مسجد گوہرشاد

اور

عاشق آیت اللہ

مترجم از زبان فارسی: محمد زکی حیدری و آب

گوہرشاد بیگم ایک  باحجاب  اور مذہبی خاتون تھیں  نقاب ہمیشہ ان کے چہرے پر آویزاں رہتا،  انہوں نے حرم امام رضا  (ع) کے برابر میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا قصد کیا انہوں نے اس کام پر مامور تمام مزدوروں اور معماروں کو ہدایت کی  کہ انہیں مسجد کی تعمیر کے سلسے میں  دوبرابر اجرت دی جائے گی  لیکن شرط یہ ہے کہ وہ سب لوگ کام کرنے دؤران با وضو رہیں گے، ایک دوسرے سے بدتمییزی اور بدکلامی نہیں کریں گے،اخلاق اسلامی اور یاد خدا کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور ایسے مزدور جو  ساز و سامان کی حمل و نقل کیلئے  جانوروں کا استعمال کرتے ہیں وہ ان بے زبانوں کے آب و دانے کا خیال رکھیں ان پر اضافی وزن نہ ڈالیں اور  انکو زدو کوب بھی نہ کریں ۔

گوہرشادمزدوروں کی نگرانی کیلئے مسجد جایا کرتیں، ایک دن وہ معمول کے مطابق مزدوروں کی نگرانی کیلئے مسجد  گئیں تو  ہوا کی وجہ سے ان کا مقنعہ اور حجاب  تھوڑا سا ہٹ گیا اور ایک نوجوان مزدور کی نظر ان کے چہرے پر پڑی لھٰذا جوان اپنا دل کھو بیٹھا اور گوہر شاد کے عشق میں  اتنا بے صبر و لاچار ہو گیا کہ   بیماری کے بستر تک جا پہنچا۔

بہت دن گذر گئے وہ کام پہ نہ آیا   گوہر شاد نے اس کی طبیعت کا معلوم کیا  تو پتہ چلا کہ وہ  بیمار ہے لھٰذا  گوہرشاد اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیں۔

دن گذر تےگئے مگر جوان  کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی اسکی ماں نے اپنے بیٹے کی موت کو یقینی جان کر فیصلہ لیا کہ وہ ہر صورت میں   ملکہ  گوہر شاد سے مل کر انہیں اس قصہ سے آگاہ کریں گی چاہے اس کے لیے اسے جان سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونے پڑجائیں  لھٰذا ایک دن اس نے جاکر ملکہ سے قصہ بیان کردیا اور ملکہ کے رد عمل کی منتظر ہوئی، ملکہ نے  مسرت بھرے انداز میں اس سے کہا  :" اس  میں کوئی مضائقہ نہیں ، مجھے پہلے بتا دیتی  تا کہ  میں کسی بندہ خدا کی تکلیف دور کرنے کے کام آجاتی۔ اس نے جوان مزدور کی ماں سے کہا : "اپنے بیٹے سے جاکر کہہ دو کہ میں  اس سے شادی کرنے کیلئے راضی ہوں، لیکن اس سے پہلے دو امور کا انجام پانا لازمی ہوگا ایک   یہ کے میرےمہریہ کے طور پر  اسے اس نو تعمیر شدہ  مسجد میں چالیس دن کا اعتکاف کرنا پڑے گا اگر راضی ہے تو جا کر مسجد میں اعتکاف شروع کردے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تمہارے راضی ہوجانے کے بعد میں اپنے شوہر سے طلاق لوں گی۔ اگر شرائط منظور ہیں تو اپنے کام پہ شروع ہوجائے۔"

جوان  عاشق  کو جب گوہر شاد کا یہ پیغام پہنچا تو اس خوشخبری سے اس کی طبیعت میں بہتری آئی  اور کہا چالیس دن تو کچھ بھی نہیں  اگر چالیس سال بھی کہے تو حاضر ہوں، وہ گیا اور  اس امید سے جاکر مسجدمیں بیٹھا کہ اس کی عبادت کے بدلے خدا اسے گوہرشاد جیسی بیوی سے نوازے گا۔

چالیسویں دن گوہر شاد نے جوان کی طرف  اپنا قاصد بھیجا  تاکہ معلوم ہو کہ اگر وہ راضی ہے تو  وہ اپنے شوہر سے طلاق طلب کرے۔ قاصد نے جوان سے کہا  : "کل تمہارے چالیس دن مکمل ہو رہے ہیں  ، ملکہ تمہاری منتظر ہیں کہ اگر تم راضی ہو تو  وہ بھی  اپنی شرط پوری کریں۔"

جوان عاشق  کہ جس نے گوہرشاد کے عشق میں نماز شروع کی تھی ، نماز  کی حلاوت  سے اس کا دل نرم ہو گیا اور  اس نے قاصد سے کہا: "گوہرشاد بیگم سے کہنا اولاً تو میں ان کا شکرگذار ہوں  دوسرا یہ کہ اب مجھے ان سے شادی کا کوئی شوق نہیں رہا۔" قاصد نے کہا : "کیا مطلب ؟   کیا تم گوہرشاد کے عاشق نہیں ہو؟  " جوان نے کہا:"  جس وقت گوہرشاد کے عشق نے مجھےبیمار کیا تھا اس وقت میں اصلی معشوق سے نا آشنا تھا لیکن اب میرا دل صرف خدا کے عشق میں تڑپتا ہے اور اس کے سوا کسی کو معشوق تسلیم نہیں کرتا میں خدا سے مانوس ہوگیا ہوں اور اس سے ہی مجھے سکون ملتا ہے لیکن گوہرشاد خاتون کا مشکور ہوں کہ  انہوں نے مجھے خدا سے آشنا کیا اور  ان کی باعث ہی مجھے حقیقی معشوق ملا۔۔۔"  اور وہ جوان مسجد گوہرشاد کا پہلا پیش امام بنا اور آہستہ آہستہ مطالعہ کرتے  ایک فقیہ اور عالم بن گیا اور وہ جوان کوئی اور نہیں بلکہ  آیت اللہ شیخ محمد صادق همدانی تھے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab