےاس قوم کا باپ؟ کہاں ہے ہر روز لاشے اٹھانے والی قوم کا باپ جس کے بچے تتر بتر ہوگئے، جسے کے جوان مارے جا رہے ہیں، جس کی بیٹیوں کی آنھیں گھر کی چاردیواری میں مقید ہوکر رہ گئیں؟ جس قوم کا باپ نہ ہو اسے یتیم کہتے ہیں اور بے سر و سامانی یتیم ہی کا مقدر ہوا کرتی ہے۔

 

(1)    سورہ طہ آیت نمبر 94

(2)    نھج البلاغہ مکتوب نمبر 75،  ص: 811، اردو ترجمہ الحاج ملک صادق علی عرفانی، طبع لاہور

 

www.facebook.com/arezuyeaab

💡💡دماغ کی بتی جلا کرکھیں💡💡     (مشرک عزادار)

 

💡💡دماغ کی بتی جلا کرکھیں💡💡

 

      مشرک عزادار

 

کل میں نے لکھا تھا که ""صرف"" عزاداری سے هی قرب خدا حاصل هوتا تو ھندو بھی عزاداری کرتے هیں... کچھ بڑے بھت بھت بھت بڑے عزاداروں نے اس پر اعتراض کیا که ایسا مت کهو وه بھی عزادار هیں....

یه مشرک کا دفاع تھا عزادار کا نهیں. هم عقائدی پستی کی انتھا پر پهنچ گئے که مشرک کا دفاع کرنے لگے جب که قرآن مشرکوں پر لعنت سے بھرا هوا هے. جس پر الله کی لعنت هو اس کو شیعه نے حسینی سمجھ لیا, یهاں نوحے تو مشرک پڑھتے, هیں ماتم کرتے هیں, سندھ کے کچھ شهروں میں هیمنداس حیدری نامی ھندو خطیب بھی ممبر پر بٹھایا گیا.

یه وه هی تشیع هے که جو  ممبر رسول (ص) پر غیر عادل کو بٹھانے پر سب سے الگ هوگئ تھی, شیعه سنی دو گروپ بن گئے تھے. آج انهوں نے ممبروں پر مشرک کو بٹھانا شروع کردیا.

مشرک نجس هے الله نے کها قرآن میں, یه مشرک علی (ع) کیلئے بھی نجس هے, حسین (ع) کیلئے بھی نجس هے.

 (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ.... سوره توبه آیت 28

مشرک نجس هے اسے مسجد الحرام میں داخل هونے کی اجازت نه دو.... پاک جگه پر نجاست کا کیا کام... مسجد کا تقدس بحال رکھنا هے تو الله فرماتا هے مشرک نه آنے پائے اس میں, کیڑے مکوڑے چھپکلی مسجد میں آ جائے مشرک نه آئے... اتنی نفرت هے الله کو مشرک سے...

اب!

تم اسے بلا کر فرش عزا پے بٹھاؤ, نیاز کھلاؤ, خود اس کے ساتھ کھاؤ تمهاری مرضی! لیکن یه مت سمجھنا که حسین (ع) خوش هوں گے  الله (ج) ناراض هو حسین (ع) خوش یه ممکن هی نهیں.

 بت شکن علی (ع) کے رب نے قرآن میں اپنی بات دو ٹوک الفاظ میں سنادی. اور یاد رکھنا جو قرآن کهے وه سمجھو علی (ع) نے کها جو علی (ع) نے کها سمجھو قرآن کیونکه

قرآن مع علی و علی مع القرآن.

دماغ کی بتی جلا کر سوچو تمهاری عزاداری تمهیں الله (ج) کے قریب کر رهی هے یا الله (ج) کے دشمن کے قریب کر رهی هے که تم اس کے دشمن کا دفاع کرنے بیٹھ گئے.

بھائی الله بھی هے.... صرف اھل بیت (ع) نهیں هیں, الله کو کیوں بھول گئے... سارا نظام الله (ج) کیلئے هے... عزاداری, نماز, هر عمل """""قرب خدا """"" کیلئے کرتے هیں مقصد قرب خداوندی هے, مقصد سعادت هے. نهیں هے ایسا تو یه دین اسلام نهیں کوئی دین هے. اور دین پر چلے گئے هیں تو ٹھیک هے پھر بات هی ختم.

💡💡عزاخانے سجائے رکھو💡💡

💡💡دماغ کی بتی جلائے رکھو💡💡

 

ملتمس دعا: محمد زکی حیدری.

www.fb.com/arezuyeaab

💡💡💡💡💡💡💡💡💡

 

محمد (ص) سے محمدی تک!   

 

محمد (ص) سے محمدی تک!

تحریر: محمد زکی حیدری

 جناب تاریخ انبیاء کے مطالعے سے جهاں بڑے حیرت انگیز اور نا قابل یقین واقعات کا پته چلتا هے وهاں یه بھی ایک عجیب بات معلوم هوتی هے که فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو مارنے کا اعلان کیا که جو نومولود بچه پیدا هو اسے مار دو, بیٹیوں کو نھیں صرف بیٹوں کو! قدرت خداوندی کو جلال آیا اور موسی (ع) کو بھیجا گیا که اس (ج) کے خلق کیئے هوئے بچوں کو فرعون کی تیغ سے بچایا جائے. موسی (ع) آئے پھر جو هوا وه همارا موضوع نھیں بھرحال عرضیکه قوم کے بیٹے جب مارے جا رهے تھے تو موسی (ع) آئے.

اب ذرا عربستان میں آئیے عرب اپنی بیٹیوں کو زنده درگور کر رهے هیں, قوم کی بیٹیاں ماری جا رهی هیں, کسی مسیحا کی ضرورت پیش آئی تو الله (ج) نے اپنے افضل ترین نبی محمد (ص) کو بھیجا... بیٹے مارے جائیں تو افضل ترین نبی نهیں بھیجا جاتا لیکن بات بیٹیوں کی آ جائے تو محمد (ص)... یعنی تاریخ انسانیت کے اس موڑ پر که جب سب سے کمزور ترین طبقے پر مظالم ڈھائے جا رهے هوں, اس وقت جو مسیحا ان کی مدد کو آئے اسے محمد (ص) کهتے هیں.

جوش ملیح آبادی صاحب سے پوچھا گیا محمد (ص) کون هیں فرمایا عرب کی سی جهالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کهلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کهتے هیں...

 دنیا کا مشکل ترین کام هے ذھن بنانا, کردار سازی کرنا, ذھن سازی کرنا, کسی کے ذھن کو اچھے اقدار سے مانوس کرنا. اب اگر ذھن سازی کسی بچے کی کرنی هو تو پھر بھی آسان هے مگر کسی بڑے عمر والے شخص کی هو تو بھت مشکل, اسے بھی مشکل یه که اگر موصوف پڑھا لکھا هے تو پھر  ذھن سازی کا کام ذرا سا آسان هو جاتا هے,  لیکن موصوف بیچاره بلکل هی ان پڑھ ھو اور علم سے دور هو تو ذھن سازی کا کام جوئے شیر لانے کے مترادف هوجاتا هے. اب ذرا عربستان قبل از اسلام پر نظر دوڑائیے, عمر کے بڑے هیں; عرب هیں; علم سے دور هیں; پست ترین اقدار کے مالک هیں; قبیله پرستی کوٹ کوٹ کر اذھان میں بھری هوئی هے; بت پرستی نے قلوب کو کالا کر رکھا هے; ایک اونٹنی کے تنازعے پر شروع هونے والی جنگ 40 سال تک جاری رهتی هے; عورت کو منحوس اور غلام کو جانور سمجھا جاتا هے... یه هیں اذھان! یه هیں اقدار اس معاشرے کے, کیا ان کی ذھن سازی و کردارسازی ایک سھل کام تھا? نھیں یه کسی که بس کی بات نھیں سوائے محمد (ص) کے! اسی معاشرے میں نور محمدی جلوه گر هوتا هے جس نے ابو لھب و ابو جھل و ابوسفیان و... جیسوں کے اثر رسوخ کی دھجیاں اڑا کر علی (ع) و  سلمان (رض) و ابوذر (رض) و عمار (رض) و بلال (رض) و حمزه (رض) و ابن عباس (رض) و خذیمه (رض) و عبدالله بن مسعود (رض) و... جیسے اقدار انسانیت کے اعلی مثالوں کی دھاک جمائی , یه تمام لوگ محمد (ص) کے اخلاقی کارخانے کی محصولات هیں. جن کا پوری دنیا میں آج تک هو رها هے.

اسی لئے جوش صاحب اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے هوئے فرماتے هیں جو شخص اپنی قوم کی سطح سوچ پر قدم رکھ کر جو بات کهے اور وه بات پوری دنیا میں اذان بن کر گونجے ایسے شخص کو محمد (ص) کهتے هیں.

محمد (ص) سراپا پیکر اخلاق هیں یه اخلاق هی کی تلوار تھی جس سے محمد (ص) نے دنیا میں موجود جھالت و ظلم و استحصال و ناانصافی و دقیانوسی عقائد و غلامی و نسلی امتیاز و اشرافیت و... کے بت کا سر تن سے جدا کیا.

محمد (ص) نے اپنے اعلی اخلاقی اقدار سے کردار سازی کا اتنا عظیم کارنامه انجام دیا اور هم نے شخصیت محمد (ص) سے عشق کا دعوا کیا مگر لیا کیا...???  نور و بشر کی بحث لی, میلاد پے نئے کپڑے پهن کر میٹھا کھانا بدعت هے یا نھیں  کی بحث لی, کسی نے میلاد پر ریمکس نعتوں هے رقص لیا, کسی نے کسی کو بدعتی کهنے کا درس لیا, کسی نے کافر کهنے کا, کسی نے ... هم میں سے جس نے بھی ایسا کچھ لیا هے, کسی اور سے لیا هے, کسی غیر سے لیا هے, محمد (ص) سے ھرگز نھیں لیا, کیونکه محمد (ص) کی شخصیت کے قریب جاتے هیں تو  حضور (ص) همیں پهلا تحفه هی اخلاق نامی چیز کا دیتے هیں, جس کے اندر اخلاق نھیں سمجھ لیں که وه محمد (ص) کی شخصیت کے قریب سے بھی نھیں گذرا. جس دن ھمارے اخلاق کے تیر ھمارے مخالف کے قلب میں پیوست هوکر اسے همارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں اسی دن خود کو محمدی سمجھیں گے.  جس دن ھمارے اخلاق سے متنفر هو کر لوگ هم سے دور بھاگنا شروع کردیں تو سمجھ جانا چاھئے که هم محمدی نھیں , کچھ اور هیں, جو بھی هیں محمدی نھیں هیں.

 

www.fb.com/arezuyeaab

مجلس خبرگان کیا ہے؟

 

📢 ھیلو ... خواتین و حضرات ذرا دھیان دیں. 📢

 

کچھ پته بھی هے آپ کو که ابھی ایران میں رھبر کون بنے اس کے لئے انتخابات ھونے جا رھے هیں. پته هے یه کیسے هوگا....؟

نھیں پته؟

چلو میں بتاتا هوں بھائی جو کمیٹی رھبر کا انتخاب کرتی هے اس کا نام هے مجلس خبرگان .... کیا نام هے ؟

مجلس خ... پیش ... خبرگان khibrgaan ... ھاں. khabar نھیں khibr...

اس کے 90 ارکان هیں یه 90 ارکان کهاں سے آتے هیں ؟

بھائی انھیں عوام ووٹ دیتی هے,

 یعنی عوام کے ووٹ سے یه 90 ارکان چنے جاتے هیں اور پھر ان کی اکثریت جسے رھبر بنائے وه رھبر...

 اچھا اھم بات .. یه 90 امیدوار سب کے سب مجتھد هوں گے یه مجتھدوں کا الیکشن هے. صرف مجتھد هی یه الیکشن لڑ سکتا هے... اجتھاد شرط هے...  یعنی آپ اگر ایران میں هیں تو ایک مجتھد آپ کے پاس آکر کھے گا بھائی میں الیکشن میں کھڑا هوں مجلس خبرگان کی رکنیت کیلئے مجھے ووٹ دیں. اس طرح عوام ووٹ دیتی هے کچھ مجتھد جیتتے هیں کچھ ھارتے هیں جیتنے والے 90 مجتھد آکر مجلس خبرگان بناتے هیں پھر یه لوگ فیصله کرتے هیں که کون بنے رھبر...

 

اب بتائیں رھبر عوام چنتی هے یا خود آمرانه طریقے سے چنا جاتا هے. خوامخواه انگریز بننے کے چکر میں اعتراض که ایران میں جمھوریت نھیں. 😏

دھیان دینے کا شکریه. کچھ سمجھ نه آئے تو پوچھ لیں. مجھے نھیں پته هوگا تو اساتیذ سے پوچھ کر بتاؤں گا. ان شاء الله.

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری.

 

📢اعلان ختم📢

لعنتین الخرمین البدمعاشین کا بیٹا!

 

لعنتین الخرمین البدمعاشین کا بیٹا!

تحریر: محمدزکی حیدری

 

کل ایک سعودی نمک حلال  جو که شاید کسی سعودی بادشاه کی پانچ سو چوھترویں بیوی کی "جائز" اولاد تھا,  کی تحریر پڑھی. جناب بات یه هے که مغز کے وه خلیئے جو حرام کے دودھ و دلیه سے معرض وجود میں آئیں ھوں, ان خلیوں سے بنے مغز میں حق کی بات تو رھتی دنیا تک نھیں سرائیت کرسکتی لیکن همارے پهلے معصوم (ص) سے لے کر آج تک ان جیسے بدؤوں کو پند و نصیحت کرنا همارا وطیره رها هے سو اس لئے اس لعنتین الخرمین والبدماشعین کے بیٹے سے کچھ سوال پوچھنا چاھتا هوں.

بھئی آپ نے لکھا هے که ایران میں سنی قتل کئے جا رھے هیں. .

