کیا بیبی صغریٰ (س) مدینے میں بیمار تھیں، یا کربلا میں امام حسین (ع) کے ساتھ موجود تھیں؟


جمع آوری: محمد زکی حیدری 

 


جناب عالی جیسا کہ ہم پاکستان میں مروجہ عقائد کہ جو اصل حالات و واقعات سے متفاوت ہیں پر بحث کر رہے تھے اور ہم نے شہزادہ قاسم کی شادی اور مہندی، اس کے بعد امام حسین (ع) کی بیٹیوں کی تعداد اور بیبی صغریٰ کو "صغریٰ" کیوں کہا جاتا ہے وغیرہ کو مستند کتب کے حوالے دے کر ان کی حقیقت بیان کی۔ اس مرحلے میں ایک اور مشہور قصے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں وہ یہ کہ کہا جاتا ہے، بلکہ ببانگ دھل کہا اور مصائب میں پڑھا جاتا ہے کہ بیبی فاطمہ صغریٰ (س) مدینہ میں بیمار تھیں امام انہیں چھوڑ آئے تھے، اور اس کو مزید ڈرامائی شکل دے کر یہ تک کہا جاتا ہے کہ بیبی صغریٰ نے اپنے بابا کو خط بھی لکھا اور وہ خط کا انتظار کیا کرتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔


کیا بیبی فاطمہ صغریٰ مدینہ میں تھیں؟ یا کربلا میں امام (ع) کے ساتھ؟


یہ بیبی کربلا میں موجود تھیں اور وہاں کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ہم نے ان کو اس کا صلہ یہ دیا کہ انہیں کربلا جیسی فتح مبین میں شرکت سے ہی محروم کردیا کسی سے اس کا حق چھیننا اگر طلم ہے تو ہم سب سے بڑے ظالم ہیں کہ حسین (ع) کی اولاد کو اس کے حق سے محروم کیا۔ یہ تو خلفاء کی سنت ہیں میاں آپ کب سے غاصب بن گئے؟ اچھا معلوم نہیں تھا تو خیر ہے لیکن اب جب میں معتبر کتب سے ثابت کر دوں تو آپ کا فرض ہے کہ اس معظمہ بیبی (س) نے کربلا میں جو قربانیاں دیں ان کا اجر تو انہیں نہیں دے سکتے لیکن ان کی قربانیوں کا اقرار تو کریں اور دنیا تک ان کی مظلومی کا پیغام پہنچائیں۔ آپ سے کوئی دو رکعت نماز کا ثواب چھین لے تو آپ کو لگتا ہے اس نے آپ کے ساتھ نا انصافی کی ہے، لیکن آپ بیبی فاطمہ صغریٰ (س) سے کربلا میں شرکت جیسا عظیم ثواب چھین رہے ہیں اوراوپر سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ عجیب ہے یہ محبت ۔۔۔۔ خیر آٌپ کا قصور نہیں آپ کو منبر نشینوں نے یہ بتایا ہے۔۔۔
فاطمہ بنت الحسین (س) یعنی فاطمہ صغریٰ (س) سے مروی رویات دیکھنے کا شوق رکھنے والے علامہ ہادی امینی مرحوم کی کتاب فاطمہ بنت الحسین (ع) کا صفحہ نمبر 80 سے لیکر 112 تک کا مطالعہ کریں، جس میں بیبی (س) سے درجنوں رویات دسیوں کتابوں کے حوالہ جات سے نقل کی گئی ہیں۔ اور شیخ جعفر نقدی کے بقول جو چیز ان معصومہ (س) کے کمال پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بابا اور پھوپھی زینب (س) سے روایت نقل کی ہے۔ اور شیعہ سنی علماء نے آپ (س) سے نقل ہونے والی روایات پر اعتماد کیا ہے ۔ ان کی عظمت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ کتاب "اصحاب سیر و مقال' میں لکھا ہے کہ امام حسین (ع) نے آخری وقت میں آپ (س) کو وصیت نامہ دیا جو انہوں نے امام سجاد (ع) کو انکی صحتیابی کے بعد دیا۔
فاطمہ صغریٰ وصیت دار امام حسین (ع)
امام جعفر صادق (ع) سے فرماتے ہیں:
دعا ابنۃ الکبریٰ فاطمہ نبت الحسین (ع) فدفع الیھا کتاباٍ ملفوفا ووصیۃ طاھرۃ
امام حسین نے میدان جنگ کی طرف روانہ ہونے سے قبل اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کو بلایا اور وصیت نامہ ان کے سپرد کیا۔
یہ وصیت نامہ مندرجہ زیل کتب میں درج ہے:
اصول کافی
بصائر الدرجات
قمام ذخار ، فاطمہ کبریٰ ، ص 450 تا 453
ناسخ التواریخ ج 2 ص: 342
منتخب التواریخ باب خامس ص 173
جلال العیون
فاطمہ بنت الحسین (ع) علامہ ہادی امینی ص 13
فاطمہ بنت الحسین جعفر نقدی ص 9

کربلا سے مدینہ واپس آتے ہوئے بھی اس معظمہ (س) نے زینب (س) اور ام کلثوم (س) کے ساتھ خطبے دیئے ۔

