شہید عارف کی قبر پر!

تحریر:محمد زکی حیدری

اے میرے "شہید"! اے میرے "عارف"! اے میرے "حسینی"!  میں اس ناتواں زبان سے کیا آپکی تعریف کروں میرے استعجاب کیلئے آپ کے نام میں موجود الفاظ ہی کافی ہیں! میرا سلام ہے اس بردبار باپ پر جس نے آپ کا یہ نام رکھا اور اس باعفت سیدہ ماں پر جس نے آپ کی تربیت ایسی کی کہ آپ نے اپنے نام میں موجود ہر لفظ کی عملی تفسیر کر کے دکھائی. آپ نے اس قوم کے ظاہری اور باطنی حالات و مسائل کی  کامل معرفت حاصل کرکے اور اس کا حل تجویز کرکے ثابت کیا کہ آپ ایک "عارف" رہنما تھے، اس کے بعد حسین (ع) کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے باطل سے برسر پیکار ہوکر ثابت کیا کہ آپ "حسینی" سید ہیں اور اس کے بعد اپنی سوئی ہوئی قوم کو اپنے پاک خون کے چھینٹوں سے بیدار کرنے کی کوشش میں "شہید" ہوئے، آپ کے نام سے جڑے ہر لفظ کی عملی تفسیر کے نشانات بدین (سندہ) سے لے کر گلگت تک نظر آتے ہیں.

اے میرے شہید! میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں لیکن مجھ سے بھی زیادہ آج پاکستانی کی شیعہ سنی عوام آپ کو یاد کرتی ہے میرے شھید قائد! مجھے علم نہیں آپ کا دور کیسا تھا، آپ کے دور کے حالات کیسے تھے، میں نے اس وقت ابھی آنکھ نہیں کھولی تھی، مگر بابا اور چاچا آپ کے ساتھ ہوتے تھےان سے سنا تو معلوم ہوا آپ قوم کو بلاتے تھے تو لوگوں کا ٹھانٹھیں مارتا ہوا سمندر آپ کی جانب آنے لگتا تھا، مینار پاکستان پر چار لاکھ افراد جمع ہونے کا سن کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کاش میں بھی اس دور میں ہوتا!

 
میرے شہید! میں آپ کی قبر پر آکرآپ سے بہت باتیں کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے جانے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کیا ہوا اور دور دور تک کوئی ہمارا پرسان حال نہیں، اگر ہیں بھی تو کلمة الحق یراد به الباطل (بات سچی مگر نیت بری) کی مصداق۔۔۔ میرے شہید آپ تو اتحاد بین المسلمین کے سچے داعی تھے مگر آپ کے جانے کے بعد آپ کی مسند پر ایک سید کو بٹھایا گیا اور ان کی قائدانه  غیر فعالیت اور کچھ مشکوک فعالیتوں کی وجه سے جلد ہی ان پر گھنونے الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اور وہ قوم کے مسائل کا حل سوچنے کی بجائے الزام لگانے والے مخالف گروپ کو صفائیاں، ثبوت دینے لگ گئے ہم چپ رہے، ہم دیکھتے رہے۔

میرے شہید! کل آپ کے ساتھیوں کے منعقد کیئے ہوئے ہر جلسے سے  اتحاد بین المسلمین کی خوشبو آتی تھی مگر آپ کے جانے کے بعد ان کے ہر جلسے سے انتشار بین المومنین کی بدبوء آنے لگی۔ آپ کے ہوتے ہوئے جو بھی لٹریچر چھپتا اس سے اہل سنت برادران  کو قریب لانے اور ان میں موجود تفرقہ بازوں کی سرزنش و مذمت کی پاکائی نظر آتی تھی لیکن آپ کے جانے کے بعد ہم نے ایسا لٹریچر دیکھا جس میں ایک شیعہ کی دوسرے شیعہ پر الزاموں کی غلاظت نظر آئی. ہم دیکھتے رہے!

میرے شہید!  پھر یہ ہوا کہ دشمن کی جانب سے بوئے اس تفرقے کا بیج غنچے میں تبدیل ہوا اور شیعہ دشمن عناصر جنہوں نے ہر بار آپ کی با بصیرت قیادت سے منہ کی کھائی تھی نے اس غلیظ غنچے کی خوب آبیاری کی اور آپ کے جانشین اس چال کو سمجھ نہ سکے آخر بات یہاں تک آگئی کے تنظیمیں الگ ہونے لگی، وہ دشمن جو آپ کے ہوتے ہوئے شیعہ سنی کو لڑانا بھی ناممکن سجھتا تھا نے بڑی آسانی سے شیعہ کو شیعہ سے دست و گریباں کر دیا اور خوش ہوا۔ میرے شہید ہم دیکھتے رہے!