میرا آپ سے سوال هے که پھر ساری دنیا میں ایرانی سفارتخانے کے باھر همیں کبھی سنیوں کا اجتماع کیوں نظر نھیں آیا. ساری دنیا جاھل هے که آج سعودی سفارتخانے کو گھیرے هوئے هے. .

آپ نے کها ایران عراق میں فوج بھیج کے سنیوں کا قتل عام کر رها هے. .

تو اونٹ کی شکل والے یه تو سوچو ابھی صفر میں آدھا ایران اربعین پے عراق گیا تھا سنیوں نے کسی کو خراش تک نه پهنچائی.  کیوں؟

تم نے لکھا هے خمینی صاحب نے کعبے پے حمله کروایا.

منے بات سنو! همارے خمینی صاحب عظیم لیڈر تھے سعودیه تو انھیں یاد بھی نھیں تھا وه وھائٹ ھاؤس کے فرش پر ناچنے والے سعودی خسروں کے منه هی نھیں لگے, بلکه دنیا کے اس وقت کے سب بڑے آمریکی دشمن روس کے صدر گورباچوف کو خط لکھا اور دعوت اسلام دی.

اب ان کے جواب دو:

کسی ایک ایرانی اسلامی لیڈر کی شراب پیتے هوئے وڈیو کلپ دکھا سکتے هو؟

 اور تیرے باپ داداؤں کی وڈیوز کا انکار کر سکتے هو؟

ایک تقریر ایسی دکھا سکتے هو جس میں سعودی بادشاه آمریکا و اسرائیل کے خلاف بول رها هو؟

ایک سنی عالم دین کا نام بتاسکتے هو جس کا ایران نے سر قلم کیا هو؟

ایک عیسائی یھودی عالم کا هی بتا دو.

ایران میں آمریکا کی کتنی فوج هے؟

سعودیه میں کتنی؟

آمریکا و اسرائیل کا جھنڈا پوری دنیا میں جلایا جاتا هے سعودیه میں کیوں نھیں؟

آمریکی سفارتخانه کتنی بار جلا سعودیه میں? اور ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد جوانوں نے پهلا کام کیا   سفارتخانه جلایا که نھیں؟

ایک کمپنی کے دس لوگ مل کر انتظامیه سے کچھ مانگ لیں تو انھیں یونین کا الزام لگا کر کیوں سعودیه کی حکومت نکال دیتی هے؟

سعودیه میں کیوں ریلیوں و جلسوں پے پابندی هے؟

کیوں سعودیه و عرب امارات سے جن جن لوگوں کے نام میں علی, حسین, حسن , عباس وغیره تھا ان کے اقامے باطل کر کے انھیں نکالا گیا.

اور بھی بھت سوال هیں مگر ابھی تیرے شراب پینے کا وقت هوگا سو جا کر شراب و شباب کی دنیا میں مست رهو.

آخر میں ایک طبی  مشوره: صرف انجیر مت کھایا کر بادام بھی کھایا کر تا که تیرا دماغ کام کرے. دماغ بھی چلاؤ.

بس اب اتنا بھت هے.

 

 

www.fb.com/arezuyeaab

مسجد گوہرشاد  اور  عاشق آیت اللہ

 

مسجد گوہرشاد

اور

عاشق آیت اللہ

مترجم از زبان فارسی: محمد زکی حیدری و آب

گوہرشاد بیگم ایک  باحجاب  اور مذہبی خاتون تھیں  نقاب ہمیشہ ان کے چہرے پر آویزاں رہتا،  انہوں نے حرم امام رضا  (ع) کے برابر میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا قصد کیا انہوں نے اس کام پر مامور تمام مزدوروں اور معماروں کو ہدایت کی  کہ انہیں مسجد کی تعمیر کے سلسے میں  دوبرابر اجرت دی جائے گی  لیکن شرط یہ ہے کہ وہ سب لوگ کام کرنے دؤران با وضو رہیں گے، ایک دوسرے سے بدتمییزی اور بدکلامی نہیں کریں گے،اخلاق اسلامی اور یاد خدا کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور ایسے مزدور جو  ساز و سامان کی حمل و نقل کیلئے  جانوروں کا استعمال کرتے ہیں وہ ان بے زبانوں کے آب و دانے کا خیال رکھیں ان پر اضافی وزن نہ ڈالیں اور  انکو زدو کوب بھی نہ کریں ۔

گوہرشادمزدوروں کی نگرانی کیلئے مسجد جایا کرتیں، ایک دن وہ معمول کے مطابق مزدوروں کی نگرانی کیلئے مسجد  گئیں تو  ہوا کی وجہ سے ان کا مقنعہ اور حجاب  تھوڑا سا ہٹ گیا اور ایک نوجوان مزدور کی نظر ان کے چہرے پر پڑی لھٰذا جوان اپنا دل کھو بیٹھا اور گوہر شاد کے عشق میں  اتنا بے صبر و لاچار ہو گیا کہ   بیماری کے بستر تک جا پہنچا۔

بہت دن گذر گئے وہ کام پہ نہ آیا   گوہر شاد نے اس کی طبیعت کا معلوم کیا  تو پتہ چلا کہ وہ  بیمار ہے لھٰذا  گوہرشاد اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیں۔

دن گذر تےگئے مگر جوان  کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی اسکی ماں نے اپنے بیٹے کی موت کو یقینی جان کر فیصلہ لیا کہ وہ ہر صورت میں   ملکہ  گوہر شاد سے مل کر انہیں اس قصہ سے آگاہ کریں گی چاہے اس کے لیے اسے جان سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونے پڑجائیں  لھٰذا ایک دن اس نے جاکر ملکہ سے قصہ بیان کردیا اور ملکہ کے رد عمل کی منتظر ہوئی، ملکہ نے  مسرت بھرے انداز میں اس سے کہا  :" اس  میں کوئی مضائقہ نہیں ، مجھے پہلے بتا دیتی  تا کہ  میں کسی بندہ خدا کی تکلیف دور کرنے کے کام آجاتی۔ اس نے جوان مزدور کی ماں سے کہا : "اپنے بیٹے سے جاکر کہہ دو کہ میں  اس سے شادی کرنے کیلئے راضی ہوں، لیکن اس سے پہلے دو امور کا انجام پانا لازمی ہوگا ایک   یہ کے میرےمہریہ کے طور پر  اسے اس نو تعمیر شدہ  مسجد میں چالیس دن کا اعتکاف کرنا پڑے گا اگر راضی ہے تو جا کر مسجد میں اعتکاف شروع کردے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تمہارے راضی ہوجانے کے بعد میں اپنے شوہر سے طلاق لوں گی۔ اگر شرائط منظور ہیں تو اپنے کام پہ شروع ہوجائے۔"

جوان  عاشق  کو جب گوہر شاد کا یہ پیغام پہنچا تو اس خوشخبری سے اس کی طبیعت میں بہتری آئی  اور کہا چالیس دن تو کچھ بھی نہیں  اگر چالیس سال بھی کہے تو حاضر ہوں، وہ گیا اور  اس امید سے جاکر مسجدمیں بیٹھا کہ اس کی عبادت کے بدلے خدا اسے گوہرشاد جیسی بیوی سے نوازے گا۔

چالیسویں دن گوہر شاد نے جوان کی طرف  اپنا قاصد بھیجا  تاکہ معلوم ہو کہ اگر وہ راضی ہے تو  وہ اپنے شوہر سے طلاق طلب کرے۔ قاصد نے جوان سے کہا  : "کل تمہارے چالیس دن مکمل ہو رہے ہیں  ، ملکہ تمہاری منتظر ہیں کہ اگر تم راضی ہو تو  وہ بھی  اپنی شرط پوری کریں۔"

جوان عاشق  کہ جس نے گوہرشاد کے عشق میں نماز شروع کی تھی ، نماز  کی حلاوت  سے اس کا دل نرم ہو گیا اور  اس نے قاصد سے کہا: "گوہرشاد بیگم سے کہنا اولاً تو میں ان کا شکرگذار ہوں  دوسرا یہ کہ اب مجھے ان سے شادی کا کوئی شوق نہیں رہا۔" قاصد نے کہا : "کیا مطلب ؟   کیا تم گوہرشاد کے عاشق نہیں ہو؟  " جوان نے کہا:"  جس وقت گوہرشاد کے عشق نے مجھےبیمار کیا تھا اس وقت میں اصلی معشوق سے نا آشنا تھا لیکن اب میرا دل صرف خدا کے عشق میں تڑپتا ہے اور اس کے سوا کسی کو معشوق تسلیم نہیں کرتا میں خدا سے مانوس ہوگیا ہوں اور اس سے ہی مجھے سکون ملتا ہے لیکن گوہرشاد خاتون کا مشکور ہوں کہ  انہوں نے مجھے خدا سے آشنا کیا اور  ان کی باعث ہی مجھے حقیقی معشوق ملا۔۔۔"  اور وہ جوان مسجد گوہرشاد کا پہلا پیش امام بنا اور آہستہ آہستہ مطالعہ کرتے  ایک فقیہ اور عالم بن گیا اور وہ جوان کوئی اور نہیں بلکہ  آیت اللہ شیخ محمد صادق همدانی تھے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab

گھن چکر

 

گھن چکر

 

از قلم: محمد زکی حیدری

 

سرکیولر ڈیبٹ! پی ایس او عرف پاکستان اسٹیٹ آئل خسارے میں هے کیونکه واپڈا اسے فرنس آئل عرف تیل لیتی هے پیسے نھیں دیتی, واپڈا خسارے میں هے که جو بڑے فیکٹریوں کے مالکان هیں وه بجلی کے بلز ادا  نھیں کرتے, فیکٹریاں خسارے میں هیں که بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ان کی پراڈکشن متاثر هوتی هے. بجلی اس لئے بند هوتی هے که فرنیس آئل کی فراھمی پی ایس او نھیں کرتا.

یه سمجھ آیا ؟؟؟

یهی چکر هے پاکستانی عزاداری کے ساتھ  منبر والے جو عاشوره دیتے هیں وه تحریف شده هے, بانی مجلس کهتا هے منبر والے سچ نھیں بتاتے,  منبر والے کھتے هیں هم سچ بتاتے هیں تو اگلی مجلس کی دعوت نھیں ملتی, بانی مجلس کهتا هے دعوت اس لئے نھیں دیتا که لوگ اس کو سننے نھیں آئیں گے. لوگ کهتے هیں که سب مولوی و خطیب ایک هی بات کر رهے هوں بیچ مین کوئی نیا خطیب آکے الگ بات بولنے لگ جائے تو هم اس کی مجلس پے شک هوتا هے که بھیا یه باتیں تو تو نه کبھی هم نے سنی نه دیکھیں....

اب مسئله تب حل هوگا جب خطیب عوام کو یقین دلائیں گے که حقیقی عاشوره کیا هے. لیکن  خطیب یه تب کریں گے جب انھیں بانی مجلس ایسی مجلس پڑھنے کی دعوت دیگا, دعوت کوئی بانی کیوں دیگا, جب که سچ سننے کوئی مومن آئے گا نھیں.

 یه چکر چلتا رھے گا...  میرے خیال میں اس چکر کو صرف کالج, یونیورسٹی, و مدرسے کا نوجوان توڑ سکتا هے لیکن اس کے پاس دین کیلئے وقت نھیں هے. ان کی اکثریت کی لائف میں تین میم هیں مطالعه ( صرف نصابی کتب کا) , موبائل, محبوبه...

جوان یه مسئله حل کر سکتا هے... اور انشاء الله پاکستان کا جوان اس طرف سوچے گا که قوم کو اس گھن چکر سے کیسے نکالا جائے...

 

www.fb.com/arezuyeaab

کیا سورہ اعراف کی آیت نمبر 29 ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہے؟

 

 

 

کیا سورہ اعراف کی آیت نمبر 29 ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہے؟

 

تحقیق : محمد زکی حیدری 

میرے طوطے اڑ گئے! کل ہی میں نے دیکھا کہ پاکستان کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین سے ایک نجی چینل پر پوچھے گئے ٹیلفونک سوال کہ "شیعہ ہاتھ کھول کر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟" کا جواب دے رہے تھے، پہلے تو ان عالم صاحب نے کہا کہ جناب یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اہل سنت ولجماعت کا ایک فرقہ، فرقۂ مالکی بھی ہاتھ کھول کر پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس کے بعد ان عالم صاحب نے ایک چونکا دینے والی بات کی فرمایا قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ:  قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَ أَقيمُوا وُجُوهَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَ ادْعُوهُ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ کَما بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ سورہ اعراف آیت 29 جس کا مطلب ہے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گے۔  کَما بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ مطلب جیسے اس نے تمہیں بنا کر بھیجا تھا ایسے ہی پلٹائے گا لھٰذا اس سے صاف صاف چابت ہو گیا کہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنی چاہیئے کیوںکہ ہم آئے تھے ہاتھ کھول کر جائیں گے بھی ہاتھ کھول کر۔۔۔ لو جی کرلو گل!

