کیا امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی سید لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے شادیاں نہ ہوسکیں؟
کیا امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی سید لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے شادیاں نہ ہوسکیں؟
تحریر: محمد زکی حیدری
امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کے بارے میں تاریخی کتب میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں ہم ان میں سے ہر ایک پر مفصل گفتگو کریں گے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ایک معصوم کی اتنی بیٹیاں کیوں نہ بہائی جا سکیں؟
وصیت امام موسیٰ کاظم کہ میری بیٹیاں شادی نہ کریں (استغفراللہ)
ایک تاریخ دان لکھتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے خود وصیت کی تھی کہ میری کوئی بھی بیٹی شادی نہ کرے!
یہ کہنا ہے ابن واضح یعقوبی کا ۔ اس کے بقول : موسی بن جعفر (امام موسی کاظم) کی 23 بیٹیاں تھیں اور 18 بیٹے تھے : علىرضا ، ابراهيم ، عباس ، قاسم ، اسماعيل ، جعفر ، هارون ، حسن ، احمد ، محمد ، عبيدالله ، حمزه ، زيد ، عبدالله ، اسحاق ، حسين ، فضل و سليمان۔ موسی کاظم (ع) نے وصیت کی کہ میری کوئی بھی بیٹی شادی نہ کرے اور ان میں سے کسی بیٹی نے شادی نہیں کی سوائے ام سلمہ کہ جنہوں نے مصر میں قاسم بن محمد بن جعفر بن محمد سے عقد کیا لیکن اس بات کو لیکر قاسم اور ان کے رشتیداروں میں بڑی بحث چھڑ گئی اتنی حد تک کہ قاسم کو قسم کھانی پڑی کہ انہوں نے سلمہ کا جامہ اس سے دور نہیں کیا اور سوائے عقد موقتی (یعنی متعہ) کے کچھ نہ کیا تا کہ سفر حج کیلئے دونوں ایک دوسرے کے محرم ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اور اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
علمائ کرام نے یعقوبی کی بات کا انکار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے ہیں:
ایسی وصیت سنت رسول اللہ (ص) اور آئمہ اطہار (ع) کی سیرت کے خلاف ہے اور امام معصوم سے ایسی وصیت کا آنا ناممکن اور نا معقول ہے۔
اب جو وصیت امام (ع) نے کی تھی اس کی روشنی میں ہم یعقوبی کی بات کا جائزہ لیتےہیں۔
ابراهيم بن عبدالله از موسى بن جعفر ( ع ) نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کچھ افراد مثل اسحاق بن جعفر، ابراهيم بن محمد و جعفر بن صالح وغیرہ ۔۔ کو اپنی وصیت کا گواہ بنایا اور فرمایا : اُشْهِدُ هُمْ اَنّ هَذِهِ وَصِيَّتى . . . اَوصَيْتُ بها اِلى عَلَىٍٍّ اِبْنى . . . و اِنْ اَرادَ رَجَلٌ مِنْهَم اَنْ يُزَوِّجَ أختَهُ فَلَيْسَ لَهُ اَنْ يُزَوِّجَها الاّ بِاِذْنِهِ وَ اَمْرِهِ . . . وَ لا يُزَوِّجَ بَناتى اَحَدٌ مِنْ اِخْوتِهِنَّ وَ مِنْ اُمّهاتِهِنَّ وَ لا سُلْطانٌ وَ لا عَمِلَ لَهُنّ اِلاّ بِرأيِهِ وَ مَشْوَرتهِ ، فَاِنْ فَعْلُوا ذلِكَ فَقَدْ خالَفُوا الله تَعالى وَ رَسُولَهُ ( ص ) وَ حادُّوهُ فى مُلْكِهِ وَ هُوَ اَعْرَفُ بِمنالحِ قَوْمِهِ اِنْ اَرادَ اَنْ يَزَوِّجَ زَوَّجَ ، وَ اِنْ اَرادَ اَنْ يَتْرَكَ تَرَكَ . . . "