بیبی فاطمہ صغریٰ (س) کا کوفہ میں خطبہ

سید ابن طاؤس نے زید بن موسیٰ کاظم (ع) سے یہ خطبہ اپنے والد محترم امام موسیٰ کاظم (ع) سے ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
روی زید بن موسیٰ قال حدثنی ابن عن ضدی علیہ السلام : کطبت فاطمۃ الصغریٰ بعد ان وردت من کربلا فقالت:۔۔۔۔
خطبہ طولانی ہے لھٰذا ان کتب کے حوالے پیش کر رہے ہیں ان سے رجوع کیا جائے:
ناسخ التواریخ ج 6 ، جز 3، ص: 42
تطلم زہراء ص 295
اسرار الشہادۃ ص : 479
ریاض الشھادۃ ص ج: 2، ص: 285
بحار الانوار ج: 45، ص: 110
معالم المدر ستین ج :3، ص: 183
جلال العیون ج 2، ص 504
الدمعۃ الساکبۃ ج 6، ص 38
مقتل حسین ص 313
لہوف سید ابن طاؤس ص 194
قمام زخار، ج 2، 520
لوائج الاشجان ص 202
منتخب الطریحی ص 122
زینب الکبریٰ ص 56
تنفیح المقال ج 1 ص 471
نفس المہموم
الکامل فی التاریخ
تاریخ طبری
جمرۃ الانساب العرب ص 55
مقاتل الطالبین
وفیات الاعیان ج 3 ص 271
جامع الرواہ ج 1 ص 343
فاطمہ بنت الحسین ص 26
مثیر الاحزان

بھیا امام حسین (ع) اور اس کی عاشورہ کے ذکر میں بہت کچھ ذاکروں کا بنایا ہوا تھا اور جو "علماء کرام " آئے انہوں نے بھی زحمت نہ کی آپ کو حق بتائیں جیسا چلتا ہے چلنے دو ۔۔۔ پہلی و دوسری محرم کو بیبی بیمار، پردیسی وغیرہ کا مصائب پڑھ کر ہمیں خوب رلاتے ہیں اور بیبی (س) کے عورت ہو کر دشمن کو للکارنے اور اس کی دربار کو اپنے خطبے سے لرزانے کی عظیم عبادت کا بتا کر ہمیں رلانے کے ساتھ ساتھ ہماری ماں بہنوں کیلئے ایک عظیم نمونہ عمل پیش نہیں کرتے۔

افسوس!

میرے جوان دوستو! ایک عظیم بیبی، ایک دلیر، با ہمت بیبی، جو میدان جنگ میں دشمن سے برسر پیکار ہے اسے بیمار بنا کر پیش کردینے سے زیادہ اس سے کیا دشمنی کی جاسکتی ہے؟ وہ معظمہ اپنی چادر لٹا کر جن لوگوں کیلئے دشمن کی درباروں میں جاکر خطبے دیتی ہے اسے بیماری کے بستر پر محدود لکھا گیا۔۔۔۔ کیونکہ رونا ہے! پردیسی بیبی کا "سین" نہیں تھا تو ایک "سین" کا اپنے ڈرامے میں اضافہ کردیا گیا تا کہ زیادہ سے زیادہ روئیں لوگ۔۔۔ کربلا صرف رونے کا نام نہیں کربلا مقابلے کا نام ہے۔ یہ کالی کربلا تمہیں دی گئی ہے اصل کربلا سرخ ہے اصل کربلا کونے میں بیٹھ کر رونے والوں کی نہیں سوکھے گلے اورسوکھی کمزور زبانوں سے دشمن کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دینے والے عظیم مجاہدوں کی عملی داستان ہے۔۔۔ ہم نے صرف کربلا سے سیاہی لی ہے! سرخی لیتے تو آج چند بدمعاش ہم پر غالب آکر ہماری ماؤں کی گود نہ اجاڑتے۔۔۔ ہم کل بھی روئے تھے جنازے دیکھ کر اور آج بھی بس روہی رہے ہیں، کیونکہ رونے سے جبت ملتی ہے بس رو ۔۔ گریہ کرو گھر جاؤ۔۔۔۔ عارف الحسین حسینی (رح) سے لیکر سبط جعفر (رح) تک ہر جنازہ اٹھایا روئے، رونے والوں نے جنت کمالی، رونے کی شکل بنانے والوں نے بھی جنت کما لی۔۔۔۔ آپ کو ایسی جنت مبارک ہو جو لٹی ہوئی چادروں اور دشت میں پڑے بے سرو ساماں لاشوں سے صرف رونے کا درس لے کر ملتی ہو۔
مجھے خبرداری، احتیاط کے پیغام ملنا شروع ہوگئے ہیں مگر میں سرخ کربلا کا ماننے والا ہوں مجھے سرخی پسند ہے، میرا کفن حسین (ع) کے پھٹے پیراہن کی طرح سرخ ہو بجائے اس کے کہ صرف میرے مولا (ع) کی آہنی ضریح سے مس ہوا ہوا ہو۔
"جو شہید ہوگئے انہوں نے حسین (ع) کی سنت پر عمل کیا ، جو رہ گئے وہ زینب (س) کی سنت پر عمل کریں۔" ' (جس کا یہ قول ہے اسے نامعلوم سمجھا جائے)