میں بڑا حیران ہوا کیونکہ میں اپنے چچا زاد بھائی کے یہاں تھا اس سے پوچھا تمہارے پاس ترجمہ والا قرآن ہے کہنے لگا ہاں تفسیر رکھی ہے پوری میں نے تفسیر نمونہ دیکھی اس میں  خلقت کے متعلق بات تھی دور دور تک کہیں ہاتھ باندھنے تو کیا ہاتھ تک کا ذکر نہیں تھا۔۔۔ میں لمبی آہ بھری کہ اگر میں شیعہ ہوتا تو فیسبک پر اور انٹرنیٹ پر شیعوں کے عالم کی اس ویڈیو کو ایڈٹ کرکرے اس میں تمام مفسریں کے ترجمے ڈال کر شیعوں کو ایسا ذلیل کرتا کہ یا د رکھتے مگر افسوس کہ میں خود شیعہ تھا۔ لھٰذا میں نے سوچا کہ ایک مضمون لکھ کر ثابت کروں کہ اگر دلیل نہ ہو تو تحقیق کیا کریں لازمی نہیں کہ الٹی سیدھی دلیلیں دے کر خودکو اور ملت کو دشمنوں کے سامنے شرمندہ کرنے کے جواز مہیا کرتے پھریں۔

لیجئے مشہور مفسریں کی اس آیت کی تفاسیر پیش خدمت ہیں:

آیت اللہ مکارم شیرازاری صاحب تفسیر نمونہ

یہ آیت معاد جسمانی کی حقیقت بیان کرنے کیلئے مختصر اور بہترین آیت ہے کجس میں اللہ فرماتا ہے: جب تمہارا جسم خلق ہوا تھا س پر غور کرو،، یہ جو تمہارا جسم جس میں پانی زیداہ اور دوسرے اجزات کم ہیں اور ان سب سے مل کر یہ بنا ہے، پہلے یہ کہاں تھا؟ جو پانی کے قطرے آپ کے جسم میں ہیں یہ ضرور کسی سمندر یا دریا کا حصہ ہوں گے پھر گرمی کی وجہ سے خارات کی شکل اختیار کرکے بادل بن گئے اور پھر زمین پر برسے  اور ان میں سے گندم وغیرہ بنی جس سے ہمارے جسم کی نشونما ہوئی اور جسم کے ذرات جو آج مھلول صورت میں آپ کے جسم میں کارفرما ہیں کل چھوٹے چھوتے ذرات تھے۔ یہی انسان پھر امین میں جاتا پہے اورگل سڑ کر انمین کی کھاد بنتا ہے اور پھر اسی سےب گندم و سبزیاں زمین سے نکلتی ہیں۔ تو اس لیئے قرآن نے کہا تم جیسے بنائے گئے ہو اسی طرح تمہیں لوٹایا جائے گا۔

تفسیر نور قرائتی

 کَما بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ معاد کیی جانب توجہ اور ایمان  انسان اخلاص کی عامل ہے اور تمہیں ذرات سے بنانا معاد کی دلیل ہے.

اس کے علاوہ المیزان، مجمع البیان وغیرہ سب میں معاد پر بات کی گئی ہے۔ یہاں ان کے حوالے نہیں دئے اختصار سے کام لینا تھا۔

یہ تفسیریں تو میں نے اس لیئے دیں کہ معلوم ہو کہ آیت تھی کس بارے میں۔ لیکن کوئی اندھا بھی اسے غور سے پڑھے گا تو اس میں کہیں بھی ہاتھ کھول کر یا باندھ کرنماز پڑھنی کی تک نہیں بنتی۔۔۔ بھائی جیسے آئے تھے ویسے جاؤ گے مطلب ہاتھ کھول کر نماز پڑھو۔۔۔ ہائے ہائے !

جناب میری بات نوٹ فرما لیں اللہ کا شکر ہے شیعہ اپنے عقائد کا دفاع کرصحیح آیات احادیث و روایات سے کر سکتے ہیں احادیث اہل سنت سے ثابت ہے کہ حضور تکبیر کے بعد ہاتھ زانوؤں سے چپکا دتے تھے وغیرہ وغیرہ اب یہ تو الگ ہی بحچ ہے لیکن بھائی میرے سورہ اعراف کی 29 آیت پر غور کرو لیکن جو اس میں ہے اسے سمجھو بڑی زبردست آیت ہے لیکن اس میں نہ ہاتھ اور نہ اس کے کھولنے کا ذکر ہے معاد پر بھتریں آیتوں میں سے ایک ہے۔

 www.fb.com/arezuyeaab

کمیل بن زیاد نخعی کون تھے؟

دوست نے سوال کیا ہے کمیل بن زیاد نخعی کون تھے جن کو امام علی (ع) نے مشہور دعا نصیحت جو دعاء کمیل کے نام سے مشہور ہے؟

 

جواب: عرض کرتا چلوں کہ میں عالم دین نہیں اما چونکہ کمیل بن زیاد کے بارے میں میں نے کتاب نفس المہموم تالیف شیخ محدث عباس قمی رح میں پڑھا ہے لہذا اسی سے جواب دونگا.

کمیل بن زیاد نخعی کی عمر ابھی ۱۸ سال تھی کہ پیغمبر اکرم (ص) اس دنیا سے چلے گئے. کمیل علی (ع) کے اہم ساتھیوں میں سے تھے، اہل سنت نے انہیں ثقہ (سچا قابل اعتماد) راوی مانا ہے.

آپ جنگ صفین میں امام علی (ع) کے ساتھ تھے. 

کہتے ہیں کہ حجاج نے ھیثم سے پوچھا کہ بتاؤ کمیل آج کل.کہاں ہے؟

ھیثم نے کہا وہ بوڑھا ھوگیا ہے گھر تک ہی محدود ہے.

بولا اسے بلا لاؤ، کمیل آئے حجاج نے کہا: بولو تم نے  عثمان کے ساتھ کیا کیا؟ کمیل بولے عثمان نے مجھے تھپڑ مارا تھا میں نے قصاص کا مطالبہ کیا جب وہ راضی ہوا تو میں نے اسے معاف کردیا.

 دوسری روایت میں ہے کہ حجاج نے انہیں بلا کر کہا کہ تم نے عثمان کو قتل کیا، اس کی گردن کاٹی اور پھر حکم دیا کہ اس کی گردن کاٹ دو. کمیل نے فرمایا میری عمر کے اب گنتی کے دن رہ گئے ہیں میرے مولا (ع) نے مجھے بتا دیا تھا کہ تم ہی مجھے قتل کرو گے، سو جلدی کرو جو کرنا ہے.

اس وقت کمیل ۹۰ سال کے تھے. 

یاد رہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ علی (ع) کے وفادار صحابی قنبر (رض) کو بھی اس حجاج لعین نے شہید کیا.

 

اس کی مزید تفصیل ارشاد مفید میں آئی ہے لیکن جب وقت ملے گا تو ارشاد مفید کو بھی دیکھ لوں گا ان شاء اللہ.

 

ملتمس دعا: الاحقر محمد زکی حیدری

www.fb.com/arezuyeaab

کربلا اور کونا

کربلا اور کونا

تحریر: محمد زکی حیدری

حسین (ع) نے کربلا کے میدان میں اپنی ناموس اور بچوں سمیت قربان ہوکر بتا دیا کہ کربلا اور کونے میں فرق ہے! شاید آپ سمجھے نہیں، میں واضح کرتا چلوں، جناب کہنے کا مقصد یہ کہ جب یزید نے امام حسین (ع) سے بیعت مانگ کر ان پر ظلم کرنا چاہا تو امام (ع) نے کربلا کا رخ کیا، سب کچھ لٹانے کی ٹھان لی مگر ظالم کو بیعیت دینے سے انکار کر دیا ، بیعیت کیا ہے سادہ الفاظ میں ایک انسان کو اپنا رہنما ماننا حالانکہ دکھاوے کیلئے بھی بیعیت کر سکتے تھے امام (ع) اگر بہانے بنا کر یزید کی بیعیت کرنا چاہتے تو آج کل ہمارے مذپبی-سیاسی رہنماؤں کی طرف سے خبیثوں کے دسترخوان پر بیٹھنے کے لیئے دلائل پیش کرنے کی طرح امام (ع) بھی کہہ سکتے تھے جناب میرے نانا (ص) نے صلح حدیبیہ کی ؛ میرے بابا (ع) نے تلوار نہیں اٹھائی، بڑے بھائی حسن(ع) نے معاویہ سے صلح کی وغیرہ وغیرہ لیکن نہیں! حسین (ع) نے دیکھا کہ یزید جو مانگ رہا ہے یہ اگر میں دے دیا تو نہ صرف میں بلکہ اگلی نسلوں تک یہ رواج عام ہو جائے گا کہ ظالم جو بھی مانگے اسے مصلحتاً وہ چیز دے دینی چاہئے لہٰذا امام (ع) نے بیعت کا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دینے سے انکار کردیا اور کربلا چلے گئے۔ اچھا بھائی امام (ع) یہ بھی تو کر سکتے تھے کہ اس وقت یزید کے سامنے انکار نہ کرتے بیعیت کر لیتے اور پھر گھر آ کر "کونے" میں بیٹھ کر کتابیں لکھتے ، خطبے دیتے ، خطوط لکھ لکھ کر لوگوں کو کہتے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے یزید نے مجھ سے بیعیت لے لی ! کیا لوگ یہ نہ پوچھتے کہ امام (ع) اگر ایسا ہی تھا تو آپ نے بیعیت کی ہی کیوں؟ نہیں! امام (ع) کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بیعیت کرکے آجائیں اور پھر "کونے" میں بیٹھ کر روئیں کہ مجھ سے بیعت لے لی گئی، ہر گز نہیں! یہ قول اور فعل کا تضاد ہے جس کی قرآن میں صریحاً ممانعت ہے کہ وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ لہٰذا امام (ع) نے "کونے" کی بجائے "کربلا" جانے کی تیاری کی اور مستورات بھی ساتھ لیں کہ ثابت ہو کہ جب بات حق کی ہو تو سب کچھ لٹا دو لیکن باطل جو مانگ رہا ہے اسے وہ چیز نہ دو۔

آج کل کچھ دوست ایران جاتے وقت کوئٹہ سے تفتان میں آنے والی سفری تکالیف کو بنیاد بنا کر بہت اچھے کالم لکھ رہے ہیں اور سینہ تان کر حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب زائریں کوئٹہ سے تفتان (ایرانی بارڈر) کو جا رہے ہوتے ہیں تو دوران سفر انہیں متعدد بار پولیس اور ایف سی کے اہلکار روکتے ہیں اور ان سے رشوت طلب کرتے ہیں اور کوئی نہ دے تو آگے نہ جانے کی دھمکی دیتے ہیں یا بلاوجہ سامان کی چیکنگ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بڑی اچھی تحریریں لکھی ہیں اللہ بحق زہرا (س) ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے لیکن جو بات مجھے مشوش کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ  ڈیڈھ سال سے زائد عرصہ گذرجانے کے باوجود حکومت پر ان کی تحریروں کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں؟ پھر میں نے سوچا کہ حسین (ع) کے دور میں بھی یزید نے بیعیت مانگی تھی، مانگنے والا ظالم تھا آج بھی رشوت مانگی جاتی ہے مانگنے والا ظالم، لیکن پھر سوچا کہ حسین (ع) نے تو ظالم کو اس کی مانگی ہوئی چیز نہ دی لیکن آج کا حسینی تو آسانی سے دے آتا ہے۔ یہاں آکر مجھے سمجھ آیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ ہم نے سنت حسینی چھوڑ دی ہے، ہمیں ہزار بار کربلا بپا کرنے کا موقعہ ملا کہ سامنے ایک ظالم تھا اور ہم سے کچھ مانگ رہا تھا ہم سنت حسینی پر چلتے ہوئے انکار کرتے تو آج ہر طرف حسین  حسین  کی صداؤں کی طرح ہماری مظلومیت کی آواز ہوتی مگر نہیں ہم نے کربلا بپا نہیں کی ظالم نے رشوت مانگی ہم نے دے دی! جب دے دی تو پھر "کونے" میں آکر جتنا بھی چلائیں، جتنا بھی روئیں کالم لکھیں، تقریریں کریں، خطبے دیں، خطوط لکھیں ، فیسبک، واٹس ایپ، پر پوسٹس دیں لیکن پھر بھی ہماری آواز ایوان انبساط تک نہیں پہنچتی۔ جب کہ حسین (ع) نے ایک دور دراز بیابان میں ظالم کے انکار میں جو فریاد بلند کی وہ پوری دینا میں گونج رہی ہے، نہ ان کے پاس فیسبک تھا، نہ واٹس ایپ، نہ میڈیا نہ۔۔۔۔ صرف ظالم کے خلاف قیام وجہ بنی کہ ان کی آواز میں اللہ نے اتنی طاقت ڈال دی کہ کوفے سے لیکر شام تک کہ ایوانوں کی دیواریں ہل گئیں۔

فرمایا بھائی تو کیا کریں؟ اگر رشوت نہیں دیں گے تو زیارت کو نہیں جا پائیں گے! اچھا بھائی یہ تو وہی بات ہو گئی کہ سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی، جناب حسین (ع) اپنے زائر کا استقبال کرتے ہیں  لیکن معاف کرنا حسین (ع) کو ظالم کے سامنے جھک کر اور رشوت دے کر آنے والے زائر سے کیا خوشی ملے گی؟ اسلام کی رو سے رشوت دینے اور لینے والا دونون جھنمی ہیں اگر ظالم صرف رشوت لینے والا ہوتا تو اور بات تھی، دینے والا بھی جہنمی۔ اسلام نے صاف صاف کہہ  دیا حالانکہ کہ معلوم تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو کل بہانہ بنائیں گے کہ جناب ہم سے زبردستی رشوت لی گئی۔ نہیں نہیں کچھ بھی ہوجائے رشوت دینے والا بھی جہنمی ہے اور بھیا معاف کرنا رشوت لی ہی زبردستی جاتی ہے اب ایسا تو ہے نہیں کہ زید کا ولیمہ ہے  وہ دولہا بن کر اسٹیج پر بیٹھا ہے اور بکر جا کر اسے لفافہ دے آئے کہ زید بھیا یہ لیجیئے رشوت کے دو ہزار! اسلام کو معلوم تھا کہ رشوت لینے والا جابر ہوگا، ظالم ہوگا، دھمکیاں دیگا، وردی میں بھی ہوسکتا ہے، اس کے پاس بڑی طاقت، بڑے ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں مگر پھر بھی صاف کہہ دیا کہ صرف لینے والا ہی نہیں دینے والا بھی جہنمی ہے۔

ایک دوست کو جب میں نے یہ کہا کہ مت دو رشوت، میں نے نہیں دی تھی جب ایران سے آ رہا تھا۔ تو کہنے لگا تمہارے ساتھ بوڑھے ماں باپ نہیں تھے، بچے نہیں تھے، بڑا جذباتی ہو گیا میں نے کہا میں اگر میرے ماں باپ کے ساتھ ہوتا اور تفتان میں رشوت دینے سے انکار کی وجہ سے  میری ماں کو بے پردہ کیا جاتا اور مجھے اور میرے باپ کو تفتان کی گرم پتھریلی زمین پر قتل کردیا جاتا تو بھی شکر کرتا کہ ہمیں عراق میں قبر حسین (ع) کی زیارت کرنے کی بجائے حسین  (ع) کی سنت پر چلتے ہوئے حق پر جان دے کر جنت میں حسین (ع) کے چہرے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

جناب عرض کہ میں تمام کالم نگاروں پر تنقید نہیں کر رہا بلکہ ان پر کر رہا ہوں کہ جو ظالم کے سامنے ہوں تو تب جھک کر اس کی مان کر آجائیں اور جب گھر پہنچیں تو "کونے" میں بیٹھ کر صرف الفاظ کے ساتھ ان ظالموں کی مذمت کریں اور بڑے بڑے جذباتی کالم لکھیں تو بھیا ان کاملز کی حقیقت سے تو دشمن بھی آگاہ ہے کہ یہ صرف کھوکھلے نعرے لگانے والے ہیں لھذا ان کے سر پر جوں تک نہیں ریںگتی، آپ عوام کو مقاومت سکھائیں، پہلے خود دیکھیں کہ ہم میں (رشوت دینے والے) اور ظالم (رشوت لینے والے ) میں فرق بھی ہے کہ نہیں؟ اگر فرق نہیں تو پہلے ان کے خلاف کالم لکھنے کی بجائے اپنے آپ کے خلاف لکھیئے۔ "کربلا" بپا کر کے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے "کونے" میں بیٹھ کر آواز میں اتنی طاقت نہیں ہوتی جناب!

