آزادی اور انقلاب کی کہانی!

(مرکزی خیال : قدرت اللہ شہاب کی کتاب سرخ فیتہ سے ماخوذ)


تحریر: محمد زکی حیدری

 

1947 ع... یہ لاہور ہے, بھارت سےآنے والے مہاجروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اسٹیشن سے سیدھا انہیں لاہور کے ایک بہت بڑے سے کھلے میدان "مہاجر کیمپ" میں منتقل کیا جا رہا ہے، یہاں ان کی "رہائش" کا انتظام ہے۔ میدان بہت بڑا ہونے کے باوجود کھچا کھچ بھرا ہے دور دور تک مہاجر ہی مہاجر نظر آرہے ہیں جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں ہر کوئی اپنے بال بچوں سمیت ٹولیوں کی شکل میں بیٹھا ہے۔ میدان کے ایک کونے میں بھٹی ہے جس سے اٹھتا ہوا دھواں اور مہاجرین کیلئے "طعام" کا بندوبست کرنے والے کچھ افراد کام میں مشغول نظر آرہے ہیں... ایک کونے میں چھوٹا سا اسٹور نما کمرہ سا بنایا ہوا ہے جہاں سے مہاجرین میں "کپڑے" تقسیم کیئے جائیں گے.
دوپہر ہوئی تو کھانا لینے کیلئے بھٹی پر مہاجروں کا جم غفیر ٹوٹ پڑا اور جب سہ پہر کا وقت قریب آنے لگا تو جم غفیر اب اس اسٹور کی جانب دؤڑ پڑتا ہے جہاں سے کپڑوں کا آسرا تھا، کیونکہ جاڑے کی رات پڑنے والی ہے اور ان کے پاس نہ لحاف ہے نہ کمبل, بس جو دو کپڑے تن پر ہیں سو ہی ہیں۔ "ارے او تجھے سمجھ نہیں آتی کتنی بار کہا ہےقطار میں کھڑی ہو جا جاکر, سنائی نہیں دیتا سالی بہری کہیں کی! " مسلمہ اپنی بچی بغل میں لئے، رش کو توڑتی ہوئی جوں ہی اسٹور بابو کے قریب پہنچی تو اسٹور بابو نے جھڑک دیا۔ مسلمہ اپنی پانچ سالہ بیٹی آزادی کے ساتھ مہاجر خانے میں ہے اس نے آزادی کیلئے بڑی دعائیں مانگیں تھیں اور اسے آزادی اتنی پسند تھی کہ بیٹی کا نام ہی آزادی رکھ دیا اور آج وہ اور اس کی بیٹی آزاد ہو کر اپنے آزاد ملک پاکستان میں ہیں۔ جوں جوں شام قریب آتی جا رہی ہے اسٹور پر لوگوں کا مجمع بڑھتا جا رہا ہے۔ "بس بس! جس کو جو ملا، اب جاؤ اپنی اپنی جگہ پر، حکومت کا اعلان ہے کہ رات 8 بجے کے بعد اسٹور بند ہوجائے گا جس کو کمبل لینا ہے صبح یہاں قطار میں آکر کھڑا ہو جائے، فی الحال جاؤ" مسلمہ اور آزادی کو کئی مہاجروں کی طرح پاکستان میں پہلی رات بغیر کمبل کے گذارنی پڑے گی۔
جاڑے کی رات نے جب لاہور پر اپنی زلفیں بکھیر دیں تو میدان پر گھپ اندھیرا چھا گیا , بتیوں کی مدھم روشنی ابر آلود موسم کے آگے ہار مان چکی تھی, سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے...آزادی اپنی ماں مسلمہ کی گود میں ہے ماں مسلسل اپنے جسم کی گرمی اپنی بیٹی میں منتقل کرنے کوکوشش کر رہی ہے، جاڑے کی سرد ہوا کے جھونکے اور اس پر ابر آلود موسم آسمان ہر لحاظ سے ان بے سرو سامان مہاجروں کی دشمنی پر کمر بستہ اور زمین والا اسٹور بابو اپنے اسٹور میں گرم کمبلوں اور لحافوں کے ڈھیر کے بیچ سو گیا ۔ آزادی کی ماں اور آزاد ملک کے موسم کے درمیان جنگ جاری تھی سردی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، جب ماں نے دیکھا کہ اس کی آزادی ٹھنڈ سے ٹھٹھرا رہی ہے اور اس کا جسم اسے گرمی منتقل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے تو ایک مرتبہ اس نے ارد گرد کے ماحول پر نظر گھمائی, گھپ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اس نے اپنے کپڑے اتارے اور آزادی پر ڈال دیئے کہ آزادی کی حفاظت ہو سکے... اتنے میں آسمان سے ایک بجلی چمکی اور آزادی کی اس محافظہ کا عریاں بدن عرش اور فرش مکینوں کو للکار کر پکار رہا تھا کہ دیکھو ایسے ہوتی ہے آزادی کی حفاطت...
اتنے میں آسمان سے ایک دھماکیدار آواز سنائی دیتی ہے...ٹپ ٹپ بارش کی بودیں برسنے لگتی ہیں, مہاجر خانے میں موجود مہاجروں کی سرگوشیاں شروع ہوئیں لیکن اتنے میں بارش کے بوندوں کی آواز ان کی سس پس کی آوازوں پر غالب آگئی... آزادی کی ماں کے برہنہ جسم پر گولیوں کے چھرے کی مانند برستی یہ بارش کی ٹھنڈی بوندیں... رات ڈھلتی گئی اور لاہور کے اس مہاجر کیمپ پر موت کی سی خاموشی چھا گئی...
صبح ہوئی انتظامیہ کے لوگ آئے، آزادی کی ماں اور اس کی گود میں آزادی کسی سنگ مرمر کے تراشے ہوئے مجمسے کی مانند اس طرح خوبصورت انداز میں پڑے تھے کہ دنیا کا کوئی بھی مجسمہ ساز دیکھ کر رشک کرتا ... اسٹور بابو پر یہ منظر نا گوار گذرا اس نے اپنے بغل میں رکھے ہوئے کمبلوں کے ڈھیر میں سے ایک کمبل لیا اور اس مجسمے پر ڈال دیا۔
حکومت نے اعلان کیا کہ جو جو اس حادثے میں جان بحق ہوئے انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔


