آپ کے آنسو اس ماں کو سلام کریں گے*

بِسْم اللهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحیم
آپ کے آنسو اس ماں کو سلام کریں گے
شہید عباس علی فتاحی دولت آباد اصفهان کا رہنے والا تھا. اسے چھ مختلف زبانوں پر دسترس تھی، گھر کا اکلوتہ کفیل تھا. ایران-عراق جنگ چھڑی تو اپنی بوڑھی ماں سے کہا: اماں! اجازت دو جنگ پہ جاؤں. ماں نے کہا: میرے عباس! تم میرے اس گھر کا واحد سہارا ہو، تم کہاں چلے؟ عباس علی بولا: امام خمینی نے حکم دیا ہے. ماں بولی: اچھا اگر امام نے کہا ہے تو جاؤ..
عباس محاذ پر آگیا. بہت سے لوگ اسے جانتے تھے. بولے اسے ایسی جگہ رکھو جہاں خطرہ نہ ہو. لیکن عباس نے خود کہا: میرا نام تخریب کاری والے گروہ میں لکھو. دوست سمجھے عباس کو شاید معلوم نہیں کہ تخریب کاری کا کام کیسا ہے بولے: عباس یہ کام مشکل اور خطرناک ہے بموں سے پلوں کو تباہ کرنا، چھوٹی غلطی سبھی کو تباہ کر سکتی ہے.
بالاخر عباس علی نے اصرار کیا تو اسے اس گروہ میں شامل کرلیا گیا.
*ایک دن* شهیدخرازی نے کہا: مجھے کچھ بندے چاہیئیں جو دوویرج دریا پر بنے چالیس دروازہ والے پل کو اڑانے کیلئے جائیں. لیکن پل عراقی فوجیوں کے پیچھے ہے یعنی عراقی فوج سے چھپ کر نکلنا ہے.
پانچ افراد آگے آئے سب سے پہلا فرد عباس علی تھا. ان پانچ افراد کو بھیجنے سے پہلے شہید خرازی نے انہیں اپنے پاس بلا کر کہا:
کسی بھی حالت میں عراقی تمہیں گرفتار نہ کرنے پائیں بس پل اڑا کر واپس آجاؤ، اگر پکڑے گئے تو بھی اسیری میں مت جانا کیونکہ آپریشن کا راز کھل جائے گا"
یہ پانچ بندے چل پڑے کچھ دنوں بعد پتہ چلا پورا گروپ لوٹ آیا پل بھی نہیں اڑا اور عباس علی پکڑا گیا. عباس کے ساتھیوں نے ماجرا سنایا کہ ہم لوگ پل کے قریب تھے کہ عراقیوں کو پتہ چل گیا فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور عباس علی پیر میں گولی لگنے کی وجہ سے گر گیا اور پکڑا گیا.
سس پس شروع ہوگئی کہ پلان ناکام ہوگیا عباس علی پکڑا گیا کہیں ایسا نہ ہو وہ شکنجہ برداشت نہ کر پائے اور زبان کھول دے اور...
عباس علی کے کزن نے کہا: حسین! عباس علی عمر کا کچا ہے لیکن بہت دلیر ہے گردن کٹا دیگا زبان نہیں کھولے گا. چلیں آپریشن آگے بڑھائیں.
فتح المبین نامی آپریشن شروع ہوا اور ہم لوگ کامیاب ہوئے. عراقی فوجی پسپہ ہوئے. ہم جب پل دوویرج پہنچے تو پل کے نیچے ایک لاش نظر آئی نہ اس کا ٹیگ تھا نہ کارڈ اور ... نہ ہی سر.
یہ عباس علی کی لاش تھی اس کے کزن نے کہا: دیکھا میں نے کہا تھا نا سر کٹا دے گا زبان نہیں کھولے گا.
جو عراقی فوجی پکڑے گئے انہوں نے بتایا کہ پل پر عباس کو بہت زیادہ شکنجہ دیا گیا مگر اس نے کچھ نہ بتایا تب انہوں نے اس کا زندہ زندہ سر قلم کردیا.
*اس کے جنازے کو اصفھان لایا گیا کہ اس کی ماں کے حوالے کیا جائے. بولے اس کی ماں کو مت بتانا کہ شہید کا سر موجود نہیں.*
*تشیع جنازے کا وقت ہوا تو ماں بولی: رکو!.یہ میرا اکلوتہ لعل تھا جب تک میں اسے دیکھ نہ لوں دفن کرنے نہیں دونگی*
*بولے بڑی اماں رہنے دیں کیا کرنا ہے دیکھ کر.*
*ماں نے کہا: خدا کی قسم نہیں جانے دوں گی.*
*بولے اچھا اماں لیکن صرف سینے تک دیکھنے کی اجازت ہے اس سے زیادہ نہیں.*
*ماں نے کہا: کہیں تم یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ میرے عباس کا سر نہیں؟*
*بولے اماں عراقیوں نے عباس کا سر کاٹ دیا.*
*ماں نے کہا: مجھے میرا عباس دیکھنے دو!*
*کفن کھولا گیا، ماں آگے آئی جوان بیٹے کے جنازے پر جھکی اور عباس کے جسم کا ذرا ذرا چومنا شروع کیا،* *رقت آمیز منظر، حاضرین کی آہ و بکا کی آوازیں فلک مکینوں کے دل دھلانے لگیں یہ ماں ہے کہ اپنے اکلوتے جوان کا سینہ چومتے ہوئے آگے بڑھی،* *جب گردن کو پہنچی تو دیکھا گردن نہیں اس جگہ زخموں کو ڈھانپنے کیلئے روئی بھر رکھی ہے اس ماں نے کانپتے ہوئے بوڑھے ہونٹوں سے اس روئی کو چوما...*
*اور اس کے بعد عباس کی ماں کچھ نہ بولی.*
راوی: مجاہد محمد احمدیان
(از شہر تفحص)
مترجم: الاحقر محمد زکی حیدری
*_arezuyeaab.blogfa.com_*
یہ ایک اردو اسلامی ویب بلاگ ہے، جس کا مقصد نشر معارف اسلامی و معارف اہل بیت علیہم السلام ہے.