 

 www.facebook.com/arezuyeaab

قمعہ زنی اور قرآن

 

قمعہ زنی اور قرآن

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

سوره : البقرة آیه : 104

 

"ابن عباس" مفسر معروف اسلام نقل کرتے ہیں:صدر اسلام میں جب رسول اللہ (ص) تقریر فرماتے اور آیات و احکام الٰہی بیان فرماتے تو مسلمان کبھی کبار ان سے مطالبہ کرتے کہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر مطالب بیان فرمائیں تاکہ انہیں خوب سمجھ آئے اور اسی دؤران جو بات سمجھ نہ آ رہی ہوتی تو اس کے متعلق سوال بھی پوچھ لیا کرتے اور اس طرح تقریر کو روکنے کیلئے یہ لوگ لفظ "راعنا" جو کہ "رعی" کے مادہ سے ہے اور جس کا مطلب ہے "مہلت دینا" کو استعمال کیا کرتے۔۔۔ لیکن یہود اس لفظ کو "رعونہ" کا مادہ سمجھا کرتے کہ جس کا مطلب ہے "بیوقوف بنانا" یا "مسخری کرنا"۔ (یعنی اصل مطلب بنتا تھا "ذرا سی مہلت دو!" لیکن یہود جو اس کی معنی لیتے تھے وہ  تھی "ہمیں بیوقوف بنا!" اس طرح ایک بہانہ یا (ویک پوائنٹ ) مل گیا تھا کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ مسلمانوں اور اسلام کا مذاق اڑا سکتے تھے۔  

اس لیئے یہ آیت نازل ہوئی کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

  اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) انظرنا کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

 ثابت ہوا کہ ایسا فعل فعل کا مطلب و مقصد بیشک اچھا ہو اور نیت بھی اچھی ہو مگر  دشمن اگر سوء استفادہ کرے ، یا اس کو بہانہ مل جائے کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑائے وہاں اللہ چاہتا ہے کہ اس بہانے کو ہی ختم کردے نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!
اب میرے عزیر دوستو آپ بیشک زنجیرزنی اور قمہ زنی عشق حسین (ع) میں کرتے ہیں مگر آپ کو علم نہیں کہ آپ کی وڈیوز اور تصاویر پوری دنیا میں جاتی ہیں کہ دیکھو شیعہ کتنے وحشی ہیں کہ  خود کو خون میں لت پت کردیتے ہیں اگرچہ آپ کا یہ فعل شرعاً کوئی حر ج نہیں رکھتا جس طرح آیت میں لفظ  "راعنا" میں کوئی اشکال نہ تھا مگر چونکہ اس کو بہانہ بنا کر دشمن تشیع ہمیں بدنام کرتا ہےاس لیئے اس کام کو ترک کرنا بہتر ہوگا ۔

جو دوست اس بات کا نکار کتے ہیں کہ ہم قمہ زنی کی وجہ سے بدنام ہو رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ آج کل جس چیز کی بھی معلومات چاہیئے ہوتی ہے تو ہم گوگل کی ویب سائیٹ سے اسفادہ کرتے ہیں اب آپ دو منٹ کیلیئے خود کو ایک غیر مسلم سمجھ کر گوگل امیجز پر جائیے اور سرچ بار میں ٹائپ کیجئے "Shia Islam "  آپ کو خون آلود تصاویر ملیں گی اب آپ اس بار میں "Sunni Islam " لکھ کر سرچ کیجیئے آپ کو سنی باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ ایک غیر مسلم بن کر فیصلہ کیجیئے گا کہ کس فرقے کی تصاویر سے آپ کو وحشت محسوس ہوئی؟؟؟

والسلام و یا علی مدد

 

(یہ الفاظ میرے ہیں فکر آقای محسن قرائتی صاحب کی ہے )

 

 

فیسبوکی فقهاء

 

فیسبوکی فقهاء

تحریر: محمدزکی حیدری

 

 جناب قدیم چائنا کا ایک واقعہ ہے کہ اسے پڑوسی سلطان یا بادشاہ کی طرف سے کیئے جانے والے حملے میں بہت بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، چائنہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد ماری گئی، فوج میں افراد کی شدید قلت کو مدنظررکھتے ہوئے اعلان ہوا کہ ھر گھر سے ایک مرد جنگ کیلئے باہر آئے اور یہ حکم تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے یکساں تھا لیکن دلچسپ اور درس آموز بات یہ ہے کہ چائنا کے اس وقت کے حکمران نے اعلان کیا کہ استادوں کو جنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ استاد جب تک زندہ ہیں قوم کتنی بھی تباہ ہوجائے, استاد اسے پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ لھٰذا استادوں کی حفاظت سرزمیں کی حفاظت کے مترادف سمجھ کر استادوں کو جنگ سے روکنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ آج چائنا کی ترقی آپ کے سامنے ہے!

جیسے ہمارے پاکستان میں پوری قوم کو کچھ "خاص" افتخارات حاصل ہیں مثلا ہم نجی چینلز پر آنے والے جھوٹے اینکرز سے سیاست کی "سچائی" لیتے ہیں; مہنگے کرتے پہن کر  ٹی وی پر آنے والے ایک بدتمیز انسان سے دین اور ادب لیتے ہیں;ایک کرکٹر کو انقلابی لیڈر مانتے ہیں; کینیڈا سے "برآمد" کیئے ہوئے ایک شہری کو اسلام آباد کی سردی میں پرسکون کنٹینر میں بٹھا کر خود اپنے بچوں سمیت ٹھنڈی سڑک پر بیٹھ کر , اس لیڈرکو غریبوں کیلیے مسیحا سمجھ کر اس کی شان میں نعرے لگاتے ہیں. اسی طرح ہمارے پاکستانی شیعہ بھی دنیا کے بقیہ شیعوں سے کچھ زیادہ "افتخارات" کے حامل هیں۔

پاکستانی شیعوں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے وافر مقدار میں مجتہد، عالم، اور فقیہ پیدا کرنا! جی جی میں جھوٹ نہیں بول رہا آپ فیسبوک پر چلے جائیں یا واٹس ایپ کے کسی مذھبی شیعہ گروپ میں شامل ہوجائیں آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کے مجتہد، عالم، شیخ الحدیث، فقیہہ وغیرہ ہماری قوم کے "فیسبوکی فقہا" کے سامنے پانی بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان فیسبوکی فقہا نے ثابت کیا ہے کہ علم حدیث، علم فقہ، علم منطق اور علم اصول وغیرہ ان کے سامنے کچھ نہیں بیچتے ان علوم کے حصول کیلئے لازمی نہیں کہ اپنی ساری زندگی کتاب خانوں اور مدرسوں میں گذار دی جائے، بس انٹرنیٹ کافی ہے۔ کسی بھی چیز کو حرام قرار دینا ہو یا حلال، کسی رسم کو بدعت کہنا ہو یا کسی بدعت کو عبادت، یہ فیسبوکی فقہا آپ کو حدیث سے ثابت کر دیں گے، اور ہاں ان کیلئے ایک آده حدیث هی کافی ہوتی ہے کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کیلئے, بس حدیث لی, کمپیوٹر پر ڈزائن کی اور لیجیے فتویٰ اور اپنا باقی ٹائم اپنی جاب پر لگا کر بچوں کا پیٹ پالیئے۔ لیجیئے فقہ کو اتنا آسان بنا دیا! خوامخواہ یہ مولوی لوگ اپنی زندگیاں مدرسوں اور کتاب خانوں میں تحقیق کرکر کے ضایع کرتے ہیں۔ عجب!

یہ فیسبوکی فقہا مجتہدین کے خلاف ہیں، تقلید کی کیا ضرورت ہے بھائی جب فقہی  مسائل کا حل ہم خود نکال سکتے ہیں تو تقلید کیوں کریں؟ اچھا سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان صاحبان کو فقہا نہیں پسند، مجتہدین نہیں پسند تو پھر یہ جو علم لیتے ہیں وہ کہاں سے لیتے ہیں؟ کتابیں تو ساری فقہا مجتہدین نے لکھی ہیں، ذاکروں نے ملنگوں نے تولکھیں نہیں۔ یہ لوگ حسین حسین (ع) کرتے ہیں اہل بیت (ع) سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھے آپ تک یہ کربلا، یہ غدیر، یہ مباہلا، یہ۔۔۔۔ کیسے پہنچے؟ علماء کی لکھی ہوئی کتابوں کے ذریعے ہی نا؟ صاحبِ اصول کافی کی بات کرتے ہیں کیا ملنگ تھے؟ کتب اربعہ میں سے دو کتب کے جامع طوسی (رح) ملنگ تھے؟ شیخ صدوق (رح) باوا تھے؟ شہید اول ذاکر تھے؟ شہید ثانی، شہید ثالث یہ سب علامہ مجلسی (رح)۔۔۔۔ کوں تھے بھائی یہ سب؟ آپ کیوں ان کی بات کو معتبر سمجھتے ہو؟ اس دور کے فقہا صحیح آج کل کے سارے فقہا غلط یہ کیوں؟ آپ بیشک مجتہدیں و فقہا کو معتبر نه مانو لیکن اگر ایسا کرتے ہو تو ان کی کتابیں بھی غیر معتبر سمجھ کر پھینک دو اور اپنی کتابیں لاؤ جو فقہا نے نہ لکھی ہوں۔

دنیا کے شیعه ایک طرف هم پاکستانی ایک طرف پوری دنیا کے شیعوں کو علی (ع) سے محبت نهین صرف پاکستانیوں کو هے که نماز میں بھی شھادت ثالثه پر بحث کرتے هیں, پوری دنیا کے شیعه سادات کی بے حرمتی کرتے هیں که کهتے هیں سیدزادی کا غیر سید سے نکاح جائز هے صرف یه چند لوگ اور ان کے استاد ذاکرین سادات کا احترام کرتے هیں که سیدزادی سے نکاح حرام سمجھتے هیں .. یه من گھڑت عقائد میں سب شیعوں  سے پیش پیش اس لیئے رسوائی میں بھی پوری دنیا کے شیعون کے علمبردار هیں!

تاریخ گواہ ہے تقلید وہ مورچہ ہے جس سے اسلام دشمن کو ہمیشہ پسپا کیا گیا اور تشیع پر کسی دشمن کو میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرآت نہ ہوئی۔ دور نہ جائیں 1920 ع کا عراقی انقلاب دیکھ لیں عظیم مجتہد آقای شیرازی (رح)  کی قیادت میں عراقی عوام نے برطانیہ جیسے اس دشمن کو چنے چبا دیئے جس نے آدھی دنیا پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا، شیعہ فقیہہ اعظم کی قیادت کے سامنے اسے منہ کی کھانی پڑی، پھر 1979 ع میں ایران کا انقلاب دیکھیئے، پھر لبنان اور شام میں حزب اللہ کی کامیابی دیکھیئے، سعودی میں شیخ نمر۔ بحریں ، یمن، ہر جگہ شیعہ سرخرو ہیں حتیٰ ہندوستان میں بھی شیعوں پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی دشمن کو۔  پھر ہم کیوں مر رہے ہیں؟ ہم کیوں روز جنازے اٹھا رہے ہیں ؟ کیوں ہماری عبادتگاہوں کو بمب سے اڑایا جاتا ہے؟ کیوں ہمیں بسوں سے اتار اتار کر مارا جاتا ہے؟ کیوں...

  ہمیں شرم آنی چاہیئے ۔۔۔ ہاں میں لکھ رہا ہوں یہ لفظ ہمیں شرم آنی چاہیئے جب ہم ماتم کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ ہاتھ ہمارے سینے پر نہیں یزید کے منہ پر طمانچہ بن کر لگتا ہے ! واہ! کیا کہنے ہیں! جی جی جناب بیشک یزید آپ کے طمانچے کھا کھا کر کمزور ہوگیا ہے , ڈر گیا ہے,  اپنے بل میں چھپ گیا ہے، یہ آپ کے طمانچوں کا ہی تو اثر ہے کہ کراچی سے لے کر کوئٹہ تک نہ کوئی آپ کا شیعہ مارا جاتا ہے، نہ آپ کے ڈاکٹرز چن چن کر مارے جاتے ہیں،نہ عالم، نہ طلبا، نہ وکلاء، نہ جوان، نہ کسی امام بارگاہ پر فائرنگ، نہ کسی جلوس میں دھماکہ ہوتا ہے, آپ نے طمانچے مار مار کریزید کو نابود کردیا ہے... جی جی آپ کے طمانچوں کے کیا کہنے!

