بس ختنہ کرتے جاؤ!
ختنہ کرتے جاؤ بس!
تحریر: محمد زکی حیدری
پاکستان میں غیر جاندار چیز کا بھی ختنہ ہوتا ہے! جی حضور! بات یہ ہے کہ ۱۹۷۹ع میں آمریکا نے پاکستانی بوٹ والوں کو حکم دیا کہ افغانستان میں روسی فوج سے لڑو کیونکہ روس آمریکا کا دشمن ہے. سو سارے بوٹ والے ایک بڑی مونچھوں اور بڑے بوٹ والے کی سرپرستی میں راولپنڈی میں جمع ہوئے، اس اعلی سطحی اجلاس کا ایجنڈا تھا کہ آمریکی مفاد کیلئے لڑی جانے والی اس جنگ کو اسلام کا رنگ کیسے دیا جائے. ایک گنجہ انگریز رٹائرڈ فوجی جو اس میٹنگ میں موجود تھا، نے کہا "اسلام میں کوئی ایسا طریقہ ہے کہ کافر کلمہ بھی نہ پڑھے مسلمان بھی بن جائے؟" اب وہ چونکہ ملاؤں کے سنہرے دن تھے، سو میٹنگ میں مُلا تو موجود تھا ہی، لہٰذا وہ پھٹ سے بولا "ختنہ کردو بس" یہ سن کر سب نے اس مُلا کے "دینی علم" کی داد دی اور اس طرح آمریکی مفاد کی خاطر لڑی جانے والی جنگ کا ختنہ کرکے اسے مسلمان جہاد بنا دیا گیا اور آمریکی دودہ و دلیے سے پلنے والے دہشتگردوں کا ختنہ کرکے انہیں مجاہد بنا دیا گیا.
اچھا! آپ سب جانتے ہوں گے کہ سود حرام ہے، اور سب یہ بھی جانتے ہوں گے کہ جس طرح سینماء فلموں کا گھر ہے اسی طرح بینک سود کا! ۱۹۷۲ع میں جب پہلا اسلامی بینک مصر میں بنا تب سے پاکستانی ملاؤں نے ہمارے یہاں کے بینکرز کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ بینکاری کو اسلامی بناؤ، لیکن بینکرز کے سر پر جوں تک نہ رینگی. جب ۱۹۸۵ع میں شریعہ بورڈ نے بنکنگ کے طریقے کو غیراسلامی قرار دیا تو تمام بینکرز نے مل کر کورٹ میں اپیل کی لیکن کچھ نہ ہوا. انہوں نے سوچا اب کیا کریں، کوئی طریقہ ہو کہ کافر بینک کلمہ بھی نہ پڑھے اور مسلمان بھی بن جائے. دھندا بھی چلتا رہے اور مولوی بھی خوش ہوں، اب چونکہ سب جان چکے تھے یہ کام صرف ختنے سے ہی ممکن ہے سو مرتا کیا نہ کرتا، چند کاغذ تک محدود آئینی و قانونی اصطلاحات بنکاری میں تبدیلی کی تیز دھار سے روایتی بینکنگ کا ختنہ کر کے اسے اسلامی بینکاری بنا دیا گیا.اب کاغذات میں پاکستانی اسلامی بینکاری سود سے پاک ہے، اسی لئے سودی نظام کو "چھوڑ" کر بڑے بڑے بینکس نے اسلامک بنکاری میں قدم رکھا ہے. اُدھر بھولی عوام نے اسے داڑھی پر عطر ملنے والے ملاؤں کی بہت بڑی کامیابی سمجھ کر انہیں داد دی، عجیب بات یہ کہ اس کامیابی پر خود بینکرز نے اپنے ہاتھ سے ملاؤں کے منہ میں لڈو ڈالے. "تو مرا حاجی بگو من ترا حاجی بگویم"، بینکاری باعمل مسلمان بن گئی اور مولوی باعمل کسٹمر!
اس شاندار کامیابی کے بعد دین کے ان ہی سچے سپاہی پاکستانی ملاؤں کو ختنے کے فروغ اور جدت کے پیش نظر جب کوئی اور چیز قابل ختنہ نظر نہ آئی تو انہیں عورتوں کے ختنے کا شوق اٹھا کہ حدیث میں ملتا ہے کہ ختنہ عورت کے کمال کی نشانی ہے. مگر اس بار شاید خود ختنے نے یہ کہہ کے معذرت کرلی کہ مجھے اچانک سے اتنی وسعت و ترقی سے نہ نوازا جائے، لہٰذا مولویوں نے ختنے کی بات مان لی اور چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی ـ عورتوں نے اس بات پر ختنہ صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ اس نے مولویوں کے ظالمانہ و سفاکانہ عزائم کو ناکام بنادیا، جوان لڑکیوں نے شرم کے مارے اس موضوع پر منہ کھولنا تو بیشک مناسب نہ سمجھا البتہ دل ہی دل میں تحیہ ضرور کر لیا کہ ختنہ صاحب کا یہ احسان وہ اسے فروغ دے کر ضرور چکائیں گی، لہٰذا انہوں نے فروغِ ختنہ پر بڑے غور و فکر کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ مغربی "کافر فیشن" کا ختنہ کرکے اسے مسلمان بنائیں گی، سو وہ اپنے کام میں جت گئیں، دن رات ایک کرکےانہوں نے کافر فیشن کا اس طرح ختنہ کیا کہ اسے باعمل مسلمان بنا دیا. اس ختنہ شدہ نئے نویلے مسلمان حجاب کو اتنی پذیرائی ملی کہ جو لڑکیاں صرف دوپٹہ گلے میں لٹکایا کرتی تھیں انہوں نے بھی تنگ عبائے اور توجہ جلب کرنے والے رنگ برنگی اسکارفز اور شالیں پہن کر اس ختنہ شدہ حجاب کو گلے سے لگایا اور "اسلامی بہن" بننے کی کوشش کی.