2015 ع یہ کراچی ہے! پاکستان کی آزادی کو 68 سال کا عرصہ گذر چکا ہے، رمضان المبارک مبارک کا مہینہ ہے، موسم گرما عروج پر ہے، پروین بھی ان کے خاندان میں سے ہے جو ہجرت کر کے پاکستان آئے پروین آج صاحبہء اولاد ہے اس کے بیٹے کا نام انقلاب ہے۔ انقلاب کی عمر ابھی بہت چھوٹی ہے مگر بضد ہے کہ روزہ رکھے گا ,ماں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، انقلاب جب اپنی ضد پر آجاتا تو کسی کی نہیں سنتا تھا، ظہر کا وقت ہو چکا ہے، لوہے کے کسی پرانے شٹر سے بنی ہوئی چھت والا پروین کا یہ گھر گرمی کی تپش سے جھنم بنتا جا رہا ہے اس پر غضب یہ کہ بجلی آنے کے دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہیں، ایک پنکھا ہی تھا جو اس تپتے ہوئے کمرے کے ماحول کو بیٹھنے لائق بناتا تھا مگر بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ نے گرمی کی شدت کو موتمار حد تک بڑھا دیا تھا۔ انقلاب کی ماں بھی بے حال و نڈھال تھی۔ انقلاب کے ہونٹ خشک ہوتے چلے گئے، ماں نے لاکھ جتن کیئے کہ وہ روزہ توڑ دے مگربچے کو مولانا صاحب کی بات یاد تھی کہ تم پر اب روزے فرض ہیں، انقلاب ٹوٹی چارپائی پر مسلسل کروٹیں بدل رہا ہے، وہ اس طرح تڑپ رہا تھا جیسے مچھلی پانی کے بغیر! اچانک اس نے آنکھ بند کر دی جیسے سو گیا ہو ,ماں نے سوچا بے ہوش ہو گیا ہے زبردستی منہ کھول کر پانی کے چند قطرے اس کے منہ میں ڈالے، مگر لاحاصل! پروین کے چیخنے چلانے کی آواز سن کر پڑوس کی عورتیں مرد اکٹھے ہوئے، بھاگ دوڑ شروع ہوئی، موٹر سائیکل پر بٹھا کر تپتی دھوپ میں ہسپتال لے گئے مگرانقلاب نہ آیا اس کی لاش آئی...
اس دن کراچی میں لوڈشیڈنگ اور "ہیٹ اسٹروک" (گرمی) کے باعث کئی اموات ہوئیں۔ حکومت نے اعلان کیا کہ جان بحق ہونے والوں کو معاوضہ دیا جائے گا۔
1947 ع میں "آزادی" تھی اور 2015ع میں "انقلاب" ہے، دونوں کا اختتام کس طرح ہوا اسی اختتام کے اندر ہماری ترقی کی حقیقت پنہاں ہیں مگر کوئی دیکھنے والا ہو تو...