افسوس لکھوں تو کیا لکھوں!  میرے بھائی یہ طمانچوں کا دعویٰ وہ کریں جن کی عزت،آبرو، چار دیواری، عبادتگاہیں محفوظ ہوں، جو دشمن کو منہ توڑ جواب دے چکے ہوں اور دے رہے ہوں۔ آٌپ مر رہے ہیں روز جنازے اٹھا رہے ہیں اور دعویٰ طمانچوں کا...

حل کیا ہے؟ حل ہے اخلاقی اقدار, اور اخلاقی اقدار حقیقی استادوں سے هی مل سکتے هیں. استادوں کا انتخاب، علم لینے کے ذرائع کا درست انتخاب، اور علم والوں کا ادب اور ان کی فرمانبرداری! علم والے کا ادب ہم میں نہیں ہوگا تو بھائی با ادب با نصیب بے ادب بےنصیب کی مصداق ہم بھی رسوا ہوتے رہیں گے۔  عزاداری یزید کے منه پر طمانچه بن کر تب لگے گی جب عزادار علم و اقدار کا مالک هوگا. پوری دنیا میں شیعہ اس لیئے سرخرو ہیں کہ ان کو مرجیعیت کی صورت میں مرکزیت حاصل ہے ، ایک ہی پلیٹ فارم ہے، علم بھی وہیں سے لیتے ہیں، ہدایت بھی وہیں سے، رہبری بھی وہیں سے، فتویٰ بھی وہیں سے، چپ رہنے کے احکام بھی وہیں سے، لڑنے کے احکام بھی وہیں سے۔ آپ نے استادوں کی اہمیت کو سمجھ لیا تو دشمن آپ سے ڈرے گا کیونکہ دشمن علم والوں سے ڈرتا ہے جاہلوں سے نہیں.

 

www.facebook.com/arezuyeaab

 

علی (ع) کی زہرا (س) سے شادی اور ہم

علی (ع) کی زہرا (س) سے شادی اور ہم

 

( خیال :مرحوم سید مولانا غلام عسکری اعلی اللہ مقامہ)

تحریر :محمد زکی حیدری

 

آگ آگ آگ! یہ کسی انسان کی چیخ نہیں ہے، یہ آگ کسی ایک گھر میں نہیں لگی، کسی ایک گودام یا دکان میں نہیں لگی، کسی کھیت کھلیان میں بھی نہیں لگی ، نہ ہی یہ آگ کسی ایک گاؤں یا کسی ایک محلے میں لگی ہے بلکہ یہ آگ پورے پاک و ہند میں لگی ہے دونوں ممالک کے لوگ اس میں جھلس رہے ہیں، بھارت و پاکستان کا ہر خاندان اس میں جل رہا ہے، ہر انسان کے تن بدن میں یہ آگ لگی ہے ، ہر عمر کے افراد جوان،  بوڑھے، عورتیں سب اس آگ میں جل رہے ہیں, بچے بھی اپنے بڑوں کے ہاتھوں اس آگ میں جھونکے جانے کے منتظر ہیں اس آگ سے انسانی گوشت  کے جلنے کی بدبو آ رہی ہے اس آگ میں زندگیاں جھلس گئیں ، جوانیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں ، اس آگ میں دھڑا دھڑ شرافت، انسانیت، حیا، ایمان ، رشتہ داریاں، جل کر دھواں دھواں ہو رہی ہیں . مگر کچھ لوگ اس آگ سے تاپ رہے ہیں ، اس آگ سے گھر میں اجالا کر رہے ہیں،اس آگ پر اپنے چولھے ہانڈی چڑھا رہے ہیں! آپ حیران ہوں گے کہ میں کس آگ کی بات کر رہا ہوں اور کن خبیث لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جو اسے ہوا دے رہے ہیں تو سنیئے بھیا اس آگ کا نام ہے شادی! اس کا ایندھن ہے جہیز، رسمیں، گھراتی، براتی، اور وہ آدم خور جلاد ہیں دولھا ور دولھا کے گھر والے اور تمام خود فریب جو رسموں کے، شگن کے اور شکوک کے پجاری ہیں! یہ تمام لوگ بیک وقت بھیڑ بھی ہیں اور بھیڑیے بھی، ظالم بھی  ہیں اور مظلوم بھی ، رونے والے بھی یہی رلانے والے بھی ، یہ ڈستے بھی ہیں اور ڈسے جاتے بھی ہیں، نوچتے ہیں اور نوچے جاتے بھی ہیں۔

اس معاشرے کو سب سے پہلے ایک پاگل کتے نے کاٹا جس کا نام ہے "لوگ کیا کہیں گے"  اس کتے کے اگلے پیروں کا نام ہے جہیز اور رسمیں اور اس کے پچھلے پیروں کے نام ہیں قرض مہر اور ساری زندگی لڑکی والوں سے خوفزدہ رہنا اس کتے پر سوار ہیں دولہا میاں اور اس کے گرد جمع ہیں گھراتی، باراتی اور رسموں کے پجاری، اس پاگل کتے کے تیز دانتوں کا نام ہے دکھاوا! اس کتے نے اپنے تیز دانتوں سے دین و ایمان و شرافت و رحمدلی و قناعت و ۔۔۔ سب کو بھبھوڑ ڈالا ہے۔ پاگل کتا جسے کاٹ لیتا ہے وہ پاگل ہوجاتا ہے اور یہ پاگل جسے ناخن مار دے وہ بھی پاگل ہوجاتا ہے سب پاگل کتے کی طرح بھونکتے ہیں اور سب کے منہ میں کتے کی شکل کے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔

"لوگ کیا کہیں گے" کو ملحوظ رکھ  کر جو پہلی شادی ہوئی تھی اس دن اس کتے کا جنم ہوا تھا اور جنم دن پر ہی جہاں اس نے لڑکی والوں کو جہیز کے نام پر خوب نوچا اور پھاڑا وہاں لڑکے والوں کو بھی رسومات کے نام پر کاٹ کاٹ کر لہولہاں کیا۔ اس کے یکے بعد دیگرے خاندان کے خاندان اس پاگل کتے کے زیر اثر آتے چلے گئے اور پاگل ہوتے چلے گئے دین کا ویکسین ناپید تھا یا اسے جان بوجھ کر ایک طرف رکھ دیا گیا تھا ۔ آج ہم اور آپ اسی پاگل سماج میں جی رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہے کے ماننے والے کے یہاں جب پہلی بیٹی ہوتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہے، جب دوسری کی پیدائش ہوتی ہے تو کانپ اٹھتا ہے۔ اور پوری زندگی رعشہ کی یہ بیماری نہیں  جاتی۔ حوا کی بیٹی جب سمجھدار ہوتی ہے تو اسے اپنے چاروں طرف جہنم کی سی جنسی آگ سلگتی ہوئی نظر آتی ہے اس آگ سے بچانے والی پر مسرت شادی کے امکانات جہیز اور رسموں نے بلکل ختم کر دیئے ہیں۔ لیکن کیا کیجے بھیا! بیٹی کی شادی کے وقت آٹھ آنسو رونے والے کے یہاں جب بیٹے کی شادی کی تیاری ہوتی ہے تو وہ لڑکی والوں کو آٹھ ہزار آنسو رلاتا ہے۔ اس طرح یہ آگ ہے کہ جس میں ہم ہی ایندھن ڈالے جا رہے ہیں۔

سچ کہہ رہا ہوں رسمیں جہالت کا نتیجہ ہیں ، دباؤ ڈال کر جہیز لینا حرام ہے، رسومات کی پابندی کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے، ان کے ذریعے ملنے والا مال حرام ، ہم منگنی سے لیکر رخصتی تک جو خرچ کرتے ہیں اس میں 99٪ فضول خرچ ہے اور فضول خرچی ناجائز ہے۔  ہماری زبردستیاں، ہماری بے مہار نفسانی خواہشیں، معاشرے کی باتوں کا ہماری سوچ اور فکر پر غلبہ۔۔۔ہم ہر واجب ہوگیا ہے خود کو آگ میں جھونکنا! کیوں کہ معاشرہ ہمیں آگ میں جھلستا ہوا دیکھنا چاہتا ہے, جو معاشرہ چاہے گا ہم کریں گے، ہر عمل معاشرے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کریں گے، معاشرے کے خلاف کچھ نہیں  کریں گے، معاشرے کے مقابلے میں اللہ کا حکم محمد و آل محمد (ع) کی سیرت بھی آگئی تو ترجیح معاشرے کی بات کو دیں گے۔۔۔ اور شام کو جاکرجانماز بچھا کر اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوں گے!  علی (ع) اور زہرا (س) کی شادی کے دن آئے تو جھوم جھوم کر خوشی منائیں گے! واہ میاں تمہاری نماز۔۔۔ واہ شیعہ تیرا علی (ع) وزہرا کی شادی کا جشن منانا!

تو کسیے بجھے گی یہ آگ؟ محمد (ص) کے بتائے ہوئے طریقے سے، علی (ع) اور زہرا (س) کی شادی کی طرح اپنے گھر میں موجود علی اور زہرا کی شادیاں کرنے سے! اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے یہ زندگی یہ اولاد تمہاری ہے انہیں اس طرح پال پوس کر بڑا کرو، اللہ و اہل بیت (ع) کیلئے جینا سکھاؤ، اپنے لیئے جینا سکھاؤ، سر پر لہراتی معاشرے کی تلوار کو ہٹا دو، اپنے لیئے شادیاں کرنا سکھاؤ، "لوگ کیا سمجھیں گے" کی جگہ " میرا اللہ، میرا اہلبیت (ع)  کیا سمجھیں گے" رکھ کر زندگی کا ہر عمل انجام دو، دین اطاعت کا نام ہے ہم لوگ اپنے روز مرہ کے امور میں معاشرے کی اطاعت کر رہے ہیں یا اللہ و اہل بیت (ع) کی؟ سوچئے۔

میری شادی نہیں ہوئی میں علی (ع) و زہرا (س) کی شادی کی قسم کھا کر کہتا ہوں فضول خرچہ نہیں  ہونے دونگا چاہے مجھے میرے والدین سے ہی کیوں نہ لڑنا پڑے،  بری رسموں کا آغاز بھی ہم جیسے انسانوں نے کیا تھا تو کیا ان کا قلع قمع کرکے اچھی روایتوں کا آغاز ہم جیسے انسان نہیں کر سکتے؟ اگر ہاں تو اور کوئی کیوں, میں خود سے ہی کیوں نہ شروعات کروں، قرآن بھی یہی کہتا ہے "وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں" اب آپ کا کیا خیال ہے میرے جوان دوستو؟معاشرے کو دکھانے کیلئےشادی کرنی ہے یا علی (ع) اور زہرا (س) کے نمونے  شادی کرنی ہے؟

 

www.facebook.com/arezuyeaab

 

عشق اور عقل

عشق اور عقل

تحریر : محمد زکی حیدری

 ہم خود کو معصوم سمجھتے ہیں! سچ کہہ رہا ہوں اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم خود کو کبھی غلط نہیں سمجھتے، نہ ہم اپنی غلطی مانتے ہیں تو اس کا مطلب یه که ہم ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں،  جو شخص کوئی غلط کام کرتا ہی نہیں تو بھیا اس سے بڑا معصوم بھلا کون ہوسکتا ہے۔ خود کو معصوم ثابت کرنے کیلئے ہم رشوت کو "خرچی"، "چائے کے پیسے"، "مٹھائی" ؛ بھتے کو "پروٹیکشن منی" (حفاطت کی اجرت)، فضول اخراجات کو "تقاضائے وقت یا مجبوری" ؛ عریانی کو "فیشن"؛ دین سے انحرافی کو "روشن فکری" ،اپنے سیاسی جلسوں کیلئے دکانداروں سے زبردستی پیسے لینے کو "چندہ" یا "مالی معاونت" وغیرہ کہتے ہیں تا کہ ان تمام تر قبیح کاموں کو اچھے الفاظ کی چادر پهنا کر ان کی قباحت کو چھپایا جا سکے اور خود کو معصوم ظاہر کیا جا سکے۔

اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے عجیب و غریب اور خلاف عقل و خلاف انسانیت کاموں کو چھپانے کیلئے لفظ "عشق" استعال کرتے ہیں ان سے کہا جائے جناب درگاہ پر جاکر رقص کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا اچھے خاصے متدین انسان ہو آپ، تو جواب آئے گا "بھائی عشق ہے! یہاں عقل کو ایک طرف رکھو۔ "... ارے بھیا ذوالجناح کی زیارت کرو، اسے مس کرو منت مانگو لیکن یا ر سجدہ تو نہ کرو جواب آئے گا "بھائی هر کسی کے عشق کی بات ہے۔۔۔ " .... اجی قمہ مت ماریئے چھوڑیئے یار ھاتھ کا ماتم کریئے مولا قبول فرمائیں گے بولے عشق ہے عقل کو "سائڈ" پر رکھیئے۔...