ماشاء اللہ!
جوان لڑکوں نے جب دیکھا کہ لڑکیاں حجاب کا ختنہ کر کے مذھبی ترقی کی منازل طے کرتی ہوئیں ان سے چند قدم آگے نکل گئی ہیں اور سب انہیں باعمل، باعفت، با حجاب اور شریف مسلمان لڑکی سمجھنے لگے ہیں، اور ان کا یہ حال ہے کہ انہیں لوگوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں کہ "کمبخت تمہارا حلیہ تو بلکل بھی مسلمانوں جیسا نہیں لگتا!" سو جوان نے سوچا کچھ ایسا کریں کہ اسمارٹ و کول و فلاں فلاں نظر آنے کے ساتھ ساتھ ذرا مسلمان بھی نظر آئیں، مطلب "بچی" بھی راضی رہے مسلمان معاشرہ بھی، لہذا اس نے مغربی اقوام میں رائج داڑھی کا ختنہ کیا اور اسے مسلمان بنا کر اپنے ملک میں لے آئے اور مسلمان نمائی شروع کردی. کسی نے فرینچ رکھی ہوئی ہے، کسی نے پوری داڑھی پر بلیڈ گھما کر صرف ایک بالوں کی لکیر سی چھوڑ رکھی ہے کہ جو ایک کان سے دوسرے کان تک جا رہی ہے، جیسے بنجر زمیں سے کوئی ڈامر کی بنی سڑک نکل رہی ہے! بھرحال داڑھی کا بھی ختنہ ہوا اور نئی مسلمان شدہ داڑھی نے آکر ہمارے جوان کو مسلمان بنا دیا.
ختنے کی خدمت میں پاکستانی سیاست سے منسلک افراد نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، کچھ دہشتگرد تنظیموں نے ظالم کی موت کا ختنہ کرکے اسے فلسفۂ شہادت سے ہم آھنگ کرنے کی اس طرح کوشش کی کہ کہا شہید وہ ہے جو گولی لگنے سے مرے... یعنی حق کی راہ والی شرط کو ختنہ کرکے کاٹ دیا گیا. اور اس طرح اسلام کے سب سے عظیم منسب یعنی شہادت، پر ظلم کرتے ہوئے سینکڑوں ماؤں کی گود اجاڑنے والے قبیح افراد جو اسی ظلم نگری میں دوسرے ظالم کے ہاتھوں گندی موت مارے گئے، کے قطبوں پر بھی "شہید" لکھا جانے لگا. مثلا: شہید نجم عرف گڈا، شہید نعیم عرف تیلی، شہید سکندر عرف سکو، شہید جنید عرف کانگڑی وغیرہ. اور پوری زندگی فرعون کی مانند اقتدار کی فکر میں گم و اقتدار حاصل کرنے کا کھیل کھیلتے ہوئے کوئی فرعون یا فرعونہ کسی نمرود کے ہاتھوں مارا جائے تو اسے بھی شہید کہا جانے لگا. .مثلا: شہید سردار حیوان خان، شہید چودھری آدم خور، شہید سردار فطین خان، شہید پیر کاذب شاہ لاہوتی جبروتی اتاروردی، شہید محترمہ بدعنوانی صاحبہ مرحومہ و مغفورہ... وغیرہ.
ان تمام ختنوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے مسلمانوں یعنی جہاد، حجاب، داڑھی وغیرہ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ جتنی بھی کوشش کرلیں انہیں کافر ثابت نہیں کرسکتے. کیونکہ عوام میں یہ مسلمان کے طور پر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور اس مقبولیت میں ہمارا مسلمان میڈیا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسے "خدمت اسلام" سمجھ کر پیش پیش رہا، اس نے اس قسم کے ختنوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور اب تک اپنی شرافت و غیرت و اعتماد و ... بیچ کر بڑی استقامت کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے. میڈیا اور ملاؤں کے تعاون سے دین اسلام کی اس عظیم سنت کو جدید جہات میں متعارف کروا کر اور فروغ دے کر تاریخ ختنہ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا گیا، جو آئندہ آنے والے ختنہ کندگان کیلئے مشعل راہ ہے.
www.fb.com/arezuyeaab
arezuyeaab.blogfa.com