 میرے قائد! پھر یہ ہوا کہ دشمن نے ہم کو منتشر پایا تو ہماری طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنا شروع کی اور ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اتنے مگن تھے کہ ہمیں  خیال نہ رہا کہ دشمن ہماری عبادتگاہوں تک آ پہنچا آپ کے فرزندوں نے اپنے خون کے نذرانے دینا شروع کیئے مگر بجائے اس کے کہ ہمارے قائدین دشمن کی اس گھنؤنی حرکت کو اتحاد کے ذریعے  جواب دیتے ہم نے اتحاد پر دھیان نہیں دیا!

میرے قائد! جسیے جیسے یہ غنچہ طاقت پکڑتا گیا ایسے ایسے ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے  چلے گئے نوبت یہاں تک آئی که غنچه درخت بنا اور اس کے نجس پھل  کے طفیل ہماری عبادتگاہوں کو بموں سے اڑایا جانے لگا، ہمارے لوگوں کو چن چن کر مارا جانے لگا، ہماری عوام کو بسوں سے اتار اتار کر مارا جانے لگا۔ میرے قائد آپ کے عوام کی مائیں ہر روز اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں پر بین کرتیں، اس طرح چلا چلا کر پکارتی هیں کہ اگر دو پتھر کی مورتیاں بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتیں تو وہ بھی ان ماؤں کی آہ و بکا کے طفیل مجبور ہوکر ایک دوسرے کو گلے لگا کر رونے لگتیں مگر پتھر دل انسان شاید اس پتھر سے بھی زیادہ سخت تھا کہ اس پر ان حوادث کا کچھ اثر نہ ہوا اور اس نے اسی طرح دو دھڑے رہنے دیئے! آپ کے جانشین اتحاد بین المومنین کی بجائے اتحاد بین المسلمین کے دعوے کرتے رهے اور ان کے مخالفین تنقید!

میرے شہید! پھر یہ ہوا کہ کچھ نوجوان آپ کی مسند پر بیٹھے ہوئے قائد سے خفا ہوئے اور الگ ہو گئے اور باضابطہ طور پر الگ پلیٹ فارم بنا لیا اور بڑے بڑے جلسے کرنے لگے اس سے یہ ہوا کہ آپ کے جانشین نے بھی جوابی جلسے کرنا شروع کردیئے ہم دیکھتے رہے! میرے قائد آپ کے جلسوں میں عوام دل اور روح ساتھ لیکر آتی تھی مگر ان جلسوں میں  ہم جاتے ضرور ہیں مگر صرف جسم لے کر! آخر دو مخالف بھائیوں میں سے کسی ایک کی دعوت پر جاکر اتحاد کی باتیں سننا باضمیرانسان پر گراں گذرتا ہے! الگ الگ بیٹھ کر اتحاد کی باتیں! کیا کیجیئے دل نہیں مانتا کیوںکہ اس طرف بھی ہمارے بھائی اور اس طرف بھی ہمارے بھائی!  اچھا پھر یہ لوگ الگ الگ الیکشن لڑے، چار ووٹ دینے والوں کو دو امیدوار سامنے تھے جو کہ دونوں شیعہ ! ہم بھوکھلا گئے جائیں تو کہاں جائیں ہم نے ووٹ ہی نہ ڈالا!

میرے قائد ! ان لوگوں کو اتحاد کی طاقت کا علم بھی ہے اور ایک بار عملی طور پر انہوں نے اس کا مظاہرا بھی کیا اور بلوچستان حکومت کو چنے چبوا دیئے مگر اس کامیابی سے بھی انہوں نے سبق نہ سیکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی عوام عمامے والوں سے یه کهه کر متنفر هوگئی که "یار یه تو بس ایک دوسرے سے هی لڑتے رهتے هیں" عمامے کے ساتھ اپنوں نے ظلم کیا میرے قائد جس عمامے کو خمینی (رح) نے پوری دنیا اور آپ نے پورے پاکستان کے ظالموں کیلئے موت کی نشانی کے طور پر مشھور کیا. اس عمامے سے آپ کی قوم اب نا امید ہونے لگی ہے۔

میرے قائد! میرے شہید! میرے عارف! میرے حسینی! بیانِ حالِ دل طویل ہے کیا کیا بتا کر کیا بتاؤں۔۔۔ بس اب اتنا عرض ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ میرے مولا حسین  (ع) سے آپ کی ملاقات ضرور ہوتی ہوگی اب کے ان سے ملیئے تو کہیئے گا  اس طالبعلم کو سچ بولنے کی ایسی سزا ملے کہ اس کے جسم کا ایک ذرا مشرق تو دوسرا مغرب سے ملے کیونکہ اگر میں عام موت مارا گیا تو آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا میرے شہید قائد!

 

www.facebook.com/arezuyeaab