اچھا! کیا قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ عقل کوایک طرف رکھو؟ کیا آئمہ (ع) کے قول و فعل میں بھی ایسا ملتا ہے؟؟؟ میرے بھائی قرآن نے افلا تدبرون، افلا تعقلون ، تفکرون۔۔۔ جیسے الفاظ بار بار دہرائے ہیں کہ بھائی عقل سے کام لو جہاں عقل نہیں وہاں جنون ہے اور جو عقل سے کنارہ کش ہوکر جنون کی طرف جائے وہ مجنوں ہے مجنوں عربی میں کہتے ہی پاگل کو ہیں, جس کے پاس صرف عشق ہو عقل نہ ہو اور یہ مجنوں کا لفظ اللہ کو اتنا برا لگا کہ سورہ تکویر میں آواز دی "وما صاحبکم بمجنون" تمہارا  نبی (ص) مجنوں نہیں ہے۔  دیکھیئے اصول کا فی میں الگ باب ہے "کتاب عقل و جہل" کا جس سے یہ روایت ہے امام موسیٰ کاظم فرما رہے ہیں: قال الکاظم عليه السلام:

يَا هِشَامُ مَا بَعَثَ اللّهُ أَنْبِيَاءَهُ وَ رُسُلَهُ إِلَى عِبَادِهِ إِلّا لِيَعْقِلُوا عَنِ اللّهِ فَأَحْسَنُهُمُ اسْتِجَابَةً أَحْسَنُهُمْ مَعْرِفَةً وَ أَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللّهِ أَحْسَنُهُمْ عَقْلًا وَ أَکْمَلُهُمْ عَقْلًا أَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً فِي الدّنْيَا وَ الْ‏آخِرَةِ يَا هِشَامُ إِنّ لِلّهِ عَلَى النّاسِ حُجّتَيْنِ حُجّةً ظَاهِرَةً وَ حُجّةً بَاطِنَةً فَأَمّا الظّاهِرَةُ فَالرّسُلُ وَ الْأَنْبِيَاءُ وَ الْأَئِمّةُ وَ أَمّا الْبَاطِنَةُ فَالْعُقُولُ ... يَا هِشَامُ کَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَقُولُ مَا عُبِدَ اللّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ

اے ہشام ہمارے خداوند متعال نے عقل کے ذریعے سے تمام لوگوں پراپنی حجت تمام کی اور پیغمبروں کی بیان کے ذریعے مدد کی، اور اپنے ربوبیت پر برہان کی مدد سے ان کی دلالت کی۔۔۔ اور صاحبان عقل کو بہتریں چہرے کے طور پر یاد کیا اور اسے بہترین زیور سے آراستہ کیا اور فرمایا: اللہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس نے حکمت لی اس نے بڑا ہی خیر کمایا اور یہ بات عقل والوں کے سوا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔ ای ہشام خدا لوگوں پر دو قسم کی حجت رکھتا ہے : حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری رسول، پیغمبران، اور آئمہ ہیں اور حجت باطنی عقل انسانی ہے!۔۔۔۔ اے ہشام امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا : خدا کی بندگی عقل سے زیادہ کسی اور بہتر چیز سے نہیں کی جاسکتی۔

اصل میں بات یہ ہے کہ عشق کو ہم سمجھ نہیں پائے عشق کی ہم نے تعریف یہ بنالی کہ جس کا بھی خلاف عقل کام کرنے کا من کرے وہ سینہ تان کر اس کام کو انجام دے اور جب اس سے جواب طلب کیا جائے تو وہ اپنے کیئے ہوئے فعل پر "عشق" کا لیبل چسپاں کر دے۔ ! عشق کوئی قبیح چیز نہیں بلکہ اس کے سوا تو گذارا ہی نہیں مگر لٖفظ عشق کی اصل روح کو سمجھیئے عشق و عقل کا تضاد ہے ہی نہیں، عقل ادراک ہے اور عشق عمل، عقل عقیدہ ہے اور عشق عمل۔۔۔ وہ عشق کسی کام کا نہیں جو عقل سے عاری ہو اور وہ عقل عقلِ حقیقی نہیں جو عشق کے رنگ میں نہ رنگا ہو۔۔۔ عقل روح ہے اور عشق جسم۔۔ یہ قوم بڑی باشعور ہے مجھے اندازہ ہے کہ یہ پوچھے گی اب ان میں سے افضل کون ہے؟ سادی سی مثال دے دوں نماز افضل ہے یا وضو؟ آپ کہیں گے نماز کی فضیلت زیادہ ہے اچھا بھائی بغیر وضو کے نماز قبول ہوگی؟ آپ کہیں گے نہیں وضو تو لازمی ہے. بس اسی طرح نماز کو عشق جانیئے اور عقل کو وضو، جو عقل سے وضو کئے بغیر نماز عشق کیلیئے کھڑا ہوا اسکا عشق عشقِ حقیقی نہیں! اور جس نے خالی وضو کیا اور نماز ادا نہ کی تو اس نے چھوٹے مقصد پر کفایت کی بڑے مقصد کق پانے سے محروم رہا ۔۔۔ یاد رکھو جہاں وضو (عقل) ٹوٹا وہاں نماز (عشق) باطل ہے!

حسین (ع) عاشقوں کے امام ہیں لیکن مجنوں کے نہیں ! پاگلوں کے نہیں ! دیوانوں کے نہیں ! جی جی بڑے وثوق سے عرض کر رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ لفظ "دیوانہ" سن کر آپ کے اذہاں میں ایک ہی شخص کا عکس آئے گا اور بول پڑیں گے کہ  جناب یہ تو ٹھیک ہے  لیکن گھروندے بناکر جنت بیچنے والے دیوانے بہلول  کا کیا کہیں گے؟ تو بھیا عرض ہے کہ آپ نے اگر بہلول کو (نعوذباللہ)  دیوانہ، مجنوں کہا تو یہ اس عظیم درویش کی شان میں گستاخی ہوگی جس کا مشہور زمانہ لقب ہی دانا ہے "بہول دانا" ... ہاں طرز زندگی ذرا ہٹ کے پیشک تھا مگر عقل کی حدود کو پار نہیں کیا کبھی اس عظیم درویش نے... بہلول درویش ہے لیکن دانا، بہلول عاشق اہل بیت(ع)  ہے لیکن دانائی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا... پس ثابت ہوا کہ جو عقل پر قدم رکھ کر عشق کی اونچائیوں کو چھوئے اسے ہی بہلول کہتے ہیں ۔ آپ نے عقل وعشق کے امتزاج کا بہتریں نمونہ دیکھنا ہے تو اس درویش عاشق اہل بیت (ع) بہلول کو دیکھ لیجئے۔ مجھے بہلول کا ایک فعل ایسا دکھا دیں جس میں (نعوذباللہ) اس دانا نے عقل کو "سائیڈ" پر رکھا ہو!

اب رہی بات شعر و شاعری کی تو جناب شعر و شاعری میں الفاظ کچھ ہوتے ہیں اور معانی کچھ اور, شاعر جس سطح فکری، جس معرفت کی منزل پر بیٹھ کر بات کر رہا ہوتا ہے وہاں تک عام انسان کی رسائی ممکن نہیں خود دیوان امام خمینی (رح) کے اشعار میں مستعمل الفاظ مے و جام و یار و۔۔۔ کو لغوی لحاظ سے دیکھا جائے تو آپ نعوذ باللہ امام (رہ) کو ہی منحرف سمجھیں گے۔ بات شاعری کی نہیں بات ہے عام عمومی علم کی... خود اقبال کو ہی لے لیجئے کس طرح عقل کے چشمے سے وضو کر کے عشق کی نماز میں کھڑے ہوئے ہیں کہ ایک طرف فرماتے ہیں:

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ         اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں.

لیکن یہ کہه کر وہ عورت کے تعاقب میں دیوانہ وار نہیں پھرتے بلکہ ان لوگوں پر افسوس کرتے ہیں کہ جو عورت کے وجود مین غرق ہو گئے فرمایا:

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار...

اقبال کو علم تھا کہ عشق میں جب عقل کا دامن چھوٹ جائے تو رسوائی ہوتی ہے لھٰذا فرمایا :

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے..

بھر حال ہمارے لیئے کوئی شاعر حجت نہیں ہے , ہمارے لیئے حجت قرآن و اہل بیت (ع) ہیں جن کے قول و فعل سے عقل و عشق کا ساتھ ثابت ہے ان میں تضاد نہیں نہ ہی ایک کا معراج دوسرے کے متروک ہونے کی دلیل، اس لیئے ہم پر بھی واجب ہے کہ سمجھیں کی معرفت اور عشق ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں معرفت کے بغیر عشق کے دعوے خود کو ہی بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔

www.facebook.com/arezuyeaab

arezuyeaab.blogspot.com

عزت کر ہے ہو یا بے عزتی؟

 

عزت کر ہے ہو یا بے عزتی؟

تحریر: محمد زکی حیدری

 

ذہن الفاظ کا ایک گودام ہے اور منہ اس کا دروازہ، جیسے الفاظ گودام کے اندر ہوں گے ایسے ہی منہ سے باہر آئیں گے ، گودام میں الفاظ کی کمی بات چیت کے دوران اکثر مفہوم کی مکمل رسائی کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے اور بولنے والا اپنے تاثرات درست معنی میں سننے والے تک نہیں پہنچا پاتا ، بات کچھ ہوتی ہے لیکن الفاظ کی کمی کے باعث کچھ  اور ہی کہہ بیٹھتا ہے۔ یہ ہی اصول استعارے اور تشبیہات پر بھی صادر ہوتا ہے مثلاً ایک صاحب منبر پر بیٹھ کر مدح علی (ع) کر رہے تھے، تین کو نیچا دکھانے اور چوتھے نمبر کو اونچا دکھانے کیلئے انہیں اور کوئی مثال نہ ملی بڑے ذاکرانہ انداز میں کہنے لگے "اوئےمنافق تیرے توں تے او کتا چنگا جہڑا پشاب کرن ویلے اک ٹنگ اتے چا کہ تن ٹنگا تے پشاب کردا جے۔۔۔" (او منافق تجھ سے تو وہ کتا بہتر ہے جو ایک ٹانگ اٹھا کر تین ٹانگوں پر پیشاب کرتا ہے) پھر اپنے ہاتھ سے سامعین کو اشارے کرنے لگا کہ تم لوگ بات سمجھے ہی نہیں اور سامعین نے نعروں کا تانتہ باندہ دیا یہ بھی نہ سوچا کہ تین کے ساتھ چوتھے کو بھی اس ذاکر نے کتے کی ٹانگ سے ملا دیا چہ جائیکہ اوپر ہو یا نیچے! (نعوذباللہ)

 

ہم ایسے ہی ہیں ہم سوچتے نہیں، ہمیں تو بھیا بس عشق ہے! عقل کی بات کوئی ہم سے کرے تو ہم اسے کہتے ہیں عشق کے آگے عقل کچھ نہیں بیچتی ، تو یہ حال ہے ہمارا! اتنا وقت، اتنی توانائی، اتنا سرمایہ دیوبندی- شیعہ کا بالعموم اور سنی- دیوبندی کا بالخصوص فقط اس بات پر صرف ہوا کہ "نبی (ص) نور ہیں کہ نہیں؟" سنی کہتے نبی (ص) نور ہیں ، دیوبندی کہتا نبی بشر، سنی کہتا ہے ابے شرم کر نبی (ص)کو ہم جیسا کہہ دیا۔ بولا تو اور کیا؟ قرآن میں لکھا ہے "انا بشر مثلنا" میں تمہارے جیسا بشر ہوں۔ سنی کہے دفع ہو! وہ رحمت للعالمین ہیں ہم جیسے بھلا کیسے ہو گئے! بات بڑھتی چلی گئی سنی نے کہا بھیا دیکھو بشر کا سایہ ہوتا ہے نبی (ص) اگر بشر تھے تو سایہ کیوں نہ تھا۔ دیوبندی کہتا ہے کمینے تم ہی نے تو کہا ہے کہ حدیث میں ملتا ہے ایک بادل چوبیس گھنٹے حضور (ص) پر سایہ افگن رہتا تھا تو جب سر پہ سایہ ہو تو ان (ص) کا اپنا کیسا سایہ کیسی پرچھائی؟ سنی بولے محمد (ص) نورِ مجسم! دیوبندی جواب میں کہے ہائے ہائے! جاہل بریلوی اگر محمد (ص) نور کے بنے ہوئے تھے تو بتا خندق والے دن پیٹ پر پتھر کس نے باندھا نور پر پتھر ٹِکا کیسے! اچھا یہ بتا طائف کے شریروں نے نبی (ص) کو پتھروں کی برسات کرکے زخمی کر دیا تھا اگر نور کے بنے ہوئے تھے تو نور کو پتھر بھلا کیا کرے گا، یہ چھوڑ یہ بتا نبی (ص) کھاتے پیتے نہ تھے؟ رفع حاجت محسوس نہیں ہوتی تھی، ہیں؟؟؟ نور کو بھلا بھوک کاہے کی؟ بول بے بدعتی۔۔۔؟؟؟ الا بلا ۔۔۔ بحث چلتی رہی تقاریرمیں، سیمیناروں میں، کتابوں میں، ایک ہی جنگ کہ نبی (ص) نور ہیں کہ نہیں!

 

میں کراچی یونیورسٹی میں تھا وہ الگ دؤر تھا اتنا مذہبی نہیں تھا میں، لے دے کہ بس نماز کی ادائیگی تک محدود! اس میں بھی فجر کی نماز موڈ پر منحصر! وہ تو بعد میں کسی نے آکر زندگی بدل دی۔۔۔ خیر! اس دور میں میرے سامنے دوستوں نے یہ بحث چھیڑی، میں نے کہا یار نور کی تعریف پتہ ہے تم لوگوں کو؟ بولے کیوں نہیں نور مطلب روشنی! میں نے کہا سادہ سی تعریف نور کی اگر یہ کی جائے کہ ہر وہ چیز جس کی وجہ سے اندھیرا دور ہوجائے، تو درست رہے گا؟۔ میں نے ان سے تصدیق کروائی خاص طور پر دیوبندی دوست عبداللہ سے۔ بولا ہاں اس میں  کوئی شک نہیں، میں نے کہا یار دیکھ عرب کی نگری جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی؟ بولا ہاں! میں نے کہاں وہ جہالت کا اندھیرا کس نے ہٹایا محمد (ص) نے یا کسی اور نے ؟ کہا محمد (ص) نے! میں کہا تو اندھیرے کو جو ہٹائے اسے کیا کہتے ہیں؟ کہنے لگا نور! میں نے کہا محمد (ص) کو نور مانتے ہو نا کہنے لگا "ہاں اس طرح تو مانتے ہیں مگر یار یہ بریلوی کہتے ہیں نورِ مجسم یہ تو غلط ہے نا یار!" میں نے کہا رکو!