میں نے شاہد بنایا ان کو کہ یہ میری وصیت ہے میرے بیٹے علی کیلئے۔ تم میں سے کوئی بھائی اپنی بہن کی کسی سے شادی کرنا چاہے تو اسے حق نہیں جب تک کہ (امام علی رضا) اجازت و فرمان نہ دے دیں۔ اور نہ ہی میری بیٹیوں میں سے کسی کو حق ہے کہ وہ اپنی بہنوں کی شادیاں کروائیں، نہ ان کی ماں نہ ہی کوئی ولی ان کیلئے کوئی اقدام کرے اس سے قبل کہ اس (امام رضا) سے رائے زنی اور مشاورت نہ کرلی جائے۔ اگر اس کی اجازت کے بغیر کسی نے کوئی اقدام کیا تو بیشک اس نے خدا و رسول کی مخالفت کی اور اس کی سلطنت میں فساد کیا۔ وہ (امام رضا) اپنی قوم میں شادی کی مصلحتوں کو سب سے بہتر طور جانتے ہیں،جس کی چاہیں شادی کرائیں اور جس کی چاہیں نہ کرائیں۔"
اس وصیت نامے میں امام موسیٰ کاظم (ع) نے صراحت کے ساتھ اپنے بیٹوں کو بتایا کہ ان کے بعد حجت خدا امام رضا (ع) ہیں، لہٰذا ان کی بہنیں ہر کام بشمول ازدواج میں ان (ع) سے مشاورت کریں۔ جس کیلئے امام رضا(ع) راضی ہوں اس کے ساتھ شادی کریں کیونکہ امام مسائل ازدواج سے بہتر واقف ہیں اور ان کے ہمسروں کا فیصلہ بہتر طور کر سکتےہیں۔ اس میں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے بیٹیوں سے کہا ہو کہ وہ ازدواج کریں ہی نا!!!!! بات صرف اتنی ہے کہ امام (ع) نے فرمایا جو بھی کرنا ہو حجت خدا امام علی رضا (ع) کی مشاورت سے کرنا۔ لہٰذا یعقوبی کا یہ کہنا کہ معاذاللہ امام (ع) نے ازداوج جیسے اہم اور ضروری فعل سے اپنی بیٹیوں کو منع فرمایا سراسر جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مورخین نے یعقوبی کی بات کو جعلی و بے بنیاد کہا ہے
کفو کا نہ ملنا
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ امام (ع) کی دختران مثلاً فاطمہ معصومہ (س) علمی و معنوی کمالات سے سرشار تھیں لھٰذا ان کا کوئی کفو موجود نہیں تھا اس لیئے ان کی شادیاں نہ ہو سکیں۔ کیونکہ ازداوج میں کفو بھی دیکھا جاتا ہے.
یہ نظریہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ اقوال و سیرت محمد (ص) کےمنافی ہے ۔ اور سیرت آئمہ بھی یہ نہیں رہی کہ صرف کفو نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو عظیم نعمت یعنی ازدواج سے محروم رکھیں۔ دوسری بات یہ کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مومن مومنہ کی کفو ہے۔ اور رسول اللہ (ص) نے جویر نامی صحابی کا نکاح بشیر بن زیاد جیسے شرفاۓ وقت میں سے ایک کی بیٹی سے کروایا جب کہ جویر اصحاب صفا میں سے تھا جن کا کوئی رشتیدار بھی نہیں تھا نہ مال نہ دولت بس تقویٰ تھی۔ اسی طرح زید بن حارث غیر ہاشمی صحابی تھے ایک غلام تھے ان کا نکاح رسول (ص) نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب بنت جحش ہاشمی سے کروایا اور بھی متعدد مثالیں ہیں جن سے ثابت ہی کہ مومن مومنہ کا کفو ہے۔ اس کے علاوہ رسول (ص) کا قول بھی ہے کہ "جب بھی کوئی تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے، اس کی دینداری و ایمان تمہیں پسند آئے تو اس کو رشتہ دے دو،اگر نہیں دیا تو زمین میں بڑا فساد کیا۔ امام موسیٰ کاظم (ع) کے دور میں امام حسن (ع) کی پشت اور امام حسین (ع) کی نسل کے بڑے اچھے نوجوان اس وقت موجود تھے کہ جن سے امام (ع) کی بیٹیوں کی شادی ہوسکتی تھی۔
خلیفہ وقت ہارون رشید کی سختیاں