اب میں نے اس بریلوی دوست عمار سے مخاطب ہو کر کہا یار عمار! نبی (ص) نور کے بنے ہوئے تھے ؟ بولا ہاں! میں نے کہا یہ تو تم حضور (ص) کی اہانت کر رہے ہو۔ بولا کیسے؟ میں نے کہا نوری مخلوق تو فرشتے ہوتے ہیں وہ اشرف المخلوقات نہیں ہیں، اشرف المخلوقات تو انسان ہے۔ تم انسان ہو نا؟ کہنے لگا ہاں ہوں؟ میں نے کہا تو اس نوری مخلوق سے افضل ہو نا؟ بولا ہاں ہوں! میں نے کہا جب تم نوری مخلوق سے افضل ہو تو نبی (ص) کو نوری مخلوق کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ چپ ہوگیا!کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دبے الفاظ میں کہنے لگا "تو کیا تیرا مطلب یہ ہے کہ نبی (ص) نور نہیں؟" میں نے کہا میں نبی (ص) کو نور مانتا ہوں اور یہ عبداللہ بھی مان چکا ہے۔

ہم لوگ یہی کرتے ہیں، کرنا عزت افزائی چاہتے ہیں لیکن اصل میں اگلے کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں، ایک نبی (ص) کو نور ماننے کو تیار نہیں دوسرا انہیں نوری مخلوق سمجھ بیٹھا۔ افراط و تفریط!  نبی (ص) کے سامنے نور کی حیثیت ہی کیا ہے بھائی! ہمیں کہنا چاہیئے جب یہ پوری کائنات اس محمد (ص) کے صدقے وجود میں آئی تو کیا نور کوئی انوکھی چیز ہے؟ اس کا وجود بھی محمد (ص) کے توسط سے ہے۔ نور محمد (ص) کی وجہ سے ہے نہ کہ محمد (ص) نور کی وجہ سے!

 ان بحثوں کو چھوڑیئے، محمد(ص) سے دنیا کا مشکل ترین کام سیکھئے، کیا کام؟ ذہن سازی کا! انسان سازی کا! کردار سازی کا! محمد (ص) نے کتابیں نہیں لکھیں انسان لکھے! محمد (ص) کی کتاب علی (ع) ہیں، محمد (ص) کی کتاب زہرا (س) ہیں، سلمان (رض)، بلال (رض) ابوذر (رض)۔۔۔ ان سب کا استاد محمد (ص) ہے، ان پڑھ ہو کر بھی! یہی وجہ ہے کہ حضرت جوش ملیح آبادی (رح) فرما گئے "عرب کی سی جہالت کی نگری میں جو کسی ایک متنفس کی شاگردی لیئے بغیر بھی پوری کائنات کا استاد کہلائے دبستان ادب کی زبان میں ایسے شخص کو محمد (ص) کہتے ہیں" جناب مدح سرائی کے گر سیکھئے یا چپ رہنا سیکھئے، اپنے کیچڑ سے بھرے گودام کا دروازہ کم از کم ان پاک ہستیوں کیلئے تو نہ کھولیئے۔

www.facebook.com/arezuyeaab

 

شیعہ اور شارٹ کٹ

 

شیعہ اور شارٹ کٹ

تحریر: محمد زکی حیدری

 

ایک مشہور قصہ ہے کہ ایک انگریز خاتوں کی گاڈی ریلوے فاٹک پر آکر رکی کیونکہ فاٹک بند تھا لھٰذا وہ ٹرین کے گذرنے کاانتظار لرنے لگی اور فرصت کے لمحون میں اپنی گاڈی کی کھڑکی کھول کر ادھر اھر نظر دوڑانے لگی اتنے میں سامنے ہی فاٹک پر اسے ایک بہت عجیب و غریب منظر نظر آیا جس نے اس کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے اس خاتون نے دیکھا کہ باوجوس اس کے کہ فاٹک بند ہے ایک سائیکل سوار پاکستانی اپنی سائیکل کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر فاٹک کے اس پار لے گیا اور پھر سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف جانے لگا۔ اس انگریز خاتون جس نے پاکستانیوں کی اپنے ملک بڑی برائیاں سنی تھی کہ کام چور ہیں وقت کی پابندی تو بلکل بھی نہیں کرتے وغیرہ، یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئی اور سوچنے لگی کہ لوگ تو خوامخواہ پاکستانیوں کی برائیاں کرتے ہیں۔ فاٹک کھلا اس خاتون کی گاڈی جب اگلئ ٹریفک سگنل پر رکی تو ایک اور منظر دیکھ کر وہ اور بھی مبھوط ہوگئی، اس نے دیکھا کہ جس شخص نے جلدی میں سائیکل کندھے پر اٹھا کر فاٹک کراس کیا تھا وہ ایک پل کے نیچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر تاش کھیل  رہا ہے اور سگریٹ کے پھوکے بھی لگا رہا ہے۔۔۔

ہم پاکستانی نہ صرف فاٹک پر بلکہ ٹریفک جیم کے وقت، نان لینے کی قطار میں کھڑے ہونے کے وقت، بل جمع کراتے وقت، شادی بیاہ کی تقریبات میں کھانا کھاتے وقت بڑے مایہ ناز کھلاڑیوں کی طرح شارٹ کٹ مارتے ہیں۔ عادت سے مجبور انسان بھلا کیا کرے آخر ہماری یہ شارٹ کٹ کی عادت کے رنگ ہمارے دینی فرائض اور عقائد میں بھی نظر آنے لگے۔ ہم دین میں بھی شارٹ کٹ کے عادی ہوگئے۔ مثال حاجی صاحب ساری زندگی سود کھاتے ہیں، تجارت میں دو نمبری کاروبار سے پیسہ کماتے ہیں اور جب حج کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش پیش حج سے مشرف ہونے چل دیتے ہیں، اس کے علاوہ ایک بڑی خیرات بھی کردیتے ہیں جس میں خود بھی سفید کڑتا اور عطر لگا کر موجود بھی رہتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے غریبوں میں کھانا بھی بانٹتے ہیں، دین کا ٹھیکیدار مولوی بھی اس محفل میں اپنی خضاب کردہ داڑھی کو عطر لگا کر اسے اپنے ہاتھ سے سہلا رہا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شارٹ کٹ جنت میں جانے کا بھائی کیوں نہ جائیں گے حاجی صاحب جنت میں بھلا، کیا قرآن نے مسکینوں کو کھانا کھلانے پر زور نہیں دیاَ؟ جی جی حضور دیا ہے آپ کے حاجی صاحب 363 دن دونمبریاں کریں اور دو دن خیرات کر کے شارٹ کٹ مار کر جنت میں جائیں گے۔۔۔

یہی حال ہم شیعوں کا ہے ہمارے شارٹ کٹ تو سنیوں سے بھی سستے ہیں۔ ہمارے پاس صرف ع ل ی کہتے جاؤ جنت میں جاتے جاؤ۔  اتنی آسان جنت۔۔۔ ابے کاہے کا روزہ، کاہے کی نماز ، کاہے کا تقویٰ نعرائے حیدری لگانا ہے پل سے گذر جانا ہے۔۔۔ خطینب منبر پر آئے گا اور۔۔۔ اچھا ہم شیعوں کے منبر کے بارے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے جو خطیب جتنی زیادہ بگڑی ہوئی شکل والا ہوگا اتنی جنت سستی اور آسانی سے دیگا آپ کراچی سے چاردہ معصومیں امام بارگاہ سے شروع کریں پنجاب تک چلے جائیں غضنفر تونسوی سب سے گندی شکل کا ہے یہ میرا چیلنج ہے اور آپ کو اس شخص سے سستی جنت کوئی نہیں دیگا، حافظ تصدق دوسرے نمبر پر ہے چھوٹا ہے قد کا لیکن موٹر بڑی لگی ہے اس کے اندر، ضمیر آختر صاحب ان دونوں سے تھوڑا سا زیادہ "اسمارٹ" ہیں ان کی جنت ان سے ٹھوڑی سی زیادہ مہنگی ہے۔۔۔ لیکن ایک قدر مشترک ہے تینوں میں کہ عمل ومل کی کوئی ضرورت نہیں متفق علیہ رائے ہے ان صاحبان کی کہ عمل نہیں صرف ع ل ی کرتے جاؤ سیدھے جنت میں ۔۔۔ اور ہم تو شارٹ کٹ کے عادی ہیں سو یہ تو بھیا اللہ نے سن لی ہماری، سو دے دنا دن ان کے پیچھے۔۔۔

ہر کام کے دو طریوے ہوتے ہیں ایک ہوتا ہے درست طریقہ جو کہ چابت شدہ ہوتا ہے اور عقلا اسے استعمال کرتے ہیں اور ایک ہوتا ہے اسی کام کے کرنے کا شارٹ کٹ، یعنی آسان طریقہ جس کی عقلا کم جہلا زیادہ پیروی کرتے ہیں آپ کو یہ خطیب لوگ صرف ایک ہی پہلو پر بات کرتے دکھائی دیں گے اور وہ ہے شارٹ کٹ والا پہلو مثلاً کہتے ہیں کہ جتنی بھی نمازیں پڑھ لو، جتنا بھی عمل کر لو لیکن اگر محبت اہل بیت (ع) نہیں تو کچھ نہیں۔۔ بات صحیح ہے لیکن شارٹ کٹ ہے!!! کیوں؟ کیوں کہ پورا طریقہ نہیں بتایا گیا آدھی بات کی گئی۔ پوری بات یہ ہے کہ اگر محبت اہل بیت (ع) نہیں تو عمل کسی کام کا نہیں اور اگر عمل نہیں تو محبت اہل بیت (ع) بھی کسی کام کی نہیں، وہ جھوٹا دعوائے محبت ہوگا محبت نہیں۔  ارے میاں یہ کیا کہہ دیا، ہم سے بیبی (س) نے، ہم سے مولا حسین (ع) نے وعدہ کیا ہے کہ ہم عزاداروں کی وہ شفاعت کریں گی۔ جی جی بیشک کریں گی بھیا لیکن عزادار بنو تو!!! کیا رونے کو عزاداری اور فضائل علی (ع) پڑھنے کو آپ محبت علی (ع) سمجھ بیٹھے ہو؟؟؟ چلو میں کتابیں دکھاتا ہوں معاویہ نے مدح علی (ع) کی ہے تو کیا معاویہ بھی محب اہل بیت (ع)؟؟؟ پھر کتابوں میں لکھا ہے یہ آپ کی مقاتل خوازمی اٹھا لیں آخری وقت جب شمر امام مظلوم (ع) کے سینے پہ سوار ہو بیبی زینب (س)دور کھڑی عمر سعد سے کہ رہی ہیں اے عمر حسین قتل ہو رہا ہے اور انت تنظر علیہ اور تم کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہو عمر کی انکھوں سے اشک جاری ہوکر اس کی داڑھی پر سے ہوتے ہوئے زمین پر ٹپک رہے تھے اور اس نے حسین (ع) کے قتل کے منظر سے آنکھیں پھیر لی۔۔۔ آیئے کربلا میں علی اصغر (ع) کو جب حرملہ نے۔۔۔۔ تو سپاہ یزید کی اکثریت رو رہ تھی۔۔۔ یہ عزادر تھے؟؟؟؟ فضائل اور مساءب و گریہ تو بھیا ان لوگوں نے بھی کیا۔ کیا آنسو بہانہ جنت میں لے جائیں گے انہیں؟؟؟ نہیں عمل!!! عمل کے ساتھ رونا ہو تو بات بنے گی بھیا۔ ہم یہ فضائل اور مصائب کی بڑی بڑی باتیں اسی لئے کرتے ہیں کہ ہمیں شارٹ کٹ میں سب کچھ چاہیئے، عمل والی بات تو لانگ روٹ ہے نا!!!

www.fb.com/arezuyeaab

اللہ (ج) پر توکل

 

اللہ (ج) پر توکل

 

جو پرھیزگار عورت پر تہمت لگائے

 

جو پرھیزگار عورت پر تہمت لگائے

 

سچ اور جھوٹ

 

سچ اور جھوٹ

 

شہید عارف کی قبر پر!

 

شہید عارف کی قبر پر!

تحریر:محمد زکی حیدری

اے میرے "شہید"! اے میرے "عارف"! اے میرے "حسینی"!  میں اس ناتواں زبان سے کیا آپکی تعریف کروں میرے استعجاب کیلئے آپ کے نام میں موجود الفاظ ہی کافی ہیں! میرا سلام ہے اس بردبار باپ پر جس نے آپ کا یہ نام رکھا اور اس باعفت سیدہ ماں پر جس نے آپ کی تربیت ایسی کی کہ آپ نے اپنے نام میں موجود ہر لفظ کی عملی تفسیر کر کے دکھائی. آپ نے اس قوم کے ظاہری اور باطنی حالات و مسائل کی  کامل معرفت حاصل کرکے اور اس کا حل تجویز کرکے ثابت کیا کہ آپ ایک "عارف" رہنما تھے، اس کے بعد حسین (ع) کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے باطل سے برسر پیکار ہوکر ثابت کیا کہ آپ "حسینی" سید ہیں اور اس کے بعد اپنی سوئی ہوئی قوم کو اپنے پاک خون کے چھینٹوں سے بیدار کرنے کی کوشش میں "شہید" ہوئے، آپ کے نام سے جڑے ہر لفظ کی عملی تفسیر کے نشانات بدین (سندہ) سے لے کر گلگت تک نظر آتے ہیں.