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہارون رشید جیسے سفاک خلیفہ کی طرف سے امام پر کیئے جانے والے مظالم وجہ بنے کے امام (ع) کی بیٹیاں غیر شادی شدہ رہ گئیں۔ ہارون رشید کے دؤر میں امام (ع) اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی۔ ہارون کے جاسوس ہر جگہ موجود ہوتے تھے کون امام (ع) سے مل رہا ہے ، کب مل رہا ہے سب کی سخت نگرانی کی جاتی تھیئ اور تاریخی کتب میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں جو اس وقت امام (ع) اور ان کے خاندان کے حالت کے عکاس ہیں۔ ان حالات میں کس میں اتنی جرآت تھی کہ جا کر امام (ع) کا داماد بنے۔ اور خود کو امام (ع) کے رشتہ داروں کی فہرست میں شامل کروا کر ہارون کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوجائے۔ اس وقت کےحالات ایسے تھے کہ کوئی امام (ع) سے فقہی مسئلہ دریافت کرنے بھی نہ جاتا تھا پھر اس ماحول میں شادیوں کی باتیں کیسے ممکن تھیں۔ حالانکہ ہارون رشید ظاہری طور پر بڑا دیندار بنتا تھا لیکن باطن میں اتنا ہی سفاک اور ظالم تھا۔ ایک مورخ نے لکھا کہ جب ہارون وعظ سنتا تھا تو بہت روتا تھا لیکن جب غصے میں ہوتا تو درندہ صفت انسان بن جاتا تھا۔
اس وقت کے شیعہ سیاسی حبس اور گھٹن کے ماحول میں زندگی گذار رہے تھے حتیٰ کہ علی بن یقطین جیسا بندہ بھی کو تقیہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ اس کی ہر سرگرمی پر نظر رکھی جاتی تھی۔ وہ لباس ولا مشہور واقعہ بھی حالات کی تنگی کا گواہ ہے کہ جو لباس خاص خلفہ کیلیئے تھا اور علی بن یقطین کو ھارون رشید نے دیا تھا اور علی بن یقطین نے یہ لباس امام موسیٰ کاظم (ع) کو تحفہ میں دینا چاہا مگر امام نے قبول نہ کیا اور فرمایا : اس لباس کو سنبھال کر رکھو کسی کو مت دینا کیونکہ یہ ایک بڑے حادثے سے تمہیں بچانے کے کام آئے گا۔ کچھ دن بعد علی بن یقطین کے ایک غلام نے جا کر ہارون سے کہا کہ وہ جو لباس تم نے علی بن یقطین کو دیا تھا وہ اس نے امام موسی کاظم (ع) کو دے دیا ہے۔ ہارون نے فوراً علی بن یقطین کو بلایا اور اس سے اس لباس کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا میں نے وہ لباس صندوقچے میں سنبھال کر رکھا ہے۔ ہارون بولا فوراً لے آؤ۔ جب ہارون نے لباس دیکھا تو کہا اچھا ٹھیک ہے آئندہ میں تمہارے خلاف کسی شکایت پر اعتبار نہیں کرونگا۔ اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں حتیٰ کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے علی بن یقطین کو اہل سنت کی طرح وضو کرنے کی بھی تاکید کی تا کہ وہ دشمن کے شر سے محفوظ رہے۔ اس کے بعد یہ بھی تو ظاہر ہے کہ امام بعض روایات کے مطابق 7 بعض کے مطابق 14 سال زندان میں رہے اور اس دوران جب امام علی رضا (ع) نے ہوش سنبھالا تب بھی حالت ایسے ہی تنگ رہے۔ مجبوراٍ انہیں خراسان کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور اسی دربدری میں ہی بیبی معصومہ بنت امام موسیٰ کاظم (ع) کی قم میں شہادت ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ امام (ع) نے وصیت کی تھی کہ بیٹیاں شادی نہ کریں ایک معصوم کی سچائی کے دامن پر ایک بڑا داغ ہوگا۔ اور یہ کہنا کہ کفو میسر نہیں تھا بھی امام (ع) کی ذات اقدس پر ایک عظیم بہتان ہوگا کیونکہ سیرت معصومین سے یہ ثابت نہیں کہ کفو نہ ملے تو بیٹیاں کنواری رہنے دی جائیں۔ امام (ع) کی بیٹیوں کی شادی نہ کرنے کی وجہ ہارون کے مظالم ہیں جن کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ حالات ایسے تھے کہ امام (ع) کے گھر کی طرف کوئی جانا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ اور اس کے بعد طویل قید ایک صاف دلیل ہے کہ حالت واقعی بہت تنگ تھے۔
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.