اے میرے شہید! میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں لیکن مجھ سے بھی زیادہ آج پاکستانی کی شیعہ سنی عوام آپ کو یاد کرتی ہے میرے شھید قائد! مجھے علم نہیں آپ کا دور کیسا تھا، آپ کے دور کے حالات کیسے تھے، میں نے اس وقت ابھی آنکھ نہیں کھولی تھی، مگر بابا اور چاچا آپ کے ساتھ ہوتے تھےان سے سنا تو معلوم ہوا آپ قوم کو بلاتے تھے تو لوگوں کا ٹھانٹھیں مارتا ہوا سمندر آپ کی جانب آنے لگتا تھا، مینار پاکستان پر چار لاکھ افراد جمع ہونے کا سن کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کاش میں بھی اس دور میں ہوتا!

 
میرے شہید! میں آپ کی قبر پر آکرآپ سے بہت باتیں کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے جانے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کیا ہوا اور دور دور تک کوئی ہمارا پرسان حال نہیں، اگر ہیں بھی تو کلمة الحق یراد به الباطل (بات سچی مگر نیت بری) کی مصداق۔۔۔ میرے شہید آپ تو اتحاد بین المسلمین کے سچے داعی تھے مگر آپ کے جانے کے بعد آپ کی مسند پر ایک سید کو بٹھایا گیا اور ان کی قائدانه  غیر فعالیت اور کچھ مشکوک فعالیتوں کی وجه سے جلد ہی ان پر گھنونے الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اور وہ قوم کے مسائل کا حل سوچنے کی بجائے الزام لگانے والے مخالف گروپ کو صفائیاں، ثبوت دینے لگ گئے ہم چپ رہے، ہم دیکھتے رہے۔

میرے شہید! کل آپ کے ساتھیوں کے منعقد کیئے ہوئے ہر جلسے سے  اتحاد بین المسلمین کی خوشبو آتی تھی مگر آپ کے جانے کے بعد ان کے ہر جلسے سے انتشار بین المومنین کی بدبوء آنے لگی۔ آپ کے ہوتے ہوئے جو بھی لٹریچر چھپتا اس سے اہل سنت برادران  کو قریب لانے اور ان میں موجود تفرقہ بازوں کی سرزنش و مذمت کی پاکائی نظر آتی تھی لیکن آپ کے جانے کے بعد ہم نے ایسا لٹریچر دیکھا جس میں ایک شیعہ کی دوسرے شیعہ پر الزاموں کی غلاظت نظر آئی. ہم دیکھتے رہے!

میرے شہید!  پھر یہ ہوا کہ دشمن کی جانب سے بوئے اس تفرقے کا بیج غنچے میں تبدیل ہوا اور شیعہ دشمن عناصر جنہوں نے ہر بار آپ کی با بصیرت قیادت سے منہ کی کھائی تھی نے اس غلیظ غنچے کی خوب آبیاری کی اور آپ کے جانشین اس چال کو سمجھ نہ سکے آخر بات یہاں تک آگئی کے تنظیمیں الگ ہونے لگی، وہ دشمن جو آپ کے ہوتے ہوئے شیعہ سنی کو لڑانا بھی ناممکن سجھتا تھا نے بڑی آسانی سے شیعہ کو شیعہ سے دست و گریباں کر دیا اور خوش ہوا۔ میرے شہید ہم دیکھتے رہے!

 میرے قائد! پھر یہ ہوا کہ دشمن نے ہم کو منتشر پایا تو ہماری طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنا شروع کی اور ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اتنے مگن تھے کہ ہمیں  خیال نہ رہا کہ دشمن ہماری عبادتگاہوں تک آ پہنچا آپ کے فرزندوں نے اپنے خون کے نذرانے دینا شروع کیئے مگر بجائے اس کے کہ ہمارے قائدین دشمن کی اس گھنؤنی حرکت کو اتحاد کے ذریعے  جواب دیتے ہم نے اتحاد پر دھیان نہیں دیا!

میرے قائد! جسیے جیسے یہ غنچہ طاقت پکڑتا گیا ایسے ایسے ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے  چلے گئے نوبت یہاں تک آئی که غنچه درخت بنا اور اس کے نجس پھل  کے طفیل ہماری عبادتگاہوں کو بموں سے اڑایا جانے لگا، ہمارے لوگوں کو چن چن کر مارا جانے لگا، ہماری عوام کو بسوں سے اتار اتار کر مارا جانے لگا۔ میرے قائد آپ کے عوام کی مائیں ہر روز اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں پر بین کرتیں، اس طرح چلا چلا کر پکارتی هیں کہ اگر دو پتھر کی مورتیاں بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتیں تو وہ بھی ان ماؤں کی آہ و بکا کے طفیل مجبور ہوکر ایک دوسرے کو گلے لگا کر رونے لگتیں مگر پتھر دل انسان شاید اس پتھر سے بھی زیادہ سخت تھا کہ اس پر ان حوادث کا کچھ اثر نہ ہوا اور اس نے اسی طرح دو دھڑے رہنے دیئے! آپ کے جانشین اتحاد بین المومنین کی بجائے اتحاد بین المسلمین کے دعوے کرتے رهے اور ان کے مخالفین تنقید!

میرے شہید! پھر یہ ہوا کہ کچھ نوجوان آپ کی مسند پر بیٹھے ہوئے قائد سے خفا ہوئے اور الگ ہو گئے اور باضابطہ طور پر الگ پلیٹ فارم بنا لیا اور بڑے بڑے جلسے کرنے لگے اس سے یہ ہوا کہ آپ کے جانشین نے بھی جوابی جلسے کرنا شروع کردیئے ہم دیکھتے رہے! میرے قائد آپ کے جلسوں میں عوام دل اور روح ساتھ لیکر آتی تھی مگر ان جلسوں میں  ہم جاتے ضرور ہیں مگر صرف جسم لے کر! آخر دو مخالف بھائیوں میں سے کسی ایک کی دعوت پر جاکر اتحاد کی باتیں سننا باضمیرانسان پر گراں گذرتا ہے! الگ الگ بیٹھ کر اتحاد کی باتیں! کیا کیجیئے دل نہیں مانتا کیوںکہ اس طرف بھی ہمارے بھائی اور اس طرف بھی ہمارے بھائی!  اچھا پھر یہ لوگ الگ الگ الیکشن لڑے، چار ووٹ دینے والوں کو دو امیدوار سامنے تھے جو کہ دونوں شیعہ ! ہم بھوکھلا گئے جائیں تو کہاں جائیں ہم نے ووٹ ہی نہ ڈالا!

میرے قائد ! ان لوگوں کو اتحاد کی طاقت کا علم بھی ہے اور ایک بار عملی طور پر انہوں نے اس کا مظاہرا بھی کیا اور بلوچستان حکومت کو چنے چبوا دیئے مگر اس کامیابی سے بھی انہوں نے سبق نہ سیکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی عوام عمامے والوں سے یه کهه کر متنفر هوگئی که "یار یه تو بس ایک دوسرے سے هی لڑتے رهتے هیں" عمامے کے ساتھ اپنوں نے ظلم کیا میرے قائد جس عمامے کو خمینی (رح) نے پوری دنیا اور آپ نے پورے پاکستان کے ظالموں کیلئے موت کی نشانی کے طور پر مشھور کیا. اس عمامے سے آپ کی قوم اب نا امید ہونے لگی ہے۔

میرے قائد! میرے شہید! میرے عارف! میرے حسینی! بیانِ حالِ دل طویل ہے کیا کیا بتا کر کیا بتاؤں۔۔۔ بس اب اتنا عرض ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ میرے مولا حسین  (ع) سے آپ کی ملاقات ضرور ہوتی ہوگی اب کے ان سے ملیئے تو کہیئے گا  اس طالبعلم کو سچ بولنے کی ایسی سزا ملے کہ اس کے جسم کا ایک ذرا مشرق تو دوسرا مغرب سے ملے کیونکہ اگر میں عام موت مارا گیا تو آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا میرے شہید قائد!

 

www.facebook.com/arezuyeaab

 

سیاه دیواریں, لال دیواریں

سیاه دیواریں, لال دیواریں

تحریر: محمد زکی حیدری

 

کھتے هیں که آفریقہ میں ایک بھت بڑا جنگل تھا, اس میں انسانوں کا ایک گاؤں تھا جس کے لوگ جنگل میں مقیم بقیه جنگلیوں کے  مقابلے ذرا زیاده مھذب و شریف تھے. یه مھذب اور امن پسند گاؤں والے جنگلیوں کو بلکل ناپسند تھے اور ان کی آنکھ میں کانٹے کی مانند تھے. یهی وجه تھی که آئے دن یه جنگلی مختلف بھانوں سے ان شریف لوگوں کو ستایا کرتے. ان کی متعصبانه روش اس حد تک پهنچ گئی که اس گاؤں کے سردار جو بھت نیک دل اور عظیم انسان تھے, کو جنگلیوں نے قتل کردیا. پورے گاؤں پر سوگ کی گھٹا چھا گئی. اب نیا سردار تو بنانا تھا لھذا اس گاؤں کا ایک نیا سردار بنایا گیا, گاؤں والوں کو امید تھی که ان کا نو منتخب سردار جنگلیوں سے اپنے شھید سرادر کا بدله بھی لے گا اور جنگلیوں کو ایسا سبق سکھائے گا که آئنده جنگلی اس گاؤں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نه دیکھیں گے.

 

وهاں جنگلی بھی ذرا ڈرے سھمے سے تھے که سردار قتل هوا هے گاؤں والے ضرور بدله لیں گے اور نئے سردار کی جوشیلی تقاریر نے تو ان کی نیندیں حرام کر رکھیں تھیں.

وقت گذرتا گیا جنگلیوں نے محسوس کیا که گاؤں والوں نے کوئی ردعمل ظاھر نھیں کیا سوائے اپنے سردار کی چند جوشیلی تقریروں کے. سو جنگلیوں کی جان میں جان آئی اور انھوں نے آھسته آھسته سے ایک بار پھر گاؤں کے افراد کو تنگ کرنا شروع کیا. سردار کو پته چلا تو سردار نے پھر جوشیلی و دھمکی آمیز تقریر کر ڈالی. لیکن اب جنگلیوں کو ان تقاریر کی حقیقت پته چل چکی تھی سو وه بڑی آزادی سے اپنی بزدلانه حرکتیں کرتے رهے.

 

جنگلی رات میں آکر اس گاؤں کی دیواروں په ان گاؤں والوں کے خلاف اپنی جنگلی زبان میں نازیبا الفاظ لکھ کر چلے جاتے. گاؤں والوں نے اپنے سردار کو شکایت کی که دیکھئے سردارصاحب گاؤں کی دیواریں دشنام سے بھری هوئی هیں, جنگلی همیں غیر مھذب کهتے هیں.

سردار نے وعده کیا که اس بار وه ان جنگلیوں کا ایسا علاج کرے گا که وه یاد رکھیں گے اور آئنده کسی  دیوار پر بھی گاؤں والوں کے خلاف دشنام طرازی نظر نھیں آئے گی. اس سردار نے  یه کیا که جنگلیوں کے ایک سردار سے جاکر صلح کر لی. اور سارے جنگل میں یه بات پهیل گئی که جنگلیوں کے سردار اور گاؤں والوں کے سردار کے مابین صلح ھوگئی هے. اس کے نتیجے میں یا اتفاق کی بات هے که جنگلیوں نے دیواریں گندی کرنے کا کام ترک کر دیا لیکن جنگلی تو جنگلی تھے ان کو کیا لینا سرداروں سے اور صلح سے, سو انھوں نے اپنا دیواریں گندی کرنے والا کام روک کر گاؤں والوں کو تنگ کرنے کے اس سے بھی گھٹیا طریقے پر سوچنا شروع کیا.

جب تک وه گاؤں والوں کے خلاف نیا منصوبه تشکیل دینے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے تھے تب تک وهاں گاؤں کے سردار نے بڑی جوشیلی تقریریں کی که " هم نے جنگلیوں سے اتحاد کا عظیم فیصله کیا جس کا نتیجه یه هے که وه لوگ جو کل هماری دیواروں پے دشنام طرازی کر جاتے تھے آج انھوں نے یه کام ترک کردیا, یه هماری فتح هے"

وهاں جنگلیوں نے کئ دن کی گفت و شنید کے بعد حتمی فیصله کیا که هر رات کو گاؤں میں گھس کر گاؤں والوں کے اچھے, عقل والے, اور جنگل میں شھرت رکھنے والے افراد کو ایک ایک کر کے قتل کریں گے. لھذا ان جنگلیوں نے اپنے اس گھنؤنے منصوبے کو عملی جامه پهنانا شروع کیا, ایک کے بعد ایک گاؤں کے بڑے بڑے ماھر لوگ مارے جانے لگے, کبھی کبار تو درجنوں و دسیوں گاؤں والے ایک هی دن میں مارے جانے لگے, ھر عمر کے افراد, ھر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد چن چن کر مارے جانے لگے. گاؤں کا کوئی پرسان حال نه تھا.  سردار کی جنگلیوں کے اس سردار سے صلح قائم رهی , آنا جانا بھی رها. جب بھی کوئی گاؤں والا قتل هوتا تو سردار اپنے گاؤں والوں سے خطاب کرتے ھوئے کهتا " هم نے جنگلیوں سے اتحاد کیا جس کی برکت یه هے که آج کسی دیوار پر هماری دشمنی میں بهائی جانے والی سیاھی کے نشان نظر نھیں آتے " .... سامنے کھڑی کسی مقتول کی ماں, بھن, بیٹی, بیوی دل هی دل میں کهتی هوگی "ھاں جی سردار صاحب! دیواروں په سیاھی کے نشان بیشک نظر نھیں آتے مگر خون شھداء کے چھینٹوں کے نشان ضرور نظر آتے هیں... آپ نے دیواروں کو سیاه هونے سے بچایا لال هونے سے پته نھیں کون بچائے گا..."

 

www.fb.com/arezuyeaab